بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ پاکستان کی سالمیت و استحکام اور ترقی کے لیے دستور کی بالادستی کا احترام کرتے ہوئے تمام دینی و سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں اور قومی طبقات کو اپنی اپنی ترجیحات چھوڑ کر دستور کے دائرے میں واپس آنا ہوگا۔ اس کے بغیر موجودہ فکری، سیاسی اور معاشرتی بحران کو کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا۔
وہ گزشتہ شب جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں "پیغامِ پاکستان سیمینار" سے خطاب کر رہے تھے، جس کی صدارت جامعہ کے مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی نے کی اور اس سے مولانا عبدالواحد رسولنگری، مولانا شاہنواز فاروقی، مولانا جواد محمود قاسمی اور مولانا مفتی فضل الہادی نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جامعہ نصرۃ العلوم کے سہ ماہی امتحانات میں مختلف درجات میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء میں انعامات تقسیم کیے گئے۔
مولانا زاہد الراشدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں کسی سیاسی و دینی جدوجہد کے لیے ہتھیار اٹھانا بغاوت ہے، اور ہم اس کو کسی صورت میں درست نہیں سمجھتے اور نہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے انگریزوں کے دور میں بہت سی مسلح جنگیں لڑی ہیں جو اپنے اپنے وقت میں سب درست تھیں۔ ان میں نواب سراج الدولہ، ٹیپو سلطان، شہدائے بالاکوٹ، بنگال کی فرائضی تحریک، سندھ میں حروں کی جدوجہد، پنجاب میں سردار احمد خان کھرل کی جنگ اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں حاجی صاحب ترنگزئی اور فقیر ایپی کی جنگیں شامل ہیں۔ یہ سب ہمارے بزرگ تھے اور ہیں، ان میں سے کسی کی جنگ پر شرمندگی نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے یہ سب قابلِ فخر ہیں۔
لیکن جنگ عظیم اول کے بعد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی قیادت میں ہم نے مسلح جنگ کا طریقہ چھوڑ کر سیاسی جدوجہد اور سٹریٹ پاور کی جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا تھا، جس پر پہلی تحریک "تحریکِ خلافت" تھی۔ اس کے بعد تمام دینی و سیاسی تحریکیں سیاسی محاذ پر چلائی گئی ہیں۔ ہم نے پاکستان بننے کے بعد قرآن و سنت کی بالادستی، شریعت کے نفاذ، عقیدہ ختمِ نبوت کے تحفظ اور ناموسِ رسالت کی پاسداری سمیت ہر جدوجہد سیاسی میدان میں کی ہے، اور آج بھی وہی ہمارا دائرہ اور محاذ ہے۔
ملک کے اندر کسی بھی دینی، سیاسی اور قومی ایجنڈے کے لیے مسلح جدوجہد کو جائز نہیں سمجھتے اور ایسا کرنے والوں کی حمایت نہیں کرتے۔ لیکن اس کے ساتھ ہماری یہ بھی گزارش ہے کہ جس طرح مسلح جنگ جائز نہیں ہے، اسی طرح دستوری تقاضوں سے انحراف اور قرآن و سنت کی بالادستی سے گریز بھی درست نہیں ہے، اور ایسا کرنے والوں کو بھی اپنے منفی طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔
مولانا راشدی نے کہا کہ ہم سے بعض حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ہم اپنے خطابات میں فلاں فلاں موضوعات پر بات کریں۔ یہ بات ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ ہم نے خطبہ جمعہ، دینی بیانات اور درس و تدریس میں کبھی کسی ڈکٹیشن کو قبول نہیں کیا اور نہ آئندہ منبر و محراب کی آزادی کے خلاف کوئی بات قبول کریں گے۔
مولانا راشدی نے مدارس کے منتظمین، اساتذہ اور طلباء سے کہا کہ وہ اپنی اجتماعیت بالخصوص وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ وابستگی کو پختگی کے ساتھ قائم رکھیں، اور کوئی الگ انفرادی رائے یا موقف اختیار کرنے کی بجائے جمہور علماء کرام کے دائرے میں رہیں۔
مولانا عبدالواحد رسولنگری نے اپنے خطاب میں اسی بات پر زور دیا کہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کا تحفظ بھی ضروری ہے، اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
مولانا شاہنواز فاروقی نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں امن و امان کے تحفظ اور ملک کی سالمیت کی پاسداری کے لیے ہم حکومت اور ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں، اور اپنے وطن عزیز کے ایک ایک چپہ کی حفاظت کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔ پاکستان کے قیام کے مقصد کو بھی پورا کرنا ہوگا اور تمام طبقات کو اس کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
21 ستمبر 2025ء