اللہ تعالی نے جن جانداروں کو سمجھ اور شعور کے ساتھ اعضائے متحرکہ کی دولت سے نوازا ہے اسے اپنے رزق کے اہتمام کر نے کی ذمہ داری بھی سونپی ہے۔ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کا نظارہ ہمیں ہر چہار دانگ عالم میں دیکھنے کو ملتا ہے؛ بحری جاندار پانی میں، بری جاندار زمین پر، کوئی رات کے اندھیرے میں اور کوئی دن کے اجالے میں اسی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ سارے جانداروں میں اشرف ہو نے کا شرف انسان کو حاصل ہے اس لئے اس کے معاش کے ہزاروں ذرائع بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما دیئے ہے، کائنات کے جس چپہ پر نگاہ ڈالئے ہر طرف نعمتِ الٰہی بکھری پڑی ہے جسے انسان معمولی تگ و دو کر کے بہ آسانی حاصل کر سکتا ہے اور اپنی ضروریات کی تکمیل کر سکتا ہے۔
ظاہری طور پر عوام الناس کو لگتا ہے کہ دنیا کمانے کی فکر کوئی قابلِ قدر چیز نہیں ہے مگر اسلام کی تعلیمات سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام نے کسبِ حلال کی بڑی تاکید کی ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ میں جانے والے کھانے میں سب سے بہتر کھانا اسے قرار دیا ہے جس کی حصولیابی میں انسان کی اپنی محنت شامل ہو۔
اب دنیا کمانے والوں کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک وہ ہے جو پورے طور سے دنیا کمانے میں لگ جاتے ہیں، نہ انہیں احکام اسلام کی بجا آوری کا خیال رہتا ہے اور نہ ہی خدا کی عبادت کا؛ وہ حرام و حلال کی تمیز بھول جاتے ہیں، جہاں جیسی دولت مل جائے دامن بھر نے کے فراق میں رہتے ہیں ظاہر ہے کہ ایسی دنیا کمانے کی تائید اسلام ہر گز نہیں کرتا۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو کاروبار کے وقت کاروبار اور عبادت کے وقت عبادت پروردگار میں مصروف رہتے ہیں، یہی لوگ مردِ میدان ہیں اور انہیں کی تعریف قرآن کریم نے کیا: ’’رجال لا تلہیہم تجارۃ و لا بیع عن ذکر اللہ و اقام الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ‘‘۔
معاشی تگ ودو سے باز رہنے والوں کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک وہ لوگ ہیں جو بالکل کاہلی اور سستی کے شکار ہیں، نہ انہیں دنیا کی فکر ہے اور نہ ہی آخرت کی پرواہ۔ ایسا آدمی گھر، خاندان، سماج، ملک اور مذہب پر بوجھ ہے۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو دنیا کو مردار و حقیر جانتے ہیں، وقت کو قیمتی گمان کرتے ہیں، وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے اس لئے ہر آن خدائے تعالی کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں، ایسے صاحبِ ہمت کے پاس اگر اپنی ضروریات کے مطابق آمدنی کے حلال ذرائع ہوں تو پھر کیا کہنا! اگر نہیں ہے اور ان کے اسبابِ حیات کا انتظام دوسرے لوگ کرتے ہیں تو پھر اس عابد و زاہد کا رتبہ اس آدمی سے بہت کم ہے جو ان کی ضروریات کی تکمیل کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔
امام غزالی نے کسب و توکل کے اس مسئلے پر وضاحت سے لکھا ہے آپ فرماتے ہیں:
یہاں ایک بحث پیدا ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی کا بغیر کسی پیشے اور ذریعہ آمدنی کے شہر میں بیٹھے رہنے کا کیا حکم ہے؛ حرام ہے، مباح ہے، یا مستحب ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا حرام نہیں ہے اس لئے کہ جب جنگل میں زاد راہ کے بغیر گھومنے والا اپنی جان تلف کرنے والا نہیں مانا گیا تو یہ شخص اپنے نفس کو ہلاک کر نے والا کیسے کہا جائے گا اور اس کے عمل کو حرام کس طرح کہا جائے گا؟ ہو سکتا ہے اسے کسی ایسی جگہ سے رزق مل جائے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو تاہم اس میں تاخیر ہو سکتی ہے اور اس کے لئے اس وقت تک صبر کرنا ممکن ہے کہ کوئی اسے کھانے پینے کا سامان دے۔ لیکن اگر کوئی شخص گھر کا دروازہ اس طرح بند کر کے بیٹھ جائے کہ نہ خود باہر نکلے اور نہ کسی دوسرے کو اندر آنے دے تو یہ حرام ہے۔ البتہ اگر وہ گھر کا دروازہ کھولے بیکار بیٹھا ہے عبادت میں مشغول نہیں ہے تو اس سے بہتر ہے باہر نکلے اور کوئی ذریعہ آمدنی تلاش کرے، حرام اس کے فعل کو بھی نہیں کہا جا سکتا اِلا یہ کہ موت قریب ہو جائے اس صورت میں گھر سے باہر نکل کر سوال کرنا اور کمانا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مشغول ہو اور لوگوں پر نظر نہ رکھتا ہو اور نہ کسی ایسے شخص کا منتظر ہو جو اس کے لئے کھانا لے کر آئے بلکہ اس کی نظر صرف اللہ تعالیٰ پر ہو اور اس کی عبادت میں مشغول ہو تو یہ توکل کے مقامات میں سب سے افضل ترین مقام ہے۔ (۱)
دنیا میں بہت سے ایسے صاحبِ یقین گذرے ہیں جنہیں خدا کی رزاقیت پر اتنا بھروسہ ہو گیا کہ انہوں نے رزق کا خیال یکسر بھلا دیا اور رازق کے ذکر و فکر کو ہی اپنا محبوب ترین مشغلہ بنا لیا، ان کے اخلاص کے نتیجے میں خدائے تعالیٰ کی رحمت بھی ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسی، بے موسم کے پھلوں کا لطف انہیں میسر آیا، جس مسموم فضا میں زندگی اپنی آب و تاب کھو دیتی ہے اسی فضا میں انہیں عیشِ حیات اور تحفظات فراہم ہوئے۔ جہاں نہر و تالاب کا نام و نشان نہیں اسی مقام پر شفاف پانی ان کے مٹکوں میں چھلکتے رہے
؏ یہ رتبہ بلند ملا جن کو مل گیا
حضرت امام غزالی نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے: توکل کر نے والوں کا رزق ان کی مشقت کے بغیر بندوں کے ہاتھوں میں گردش کرتا رہتا ہے اور دوسرے لوگ رزق کی فکر میں مشغول رہتے ہیں اور مشقت اٹھاتے ہیں۔ (۲)
ایسے ہی صاحبِ یقین و توکل کے پیکر حضرت ابراہیم ہروی گذرے ہیں ان کے یقین کی کیفیت ملاحظہ کیجئے۔ آپ نے ایک امام کے پیچھے نماز ادا کی نماز کے بعد امام نے پوچھا کہ آپ نہ تو کوئی کام کرتے ہیں نہ کسی سے کچھ لیتے ہیں پھر کھاتے کہاں سے ہیں؟ فرمایا کہ پہلے مجھ کو دوبارہ نماز کی قضا ادا کر لینے دو، ایسے شخص کی اقتدا میں نماز جائز نہیں جو روزی دینے والے کو بھی نہیں جانتا۔
توکل کے اس افضل ترین مقامات پر اللہ تعالیٰ کے مخصوص بندے ہی فائز ہو سکتے ہیں جنہیں خدا کے قرب کے ساتھ ساتھ ضروریات دنیا بھی مل جاتی ہیں۔ حضرت شقیق بلخی ابتداءً تاجر تھے، ترکی کے سفر میں ایک بت پرست کو اس کے عقائدِ فاسدہ کی عار دلائی اور کہا کہ خدائے تعالیٰ کو چھوڑ کر یہ کس کی عبادت کر رہے ہو؟ اس نے کہا: آپ کا خدا تو گھر بیٹھے روزی دے سکتا ہے پھر تجارت کے لئے کیوں مارے مارے پھر رہے ہیں؟ اس واقعہ نے آپ کو متاثر کیا، دل سے تجارت اور کاروبار سے اچاٹ ہو نے لگا۔ اسی اثنا میں بلخ میں قحط سالی پڑی، لوگ بھوک و پیاس سے پریشاں حال تھے، ہر طرف فکرِ فردا کا منظر تھا، اتنے میں آپ نے ایک غلام کو دیکھا جو بڑا خوش ہے، آپ نے پوچھا زمانہ قحط سالی کا ہے اور تو اس قدر خوش نظر آرہا ہے؟ تو اس غلام نے کہا میرے مالک کے پاس بہت غلہ ہے وہ مجھے بھوکا نہیں رکھے گا تو پھر مجھے قحط سالی کی کیا پرواہ؟ اس غلام کا اپنے آقا پر ایسا اعتماد دیکھ کر آپ کے دل کی دنیا بدل گئی، ایک عزمِ مصمم کے ساتھ آپ نے تجارت اور کاروبار دنیا سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر لی، آپ کے بار میں عطار نے لکھا ہے ’’آپ کا توکل معراجِ کمال تک پہنچا‘‘۔
دنیا میں بہت سے ایسے صوفیا گذرے ہیں جو توکل کے مقام پر فائز رہے ہیں جنہوں نے کسی معاشی ذریعہ کو ہاتھ نہیں لگا یا جنگلوں میں زندگی گذار دی مگر اس کے باوجود ان اصفیا کے صف میں ایسا کوئی نظر نہیں آتا جنہوں نے کسبِ حلال کی سعی کو مذموم قرار دیا ہو بلکہ ان الجھنوں کے ساتھ سلوک کی راہ پر چلنے والے کے مقام کی بلندیوں کا اعتراف سارے اولیاء اللہ نے کیا ہے۔ صفِ اول کے اولیاء اللہ میں شمار کئے جانے والے حضرت شیخ بایزید بسطامی جب خرقان میں قدم رنجہ ہوتے تو احتراماً کھڑے ہو کر سانس بھرتے، لوگوں نے اس معمول کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: میں اس جگہ ایک مردِ خدا کی خوشبو پاتا ہوں جو تین درجہ مجھ سے آگے ہو گا، وہ عیال کا بار اٹھائے گا اور کھیتی باڑی کرے گا۔(۳) بایزید بسطامی کی یہ بشارت توقیر حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی کے لئے تھی جن کی شریکِ حیات بڑی تنک مزاج اور آپ کے ولایت کی سخت منکر تھی مگر آپ اس کی ان تمام بدزبانیوں کو صرف رضائے الٰہی کے لئے برداشت کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے مقامات اور تصرفات اسی صلے میں عطا فرمائے تھے۔ جو لوگ ان الجھنوں کو جھیل کر اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہیں اور یادِ الٰہی سے دل کی دنیا آباد کرتے ہیں ان پر توکل و استغنا اور تجرد کی زندگی گزارنے والے اہل اللہ بھی رشک کیا کرتے ہیں۔
حضرت محمد سماک سے جب شادی کرنے کی فرمائش کی جاتی تو فرماتے کہ دو ابلیسوں کی مجھ میں ہمت نہیں۔ بعد وفات لوگوں نے خواب میں دیکھ کر آپ سے کیفیت دریافت کی تو فرمایا مغفرت ہو گئی ہے لیکن جو مرتبہ بال بچوں کی اذیت برداشت کر نے سے حاصل ہوتا ہے وہ حاصل نہ ہو سکا۔(۴)
حضرت بشر حافی کے ارادتمندوں میں ایک معتبر نام امام احمد ابن حنبل کا ہے، آپ روزانہ بعد عصر ان کی بارگاہ میں حاضر ہوا کرتے تھے، مگر خود بشر حافی کہا کرتے تھے امام احمد ابن حنبل مجھ سے بدرجہا افضل ہیں کیوں کہ میں صرف اپنے ہی واسطے اکلِ حلال کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ اپنے اہل و عیال کے لئے بھی حلال رزق حاصل کرتے ہیں(۵)
ضروریات زندگی کے حصول کے لئے کاروبار دنیا میں مصروف ہو نا صوفیا کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔ یہ محض نفس کا دھوکہ ہے کہ کاروبار میں مصروف رہ کر احکامِ اسلام کی بجاآوری دشوار ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر روزی کے ساتھ ساتھ رازق کی تلاش بھی جاری رکھے تو دارین کی سعادتوں سے سرفراز ہو سکتا ہے اور اکثر اولیاء اللہ ایسے ہی ہوئے ہیں۔
دنیا کے پہلے صوفی حضرت حسن بصری جواہرات کی تجارت کرتے تھے اور دور دراز ممالک کا بھی سفر اس سلسلے میں کرتے تھے، ساتھ ہی ساتھ راہِ احسان کے اول راہرو و راہبر تصور کئے جاتے ہیں۔
ہر شخص واقف ہے کہ تصوف کے مدون حضرت جنید بغدادی کی شیشہ فروشی کی دوکان تھی جہاں وہ کاروبار بھی کرتے تھے اور اس پر پردہ ڈال کر چار سو رکعت نفل ادا کیا کرتے تھے، آپ نے خود کفیل لوگوں کی کیا شاندار تعریف کی ہے، فرماتے ہیں: جوانمرد وہ ہے جو اپنا بوجھ دوسرے پر نہ رکھے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو بھی راہِ سلوک کا سراغ اس وقت ملا تھا جب وہ اپنے ترکہ کے باغ (جس کی آمدنی وافر تھی) کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔
ابو حفص حداد کو حداد اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوہار تھے اور لوہے کا اوزار بناتے تھے، آپ ایک دینار روزانہ کما کر فقرا میں تقسیم کر دیتے تھے اور بیوہ عورتوں کے گھروں میں چپکے سے پھینک آتے تھے تاکہ کسی کو علم نہ ہو۔
حضرت شیخ فرید الدین عطار دوا فروشی کرتے تھے۔
حضرت ابراہیم بن ادہم نے جب تخت و تاج تج کر راہِ سلوک پہ قدم رکھا تو ادھر ادھر کی سیاحی کے بعد مکہ شریف کی سر زمین پر اقامت پذیر ہوئے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد ان کے شہزادے چار ہزار آدمیوں کو اپنی جانب سے اخراجات دے کر حج کر نے کے لئے مکہ شریف آئے، وہاں کے مشائخ سے اپنے والد کے متعلق دریافت کیا تو مشائخ نے کہا: وہ ہماے مرشد ہیں اور اس وقت اس نیت سے جنگل میں لکڑیاں لینے گئے ہیں کہ اپنے اور ہمارے لئے کھانے کا انتظام کریں۔ شہزادہ جب جنگل کی جانب گیا تو دیکھا ایک بوڑھا سر پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے آرہا ہے، احتراماً پیچھے پیچھے ہو لیا، بازار پہنچ کر حضرت ابراہیم ادہم نے آواز لگائی کون ہے جو پاکیزہ مال کے عوض میں پاکیزہ مال خریدے؟ یہ سن ایک شخص نے روٹیوں کے عوض لکڑیاں خریدیں۔ انہوں نے اپنے پیر کی اتباع میں کاغذ بنان خرید لیں جس کو آپ نے ارادتمندوں کے سامنے رکھ دیا اور خود نماز میں مشغول ہو گئے۔ آپ کے معمولات کے بارے میں عطار نے لکھا ہے: آپ کو دن بھر مزدوری کے بعد جو رقم ملتی وہ سب اپنے ارادتمندوں پر صرف کر دیتے۔(۵)
سچ کہا ہے ابو سلیمان دارائی نے: تمام دن کی عبادت سے رات کو رزقِ حلال کا ایک لقمہ زیادہ بہتر ہے۔(۶)
حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں: ہر عمل جو موافقِ شریعت ہے ذکر میں داخل ہے اگرچہ خرید و فروخت ہو۔(۷)
تصوف کے بنیادی سلاسل میں ایک سہروردیہ ہے جس کے مشہور بانی حضرت شہاب الدین سہروردی ہیں، آپ کے بارے میں جملہ سوانح نگار کا اتفاق ہے کہ وہ صاحبِ جائداد تھے اور اس کے انتظام و انصرام میں بہت زیادہ مصروف رہتے تھے، ان کے اصطبل کا حال یہ تھا کہ تمام گھوڑے سنہری زنجیروں سے چاندی کی میخ میں بندھے رہتے تھے۔ ایک بزرگ نے یہ شاہانہ طمطراق دیکھ کر کہا: یہ فقیری نہیں شہنشاہی ہے۔ آپ نے جواب دیا: یہ میخیں میرے دل میں نہیں زمین میں گڑی ہیں۔ اس سلسلہ کی خصوصیت ہے کہ ترکِ دنیا کا اس میں کوئی تصور نہیں ہے، اس کا اصول ہے اچھا کھاؤ، اچھا پہنو، دولت کماؤ، سب کچھ کرو، مگر اللہ کو نہ بھولو، گناہوں سے دامن بچائے رکھو۔ یہ سلسلہ دنیا میں رہ کر اور اس میں پھنس کر طاعت و عشق کے مظاہرے کی تعلیم دیتا ہے۔
سلسلہ تیغیہ؛ سلسلہ قادریہ آبادانیہ فریدیہ کی شاخ ہے جس کے شیخ حضرت تیغ علی شاہ ہیں۔ اس سلسلے کی نہر قادری بحر سے پھوٹتی اور مجمع السلاسل حضرت مجدد الف ثانی کے مجددیہ موجوں سے فیضیاب ہوتے ہوئے آبادانیہ نہر نکالتا ہے، پھر پانچ واسطوں کو طے کر کے حضرت شیخ المشائخ سے منسوب ہو کر تیغیہ کہلاتا ہے۔
آبادانیہ کے پہلے شیخ صوفی شاہ آبادانی ہیں، یہ مرید و خلیفہ ہیں امیر الملۃ والدین میر محمد زکریا کے۔ صاحبِ ثروت آدمی تھے، اپنے شیخ حضرت شاہ میر محمد سندھی کی بارگاہ میں پہلی بار امیرانہ شان و شوکت کے ساتھ حاضر ہوئے۔ فقیروں کو اگرچہ یہ بات پسند نہیں آتی مگر شاہ امیر محمد سندھی نے ان کی امیرانہ شان کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا، ان پر اپنا خصوصی خوب فیضان جاری کیا، جب روحانی لذتوں سے شاد کام ہوئے تو دوبارہ خود ہی فقیرانہ لباس میں بارگاہِ مرشد میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے دیکھتے ہی کہا: اب ٹھیک ہے۔ انہوں نے شیخ سے کہا اگر آپ کی اجازت ہو تو کاروبارِ دنیا کو یکسر ترک کر دوں اور خدمتِ عالیہ میں حاضر رہوں؟ شیخ نے فرمایا: دنیا بمعنی مشغول ہونا غیر حق کے ہے، اسبابِ ظاہری مانعِ حق پرستی و خدا شناسی نہیں۔(۸)
جس مرید کو پیر نے کارِ دنیا کو یکسر ترک کر نے کی اجازت نہیں دی اور ”دستِ بکار دلِ بیار“ کے ہنر کے ساتھ زندگی گذارنے کی نصیحت کی انہی کے مرید و خلیفہ حضرت صوفی شاہ آبادانی ہیں۔ سلسلہ تیغیہ کے شجرہ میں آبادانی اسمِ مبارک اور روایات میں نیلگو رومال انہی کی یاد دہانی کراتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں اس سلسلے کا آغاز ہی ایسی ذات سے ہوا ہے جنہوں نے دین اور دنیا دونوں کو تھامے رہنے کی تعلیم دی تاکہ نہ مفلسی دنیا میں منہ چڑا سکے اور نہ غفلت آخرت میں رسوائی کا سبب بن سکے۔ حضرت صوفی شاہ آبادانی کو آبادانی نام رکھنے کی تاکید ایک بزرگ نے کی تھی اور کہا تھا کہ اس شخص سے ایک رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری ہو گا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں اس ذات کی عبادت و ریاضت اور ذکر و فکر کا کیا عالم ہو گا، موضوع کی مناسبت سے توجہ طلب گوشیہ یہ ہے کہ جہاں انہوں نے اپنے مرشد شیخ زکریا کی ذکر و اذکار اور یادِ الٰہی میں جم کر پیروی کی، وہیے کا پیشہ بھی اختیار کیا۔ حضرت شاہ آبادنی کے معمول کو دیکھئے:
آپ ہر شب آدھی رات کے بعد خواب استراحت سے بیدار ہوتے، وضو فرماتے اور دو رکعت نماز تحیۃ الوضو پڑھ کر تہجد پڑھتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جاتے۔ صبح کے اول وقت میں فجر کی نماز پڑھ کر مراقبہ فرماتے یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہو جاتا۔ اس کے بعد اشراق کی نماز پڑھ کر دربارِ خاص فرماتے یعنی آپ کے جو مریدین، متوسلین اور طالبانِ حق حاضر ہوتے ان کے حال کی کیفیت فرما کر اس کی اصلاح فرماتے، جب ان کاموں سے فراغت حاصل کر لیتے تو صنعتِ کاغذ گری میں مشغول ہو جاتے۔(۹)
صوفی شاہ آبادانی کے دس خلفا ہوئے۔ خلیفہ ششم شاہ حافظ احسان علی پاک پٹنی ہیں۔ ان کے چار خلفا میں خلیفہ سوم شاہ عبد العلیم لوہاروی ہیں۔ انہوں نے شمالی ہندوستان کا خوب دورہ فرمایا۔ آپ کے مرید و خلیفہ حضرت حاجی دیدار علی غازیپوری ہیں اور ان کے خلفا میں شاہ فرید الدین آروی ہیں۔ شاہ فریدالدین آروی کے خلفا میں حضرت تیغ علی کو تاجدارِ ولایت بنانے والی دو شخصیتیں شامل ہیں: ایک وہ جن سے شرفِ بیعت حاصل کیا اور دوسرے وہ جن سے خلافت پائی۔ اول الذکر مولانا محمد سمیع مونگیری اور ثانی الذکر حضرت سید جلال الدین جڑھوی ہیں اور بیچ کی کڑی مولا علی لال گنجوی ہیں، انہی کے ذمہ آپ کی بقیہ تربیت و سلوک کا کام سونپ کر مرشدِ برحق راہئ ملکِ عدم ہوئے تھے۔
جب قادریہ مجددیہ کی نئی نہر نکلی تھی تو مرشد نے دستِ بکار دلِ بیار کی تعلیم دی تھی اور جب تیغیہ نہر پھوٹنے کو ہے تو دیکھئے جتنے مشائخ اس کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں سب کا کوئی نہ کوئی اپنا ذریعہ معاش ہے اور سب دستِ بکار دلِ بیار کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ اور جس ذات سے یہ نہر روا ہونے والی ہے وہ بھی والد کے انتقال کے بعد گاؤں کے کھیتی باڑی کو سنبھال کر تلاشِ معاش کے لئے عمِ محترم کے ساتھ کلکتہ آئے ہوئے ہیں۔
مولانا محمد سمیع مونگیری کا امانت کا کاروبار تھا، انہوں نے نہ صرف دنیاوی امانت کا بوجھ بحسن خوبی اٹھایا بلکہ عالمِ ارواح کی امانت و عہد پر ہزاروں لوگوں کو عمل پیرا کروایا، جن کے حوالے انہوں نے حضرت تیغ علی کو کیا تھا یعنی مولا علی لال گنجوی۔ ان کی بھی اپنی صباغی کی دوکان تھی، دن بھر کپڑے پر رنگ و روغن چڑھاتے تھے اور رات کو دلوں پر محبت الٰہی کا نقش بٹھاتے تھے، بیقراروں کو قرار اور مردہ دلوں کی مسیحائی فرماتے تھے۔
حضرت تیغ علی شاہ کو روحانی لطف کا چسکا بچپن ہی سے لگا تھا، فکر و قلب میں یادِ الٰہی سب پر مقدم رہتی، جہاں کہیں اللہ والے اور اہلِ دل کی بھنک لگی فوراً ان کی مجلس میں حاضر ہو گئے۔ کلکتہ آئے تھے حصولِ معاش کے لئے مگر کام سے فراغت کے بعد تمام معمولات ادا کرتے، کتابیں دیکھتے۔ ایک دن انہیں اطلاع ملی کہ ایک بڑے بزرگ برئی پارہ میں ہیں، مونگیر سے تعلق رکھتے ہیں، سنتے ہی دل میں ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا اور بغرضِ ملاقات وارد ہوئے۔ حضرت مولانا محمد سمیع مونگیری نے احوال دریافت کی، تعلیم کے متعلق پوچھا، شوق دیکھ کر داخلِ بیعت کیا، اوراد و وظائف اور مجلس میں حاضر ہو نے کا حکم دیا، مگر وہ خود اپنی عمر کے آخری حصے میں تھے اس لئے جلد ہی مونگیر کو واپس ہو گئے اور تربیت کی ذمہ داری شاہ مولا علی لال گنجوی کے حوالے کیا۔ مرشد کے حکم کے مطابق آپ دل و جان سے مولا علی لال گنجوی کی خدمت میں لگ گئے۔ آپ کا معمول تھا:
دن بھر آپ اپنے کاروبار میں مصروف ہوتے اور شام کو بعد نمازِ مغرب روزانہ حضرت شاہ صاحب موصوف کے حلقے میں شامل ہو کر عشا تک ریاضتِ شاقہ کیا کرتے۔ بعد نمازِ عشا اپنی قیام گاہ پر آتے اور کھانا کھا کر تھوڑی دیر آرام فرماتے پھر رات کے پچھلے پہر بستر سے اٹھ جاتے اور ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کر کے نمازِ تہجد ادا فرماتے اور فوراً قیام گاہ پر آجاتے اور باقی اوراد وظائف پورا کر کے فاتحہ خوانی و ایصالِ ثواب کرتے پھر ناشتہ چائے سے فارغ ہو کر کسبِ معاش میں لگ جاتے۔(۱۰)
بعد میں آپ نے ذاتی کام بالکل موقوف کر دیا اور مرشد ہی کی دوکان میں صباغی کا کام کر نے لگے اور جو کچھ دنیاوی دولت کمایا تھا سب مرشد پر نچھاور کر دیا، جب ان کی خانقاہ کی تعمیر ہو رہی تھی تو سب سے زیادہ حصہ آپ نے لیا تھا، آپ نے آگے چل کر کسبِ معاش سے قدرے کنارہ کشی اختیار کر لی اور ان کا ترکِ کسب بھی توکل تھا۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں: جب اس آیت پر میری نظر پڑی ’’وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا‘‘ تو مجھ کو اس طرف سے یکسوئی ہوئی کہ آخر میں بھی انہی چلنے پھرنے والوں میں سے ایک ہوں جن کی روزی کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہے، میں نے حصولِ رزق کے جنون کو چھوڑا اور عبادت میں مشغول ہو گیا۔
آپ کے مرشد مجاز حکیم سید جلال الدین جڑھوی ہیں، آپ علومِ عقلیہ و نقلیہ کے جامع تھے، طبابت میں شہرت رکھتے تھے، آپ کا مطب مظفرپور میں تھا، انہوں نے اسے خدمتِ خلق کا ذریعہ بنا رکھا تھا، فی سبیل اللہ علاج و معالجہ کرتے تھے، ان کا یہ کام مخلصانہ تھا پیشہ وارانہ نہیں، لوگ جو کچھ خوشی سے نذر کرتے قبول کر لیتے، فرمائش کچھ بھی نہ کرتے تھے۔
جن لوگوں کو حضرت تیغ علی شاہ سے اجازت و خلافت ملی ہے وہ لوگ بھی ایسے ہوئے جنہوں نے پیری مریدی کو پیشہ نہیں بنایا بلکہ خود کسی پیشہ سے وابستہ رہے۔ حضرت کے کلکتہ قیام کے دوران آپ کے اکثر عقیدتمند اور مرید جوٹ میل اور دوسرے چھوٹے موٹے کام کرتے تھے۔ آپ کے چہیتے خلیفہ جنہیں آپ نے صوفی کا لقب دیا تھا حضرت یوسف تیغی کو ہی دیکھئے، جب وہ آپ کو شیرامپور اسٹیشن پر ملتے ہیں تو آپ پوچھتے ہیں کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کام کی تلاش میں گھر سے آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا تو سمجھ تیرا کام ہو گیا، آپ نے جوٹ میل میں کام کر نے والوں سے کہا اسے بھی وہاں کام میں لگا لیں۔ کون کہہ سکتا تھا کہ چند سکوں کی خاطر کلکتہ آنے والا اس قدر عالی مرتبت ہو جائے گا مگر آپ کی صحبت کا اثر تھا کہ جب وہ گھر گئے تو اس قدر سنت و شریعت اور لباسِ طریقت میں ملبوس ہو چکے تھے کہ والد محترم کو بھی پہچاننے میں دشواری ہوئی اور پہچاننے کے بعد مسرتوں کی انتہا نہ رہی کہ کیسا عظیم مرشد میرے بیٹے کو ملا ہے جنہوں نے دنیا سے کنارہ کش کئے بغیر روحانی کمال عطا فرما دیا ہے۔
اس سلسلے کے مشہور بزرگ حضرت صوفی ضمیر الدین صاحب بھی فیضان یوسفی سے مال مال ہیں، اسی سلسلہ کا فیض ہے کہ معمولی خیاط آج روحانی اور جسمانی امراض کا طبیبِ حاذق ہے۔ حضرت صوفی یوسف تیغی نے اپنی آخری وصیت میں کہا ہے: دینی اور دنیاوی کاموں میں جدوجہد کرنا چاہئے اور نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہئے۔
حضرت شیخ المشائخ کے عقیدت کیش اب پورے ملک اور حرمین شریفین تک پھیل گئے ہیں اور آپ ایک مشہور شیخ طریقت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۱۹۴۰ سے قبل جب بھی کلکتہ جاتے تو قیام مرشد برحق کی صباغی کی دوکان پہ کرتے، یا پھر نور محمد چین پوری کی دوکان پہ فروکش ہوتے، بعد میں حاجی صدر علی مظفر پوری کی کوٹھی پہ قیام رہنے لگا۔ آپ نے جس کام سے وابستہ رہتے ہوئے صدق و صفا کی دولت حاصل کبھی اس کے خلاف نہیں رہے، ہمیشہ صنعت اور ہنر مندی کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ بقول حضرت صوفی ضمیر الدین صاحب قبلہ لوگوں سے کہتے کالا سونا پکڑو یا گاڑی کے پہیہ کا کام کرو۔ جس زمانے میں انہوں نے اس کی ترغیب دی تھی کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ملک کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی حالت بھی بدل سکتی ہے اور شاہراہوں پر جہاں دن بھر میں ایک دو گاڑی بمشکل نظر آتی ہے اسے پار ہونا بھی دشوار ہو جائے گا۔ ان عقیدت کیشوں نے اس پیشہ کو اختیار کیا اور دنیاوی اعتبار سے خوشحال بھی ہوئے اور مطمئن بھی ہیں کہ دادا حضور کی نصیحت پر عمل پیرا ہیں اور خلق کی راحت کا سامان کر رہے ہیں۔
حضرت دادا حضور نے سب کو صرف جوٹ میل یا چھوٹے موٹے کاموں میں ہی نہیں لگایا ہے بلکہ جو جس میدان کا آدمی ہوتا اسے اسی کام میں لگاتے۔ مولانا علاء الدین طالب القادری فارسی میں ثانی سعدی کہے جاتے تھے، کچہری میں کتابت کا کام کرتے تھے، آپ نے انہیں درس و تدریس سے وابستہ ہو نے کا مشورہ دیا اور وہ کتابت چھوڑ کر درس و تدریس سے وابستہ ہوئے۔ آپ سلسلہ تیغیہ میں علامہ جید القادری کے بعد پہلے خلیفہ و مجاز ہیں جنہوں نے درس و تدریس کو زینت بخشی۔ عمل کا دارومدار نیت پر ہے اگر دین فروشی کسی کا مقصد نہ ہو یقین جانئے جب دنیاوی کام ذکر الٰہی کے ساتھ خیر کا باعث ہے تو جو کام ہی ذکرِ الٰہی ہو جیسے قرآن و حدیث پڑھانا، وعظ و نصیحت کرنا، دینی امور کو انجام دینا، یہ بھلا کیوں کر رضائے الٰہی کے ساتھ ساتھ دنیوی آسودگی کا ذریعہ نہیں ہو سکتا؟ آج کل عوام کی ذرا سی غلط فہمی اور واعظین کی قدرے کجروی نے فضا کو مکدر کر دیا۔ علما و خطبا کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس فن کا اصل مقصد انسانوں کی ہدایت ہے، اور غیر خطبا کو خیال رکھنا چاہئے کہ عوام کی ضروریات کو پوری کر نے والے فن کار کی جیب ہمیشہ بھری رہتی ہے۔
حضرت یحی معاذ کو واعظ کہا جاتا ہے، آپ کو خلفائے راشدین کے بعد سب سے پہلے برسرِ منبر وعظ گوئی کا شرف حاصل ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے فقرا، نمازی، حاجی اور صوفیا کو خوب قرض لا کر لا کر دیا جس کی وجہ سے ایک لاکھ دینار کے مقروض ہو گئے۔ قرض کے خیال سے پریشان ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور فرمایا تم وعظ کہو میں ایک شخص کو حکم دوں گا کہ وہ اکیلے تمہارا قرض ادا کر دے۔ آپ نیشاپور گئے وعظ گوئی کا مقصد بیان کیا اور وعظ دیا، تین آدمی نے مل کر نذر پیش کی جو مل کر ایک لاکھ دینار ہو گیا، مگر آپ نے لینے سے انکار کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ مجھے حکم ہے کہ ایک آدمی ہی قرض ادا کرے گا۔ بلخ آئے تو تونگری کی فضیلت بیان کی، ایک آدمی نے ایک لاکھ دینار دیا مگر وہ مال لٹ گیا۔ ملک ہری آئے اور اپنے وعظ کا مقصد بیان کیا تو حاکم ہری کی لڑکی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قرض کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس نے قرض کی ادائیگی کے مطابق مال حضرت یحی معاذ کو دیا۔
سیر الاولیا میں ہے کہ ایک مولانا نے آکر محبوبِ الٰہی سے اپنی تنگدستی کی شکایت کی، آپ نے کہا جاؤ آج سے تمہاری تقریر خوب جمے گی، چند سالوں میں وہ اتنے مالدار ہو گئے کہ آسائش زندگی کے معاملے میں اپنے تمام ہمعصروں میں ممتاز ہو گئے۔
آج شیخ سرکانہی کے مریدوں کا حلقہ اس روایت کے فروغ میں بڑا اہم کر دار ادا کر رہا ہے۔ حضرت شیخ المشائخ کی دعاؤں کی برکت سے اس سلسلے کے لوگ خوب پھل پھول رہے ہیں اور اپنے جاء کار سے لے کر پیدائشی دیار تک ذکر و فکر کی تیغی بزم سجا کر علما و شعرا اور مشائخ کا دامن نذر و نیاز سے بھر رہے ہیں جس سے سلسلے کی بھی خوب تشہیر بھی ہو رہی ہے۔ ہمیں تو لگتا ہے حضرت عبد العلیم لوہاری نے حاجی دیدارعلی کو جو ملک وراثت میں دیا تھا اس کی تعبیر حضرت تیغ علی شاہ کے ذریعے ہوئی آج پورے ملک میں دیکھ لیجئے جس سڑک یا شاہراہ سے گذر گئے ہر دس پندرہ کیلو میٹر کی دوری پر ہر ڈھابے اور ہوٹل کے کنارے پر کوئی نہ کوئی تیغی بورڈ آپ کو مل جائے جو زبان حال سے کہہ رہا ہو گا
’’تیغی ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘
اور کیوں نہ ہو اہل اللہ جس کام میں لگا دے اس میں انسان کے لئے خیر ہی خیر ہوتا ہے۔ حلال کام تو حلال کام ہے اگر وہ کوئی دوسرا کام بھی کہے تو کرنے میں جھجھک محسوس نہیں ہونی چاہئے، موقع سے سن لیجئے۔ حضرت احمد حضرویہ آپ حضرت حاتم اصم کے مرید ہیں اور بہت سے اہلِ دل کے شیخ ہیں، ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کے سامنے افلاس کا رونا رویا، آپ نے کہا: جتنے پیشے دنیا میں ہو سکتے ہیں الگ الگ پرچے پر اس کا نام لکھ کر لوٹے میں رکھ کر میرے سامنے لاؤ۔ آپ نے لوٹے میں ہاتھ ڈالا تو چوری کا پیشہ نکلا، آپ نے فرمایا تمہیں یہی کر نا ہوگا۔ تعمیلِ حکم میں چوروں کے گروہ میں شامل ہو گیا۔ چور نے وعدہ لیا جیسے میں کہوں تمہیں ویسے ہی کر نا ہوگا۔ گروہ نے ایک مالدار کو لوٹا اور اسے قتل کرنے ذمہ داری انہیں سونپی۔ انہوں نے سوچا اس طرح نہ معلوم انہوں نے کتنوں کو قتل کر دیا ہو گا۔ کیوں نہ اس کے سردار کو ہی قتل کر دیا جائے چنانچہ اس نے سردار کو قتل کر دیا۔ سردار کے قتل ہوتے ہی سارے چور ڈر کے مارے فرار ہو گئے۔ آپ نے اس مالدار کو چھوڑ دیا، اس عوض میں مالدار نے انہیں اتنی دولت دی کہ خود ہی امیر کبیر ہو گئے۔
حضرت شیخ المشائخ نے تو وہ کام بتایا ہے جس میں دولت کی فراوانی ہے اور مخلوقِ خدا کی راحت رسانی بھی؛ ساتھ ساتھ مختلف اقوام کے افراد سے میل جول بھی۔ اگر ایمان داری سے اسے انجام دیا جائے تو نہ معلوم کتنے لوگوں کو ایمان کی دولت بھی نصیب ہو جائے۔ کام کا یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیئے بلکہ دراز تر ہونا چائے۔ تیغیہ کے مشائخ کے احوال ہم سے کہتے ہیں کہ سعادت کے لئے کوئی خواص مقام یا مخصوص کام نہیں؛ آدمی اگر باخلوص ہو تو رب کا جتنا قرب مسجد، مدرسہ اور خانقاہ کی چہار دیواری میں پا سکتا ہے اتنا ہی قرب کسبِ حلال کے لئے سرگرداں شخص شاہراہوں اور بازاروں میں پا سکتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی اس طرح بسر کرنی چاہئے کہ ہاتھ کام میں لگا ہو اور دل خدا کی یاد میں لگا ہو۔ والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ۔
حوالے
(۱) احیاء العلوم جلد ۴، ص۴۰۳، اردو ترجمہ، ندیم الواجدی، شکیل پرنٹنگ پریس لاہور۔
(۲) احیاء العلوم ص۴۰۳، جلد ۴۔
(۲) جہان اولیا ۱۸۱، غلام مصطفی مجددی، سال ۲۰۰۴، مطبع ندارد۔
(۳) تذکرۃ الاولیاء ص ۱۵۹، اے این پرنٹر لاہور، سال ۱۹۹۷۔
(۴) تذکرۃ الاولیا ص ۱۴۶۔
(۵) تذکرۃ الاولیا ص ۱۰۷۔
(۶) تذکرۃ الاولیا ص ۱۵۷۔
(۷) انوار صوفیہ المعروف تحفہ قادریہ، مولانا علی احمد جید القادری، ناشر خانقاہ آبادانیہ مظفرپور، ص ۱۸۱۔
(۸) انوار صوفیہ ص ۱۷۶۔
(۹) انوار صوفیہ ص ۱۰۸۔
(۱۰) مظاہر قطب الانام المعروف انوار قادری ص ۶۲۔ حافظ محمد حنیف قادری۔