حمد و ثناء ربِ لَم یَزل کے واسطے، جس نے کائناتِ عالم کو بنایا۔ درود و سلام سیّد کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور جنھوں نے کائنات و عالم کو سنوارا۔ اما بعد!
حمد و نعت: اسلامی ادب کی ایمان افروز صِنف
حمد و نعت اسلامی ادب کی روح پرور، ایمان افروز اور وجد آفرین صنف ہے، یہ صنف عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی جاری ہو گئی تھی، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمد و نعت پر مشتمل اشعار کو پسند فرماتے اور بعض شعراء کے توحید پر مشتمل مضمون کے اشعار آپؐ تکلم بھی فرماتے۔ مثلاً: صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سچا ترین کلمہ (شعر) وہ ہے جسے لبید نامی شاعر نے یوں کہا ہے:
الا کل شیءٍ ما خلا اللہ باطل (صحیح بخاری: ۳۸۴۱)
’’اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز فانی ہے۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے رجزیہ اشعار (جو حمد مشتمل تھے) کو نہ صرف پسند فرمایا بلکہ جواب بھی مرحمت فرمایا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ غزوہ احزاب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مٹی اٹھا اٹھا کر منتقل کر رہے تھے اور عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے یہ اشعار بھی پڑھ رہے تھے:
واللہ لولا اللہ ما اھتدینا
ولا تصدقنا ولا صلینا
فانزلن سکینۃ علینا
وثبت الاقدام ان لا قینا
ان الاولی قد بغوا علینا
اذا ارادوا فتنۃ ابینا
’’اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ نہ ہوتے تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے، ہم نماز پڑھتے نہ صدقہ کرتے، ہم پر سکینہ نازل فرما دیجیے، اگر ہماری دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو ثابت قدم رکھیے، ان لوگوں نے ہم پر ظلم کیا، انہوں نے جب بھی فتنہ چاہا ہم نے انکار کیا، ہم نے انکار کیا، ہم نے انکار کیا۔‘‘ (صحیح بخاری: ۴۱۰۴)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے اس شعر کو بھی سنا:
نحن الذین بایعوا محمدا
علی الجہاد ما حیینا ابدا
’’ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی بیعت کی ہے، جب تک جئیں گے ہمیشہ جہاد کریں گے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہ شعر ارشاد فرمایا:
اللہم لا عیش الا عیش الآخرہ
فاغفر للانصار والمہاجرہ
’’اے اللہ! زندگی تو آخرت کی ہی زندگی ہے، اے اللہ! انصار اور مہاجرین صحابہ کرامؓ کی مغفرت فرما۔‘‘
دیگر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نہ صرف جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی فرماتے تھے، بلکہ کفار کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر کی جانے والی ہَجو کا بہترین پیرایہ میں جواب ارشاد فرماتے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اشعار پڑھتے۔ آپ علیہ السلام نے ان کے کلام پر خوش ہو کر ان کے لیے ان الفاظ سے دعا فرمائی:
اللہم ایدہ بروح القدس۔
’’یا اللہ! حسان کی جبرائیل امین کے ساتھ تائید فرما۔‘‘
حمد و نعت گوئی نیز شجاعت پر مشتمل اشعار گوئی تو صحابہ کرامؓ میں مروّج تھی۔ علاوہ ازیں شعر و سخن کی کچھ مزید اصناف قرونِ اولیٰ سے اگرچہ ثابت ہیں، لیکن حمد و نعت کی صنف کو ہمیشہ امتیاز حاصل رہا۔ بیشتر محدثین، مفسرین، فقہاء عظام اور صوفیاء کرام کے شعری مجموعے بالخصوص حمد و نعت اور معرفت باری تعالیٰ پر مشتمل دیوان بکثرت موجود ہیں۔
بلاشبہ حمد و نعت کے ذریعے شاعر اور حمد و نعت گو جہاں حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت و فریفتگی کا اظہار کرتا ہے، وہاں سامعین و قارئین تک معرفت و عشق کا پیغام پہنچا کر ان کے دلوں پر دستک بھی دیتا ہے۔ حمد و نعت قوتِ فکری کو مضبوط تر کر کے قوتِ عملی میں بھی جوش پیدا کرتے ہیں۔ اعلیٰ کلام اور خوبصورت آواز کے ذریعے سنے جانے والے کلام کی تاثیر کی بدولت عملی طور پر بھی زندگی میں انقلاب بپا ہوتا ہے، لوگوں کی زندگی میں نمایاں تبدیلی اور اصلاح کا پہلو اجاگر ہوتا ہے۔
حمد و نعت اور منقبت میں حدِ اعتدال
جملہ دینی امور کی طرح حمد و نعت اور منقبت میں بھی حدِ اعتدال اور افراط و تفریط سے اجتناب ضروری ہے۔ افراط و تفریط کے پیدا ہو جانے سے نہ صرف مقصد فوت ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات میں یہ مستحسن اور مستحب عمل معصیت اور گناہ میں تبدیل ہو جاتا ہے، جس سے آخرت سنورنے کے بجائے خراب و برباد ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسا نعت گو اور شاعر دوسروں کے گناہوں میں ابتلا کا ذریعہ بن کر سب کے گناہوں کا بوجھ اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ اس گناہ میں جلسہ اور محفل کے منتظمین و معاونین بھی غیر محسوس طور پر مبتلا ہو کر خسارے کا سودا کرتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں رفتہ رفتہ یہ مبارک صنف منکرات اور معاصی کی سرحدوں کو چھو رہی ہے اور یہ منکرات روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان منکرات پر نکیر بھی نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے مقدس مقامات و مواقع اور مقدس و مقبول اوقات میں بھی منکرات کا ارتکاب ہو رہا ہے، جو نہایت خطرناک ہے۔
اہلِ علم کا فریضہ ہے کہ وہ ان منکرات کی نشاندہی فرمائیں، اور دینی طبقہ اور شعراء کرام ان منکرات سے اپنے آپ کو محفوظ کریں، تاکہ یہ مبارک سلسلہ مؤثر اور مفید بھی ہو اور اُخروی نجات کا ذریعہ اور سبب بھی۔ عاجز نے حمد و نعت کی بعض محافل میں چند منکرات محسوس کی ہیں جن کا ذکر برائے اصلاح ضروری سمجھتا ہے، اس کا مقصد خدانخواستہ کسی کی تنقیص ہرگز نہیں بلکہ صرف اور صرف اس مقدس صنف کے آداب کی طرف متوجہ کرنا اور نہی عن المنکر ہے۔ ذیل میں ایسی چند منکرات کا ذکر کیا جا رہا ہے:
دینی اجتماعات اور جلسہ جات کی اصل غرض
میرے شیخ حکیم العصر حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ ارشاد فرماتے تھے کہ سلف میں دینی اجتماعات اور دینی جلسہ جات کی غرض تعلیمِ بالغاں ہوا کرتی تھی۔ یعنی جو لوگ مساجد و مدارس میں باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، ان کے عقائد کی تعلیم و اصلاح، نیز اعمالِ صالحہ کی ترغیب و تعلیم کے لیے جلسے کیے جاتے تھے۔ بیان کرنے والوں اور سامعین دونوں کے ذہن میں یہی مقصد ہوتا تھا۔ بسا اوقات تین روز یا دو دو روز کے جلسے ہوتے۔ لوگ بغرضِ تعلیم ان جلسوں میں باوضو اور باادب شریک ہوتے، وہ اہلِ علم و تقویٰ کے بیانات سن کر دین سمجھتے تھے۔ اس لیے اجتماعات میں مقصود بیان ہوا کرتے تھے، جبکہ نعت خوانی یا حمد و منقبت؛ تشویق، ترغیب اور نشاط کے لیے ضمناً ہوتی تھیں، مقصدِ اصلی اوّل الذکر ہوتا۔ اس طرح ایک یا دو اچھے قاری صاحبان کی تلاوت بھی کرائی جاتی تھی، جس سے مقصد برکت اور تعلیمِ قرآن کا شوق پیدا کرنا ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اکابر کے زمانہ میں الگ سے محافلِ حسنِ قرأت کا اہتمام ہوتا، نہ محافل حمد و نعت کا۔ یہ چیزیں ضمناً ہوتی تھیں۔
دورِ حاضر میں معاملہ برعکس ہو گیا، اب کثرت سے محافلِ حسنِ قرأت و حمد و نعت کرائی جا رہی ہیں، جن میں بیانات یا تو ہوتے ہی نہیں یا ضمناً، جنہیں سامعین و منتظمین بوجھ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں یہ مجالس بے غرض اور بے مقصد ہو کر رہ گئی ہیں۔ ان محافل سے نہ تو اصلاحِ عقیدہ ہوتی ہے، نہ ہی تعلیمِ عقیدہ، اور نہ ہی تعلیمِ اعمال اور نہ ترغیبِ اعمال اور نہ ہی اصلاحِ اعمال۔ کوئی شخص پوری رات نعتیں سنتا رہے تو عمومی مشاہدہ ہے کہ اعمال کی طرف کوئی توجہ پیدا نہیں ہوتی، نماز تک کی جانب توجہ نہیں رہتی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان محافل کو با مقصد بنایا جائے، تقاریر اور نعت خوانی وغیرہ میں تعلیمِ دین کا عنصر غالب رہے، نعت خوانی ضرور ہو لیکن ساتھ تعلیمِ اصلاح کا پہلو بھی غالب رہے۔
بامعنی شعرگوئی کی ترویج
نعت خوانی ہو یا اشعار کی دیگر اصناف، اس کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ بامعنی ہوں۔ حمد میں کمالاتِ باری تعالیٰ، صفاتِ خداوندی، توحیدِ الٰہی جیسے مضامین؛ اور نعت خوانی میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، سنتِ نبویؐ کی اہمیت، شمائلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نمایاں کیا جائے۔ مستند اور معتمد مضامین ان اشعار کا حصہ ہوں۔ اس سے سامعین کو پیغام ملتا ہے اور ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے، دین کی جانب رغبت پیدا ہوتی ہے۔
عصرِ حاضر میں اکثر کلام بے مقصد اور بے معنی محض لفاظیت پر مشتمل ہوتے ہیں، نیز مخصوص لہجوں پر چند الفاظ پڑھنے سے زیادہ نہیں ہوتے، جو فقط وقت گزاری اور مجمع سے رقم بٹورنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بامعنی شعر گوئی کی ترویج کی جائے، تاکہ نعت خوانی سے حقیقی عشقِ نبویؐ کا احیا ہو اور عملی زندگی میں اتباعِ سنت اور اتباعِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا پہلو شاہد ہو۔
خلافِ شریعت اصطلاحات اور غلُو سے اجتناب
بعض کلام غیر شرعی مضامین، فاسد اور خلافِ شریعت اصطلاحات سے مرکب سننے کو بھی ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اس قدر غلو کہ خدائی صفات اور توحید کی اصطلاحات کا آپ پر کھلے بندوں اطلاق کیا جاتا ہے۔ نیز جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں دوسرے انبیاء علیہم السلام یا صحابہ کرامؓ و اہلِ بیت اطہارؓ کی منقبت کرتے کرتے دیگر شخصیات کی تنقیص یا منقبت میں غلو؛ نیز ایسے مضامین ذکر کیے جاتے ہیں جو جملہ مسالک کے محققین کے نزدیک غلط ہیں۔ ان پر ہزاروں کا مجمع عش عش کر اٹھتا ہے، اور یہ غلط مضامین لوگوں کو دین سے دور کروا کر انہیں گمراہی پر پکا کرتے ہیں۔
یہ امر بھی نہایت خطرناک ہے۔ نعت خواں حضرات کو چاہیے کہ وہ کسی مستند عالم، بزرگ یا معتمد شاعر کے کلام کا انتخاب کریں، اور کسی ماہرِ شریعت سے اس کی توثیق کروا کر پھر مجالس میں گوش گزار کریں۔ قوالیوں کا اکثر حصہ مذکورہ بالا مفاسد پر مشتمل ہوتا ہے، اور نعت خواں حضرات قوالوں کا کلام پڑھ کر عوامی داد سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گویّوں اور گانوں کی طرز کے مفاسد
بہت سے نعت خواں حضرات ما شاء اللہ اپنی فکر اور ذاتی نظریے کو اشعار کی صورت میں پیش کرتے ہیں، جو یقیناً قابلِ تحسین ہے۔ ایسے نعت خوانوں کی بھی کمی نہیں جو باقاعدہ گانے سنتے ہیں اور ان عشقیہ گانوں میں چند کلمات بدل کر انہیں گانوں کی طرز و انداز میں دینی کلام یا گانے سے ملتا جلتا کلام، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی یا صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی منقبت پڑھتے ہیں، جو یقیناً قابلِ مذمت ہے۔ یہ طرز عمل بہت سے مفاسد پر مشتمل ہے۔ ایک تو ایسے شعراء حقیقت میں منقبت، نظم و شعر گوئی سے نابلد ہوتے ہیں اور گانے کا سہارا لے کر کلام تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں، جو بذاتِ خود کبیرہ گناہ اور حرام ہے۔ حدیث میں گانے سننے پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ گانے کے یہ رسیا نعت خواں دینی محافل کی زینت بن کر ماحول میں فساد بپا کرنے کا ذریعہ ہیں، ان کا کلام بھی بے ادبیوں اور خرافات پر مشتمل ہوتا ہے، لوگ اس کلام کو سن کر بجائے روحانیت محسوس کرنے کے؛ جس گانے کے طرز پر کلام پڑھا جاتا ہے، اس گانے کو یاد کر کے نقل کی بجائے اصل کو ترجیح دیتے ہیں، اسی گانے کا تذکرہ کرتے ہیں اور گانے گنگنانے لگ پڑتے ہیں۔ بجائے اصلاح کے یہ عمل عوام کے فساد کا ذریعہ بن جاتا ہے، پڑھنے والے کا گویوں کی طرح کا انداز محفل کو مزید بدبودار بناتا ہے، اور عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر قائم ہو جاتا ہے کہ نعت خواں حضرات گانے سنتے اور فلمیں دیکھتے ہیں، اسی لیے تو یہ گانے ہی کی طرز پر نظم بنا کر لائے ہیں۔ نیز یہ تاثر خود دین دار طبقے کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے یہ عمل نہایت قبیح اور واجب الترک ہے۔
شرعی وضع قطع اور دینی معاشرت کے حاملین
نعت خواں حضرات بھی ایک لحاظ سے دین کے داعی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ان کی وضع قطع، نشست و برخواست، گفتگو اور معاشرت میں داعیوں کی صفات چھلکتی ہوں۔ اس کے علی الرغم بیشتر نعت خوانوں کی معاشرت اور وضع قطع شریعت کے بالکل خلاف محسوس ہوتی ہے، اہلِ فکر اس اجمال کی تفصیل خوب جانتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ دینی اسٹیج پر باعمل لوگوں کو ہی بلایا جائے، تاکہ قولی دعوت کے ساتھ فعلی دعوت بھی عوام تک پہنچ سکے۔ خلافِ شرع لباس، مقطوع اللحیہ، غیر مسنون بالوں کے حامل اور غیرمہذب انداز میں اسٹیج پر جولانی دکھانے والے حق نہیں رکھتے کہ منبر و محرابِ رسولؐ کو داغدار کریں۔
ضروریات کا خیال اور پیشہ واریت سے پرہیز
عوام الناس، نعت خواں اور خطباء سبھی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ دینی طبقہ کی مالی خدمت کی جائے۔ ان کی ضروریات، آمد و رفت کے اخراجات کی تکمیل ان کا حق ہے، لیکن کسی بھی دینی طبقہ کو رقم بٹورنے، تبلیغِ دین کے جلسوں میں شرکت کے لیے پیشگی بھاری رقوم طے کرنے، یا دورانِ نعت اداکارانہ طرز پر پیسے ڈالنے یا نوٹ نچھاور کرنے یا کروانے کا شرعی طور پر کوئی حق نہیں۔ ان خرافات کی سلف میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ نعت خواں حضرات کی اسٹیج پر ضرور خدمت کی جائے لیکن نوٹ نچھاور کرنے کا طریقہ نہایت غیر مہذب اور دینی وقار کے خلاف ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔ دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانا نہایت خطرناک عمل ہے، جس کی احادیث میں سخت وعیدیں بیان کی گئیں ہیں۔
(پاکستان نعت کونسل کے تعارفی کتابچہ سے ماخوذ)