گیارہ ستمبر کو ہونے والے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیلی نمائندہ ڈینی ڈنون نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے قائدین کے خلاف حملے کا دفاع کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ دہشت گرد کہیں بھی چھپ نہیں سکتے، چاہے وہ غزہ ہو، تہران ہو یا دوحہ۔ اور اسرائیلی حملے کو ایک بہادرانہ اور درست آپریشن قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قاتل اور منصوبہ ساز عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ مثلاً مطالبہ کیا کہ قطر حماس کی مذمت کرے، انہیں نکالے، یا پرامن حل کے لیے جوابدہ بنائے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیلی حملے کا دفاع کرتے ہوئے ڈینی ڈنون نے امریکہ کی اس کارروائی کی مثال دی جس میں معروف عرب مجاہد اسامہ بن لادن کے خلاف پاکستان کے اندر کارروائی کی گئی تھی، اور سوال اٹھایا کہ جب وہ کارروائی ہوئی تھی تب عالمی برادری نے اتنی شدید تنقید کیوں نہیں کی جتنی اب قطر میں اسرائیلی حملے پر ہو رہی ہے۔
اس موقع پر اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندہ جناب اعظم افتخار احمد نے جو گفتگو کی اس کا ترجمہ درج ذیل پیش کیا جا رہا ہے-
(ادارہ الشریعہ)
’’جناب صدر!
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے پاکستان کو دوبارہ بات کرنے کا موقع دیا۔ مجھے اس لیے مداخلت کرنا پڑ رہی ہے تاکہ کچھ بے بنیاد باتوں کا جواب دیا جا سکے۔ اسرائیل کے نمائندے نے شاید توجہ سے آج کے مباحثے میں تمام اراکین اور مقررین کی گفتگو نہیں سنی۔ ہماری نظر میں یہ بالکل ناقابلِ قبول بلکہ مضحکہ خیز ہے کہ ایک جارح، ایک قابض، ایک ایسا ملک جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی بار بار خلاف ورزی کرتا ہے — یعنی اسرائیل — اس ایوان کا غلط استعمال کرے اور اس کونسل کے تقدس کی توہین کرے۔ اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
دوسروں پر انگلیاں اٹھانا اور بے بنیاد الزامات لگانا دراصل اپنی غیر قانونی کارروائیوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ لیکن یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ ایک قابض قوت کسی کی بات نہیں سنتی، وہ کسی کی نصیحت پر کان نہیں دھرتی، حتیٰ کہ اپنے دوستوں کی بات پر بھی نہیں۔اگر کوئی دوست باقی بچا ہو۔ وہ صرف انکار نہیں کرتی بلکہ بین الاقوامی برادری، عالمی میڈیا، انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو دھمکاتی ہے۔ وہ عالمی عدالتِ انصاف اور عالمی فوجداری عدالت کو بھی نہیں مانتی اور اقوامِ متحدہ اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں تک کو دھمکاتی ہے۔ یہ سب وہ بلا روک ٹوک اس لیے کرتی ہے کیونکہ اس کے پشت پناہ موجود ہیں، جو بار بار عالمی برادری کے برخلاف اس کی غیر قانونی حرکتوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔
اور اسرائیل ہر قابض کی طرح، خود جارح ہونے کے باوجود، مظلوم بننے کا ڈھونگ رچاتا ہے۔ مگر آج یہ بالکل بے نقاب ہو چکا ہے۔ جناب صدر! اس کونسل نے دہائیوں تک مشرقِ وسطیٰ اور فلسطینی مسئلے پر بات کی ہے۔ اجلاس پر اجلاس، گھنٹوں ہم نے اس ایجنڈے پر صَرف کیے ہیں۔ یہ کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ صرف اسرائیل کی وجہ سے ہوتا ہے، جو اپنے غیر قانونی قبضے سے پیچھے ہٹنے سے انکار کرتا ہے اور اس کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہے، اسی لیے یہ مباحثے ہوتے ہیں۔
اسرائیل نے ایک غیر متعلقہ واقعے کا حوالہ دے کر پاکستان کے بارے میں گمراہ کن باتیں بھی کی ہیں، تاکہ اپنی غیر قانونی کارروائیوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کو درست ثابت کر سکے۔ پاکستان کا موقف اس واقعے پر بالکل واضح ہے اور عوامی سطح پر موجود ہے۔ عالمی برادری اچھی طرح جانتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے آگے رہ کر قربانیاں دی ہیں۔ پوری دنیا، بشمول ہمارے شراکت دار، اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ القاعدہ کا ڈھانچہ زیادہ تر پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں سے ختم ہوا۔ ہم آج بھی اس اجتماعی عالمی جدوجہد کے لیے پرعزم ہیں۔
ہم کسی ایسی غیر ذمہ دار اور باغی ریاست کے اشاروں کو قبول نہیں کر سکتے جو دراصل بدترین ریاستی دہشت گردی کی مرتکب ہے۔ جیسا کہ آج غزہ میں اور دہائیوں سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ہو رہا ہے۔ ہم کسی بھی جھوٹے موازنہ کو مسترد کرتے ہیں، جیسا کہ قطر نے بھی کیا ہے۔ قابض قوت کو آج سلامتی کونسل کا جاری کردہ بیان غور سے پڑھنا چاہیے۔ ایسا بیان عام طور پر اس سے زیادہ سخت ہوتا ہے، بہرحال یہ کونسل کا متفقہ بیان ہے، مجھے با آواز بلند اسے یہاں پڑھنے دیجیے:
”سلامتی کونسل کے اراکین نے 9 ستمبر کو ایک کلیدی ثالث کے علاقے دوحہ میں ہونے والے حالیہ حملوں کی مذمت کی۔ انہوں نے عام شہریوں کی ہلاکت پر گہرا افسوس ظاہر کیا۔ کونسل کے اراکین نے کشیدگی کم کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کو اجاگر کیا۔ کونسل کے اراکین نے یہ بھی یاد دلایا کہ قطر، مصر اور امریکہ خطے میں ثالثی کی جو کوششیں کر رہے ہیں وہ نہایت اہم ہیں۔ کونسل کے اراکین نے زور دیا کہ یرغمالیوں کی رہائی، بشمول ان کے جو حماس کے ہاتھوں مارے گئے، اور غزہ میں جنگ اور انسانی المیے کے خاتمے کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس حوالے سے انہوں نے قطر، مصر اور امریکہ کی جاری سفارتی کوششوں کی اہمیت دہراتے ہوئے فریقین پر امن کے موقع کو غنیمت جاننے پر زور دیا۔“
یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے ہم آج اس اجلاس میں موجود ہیں۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘
(ڈی ڈبلیو ایس نیوز، ۱۲ ستمبر ۲۰۲۵ء)