مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل

انسانی شعور تشدد کا روادار نہیں۔ ذاتی دفاع کے لیے لڑنے کو تو کبھی معیوب نہیں گردانا گیا، مگر تشدد برائے تشدد انسانی ضمیر گوارا نہیں کرتا۔ رہا تشدد برائے تفریح تو اس کی قباحت میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ تشدد کرنا اور کرانا اور اس کا تماشا دیکھنا دونوں ہی انسانیت کی توہین، وحشت و بربریت ہیں۔ انسانی ضمیر ہمیشہ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلیڈی ایٹرز کے خونریز تماشے تاریخ کے اوراق میں دفن ہو گئے اور جنگوں کو لگام ڈالی گئی۔ مگر اس اس تہذیبی ارتقا کے باوجود دورِ وحشت کی کچھ یادگاریں آج بھی پرتشدد کھیلوں کی صورت میں زندہ ہیں۔ آج کا مہذب انسان بھی انھیں معمول کی چیز سمجھ کر نہ صرف قبول کرتا، ان سے لطف اندوز ہوتا، بلکہ ان کی وکالت بھی کرتا ہے۔

طاقت اور چستی کے بعض کھیل ایسے ہیں جن میں چوٹ کا امکان تو ہوتا ہے مگر چوٹ لگانا مقصود نہیں ہوتا، مقصد محض جسمانی برتری یا مہارت دکھانا ہوتا ہے، جیسے فٹ بال، جوڈو کراٹے اور کبڈی وغیرہ۔ لیکن بعض کھیل ایسے ہیں جن کا اصل ہدف ہی حریف کو زخمی کرنا اور تشدد کے ذریعے سے فتح حاصل کرنا ہے، جیسے باکسنگ اور ایم ایم اے۔ یہاں چوٹ لگانے پر پوائنٹس ملتے ہیں اور ناک آؤٹ کرکے یقینی فتح حاصل کی جاتی ہے۔ ان کھیلوں کے قواعد کے تحت ایک کھلاڑی دوسرے کے ہاتھوں قتل بھی ہو جائے تو اسے نہ قتل عمد سمجھا جاتا ہے نہ قتلِ خطا۔

وحشت اور درندگی انسان کی فطرت میں ایک حیوانی میلان کے طور پر موجود ہے، جسے "تھرل" سے بھی تعبیر کرتے ہیں، مگر ہر شخص میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ وہ خود اس عمل سے گزرے۔ اس لیے انسان اپنی اس جبلت کی تسکین کے لیے کبھی جانوروں اور کبھی انسانوں کو لڑواتا ہے۔ وہ جانوروں کے لیے بھی ماحول پیدا کرتا ہے تاکہ وہ لڑنے پر آمادہ ہوں، اور انسانوں کے لیے بھی شہرت و دولت جیسے محرکات فراہم کرتا ہے تاکہ وہ بھی ایک دوسرے کو مارنے اور مرنے کے لیے رضامند ہو جائیں۔ ان کھیلوں کے فاتح ہیرو کہلاتے ہیں، دولت و شہرت ان کے قدم چومتی ہے، اور جو ان میں اپنی جان سے جائیں، انھیں شہید کے طور پر یاد کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کی تفریح کی خاطر قربان ہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسے پرتشدد کھیلوں کا کوئی جواز ہو سکتا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ کھلاڑیوں کی رضامندی اور مقررہ قواعد کے تحت منعقد ہوتے ہیں، اس لیے یہ جائز ہیں۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ ایک غیر اخلاقی عمل محض باہمی رضامندی اور ضابطوں کے ذریعے سے کیسے اخلاقی اور جائز ہو سکتا ہے؟ ایک دوسرے کو مارنا، چوٹ اور نقصان پہنچا کر جیتنا، کیا یہ اپنی اصل میں غیر اخلاقی نہیں؟ اگر ہے، تو پھر یہ انسانوں کی رضامندی اور ضابطوں کی چھتری تلے کیسے جواز پا سکتا ہے؟ انسانوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ دل فریب محرکات پیدا کر کے ان سے کوئی بھی جائز و ناجائز کام لیا جا سکتا ہے۔

ہندوستان میں ستی کی رسم اس کی مثال ہے۔ ایک وقت میں ستی ہونا وفا اور اعزاز کی علامت تھا۔ عورتیں ستی ہو جانا باعثِ افتخار سمجھتی تھیں۔ انگریزوں کو اسے ختم کرنے میں بڑی تگ و دو کرنا پڑی۔ وہ ستی ہونے کی خواہش مند عورتوں کو بہت سی ترغیبات دے کر اس سے روکنے کی کوشش کرتے، مگر عورتیں اس کے باوجود ستی ہونے کو ترجیح دیتیں۔ اس عمل میں ان کی رضامندی شامل ہوتی تھی۔ مگر انسانی ضمیر نے اسے گوارا نہ کیا۔ آج کوئی اس میں اخلاقی جواز تلاش نہیں کرتا۔ اگر انسان کی رضا سے اس کی خودکشی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تو انسانوں کو ایک دوسرے کو جان بوجھ کر مارنے پیٹنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ یہ کیسے معقول ہو سکتا ہے کہ زیادہ تشدد ناجائز ہو مگر "کم تشدد" جائز ہو؟

پرتشدد کھیلوں کے بارے میں لوگوں کی بے حسی کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمدن میں ایک معمول بن چکے ہیں۔ انسانی نفسیات یہ خاصیت رکھتی ہے کہ کسی چیز کی عادی ہو جائے، تو پھر بڑی سے بڑی برائی کا قبح محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن جب توجہ دلائی جائے تو فطرتِ سلیم بیدار ہو جاتی ہے۔

پرتشدد کھیلوں کو ظلم و تعدی قرار دے کر اخلاقاً معیوب اور قانوناً ممنوع قرار دینا چاہیے۔ مسلمانوں کے لیے تو ویسے بھی یہ کھیل ناجائز ہیں کیونکہ ان کا خدا انھیں ظلم و زیادتی سے منع کرتا اور اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے روکتا ہے۔

انسانی حقوق

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۰

پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
حضرت مولانا اللہ وسایا
عامر عثمانی

سپریم کورٹ کا غیر شرعی فیصلہ
ڈاکٹر محمد امین

مروّجہ نعت خوانی    —    چند قابلِ اصلاح پہلو
مولانا زبیر احمد صدیقی

ابنِ خلدون: مسئلہ عصبیت  ،   ایک تجزیہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

جسٹس منصور علی شاہ اور اسلامی قانونِ نکاح و طلاق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کسبِ معاش سے صوفیہ کی وابستگی: مشائخ تیغیہ کے حوالے سے
ڈاکٹر محمد ممتاز عالم

مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل
ڈاکٹر عرفان شہزاد

Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹرز کی پاکستان آرمی میں شمولیت
ابرار اسلم
ڈان نیوز

Khatm-e-Nubuwwat Conferences: A Referendum of Our Stance
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۴)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۸)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں
مہاتیر محمد

شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟
ادارہ الشریعہ

قطر میں اسرائیلی حملہ: سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کا موقف اور پاکستان کا جواب
عاصم افتخار احمد

غزہ و قطر پر اسرائیلی جارحیت اوراُمتِ مسلمہ کی بے بسی وبے حسی
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات
میڈیا

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پاک سعودی تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ
ادارہ الشریعہ

برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال وغیرہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی تسلیم
ادارہ الشریعہ

إبداء الفرح والسرور وتقديم الشكر والتحية بمناسبة توقيع الاتفاق الدفاعي بين المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایمل صابر شاہ

جامعہ نصرۃ العلوم میں پیغامِ پاکستان سیمینار اور مولانا راشدی کا خطاب
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

قطر اجلاس، پاک سعودی معاہدہ، صمود فلوٹیلا، ختم نبوت کانفرنس : مولانا راشدی کا تبصرہ
مولانا حافظ عاطف حسین
مولانا حافظ دانیال عمر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter