سپریم کورٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور چونکہ پاکستان کے دستور میں لکھا ہے کہ یہاں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا لہٰذا ہم اپنی عدالتوں خصوصاً ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ کوئی فیصلہ خلاف قرآن و سنت اور خلافِ آئین نہیں کریں گے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان کی چھوٹی بڑی عدالتیں خلافِ اسلام فیصلے کرتی رہتی ہیں اور علماء اس پر احتجاج بھی کرتے ہیں لیکن معاملہ عموماً صحیح صورت میں حل نہیں ہوتا جس سے معاشرے میں اور خصوصاً دینی حلقوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
ایسا ہی ایک فیصلہ سپریم کورٹ نے حال ہی میں کیا ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل احمد عباسی نے ایک ایسی خاتون کو نان و نفقہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کی نہ رخصتی ہوئی تھی اور نہ وہ خاوند سے ملی تھی کہ اس کو طلاق دے دی گئی۔ یہ فیصلہ قرآن کی سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۳۳ کے صریحاً خلاف ہے۔ حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے جو پاکستان کا ایک آئینی ادارہ ہے یہ قرار دیا ہے کہ یہ فیصلہ قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ نیز اس فیصلے میں مرد کے عورت پر قوام ہونے اور اس کے ایک درجہ زیادہ رکھنے کے قرآنی احکام کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
ملی مجلس شرعی، جو پاکستان کے مختلف دینی مکاتبِ فکر کا ایک مشترکہ علمی پلیٹ فارم ہے، اس کے صدر مولانا زاہد الراشدی، سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین اور دیگر علماء کرام مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان، حافظ عبدالغفار روپڑی، مولانا عبدالمالک، مولانا عبدالرؤف فاروقی، مولانا اظہر خلجی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مفتی شاہد عبید، حافظ حسن مدنی، مولانا غضنفر عزیز ، مولانا محمد عمران طحاوی اور دیگر نے اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور اسے قرآن و سنت کے مطابق بنائے۔ نیز اسلام پسند وکلاء سے کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کریں۔
۲۷ ستمبر ۲۰۲۵ء