مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟

قطر پر حملہ کا پسِ منظر

نو ستمبر 2025ء کو اسرائیل نے فضائی دہشت گردانہ حملہ قطر کے دارالحکومت دوحہ پر کر دیا جس کا ہدف حماس کی قیادت تھی۔ شہید ہونے والوں میں پانچ حماس کے اراکین اور ایک قطری سیکورٹی آفیسر شامل ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی دہشت گرد تنظیم کی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش تھی، حالانکہ وہ قطر کی ثالثی میں امریکہ کے ہی پیش کردہ نئے مسودۂ جنگ بندی پر غور کر رہے تھے۔ قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان دو سالوں سے ثالثی کی کوششیں کر رہا ہے، جن کا حصہ امریکی اہلکار بھی رہے ہیں۔ اسی طرح حماس کی قیادت کی میزبانی بھی قطر نے امریکہ کے کہنے پر ہی کی تھی۔ قطر امریکہ کا بہت بڑا اتحادی ہے، امریکہ کا سب سے بڑا بیرونی عسکری اڈا قطر کے العدید میں ہے۔ یہ جارحیت ایک آزاد ملک کی سالمیت پر حملہ تھا دوسرے سفارتی کوششوں پر حملہ بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حملہ کرنا ہی تھا تو اسرائیل خود کیوں اِن سفارتی کوششوں کا حصہ بنا ہوا تھا اس کے وفود بات چیت کے لیے کیوں دوحہ اور مصر آ جا رہے تھے؟

قطر اور باقی دنیا کا ردعمل

قطر نے اس حملے کو ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ کہا، اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا، اور بین الاقوامی قانون کی پامالی ہونے پر شدید مذمت کی۔ عالمی اور خطہ کے ممالک کا رد عمل بھی شدید رہا۔ بہت سے مسلم اور عرب ممالک نے حملے کی مذمت کی، اقوام متحدہ اور حقوقِ انسانی تنظیموں نے اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کہا۔

غزہ پر اثرات

دوحہ میں ہونے والی اس بمباری کا براہِ راست غزہ پر بھی گہرا اثر پڑا چاہے وہ فوری طور پر محسوس ہوا ہو یا مختلف سطحوں پر بعد میں ظاہر ہوا ہو۔ سب سے پہلے تو مذاکرات کا عمل ہی متاثر ہو کر رہ گیا۔ یہ حملہ اُس وقت ہوا جب حماس کی ٹیم جنگ بندی کے نئے مسودہ پر غور کر رہی تھی۔ اس سے مذاکراتی اعتماد کو نقصان پہنچا ہے، اِس بات کا شبہ پیدا ہوا کہ اسرائیل مذاکرات سے پہلے یا دورانِ مذاکرات بھی حملے کر سکتا ہے۔ اس جارحیت سے ثالثوں کے اعتماد میں کمی آئی اور ان کو سلامتی کی تشویش لاحق ہوئی ہے۔ کہ قطر جیسے قابلِ اعتماد ثالث پر حملہ ہونے سے یہ لگا کہ خطّے کی تقدیر بدل رہی ہے، اور اب وہ اسرائیل کے ہاتھوں میں گروی رکھ دی گئی ہے۔ فلسطینی قیادت سمیت لوگوں کے عام خدشات ہیں کہ کہیں بھی کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں رہی۔ اسرائیل کے جارحانہ بیانات خود اسی کی تصدیق کر رہے ہیں۔ 

قطر پر حملہ کے فوراً بعد صہیونیوں نے خوشی کے شادیانے بجائے اور دعویٰ کیا کہ ’’اب ہم شرق اوسط کے حکمراں ہیں، ہم جہاں چاہیں اور جس کو چاہیں جب چاہیں مار سکتے ہیں‘‘۔ جنگی جرائم کے مجرم اور دہشت گرد بنجمن نتن یاہو نے بار بار دھمکیاں دیں کہ ’’ہم حماس کی قیادت کے پیچھے ہر جگہ جائیں گے قطر میں بھی اور بیجنگ میں بھی اور جہاں بھی وہ ہوں یا تو خود قطر وغیرہ ان کو خود عدالت کے حوالہ کر دیں ورنہ تو ہمیں کریں گے‘‘۔ اس پورے مسئلہ میں جب پوری دنیا قطر کے ساتھ کھڑی تھی چودھری بہادر امریکہ کا کردار سب سے زیادہ شرمناک تھا۔ پہلے تو ٹرمپ نے خوشی کا اظہار کیا کہ حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا مگر جب یہ اسرائیلی دہشت گردی ناکام ہو گئی تو اُس نے یہ کہہ کر پلہ جھاڑ لیا کہ ’’اسرائیل نے ہم سے پوچھ کر یہ حملہ نہیں کیا۔ البتہ حماس کو مارنا قابلِ تعریف بات ہے۔‘‘ اس نے قطر کے امیر سے فون پر بات کی اور یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اب دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔

عالمی سطح پر رائے عامہ میں فلسطینی موقف کو تقویت

اس جارحانہ حملے نے عالمی رائے کو تقویت دی ہے کہ اسرائیل کا رویّہ صرف عسکری کارروائیوں تک محدود نہیں بلکہ یہ سلامتی، مذاکرات اور خطّے کی سیاسی صورتِ حال کو بھی ہدف بنا رہا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی رہنماؤں نے اسے ’’مذاکرات کے پردے کے پیچھے کا حربہ‘‘ کہا کہ مذاکرات کے بعد بھی حملے ہو سکتے ہیں۔

علاقائی اور بین الاقوامی سیاست میں رد و بدل

دوحہ حملے سے قطر اور دوسرے عرب ممالک کی ثالثی کی کوششوں کو زبردست دھکہ لگا ہے۔ اب یہ سب پر ظاہر ہو گیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل امن مذاکرات اور جنگ بندی کی کوششوں میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ یوروپ نے فلسطین کو تسلیم کرنے کی طرف جو اقدامات شروع کر دیے ہیں ان سے امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں پر دباؤ بڑھا ہے کہ وہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی پابندی کے لیے مجبور کریں۔ علاوہ ازیں، خطّے کے ممالک میں اتحاد کی ضرورت اور ‘‘بڑھتے ہوئے خطرے’’ کا احساس بھی زیادہ ہوا۔ پناہ گزینوں اور داخلی نقل مکانی اور جبری بے دخلی کا مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے — لوگ محفوظ مقام کی تلاش کر رہے ہیں، مگر محفوظ مقامات ہیں کہاں؟ غزہ میں کچھ نہیں بچا ہے جس کو محفوظ سمجھا جا سکے۔ اور بین الاقوامی امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹیں بہت زیادہ آ رہی ہیں۔

میڈیا اور عالمی رائے عامہ پر اثر: جو رپورٹیں اور تصاویر غزہ سے نکل کر آ رہی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں، دنیا بھر کے عوام کے جذبات بھڑک رہے ہیں اور وہ بے اختیار سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ جس سے اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ سیاسی سطح پر بڑھ رہا ہے۔ یہ دباؤ بعض صورتوں میں مذاکرات اور جنگ بندی کی راہیں کھولے گا۔ ہاں سرد مہری اور بے حسی عرب اور مسلمان ملکوں میں ضرور چھائی ہوئی ہے ۔ انسانی حقوق کے کیسز اور بین الاقوامی قانون: حملے کی نوعیت اور ضمنی نقصانات کی بنا پر ممکن ہے کہ ذمہ داران کو بین الاقوامی عدالتوں میں جوابدہ ٹھہرایا جائے یا کم از کم تحقیقات شروع ہوں۔ افسوس کہ عالمی عدالتوں کا پراسِس اتنا سلو ہے کہ ان کا فیصلہ آنے میں برسوں لگ جائیں گے۔

؏ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

عرب و اسلامی چوٹی کانفرنس

9 ستمبر 2025ء کو اسرائیل نے دوحہ، قطر میں جو حملہ کیا جس کا ہدف حماس کے قائدین تھے، اس حملے کے بعد قطر نے ایک ایمرجنسی عرب و اسلامی چوٹی کانفرنس بلائی۔ جس میں عرب لیگ اور تنظیمِ اسلامی تعاون (OIC) کے تقریباً 60 ممالک نے شرکت کی۔

کانفرنس سے کیا نکلا؟

اس کانفرنس کے نتائج اور قراردادوں کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا لیکن افسوس کہ اس سے مذمت کے گرم گرم بیانات کے علاوہ کچھ نہیں نکلا! الجزیرہ کے مطابق اس چوٹی کانفرنس میں قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے حملے کو ''بغیر کسی رحم کے''، ''غدر'' اور ''بزدلانہ'' قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل مذاکرات کو تباہ کرنا چاہ رہا ہے، اور یہ حملہ، بظاہر، امن بحالی کی کوششوں کو بے اثر بنانا ہے۔ اتحاد و یکجہتی کی چوٹی کانفرنس کا مرکزی پیغام دوحہ اور قطر کے ساتھ پوری عرب و اسلامی دنیا کی یکجہتی تھا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ اسلامی دنیا اسے معمولی واقعہ نہیں سمجھے گی، اور زور دیا کہ اسرائیل کی پالیسیوں کی شدت سے مزاحمت کی جائے۔ کانفرنس میں ترکی کے علاوہ ایران اور ملیشیا نے بہت دل چسپی دکھائی۔ وزیراعظم انور ابراہیم نے شرکاء پر زور دیا کہ وہ کوشش کریں کہ اسرائیل کی اقوام متحدہ سے رکنیت ختم کر دی جائے۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ غیر عرب ممالک نے تو جوش و خروش کا مظاہرہ کیا مگر خلیج کے عرب ممالک جو اس دہشت گردی کا شکار ہوئے وہ صرف علامتی مذمتیں کر کے رہ گئے۔ امارات، بحرین، مصر اور مراکش نے نہ اسرائیل سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کا عندیہ دیا نہ اس کے سفیروں کو بلانے اور احتجاج درج کرانے کا علامتی سا اقدام ہی کیا۔ ترکی اور ایران نے ایک متحدہ اسلامی و عربی ناٹو کی پیش کش کی جس پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا۔ کانفرنس کی قراردادوں کو دیکھا جائے تو دوسری عرب کانفرنسوں کی طرح یہ بھی گفتند و نشستند و برخواستند کے علاوہ کچھ ثابت نہ ہو سکی۔ امریکی اڈے کی موجودگی میں حملہ کیوں ہوا اور ہوا تو امریکیوں نے اُسے روکا کیوں نہیں یہ سوال قطر نے امریکی قیادت سے نہیں پوچھا! اس کے علاوہ خود عرب ملکوں سے بھی سوال ہونا چاہیے تھا کہ قطر پر حملہ کے لیے سعودی اور اردن کا خلائی اسپیس استعمال ہوا تو ان ملکوں نے اسرائیل کو اِس کی اجازت کیوں دی؟ یمن سے کوئی میزائل اسرائیل پر مارا جاتا ہے تو سب سے پہلے اردن ہی اس کو انٹرسیپٹ کرتا ہے یہاں وہ یہ تیزی کیوں نہیں دکھا سکا؟

البتہ چند ایسی چیزیں ہوئیں جن کو اگر کامیابی سمجھا جا سکے تو ان کو اِس کانفرنس کی اچھی باتیں کہا جا سکتا ہے۔ مثلاً:

موقف کی ہم آہنگی

عرب اور اسلامی ممالک نے اتحاد کا مظاہرہ کیا — کم از کم الفاظ کی حد تک ہی سہی — کہ ریاستی خودمختاری پر اسرائیل کا حملہ ناقابل قبول ہے۔

دفاعی تعاون کا عندیہ

خلیج کے GCC رکن ممالک نے مشترکہ دفاعی میکینزم کو فعال کرنے اور خطے کی سلامتی کو بہتر بنانے کے حوالے سے اقدامات اٹھانے کی بات کی گرچہ اس کا کوئی میکینزم سامنے نہیں آیا نہ یہ معلوم ہوا کہ کوئی فالو اپ بھی ہو رہا ہے یا نہیں۔

امن مذاکرات کی اہمیت کا اقرار

چوٹی کانفرنس نے یہ تسلیم کیا کہ قطر جیسے ثالث کی کوششیں اہم ہیں، اور اسرائیل کی بے محابا عسکری کارروائیوں سے مذاکرات کو نقصان ہو رہا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ تو یک طرفہ بات ہے یک طرفہ طور پر کوئی مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ جبکہ دوسرا فریق یعنی اسرائیل کوئی مذاکرات چاہتا ہی نہیں اُسے تو یہی ضد ہے کہ فلسطینی ریاست قائم نہیں ہونے دے گا۔ حماس و دیگر فلسطینی مزاحمت کاروں کے وجود کو برداشت نہیں کرے گا اور غزہ سے تمام اسلحہ خالی کرائے گا۔ بلکہ امریکہ اور اسرائیل کا اصل منصوبہ تو غزہ کو مکینوں سے خالی کرانا ہے۔ جس کو گو پوری دنیا نے مسترد کر دیا ہے مگر دونوں عالمی دہشت گرد (امریکہ و اسرائیل) اپنی طاقت کے نشہ میں چور طاقت سے ہی اس منصوبہ کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ثالثی یا امن مذاکرات کو محفوظ بنایا جائے، اور ایسے حملے جو مذاکرات کرنے والوں کو نشانہ بناتے ہیں، بین الاقوامی ردِ عمل کے دائرے میں آئیں۔ امریکہ اور اسرائیل کسی امن مذاکرات کی بات کرتے بھی ہیں تو غزہ میں ہزارہا انسانی جانوں کا ضیاع اس کی وجہ نہیں بلکہ ان کی سوئی صرف اور صرف اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی میں اٹکی ہوئی ہے۔

عملی اقدامات کا فقدان

چوٹی کانفرنس میں حالانکہ سخت بیانات دیے گئے، مگر اقتصادی پابندیاں لاگو کرنے، سفارتی تعلقات ختم کرنے یا کوئی خاص عملی قدم اٹھانے کے مسئلہ پر کوئی واضح اتفاق نہیں ہوا۔ کچھ ممالک، خاص طور پر جو اسرائیل کے ساتھ معمولی تعلقات رکھتے ہیں یا امریکی دباؤ کے زیراثر ہیں، نے نرم موقف اختیار کیا۔ اس لیے متحد اور مؤثر ردِ عمل ممکن نہ ہو سکا۔ یہ بات ابھی واضح نہیں کہ آیا اس چوٹی کانفرنس کے نتائج طویل المدتی ہوں گے۔ کیا یہ واقعتاً اسرائیل کی عسکری یا خارجہ پالیسیوں کو بدلنے پر مجبور کریں گے؟ یا صرف بیانات تک محدود رہیں گے؟

آگے کی راہ

اگر اتحاد کو واقعی معنی خیز ہونا ہے تو ان ساری مملکتوں کو مشترکہ اقتصادی پابندیاں اسرائیل پر عائد کرنے یا سیاسی دباؤ بنانے پر غور کرنا چاہیے تھا۔ GCC کے مشترکہ دفاعی میکینزم کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ ردِ عمل کی تیز رفتار اور ریاستوں کے مابین فوجی تعاون کا واضح منصوبہ ہونا چاہیے تھا۔ اسرائیل کی کارروائیوں کو بین الاقوامی عدالتوں یا اقوام متحدہ کے فورمز پر اٹھانا، اور جرائمِ جنگ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو قانونی دائرہ میں لانا اسرائیل کو سزا دینے کے عمل کا ناگزیر حصہ بننا چاہیے تھا مگر عرب حکمرانوں کی طرف سے ان چیزوں کا زبردست فقدان رہا ہے۔ انہوں نے غزہ کی بازآبادکاری کا منصوبہ پیش کیا تھا جو بس کاغذ پر ہی رہ گیا، اس کی انہوں نے دنیا میں مارکیٹنگ نہیں کی نہ کوئی فالو اپ ہوا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی رائے عامہ ہموار نہیں کی جا سکی۔

پاک سعودی دفاعی معاہدہ

عرب و اسلامک چوٹی کانفرنس سے بظاہر تو کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی البتہ اِس چوٹی کانفرنس کا ایک مؤثر نتیجہ سامنے یہ آیا ہے کہ سعودی عرب نے آگے بڑھ کر امریکی چھتری کے تلے رہنے کے بجائے سیدھا پاکستان سے دفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔ اور یہ معاہدہ دوطرفہ ہے۔ پاکستان ایک مضبوط فوج کے علاوہ ایٹم بم رکھتا ہے اور خطہ میں ہندوستان جیسی بڑی قوت اور بڑی اکانومی کی جارحیت کے جواب میں اپنی دفاعی کامیابی سے اُس نے نہ صرف ہندتوا کے بڑھتے قدم روک دیے بلکہ عالمی سفارت کاری میں بھی پے در پے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ لیکن سعودی اور پاک معاہدہ پر بھی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ 

سوال یہ ہے کہ سعودی عرب میں اب تک خطرہ کس کو سمجھا جاتا رہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یمن کو، جس پر سعودی عرب نے کئی سال پہلے بمباری بھی کی تھی، اور ایران کو۔ اسرائیل کے خلاف سعودی عرب نے کبھی غلیل بھی نہیں چلائی تو آخر اِس دفاعی معاہدہ کا مطلب کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے آقا امریکہ بہادر کے اشارہ پر ہی پاکستان کو برادر ممالک ایران اور یمن کے خلاف استعمال کرنے کے لیے سعودیوں نے یہ قدم اٹھایا ہو؟ جو بھی ہو بہرحال پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کسی بھی دفاعی معاہدے کے دور رس نتائج ہوں گے، اور یہ صرف دو طرفہ تعلقات تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ خطے کی اسٹرٹیجک سمت کو بھی متاثر کریں گے۔ چند اہم پہلو یہ ہیں:

امریکہ کو ایک واضح پیغام

اس دفاعی معاہدہ سے امریکہ کو بھی ایک واضح پیغام سعودی عرب کی طرف سے گیا ہے کہ وہ محض امریکی امداد اور امریکی فوجی چھتری پر اب بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ قطر کے معاملہ میں اپنے گومگو کے رویہ سے اس نے عربوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا دی ہے۔ سعودی عرب کی دفاعی پالیسی بڑی حد تک امریکا کے ساتھ منسلک رہی ہے۔ اگر پاکستان کو سعودی دفاعی حصار کا حصہ بنایا جاتا ہے تو واشنگٹن بھی اس پر اثر انداز ہو گا۔ البتہ یہ ممکن ہے امریکا اس معاہدے کو ایران اور چین کے خلاف توازن قائم کرنے کے لیے سپورٹ کرے، لیکن ساتھ ہی پاکستان کو امریکا کی پالیسی لائن پر چلنے کے لیے دباؤ بھی بڑھے گا۔

بھارت کے لیے نیا توازن

بھارت خطے میں سعودی عرب کے ساتھ معاشی تعلقات مضبوط کر رہا ہے، لیکن اگر سعودی عرب اور پاکستان دفاعی طور پر قریب آتے ہیں تو یہ نئی اسٹریٹجک صف بندی بھارت کے لیے پریشانی کا باعث بنے گی۔ خاص طور پر کشمیر کے معاملے میں پاکستان سعودی حمایت کو زیادہ مؤثر انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان کی اسٹریٹجک پالیسی کا اہم ستون چین ہے۔ سعودی عرب اگر پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرتا ہے تو اس میں چین کا پہلو بھی شامل ہو گا، کیونکہ پاکستان دفاعی اور ٹیکنالوجیکل لحاظ سے زیادہ تر بیجنگ پر انحصار کرتا ہے۔ اور بھارت میں ایک بہت بڑی لابی چین کو اپنا دشمن نمبر ایک مانتی ہے۔

ایران پر دباؤ میں اضافہ

سعودی عرب اور ایران کی رقابت مسلکی، تاریخی اور اسٹریٹجک تینوں حوالوں سے گہری ہے۔ اگر پاکستان سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کو رسمی شکل دیتا ہے تو یہ براہِ راست ایران کے لیے ایک اسٹریٹجک چیلنج بنے گا۔ ایران کی سرحدیں پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں، لہٰذا تہران کو یہ خدشہ ہو گا کہ پاکستان کی سرزمین سعودی مفادات کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ اس سے ایران-پاکستان تعلقات میں مزید تناؤ بڑھنے کا امکان ہے۔ خاص طور پر اگر امریکی شاطر اس پاک سعودی معاہدے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کریں، جس کا غالب امکان ہے۔ کل ملا کر پاکستان-سعودی دفاعی معاہدہ خطے میں نئی اسٹریٹجک صف بندی کو جنم دے سکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں: یہ معاہدہ پاکستان کو ایک بڑے علاقائی شطرنج کے کھیل کا اہم مہرہ بنا دے گا، لیکن ساتھ ہی خطرہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اپنی خودمختار خارجہ پالیسی کے بجائے دوسروں کے ایجنڈے کا حصہ بن جائے۔

غزہ پر نئے اسرائیلی حملہ کے بعد

اب غزہ پر اسرائیل نے Gidon Chariot 2 کے عنوان سے بڑا حملہ کر دیا ہے جس میں یومیہ کئی سو فلسطینی شہید ہو رہے ہیں اور امریکہ نے پوری ڈھٹائی سے سلامتی کونسل میں چھٹی بار سیز فائر کی قرارداد کو ویٹو کر کے اسرائیل کی بھرپور حمایت کی ہے، تو اس کے سبب انسانی جانوں کا یہ بے محابا ضیاع رکتا دکھائی نہیں دیتا۔

عرب چوٹی کانفرنس کی ناکامی کے بعد اب مصر اور ترکیے بھی اسرائیلی جارحیت کے ممکنہ اہداف ہو سکتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو امریکی آشیرواد سے اسرائیل اپنے اسرائیل عظمیٰ کے ناپاک منصوبہ کی طرف عملاً قدم بڑھائے گا۔ صہیونیوں نے امریکی مدد و حمایت سے پہلے عراق، پھر سیریا اور لیبیا کو برباد کر کے اپنے اطراف میں مضبوط عرب قوتوں کا خاتمہ پہلے ہی کر دیا ہے۔ خلیج کی ریاستیں اس کے لیے نرم چارہ ہیں۔ البتہ سعودی پاکستانی دفاعی پیکٹ ضرور اس کے راستہ کی رکاوٹ بنے گا۔ مصر اور ترکیے اب بھی بس خاموش تماشائی بنے رہے تو وہ دن دور نہیں جب بے لگام اور منہ زور اسرائیلی دہشت گرد انقرہ اور قاہرہ کو بھی نشانہ بنانے سے باز نہیں آئیں گے۔ 

غزہ پر اسرائیل کے حملوں سے اور فضائی اور زمینی آپریشن کی وجہ سے شہری ہلاکتیں، زخمی اور بڑے پیمانے پر بے گھری (displacement) تیزی سے بڑھ رہی ہے غزہ سے آنے والے اعداد و شمار اور تازہ رپورٹس اسی سمت اشارہ کر رہی ہیں۔ گارجین نے خبردار کیا ہے کہ ’’اس کا نتیجہ فوری غزہ میں انسانی بحران، ہسپتالوں کا بریک ڈاؤن اور غذائی و وسائلِ صحت کی قلت ہو گا‘‘۔ اس نے یہ تجزیہ بھی کیا ہے کہ ’’اسرائیل کو بین الاقوامی تنقید اور سیاسی تنہائی کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور بڑے پیمانے پر شہری نقصان اور مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے اسرائیل کو سفارتی دباؤ، بین الاقوامی تنقید، اور ممکنہ سیاسی و اقتصادی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔

خطہ میں عدم استحکام اور مزاحمت میں شدت

اگرچہ محسوس طور پر حماس اور مزاحمتی قوتوں کا ظاہری انفرااسٹرکچر بالکل تباہ ہو گیا ہے۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ اب نئی مزاحمتی جہتیں سامنے آئیں گی۔ انتقامی حملے ہوں گے اور اسرائیل کی مقامی و علاقائی بیگانگی بڑھے گی یعنی اس کی "فوری جیت" کا مطلب اس کے لیے مستقل امن نہیں ہوگا؛ بلکہ آزادی کی جدوجہد گوریلا وار کی شکل میں جاری رہے گی جس کے دشمن پر معاشی و سماجی اثرات تباہ کن اور دیرپا ہوں گے۔ اس کی معیشت روزگار اور تعلیمی و صحت کے نظام متاثر ہوں گے؛ نسلِ نو پر شدید ذہنی و معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔ جس سے اُسے نکالنے کے لیے امریکہ بہت بڑے پیمانہ پر معاشی اور عسکری امداد پھر دے رہا ہے۔ جبکہ ٹرمپ کے تاجرانہ ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے شروع میں امید یہ کی جا رہی تھی کہ وہ بوڑھے کھوسٹ بائڈن کی طرح بے محابا امداد جنونی صہیونیوں کو شاید نہ دے۔ مگر ٹرمپ سے لوگوں نے جتنی امیدیں لگائی تھیں وہ سب کے خلاف ہی اتر رہا ہے۔ یہی اُس کی دجالیت کا نیا روپ ہے۔

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے معنی

حالیہ دنوں میں برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، فرانس اور پرتگال نے ‘‘ریاستِ فلسطین’’ کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے۔ اس کو گزشتہ مہینہ نیویارک میں منعقد سعودی عرب اور فرانس کی مشترکہ حل الدولتین (دو ریاستی حل) کانفرنس کا ثمرہ بتایا جا رہا ہے۔ تاہم فرانس مانتا ہے کہ مجوزہ فلسطینی ریاست ایک غیر مسلح ریاست ہو گی جس کو پولیس رکھنے کی اجازت ہو گی۔ مغربی ممالک کا یہی دوغلا پن ہے جو وہ فلسطین کے بارے میں روا رکھے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کا آپ کو اِس قدر خیال ہے کہ اس کے پڑوس میں فلسطینی ریاست کو غیر مسلح آپ رکھنا چاہتے ہیں لیکن اسرائیل جیسے وحشی درندے سے جو شرق اوسط میں جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے بمباری کر گزرتا ہے اِس عذر سے کہ ہماری سلامتی کو خطرہ ہے جس کے لیے ہم کچھ بھی کریں گے، کوئی جواب دہی نہیں ہوتی! تو جناب کیا اسرائیلی دنیا میں کوئی اسپیشل مخلوق ہیں جن کو تمام حقوق حاصل ہیں۔ ان کے مقابلہ میں عرب اور فلسطینی حقیر مخلوق ہیں ان کو کوئی حقوق حاصل نہیں! ان پر اسرائیل مسلسل حملے کرتا رہتا ہے تو ان کا حقِ دفاع کہاں چلا گیا! افسوس کہ عرب قیادتیں خود اپنے اِس حق کی پُرزور وکالت نہیں کرتیں۔ اور جو لوگ یعنی مزاحمت کار اِس حق کا علم اٹھاتے ہیں الٹا ان کو ارہابی اور دہشت گرد بتاتی ہیں کیونکہ ان سے ان کی کرسیٔ اقتدار کو صحیح یا موہوم خطرہ محسوس ہوتا ہے ؎

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا یہ قدم عالمی دباؤ، خاص طور پر غزہ کی تباہی اور انسانی بحران کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔ یہ اعترافات بنیادی طور پر علامتی ہیں، مگر علامتیں اکثر بڑے اثرات لا سکتی ہیں۔ فلسطینی عوام کے لیے یہ ایک حوصلہ افزا اقدام ہے: ان کو ’’ہم ایک ملک بن رہے ہیں، ہماری شناخت تسلیم ہو رہی ہے‘‘ کا احساس ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر یہ ایک دباؤ بنانے کی کوشش ہے کہ اسرائیل کی پالیسیوں پر نظر ثانی ہو، خاص طور پر فلسطینی زمینوں پر ناجائز اسرائیلی بستیوں (settlements) کی توسیع اور جنگ کے انسانی نقصانات پر۔

سفارتی اور قانونی اثرات

کسی ریاست کو تسلیم کرنا بین الاقوامی قانون اور سفارتی تعلقات کے لحاظ سے پہلے سے تسلیم شدہ یا متنازع ریاست کی حیثیت کو مستحکم کرتا ہے۔ اس سے اقوامِ متحدہ میں فلسطینی موقف مضبوط ہو جائے گا — اکانومک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ’’زیادہ ممالک کے اعترافات سے فلسطین کا موقف ‘معمولی’ یا ‘غیر مستحکم’ نہیں رہے گا‘‘۔ اس کے باوجود، عملی مشکلات ہیں۔ ریاست تسلیم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ فلسطینیوں کو زمینی کنٹرول، سرحدیں، اقتدار یا خود مختاری فوراً مل جائے گی۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن میں فریقین کے درمیان مذاکرات، بین الاقوامی ثالثی، اور فوجی و سکیورٹی حالات اہم کردار ادا کریں گے۔

مغربی ملکوں میں سیاسی اور عوامی دباؤ

انڈیا ٹوڈے کا تجزیہ یہ ہے کہ ‘‘عوامی رائے اور میڈیا میں شدت سے انسانی حقوق کے مسائل زیر بحث آئے ہیں، خاص طور پر غزہ میں قابو سے باہر تباہی۔ شہری امتیازات، تصاویر، اور خبر رساں اداروں نے مغربی حکومتوں پر دباؤ بڑھایا ہے کہ وہ صرف زبانی حمایت سے آگے بڑھیں‘‘۔ بائیں بازو کے سیاستدان، سلامتی کے تجزیہ کار، اور انسانی حقوق کی تنظیمیں فلسطین کے اعتراف کی حمایت کر رہی ہیں کہ یہ ایک اخلاقی اور قانونی ضرورت ہے۔ دوسری طرف، دائیں بازو کے ماہرین خدشات جتا رہے ہیں کہ یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ شراکت داری و سکیورٹی مفادات پر اثر ڈالے گا۔

اسرائیل اور امریکہ کا ردِعمل

دنیا کے یہ دونوں دہشت گرد ملک (جن کو جارح صہیونی قوتیں چلا رہی ہیں) فلسطین کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے خلاف خوب چیخ و پکار اور پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ اسرائیل و امریکہ دونوں نے اسے ’’دہشت گردی کو انعام‘‘ کے مترادف قرار دیا ہے، کہ اس سے مزاحمتی گروہوں کو مزید حوصلہ ملے گا۔ ٹائمز آف انڈیا نے لکھا ہے کہ ’’ امریکہ نے اسے کچھ معاملات میں‘‘performative’’ یا محض دکھاوے کا قدم قرار دیا ہے، کہ حقیقی طاقت، فیصلے، یا زمینی حقائق پر اثر کم ہو گا‘‘۔

دنیا کی رائے عامہ میں یہ تبدیلی ایک رجحان ہے، کیا یہ مستقل ہو گا؟ ہاں، ممکن ہے کہ یہ نقطۂ آغاز ہو — مزید مغربی ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کی طرف جائیں، خاص طور پر وہ جہاں زندہ و بیدار فلسطینی ڈائسپورا، طلبہ اور اساتذہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے مسلسل فلسطین کی حمایت میں ایک تحریک چلا رکھی ہے۔ لیکن اس رجحان کا فائدہ تبھی ممکن ہے جب زمینی حقیقت بدل جائے — یعنی، مذاکرات کا عمل شروع ہو، جنگ بندی ہو جائے، اسرائیل غزہ سے نکلے، انسانی قوانین کا احترام ہو، فلسطینی اتھارٹی کو مؤثر کردار ملے، اور غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے جس کے لیے ایک بڑا عالمی فریڈم فلوٹیلا (صمود) اسپانیہ سے شروع ہو کر اب لیبیا پہنچ چکا ہے اور غزہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور جس کے شرکاء کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے اگرچہ اسرائیلی دہشت گرد ریاست اُس پر ڈرونوں سے مسلسل حملے بھی کر رہی ہے۔ مزید فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع وغیرہ جیسے معاملات حل ہوں۔

چیلنجز اور خدشات

فلسطینی عوام کو شک ہے کہ فلسطین کو عالمی اعتراف ملنے کے بعد بھی حالات وہی رہیں گے — دہشت گردی، جنگ، نقل مکانی وغیرہ کم نہیں ہوں گے۔ اسرائیل کے سخت ردِ عمل کا خطرہ ہے، ممکنہ فوجی اقدامات میں مزید تیزی اور سفاکیت یا مزید بستیوں کی توسیع۔ دو ریاستی حل (Two-state solution) کے مفہوم میں اختلافات بھی ہیں۔ یہ ابھی واضح نہیں کون سی سرحدیں مانیں جائیں گی، نئی ریاست کس حد تک خود مختار ہو گی، پناہ گزینوں کا مسئلہ، مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی سیٹلمنٹس کا خاتمہ یا انضمام وغیرہ۔ اِن بنیادی مسائل کو طے کرنا بہت ضروری ہے کہ ان کے بغیر اوسلو معاہدہ چند سالوں بعد ہی برباد ہو کر رہ گیا کیونکہ بنیادی اہمیت کے اِن مسائل کو اُس وقت ٹال دیا گیا تھا کہ آئندہ کے مذاکرات میں یہ حل ہوتے رہیں گے مگر وہ کبھی حل نہیں ہوئے۔ اُس معاہدہ کے فوراً بعد ہی معاہدہ کرنے والے اسرائیلی رہنما یتزاک رابین کو ایک مذہبی شدت پسند صہیونی نے قتل کر دیا اور تب سے آج تک اسرائیل میں لیکود (یعنی مذہبی جنونیوں کی) حکومت چلی آ رہی ہے جس نے اپنے ہر قدم سے اوسلو اکارڈ کو برباد کیا ہے۔ 

اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عمل صرف زبانی تسلیم ہو کر رہ جائے اور اس کا فالو اپ نہ ہو یعنی اس کی بین الاقوامی امداد یا سیاسی پسِ منظر مضبوط نہ ہو، تو یہ عمل کاغذی ہی رہ جائے گا۔ فلسطین کو ملنے والے یہ اعترافات ایک سنگِ میل ہیں — اخلاقی، سفارتی اور عالمی سطح پر یہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں غزہ و فلسطین کے حالات سے ’’بیچینی’’ بڑھتی جا رہی ہے۔ فلسطینی ریاست کے حوالے سے عالمی رائے عامہ ہموار ہو چکی ہے مگر یہ کافی نہیں — عملی اقدامات، عدل و انصاف، اور سلامتی کی ضمانتوں کے بغیر یہ صرف ایک قدم ہے، پورا سفر نہیں۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس سے فلسطینی مقتدرہ کے صدر محمود عباس نے انٹرنیٹ کے ذریعہ خطاب کیا۔ کیونکہ امریکہ نے ان کو اور ان کے وفد کو ویزا نہیں دیا۔ جبکہ ان کو ویزا دینے نہ دینے پر ہوئی ووٹنگ میں پوری دنیا ایک طرف تھی اور امریکہ اور اسرائیل تنہا ایک طرف۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ خطاب کریں گے چنانچہ انہوں نے کیا اور بودا خطاب کیا اور اس میں پھر طوطے کی طرح وہی مطالبہ دہرا دیا کہ مزاحمت کی قوتوں کو اپنا اسلحہ فلسطینی مقتدرہ کے حوالہ کر دینا چاہیے۔ 

یہ بھی خبر آئی کہ اس کانفرنس کی سائڈ لائن میں ڈونالڈ ٹرمپ خاص مسلم اور عرب ممالک کے سربراہان سے ملے جن میں سعودی عرب، مصر، ترکی، پاکستان اور قطر و انڈونیشیا اور امارات وغیرہ ہیں۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقات میں غزہ میں جنگ بندی اور بازآبادکاری پر مثبت بات ہوئی ہے اور شرق اوسط کے لیے خصوصی امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف 21 نکاتی امن منصوبہ بنا رہے ہیں جس میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، فلسطینی قیدیوں کی رہائی، سیز فائر اور اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلاء شامل ہے۔ جنگ کے بعد غزہ کے انتظام میں فلسطینی مقتدرہ کو شریک کیا جائے گا، حماس کو بے دخل کر دیا جائے گا۔ اور اس کے بعد غزہ کی بازآبادکاری کا عمل شروع ہو گا۔ لیکن اس میٹنگ میں اسرائیل شامل نہیں تھا۔ اور گرچہ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ امید بلکہ یقین کا اظہار کر رہی ہے کہ وہ جنگ کو رکوانے میں کامیاب ہوں گے۔ تاہم ایسا کئی بار ہو چکا ہے کہ وہائٹ ہاؤس نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا اور اس کی ٹائم لائن بھی دے دی مگر اسرائیل نے صاف انکار کر دیا اور اپنی دہشت گردانہ جارحیت جاری رکھی۔ ٹرمپ جس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں اور جس بے باکی سے جھوٹ بولتے ہیں اُس نے دنیا کی سیاسی لغت میں بہت کچھ اضافہ کر دیا ہے۔ اس لیے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ 

؏ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا


(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۰

پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
حضرت مولانا اللہ وسایا
عامر عثمانی

سپریم کورٹ کا غیر شرعی فیصلہ
ڈاکٹر محمد امین

مروّجہ نعت خوانی    —    چند قابلِ اصلاح پہلو
مولانا زبیر احمد صدیقی

ابنِ خلدون: مسئلہ عصبیت  ،   ایک تجزیہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

جسٹس منصور علی شاہ اور اسلامی قانونِ نکاح و طلاق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کسبِ معاش سے صوفیہ کی وابستگی: مشائخ تیغیہ کے حوالے سے
ڈاکٹر محمد ممتاز عالم

مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل
ڈاکٹر عرفان شہزاد

Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹرز کی پاکستان آرمی میں شمولیت
ابرار اسلم
ڈان نیوز

Khatm-e-Nubuwwat Conferences: A Referendum of Our Stance
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۴)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۸)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں
مہاتیر محمد

شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟
ادارہ الشریعہ

قطر میں اسرائیلی حملہ: سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کا موقف اور پاکستان کا جواب
عاصم افتخار احمد

غزہ و قطر پر اسرائیلی جارحیت اوراُمتِ مسلمہ کی بے بسی وبے حسی
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات
میڈیا

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پاک سعودی تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ
ادارہ الشریعہ

برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال وغیرہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی تسلیم
ادارہ الشریعہ

إبداء الفرح والسرور وتقديم الشكر والتحية بمناسبة توقيع الاتفاق الدفاعي بين المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایمل صابر شاہ

جامعہ نصرۃ العلوم میں پیغامِ پاکستان سیمینار اور مولانا راشدی کا خطاب
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

قطر اجلاس، پاک سعودی معاہدہ، صمود فلوٹیلا، ختم نبوت کانفرنس : مولانا راشدی کا تبصرہ
مولانا حافظ عاطف حسین
مولانا حافظ دانیال عمر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter