۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت

عامر عثمانی: السلام علیکم ناظرین، درسِ قرآن پوڈ کاسٹ کی اس خصوصی نشست سے اپنے میزبان عامر عثمانی کا سلام قبول کیجیے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت بلاشبہ ہماری زندگیوں میں، ہمارے ایمان میں، وہ کلیدی اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے کہ جس کے بغیر یقیناً‌ ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا، اور وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جو عقیدۂ ختمِ نبوت پر کامل اور مکمل ایمان نہ رکھتا ہو۔ اس سے پہلے کہ میں پوڈ کاسٹ میں آگے بڑھوں آپ نے ہائی لائٹس میں دیکھ لیا ہوگا، تھمب نیل پر آپ نے دیکھ لیا ہو گا کہ آج کون شخصیت اس سٹوڈیو میں ہمارے ساتھ موجود ہیں اور جن سے ہم نے ان تمام موضوعات پر آج بات کرنی ہے۔ یہ موضوع چونکہ بہت زیادہ حساس ہے بہت sensitive ہے اور یہ ہمارا معاشرہ جس طرف چل پڑا ہے ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ پہلے مجھے چھوٹا سا ایک disclaimer دے دینا چاہیے اور وہ ڈسکلیمر یہ ہے کہ

’’میں عامر عثمانی الحمد للہ ایک مسلمان ہوں اور عقیدۂ ختمِ نبوت پر کامل ایمان رکھتا ہوں اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہوں اور اُن کے بعد کسی کو نبی نہیں مانتا۔‘‘

یہ میں نے اپنی طرف سے ایک وضاحت اس لیے دی ہے کہ اس پوڈ کاسٹ میں آگے جا کے ہو سکتا ہے کہ کچھ سوالات ایسے ہوں کہ جہاں سے ’’چونکہ چنانچہ‘‘ کے کوئی دروازے کھلیں اور اس کے بعد بہت ساری ایسی چیزیں جو ہماری طرف؛ یہ جس کرسی پر میں بیٹھا ہوں یہ بہت حساس ہے اور سوال کرنے کے پروٹوکولز ہوتے ہیں، مگر میں ایک جرنلسٹ یا ایک صحافی ہونے سے پہلے ایک مسلمان ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ تمام پروٹوکولز جو اس کرسی کے ہیں، میں شاید اس کا حق تو نہ ادا کر پاؤں لیکن کوشش ضرور کروں گا کہ وہ تمام سوالات ایڈریس ہوں، ان تمام سوالات پر یہاں گفتگو ہو بات چیت ہو کہ جو آپ کے دل و دماغ میں ابھرتے ہیں۔

آج میرے ساتھ درسِ قرآن ڈاٹ کام کے سٹوڈیو میں عالمی مجلسِ تحفظ ختمِ نبوت کے عظیم رہنما جنہوں نے اپنی پوری زندگی وقف کی، اور کیا جوانی کیا بڑھاپا، اور آج تک وہ آپ کو اس عمر میں پیرانہ سالی میں ختمِ نبوت کے سٹیجز پر نظر آتے ہیں، ختمِ نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی جوانی ان کے مشن میں رکاوٹ نہیں بنی، ان کا بڑھاپا، ان کی بیماری، کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنی۔ میں بہت اپنے آپ کو خوش نصیب محسوس کر رہا ہوں کہ آج میں ان کے ساتھ موجود ہوں اور ان سے گفتگو کی سعادت اور یہ موقع مجھے نصیب ہو رہا ہے۔ میں خوش آمدید کہوں گا جناب مولانا اللہ وسایا صاحب کو۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

مولانا اللہ وسایا: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

عامر عثمانی: مولانا صاحب، بہت شکریہ آپ نے وقت دیا اور یہ موقع ہمیں عنایت کیا کہ ہم اس تحریک کے بارے میں جان سکیں جو ایک بہت عظیم تحریک ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ کی اجازت سے میں اس انٹرویو کا باقاعدہ آغاز کروں۔ اس سے قبل کہ میں موضوعات کی طرف آگے جاؤں، آپ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر میں چاہوں گا کہ دیکھی جائے۔ کیا بچپن، کیا جوانی، کیا تعلیم تربیت، کس ماحول میں آنکھ کھولی اور کیسے پھر یہ زندگی کا سفر آگے بڑھا؟

مولانا اللہ وسایا: برادر، میرے والدین زراعت پیشہ ہیں اور میری تاریخ پیدائش دسمبر 1945ء ہے، اس حوالے سے 80 سال اس وقت میری عمر ہے جی۔ تو ابتدائی تعلیم میں نے سکول کی میٹرک تک، وہ تو اپنے علاقہ میں حاصل کی، میرا علاقہ بہاولپور کے دیہات میں ہے، وہاں پر حاصل کی۔ اور اس کے بعد پھر دینی تعلیم جامعہ خیر المدارس، جامعہ قاسم العلوم، جامعہ مخزن العلوم عیدگاہ خانپور سے میں نے 1967ء کے آخر میں اور 1968ء کے اوائل میں دورہ حدیث شریف کی تکمیل کی۔ اسی طرح ہمارے بہاولپور میں ایک جامعہ عباسیہ ہوتا تھا جو اس زمانے کی بہاولپور ریاست کی وہ یونیورسٹی شمار ہوتا تھا، اس سے میں نے ’’مولوی فاضل‘‘ بھی کیا جسے ’’ثالثہ فاضل‘‘ اس زمانے میں کہتے تھے۔ تو یہ میری دنیوی اور دینی تعلیم ہے۔ اور اس کے بعد دینی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے کرم کیا۔

عامر عثمانی: کس سن میں آپ کی فراغت ہوئی؟

مولانا اللہ وسایا: یہ 1967ء کے آخر اور 1968ء کے اوائل میں۔ اور اس کے بعد پھر میں مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے اندر شامل ہو گیا۔ تو اس زمانے میں دارالعلوم دیوبند کے ایک فاضل تھے، فیجی آئی لینڈ کے مولانا عبدالمجید صاحب۔ تو مولانا لال حسین اخترؒ مناظر اِسلام، وہ فیجی آئی لینڈ گئے ہوئے تھے، تو انہوں نے ان مولانا کو فیجی سے دارالعلوم دیوبند بھجوایا۔ دورہ حدیث شریف کرنے کے بعد اسپیشلی طور پر وہ ملتان آئے، تو ان کے لیے ایک کلاس کا اہتمام کیا گیا کہ ہمیں عقیدۂ ختمِ نبوت سے متعلق مناظرانہ تربیت دی جائے۔ تو دو تین پاکستان کے علماء کرام جن میں میں بھی شامل تھا، تو استاذ مناظرِ اسلام حضرت مولانا محمد حیات صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے وہ ہمیں پڑھایا اور ہمیں تربیت دی۔

اس کے بعد وہ مولانا تو فیجی آئی لینڈ چلے گئے اور مجھے حضرت مولانا محمد علی صاحب جالندھری رحمۃ اللہ علیہ نے میرٹ پر، میرے استاذوں کی سفارش پر مجھے مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے اندر کام کرنے کے لیے آپ نے انتخاب فرمایا۔ تو بحیثیت مبلغ کے میری 1969ء کے اوائل میں تقرری ہوئی فیصل آباد کے اندر اور پھر میں 1984ء تک وہاں رہا۔ 1984ء میں حضرت مولانا محمد شریف صاحب جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد؛ ان کے پاس دو عہدے تھے، ایک تو وہ آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل کے رابطہ سیکرٹری تھے، اور دوسرا مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے ناظم اعلیٰ۔ تو مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے ناظمِ اعلیٰ کا جو اُن کا منصب تھا وہ تو ہمارے مخدوم حضرت مولانا عزیز الرحمٰن جالندھری کے سپرد کیا گیا۔ اور آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل کے وہ رابطہ سیکرٹری تھے، تو یہ عہدہ انہوں نے مجھے تفویض کیا۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے میری تقرری کی اور پھر یوں میں ملتان آیا جی۔

عامر عثمانی: اس وقت عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے جو سربراہ تھے وہ خواجہ خان محمد صاحبؒ تھے؟

مولانا اللہ وسایا: وہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ تھے، یہ 1984ء میں۔ اور جو 1968ء میں تقرری ہوئی اس وقت حضرت مولانا محمد علی صاحب جالندھریؒ تھے۔ تو حضرت مولانا محمد علی صاحب جالندھریؒ، حضرت مولانا لال حسین اخترؒ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ، حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانویؒ، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندرؒ اور موجودہ ہمارے امیر حضرت حافظ ناصر الدین خاکوانی، ان تمام اپنے اکابر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے کام کرنے کی سعادت سے نوازا ہے۔

عامر عثمانی: بہت شکریہ حضرت، یہ آپ نے تحریکی اور تعلیمی دونوں زندگیوں پر اپنی تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ یہ جو تحریک ختمِ نبوت کا جو آغاز ہے تھوڑا سا اس طرف بھی میں چاہوں گا کہ اس پر بھی آپ تھوڑی سی گفتگو کریں، کس وقت باقاعدہ طور پر اس تحریک کا آغاز ہوا اور کب یہ محسوس ہوا کہ یہ جو قادیانی ہیں ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے؟ اس تحریک کے اگر کچھ بنیادی نکات پر آپ روشنی ڈالنا چاہیں۔

مولانا اللہ وسایا: برادر، میری پہلی درخواست یہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے 1880ء میں وہ کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ لکھنی شروع کی اور اس میں اس نے مہدی ہونے کا، مسیح ہونے کا، معمور من اللہ ہونے کا دعویٰ کیا اور 1901ء میں آکر اس نے واضح طور پر نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ تو اس کا جو ابتدائی دعویٰ ہے، جس زمانے میں مہدی مسیح ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا اور یہ اپنی ابتدائی کتاب لکھی تو اس کی کتاب کے سیاق و سباق کو دیکھ کر اس وقت کی ہماری دینی قیادت نے اپنی ایمانی بصیرت سے بھانپ لیا کہ غلام احمد قادیانی کا جو سفر ہے یہ انتہائی خطرناک ہے اور اس نے آگے چل کر دعوائے نبوت کرنا ہے۔ چنانچہ ان حضرات نے ابتدا میں ہی مرزا غلام احمد کو کہا کہ تیرے یہ الہامات قرآن کے بھی خلاف ہیں سنت کے بھی خلاف ہے اور امتِ مسلمہ کے 1400 سالہ تعامل کے بھی خلاف ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں۔ اور یہ 1901ء سے پہلے کی بات ہے، 1880ء اور 1901ء کے درمیان کی۔ تو اس زمانے میں ایک قصور کے بزرگ عالم دین تھے مولانا غلام دستگیر قصوریؒ، لدھیانہ کے حضرات علماء کرام مولانا عبداللہ لدھیانویؒ، مولانا محمد لدھیانویؒ، مولانا عبدالقادر لدھیانویؒ، اور اسی طرح مولانا محمد حسین بٹالویؒ، مولانا نذیر حسین دہلویؒ، حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ، اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ، مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ، ان حضرات نے اس زمانے میں؛ دارالعلوم دیوبند کے استاذ ہوتے تھے مولانا سہول خان صاحبؒ، انہوں نے ایک فتویٰ مرتب کیا تو اس پر 600 علماء کرام نے؛ اس میں دیوبندی، بریلوی، شیعہ، سنی، حنفی، غیرحنفی کی کوئی قید نہیں تھی؛ تمام مسالک کے ایک چوٹی کی دینی قیادت نے مرزا غلام قادیانی کے خلاف فتویٰ دیا۔ اور وہی فتویٰ آگے چل کر مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر کے ثبوت میں تمام عدالتوں کے اندر پیش ہوا۔ چنانچہ مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ نے بھی بہاولپور کی عدالت میں بطور دستاویز کے اس فتوے کو جمع کرایا تھا۔

تو وہاں سے اس تحریک کا آغاز ہوا۔ اور اس فتوے کے اندر بہت ہی؛ آج تقریباً‌ سوا ڈیڑھ سو سال گزرنے کے باوجود اتنا اعتدال پر مبنی معتدل فتویٰ، جانچ تول کر، ناپ پرکھ کر وہ فتویٰ مرتب کیا گیا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی اس کے اندر ایک لفظ کی کمی یا بیشی کی ضرورت نہیں ہے اس فتویٰ کے اندر۔ اور اتنا جاندار اور معتدل فتویٰ تھا مبنی بر حقائق۔ اور پھر اس کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ بہاولپور کی عدالت ہو، بھاگلپور کی عدالت ہو، الٰہ آباد یا مدراس کا ہائی کورٹ ہو، جوہانسبرگ کی عدالت ہو، مصر یا شام کی عدالت ہو، عرب امارات کی عدالت ہو، جہاں کہیں بھی، اور خود پاکستان کی مقامی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک جن جن عدالتوں میں قادیانیت اور اسلام کا کیس پیش ہوا وہ فتویٰ بطور بنیادی دستاویز کے ہمیشہ اُن تمام عدالتوں کے کیسوں کی سماعت کے دوران پیش ہوتا رہا۔ اور واقعہ ہے کہ پھر اس ڈیڑھ سو سالہ جدوجہد میں جہاں کہیں بھی قادیانیت سے متعلق، قادیانیت اور اسلام کا آپس کے اندر تقابل ہوا اور کیس پیش ہوا، ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا کہ کفر ہارا ہے اور اسلام جیتا ہے۔

اور یہ ہماری اس تحریک کا بالکل آغاز تھا جس میں حضرات علماء کرام نے متفقہ طور پر بمبئی سے لے کر کراچی تک، کراچی سے کابل اور کلکتہ تک، کلکتہ سے کوئٹہ تک، اس پورے خطے کی دینی قیادت نے متفقہ طور پر کہا کہ مرزا قادیانی کی ان عبارات کی رو سے، یہ مرزا غلام محمد خود اور اس کے ماننے والے وہ مسلم سوسائٹی کا حصہ نہیں، ان کا اسلام یا مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ وہ فتویٰ میں سمجھتا ہوں کہ وہی ابتدائی طور پر، جو مرزا قادیانی کے عقائد سے متعلق بنیادی دستاویز مرتب کی گئی تھی، وہی ہماری تحریک کا حصہ ہے۔ اور اس کی بنیاد پر، وہ دن جائے آج کا دن آئے، قادیانیت کے متعلق ہمیشہ۔

عامر عثمانی: اس میں حضرت میں یہاں ایک سوال ایڈ کرنا چاہوں گا آپ کی اجازت سے، وہ جو فتویٰ تھا یا اس کے بعد جو بھی دستاویزات تیار ہوئے اس میں قادیانی کا اسٹیٹس کیا ہے؟ آپ قادیانی کو اقلیت ڈکلیئر کرتے ہیں، ظاہر ہے اگر آپ اقلیت کہیں گے تو ’’اقلیت‘‘ تو ایک یورپ سے اڈاپٹ کیا ہوا ایک لفظ ہے۔ نمبر دو، یہ سوال اصل میں اس لیے کر رہا ہوں کہ گزشتہ سال جب مینار پاکستان پر اس تاریخی دن کی گولڈن جوبلی منائی گئی 50 سال مکمل ہونے پر اس میں مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل نے؛ ان کے بیان میں جو چیز سامنے آئی پھر نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا نے اس کو لیا؛ اپنے بیان میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ قادیانی مرتد ہیں اور مرتد کی سزا قتل ہے۔ یہ ان کے بیان کے as it is شاید الفاظ نہ ہوں لیکن اس کا ٹوٹل مدعا یہی تھا۔ اس کے بعد یہ ڈیبیٹ شروع ہوئی اور لوگوں نے اس پر بات چیت شروع کی۔ پھر جب ہم نے اپنے طور پر اس پر ریسرچ کرنے کی کوشش کی تو یہ تین چیزیں ہمارے سامنے آئیں کہ (۱) اقلیت ہے (۲) مرتد ہے (۳) یا زندیق ہے۔ اگر آپ اس فتویٰ اور اس کے بعد والے تمام دستاویزات کی روشنی میں اس پر گفتگو کرنا چاہیں تو وہ کیا ہو گی؟

مولانا اللہ وسایا: میں درخواست کرتا ہوں کہ ابتدا میں تو مرزا غلام احمد قادیانی کے عقائد اور نظریات کا مطالعہ کرنے کے بعد حضرات علماء کرام نے یہی کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والے مسلم امت کا حصہ نہیں، وہ غیر مسلم ہیں۔ اور جو شخص اب قادیانیت کو اختیار کرتا ہے تو گویا وہ اسلام کو ترک کر کے قادیانیت کو قبول کر رہا ہے۔ اور قادیانیت کو وہ حضرات کفر قرار دے چکے ہیں۔ تو اسلام کو ترک کر کے کفر کو اختیار کرنا، تو یہی ارتداد کہلاتا ہے۔

عامر عثمانی: یعنی 1974ء کے فیصلے کے بعد، جو قومی اسمبلی سے یا پاکستان کے آئین میں جو چیز شامل ہوئی ہے، اس کے بعد ہم بات کر رہے ہیں؟

مولانا اللہ وسایا: میرے خیال میں ہم تو بہت پہلے کی بات کر رہے ہیں، یہ 1974ء تو ابھی آیا ہی نہیں تھا۔

عامر عثمانی: نہیں، ظاہر ہے میں نے اپنے سوال میں بھی یہ چیز شامل کی کہ تمام دستاویزات میں۔

مولانا اللہ وسایا: میں یہی درخواست کرتا ہوں کہ جس وقت کوئی قادیانی اسلام ترک کر کے قادیانیت کو قبول کرتا ہے، اور علماء قادیانیت کو کفر قرار دے چکے ہیں، تو اسلام کو ترک کر کے کفر اختیار کرنا، یہی ارتداد ہے۔ جس وقت ارتداد کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ارتداد ہے اور ارتداد کی سزا شریعت کے اندر قتل ہے اور بخاری شریف کے اندر بھی روایت موجود ہے کہ ’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘۔ اور مسٹر جسٹس تنزیل الرحمٰن آپ کے یہاں کراچی سے تعلق رکھنے والے تھے انہوں نے بھی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے، اور تقریباً‌ کوئی پچیس تیس حضرات نے اس عنوان پر کہ قادیانی مرتد ہیں اور مرتد کی شریعت کے اندر سزا یہ ہے، یہ انہوں نے فتاویٰ جات مرتب کیے، دستاویزات، وہ ایک ساتھ چھپ چکی ہیں اور ریکارڈ کا حصہ ہے۔

اس سے یہ معنیٰ نہیں ہے کہ شریعت یہ کہتی ہے کہ جہاں کہیں تمہیں کوئی مرتد مل جائے، پبلک قانون کو ہاتھ میں لیں اور ان کا قتلِ عام شروع کر دیں۔ وہ حضرت مولانا مینگل صاحب ہوں، یا میں، یا آپ۔ اگر کوئی اس کا یہ معنیٰ کرتا ہے تو یہ بالکل اسلام کی روح کے منافی ہے، قطعاً‌ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی، کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ لینے کی اجازت نہیں۔ ایک اسلامی مملکت، جو اسلامی مملکت ہو، وہاں پر اگر کوئی شخص ارتداد اختیار کرے تو جو اسلام کی عدالت ہے جب وہ فیصلہ دینے لگے گی تو اس جرم کی، مجرم کی سزا سوائے سزائے موت کے اور کوئی نہیں۔ یہ معنیٰ ہے۔

عامر عثمانی: لیکن ظاہر ہے یہ اختیار قانون کے پاس ہے، مملکت کے پاس ہے۔

مولانا اللہ وسایا: مملکت کے پاس ہے اور مملکت بھی باقاعدہ ان مراحل سے گزار کر کہ کیس درج ہو گا، اس کو توبہ کا موقع دیا جائے گا، اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو عدالت کے اندر جرم کو ثابت کیا جائے گا۔ عدالت فیصلہ دے گی اور حکومت اس کے اوپر عمل کرے گی۔ پبلک کے کسی آدمی کا قانون ہاتھ میں لے کر اس کو نافذ کرنا، یہ اسلام کی روح کے بھی منافی ہے اور آج تک کسی نے یہ نہیں کہا۔ اور میرے خیال میں خود حضرت مینگل صاحب کی بھی قطعاً‌ یہ مراد نہیں تھی، ممکن ہے الفاظ میں، گفتگو کے اندر کوئی جملہ ایسا آگیا ہو، تو ان کے بھی پیشِ نظر یہ بات نہیں ہو گی۔ یہ حکومتی معاملہ ہے، حکومت ہی اس پر عمل کر سکتی ہے، پبلک کو ایسے کرنے کی قطعاً‌ شریعت اجازت نہیں دیتی۔

عامر عثمانی: بہت شکریہ۔ حضرت، ایک چیز یہ کہی جاتی ہے کہ؛ ظاہر ہے جس محاذ اور جس مشن پر آپ حضرات کام کر رہے ہیں؛ اگر اُن کی آپ محنت دیکھیں، نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر اُن کی آپ لابنگ دیکھیں، دیگر چیزیں دیکھیں، اور پھر اس سے آپ اپنے کام کو کمپیئر کریں، تو میں بڑے حدِ ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ سوال کرنا چاہوں گا کہ عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کا نیشنل انٹرنیشنل لابنگ میں کیا کردار ہے کتنا کردار ہے؟ نمبر ایک۔ اور نمبر دو، عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت ہر سال ستمبر کے مہینے میں ختمِ نبوت پر جلسے جلوس ریلیاں کانفرنسز کے علاوہ پورا سال کیا ان کا مشغلہ رہتا ہے؟

مولانا اللہ وسایا: میں درخواست کرتا ہوں، قادیانی ساری دنیا کے اندر جتنے بھی متحرک ہوں، ان کے تمام تر تحرک کے باوجود، یا ان کی کوشش اور کاوش کے باوجود، واقعہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایک بھی کام ایسا نہیں بتایا جا سکتا کہ جس میں قادیانیوں نے کامیابی حاصل کی ہو۔ امت کو، اسلام یا اہلِ اسلام کو شکست ہوئی ہو۔ کوئی ایک بطور سیمپل کے بھی ایک واقعہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔

اب میں سب سے پہلے آنا چاہتا ہوں اپنے ملکِ عزیز پاکستان کی طرف۔ ایک وقت تھا کہ قادیانی فتنہ سے متعلق اگر ہم یہاں پر کوئی گفتگو کرتے تھے منبر و محراب پر تو ہم پر کیس چلتے تھے کہ تم نے قادیانیوں سے متعلق ایسی گفتگو کیوں کی؟ اور آج پوزیشن یہ ہے کہ ہماری مملکتِ پاکستان کا پریزیڈنٹ اور پرائم منسٹر اپنے عہدے پر اس وقت تک وہ فائز نہیں ہو سکتا، صدارت اور وزارت کی کرسی نہیں سنبھال سکتا، جب تک کہ اپنے حلف نامہ میں عقیدۂ ختمِ نبوت کا اقرار، اور مرزا قادیانی کے کفر سے متعلق حلف نامے کے اندر وہ اس کا اقرار اور اس پر دستخط نہ کرے۔

عامر عثمانی: مگر اس میں سوال تو یہ ہے کہ یہ تو وہ کام تھا جو بڑے کر کے چلے گئے۔ یہ تو ظاہر ہے اگر آج صدرِ مملکت اس اقرار کے بغیر اپنی کرسی پر نہیں جا سکتے تو یہ وہ کام تھا جو آئین میں بڑے کر کے چلے گئے، اس کے بعد کیا ہوا؟

مولانا اللہ وسایا: جزاک اللہ۔ میں یہی درخواست کرتا ہوں کہ یہ اسی تسلسل کا نتیجہ ہے کہ لوئر کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک یہ 1974ء کے بعد ہوا۔ 1974ء میں آئین کی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے اندر ایک نہیں اٹھارہ بیس کیس آئے اور سنگل بینچ نہیں پانچ رکنی لارجز بینچ نے بیٹھ کر قادیانیوں کے متعلق فیصلے دیے۔ اس کے بعد انڈونیشیا میں قادیانیوں سے متعلق سرکاری سطح پر فیصلہ آیا، بنگلہ دیش کی عدالت نے قادیانیوں کے خلاف فتویٰ دیا ہے، جوہانسبرگ میں۔

اور اس وقت روئے زمین پر پوزیشن یہ ہے کہ کوئی مسجد، مدرسہ، خانقاہ، دینی ادارہ، پوری دنیا کے اندر انٹرنیشنل لیول پر کام کرنے والے جتنے دینی ادارے ہیں، کسی بھی مسلک اور عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں مسلم، تو وہ تمام قادیانی کفر سے آگاہ ہیں۔ اور پوری دنیا میں اب قادیانیوں کے ساتھ معاملہ یہی کیا جا رہا ہے کہ کوئی ان کو مسلمانوں کی کیٹاگری میں قبول نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ خود برطانیہ کی گورنمنٹ کو بھی پتہ ہے کہ قادیانی وہ لابی ہیں کہ جن کو مسلمان اپنے بدن کا، اپنی تحریک کا، یا اسلام کی تنظیم کا حصہ نہیں سمجھتے۔ تو قادیانیت کو ہر جگہ شکست ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے۔

آپ کا یہ ارشاد فرمانا کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ 

مجلس تحفظ ختمِ نبوت نے ایک تو کام یہ کیا کہ ابتدا سے قادیانیوں کے متعلق جو تحریری کام شروع ہوا ہے اِس وقت تک، اُس کی ایک سو جلد اور چودہ پندرہ سو کے لگ بھگ کتابیں وہ ’’احتسابِ قادیانیت‘‘ اور ’’محاسبۂ قادیانیت‘‘ کے نام پر ان کو شائع کیا اور یہ انسائیکلوپیڈیا تیار کیا۔ اور یہ اس تحریک کے بعد ہوا ہے۔

قادیانیوں سے متعلق قومی اسمبلی کی جو کارروائی تھی اس ساری کارروائی کو وہاں نیشنل اسمبلی سے سرکاری سطح پر گورنمنٹ نے اس کو پرنٹ کیا۔ اس کو ری پرنٹ کر کے ساری دنیا کے اندر تقسیم کرنا، انگریزی کے اندر اس کا ترجمہ ہو جانا، عربی کے اندر اس کا ترجمہ ہو رہا ہے، اردو کے اندر چھپ جانا، بنگلہ زبان کے اندر اس کا ترجمہ ہو جانا، یہ وہ اقدامات ہیں کہ کل تک جو قادیانی کہتے تھے کہ کہاں پر ہے قومی اسمبلی؟ تو ہم نے ان کے چیلنج کو بھی قبول کیا، امت کی ایک ضرورت کو بھی پورا کیا۔

اسی طرح میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں قادیانیت سے متعلق دنیا کی کسی عدالت میں کیس پیش ہوا تو وہاں پر مجلس تحفظ ختمِ نبوت نے اپنے نمائندگان کو بھیج کر اسلام اور مسلمانوں کی صرف نمائندگی کا اعزاز حاصل نہیں کیا بلکہ امت اور مسلمانوں کو کامیابی کی چٹان پر اور یقین پر بھی جا کھڑا کیا ہے۔

عامر عثمانی: اس وقت آپ کے پاس، اگر پاکستان کی سطح پر بات کی جائے یا انٹرنیشنلی، کوئی اعداد و شمار، فیکٹس اینڈ فگرز ہیں؟ اس چیز کے کہ کتنے لوگ وہاں سے یہاں کنورٹ ہو رہے ہیں یا یہاں سے وہاں کنورٹ ہو رہے ہیں؟

مولانا اللہ وسایا: اس کے لیے مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کی خدمت میں یہ درخواست کروں کہ یہ تو ہمیشہ سے ہو رہا ہے۔ کوئی فگر بتانی متعین، یہ تو بہت مشکل ہوگا، اس لیے کہ بہت سارے قادیانی ایسے ہیں کہ جو قادیانی نہیں رہے، لیکن ان کے شادی بیاہ کے، ان کے رشتوں کے، کاروبار کے؛ قادیانیت کا سسٹم ایسا ہے کہ اگر وہ علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں، مسلمان ان کو قبول کریں نہ کریں، قادیانی تو ان کو باہر نکال کریں گے، پھر وہ نہ یہاں کے رہیں گے نہ وہاں کے۔ تو کچھ ایسے ہیں کہ وہ قادیانی نہیں لیکن یہ کہ علی الاعلان انہوں نے ایمان اور اسلام کا اعلان بھی نہیں کیا، ایک ضرورت کے تحت۔

عامر عثمانی: اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ان پسماندہ اور دیہی علاقوں کے اندر جا کر ان لوگوں نے محنت کی ہے مسلمانوں پر؟

مولانا اللہ وسایا: کنہوں نے؟

عامر عثمانی: قادیانیوں نے، ظاہر ہے ان کی لابیز نے، ان کی تو لابنگ مختلف حوالوں سے؛ مثال کے طور پہ اگر انٹیریئر سندھ کے کسی اندر کے علاقے کے اندر کسی مسلمان کو گھر کی ضرورت ہے، اس کے پاس پہننے کے لیے کپڑا نہیں ہے، کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے، نیچے پہننے کے لیے اس کے پاس چپل نہیں ہے، سائے کے لیے گھر نہیں ہے، اگر یہ ساری چیزیں اس کو فراہم کر دی جائیں تو میرا خیال ہے ایک بھوکا ننگا انسان، اگر اس کو جو آدمی یہ چیزیں مہیا کرے گا، اس کا خدا تو وہی ہو گا۔

مولانا اللہ وسایا: میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ دو چیزیں بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ایک یہ ہے کہ جتنی رفاہی۔

عامر عثمانی: اچھا میں نے جو یہ سوال کیا اس میں، معذرت قطع کلامی کے لیے، یہ بھی ساتھ بتا دیجیے کہ کیا اس لیول پہ عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کا بھی ان علاقوں کے اندر کوئی نیٹ ورک، کوئی کام کی ترتیب، فلاحی رفاہی جو ہوتے ہیں طریقے، اگر یہ لوگ جا کے کرتے ہیں تو کیا آپ حضرات کا بھی ہے سسٹم کوئی؟

مولانا اللہ وسایا: میں یہی درخواست کرتا ہوں کہ یہ بالکل علیحدہ علیحدہ سوالات ہیں اور ہم نے تین چار سوالوں کو گڈمڈ کر لیا۔

پہلی میری بات یہ ہے کہ قادیانیت کے تبلیغ کا انداز کیا ہے؟ same ان کا انداز وہی ہے جو عیسائی مشنریوں کا تھا۔ ہسپتالوں کے نام پر، لوگوں کے رفاہِ عامہ کے نام پر۔ اور یہ قادیانی کی کوئی نئی ترتیب نہیں، ہمیشہ کفر یہ حربے استعمال کرتا ہے۔ مسیحی تنظیموں کا یہاں پر، مسیحی اداروں کا، خود متحدہ ہندوستان میں تقسیم سے پہلے جس وقت یہاں پر انگریز کی حکومت تھی، اُس وقت سے لے کر اِس وقت تک رفاہی کاموں کے نام پر انہوں نے عیسائیت کو آگے پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ قادیانی بھی اسی ڈگر پر اپنی تبلیغ کرتے ہیں، میں اس سے انکار نہیں کر رہا۔ باہر کی دنیا میں قادیانی رفاہی سکولوں کے نام پر، ہیلتھ کے نام پر لوگوں کی مدد وغیرہ کرتے ہیں۔

مجلس تحفظ ختمِ نبوت یا ہمارے جتنے رفاہی ادارے ہیں یہ تمام تر رفاہی ادارے اللہ کے فضل و کرم سے مشرق سے لے کر مغرب تک کہیں پر یہ بے خبر نہیں ہیں کہ ان غریب لوگوں کی مدد نہ کی جائے۔ سیلاب زدگان ہیں ان کی مدد نہ کی جائے۔ یہ فلسطین کے مسلمانوں پر آفت آئی ہے۔ کشمیر کے مسلمانوں پر آفت آئی ہے۔ کہیں پر انہوں نے شدھی کی تحریک چلائی ہو اور ان کو مرتد بنانے کی کوشش کی ہو۔

عامر عثمانی: مگر حضرت کیا وجہ ہے کہ ان کی ایکٹیویٹی سرگرمیاں تو نظر آ جاتی ہیں، مجلس تحفظ ختمِ نبوت کی سرگرمیاں اس انداز میں نظر نہیں آتیں۔

مولانا اللہ وسایا: میرے خیال میں آپ مجلس تحفظ ختمِ نبوت کی بجائے امت کا لفظ استعمال کریں، اس لیے کہ میں اس وقت مجلس تحفظ ختمِ نبوت کی نمائندگی نہیں کر رہا … کام کرنے کے حوالے سے میں یہ درخواست کرتا ہوں کہ جب بھی کبھی اس طرح کفر نے یلغار کی ہے تو اس وقت کے اہلِ اسلام اس سے کبھی بھی بے خبر نہیں رہے۔ ایک ایک عنوان کو آپ لے لیں تو جو اس کے تقاضے تھے، عنوان چاہے کچھ ہو، ٹائٹل چاہے کچھ ہو، لیکن امت کبھی اس سے بے خبر نہیں رہی اور امت نے ہمیشہ مسلمانوں کے ایمان اور اسلام کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ اور قادیانی اپنی تمام تر سرگرمیوں کے باوجود، نمایاں طور پر انہوں نے کوئی ایسا اقدام کیا ہو کہ جس کی وجہ سے علاقوں کے علاقے قادیانی ہو گئے ہوں؟ یا یہ کہ ان کی اس کارروائی کی وجہ سے امت کے لیے کوئی مشکل کھڑی ہو گئی ہو، ان کے لیے راستہ بند کر دیا گیا ہو، امت کو کسی بند گلی کے اندر دھکیل دیا گیا ہو؟ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی اللہ کے فضل سے امت کے لیے یہ مشکل وقت کبھی نہیں آیا؟

ہمارے حضرت مولانا سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میرا قادیانیوں کے ساتھ مقابلہ ہے۔ فرمایا، میرا قادیانیوں کے ساتھ مقابلہ نہیں، میرا ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ ہے جو قادیانیت کی پشت پر ہیں، کہ میں قادیانیت کی دُم پر پاؤں یہاں رکھتا ہوں، ان کی چیخ امریکہ یا برطانیہ کے اندر سنائی دیتی ہے، فرانس کے اندر سنائی دیتی ہے، ساری سپر پاور طاقتیں ان کی پشت پر کھڑی ہیں۔ تو ان کو اتنی سپورٹ کے باوجود۔

یہ ہمارے ملک کے نامور سائنسدان تھے جناب اپنا عبدالقدیر خان، ان کی کتاب کے اندر بھی یہ حوالہ موجود ہے۔ اور خود جناب بھٹو صاحب بھی۔ بھٹو صاحب نے بھی کہا تھا، ان کا انٹرویو بھی موجود ہے، ان سے متعلق جو کتابیں چھپیں، آخری دنوں میں جن دنوں جیل کے اندر تھے، انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’میں ایک دفعہ امریکہ گیا تھا اس وقت قادیانی سے متعلق کیس ہمارے ملک کے اندر چل رہا تھا تو امریکہ نے واضح طور پر مجھے یہ کہا تھا کہ قادیانی ہماری لابی ہے ان کا خیال رکھنا۔‘‘

اور اسی طرح ان طاقتوں کی قادیانیوں کو سپورٹ ہونی اور اس کے باوجود قادیانیوں کا ہر میدان کے اندر شکست کھانا، تو آپ صرف اسی ایک نکتے پر غور کریں، تو اللہ رب العزت کا فضل ہے کہ ٹائٹل چاہے کچھ ہو قادیانیت کے مقابلے میں امت نے کبھی شکست نہیں کھائی، ہر محاذ پر کامیاب ہوئی۔ مثلاً‌ اسی آپ پارلیمنٹ کے فیصلے کو لے لیں کہ پارلیمنٹ کا فیصلہ سات ستمبر 1974ء کو ہوا۔ آج آپ میں بیٹھے ہیں 2025ء میں، 51 سال ہو گئے۔ اور وہ زمانہ تھا جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا۔ بھٹو صاحب کے بعد ضیاء صاحب آئے، جونیجو صاحب آئے، محترمہ بے نظیر آئیں، جناب نواز شریف آئے،

عامر عثمانی: درجنوں لوگ آئے اور چلے گئے۔

مولانا اللہ وسایا: معین قریشی آئے اور خاقان عباسی صاحب آئے، ریاض گیلانی صاحب آئے، جمالی صاحب آئے، فلاں صاحب آئے، وہ جناب نیازی صاحب آئے، کاکڑ صاحب آئے، شہباز شریف صاحب ہیں، آج کوئی ہے کل کوئی۔ تو اس 50 سال میں ایک بھی لمحہ ایسا نہیں آیا کہ روئے زمین کی کافر مملکتوں کے اقتدار کے دروازے پر قادیانیوں نے ناک نہ رگڑا ہو، اپنی پیشانی زخمی نہ کرائی ہو، اور ان مملکتوں سے منت معذرت کر کے پاکستان پر دباؤ نہ ڈالا ہو۔ جتنے حکمران ہیں ان سب کو کہتے رہے کہ آپ پاکستان گورنمنٹ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس قانون کو ختم کر دیں۔ اس قانون سے متعلق ترمیم کر دیں۔ الفاظ باقی رہ جائیں اس کی روح نکال دی جائے۔ اس کا پروسیجر تبدیل کر دیا جائے۔ یہ اس کی بجائے یوں کر لیا جائے۔ ہزار کوشش کرتے رہے۔

اور میں آج کی مجلس میں آپ کے سامنے یہ عرض کرتے ہوئے دلی خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ایک آدھ دن کی بات نہیں نصف صدی کی یہ لڑائی ہے، اکاون سال کی یہ لڑائی ہے، اور دنیا کا ایک کافر ملک نہیں روئے زمین کے پورے کفر نے مل کر کوشش کی کہ یہ قانون ختم ہو جائے، اور قادیانی نے لابنگ کی۔ لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ہے، قانون ختم کرنا تو رہا درکنار، آج تک کوئی ماں کا لال اس کی زیر اور زبر، مد اور شد کے اندر بھی تبدیلی نہیں کرا سکا۔ تو یہ جو قانون؛ اور آج تک کے ہمارے مذہبی مطالبات میں سے کسی بھی دینی ادارے، جماعت کے اتنے مطالبات نہیں مانے گئے جتنے اس پلیٹ فارم کے مانے گئے۔

اور جس وقت میں کہتا ہوں کہ ختمِ نبوت کے عنوان پر مانے گئے، یہ مطالبات تسلیم کیے گئے، اس وقت میری مراد مجلس تحفظ ختمِ نبوت نہیں ہوتی، اس لیے کہ میں کریڈٹ کا بھی بھوکا نہیں، ساری دنیا کے کام کو مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے کھاتے میں ڈالوں ایسے بھی نہیں، مجلس کا یہ مزاج بھی نہیں۔ ہم نے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، شیعہ، اس عنوان پر کام کرنے والے تمام تر مسلمانوں کو ایک ساتھ لے کر جدوجہد کی ہے اور اس کے نتیجے میں حق تعالیٰ نے ہمیں ان کامیابیوں سے نوازا کہ آج آپ کے اس پروگرام کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ خوشخبری دی جا سکتی ہے کہ اس وقت حالات ایسے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس قانون کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا تو قانون کو ختم کرنے والے تو شاید نہ رہیں، قانون رہے گا، اس وقت یہ پوزیشن ہے۔

عامر عثمانی: میں جو اگر بارہا عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کا یہ لفظ استعمال کر رہا ہوں، وہ ظاہر ہے اس لیے کر رہا ہوں کہ آپ کا ایک تعلق، ایک واسطہ، تحریکی زندگی تو اسی سینس میں ہے۔ باقی تو ظاہر ہے کہ کون مسلمان ہو سکتا ہے کہ جو نعوذ باللہ قادیانیت کے بارے میں یا قادیانی کے بارے میں کوئی ایسا عقیدہ رکھے، یا ختمِ نبوت کے حوالے سے اس کے دل و دماغ میں کوئی چیز ہو۔ بہرحال آپ نے جو گفتگو کی اسی کے اندر میں ایک اور سوال یہ بھی شامل کرنا چاہوں گا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ملکِ پاکستان کے اندر قادیانیت کے حوالے سے مزید کسی قانونی چارہ جوئی کی اس وقت ضرورت ہے، آپ کو محسوس ہوتا ہے؟

مولانا اللہ وسایا: میں درخواست کرتا ہوں کہ جس وقت قادیانیوں سے متعلق ترمیم پارلیمنٹ کے اندر منظور ہوئی اور وہ 50 سال سے لاگو ہے، تو یہ آئین کے اندر تو ترمیم کر دی گئی، اس پر قانون سازی نہیں ہو سکی تھی۔ وہ قانون سازی پھر جنرل ضیاء الحق صاحب کے زمانہ میں ہوئی۔ یہ فیصلہ پارلیمنٹ نے جو دیا تھا متفقہ وہ سات ستمبر 1974ء کا تھا۔ ضیاء صاحب کے زمانے میں 26 اپریل 1984ء کو امتناعِ قادیانیت آرڈیننس منظور ہوا، جس کو تحفظ پھر اٹھارہویں ترمیم کے اندر دیا گیا۔ تو اب آئینی طور پر قادیانیوں سے۔

عامر عثمانی: امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کا کیا خلاصہ تھا؟ میں چاہتا ہوں ناظرین کے لیے یہ بھی سامنے آئے۔

مولانا اللہ وسایا: جی، اس کا یہ تھا کہ قادیانیوں پر پابندی لگا دی گئی کہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ قادیانیوں پر پابندی لگا دی کہ مرزا غلام محمد قادیانی کو تم نبی، رسول، علیہ السلام نہیں کہہ سکتے۔ مرزا قادیانی کے دیکھنے والوں کو تم صحابی نہیں کہہ سکتے۔ مرزا قادیانی کے دیکھنے والوں کے لیے تم رضی اللہ کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے کہ یہ اصطلاح اسلام کی ہے، قادیانیوں کی نہیں۔ مرزا غلام احمد کی بیویوں کو تم امہات المومنین نہیں کہہ سکتے۔ قادیانیت کی اسلام کے نام پر تم تبلیغ نہیں کر سکتے۔

عامر عثمانی: شعائرِ اسلامی کا استعمال بھی قادیانی نہیں کر سکتے۔

مولانا اللہ وسایا: تمام تر یہ چیزوں پر پابندی لگ گئی اور ایک دو نہیں؛ خود اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی سفارشات مانگی گئیں۔

عامر عثمانی: اس میں بنیادی تمام شعائرِ اسلام شامل ہیں۔ ظاہر ہے قربانی، عید، نماز، یہ ساری چیزیں اس کے اندر شامل ہیں۔

مولانا اللہ وسایا: بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اس آرڈیننس کے اندر وضاحت اور صراحت کے ساتھ الفاظ موجود ہیں۔

عامر عثمانی: جیسا کہ؟

مولانا اللہ وسایا: جیسا کہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ جیسا کہ قادیانی۔

عامر عثمانی: وہ جو صراحت کے ساتھ موجود نہیں ہے، کنایتاً‌ ہے، تو وہ کیا ہے، مسلمانوں کا نام رکھ سکتے ہیں قادیانی؟

مولانا اللہ وسایا: نہیں، میں یہی عرض کرتا ہوں کہ اس کے اندر ایک لفظ یہ بھی ہے کہ قادیانی کوئی ایسی تحریر، مرئی نقوش کے ذریعے، کوئی ایک ایسا دعویٰ نہیں کر سکتے جس سے کہ ان کا مسلمان ہونا سمجھا جائے۔ ہے قادیانی (لیکن) کوئی ایسی علامت، نشانی، مرئی نقوش یا غیر مری نقوش کے ذریعے، کوئی ایسا وہ اپنا اقدام کرتا ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ یہ مسلمان ہے۔ مثلاً‌ مسلمانوں والا نام، مثلاً‌ یہ کہ جو السلام علیکم کہنا، مثلاً‌ یہ کہ علی الاعلان قربانی کرنا۔ تو یہ ساری چیزیں اس کے اندر، اس لیے کہ یہ چیزیں مسلمانوں کے شعائر ہیں۔

عامر عثمانی: یہ قانون کا حصہ بن چکی ہیں؟

مولانا اللہ وسایا: بالکل بن چکی ہیں جی۔ اور جب کبھی بھی عدالت میں یہ چیزیں زیر بحث آئیں کہ ’’اِس چیز کا تو تذکرہ نہیں ہے، تو آپ اِس کو کیسے شامل کرتے ہیں؟‘‘ تو انہوں نے کہا کہ جناب یہ۔

عامر عثمانی: اصل میں جب یہ بات ہوتی ہے، سوشل میڈیا پر چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اور بہت سارے ایسے وِنگ کے لوگ بھی تو ہیں جو تھوڑا سا سپورٹ میں جا کر کہتے ہیں کہ جی اس میں کیا مسئلہ ہے، اگر وہ قربانی کر رہے ہیں تو اس سے مسلمانوں کو کیا تکلیف ہونی چاہیے؟ لیکن ظاہر ہے ایک چیز پاکستان کے آئین کا حصہ، قانون کا حصہ ہے، تو پھر کیسے؟

مولانا اللہ وسایا: میں یہی تو درخواست کرتا ہوں کہ انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ کوئی ہندو قربانی کا نام نہیں لیتا، کوئی سکھ جو ہے وہ قربانی کا نام نہیں لیتا، کوئی پارسی قربانی کا نام نہیں لیتا۔ قربانی کرنا یہ تو صرف اسلام اور اہلِ اسلام کا شعار ہے، کفر کا نہیں۔ تو قادیانی جب کافر ہیں تو مسلمانوں کے شعار کو استعمال کر کے وہ مسلمانوں کی حیثیت کو مجروح کر رہے ہیں، مسلمانوں کے ٹائٹل کو وہ مجروح کر رہے ہیں۔ تو قانون کے اعتبار سے ان کو اجازت نہیں۔

اور یہی بات مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے فیصلے میں بھی ڈسکس ہو کر آگئی اور انہوں نے کہہ دیا۔ اس کے اندر ایک جملہ ہے، آپ اس کو دیکھیں تو تمام تر ان سوالات کے جوابات کے اندر وہی ایک کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قادیانی اقلیتوں کے حقوق تو مانگتے ہیں، خود کو اقلیت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا فرض بنتا ہے کہ جو آئین نے ان کی حیثیت متعین کی ہے اپنی آئینی حیثیت کو متعین کریں۔ اس آئینی حیثیت کے مطابق جو آئین ان کو رعایات دیتا ہے سہولتیں دیتا ہے، وہ ساری مملکت بھی سٹیٹ بھی ان کو دینے کے لیے تیار ہے، ان کا حق ہے۔

عامر عثمانی: یہ جو شعائرِ اسلامی اور ان تمام چیزوں کی امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کے حوالے سے جو ہم نے بات کی، اس میں اگر کہیں سے کوئی چیز آتی ہے سامنے، جیسے مثال کے طور پہ گزشتہ سال بھی ہوا، کراچی کے اندر واقعات ہوتے ہیں، دیگر جگہوں کے اندر ہوتے ہیں، تو کیا آپ اس کو جائز سمجھتے ہیں؟ یا اس کی کسی صورت میں آپ اجازت دیں گے کہ کسی mob (جتھے) کی شکل میں جائیں لوگ اور آگ لگا دیں، جلا دیں، چیزیں کر دیں؟ یا یہ بھی قانونی راستے سے ان چیزوں کو روکنا چاہیے؟

مولانا اللہ وسایا: پہلے تو آپ یہ سمجھیں، جہاں کہیں اس طرح کی کوئی اشتعال انگیزی ہوتی ہے، پبلک اکٹھی ہوئی، انہوں نے کسی پر دھاوا بول دیا، کوئی عبادت گاہ گرا دی، قادیانیوں کا محاصرہ کر لیا۔ ہمیشہ سے اِس وقت تک تاریخ؛ ایک بھی واقعہ اس سے میرے خیال میں مستثنیٰ نہیں ہوگا کہ جہاں پر بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے ابتدا میں قادیانی حضرات کی شر انگیزی اور قانون شکنی اور ان کے فساد کی بنیاد رکھنے کی بنیاد پر ردعمل میں یہ ہوتا ہے۔

عامر عثمانی: یعنی آغاز اُن کی طرف سے ہوتا ہے۔

مولانا اللہ وسایا: آغاز اُن کی طرف سے ہوتا ہے۔ مثلاً‌ ان کو کہا گیا کہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ پندرہ بیس مسلمان بیٹھے ہیں اور قادیانی دھڑلے کے ساتھ جا کر کہتا ہے کہ ’’تم تو آئینی مسلمان ہو، ہم حقیقی مسلمان ہیں‘‘۔ اب جب یہ گفتگو کرے گا تو وہاں پر فساد تو کھڑا ہوگا۔ اور پھر قادیانی پراپیگنڈا۔ اور قادیانی یہ محض اس لیے کرتے ہیں کہ ہمارے متعلق تحریک چلتی رہے، کہیں نہ کہیں کوئی فتنہ فساد کا دھواں اٹھتا رہے اور ہم باہر کے ویزے حاصل کر سکیں۔ خود قادیانی عیار قیادت وہ محض اپنے ٹکے کھرے کرنے کے لیے قادیانیوں کو انگیخت کرتی ہے کہ تم کوشش کرو، کوئی ایسا اقدام کرو کہ تمہارے خلاف کوئی کیس بنے، ایف آئی آر ملے، اور اس کی بنیاد پر تمہیں باہر کا ویزہ لے کر دیں۔ تو ان تمام تر؛ جہاں کہیں بھی اس طرح کی کوئی ہنگامہ آرائی ہوئی اس کے پیچھے؛ تاریخ یہ ہے کہ اس کے پیچھے ابتدا میں قادیانی سازش ہوتی ہے۔ ردِعمل میں مسلمان اکٹھے ہوئے، تو مسلمان اکثریت میں ہیں تو قادیانیوں کا رگڑا زیادہ لگ جاتا ہے، پھر وہ چیخنے لگ جاتے ہیں، لیکن شرارت کی ابتدا وہ کرتے ہیں۔ نمبر ایک۔

چاہے شرارت کی ابتدا وہ کریں، چاہے اس کا کوئی سبب بنے، لیکن یہ بات بہرحال اپنی جگہ مسلّم ہے کہ قادیانیوں کے متعلق جو بھی مسلمانوں نے قدم اٹھانا ہے، یا اٹھانا چاہیے، یا اٹھاتے ہیں، انہیں ہمیشہ قانون کو سامنے رکھ کر اٹھانا چاہیے۔ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پبلک کھڑا کرے، ان کے لیے بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ اس ملک کو مستحکم دیکھنا، قانون کی پاسداری کرنی، یہ ایک مملکت کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ہمارے ذمہ ہے، اس سے بالکل نہ انکار کیا، نہ کرتے ہیں۔

عامر عثمانی: بہت شکریہ، یہ بتائیے گا حضرت کہ کیا اس وقت آپ پوری surety کے ساتھ، اطمینانِ قلبی کے ساتھ، یا شرح صدر کے ساتھ یہ بات کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی تعلیمی اداروں کے نصاب کے اندر کوئی ایسی چیز ہمارے بچوں کو نہیں پڑھائی جا رہی جو اس طرف لے کے جا رہی ہے؟

مولانا اللہ وسایا: میں یہ تو نہیں کہتا کہ پاکستان کا سارا نصابِ تعلیم خالصتاً‌ اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے، یہ تو میں نہیں کہہ سکتا۔ آپ میرے خیال میں۔ یہ ’’آپ‘‘ کا لفظ میں غلط استعمال کر رہا ہوں، ہم سب مل کر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کے سارے قانون اسلام کے مطابق ہیں۔ مملکت اسلامی ہے، اصولی طور پر طے ہے کہ یہاں کا کوئی قانون۔

عامر عثمانی: میں صرف specifically اس عنوان پہ بس۔

مولانا اللہ وسایا: میں اسی پہ؛ یہ طے ہے کہ کوئی قانون قرآن اور سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ لیکن ساتھ اس وقت یہ مسلمانوں کی حکومت ہے، یہ تو ہم سبھی تسلیم کرتے ہیں، لیکن یہ کہ یہاں پر اسلام کی حکومت ہے سو فیصد، یہ تو شاید حکومت بھی دعویٰ نہ کرتی ہو۔ بہت ساری چیزیں ہماری قابلِ اصلاح ہیں۔ سو قادیانیت کے متعلق بھی ہماری یہی پوزیشن ہے۔ علی الاعلان کوئی ایسی نصابِ تعلیم کے اندر بات ہو جو خالصتاً‌ ختمِ نبوت کے خلاف ہو، ہمارے، امت کے نوٹس میں آئی ہو اور امت نے اس پر احتجاج کر کے اس مصیبت پر قابو نہ پایا ہو، اس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔

عامر عثمانی: علی الاعلان تو ظاہر ہے کیسے ہو سکتی ہے اسلامی مملکت کے اندر، لیکن ظاہر ہے خفیہ کا بھی تو۔

مولانا اللہ وسایا: میرے خیال میں نصاب تو کبھی بھی خفیہ نہیں ہوتا، ذرا سوال میں ترمیم کر لیں تو بہت اچھا رہے گا۔

عامر عثمانی: نہیں، کوئی اگر ایسی چیز ہے۔

مولانا اللہ وسایا: نصاب جو پڑھایا جاتا ہے، آپ اسے خفیہ کیسے کہہ سکتے ہیں، یا میں کیسے کہہ سکتا ہوں؟

عامر عثمانی: اچھا یہ آپ شورٹی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے اندر کلیدی عہدے ہوں، یا غیر کلیدی عہدے ہوں، وہاں پر کوئی قادیانی اس وقت براجمان نہیں ہے؟

مولانا اللہ وسایا: میں نے تو اس کا دعویٰ نہیں کیا۔ قادیانی ہوں گے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ قادیانی نہیں ہیں۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ قادیانی اپنی آبادی سے زیادہ عہدے لے رہے ہیں۔ اور قادیانیوں کی جتنی تعداد ہے وہ اپنی اس تعداد کے اعتبار سے زیادہ عہدے لے رہے ہیں، زیادہ ملازمتیں کر رہے ہیں، زیادہ ان کو حقوق حاصل ہیں، زیادہ وہ اپنا کاروبار کر رہے ہیں دھڑلے کے ساتھ۔ پاکستان کے اندر کوئی ان کے اوپر قدغن نہیں۔ لیکن یہ بات میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ بڑے سے بھی بڑا قادیانی ہو، اب وہ چاہے کسی بھی ادارے کے اندر ہو، وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر مرزا غلام احمد کی وکالت کا کردار ادا نہیں کر سکتا، علی الاعلان۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور ہم یہی چاہتے ہیں۔

عامر عثمانی: تھوڑا سا میں حضرت ان سوالات کی طرف آؤں گا، جب ہم نے آپ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر لکھا۔ تو سوالات ہیں، میں as it is وہ پڑھ کر آپ کو سناؤں گا، آپ اس میں سے کسی پر بات کرنا چاہیں۔

مولانا اللہ وسایا: ایک ایک کرتے جائیں۔

عامر عثمانی: جی جی، ایک ایک، ون بائی ون۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ آج کے دور میں عقیدۂ ختمِ نبوت کو نئی نسل کے دلوں میں راسخ کرنے کے لیے علماء اور والدین کو کیا عملی اقدامات کرنے چاہئیں؟

مولانا اللہ وسایا: یہی ہے کہ جو ابتدائی بنیادی آگاہی ہوتی ہے، اپنے بچوں کو ہم دینِ اسلام کے متعلق دیتے ہیں، ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ عقیدۂ ختمِ نبوت کی اہمیت بھی ان پر واضح کرے۔

عامر عثمانی: میں نام نہیں لوں گا، ایک دوسرے صاحب لکھتے ہیں کہ سوال تو نہیں تاہم نیاز مندانہ مؤدبانہ دست بستہ التماس ہے کہ شاہینِ ختمِ نبوت بن کر صرف قادیانیوں کی ہی بوٹیاں نوچیں، حضرت بعض دفعہ اپنوں کے خلاف ہی بلڈ پریشر ہائی کر بیٹھتے ہیں، اور ایسا ہائی کرتے ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہے۔

مولانا اللہ وسایا: ہاں، ان کی اس تمام تر محبت بھری زبان کے باوجود، میں اس وقت بھی بڑے صبر اور تحمل کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ یہ قادیانیوں کی ہم بالکل بوٹیاں نہیں نوچتے۔ ہم قادیانی عقائد اور نظریات کے دشمن ہیں، قادیانیوں کے نہیں۔ قادیانیوں کو ہم تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دن کو اگر ان کے خلاف ہم تبلیغ کرتے ہیں، اللہ توفیق دے تو رات کو ان کی ہدایت کی دعا بھی کرتے ہیں۔ اور اگر قادیانیت کی ہم بوٹیاں نہیں نوچتے اور کوئی مجھ پر یہ کہے کہ مسلمانوں کی نوچتے ہیں، تو میرے خیال میں انہیں اس کرم فرمائی پر خود گھر میں بیٹھ کے غور و فکر کر لینا چاہیے کہ وہ مجھ مسکین پر کیا الزام لگا رہے ہیں۔

عامر عثمانی: ایک صاحب لکھ رہے ہیں کہ ختمِ نبوت کا منکر کئی طرح سے عقیدہ ختمِ نبوت پر وار کرتا ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، اس حوالے سے حضرت کیا کہیں گے؟

مولانا اللہ وسایا: میں درخواست کرتا ہوں کہ ہمیشہ سے ہمارے اکابر نے کام کی تقسیم کی ہے۔ مثلاً‌ ایک تبلیغ کا کام ہے۔ تعلیم کا کام ہے۔ تعلیم کا کام ہمارے دینی مدارس وفاق المدارس کے ساتھ ہے۔ اس ملک کے اندر اسلامی نظام کے حوالے سے کوشش کرنی یہ جمعیۃ علماء اسلام کے ذمہ ہے۔ اور دیگر جو فتنے ہیں دیگر جو غلط نظریات ہیں اسلام کے خلاف، ان کے خلاف بھی کام کرنے کے لیے جماعتیں اور ادارے ہیں۔ مجلس تحفظ ختمِ نبوت کی بھی تقسیم کار کر کے انہی اکابر نے، جنہوں نے تبلیغ جماعت کی بنیاد رکھی، جنہوں نے جمعیۃ علماء اسلام کی بنیاد رکھی، اس سے کہیں پہلے انہوں نے مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے لیے بھی ایک لائن متعین کر دی، ہمارے کام کی ایک ترتیب بیان کر دی۔ تو جن دوستوں کے ذمے جو کام ہے وہ اپنا کام نہ کر پائیں اور ہمیں کہیں کہ آپ اپنا کام چھوڑ کر اس طرف آجائیں، تو میرے خیال میں وہ اُس کام کی طرف ہمیں متوجہ نہیں کر رہے، اِس کام سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔

عامر عثمانی: ایک صاحب لکھ رہے ہیں کہ؛ پہلے تو انہوں نے سلام کیا ہے، پھر وہ لکھتے ہیں ایک مرتبہ حضرت، گولڑہ کے جانشین گدی نشین کے قدموں میں بیٹھے تھے، اس کی کیا وجہ تھی؟ حالانکہ وہ تو علم سے تقریباً‌ خالی ہیں۔

مولانا اللہ وسایا: برادر، برادر، ہمارے حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہم، یا حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ، یا حضرت مولانا قاری محمد حنیف صاحب، یا کوئی اور، مجھ سے عمر میں بڑے ہوں یا چھوٹے، اللہ رب العزت نے؛ اللہ تعالیٰ ریاکاری سے بچائے؛ میں تو ہر ایک کے ساتھ نیاز مندی کے ساتھ پیش آتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے تواضع میرے مزاج کے اندر رکھی ہے۔ اور کبھی زندگی بھر میں نے کوئی تعلِّی کا جملہ عمداً‌ نہیں کہا ہو گا، اگر کہا ہے بحیثیت انسان ہونے کے تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، میں کوئی دعویٰ بھی نہیں کر رہا۔ اِن دوستوں کا یہ کہنا کہ ان کے قدموں کے اندر بیٹھے تھے، میں ان کے قدموں کی بات نہیں کر رہا، میں اُن کو نہیں دیکھ رہا، میں تو مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کو دیکھ رہا ہوں۔ اور میں آپ سے ایک درخواست کرتا ہوں کہ میں سکہ بند دیوبندی ہوں، مجھے اپنے دیوبندی ہونے پر ناز ہے، دیوبندی ہونے کے لیے کسی بندۂ خدا سے مجھے سرٹیفیکیٹ لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ لیکن جب امت نے میری ڈیوٹی لگائی ہے عقیدۂ ختم نبوت کی تو میں پھر دیوبند، بریلوی، لکھنؤ اور دہلی کی بات نہیں کروں گا، میں تو گنبدِ خضریٰ کی بات کروں گا۔

عامر عثمانی: واہ واہ، واہ واہ، کیا بات ہے۔

مولانا اللہ وسایا: اور الحمد للہ میں اس کے اوپر قائم ہوں، قائم ہوں۔ تمام تر مکاتبِ فکر، دیوبندی ہوں، بریلوی ہوں، شیعہ ہوں، اہلِ حدیث، خانقاہیں ہوں۔

عامر عثمانی: اس مشن کے لیے سب کے ساتھ۔

مولانا اللہ وسایا: جس شخص نے بھی ایک لمحہ ملعونِ قادیاں اور اس کے ماننے والوں کے خلاف کوئی کام کیا ہے، میں انہیں اپنا مخدوم اور مُتاع سمجھتا ہوں اور ان کا احترام کرنا میں اپنی اخلاقی اور جماعتی ذمہ داری سمجھتا ہوں، یہ میرے لیے عیب نہیں۔ جو میرے لیے فخر کی بات ہے اُسے اگر کوئی صاحب میری خوبی کو عیب بنانا چاہتے ہیں تو اللہ ان کو جزائے خیر دے۔

عامر عثمانی: بہت شکریہ۔ ایک صاحب نے لکھا ہے کہ اپنے اسٹیج پر اپنوں کو کیوں نہیں بلاتے اگرچہ ختمِ نبوت کا عقیدہ متفقہ ہے؟

مولانا اللہ وسایا: اللہ کا فضل ہے ہمیشہ بلاتے ہیں، تمام مکاتبِ فکر کو بلاتے ہیں۔ جس طرف انہوں نے اشارہ کیا، ہم ان حضرات کو بھی بلاتے تھے۔ ہماری کوئی کانفرنس ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں مولانا حق نواز مرحوم نہ آئیں، مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقیؒ نہ آئیں، یا مولانا علی شیر حیدریؒ نہ آئیں۔ تمام تر حضرات ان کے تشریف لاتے تھے۔ ایک جلسے کے موقع پر جان بوجھ کر انہوں نے ہمارے جلسے کو الٹنے کی کوشش کی، اور وہ چناب نگر میں قادیانیوں کے شہر کے اندر۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کے پلیٹ فارم کو قادیانیوں کے شہر میں اگر وہ اس طرح الٹ پلٹ کر شکار بنائیں تو اس پر احتجاج کرنا ہمارا حق بنتا ہے۔ اور ہم نے ان کو واضح طور پر کہا کہ آپ حضرات نے یہ کر کے زیادتی کی ہے، آپ اس کے اوپر معذرت کریں۔ ان کی قیادت آمادہ ہوئی کہ ہاں ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کے اوپر انہوں نے کہا زبانی، علی الاعلان کہا کہ ہم اس کے اوپر معذرت کرتے ہیں۔ ہم نے ان کو کہا کہ معذرت ایسی نہیں، آپ تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ آپ نے یہ زیادتی کی ہے۔ انہوں نے آج تک تحریر نہیں دی اور ہم نے ان کو بلیک آؤٹ کر دیا۔ اور بلیک آؤٹ ہم نے کیا، اس کے اوپر اب ہم یقین کے ساتھ کھڑے ہیں کہ بہت اچھا فیصلہ ہو گیا۔ اس لیے کہ یہ بندگانِ خدا جہاں پر جاتے ہیں یہ اپنا ٹھپا لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اصولی طور پر یہ ہے کہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں جمعیۃ کے سٹیج پہ جاؤں تو اسلامی نظام کی بات کروں، وہ ہمارے سٹیج پر آئیں تو ختمِ نبوت کی بات کریں۔ میں اِن کے سٹیج پہ جاؤں تو عظمتِ صحابہؓ کی بات کروں، وہ ہمارے سٹیج پر آئیں تو ختمِ نبوت کی بات کریں۔ میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ان کے پاس جاؤں تو میرا فرض بنتا ہے کہ وہاں پر انہی کی بات کرنی چاہیے۔ ان کے اوپر میں اپنا ٹھپا لگاؤں، ان کے جلسوں میں جا کر میں اپنے جھنڈوں کے نمائش کروں، تو یہ میرے خیال میں کہیں بھی مستحسن نہیں ہوگا۔ تو جو اخلاقی قدریں ہیں، اگر ان کے دوست اس کا خیال نہیں کر رہے تو ہمیں ملزم گرداننے کی بجائے پیار اور محبت کے ساتھ؛ کوئی ان کا ایسا موقع نہیں کہ کوئی فوتگی ہوئی ہو ہم تعزیت کے لیے نہ گئے ہوں، کوئی ایسا نہیں کہ ان پر کوئی مشکل وقت۔

عامر عثمانی: میرا خیال ہے یہ چیزیں صرف سوشل میڈیا پر سامنے نظر آتی ہیں، باقی تو سب ایک ہی ہے۔

مولانا اللہ وسایا: ان کی ساری قیادت کے ساتھ ادب و احترام کا، باہمی پیار اور محبت کا تعلق کل بھی قائم تھا آج بھی قائم ہے۔ یہ ان کے جو نوجوان، جو نہ تین میں نہ تیرہ میں، چاچا خوامخواہ، یہ حضرات ان چیزوں کو اچھالتے ہیں، ان سے ہمارا؛ بس ٹھیک ہے وہ لگے رہیں، ہم ان کو کچھ کہتے بھی نہیں۔

عامر عثمانی: حضرت، آپ کا بہت شکریہ۔ سوالات کی میرے پاس لسٹ بہت طویل ہے، آپ کی بھی آگے ظاہر ہے کمٹمنٹس ہیں، آپ نے وہاں بھی پہنچنا ہے۔ میں مختصر کر کے بس یہ چاہوں گا کہ ہماری نوجوان نسل کے لیے آپ کی طرف سے کوئی پیغام آنا چاہیے۔

مولانا اللہ وسایا: وہ تو ٹھیک ہے۔ نہیں، اگر سوالات کے سلسلے میں میری مصروفیت کا خیال نہ کریں، اِن سوال کرنے والوں کی کوئی حسرت باقی نہیں رہنی چاہیے، میں بالکل تیار بیٹھا ہوں ایک ایک سوال کا جواب دینے کے لیے۔ باقی یہ نوجوان نسل، میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب اس طرح کی رپورٹیں ہیں، کئی بستیاں قادیانیوں سے پاک ہو گئی ہیں۔ قادیانیت بڑی تیزی کے ساتھ اللہ کے فضل سے اپنے انجام کی طرف جا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ امت کو کامیابی سے سرفراز کر رہے ہیں۔ ہر مسلمان عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے حوالے سے اپنا فرض سمجھ کر اس کام کو آگے بڑھائے۔ رب کی رحمت بھی ان کے ساتھ ہو، محمدِ عربیؐ کی شفاعت بھی ان کے ساتھ ہو۔

عامر عثمانی: بہت بہت شکریہ مولانا اللہ وسایا صاحب۔

ناظرین، آپ نے یہ گفتگو سنی، ظاہر ہے ہم نے تحریک کے حوالے سے، ان کی زندگی کے حوالے سے، اور بہت سارے موضوعات کو ڈسکس کیا۔ even وہ تلخ سوالات بھی ہم نے کرنے کی یہاں جرأت اور کوشش کی جو آپ حضرات نے بھیجے اور مولانا اللہ وسایا صاحب نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اور بڑے کھلے دل کے ساتھ اور بڑی اعلیٰ ظرفی کے ساتھ ان تمام سوالات کو ایڈریس کیا، ان کے جوابات دیے۔ میرا خیال ہے کہ یہ جوابات کافی ہونے چاہئیں۔ اور یہاں بیٹھ کر ان سوالوں کو کرنے کا ہرگز ہرگز ہرگز یہ مقصد نہیں تھا، نہ ہے، کہ خدانخواستہ کوئی انتشار کی فضا قائم کی جائے۔ بلکہ یہ چند وہ سوالات جو بارہا سوشل میڈیا پر ڈسکس کیے گئے، آپ حضرات نے بھیجے، ہم نے کیے، اور وہاں سے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ جواب آیا۔

اور عقیدۂ ختمِ نبوت کی جہاں تک بات کی جائے، ان حضرات نے اپنی زندگیاں لگائیں، قربانیاں دی ہیں، اور ظاہر ہے ان کے سامنے یہ سوالات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ لیکن ایک روایت ہے، ہم نے اسی روایت اور تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس پوری کہانی کو محفوظ کرنے کے لیے اس پوڈ کاسٹ کی ریکارڈنگ کا فیصلہ کیا کہ ان حضرات کی یہ کاوشیں، یہ کوششیں، یہ تاریخ، یہ کسی طور پر زندہ رہیں اور آئندہ آنے والی نسلوں تک بھی یہ چیزیں پہنچ سکیں۔ اختتام اسی پر کہ

نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحاؐ کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

اجازت دیجیے اپنے میزبان عامر عثمانی کو، اگلی پوڈ کاسٹ میں ان شاء اللہ آپ سے ملاقات ہوتی ہے، اللہ کی امان میں۔

https://youtu.be/cLLrrdcv5VE


سوال و جواب

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۰

پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
حضرت مولانا اللہ وسایا
عامر عثمانی

سپریم کورٹ کا غیر شرعی فیصلہ
ڈاکٹر محمد امین

مروّجہ نعت خوانی    —    چند قابلِ اصلاح پہلو
مولانا زبیر احمد صدیقی

ابنِ خلدون: مسئلہ عصبیت  ،   ایک تجزیہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

جسٹس منصور علی شاہ اور اسلامی قانونِ نکاح و طلاق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کسبِ معاش سے صوفیہ کی وابستگی: مشائخ تیغیہ کے حوالے سے
ڈاکٹر محمد ممتاز عالم

مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل
ڈاکٹر عرفان شہزاد

Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹرز کی پاکستان آرمی میں شمولیت
ابرار اسلم
ڈان نیوز

Khatm-e-Nubuwwat Conferences: A Referendum of Our Stance
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۴)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۸)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں
مہاتیر محمد

شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟
ادارہ الشریعہ

قطر میں اسرائیلی حملہ: سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کا موقف اور پاکستان کا جواب
عاصم افتخار احمد

غزہ و قطر پر اسرائیلی جارحیت اوراُمتِ مسلمہ کی بے بسی وبے حسی
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات
میڈیا

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پاک سعودی تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ
ادارہ الشریعہ

برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال وغیرہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی تسلیم
ادارہ الشریعہ

إبداء الفرح والسرور وتقديم الشكر والتحية بمناسبة توقيع الاتفاق الدفاعي بين المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایمل صابر شاہ

جامعہ نصرۃ العلوم میں پیغامِ پاکستان سیمینار اور مولانا راشدی کا خطاب
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

قطر اجلاس، پاک سعودی معاہدہ، صمود فلوٹیلا، ختم نبوت کانفرنس : مولانا راشدی کا تبصرہ
مولانا حافظ عاطف حسین
مولانا حافظ دانیال عمر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter