پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مشترک دفاع کا معاہدہ مدت کے بعد ایک خوشی کی خبر ہے جس کا گرم جوش خیر مقدم کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ دونوں ملکوں کی حفاظت فرمائیں اور انہیں پوری امت کے لیے بہترین مثال بننے کی توفیق بخشیں آمین۔

(۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)

مولانا مفتی منیب الرحمٰن

بدھ ۱۷ ستمبر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان اور سعودی عرب میں ’’تزویری شراکت داری‘‘ کا ایک تاریخی معاہدہ طے پایا ہے، اس پر عام روش سے ہٹ کر وزیر اعظم پاکستان اور ولی عہد سعودی عرب جناب محمد بن سلمان نے بذاتِ خود دستخط کیے اور قرار دیا:

’’دونوں ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ دونوں پر حملہ متصور ہو گا‘‘۔

یہ بلاشبہ بارش کا پہلا قطرہ اور امتِ مسلمہ کے دل کی آواز ہے۔ مگر لازم ہے کہ یہ معاہدہ ’’تصویری مظاہر (Optics)‘‘ تک محدود نہ رہے بلکہ عملی شکل اختیار کرے، یعنی لفظاً‌، معنیً‌ و عملاً‌ یہ ایک تاریخی میثاق ثابت ہو، جو امتِ مسلمہ کے لیے تعمیرِ عہدِ نَو کی خشتِ اول قرار پائے۔ اس میں آگے چل کر شرقِ اوسط کے دیگر ممالک، خلیجی، ریاستیں اور ’’ترکیے‘‘ وغیرہ بھی شامل ہوں۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے اس کی شروعات کی ہیں، ہماری خواہش ہے کہ اس کی تکمیل تک وہ کمربستہ رہیں اور کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں تاکہ امتِ مسلمہ کی آس نہ ٹوٹے۔ خاص طور پر متموّل اور تیل و گیس کی دولت سے مالامال مسلم ممالک کو چاہیے کہ پاکستان کو داخلی اور خارجی قرضوں کے بار سے نجات دلائیں اور حالیہ سیلاب نے پاکستان میں بے پناہ تباہی مچائی ہے، تمام سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے ایک مشترکہ فنڈ قائم کریں تاکہ پاکستان یکسو ہو کر اپنی معیشت کی بحالی اور عالمِ اسلام کے دفاعی استحکام پر توجہ دے سکے۔ ہم چاہیں گے کہ ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کے درمیان دہشت گردی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی مُمِد و معاون ثابت ہوں۔

(۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)

مولانا ثمیر الدین قاسمی

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم اما بعد۔ 

آج خبروں میں دیکھا کہ سعودی عرب کی حکومت نے پاکستانی حکومت کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا ہے۔ دفاعی معاہدہ کا مطلب یہ ہے کہ اب اِن کی فوج یعنی پاکستان کی فوج حرمین شریفین کی حفاظت کرے گی، حکومت کی حفاظت کرے گی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں دونوں حکومتوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پورے عالم کو اس کی خوشی ہوئی ہے۔ پورے اسلامی مملکت کو اس کی خوشی ہوئی ہے۔ اور یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔ بہت دیر ہوئی ہے لیکن بہرحال ہو گئی ہے۔

البتہ دو گزارش کرنا چاہتا ہوں:

  • ایک گزارش تو پاکستانی حکومت سے میں کر رہا ہوں کہ اس کو پیسہ بنانے کا ذریعہ آپ نہ بنائیے گا۔ اخلاص کے ساتھ کام کیجیے گا۔ پیسہ تو آئے گا ہی، لیکن اخلاص کے ساتھ کام کیجیے گا۔ اس لیے کہ حرمین کی حفاظت ہماری سب کی ذمہ داری ہے۔ اللہ نے آپ کو اس کے لیے منتخب فرمایا، آپ کے پائلٹ کو اس کے لیے منتخب فرمایا، یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ اس لیے آپ ان کو اپنے دل سے کام کیجیے گا، اور پوری قوت کے ساتھ کام کیجیے گا۔ یہ میری ایک گزارش ہے۔
  • اور ایک گزارش ہے حکومتِ سعودی سے بھی کہ آپ حضرات ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کے کیسے بیٹھے ہوئے ہیں؟ پاکستانی حکومت غریب ہے، پریشان حال ہے، اس کے باوجود بھی انہوں نے دفاعی کام کیا، اپنے ہتھیار بنائے، اپنا پائلٹ بنایا، اپنی ساری چیزیں بنائیں۔ آپ کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ آپ خود کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ آپ خود بھی کیجیے، خود بھی ٹریننگ کیجیے، ہتھیار بنائیے۔ غریب ملک ہتھیار بنا رہے ہیں، آپ کیوں نہیں بنا رہے ہیں؟ اس لیے میری گزارش ہے کہ آپ حرمین کی حفاظت کے لیے۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، حرمین کی حفاظت کے لیے، کیونکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ حرمین کی حفاظت کے لیے آپ یہ کام بھی کیجیے۔

بہرحال آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے دونوں ملکوں نے۔ میں مبارکبادی پیش کرتا ہوں۔ میں ثمیر الدین قاسمی بول رہا ہوں، کوئی غلطی ہوئی تو معاف کرنا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

(۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)

مولانا مفتی عبد الرحیم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ جو معاہدہ ہے اس کی اہمیت، اس کی گہرائی کتنی ہے، اس کی وسعتیں کتنی ہیں؟ ہمارے ملک کے لیے، پاکستانیوں کے لیے، ہماری آرمی کے لیے، ایئرفورس کے لیے، نیوی کے لیے۔ ایس پی ڈی جو ہمارا پروگرام ہے، ایٹمی پروگرام، اس کے لیے۔ امتِ مسلمہ کے لیے۔ برصغیر کے لیے اور خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کے لیے۔ اور بالخصوص حرمین شریفین اور سعودی عرب کے تحفظ کے حوالے سے اس کی بہت اہمیت ہے۔ ایک بات تو میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ آپس میں اتفاق و اتحاد کی کتنی برکتیں ہوتی ہیں۔ ستاون اسلامی ممالک میں کتنے ملک ایسے ہیں جن کی خواہش ہے کہ ہم ایٹمی طاقت بن جائیں۔ اٹامک انرجی کے لیے لوگ کتنی کوششیں کرتے ہیں، ایٹمی پاور بننے کے لیے۔ خواہشات تو بہت ہیں۔ لیکن آپس کے اتفاق و اتحاد سے سعودی عرب ایک ہی جست میں، ایک ہی چھلانگ میں ایٹمی پاور بن گیا۔ اس سے بڑھ کر کیا چیز ہو سکتی ہے؟ اور شاید یہ نیٹو کے بعد یہ پہلا ایک ایگریمنٹ ہے جس میں ایٹمی پاور کی وجہ سے ایٹمی پاور بن گئی۔ 

تو اس حوالے سے اس کو دیکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جس طریقے سے عراق، شام اور لیبیا اور پڑوسی ممالک کو جس طریقے سے اسرائیل نے بالکل تہس نہس کر دیا اور دو تین ہفتوں میں ہی چھ سات ملکوں پر ان کا حملہ ہوا۔ ان کا جو وزیر اعظم ہے، اسرائیل کا وزیر اعظم، وہ پارلیمنٹ میں گریٹر اسرائیل کا نقشہ خود لے کر کھڑا ہوا تھا۔ اور اس میں آدھا سعودی عرب آتا ہے۔ اور ان کی بانچھیں اتنی کھلی ہوئی تھیں کہ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ہر چیز کو روندتے چلے جائیں گے۔ ان کے سامنے نہ مسلمانوں کی، غزہ کے فلسطین کے نہ بچوں کی کوئی قیمت ہے، نہ خواتین کی، نہ بوڑھوں کی، نہ ان کے جان مال عزت کی، نہ دنیا کے قانون کی، نہ بین الاقوامی قوانین کی، نہ انسانیت کی۔ تو ایسے جب وہ بالکل بے لگام ہو گئے اور انہوں نے باقاعدہ یہ کہنا شروع کر دیا کہ جہاں بھی لوگ ہوں گے ہم ان کو ہٹ کریں گے۔ 

تو ایسے وقت میں مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان اور خاص طور پر حرمین شریفین کے اور بلادِ حرمین شریفین کے جو مسلمان تھے جو وہاں کی حکومت اور وہاں کی جو ریاست تھی وہ ایک بہت بڑے پریشر میں تھی۔ اور ظاہر ہے کہ اتنے بڑے ملک کی اس طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے صدیاں بلکہ دہائیاں چاہیے ہوتی ہیں۔ اور اس کے لیے دنیا نے اپنے آپ کو اتنا منظم کر لیا اور اتنا شکنجے میں کسا ہوا ہے کہ اب کسی مسلمان ملک کے لیے ایٹمی پاور بننا بہت مشکل ہے۔ آپ نے دیکھا ایران کے ساتھ کیا ہوا؟ بغداد کے ساتھ کیا ہوا؟ لیبیا کے ساتھ کیا ہوا؟ تو جس ملک نے بھی کوشش کی ہے اس کو وہیں انہوں نے دبوچا ہے جا کر۔ تو سعودی عرب کی، خواہش سب کی ہوتی تھی لیکن یہ کہ محمد بن سلمان اور وہاں کی جو قیادت ہے ان کو میں شاباش دوں گا۔ میں سمجھتا ہوں انہوں نے بہت بڑا فیصلہ کیا ہے اور بہت بروقت فیصلہ کیا ہے۔ اور ایک ایسا فیصلہ کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا اور عالمِ اسلام اور بین الاقوامی سطح پر اس کو تاریخی سمجھا جائے گا۔ اور تاریخی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

(۲۰ ستمبر ۲۰۲۵ء)

نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار

سعودی عرب سے معاہدہ ایک رات میں طے نہیں ہوا۔ سعودی عرب نے مشکل وقت میں ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی گفتگو۔ کہا، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا معاہدہ تاریخی ہے۔ مزید کہا کہ معاہدے سے دونوں ممالک بہت خوش ہیں اور دونوں جانب سے اظہارِ تشکر کیا جا رہا ہے۔ لندن میں گفتگو کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ فائنل کرنے میں کئی ماہ لگے۔ دیگر ممالک بھی ایسے ہی معاہدے کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

اسحاق ڈار: It's a due process یہ اوورنائٹ سائن نہیں ہو گیا، اس پر کئی مہینے لگے ہیں۔  It's premature to say something but کافی کنٹریز کا ڈیزائر ہے اس ڈیولپمنٹ کے بعد کہ وہ بھی اس طرح کی کوئی ارینجمنٹ کریں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ آج مسلمان ویسے بھی حرمین شریفین پر قربان ہونے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی تعاون ہمیشہ سے موجود تھا۔ پاکستان پر پابندیوں کے بعد سعودی حمایت بڑی اہم تھی۔ 

اسحاق ڈار: ہم ہمیشہ سے، ہمارا جو انفارمل ارینجمنٹ رہا ہے سعودی عریبیہ کے حوالے سے اور حرمین شریفین کے حوالے سے، وہ وہی ہے جو اس ایگریمنٹ میں جو کہ ’’اسٹریٹیجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ‘‘ پر جو سائن ہوا ہے۔ سعودیہ نے بھی کبھی پاکستان کے اوپر مشکل وقت جب آیا سعودیہ ہمارے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہا ہے۔ اور آپ کو یاد ہے کہ سینکشنز کے بعد ان کی جو سپورٹ تھی بڑی، یو ناؤ، ریلیونٹ تھی اور بڑی امپورٹنٹ تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہفتہ کو ہونے والے کنونشن کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے دورہ کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ 

(۲۰ ستمبر ۲۰۲۵ء)

مولانا فضل الرحمٰن

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان میں تعینات سعودی عرب کے سفیر عزت مآب نواف بن سعید المالکی کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا جس میں اعلیٰ سطحی شخصیات نے شرکت کی، جن میں سینٹ کے صدر یوسف رضا گیلانی، ڈپٹی چیئرمین سینٹ سیدال خان ناصر، خیبر پختونخوا کے رکنِ اسمبلی فیصل کریم کنڈی، اور دیگر نمایاں سیاسی رہنما اور علماء شامل تھے۔ اپنی تقریر میں مولانا فضل الرحمٰن نے اعادہ کیا کہ

  • امت مسلمہ کا اتحاد شروع ہی سے جمعیت علمائے اسلام کے منشور کا حصہ رہا ہے۔
  • پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ دفاعی معاہدہ امت مسلمہ کے اتحاد کی جانب ایک نقطہ آغاز بنے گا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مزید گہرا کرے گا اور اجتماعی سلامتی کے لیے ایک مضبوط ستون کا کام کرے گا۔
  • حرمین شریفین کی دیکھ بھال کے اعزاز کی وجہ سے سعودی عرب تمام مسلمانوں کے دلوں میں ایک بلند مقام رکھتا ہے۔
  • پاکستانی عوام حرمین شریفین کا دفاع کرنا اپنے لیے ایک بڑا اعزاز اور مقدس فریضہ سمجھتے ہیں۔
  • انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ اسلامی مقدس مقامات کے دفاع اور اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے، اور امت کے اتحاد اور وقار کی بحالی کی نمائندگی کرتا ہے۔

سعودی سفیر نواف المالکی نے مولانا فضل الرحمٰن کے موقف کی تعریف کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’’امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے‘‘۔ انہوں نے اس تاریخی معاہدے پر پاکستانی عوام کو مبارکباد پیش کی۔

تقریب میں دیگر ممتاز سیاسی و مذہبی شخصیات نے بھی شرکت کی، جن میں مولانا راشد سومرو، مولانا سعید یوسف، انجینئر ضیاء الرحمٰن، مولانا اسجد محمود، سینیٹر احمد خان، سینیٹر دلاور خان، اور نور عالم خان کے علاوہ شیخ مفتی اویس عزیز، شیخ مفتی ابرار، اور ایڈووکیٹ جلال الدین شامل تھے۔ 

یہ تاریخی معاہدہ امتِ مسلمہ کے اتحاد اور دین و ملت کی خدمت میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانے کی جانب ایک بابرکت قدم ہے۔

(۲۳ ستمبر ۲۰۲۵ء)


(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۰

پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
حضرت مولانا اللہ وسایا
عامر عثمانی

سپریم کورٹ کا غیر شرعی فیصلہ
ڈاکٹر محمد امین

مروّجہ نعت خوانی    —    چند قابلِ اصلاح پہلو
مولانا زبیر احمد صدیقی

ابنِ خلدون: مسئلہ عصبیت  ،   ایک تجزیہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

جسٹس منصور علی شاہ اور اسلامی قانونِ نکاح و طلاق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کسبِ معاش سے صوفیہ کی وابستگی: مشائخ تیغیہ کے حوالے سے
ڈاکٹر محمد ممتاز عالم

مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل
ڈاکٹر عرفان شہزاد

Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹرز کی پاکستان آرمی میں شمولیت
ابرار اسلم
ڈان نیوز

Khatm-e-Nubuwwat Conferences: A Referendum of Our Stance
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۴)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۸)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں
مہاتیر محمد

شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟
ادارہ الشریعہ

قطر میں اسرائیلی حملہ: سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کا موقف اور پاکستان کا جواب
عاصم افتخار احمد

غزہ و قطر پر اسرائیلی جارحیت اوراُمتِ مسلمہ کی بے بسی وبے حسی
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات
میڈیا

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پاک سعودی تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ
ادارہ الشریعہ

برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال وغیرہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی تسلیم
ادارہ الشریعہ

إبداء الفرح والسرور وتقديم الشكر والتحية بمناسبة توقيع الاتفاق الدفاعي بين المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایمل صابر شاہ

جامعہ نصرۃ العلوم میں پیغامِ پاکستان سیمینار اور مولانا راشدی کا خطاب
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

قطر اجلاس، پاک سعودی معاہدہ، صمود فلوٹیلا، ختم نبوت کانفرنس : مولانا راشدی کا تبصرہ
مولانا حافظ عاطف حسین
مولانا حافظ دانیال عمر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter