سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے نفقہ کے متعلق ایک تازہ فیصلہ جاری کیا ہے جسے جسٹس سید منصور علی شاہ نے لکھا ہے اور بنچ کے دوسرے جج جسٹس عقیل احمد عباسی نے ان کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ فیصلے میں اسلامی قانون کی وہ تعبیر پیش کی گئی ہے جو مغربی نظریات بالخصوص فیمینزم کے زیرِ اثر لوگوں، جیسے امینہ ودود، کی آرا پر مبنی ہے اور صاحبِ ہدایہ اور دیگر فقہائے کرام کے کام کو "پدر سری" کا اثر قرار دے کر ہلکا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس فیصلے پر تفصیلی تنقید کروں گا، ان شاء اللہ، لیکن سرِ دست ایک نکتے سے اندازہ لگائیے کہ اسلامی قانون کے متعلق بنیادی معلومات نہ رکھنے کے باوجود فاضل جج صاحبان کتنے بڑے دعوے کرتے ہیں!
اس مقدمے میں جس عورت کے لیے نفقے کا سوال تھا، اس کی نکاح کے بعد کبھی رخصتی ہوئی ہی نہیں تھی اور اسے اس کے شوہر نے رخصتی سے قبل ہی طلاق دے دی تھی، لیکن اس کے باوجود فاضل جج صاحبان نے اس کے لیے "عدت کی مدت کے لیے بھی" نفقہ اس کے سابق شوہر پر عائد کر دیا، یہ سوچے بغیر، بلکہ شاید یہ جانے بغیر، کہ جب رخصتی ہوئی ہی نہیں، دخول ہوا ہی نہیں، تو عدت کہاں سے آگئی، اور جب عدت ہی نہیں ہے تو عدت کے دوران کا نفقہ کہاں سے آگیا؟
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
(قرآن کریم نے سورۃ الاحزاب کی آیت 49 میں تصریح کی ہے کہ دخول سے پہلے طلاق ہو، تو عدت نہیں ہے۔)
شاہ صاحب چیف جسٹس نہ بن سکے، مجھے اس کا افسوس ہے، لیکن پچھلے کچھ عرصے میں انھوں نے اسلامی قانون کے متعلق جس طرح کے فیصلے دینے شروع کیے ہیں، ان کے بعد میرے افسوس میں کافی کمی آئی ہے، بلکہ میں ان کے چیف جسٹس نہ بننے کو ملک کے لیے، خصوصاً اسلامی قانون کی رہی سہی نشانیاں باقی رکھنے کے لیے، نیک شگون سمجھے پر مجبور ہوگیا ہوں۔
اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست بھی فوراً ہی عائد کرنی چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام کیا اس فیصلے کے مضمرات پر غور کر کے، خصوصاً نکاح و طلاق جیسے امور میں، اسلامی قانون کے تحفظ کے لیے سنجیدہ کوشش کریں گے؟
فیصلے کا متن سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ دیکھیے: