پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی مضبوط، دوستانہ اور بھائی چارے پر مبنی رہے ہیں جو برصغیر میں پاکستان کے قیام کے فوری بعد ہی شروع ہو گئے تھے۔ یہ رشتہ محض حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک کی عوام کے دلوں میں گہرائی تک پیوست ہے۔ دونوں ملک اسلامی اخوت، مشترکہ ثقافتی اور مذہبی اقدار کو اپنے تعلقات کی بنیاد مانتے ہیں۔ پاکستانی فوجی اہلکاروں نے سعودی عرب کی فوجی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور دونوں ممالک دفاعی شعبے میں قریبی تعاون کرتے رہے ہیں اور متعدد معاہدوں پر دستخط کر چکے ہیں۔ اقتصادی لحاظ سے بھی یہ تعلقات انتہائی اہم ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کے تیل کی درآمد کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور اکثر ادائیگی کے لیے نرم شرائط پیش کرتا ہے۔ جبکہ لاکھوں پاکستانی شہری سعودی عرب میں کام کرکے ملک کے لیے زرمبادلہ کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ سعودی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بین الاقوامی فورمز پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے موقف کی حمایت کرتے رہے ہیں، خاص طور پر فلسطین اور کشمیر جیسے اہم مسائل پر۔ سعودی عرب نے پاکستان پر آنے والے اقتصادی و سیاسی بحرانوں میں مالی امداد فراہم کرکے اسے سنبھلنے میں مدد دی ہے۔ اسی طرح پاکستان نے سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام کو اپنی سلامتی سے تعبیر کیا ہے اور اس کے دفاع میں ہر ممکن تعاون کا عہد کیا ہے۔
مشترکہ دفاعی معاہدہ
اس تناظر میں پاکستان اور سعودی عرب نے 17 ستمبر 2025ء کو ریاض، سعودی عرب میں ایک تاریخی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جسے ’’اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوگا تو اسے دونوں ممالک پر حملہ سمجھا جائے گا۔ یہ دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی سطح پر لے آیا ہے۔ اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ معاہدہ کا مقصد صرف خطرے کا جواب دینا نہیں بلکہ دفاعی تعاون کو مضبوط بنانا اور مشترکہ صلاحیتوں کو بڑھا کر خطے میں بازدار قوت قائم کرنا ہے۔ اگرچہ یہ تاثر دیا گیا ہے کہ یہ اقدام کسی ایک واقعے کا فوری ردِعمل نہیں بلکہ برسوں سے جاری مذاکرات اور پہلے سے موجود دفاعی تعلقات کا تسلسل ہے، تاہم خطے میں حالیہ کشیدگی اور خاص طور پر اسرائیل کے قطر پر حملے کے بعد جب خلیجی ریاستوں نے امریکہ کے کردار پر سوال اٹھایا تو سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ دفاعی شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس معاہدے نے خطے میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک طرف یہ ایک واضح پیغام ہے کہ دونوں ممالک دہشت گردی یا بیرونی خطرات کے خلاف مشترکہ ردِعمل کے لیے تیار ہیں۔ اور دوسری طرف بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک اس کے اثرات پر غور کر رہے ہیں۔ بھارت نے خصوصاً اس پر تشویش ظاہر کی ہے کہ اس سے اس کی علاقائی پالیسیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔مجموعی طور پر یہ معاہدہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو نئی سمت دیتا ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کی سلامتی مزید مربوط ہوگی بلکہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی تزویراتی صورتِ حال پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ سعودی عرب نے اس کے ذریعے اپنی دفاعی خودمختاری کو نئی بنیادیں دی ہیں، جبکہ پاکستان نے خطے میں اپنے کردار کو مزید نمایاں اور مؤثر بنا لیا ہے۔
حوالہ جات
’’العریبیہ‘‘ کے مطابق پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان 17 ستمبر 2025ء کو ریاض کے قصر الیمامہ میں ایک تاریخی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کا مرکزی نکتہ ایک تزویراتی باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کرنا تھا، جس کے تحت دونوں ممالک نے یہ عہد کیا کہ ایک پر ہونے والی کسی بھی جارحیت کو دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس معاہدے کا مقصد دونوں برادر ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور مشترکہ دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا ہے۔ اس تاریخی معاہدے نے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات کو مزید گہرا کیا بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے ان کے مشترکہ عزم کی بھی عکاسی کی۔ یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا جب خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور اس نے عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔ (۱۷ ستمبر ۲۰۲۵ء)
ڈان اخبار کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے مذہبی، ثقافتی اور معاشی بنیادوں پر مضبوط رہے ہیں۔ سعودی تیل اور مالی امداد پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی تعلقات میں بھی مزید گہرائی آنے کی توقع ہے۔ (۱۷ ستمبر ۲۰۲۵ء)
’’الشرق الاوسط‘‘ کے مطابق معاہدے کے بعد خلیجی ریاستوں میں پاکستان کے کردار پر دوبارہ نظر ڈالی جا رہی ہے۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور قطر اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا انہیں بھی پاکستان کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات بڑھانے چاہئیں تاکہ خطے میں توازن قائم رکھا جا سکے۔ (۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ ایک تاریخی موڑ ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے اعلان کیا کہ اگر کسی ایک پر حملہ ہوا تو وہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے اسے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک ’’بڑا اسٹریٹجک قدم‘‘ قرار دے رہے ہیں، کیونکہ یہ اتحاد نہ صرف دفاعی بلکہ سیاسی تعلقات کو بھی نئی سطح پر لے گیا ہے۔ (۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)
’’رائٹرز‘‘ کے مطابق یہ معاہدہ کسی فوری بحران یا ایک واقعے کا ردعمل نہیں بلکہ برسوں پر محیط مذاکرات اور دفاعی تعلقات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس میں فوجی تربیت، ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کے تبادلے اور مشترکہ دفاعی مشقوں کی شقیں بھی شامل ہیں، جو مستقبل میں دونوں ممالک کے فوجی اداروں کو مزید قریب لے آئیں گی۔ (۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)
’’الجزیرہ‘‘ کے مطابق معاہدے کے پس منظر میں خطے کی کشیدہ صورتحال اور اسرائیل کے حالیہ حملے اہم محرک بنے۔ خلیجی ریاستوں میں امریکہ کی دفاعی ضمانتوں پر اعتماد کم ہونے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان جیسے شراکت دار کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط کرنے کو ترجیح دی۔ یہ معاہدہ اسی نئی حکمتِ عملی کی عکاسی کرتا ہے۔ (۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)
’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کی دفاعی شراکت داری کے ساتھ ساتھ تجارتی امکانات بھی کھلیں گے۔ معاہدے کے بعد سعودی سرمایہ کار پاکستان کے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں زیادہ دلچسپی لے سکتے ہیں، جو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بڑا سہارا ثابت ہو سکتا ہے۔ (۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)
’’عرب نیوز‘‘ نے اس معاہدے کو پاکستان کی فوجی صلاحیت اور خطے میں اس کے بڑھتے کردار کے اعتراف کے طور پر دیکھا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب نے پاکستان کو صرف ایک اتحادی نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک محافظ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ البتہ ماہرین نے معاہدے کی زبان میں ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ابہام کو بھی اجاگر کیا ہے، جو مستقبل میں کئی اشکالات پیدا کر سکتا ہے۔ (۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)
دی گارڈیئن نے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ عالمی طاقتوں کے لیے بھی ایک نیا سوال پیدا کرتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ سعودی عرب کی سلامتی پالیسی میں یہ تبدیلی عارضی ہے یا مستقل، اور اس کے خطے میں ان کے مفادات پر کیا اثرات ہوں گے۔ دفاعی صنعت اور فوجی اتحادوں میں بھی اس پیشرفت کے بعد نئے امکانات جنم لے رہے ہیں۔ (۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)
گلف نیوز کے مطابق پاکستان کے لیے یہ معاہدہ مواقع اور خطرات دونوں لے کر آیا ہے۔ مواقع اس لحاظ سے کہ پاکستان عالمی سکیورٹی کے فریم ورک میں زیادہ نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن خطرات اس اعتبار سے کہ اگر خطے میں کشیدگی بڑھی تو پاکستان کو زیادہ عسکری اور معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ماہرین پاکستان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ دفاع اور سفارتکاری کے درمیان توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ (۱۸ ستمبر ۲۰۲۵ء)