295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
اہلِ رائے کی خدمت میں ایک طالب علمانہ رائے

پاکستان کی عدالتیں جس طرح آئین و قانون کو موم کی ناک بنا کر لبرل انتہاپسندوں کی منشا کے مطابق اس کی تعبیر و تشریح کر کے انھیں مسلسل سپورٹ کر رہی ہیں، کیا یہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کی عدلیہ کے شایانِ شان ہے؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ دین مخالف لابیاں پاکستان میں کتنی متحرک ہیں اور کس زور و شور سے پروپیگنڈہ کرتی نظر آتی ہیں۔ دینی طبقے کو انتہاپسند اور متشدد ثابت کرنے کے لیے قسم قسم کے شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔

اباحت پسند متجددین کی طرف سے ایک مشہور اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ للعالمین تھے، بڑے بڑے دشمنوں کو معاف فرمانے والے تھے، تو کیسے ممکن ہے کہ اپنی ذات کے لیے بدلہ لے لیں؟ اور یہی خوے عفو و احسان کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مسلمانوں کی دینی و علمی روایت اور تراث کے بالکل متوازی تصورات، اصطلاحات اور تشریحات کی بنیاد رکھنے والے معروف اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب عہدِ نبوی میں توہینِ رسالت کے جرم میں سزا یافتہ مجرموں کے واقعات کو جزئی اور غیر متعلق مانتے ہیں، یعنی ان مجرموں کو سزا توہینِ رسالت کے جرم میں نہیں ہوئی، کیونکہ توہینِ رسالت تو سرے سے قابلِ مواخذہ جرم نہیں، بلکہ یہ لوگ توہینِ رسالت کے علاوہ بڑے بڑے ناقابلِ معافی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے، یعنی غامدی صاحب اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ کعب بن اشرف، ابو رافع یا ابن خطل کو گستاخی کے جرم میں قتل کر دیا گیا ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب بغاوت، قتل و غارت، عہد شکنی یا خیانت کے جرم میں قتل ہوئے ہیں۔ اپنی اس بات کی دلیل میں سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۳۲ پیش کرتے ہیں:

من قتل نفسًا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔

اس آیت سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ آیت میں "فساد فی الارض" کو عدالتی قتل کے جواز کا واحد سبب قرار دیا گیا ہے، یعنی اگر کوئی شخص زمین میں فساد کرے یا قتل کرے تو اس کو سزاے موت دی جائے گی، اس کے علاوہ زنا ہو یا ارتداد، ڈکیتی ہو یا کوئی اور بڑے سے بڑا جرم و گناہ، کسی کا خون بہانے کا جواز پیدا نہیں کر سکتا۔

یہ ہوا ان متجددین کا استدلال، پتہ نہیں "فساد" کا کونسا خود ساختہ پیمانہ ان کے ہاں مقرر ہے کہ یہ نہ تو توہینِ رسالت جیسے انسانیت سوز گھناؤنے جرم کو فساد کہتے ہیں اور نہ مسلح رہزنی کو، حالانکہ فقہاء فساد کا دائرہ حرابہ سے بھی وسیع مانتے ہیں۔ حرابہ کی مخصوص سزا جو سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت میں ذکر ہے، یہ صرف حرابہ کی سزا ہے جو اسلحہ بردار رہزنوں پر لاگو ہو گی، اس کے علاوہ فساد کرنے والوں کے لیے احناف کے ہاں تعزیری سزائیں ہیں۔ محاربہ (قطع الطریق / رہزنی) ایک خاص شکل ہے فساد کی، لیکن فساد کا دائرہ اس سے وسیع تر ہے۔

امام ابوبکر الجصاص (المتوفیٰ ۳۷۰ھ) اپنی کتاب احکام القرآن میں سورۃ المائدہ کی مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں:

فاما من افسد فی الارض بوجہ لیس فیہ محاربۃ فلا یدخل تحت ھذا الحکم۔
ترجمہ: جو شخص زمین میں فساد کرے، لیکن محاربہ (یعنی قتال اور رہزنی) کی صورت کے بغیر، تو وہ سورۃ المائدہ آیت ۳۳ کے تحت نہیں آئے گا۔

یہاں امام جصاصؒ فساد فی الارض کو حرابہ کے بغیر بھی ممکن مانتے ہیں، تاہم ساتھ یہ فرق بھی بیان کرتے ہیں کہ جہاں فساد فی الارض ہو لیکن حرابہ (قتل اور رہزنی) نہ ہو تو وہاں پر آیت ۳۳ کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ یعنی وہ محاربہ کے بغیر بھی فساد کو مستقل جرم مانتے ہیں۔ پھر ایسا گھناؤنا جرم جو گواہوں کے سامنے برسرِعام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہ صرف ذاتِ مبارکہ کو نشانہ بنائے، بلکہ ذاتِ مبارکہ سے جڑے ہوئے دین کے حصار کو توڑنے کی کوشش کرے اور تمام امتِ مسلمہ کے دلوں کو چیر کے رکھ دے، کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان متجددین کے ہاں فساد نہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ اگر فساد صرف امنِ عامہ کو خراب کرنے کا نام ہے، تو کیا انسانیت کی لکیر سے گرے ہوئے توہین کرنے والے درندے امنِ عامہ کو بڑھاوا دے رہے ہیں؟ یا ایمان و اسلام جو امن و سلامتی کے ضامن ہیں، کی بیخ کنی کر رہے ہیں؟

امام سرخسیؒ المبسوط میں گویا زمانہ حاضر کے ڈیجیٹل آلات اور میڈیا کے ذریعے توہین آمیز مواد نشر کرنے کے جرم ہی کو فساد کہتے ہیں:

ومن أظھر الفسق، ونشر الفاحشۃ، وأبطل الحق، وزين الباطل، فقد أفسد فی الأرض۔
ترجمہ: جس نے فحاشی پھیلائی، حق کو مٹایا، باطل کو مزین کیا، اس نے زمین میں فساد کیا۔

الغرض توہینِ رسالت فساد تو ہے ہی، چاہے محاربہ نہ بھی ہو۔ کیونکہ یہ فتنہ اور بغاوت ہے۔ یہ معاشرے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، دینی سلامتی اور امنِ عامہ کو نقصان دیتی ہے۔ فقہائے احناف کے ظاہر مذہب و روایت کی بنیادی علت یہی بغاوت ہے۔ وہ توہینِ رسالت کو ارتداد یعنی دین سے بغاوت قرار دیتے ہیں۔

  • اور توہین کرنے والا اگر مسلمان مرد ہے تو وہاں بغاوت کا معنیٰ پایا جاتا ہے۔ اور مسلمان مرد کی بغاوت بغیر قتل و قتال کے زائل نہیں ہوتی۔ اگر پورا جتھہ توہین کرے تو سب سے جنگ کرنا لازم ہے۔ البتہ اگر جتھہ اتنا مضبوط ہو کہ جنگ میں اسلامی ریاست کو فائدے سے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہو تو اسلامی ریاست عارضی طور پر مصالحت بھی کر سکتی ہے۔
  • عورت کی بغاوت کو جیل میں رکھنے سے دبایا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے احناف توہین کرنے والی مسلمان عورت کے قتل کے قائل نہیں۔
  • توہین کرنے والے کافر مرد و عورت کو حالات کی مناسبت سے تعزیری سزا تو دی جا سکتی ہے، تاہم توہین کے جرم کی وجہ سے اسلامی ریاست میں ایسے کافروں سے رہائش کا حق (عہد ذمہ) سلب نہیں ہوتا۔

یہ حنفی مذہب کی رو سے احکام کی تفصیل ہے، لیکن پاکستان میں تمام معتبر مفتیان کرام حنفی ہونے کے باوجود توہینِ رسالت کے معاملے میں حنفی مذہب کے مطابق فتویٰ نہیں دیتے، اس لیے کہ پاکستان کا آئین و قانون ہر حال میں توہین کرنے والے کو سزائے موت دیتا ہے، جو جمہور امت کا مذہب ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ آئین و قانون چار مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کے موافق ہو، تو فتویٰ اسی مذہب کے مطابق دیا جائے گا، اگرچہ مفتی کے اپنے مذہب کے خلاف ہو۔ کیونکہ آئین و قانون کو اسلامی تسلیم کرنے کی انتہائی کوشش شریعت کو مطلوب ہے۔

قرآنی لغت کے امام راغب اصفہانی اپنی معروف کتاب المفردات میں فساد کا معنیٰ یوں فرماتے ہیں:

الفساد يُطلق علی ما تجاوز حدود الاعتدال…وعمل الخروج عن صلاح الدين يُعد فسادا۔
ترجمہ: فساد وہ ہے جو دین، اعتقاد یا نظمِ معاشرہ کی حدود سے تجاوز کرے، خلافِ اعتدال ہو اور اصلاح سے بعید ہو۔

الغرض دین کی بنیادی حدود کو پامال کرنا فساد کی سب سے پہلی قسم ہے۔ باقی اخلاقی انحطاط اور اجتماعی برائی کو غیر مسلم ماہرینِ لغت نے بھی فساد کا معنیٰ قرار دیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ توہینِ رسالت سے زیادہ اخلاقی انحطاط اور کیا ہو سکتا ہے۔ اب ذرا امتِ مسلمہ کے معتبر و مستند علماء کا موقف بھی ملاحظہ فرمائیں۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وسب النبی ﷺ ھو اکبر انواع الفساد فی الارض، فیجب قتلہ حتی ولو اسلم بعد ذلک۔ (الصارم المسلول، ص ۳، دار ابن حزم)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین زمین میں سب سے بڑا فساد ہے، اس لیے توہین کرنے والے کو قتل کرنا واجب ہے، چاہے وہ بعد میں توبہ کر لے یا اسلام قبول کرے۔

علامہ خفاجی حنفی فرماتے ہیں:

وسبہ ﷺ من افحش الفساد فی الارض، ومن فعل ذلک فقد اشاع الفتنۃ، وتعین حدہ۔
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین زمین میں بدترین فساد ہے، جو ایسا کرے وہ فتنے کو پھیلانے والا ہے، اور اس پر حد (سزا) واجب ہے۔

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں:

"شاتمِ رسول ﷺ کے عمل سے جو فساد فی الارض پیدا ہوتا ہے، وہ قتال، ڈاکہ، اور قتل جیسے جرائم سے کہیں زیادہ ہے۔" (ماہنامہ البلاغ، جامعہ دارالعلوم کراچی)۔

علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ عشقِ رسول سے لبریز اپنی کتاب "الشفا" میں فرماتے ہیں کہ

من سب النبی ﷺ فقد کفر، وقتل، ولا یستتاب، لانہ طعن فی النبوۃ، وافسد فی الارض۔
ترجمہ: جس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی، وہ کافر ہے اور قتل کیا جائے گا، اس سے توبہ کا مطالبہ نہ ہو گا، کیونکہ اس نے نبوت پر طعن کیا اور زمین میں فساد پھیلایا۔

دین کے اسرار و مقاصد کا تھوڑا سا بھی ادراک و شعور ہو تو دل یہ بات ماننے میں ایک لمحے کو بھی تامل نہیں کرتا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی ناموس بلکہ ہر گوشہ حیات کی حفاظت میں دینِ اسلام کی بقا ہے، کیونکہ اس میں دو رائے نہیں کہ دینِ اسلام کا مرکز و محور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ اونہ رسیدی، تمام بولہبی است

اگر دین کو ایک جسم تصور کیا جائے تو ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی روح ہے، جس کے بغیر سارا دین حیات سے محروم ہے۔ میرِ حجاز ہی میرِ کارواں ہیں، ان کا ہر قول و فعل اور ادا و اشارہ دین ہے، وہ مرکزِ ایمان ہیں۔ پاکستان کا آئین بھی اپنی بنیاد اسی سے اٹھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مبارک زندگی میں جہاں خونخوار دشمن معاف فرما دیتے ہیں، وہاں ہجو و گستاخی اور ہرزہ سرائی کرنے والوں کے بارے میں انتہائی حساس ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں گستاخئ رسالت کی سزا قتل رہی ہے۔

عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عہدِ خلفائے راشدینؓ اور بعد کے جمہور فقہاء نے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا قتل ہی مقرر کی ہے۔ ابنِ خطل، ابو رافع، کعب بن اشرف، عقبہ بن ابی معیط جیسے لوگ یقیناً‌ دوسرے بڑے جرائم کی وجہ سے قتل کے مستحق تھے، لیکن بہت سے مواقع پر اور بالخصوص فتحِ مکہ کے موقع پر بغاوت و خیانت اور قتل و سازش کے سب مجرموں کے لیے سرِ عام اور باعزت معافی کا اعلان ہوا، تو پھر کیا وجہ تھی کہ گستاخ ابن خطل کو رحمۃ للعالمین کی بارگاہِ رحمت سے معافی نہیں ملی، سوائے اس کے کہ اسی رحمت کی ناقدری کر کے حرماں نصیب ہوا۔ کس قدر سخت حکم دیا جا رہا ہے کہ اگر کعبہ کے غلاف سے بھی چمٹ جائے تو بھی قتل کر دیا جائے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس دین کا محافظ حصار ہے، اگر یہ حصار ٹوٹے گا تو دین کے بقیہ احکام پر عمل درآمد باقی نہیں رہے گا۔

آج کل ایک خاص سیکولر طبقہ قانونِ توہینِ رسالت کے خلاف نہ صرف مسلسل آواز بلند کر رہا ہے بلکہ بعض حکومتی شخصیات، صحافی، وکلاء اور جج برادری کی حمایت حاصل کر کے اس قانون کو ہیومن رائٹس کے خلاف بلکہ ظالمانہ قرار دے کر ملت کے اس عقیدے اور وحدت پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہ قانون غلط استعمال ہو رہا ہے اور ذاتی دشمنی یا کسی اور پلاننگ کے تحت بے گناہ لوگوں پر قانون کا یہ شکنجہ کسا جا رہا ہے۔

اس مشہور اعتراض کا ہم تحقیقی جائزہ لیں گے اور دکھائیں گے کہ شریعت کے بے مثال عادلانہ نظام میں یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ شریعت کا کوئی قانون، الٰہی ہونے کے باوصف؛ ظالمانہ ہو یا اُس میں ظلم و ستم کو روا رکھنے کے لیے چور دروازے کھلے چھوڑ دیے گئے ہوں۔ بالخصوص حضور کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخری شریعت میں تو ہر شرعی حکم میں اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ برائی کا کوئی ایسا دروازہ کھلا نہ رہے جس سے قیامت تک کسی برائی کے در آنے کا امکان ہو۔

یعنی یہ بات قطعی اور بدیہی طور پر ناممکن ہے کہ شریعت نے پہلے سے مس یوز یعنی غلط استعمال ہونے سے بچنے کی کوئی تدبیر نہ کی ہو۔ اگر خدانخواستہ ہمیں اس کے خلاف کہیں نظر آتا ہے تو دو باتیں ممکن ہیں: یا تو شریعت کے قانون پر پوری طرح (As it is) عمل نہ ہوا ہو گا، یا اس کی تنفیذ و اجرا (پروسیجر) میں کوئی خامی رہی ہو گی۔ ورنہ یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون شریعت کا ہو اور اس کا پروسیجر بھی درست ہو پھر بھی کسی ظالم کو اس کے غلط استعمال کا موقع مل جائے۔ اس لیے شریعت کے کسی قانون پر تنقید کرنے سے پہلے ہمیں ہزار بار سوچنا پڑے گا کہ کیا ہم نے اس قانونِ شریعت پر صحیح طرح عمل کیا ہے اور کیا جو پروسیجر شریعت نے اس کے لیے وضع کیا ہے ہم نے اس میں کہیں غلطی تو نہیں کی ہے۔ اگر قانونِ شریعت اپنا عادلانہ نتیجہ نہیں دے رہی، تو کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہے۔

اسی بنیادی نکتے کی وضاحت کے لیے اب ہم توہینِ رسالت کے قانون پر ہونے والی تنقید کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں کہ ناقدین کی تشویش کی اصل وجہ:

  • شرعی قانون اور اس کا شریعت میں وضع کردہ پروسیجر ہے؟
  • یا قانون اور اُس کا پروسیجر کامن لاء جیوریسپروڈنس کا لے کر الزام شریعت پر لگایا جا رہا ہے؟
  • یا شرعی حدود و قوانین سے جان چھڑانے کے لیے منظم لابنگ اور پلاننگ کی جا رہی ہے؟

سرِ دست عرض یہ ہے کہ دفعہ C۔295 توہینِ رسالت کے جرم کی دفعہ ہے اور شریعت و آئین کی روح کے عین مطابق ہے۔ آئینِ پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 227 کا سب آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ 

"پاکستان میں تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے احکام کے مطابق بنایا جائے گا، اور ایسے احکام کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جا سکے گا۔"

نیز توہینِ رسالت کے اس قانون کو نہ صرف فیڈرل شریعت کورٹ بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اپنی تفصیلی عدالتی تشریحات میں اسلامی، آئینی اور ضروری قرار دیا ہے۔ جب یہ بات واضح ہوئی کہ یہ شریعت کے عین مطابق قانون ہے، اب ہمیں اس کی شرعی حیثیت واضح کرنا ضروری ہے کہ C۔295 حد ہے یا تعزیر؟ نیز پاکستان میں بطورِ حد نافذ ہے یا بطور تعزیر؟ اور اگر بطورِ حد نافذ ہے تو کیا حد کے شرائط و تقاضے بھی پورے کیے جاتے ہیں؟ یوں واضح ہو جائے گا کہ غلطی قانون میں نہیں بلکہ شرائط و تقاضے پورے نہ کرنے میں ہے۔

C۔295 حد ہے یا تعزیر؟

اس نکتے پر غور کئی اشکالات کو رفع کر سکتا ہے۔ نہ قانون کے غلط استعمال کا شکوہ ہو گا اور نہ تحقیقاتی کمیشن کی جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت ہو گی۔ قانون و شریعت پر ٹھیک ٹھاک عمل ہو گا، ظلم کا سدِ باب ہو گا اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ تو آئیے ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔

اسلامی فقہ، شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ — تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا قتل (موت) ہے اور یہ سزا تعزیر نہیں بلکہ "حد" ہے۔ (مقدمہ: مجیب الرحمٰن بنام حکومت پاکستان C۔295 پر شریعت ریویو کیس)

عدالت نے C۔295 کو شریعت سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کی سزا صرف موت ہے۔ اس میں کسی معافی، جرمانے یا تخفیف کی گنجائش نہیں۔"

اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ: "توہینِ رسالت ایک ایسا جرم ہے جو حد کے درجے میں آتا ہے، نہ کہ تعزیر کے۔" حنفی مذہب کے خاتمۃ المحققین علامہ شامی رحمہ اللہ نے اگرچہ تعزیر ہونے پر اپنی تحقیق ختم کی ہے، لیکن "قضاء القاضی رافع للخلاف" کی رو سے پاکستان کے تمام اکابر مفتیان کرام فتویٰ حد کا جاری کرتے ہیں اور یہی ہر لحاظ سے مناسب اور مضبوط موقف بھی ہے۔

اصل غور و فکر کے لائق مقام یہ ہے کہ "آدھا تیتر آدھا بٹیر" کی طرح جرم کو حد قرار دینا، سزا حد کی دینا اور اثباتِ جرم میں تعزیر کا پروسیجر اور شرائط کافی سمجھنا غیر معقول، غیر قانونی اور غیر شرعی ہیں۔ اس بات کا لازمی تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ توہینِ رسالت کے جرم کے ثبوت کے لیے شہادت کا معیار ثبوتِ حد کے شایانِ شان ہو۔ قانونِ شہادت کا دیباچہ (Preamble) بالکل واشگاف الفاظ میں کہتا ہے:

Qanun-e-Shahadat Order, 1984, Application Clause;"Provided that the provisions of this Article shall not apply to the trial of cases under the laws relating to the enforcement of Hudood"

یعنی "اس آرڈر کی کوئی بھی شق اُس مقدمے میں لاگو نہیں ہو گی جو 'Hudood Laws' کے تحت چلایا جائے گا۔"

قانونِ شہادت آرڈیننس 1984ء کا (45 Article) واضح قرار دیتا ہے کہ 'Hudood Laws' کے تحت آنے والی عدالتی کارروائیوں میں یہ آرڈر بالکل لاگو نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے کہ زنا، چوری، قذف، شراب نوشی، یا جب کبھی توہینِ رسالت صاف طور پر ’حد‘ شمار ہوتی ہے — ان مقدمات میں عام شہادت کے اصول نافذ نہیں کیے جاتے، بلکہ شرعی حدود کی مخصوص شرائط ہی قابلِ اطلاق ہیں۔

تعجب کی بات ہے کہ قانونِ شہادت کے ماتھے پر لکھی گئی ان ہدایات کے بالکل برعکس کئی اعلیٰ عدالتوں نے حد کی سزا قانونِ شہادت کی ان دفعات کی رو سے دی ہے جو عام دیوانی یا فوجداری مقدمات سے متعلق ہیں۔ مثلاً آرٹیکل 17 (Law of Evidence) کی 'Explanation' ان الفاظ میں ہے:

"Explanation: This Article shall apply to all proceedings except proceedings relating to Hudood".

ترجمہ: "وضاحت: یہ آرٹیکل تمام کارروائیوں پر لاگو ہو گا سوائے اُن کارروائیوں کے جو حدود سے متعلق ہوں"۔

واضح رہے کہ 'Explanation' قانون کا جزوِ لازم ہوتی ہے، اور عدالت میں اس کی حیثیت کسی بھی 'Substantive' حصے کے برابر ہوتی ہے۔ عدالتیں قانون کی 'Explanation' کو قانون کی تشریح اور دائرہ کار (Scope) متعین کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں C۔295 میں حد کی شرائط کہیں بھی پوری نہیں ہوئیں اور یہی شریعت کے فلسفۂ جرم و سزا کا تقاضا ہے کہ سزا عبرتناک دی جائے، مگر جرم کا معیارِ ثبوت شک وشبہ سے بالاتر ہو ۔ یہاں تک کہ غلطی سے سزا نہ ہوئی تو معاف ہے، لیکن سزا دینے میں غلطی نہ ہو۔ اقرار یا دو عادل گواہ نہ ہوں تو معاملہ حد سے تعزیر کی طرف جائے گا۔ عدالتوں نے C۔295 کے تحت جتنی سزائیں سنائی ہیں، سب کی سب کو تعزیر و سیاست کے خانے میں ڈالنا بھی ممکن نہیں کیونکہ تعزیر میں موت کی سزا صرف مخصوص حالات میں دی جا سکتی ہے، اور یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام کیسز ہی اس مخصوص نوعیت کے تھے۔

پھر یہ بھی ایک طرفہ تماشہ ہے کہ پاکستانی عدالتوں نے اب تک C۔295 کے تحت جتنی بھی موت کی سزائیں سنائی ہیں؛ کم و بیش ڈیجیٹل ڈیوائسز کے ذریعے حد کی سزائیں سنائی ہیں، جو شریعت اور قانون دونوں کی رو سے محلِ نظر ہے۔ یہ فلسفۂ شریعت اور احتیاط کے خلاف ہے جس کا لحاظ رکھنا حدود میں فرض ہے۔

بعض عدالتوں نے اپنی تفصیلی ججمنٹ میں وضاحت کی ہے کہ ڈیجیٹل ایویڈیفنس کو پرائمری سورس آف ایویڈینس کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اس لیے ہم اس کی بنیاد پر موت کی سزا سنا رہے ہیں۔ ایسے عدالتی فیصلوں کی پشت پر کوئی قانون نہیں بلکہ قانون کی واضح تصریحات اس کے برعکس ہیں، جن کا ٹیکسٹ ہم نے پیش کیا، نیز شرعی اصول کے بالکل خلاف ہے۔ ابھی تک کسی فقیہ و مجتہد نے ڈیجیٹل ایویڈینس کو ثبوتِ حد کے لیے کافی نہیں مانا۔ تاہم سپورٹیو ایویڈینس کے طور پر سب مان رہے ہیں؛ جس پر زیادہ سے زیادہ تعزیری سزا دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ قانونِ شہادت آرٹیکل 164 کے تحت جدید آلات سے دستیاب شہادت (مثلاً ویڈیو، ڈیجیٹل ریکارڈ، DNA وغیرہ) قبول کی جا سکتی ہے، لیکن اس حصے کا اطلاق حدود کے مقدمات پر نہیں ہوتا، جیسا کہ قانون کے آرٹیکل 17 کی وضاحت میں واضح ہے۔

اب سوچا جائے کہ شریعت اور قانون کے ان واضح احکامات پر عمل ہو؛ تو غلط استعمال (Misuse) کی نہ ٹلنے والی مصیبت، خواہ واقعی ہے یا سازشی، سے کس آسانی سے ہم محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ ابھی تک تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل پر مُصر ہیں، ان کا یہ اصرار بھی بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔

اس اہم اور بنیادی نکتہ کو کامن لاء جیوریسپروڈیفنس کے ماہر ججز اور عدالتیں اب تک سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انٹرنیشنل لاء کے بالکل برعکس فقہاءِ مجتہدین تو حد کے نفاذ میں اتنی احتیاطیں برتتے ہیں کہ غیر معقول (unreasonable)، کمزور (weak) یا over-stretched شک بھی — اگر ثبوت کی قوت کو مجروح کرے — تو حد کے نفاذ میں رکاوٹ بنے گا۔ علامہ ابن قدامہ، نووی، کاسانی، مرغینانی، شامی، زیلعی اور شوکانی رحمہم اللہ نے یہ ضابطہ بارہا بیان کیا کہ ہر قسم کا شک، چاہے وہ کمزور کیوں نہ ہو، حد کو ساقط کر دیتا ہے۔ بعض ائمۂ فقہاء کی عبارات ملاحظہ فرمائیں:

امام زیلعی حنفی لکھتے ہیں:

وان حصلت شبہۃ فی موجب الحد، سقط الحد وان کانت الشبہۃ واھیۃ۔
ترجمہ: "اگر حد کے موجب میں شبہ پیدا ہو جائے تو حد ساقط ہو جاتی ہے، چاہے وہ شبہ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔" (نصب الرایۃ، للزیلعی ، جلد ۳، ص ۳۳۹)

علامہ ابن الہمام الحنفی فرماتے ہیں:

واذا وجدت شبہۃ، لم یجز اقامۃ الحد، ولو کانت الشبہۃ بعیدۃ او متاولۃ۔
ترجمہ: "جب شبہ موجود ہو تو حد قائم کرنا جائز نہیں، خواہ وہ شبہ دور از کار ہو یا تاویلی ہو۔" (فتح القدير ، للامام ابن الھمام، جلد ۴، ص ۵۴)

الموسوعۃ الفقھیۃ الكويتیۃ نے تمام فقہاء کا اجماع ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

واتفق الفقھاء علی ان الحدود تدرا بالشبھات، سواء کانت قویۃ او ضعیفۃ۔
ترجمہ: "فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ حدود شبہات کے ذریعے ساقط ہو جاتی ہیں، خواہ وہ شبہ قوی ہو یا ضعیف۔" ( ج ۱۷، ص ۱۵۲)۔

فقہاء و مجتہدین کی ان تصریحات کے بعد آئیے پاکستانی قانون پر بھی اس حوالے سے ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پاکستان کا قانون

آرٹیکل 17 قانونِ شہادت واضح کرتا ہے کہ: "حد کے مقدمات میں عام شہادت کا قانون لاگو نہیں ہوتا"۔ اس طرح weak, unreasonable یا circumstantial evidence قابلِ قبول نہیں۔

آرٹیکل 164 صرف تعزیرات میں digital/forensic evidence تسلیم کرتا ہے۔ حدود کے مقدمات میں ایسے شواہد مُمِد (تائیدی) ہو سکتے ہیں، لیکن کافی نہیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کا واضح حکم ہے کہ حد صرف اس وقت نافذ ہو گی جب:

  • شہادتِ شرعیہ (دو عادل، بالغ، مرد مسلمان گواہ) ہو۔
  • بلاشک و شبہ جرم کا ارتکاب ہو۔
  • کسی شک یا قیاس کی گنجائش نہ ہو۔

خلاصہ یہ کہ C۔295 چونکہ حد ہے اس لیے اس میں حدود آرٹیکل 17 اور 164 لاگو نہیں ہوں گے۔

Circumstantial Evidence یا Weak or Irresistible Evidence کی بنیاد پر حد نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ تعزیر ہو سکتی ہے اور معاملے کی نوعیت دیکھتے ہوئے مخصوص حالات میں جج موت کی سزا بھی دے سکتا ہے۔


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱۰

پاکستان میں سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا عدالتی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ادارہ الشریعہ

۷ ستمبر — یومِ تحفظِ ختمِ نبوت
حضرت مولانا اللہ وسایا
عامر عثمانی

سپریم کورٹ کا غیر شرعی فیصلہ
ڈاکٹر محمد امین

مروّجہ نعت خوانی    —    چند قابلِ اصلاح پہلو
مولانا زبیر احمد صدیقی

ابنِ خلدون: مسئلہ عصبیت  ،   ایک تجزیہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

295C  —   قانونِ توہینِ رسالت  —   حد یا تعزیر؟
ڈاکٹر مفتی ذبیح اللہ مجددی

جسٹس منصور علی شاہ اور اسلامی قانونِ نکاح و طلاق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

کسبِ معاش سے صوفیہ کی وابستگی: مشائخ تیغیہ کے حوالے سے
ڈاکٹر محمد ممتاز عالم

مہذب دنیا کے غیر مہذب کھیل
ڈاکٹر عرفان شہزاد

Z-10ME جنگی ہیلی کاپٹرز کی پاکستان آرمی میں شمولیت
ابرار اسلم
ڈان نیوز

Khatm-e-Nubuwwat Conferences: A Referendum of Our Stance
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۴)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۵)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۸)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

صد سالہ زندگی کا سفرِ رواں
مہاتیر محمد

شنگھائی تعاون تنظیم کا پچیسواں سربراہی اجلاس — نیو ورلڈ آرڈر؟
ادارہ الشریعہ

قطر میں اسرائیلی حملہ: سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کا موقف اور پاکستان کا جواب
عاصم افتخار احمد

غزہ و قطر پر اسرائیلی جارحیت اوراُمتِ مسلمہ کی بے بسی وبے حسی
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مشرقِ وسطیٰ میں تیز تر تبدیلیاں: مستقبل کیا ہو گا؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پاک سعودی دفاعی معاہدہ: اہم شخصیات کے تبصرات
میڈیا

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پاک سعودی تعلقات اور مشترکہ دفاعی معاہدہ
ادارہ الشریعہ

برطانیہ، فرانس، کینیڈا، آسٹریلیا، پرتگال وغیرہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی تسلیم
ادارہ الشریعہ

إبداء الفرح والسرور وتقديم الشكر والتحية بمناسبة توقيع الاتفاق الدفاعي بين المملكة العربية السعودية وجمهورية باكستان الإسلامية
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایمل صابر شاہ

جامعہ نصرۃ العلوم میں پیغامِ پاکستان سیمینار اور مولانا راشدی کا خطاب
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

قطر اجلاس، پاک سعودی معاہدہ، صمود فلوٹیلا، ختم نبوت کانفرنس : مولانا راشدی کا تبصرہ
مولانا حافظ عاطف حسین
مولانا حافظ دانیال عمر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter