دیر آید، درست آید۔ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اب بھی ہوا، تو بہت ہی اچھا ہوا۔ الحمد للہ۔ حرمین کا دفاع، امتِ مسلمہ کے ہر فرد کا دفاع اور دارالاسلام کے ہر ٹکڑے کا دفاع پوری امت کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ایسا ہی معاہدہ تیسرے حرم، حرمِ اقصی، کے دفاع کے لیے بھی ہونا لازم ہے۔ ایسا معاہدہ تمام مسلمان ریاستوں کے درمیان ہونا چاہیے۔ تاہم ابتدا پاکستان اور سعودی عرب نے کر لی۔ اس پر دونوں داد کے مستحق ہیں؛ باقی اس میں شامل ہوں لیکن "سبقت عکاشہ نے حاصل کر لی"!
برسوں پہلے میں نے اس موضوع پر یہ لکھا تھا۔ میری کتاب "جہاد، مزاحمت اور بغاوت" کے پہلے ایڈیشن (2008ء) سے اقتباسات:
دفاع نہ صرف ایک فطری حق ہے بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے۔ ایک مسلمان گروہ پر حملہ پوری امتِ مسلمہ پر حملہ تصور ہوگا اور سب پر دفاع کا فریضہ عائد ہوگا۔ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کے لوگ اگر حملے کے خلاف دفاع نہ کر سکتے ہوں تو ان کے پڑوس کے علاقوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا۔ پھر اگر وہ بھی دفاع کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا وہ فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کے بعد کے علاقوں پر فریضہ عائد ہوگا، یہاں تک کہ یہ فریضہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر عائد ہو جائے گا۔
ان الجھاد اذا جاء النفیر انما یصیر فرض عین علی من یقرب من العدو۔ فأما من ورائھم ببعد من العدو فھو فرض کفایۃ علیھم حتی یسعھم ترکہ اذا لم یحتج الیھم۔ فان احتیج الیھم بأن عجز من کان یقرب من العدو عن المقاومۃ مع العدو، أو لم یعجزوا عنھا لکنھم تکاسلوا و لم یجاھدوا ، فانہ یفترض علی من یلیھم فرض عین کالصلوٰۃ و الصوم لا یسعھم ترکہ ثم و ثم الی أن یفترض علی جمیع أھل الاسلام شرقاً و غرباً علی ھذا التدریج۔ نظیرہ الصلوٰۃ علی المیت، ان کان الذی یبعد من المیت یعلم أن أھل محلتہ یضیعون حقوقہ أو یعجزون عنہ کان علیہ أن یقوم بحقوقہ، کذا ھنا۔
نفیر عام کی صورت میں جہاد ہر اس شخص پر فرض عین ہو جاتا ہے جو دشمن سے قریب تر ہو۔ اور جو دشمن سے دور ہوں تو ان کے لیے یہ اس وقت تک فرض کفایہ ہوتا ہے جب تک جنگ میں ان کی شرکت کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس وجہ سے ان کے لیے اس جنگ سے الگ رہنے کا موقع ہو۔ پس اگر اس وجہ سے ان کی ضرورت پڑے کہ دشمن کے قریب کے لوگ کمزور ہیں یا کمزور نہیں ہیں مگر دفاع میں کوتاہی کر رہے ہیں تو ان کے بعد ّنے والوں پر یہ نماز اور روزے کی طرح فرض عین ہو جاتا ہے جس کا تک کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح دوسروں کی باری آئے گی یہاں تک کہ بتدریج شرقا و غربا تمام اہل اسلام پر یہ فرض عین ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال میت کی نماز جنازہ کی ہے۔ اگر میت سے دور رہنے والا جانتا ہو کہ اس کے پڑوس کے لوگ اس کے حقوق ضائع کریں گے یا وہ ان کی ادائیگی سے عاجز ہیں تو اس پر فرض عین ہو جاتا ہے کہ اس کے حقوق ادا کرے۔ بعینہ اسی طرح اس صورت میں بھی ہوگا۔
گویا اسلامی ملک پر حملے کو کوئی مسلمان پرایا جھگڑا نہیں سمجھے گا، بلکہ دفاع کو اپنا فریضہ سمجھ کر ہوشیار اور بیدار رہے گا، کیونکہ کسی بھی وقت یہ امکان ہو سکتا ہے کہ یہ فریضہ اس کے حق میں فرضِ عین ہو جائے۔ اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اسلامی ملک پر حملے کی صورت میں پوری امتِ مسلمہ میں ایک ایمرجنسی کی سی کیفیت پیدا ہو۔
یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ پڑوس کے علاقوں پر فریضہ عائد ہونے کا سبب یہ ہے کہ دور کے علاقوں کی بہ نسبت وہ حملے کے خلاف دفاع کی زیادہ بہتر پوزیشن پر ہوتے ہیں۔ پس اگر قریب کے علاقے یہ فریضہ احسن طریقے سے نہیں نبھا سکتے یا وہ اس کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو دور کے علاقے اس فرض کو ادا کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔
موجودہ دور میں جبکہ ذرائع مواصلات نے بہت ترقی کی ہے قرب و بعد کے پیمانے بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب تو شاید زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ کس مسلمان ملک کے پاس زیادہ بہتر ہتھیار پائے جاتے ہیں؟ کس ملک کی معاشی پوزیشن زیادہ مستحکم ہے؟ کونسا ملک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے ہے؟ جو جتنی زیادہ اہلیت رکھے گا اس پر فریضہ دوسرے کی بہ نسبت زیادہ جلدی عائد ہوگا۔ اس لحاظ سے یہ عین ممکن ہے کہ مجاور ملک کی بہ نسبت ایک دور دراز کے ملک، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہوں اور وہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی آگے ہو ،پر دفاع کا فریضہ جلدی عائد ہو۔
یہاں ایک بار پھر اس امر کی طرف توجہ ہو کہ دفاع کا فریضہ عام حالات میں فرضِ کفائی ہے جو بعض اوقات فرضِ عین بھی بن جاتا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان ملک اور ہر مسلمان فرد کو خود غور کر کے فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا اس کے حق میں اس کی حیثیت فرضِ کفائی کی ہے یا یہ اس کے حق میں فرضِ عین کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دفاع کا فریضہ احسن طریقے سے ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ممالک کے درمیان باہمی رابطے بہتر ہوں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی اور معاشی بندھنوں میں بندھ جائیں۔ اس سلسلے میں یورپی یونین اور معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے تجربات سے بہت کچھ دروس و عبر حاصل ہو سکتے ہیں۔ نیٹو ممالک نے آپس میں دفاعی معاہدہ کر کے ’’اجتماعی دفاع‘‘ کے تصور کو ایک بہترین عملی شکل دے دی ہے۔ ایک رکن ملک پر حملہ سب پر حملہ تصور ہوتا ہے اور سب مل کر حملہ آوروں کے خلاف کاروائی کرتے ہیں۔
اس طریق کار کو بین الاقوامی قانون نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 51 نے مختلف ممالک کے اجتماعی حق دفاع کو سند جواز دی ہے۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے بھی اس طریق کار کو جائز ٹھہرایا ہے۔ اس اجتماعی حقِ دفاع کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں قرب و بعد کی بات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کوئی سے دو یا زائد ممالک، جو مشترکہ مفاد رکھتے ہوں، آپس میں دفاعی معاہدہ کر کے اجتماعی حق دفاع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بحر شمالی اوقیانوس حائل ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس طریق کار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
امتِ مسلمہ کے اجتماعی حقِ دفاع کے متعلق البتہ یہاں یہ بات واضح ہو کہ اس کی بنیاد کسی دفاعی معاہدے پر نہیں، بلکہ امت کے تصور پر ہے اور یہ امت پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے عائد کردہ فریضہ ہے۔ اس لیے اگر دو اسلامی ممالک میں دفاعی معاہدہ نہ بھی ہو تو ان پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ تاہم موجودہ بین الاقوامی نظام اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مسلمان ممالک آپس میں دفاعی معاہدات بھی کر لیں تو وہ بہت سی پیچیدگیوں سے بچیں گے۔