شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟

یکم ستمبر 2025ء کو شنگھائی تعاون تنظیم (Shanghai Cooperation Organisation) کا سربراہ اجلاس چین کے شہر تیانجِن میں ایسے وقت میں منعقد ہوا جب کہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایسے دور کا آغاز ہو رہا ہے جس میں عالمی سطح پر امریکہ کی بالادستی کم ہو رہی ہے اور ایک کثیر قطبی دنیا کا منظر سامنے آ رہا ہے۔ ایسا دور جس میں ’’گلوبل ساؤتھ‘‘ کے ممالک 

  • مغرب اور امریکی اتحاد کے سیاسی اثر و رسوخ اور اجارہ داری سے نکلنے کا واضح فیصلہ کر چکے ہیں۔
  • مغربی مالیاتی اداروں کے حصار سے نکلنا چاہتے ہیں اور ڈالر کے علاوہ کرنسیوں میں تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ 
  • اپنی سلامتی کے لیے امریکہ اور نیٹو جیسے مغربی اتحادوں پر انحصار ختم کرنا چاہتے ہیں۔ 
  • عالمی مسائل اور اقوام متحدہ کے فیصلوں پر اپنے نقطۂ نظر کو مؤثر طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ 
  • مغربی بلاک کے مقابلے میں ایک مضبوط سفارتی بلاک کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں۔ 
  • اپنی ترجیحات خود طے کرنا چاہتے ہیں اور عالمی نظام میں زیادہ متوازن اور منصفانہ نمائندگی کے خواہاں ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم جو 2001ء میں علاقائی سلامتی، انسدادِ دہشت گردی، اور معاشی تعاون کے لیے قائم ہوئی تھی، آج روس، چین، بھارت، پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو ایک وسیع پلیٹ فارم پر یکجا کرتی ہے۔ اس اجلاس کے لیے تیانجِن کا انتخاب اس لیے بھی اہم تھا کہ یہ شہر چین کی جدیدیت اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا علامتی مرکز سمجھا جاتا ہے، اور چین نے اسی پس منظر میں اس اجلاس کو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی تعاون کے لیے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا۔ 

اجلاس کے متعلق میڈیا رپورٹس کے حوالہ جات کچھ اس طرح ہیں:

شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا 25واں سربراہ اجلاس چین کے شمالی شہر تیانجِن میں یکم ستمبر 2025ء کو صدر شی جن پنگ کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں رکن ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ نمائندگان شریک ہوئے۔ اجلاس کو یوریشیائی خطے میں سلامتی، اقتصادی تعاون اور بین الاقوامی تعلقات کے ایک نئے دور کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے افتتاحی خطاب میں کہا: ’’ہم کسی بھی طرح کی اجارہ داری اور طاقت کی سیاست کے خلاف ہیں اور ایک کثیر قطبی نظام کو فروغ دیں گے۔‘‘ (رائٹرز — یکم ستمبر 2025ء)

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’SCO دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہم یکطرفہ اقدامات کی بجائے اجتماعی تعاون پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ (اے پی — 2 ستمبر 2025ء)

اس اجلاس میں تنظیم کے ڈھانچے کو مزید مؤثر بنانے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا گیا۔ تین نئے مراکز قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا جن کا تعلق منشیات، اطلاعات، اور منظم جرائم سے ہے۔ اس موقع پر لاؤس کو باضابطہ طور پر ’’ڈائیلاگ پارٹنر‘‘ کے طور پر شامل کیا گیا، نیز ڈائیلاگ پارٹنر کے موجودہ درجوں کو ختم کرکے ایک نیا درجہ ’’پارٹنر‘‘ کے نام سے تشکیل دیا گیا۔ (سرکاری چینی خبر رساں ادارہ — 2 ستمبر 2025ء)

اجلاس میں تین اہم دستاویزات پر دستخط ہوئے۔ ان میں ’’تیانجِن اعلامیہ‘‘، ’’ایس سی او کی ترقیاتی حکمتِ عملی 2035ء تک‘‘، اور دوسری جنگِ عظیم میں فتح کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر روس اور چین کا مشترکہ ’’اعلان‘‘ شامل ہے۔ قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف نے اس موقع پر کہا: ’’یہ اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ SCO علاقائی سلامتی اور عالمی تعاون کا سب سے معتبر پلیٹ فارم بن چکا ہے۔‘‘ (آستانہ ٹائمز — 2 ستمبر 2025ء)

چین نے اجلاس کے دوران اپنی تکنیکی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا۔ صحافیوں اور وفود کی معاونت کے لیے ایک جدید ہومینائڈ روبوٹ ’’شیاوہی‘‘ متعارف کرایا گیا جس نے شرکاء کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ اس روبوٹ کے متعلق کہا گیا کہ یہ چین کی مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس میں بڑھتی ہوئی طاقت کی علامت ہے۔ (ٹائمز آف انڈیا — 2 ستمبر 2025ء)

اختتامی اعلامیہ میں رکن ممالک نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ کثیر الجہتی نظام کو فروغ دیتے ہوئے عالمی جنوب کے مسائل کو حل کرنے میں پیش پیش رہیں گے۔ صدر شی نے کہا: ’’SCO کو دنیا کے لیے متبادل عالمی حکمرانی کا ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے گا جو انصاف، شراکت داری اور مشترکہ ترقی پر مبنی ہو۔‘‘ (سی ایس آئی ایس — 2 ستمبر 2025ء)

چینی صدر نے اجلاس کے دوران ایک نئے ترقیاتی بینک کے قیام کا اعلان کیا جسے ’’SCO ڈیولپمنٹ بینک‘‘ کہا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ ’’رکن ممالک کے بنیادی ڈھانچے اور سماجی ترقی کے منصوبوں کو مالی اعانت فراہم کرے گا‘‘۔ چین نے اس بینک کے لیے 1.4 بلین ڈالر کے ابتدائی قرض کی پیشکش کی اور ’’الیکٹرویوان‘‘ نظام کے فروغ کا اعلان بھی کیا تاکہ توانائی کے شعبے میں تجارتی لین دین چینی کرنسی کے ذریعے ہو سکے۔ (رائٹرز — 3 ستمبر 2025ء)

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف اقدامات پر زور دیا اور کہا: ’’بھارت نے دہشت گردی کا بدترین چہرہ پہلگام میں دیکھا جہاں حالیہ حملے میں 26 افراد جاں بحق ہوئے۔ اس خطرے کا مقابلہ ہم سب کو مل کر کرنا ہوگا۔‘‘ (اکنامک ٹائمز — 3 ستمبر 2025ء

اجلاس کے دوران ایک اہم لمحہ اس وقت سامنے آیا جب صدر شی جن پنگ، صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیراعظم نریندر مودی ایک ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے نظر آئے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تصویر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا: ’’ہم نے بھارت اور روس کو چین کے سب سے تاریک سائے میں کھو دیا ہے۔‘‘ (رائٹرز — 5 ستمبر 2025ء)

اس منظر کو عالمی میڈیا نے ‘‘نئے اتحاد کی علامت‘‘ قرار دیا۔ (انڈیا ٹوڈے — 5 ستمبر 2025ء)

اس طرح تیانجِن اجلاس نے نہ صرف علاقائی تعاون کو ایک نیا رخ دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک نئے توازن کی بنیاد رکھنے کی جانب بھی ایک نمایاں قدم اٹھایا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم

شنگھائی تعاون تنظیم (Shanghai Cooperation Organization - SCO) ایک بین الاقوامی اور علاقائی تنظیم ہے جس کا قیام 15 جون 2001ء کو چین کے شہر شنگھائی میں عمل میں آیا۔ ابتدا میں اس کے چھ بانی ممالک تھے: چین، روس، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان۔ 2017ء میں بھارت اور پاکستان کو بھی مستقل رکنیت دے دی گئی، جس سے یہ دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیموں میں شامل ہوگئی۔ حالیہ برسوں میں ایران بھی مستقل رکن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اور بیلاروس کی شمولیت پر بھی پیشرفت ہو رہی ہے۔

اس تنظیم کا بنیادی مقصد رکن ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس میں سلامتی کے حوالے سے تعاون، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف اقدامات، علاقائی استحکام اور  معاشی تعاون کے ساتھ ساتھ توانائی، انفراسٹرکچر اور باہمی روابط کے فروغ جیسے نکات شامل ہیں۔ ’’تین برائیوں‘‘ (دہشت گردی، علیحدگی پسندی، انتہاپسندی) کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اس تنظیم کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک دنیا کی تقریباً 40 فیصد آبادی اور وسیع ترین جغرافیائی علاقے پر محیط ہیں۔ اس کے تحت مختلف ماہرین، وزارتی اجلاس، دفاعی مشقیں، اور اقتصادی تعاون کے منصوبے زیرعمل رہتے ہیں۔ تنظیم کی مستقل سیکرٹریٹ بیجنگ میں ہے، جبکہ ایک اہم ادارہ ’’ریجنل اینٹی ٹیرر اسٹرکچر‘‘ (RATS) تاشقند، ازبکستان میں قائم ہے۔

یہ تنظیم محض سلامتی تک محدود نہیں بلکہ اب آہستہ آہستہ اقتصادی تعاون، توانائی کے اشتراک، ٹیکنالوجی کے تبادلے، تعلیمی اور ثقافتی راوبط کا بھی مرکز بن رہی ہے۔ چین اور روس اس کے بڑے محرک ہیں لیکن وسطی ایشیائی ممالک اسے اپنی خودمختاری اور ترقی کے لیے ایک متوازن پلیٹ فارم سمجھتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی شمولیت نے اسے جنوبی ایشیا تک وسیع کر دیا ہے، جبکہ ایران اور بیلاروس کی موجودگی سے یہ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ تک رسائی حاصل کر رہی ہے۔

یوں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) ایک ایسا فورم بنتا جا رہا ہے جو مغربی اداروں خصوصاً نیٹو اور جی سیون کے متبادل یا توازن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسے ’’یوریشیا کا سیاسی، معاشی اور سلامتی کا پل‘‘ کہا جاتا ہے جو آنے والے برسوں میں عالمی نظام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

ایک نیا عالمی نظام (New World Order

2025ء کا تیانجِن اجلاس بظاہر ایک علاقائی ملاقات تھا لیکن حقیقت میں یہ عالمی طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلیوں کا مظہر تھا۔ مودی، شی اور پیوٹن کی مشترکہ تصویر کو عالمی میڈیا نے ’’ایک نیا اتحاد‘‘ قرار دیا اور اسے مغربی دنیا کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر دیکھا۔ امریکی مبصرین نے لکھا کہ یہ لمحہ ’’امریکہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑانے کے لیے کافی ہے‘‘ اور سوال اٹھایا کہ ’’کیا یہ نیا عالمی نظم ہے؟‘‘ (ٹائمز آف انڈیا — 2 ستمبر 2025ء)

صدر شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں مغرب کے خدشات کو بالواسطہ درست بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم ’’بین الاقوامی تعلقات کا نیا ماڈل‘‘ ہے اور یہ کہ دنیا کو اب ایسی حکمرانی کی ضرورت ہے جو برابری اور شراکت داری پر مبنی ہو، نہ کہ طاقت کے یکطرفہ استعمال پر۔ ان کے الفاظ کو کئی مبصرین نے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے ایجنڈے کی کھلی نشاندہی قرار دیا۔ (رائٹرز — یکم ستمبر 2025ء)

ایشیائی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو SCO کو مغرب کی بالادستی کے متبادل کے طور پر خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ چین اور روس کے لیے یہ پلیٹ فارم امریکی اثرورسوخ کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہے، جبکہ وسطی ایشیائی ممالک اسے اپنی خودمختاری، معاشی ترقی اور سلامتی کے تحفظ کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اجلاس اس بات کا اعلان تھا کہ دنیا اب ’’یک قطبی نظام‘‘ سے نکل کر ’’کثیر القطبی نظام‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ (ایسوسی ایٹڈ پریس — 2 ستمبر 2025ء)

دوسری طرف مغربی دنیا میں خدشات گہرے ہیں۔ فائنانشل ٹائمز نے لکھا کہ اگرچہ ایک نئے عالمی نظم کی ضرورت ہے، لیکن یہ خطرہ موجود ہے کہ یہ نظم شی کے چین کے ماڈل پر مبنی ہوگا جو جمہوری اقدار اور انفرادی آزادیوں سے متصادم ہو سکتا ہے۔ اس تجزیے میں واضح کیا گیا کہ مغرب اس نئے ابھرتے ماڈل کو اپنی اقدار اور سیاسی اثرورسوخ کے لیے خطرہ سمجھ رہا ہے۔ (فائنانشل ٹائمز — 2 ستمبر 2025ء)

اس طرح جہاں ایشیا اور یوریشیا کے لیے یہ اجلاس ایک نئے دور کا آغاز ہے، وہیں مغرب کے لیے یہ ایک گہری فکری اور سیاسی تشویش کا باعث ہے۔ ایک طرف اسے ’’متبادل عالمی حکمرانی‘‘ کا اعلان کہا جا رہا ہے تو دوسری طرف ’’آمرانہ بلاک‘‘ کے قیام کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ دو رُخی ہی دراصل اس اجلاس کو عالمی سیاست میں ایک نئے موڑ کی حیثیت دیتی ہے۔

پاکستان کے لیے اجلاس کی اہمیت

پاکستان کے سفیر برائے چین خلیل ہاشمی نے پاکستان اور چین کے درمیان ’’آہنی بھائی چارے‘‘ کو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے اعتماد ظاہر کیا کہ تیانجن کا اجلاس علاقائی امن، خوشحالی اور ’’شنگھائی اسپرٹ‘‘ سے متعلق اجتماعی عزم کو ایک نئے جذبہ کے ساتھ تازہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) دراصل اعتماد، مساوات، مکالمہ، اور مشترکہ ترقی کے اصولوں پر قائم ہے اور انہی بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے اسے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف ایک اہم فورم قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان امن، سلامتی اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے اس پلیٹ فارم پر بھرپور کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔ نیز سی پیک (CPEC) کو صرف دو طرفہ منصوبے کے طور پر نہیں بلکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت علاقائی روابط اور اشتراک کے ایک اہم ذریعہ کی حیثیت دی جانی چاہیے۔ مزید یہ کہ چین کی قیادت میں یہ تنظیم اب نئے شعبوں جیسے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن، گرین ڈیویلپمنٹ اور خطے میں روابط کے فروغ پر بھی توجہ دے رہی ہے۔  (ڈان — 23 اگست 2025ء)

وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس میں اہم مسائل اجاگر کیے جن میں دریائے سندھ کے پانی کے معاہدے سے متعلق تنازعہ اور دہشت گردی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہر دو صورتوں میں یکطرفہ اقدام نہیں قبول کرتا۔ وزیراعظم نے بامقصد مذاکرات پر زور دیتے ہوئے جمہوریت، عالمی اور دوطرفہ معاہدوں کا احترام، اور علاقائی تعاون پر زور دیا۔ (ڈان بزنس ریکارڈر — یکم ستمبر 2025ء

وزیر اعظم شہباز شریف نے دہشت گردی کے خلاف اپنے موقف کو مضبوط انداز میں پیش کیا، یہاں تک کہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے حالیہ دہشت گرد حملوں میں مخصوص غیر ممالک کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد حاصل کیے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ بین الاقوامی اور دوطرفہ معاہدوں کی پابندی ایس سی او کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ (دی نیوز — یکم ستمبر 2025ء، ڈان — 2 ستمبر 2025ء)

چینی صدر شی جن پنگ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو یاد دلایا کہ چینی کارکنوں کی سکیورٹی کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر سی پیک سے منسلک علاقوں میں۔ صدر شی کی طرف سے یہ یاددہانی چینی اہلکاروں کی سلامتی کے حوالے سے چین کی تشویش اور پاکستان پر اس سلسلے میں دباؤ کی علامت تھی۔ (رائٹرز — 2 ستمبر 2025ء)

یہ اجلاس پاکستان کے لیے اس لیے بہت اہم تھا کہ اِس نے اُسے عالمی اور علاقائی اثرورسوخ کا ایک مؤثر سٹیج فراہم کیا۔ پاکستان نے اس فورم سے اپنے اہم مقاصد کے سلسلہ میں فائدہ اٹھایا، جس میں سب سے نمایاں ’’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘‘ (سی پیک) کے ضمن میں تجارتی اور انفراسٹرکچر منصوبوں پر عملدرآمد دکھائی دیتا ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان نے SCO کے ساتھ اپنے اقتصادی اور جغرافیائی روابط کو مزید مستحکم بنانے کی خواہش ظاہر کی، خاص طور پر سی پیک کو ایس سی او کے اقتصادی اہداف کے ساتھ مربوط کرنے پر زور دیا۔ (پاکستان ٹوڈے — 3 ستمبر 2025ء)

خلاصہ یہ کہ پاکستان اس اجلاس کو اپنے قومی مقاصد کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ وزیراعظم اور اعلیٰ حکام نے اجلاس میں سی پیک اور تجارتی تعلقات کو SCO سے منسلک ممالک کے اقتصادی ایجنڈوں کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ تنازعات، خصوصاً پانی اور دہشت گردی کے امور کے حل کے لیے بامقصد مذاکرات کی بات کرتے ہوئے علاقائی استحکام اور پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیا۔ اور صدر شی جن پنگ کی یاددہانی کے جواب میں پاکستان نے چینی سرمایہ کاری اور سلامتی کے تحفظ کو اپنا اولین وفاقی مقصد قرار دیا۔


(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۰

پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
حضرت مولانا اللہ وسایا
عامر عثمانی

سپریم کورٹ کا غیر شرعی فیصلہ
ڈاکٹر محمد امین

مروّجہ نعت خوانی    —    چند قابلِ اصلاح پہلو
مولانا زبیر احمد صدیقی

ابنِ خلدون: مسئلہ عصبیت  ،   ایک تجزیہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

جسٹس منصور علی شاہ اور اسلامی قانونِ نکاح و طلاق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کسبِ معاش سے صوفیہ کی وابستگی: مشائخ تیغیہ کے حوالے سے
ڈاکٹر محمد ممتاز عالم

مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل
ڈاکٹر عرفان شہزاد

Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹرز کی پاکستان آرمی میں شمولیت
ابرار اسلم
ڈان نیوز

Khatm-e-Nubuwwat Conferences: A Referendum of Our Stance
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۴)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۸)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں
مہاتیر محمد

شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟
ادارہ الشریعہ

قطر میں اسرائیلی حملہ: سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کا موقف اور پاکستان کا جواب
عاصم افتخار احمد

غزہ و قطر پر اسرائیلی جارحیت اوراُمتِ مسلمہ کی بے بسی وبے حسی
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات
میڈیا

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پاک سعودی تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ
ادارہ الشریعہ

برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال وغیرہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی تسلیم
ادارہ الشریعہ

إبداء الفرح والسرور وتقديم الشكر والتحية بمناسبة توقيع الاتفاق الدفاعي بين المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایمل صابر شاہ

جامعہ نصرۃ العلوم میں پیغامِ پاکستان سیمینار اور مولانا راشدی کا خطاب
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

قطر اجلاس، پاک سعودی معاہدہ، صمود فلوٹیلا، ختم نبوت کانفرنس : مولانا راشدی کا تبصرہ
مولانا حافظ عاطف حسین
مولانا حافظ دانیال عمر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter