پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر

قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے ملک کے معاشی نظام کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی، دستوری طور پر معیشت کو اسلامی قوانین و تعلیمات کے مطابق چلانے اور غیر اسلامی سودی نظام کو جلد از جلد ختم کر دینے کی ضمانت موجود ہے، سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت نے متعدد بار سودی نظام کے خاتمہ اور ملک کے معاشی نظام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیل کرنے کے واضح احکام جاری کیے ہیں، حتیٰ کہ غیر سودی بینکاری کے قابلِ عمل بلکہ زیادہ محفوظ اور نفع بخش کا سرکاری اور بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا جا چکا ہے اور بین الاقوامی ادارے بلاسود بینکاری کی طرف بتدریج بڑھ رہے ہیں۔ لندن اور پیرس جیسے معاشی مراکز غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں اور روس میں ۲۰۲۳ء کے دوران غیر سودی بینکاری کا عملاً‌ آغاز ہو چکا ہے۔

اس فضا میں ہمارا حال یہ ہے کہ ملک میں رائج سودی قوانین کو اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں واضح طور پر دستور کے منافی قرار دیے جانے کے باوجود ان سے پیچھا چھڑانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی اور گزشتہ تین عشروں سے ہماری عدالتوں میں سودی قوانین کے حوالہ سے آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری ہے اور ہم سود کو لعنت قرار دیتے ہوئے بھی اس کا جوا گردن سے اتارنے کے لیے عملاً تیار نہیں ہیں جبکہ سودی معیشت کے پیدا کردہ معاشی تفاوت اور اقتصادی لوٹ کھسوٹ نے ملک کے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اس تناظر میں ہمارے ہاں سودی نظام کے خلاف ہونے والی عدالتی جدوجہد کے بارے میں ایک رپورٹ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے جو امید ہے اس حوالہ سے صورتحال کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو گی۔




پاکستان میں سودی نظام کے خلاف عدالتی جدوجہد کا آغاز 1980ء کی دہائی میں ہوا جب مختلف افراد اور تنظیموں نے وفاقی شرعی عدالت میں درخواستیں دائر کیں کہ سودی قوانین قرآن و سنت کے منافی ہیں۔ ان درخواستوں کی بنیاد دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 203-ڈی اور دیگر دفعات پر رکھی گئی جن کے مطابق ریاست پر لازم ہے کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کو برقرار نہ رکھے۔ سودی نظام کے خلاف کئی دہائیوں پر مشتمل اس عدالتی جدوجہد میں متعدد شخصیات اور اداروں نے نمایاں کردار ادا کیا:

  1. وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کے سامنے مقدمات میں جماعتِ اسلامی پاکستان نے مستقل طور پر درخواست گزار کی حیثیت سے آواز بلند کی۔ 
  2. اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سفارشات اور رپورٹس کے ذریعے سودی معیشت کے خلاف ٹھوس قانونی بنیادیں فراہم کیں۔ 
  3. ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، جسٹس تنزیل الرحمٰنؒ اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے عدالتی دلائل اور علمی رہنمائی کے ذریعے اس جدوجہد کو تقویت بخشی۔ 
  4. تنظیمِ اسلامی نے سودی معیشت کے خاتمے کے لیے فکری و تحریکی سطح پر عدالتی اور عوامی توجہ مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 
  5. ان کے علاوہ بہت سی علمی شخصیات اور اداروں نے اپنے اپنے دائرے میں اس سلسلۂ جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالا۔ 

ان سب کاوشوں کے نتیجے میں عدالتوں نے مختلف اوقات میں سود کے خلاف فیصلے دیے، جو پاکستان کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں کے قریب لانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

اس سلسلے کی فیصلہ کن اور باقاعدہ ابتدا 14 نومبر 1991ء کو ہوئی جب وفاقی شرعی عدالت نے اپنے تاریخی فیصلے (10 PLD 1991 FSC) میں قرار دیا کہ ہر قسم کا سود، خواہ کم ہو یا زیادہ، قرآن و سنت کے مطابق ناجائز اور حرام ہے۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ 30 جون 1992ء تک تمام سودی قوانین ختم کیے جائیں اور اسلامی مالیاتی متبادل جیسے مضاربہ، مشارکہ، مرابحہ اور اجارہ وغیرہ رائج کیے جائیں۔ یہ مقدمہ جسے عموماً ’’مقدمہ سود‘‘ یا Riba Case کہا جاتا ہے، پاکستان کی آئینی اور قانونی تاریخ میں ایک سنگِ میل ثابت ہوا۔ اس میں علماء، ماہرینِ معیشت اور وکلاء نے تفصیلی دلائل دیے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ ریاست پر یہ آئینی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مالیاتی نظام کو سود سے پاک کرے۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف حکومتِ پاکستان اور بعض مالیاتی اداروں نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل دائر کر دیں۔ 

طویل سماعت کے بعد 23 دسمبر 1999ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے 1991ء کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ایک اور تفصیلی فیصلہ دیا (PLD 2000 SC 225)۔ اس فیصلے میں قرار دیا گیا کہ سودی قوانین قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور حکومت پر لازم ہے کہ وہ 30 جون 2001ء تک سودی نظام ختم کرے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلامی مالیاتی نظام صرف ایک نظریاتی خاکہ نہیں بلکہ عملی طور پر قابلِ عمل ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں مختلف دائروں میں نافذ ہے۔ 

لیکن 2002ء میں حکومت کی نظرثانی درخواست پر سپریم کورٹ نے اپنے ہی 2000ء کے فیصلے (PLD 2000 SC 225) کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پورا معاملہ دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا۔ 

اس کے بعد سود کے خلاف عدالتی جدوجہد تعطل کا شکار ہو گئی اور مکمل نفاذ کے بجائے پاکستان میں ایک متوازی اسلامی بینکاری کا نظام وجود میں آیا، جبکہ روایتی سودی نظام بھی برقرار رہا۔ اس عرصے کے دوران ’’اسلامی بینکاری‘‘ کے نام سے ادارے قائم ہوئے اور اسلامی مالیاتی مصنوعات متعارف ہوئیں، مگر ریاستی سطح پر سودی نظام کا خاتمہ مؤخر ہوتا رہا۔

2019ء میں وفاقی شرعی عدالت میں ایک بار پھر سماعتیں شروع ہوئیں اور بالآخر 14 اپریل 2022ء کو عدالت نے ایک اور فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سودی نظام مکمل طور پر غیر اسلامی ہے اور حکومت کو ہدایت کی گئی کہ 2027ء تک ملک کو سود سے پاک کر دیا جائے۔ اس فیصلے کے بعد حکومتِ پاکستان نے بھی یقین دہانی کرائی کہ معیشت کو مرحلہ وار بلا سود بنایا جائے گا۔

یوں یہ پوری عدالتی جدوجہد چار دہائیوں پر محیط ہے۔ 1991ء کا فیصلہ اس سفر کا نقطہ آغاز تھا، 1999ء/2000ء کے فیصلے نے اس کی توثیق کی، 2002ء میں نظرثانی نے عمل درآمد کو مؤخر کر دیا، اور 2022ء کے فیصلے نے ایک بار پھر اس جدوجہد کو زندہ کیا۔ اس عرصے میں نظریاتی سطح پر بار بار سود کو حرام قرار دیا گیا مگر عملی نفاذ مسلسل آئندہ تاریخوں سے مشروط رہا۔ پاکستان کی معیشت آج بھی ایک ایسے دوراہے پر ہے جہاں سودی اور اسلامی بینکاری دونوں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور اصل امتحان یہ ہے کہ آیا ریاست آئندہ برسوں میں اپنے وعدے کے مطابق مکمل طور پر بلا سود نظام قائم کر سکے گی یا نہیں۔


وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ 1991ء

14 نومبر 1991ء کا وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ (10 PLD 1991 FSC) اہم نکات کی صورت میں یوں ہے:

سود (ربا) کی تعریف اور حرمت 

عدالت نے قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کیا کہ قرض پر لیا جانے والا ہر اضافہ، خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، سود ہے اور شریعت کے مطابق حرام ہے۔ ہر قسم کا سود، خواہ وہ بینکوں کے قرضوں کی شکل میں ہو یا تجارتی معاہدوں کی صورت میں، قرآن و سنت کے مطابق ناجائز اور قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا۔

بینکاری اور مالیاتی قوانین: ریاست کی ذمہ داری

بینکوں اور مالیاتی اداروں میں سود پر مبنی لین دین (interest-based transactions) اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیے گئے۔

ریاست کی ذمہ داری

آئینِ پاکستان کے تحت حکومت پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ سودی نظام ختم کرے اور مالیاتی ڈھانچے کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالے۔

مدتِ عمل درآمد

حکومت کو ہدایت دی گئی کہ 30 جون 1992ء تک تمام سودی قوانین ختم کر کے اسلامی مالیاتی متبادل رائج کرے۔

اسلامی متبادل کی نشاندہی

عدالت نے مضاربہ، مشارکہ، مرابحہ، اجارہ، سلم اور استصناع جیسے اسلامی مالیاتی طریقوں کو متبادل کے طور پر اپنانے کی تجویز دی۔

مرحلہ وار تبدیلی

عدالت نے کہا کہ نظام کو اچانک ختم کرنے کے بجائے مرحلہ وار تبدیلی لائی جائے تاکہ معیشت پر منفی اثرات نہ پڑیں۔

قانونی ترامیم کی ہدایت

حکومت کو تمام ایسے قوانین میں ترامیم کرنے کی ہدایت کی گئی جو سودی لین دین کو تحفظ دیتے ہیں، تاکہ وہ شریعت کے مطابق ہو جائیں۔

آئینی جواز اور فیصلہ کی حیثیت

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یہ حکم دستور کی روح کے مطابق ہے کیونکہ دستورِ پاکستان کی دفعات (خصوصاً آرٹیکل 203۔ڈی اور 38۔ایف) ریاست کو پابند کرتی ہیں کہ وہ معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی قانونی اور آئینی تاریخ میں سود کے خلاف پہلا جامع اور باضابطہ عدالتی حکم ہے جس نے اسلامی بینکاری کے نظام کی بنیاد فراہم کی۔


سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ کا فیصلہ 2000ء

سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بنچ کا فیصلہ (PLD 2000 SC 225) جو 23 دسمبر 1999ء کو محفوظ اور 2000ء میں شائع ہوا، اس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی توثیق

سپریم کورٹ نے 1991ء کے فیصلے (10 PLD 1991 FSC) کو برقرار رکھا اور واضح کیا کہ سود (ربا) قرآن و سنت کے مطابق ہر صورت میں حرام ہے۔

سودی قوانین کالعدم

عدالت نے قرار دیا کہ پاکستان میں رائج سود پر مبنی قوانین، جیسے بینکنگ قوانین، فنانس ایکٹس اور سودی معاہدات، سب قرآن و سنت کے منافی ہیں اور ان پر نظرِ ثانی ضروری ہے۔

ریاست کی ذمہ داری اور مدتِ عمل

حکومتِ پاکستان پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ معیشت کو سود سے پاک کرے اور اسلامی مالیاتی ڈھانچہ قائم کرے۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ 30 جون 2001ء تک سودی نظام مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

اسلامی متبادل پر تفصیل

فیصلے میں اسلامی مالیاتی طریقے جیسے مضاربہ، مشارکہ، مرابحہ، اجارہ، سلم اور استصناع تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے اور کہا گیا کہ یہ طریقے معیشت کو چلانے کے لیے کافی ہیں۔

عملی امکان اور تعلیم و تربیت کی ہدایت

عدالت نے کہا کہ اسلامی نظامِ معیشت محض نظری نہیں بلکہ عملی طور پر قابلِ عمل ہے اور کئی ممالک اس کے اصولوں پر کسی نہ کسی حد تک عمل پیرا ہیں۔ حکومت سے کہا گیا کہ وہ بینکنگ و مالیاتی اداروں کے ماہرین اور تعلیمی اداروں میں اسلامی مالیات کی تعلیم و تربیت کو فروغ دے تاکہ عملدرآمد ممکن ہو سکے۔

مرحلہ وار تبدیلی کا اصول

عدالت نے زور دیا کہ معیشت کو یکدم بدلنے کے بجائے مرحلہ وار تبدیلی کی جائے تاکہ نظام کو نقصان نہ پہنچے اور متبادل ڈھانچہ آسانی سے کھڑا ہو سکے۔

بین الاقوامی پہلو

فیصلے میں اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا گیا کہ سود کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی معاہدات اور مالیاتی تعلقات کو دیکھتے ہوئے متوازن حکمتِ عملی اپنانی ہو گی۔


سپریم کورٹ کا کالعدمی فیصلہ 2002ء

سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ کا 2000ء کا فیصلہ پاکستان میں سودی نظام کے خلاف عدالتی جدوجہد کی سب سے مضبوط توثیق تھا، لیکن بعد میں حکومت کی نظرِ ثانی درخواستوں کے باعث 2002ء میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر معاملہ دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا۔


وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ 2022ء

14 اپریل 2022ء کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے (Shariat Petition No. 30-L of 1991 & all other 81 connected matters relating to Riba/Interest) کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

  • سود (ربا) ہر صورت میں غیر اسلامی ہے، چاہے وہ نجی معاملات ہوں یا بینکنگ لین دین۔ 
  • موجودہ سودی بینکاری نظام کو شریعت کے خلاف تسلیم کیا گیا۔ 
  • وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ قوانین میں ترامیم کریں تاکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق ہوں۔ 
  • Interest Act 1839 جیسی قدیم قانونی دفعات جو سود کی سہولت دیتی ہیں، غیر شرعی قرار دی گئیں۔ 
  • تمام قرضوں (loans) پر جو اصل رقم کے علاوہ کوئی اضافی رقم وصول کرتے ہیں، انہیں ربا کی تعریف میں شامل کیا، چاہے اضافہ کم ہو یا زیادہ۔ 
  • سودی لین دین یا نجی سود دونوں ہی ربا کے زمرے میں آتے ہیں؛ صرف بینکنگ نہیں بلکہ کوئی بھی سود پر مبنی معاہدہ شریعت کے منافی ہے۔ 
  • پورے نظامِ مالیات کو 31 دسمبر 2027ء تک مکمل طور پر سودی نظام سے پاک کیا جائے۔ 
  • اسلامی بینکاری کے نظام قابلِ عمل ہیں، ان کو فروغ دیا جائے تاکہ مالیاتی نظام میں منصفانہ، شفاف اور استحکام لایا جائے۔ 
  • ربا کی ممانعت اسلامی معیشت کا بنیادی جز ہے، جو استحصال اور منافع خوری سے محفوظ رکھتا ہے۔ 
  • حکومت اس فیصلے پر عمل کرنے کے لیے رہنما لائحہ عمل بنائے، اور قانون سازی، انتظامی اقدامات اور بینکاری نظام میں اصلاحات کرے تاکہ مستقبل میں سود پر مبنی لین دین نہ ہوں۔ 


References

  • Federal Shariat Court, Pakistan. (2022, April 28). *Judgment in the matter of Riba (Usury) case (Shariat Petition No. 30/L of 1991)*. Retrieved from https://www.federalshariatcourt.gov.pk/Judgments/S-P 30-L1991 Riba Case-28.04.2022.pdf
  • Mansoori, T., & Ayub, M. Federal Shariah Court’s judgement on Ribā: An appraisal and some suggestions. Journal of Islamic Business and Management. https://doi.org/10.26501/jibm/2022.1201-001
  • Bhatti, H. (2022, April 28). Federal Shariat Court rules laws related to interest are contrary to Islam in landmark verdict. Dawn. Retrieved September 24, 2025, from https://www.dawn.com/news/1687237


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۰

پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
حضرت مولانا اللہ وسایا
عامر عثمانی

سپریم کورٹ کا غیر شرعی فیصلہ
ڈاکٹر محمد امین

مروّجہ نعت خوانی    —    چند قابلِ اصلاح پہلو
مولانا زبیر احمد صدیقی

ابنِ خلدون: مسئلہ عصبیت  ،   ایک تجزیہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

جسٹس منصور علی شاہ اور اسلامی قانونِ نکاح و طلاق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کسبِ معاش سے صوفیہ کی وابستگی: مشائخ تیغیہ کے حوالے سے
ڈاکٹر محمد ممتاز عالم

مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل
ڈاکٹر عرفان شہزاد

Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹرز کی پاکستان آرمی میں شمولیت
ابرار اسلم
ڈان نیوز

Khatm-e-Nubuwwat Conferences: A Referendum of Our Stance
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۴)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۸)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں
مہاتیر محمد

شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟
ادارہ الشریعہ

قطر میں اسرائیلی حملہ: سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کا موقف اور پاکستان کا جواب
عاصم افتخار احمد

غزہ و قطر پر اسرائیلی جارحیت اوراُمتِ مسلمہ کی بے بسی وبے حسی
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات
میڈیا

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پاک سعودی تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ
ادارہ الشریعہ

برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال وغیرہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی تسلیم
ادارہ الشریعہ

إبداء الفرح والسرور وتقديم الشكر والتحية بمناسبة توقيع الاتفاق الدفاعي بين المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایمل صابر شاہ

جامعہ نصرۃ العلوم میں پیغامِ پاکستان سیمینار اور مولانا راشدی کا خطاب
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

قطر اجلاس، پاک سعودی معاہدہ، صمود فلوٹیلا، ختم نبوت کانفرنس : مولانا راشدی کا تبصرہ
مولانا حافظ عاطف حسین
مولانا حافظ دانیال عمر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter