رسولِ اکرمؐ کی جامع شخصیت
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس قدر جامع ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر کردار کا نمونہ ملتا ہے۔ آپؐ ایک امین بھی تھے کہ مکہ کے لوگ اپنی امانتوں کو آپؐ کے پاس محفوظ رکھتے تھے۔ آپ ایک حکم و منصف بھی تھے کہ عرب قبائل کے درمیان حجرِ اسود کی تنصیب کا معاملہ کس خوش اسلوبی سے طے فرمایا۔ آپؐ تاجر بھی تھے کہ حضرت خدیجہؓ کے تجارتی قافلے دوسرے ملکوں میں لے کر جاتے اور تجارت کرتے تھے۔ آپؐ ایک مبلغ بھی تھے کہ لوگوں کو نیکی اور اچھائی کی طرف بلاتے اور بدی و برائی سے روکتے تھے۔ حق و باطل کی لڑائی میں آپؐ ایسے فوجی کمانڈر بن کر ابھرے کہ اِس پر تاریخ میں مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ رسول اللہؐ منصبِ انصاف پر فائز تھے کہ آپ قاضی اور جج بھی تھے، خود آپؐ کے پاس بھی مقدمات آتے تھے جن کے آپؐ فیصلے سنایا کرتے تھے، اور پھر باقی قاضیوں کے پاس جو مقدمات آتے ان کے فیصلوں پر اپیلیں حضورؐ کی خدمت میں آتی تھیں جن پر حضورؐ فیصلے فرمایا کرتے تھے۔ آپ ایک سیاسی لیڈر بھی تھے کہ مختلف قبائل کے وفود آپ کے پاس آتے تھے جن سے آپ مذاکرات اور گفتگو فرماتے تھے۔ آپ اپنی ریاست کے سب سے بڑے ڈپلومیٹ سب سے بڑے سفارت کار بھی تھے کہ آپؐ دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات اور معاملات کو بھی نبھاتے تھے۔ نبی کریمؐ اپنی ریاست کے منتظم اعلیٰ بھی تھے کہ ریاست کے داخلی معاملات کے متعلق فیصلے بھی آپؐ خود فرمایا کرتے تھے۔ رسول اللہؐ مسجد نبوی میں صحابہ کرامؓ کے امام بھی تھے کہ آپؐ نماز خود پڑھاتے تھے۔ جناب نبی کریمؐ ایک خطیب بھی تھے کہ خطبۂ جمعہ اور دیگر خطبات ارشاد فرمایا کرتے تھے۔
یہ میں نے انسانی زندگی کے ان اہم کرداروں میں سے چند کا ذکر کیا ہے جو جناب نبی کریمؐ نے نبھائے۔ پھر ایسا بھی نہیں تھا کہ حضورؐ ایک شعبے میں اچھے تھے اور دوسرے شعبے میں خدانخواستہ کمزور تھے، رسول اللہؐ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر تھے اور افضل الانبیاء تھے، اللہ تعالیٰ نے جو شعبہ بھی حضورؐ کے سپرد کیا اس میں حضورؐ کی کارکردگی کا معیار انتہا پر تھا، یہ جناب نبی کریمؐ کی جامعیت ہے۔1
ازواجِ رسولؐ باعتبارِ ترتیب
جناب رسول اللہؐ کی ازواج میں نکاح کی ترتیب کے لحاظ سے حضرت خدیجہؓ، حضرت سودہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، حضرت زینب ام المساکینؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت زینب بنت جحشؓ ، حضرت جویریہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، حضرت میمونہؓ اور حضرت صفیہؓ کے نام آتے ہیں۔رسول اللہؐ کی کل گیارہ بیویاں تھیں جبکہ بیک وقت نو تھیں۔ آنحضرتؐ کی حیاتِ مبارکہ میں آپؐ کی دو بیویاں فوت ہوئیں، ایک حضرت خدیجہؓ اور دوسری حضرت زینب ام المساکینؓ۔2
رسولِ اکرمؐ کی کثرتِ ازدواج کی حکمت
جناب نبی کریمؐ کی کل ۱۱ جبکہ بیک وقت ۹ بیویاں تھیں۔ علمائے امت اِس میں ایک حکمت تو یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت عرب قبائل کو سیاسی و معاشرتی طور پر اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے ان قبائل کے ساتھ یہ ازدواجی رشتے قائم کرنا ایک مؤثر ذریعہ تھا۔ دوسری حکمت یہ بتاتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے حضورؐ کے گھر میں مختلف عمروں اور مزاجوں کی عورتیں جمع کر کے خواتین کے متعلق احکام و قوانین کی تعلیم کے بارے میں آپؐ کے لیے سہولت پیدا فرما دی۔ ورنہ جناب نبی کریمؐ نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ کے ساتھ پہلا نکاح کیا تو اس وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس برس تھی۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ پچیس سال تک تنہا آپؐ کی زوجہ محترمہ رہیں اور آپؐ پچاس برس کے تھے جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا۔
حضورؐ کا ازواج کے ساتھ حسنِ سلوک
آپؐ کا اپنی ازواج مطہراتؓ کے ساتھ معاملہ کیسا تھا؟ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے سوائے میدان جنگ کے اپنی ساری زندگی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، نہ کسی بیوی پر، نہ کسی خادم پر اور نہ کسی غلام پر۔ ازواج مطہراتؓ کے ساتھ اپنے طرزِ عمل کی شہادت دیتے ہوئے حضورؐ خود فرماتے ہیں ’’خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی‘‘ کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے اچھا ہوں۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں نے تقریباً دس سال حضورؐ کی خدمت کی۔ حضرت انسؓ ۱۰ سال کی عمر میں حضورؐ کی خدمت میں آئے اور حضورؐ کے وصال کے وقت ان کی عمر ۲۱ برس تھی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے ذاتی خادم کی حیثیت سے حضورؐ کی خدمت میں تقریباً دس سال گزارے لیکن کبھی رسول اللہؐ کو کسی پر ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا۔3
نبی کریمؐ کا پہلا نکاح
آپؐ کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ قریش کی بڑی باعزت خاتون تھیں۔ وہ ایک تجارت پیشہ اور مالدار خاتون تھیں۔ جب حضورؐ کا حضرت خدیجہؓ کے ساتھ نکاح ہوا تو آپؐ پچیس برس کے جبکہ حضرت خدیجہؓ چالیس برس کی تھیں۔ یہ رسول اللہؐ کا پہلا نکاح تھا جبکہ حضرت خدیجہؓ اس سے پہلے بیوہ ہو چکی تھیں۔ حضورؐ کا حضرت خدیجہؓ کے ساتھ یہ نکاح پچیس برس تک قائم رہا۔ ان پچیس سال کے دوران حضرت خدیجہؓ تنہا حضورؐ کے نکاح میں رہیں۔ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے وقت جناب نبی کریمؐ کی عمر پچاس برس تھی۔ اپنی عمر کے پچیس سے پچاس سال کے عرصے تک حضورؐ نے اور کوئی شادی نہیں کی، حضرت خدیجہؓ حضورؐ کی سب سے لمبی مدت کی بیوی تھیں۔ نبی کریمؐ آخرت وقت تک حضرت خدیجہؓ کو یاد کرتے تھے اور ان کا تذکرہ فرماتے تھے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھے کبھی کسی پر رشک نہیں آیا سوائے خدیجہؓ کے، جب بھی کوئی بات ہوتی تو آپؐ فرماتے کہ خدیجہؓ یوں کیا کرتی تھی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضورؐ نے کسی بات پر حضرت خدیجہؓ کا نام لیا تو میں بول پڑی کہ یارسول اللہؐ آپ کیا اس بڑھیا کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان سے اچھی عورتیں دی ہیں۔ رسول اللہؐ نے اس پر حضرت خدیجہؓ کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا کہ خدیجہؓ نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے، اس نے مجھ پر اپنا مال بھی خرچ کیا اور مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔4
رسولِ امینؐ اور ام المؤمنینؓ کے نکاح کا سبب
تجارت وہ ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر انسانی معاشرے کا نظام نہیں چل سکتا، اللہ تعالیٰ نے تجارت کو انسانوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زراعت، تجارت، ملازمت، اور مالِ غنیمت، کمائی کے وہ حلال اور جائز طریقے ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی ضروریاتِ زندگی مہیا کر سکتا ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے تجارت کو کمائی کے بہترین ذرائع میں ارشاد فرمایا ہے، بہت سی روایات ہیں جن میں نبی کریمؐ نے تجارت کی فضیلت و اہمیت ذکر فرمائی ہے، درجات بیان فرمائے ہیں اور تجارت کے متعلق احکامات ارشاد فرمائے ہیں۔ احادیث میں کتاب البیوع کے عنوان سے مستقل کتابیں ہیں اور تجارت و کاروبار کے حوالے سے جناب رسول اللہؐ کی تعلیمات واضح ہیں۔
جناب نبی کریمؐ نے خود بھی نبوت سے پہلے تجارت کو بطور پیشہ اختیار کیا اور اس پر بہت سی روایات ہیں کہ آپؐ لین دین کیسے کرتے تھے اور کاروباری معاملات کیسے طے فرماتے تھے۔ جناب رسول اللہؐ کی بعثت سے پہلے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضورؐ کی شادی کا سبب بھی تجارت ہی تھا۔ حضرت خدیجہؓ قریش کی ایک باعزت تاجر خاتون تھیں اور ان کا تجارتی قافلہ شام کے علاقے میں جایا کرتا تھا۔ وہ خود تو تجارت کے لیے نہیں جاتی تھیں لیکن ان کے نمائندے اور کارندے جاتے تھے۔ تجارت کے سارے عمل کا انحصار صرف نمائندوں پر ہو تو معاملہ اتنا قابلِ بھروسہ نہیں رہتا اس لیے حضرت خدیجہؓ کو تلاش ہوتی تھی کہ کوئی دیانت دار اور قابلِ اعتماد آدمی ان کی تجارت کو سنبھالے۔ جناب نبی کریمؐ کے بارے میں مکہ مکرمہ میں یہ مشہور تھا کہ آپ امین ہیں، صادق ہیں، سچے ہیں، دیانت دار ہیں، بااخلاق اور قابلِ اعتماد ہیں۔
چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے یہ دیکھنے کے لیے کہ جو کچھ انہوں نے حضورؐ کے متعلق سن رکھا ہے یہ کہاں تک ٹھیک ہے۔ انہوں نے رسول اللہؐ کو پیغام بھیجا اور پیشکش کی کہ آپ ایک سال میرے تجارتی قافلے کی سربراہی کریں۔ اس پر حضورؐ حضرت خدیجہؓ کا تجارتی قافلہ لے کر شام گئے اور پھر واپس آئے، یہ تجارتی سفر حضرت خدیجہؓ کے حضورؐ پر اعتماد کا باعث بنا اور پھر حضورؐ کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کے رشتے کا سبب بھی بنا، یوں آنحضرتؐ کی حضرت خدیجہؓ کے ساتھ نکاح ہوگیا۔ یہ شادی اتنی بابرکت ثابت ہوئی کہ حضورؐ کی بعثت اور نبوت کے اعلان کے بعد حضرت خدیجہؓ کا سارا مال حضورؐ پر ہی خرچ ہوا۔5
نبی اکرمؐ کی پچیس سالہ یک زوجگی
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر کا آغاز، جس کو گھر کہتے ہیں، یہ ہوا تھا ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنہا سے۔ جب حضورؐ کا نکاح ہوا تو وہاں سے حضورؐ کی گھریلو زندگی کا آغاز ہوا۔ مکہ مکرمہ میں جناب نبی کریمؐ نے حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کی حیات میں اور کوئی نکاح نہیں کیا۔ پچیس سال کی عمر میں نبی کریمؐ کا نکاح ہوا تھا، اور پچیس سال ہی ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ کے ساتھ گزارے ہیں۔ گیارہ نبوی میں ان کا انتقال ہوا تھا۔
پہلی بیوی بھی تھیں، بچوں کی ماں بھی تھیں۔ جناب نبی کریمؐ کی ساری کی ساری اولاد، سوائے حضرت ابراہیمؓ کے، حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ سے تھی۔ چاروں بیٹیاں، بیٹے چار، یا تین، یا پانچ، علیٰ اختلاف الروایات۔ حضرت قاسمؓ کے بارے میں تو آتا ہے کہ حضورؐ کے بیٹے تھے، بلوغت کے قریب پہنچے تھے، تیرہ چودہ سال کی عمر، گھوڑے پر سواری کر لیتے تھے، ان کا انتقال ہو گیا، انہی کی نسبت سے جناب نبی کریمؐ کو ابوالقاسم کہا جاتا ہے، حضورؐ کی کنیت ہے ابوالقاسم، حضرت قاسمؓ کی نسبت سے۔ عبد اللہ بھی نام آتا ہے ایک بچے کا، طاہر بھی آتا ہے، طیب بھی آتا ہے، لیکن جوان کوئی نہیں ہوا۔ جوان بیٹیاں ہوئی ہیں۔ جوان بھی ہوئی ہیں، شادیاں بھی ہوئی ہیں، اولاد بھی ہوئی ہے، نبی کریمؐ نے بیٹیوں کو پالا بھی ہے، بیٹیوں کو عزت بھی دی ہے، بیٹیوں کی اولاد کو بھی پالا ہے، نواسے بھی پالے ہیں۔ پوتا تو حضورؐ کے پاس نہیں تھا لیکن ایک تھا جس کو پوتے کی طرح پالا تھا، اسامہ بن زیدؓ، حضورؐ کے ہاتھوں میں پرورش ہوئی ہے، حضورؐ کے ہاتھوں میں پلے ہیں، اور پوتوں جیسی محبت ہی اسامہ بن زیدؓ کو ملی ہے۔
میں بات حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کی کر رہا تھا، میاں بیوی کی وہ محبت اور میاں بیوی کا وہ تعلق پوری دنیا کے لیے مثالی ہے آئیڈیل ہے۔ حضرت خدیجہ الکبرٰیؓ مکہ مکرمہ کی بڑی مالدار خاتون تھیں، اور سارے کا سارا مال کس پر خرچ ہوا تھا؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ حضور نبی کریمؐ فرمایا کرتے تھے کہ دو آدمیوں کے احسان میں نہیں بھلا سکتا، اپنا سب کچھ مجھ پر نچھاور کر دیا۔ مردوں میں حضرت ابوبکرؓ اور عورتوں میں حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ۔
میاں بیوی کا تعلق کیا ہوتا ہے، اس سے اندازہ کیجیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب غارِ حرا میں وحی آئی ہے، اور وہ واقعہ جو زندگی میں پہلا اور انوکھا واقعہ تھا، حضورؐ پر گھبراہٹ طاری ہوئی ہے، حضورؐ کہتے ہیں مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا، تو اس وقت حضورؐ کو سنبھالنے والی کون تھیں؟ حضرت خدیجہؓ۔ بیوی کا یہی کام ہوتا ہے کہ خاوند کی پریشانی میں اضافہ نہیں کرنا، خاوند کی پریشانی میں اس کے کام آنا ہے۔ آئیڈیل بیوی کا یہی کام ہوتا ہے کہ خاوند پریشان ہے مضطرب ہے، حضورؐ کے الفاظ ہیں ’’انی اخاف علیٰ نفسی‘‘ مجھے اپنے اوپر ڈر لگنے لگا تھا غارِ حرا کا واقعہ دیکھ کر۔ اس وقت سنبھالا کس نے ہے، حوصلہ کس نے دیا ہے، صبر کس نے دلایا ہے، ساتھ کس نے دیا ہے؟ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ یاد بھی رہی ہیں، یہ مکہ میں فوت ہو گئی تھیں ۱۱ نبوی میں۔ مدینہ جا کر حضورؐ نے اور نکاح بھی کیے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ حضورؐ کی بیویوں میں حضورؐ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں، ابوبکرؓ کی بیٹی بھی تھیں، ذہین خاتون تھیں، اللہ تعالیٰ نے بہت کمالات سے نوازا تھا، سوکنیں ان کی بہت تھیں، بیک وقت نو بیویاں تھیں حضورؐ کی۔ کہتی ہیں کہ مجھے کسی پر اتنی غیرت نہیں آتی تھی جتنی اس وقت غیرت آتی تھی جب حضورؐ بار بار خدیجہؓ کا ذکر کرتے تھے، خدیجہؓ ایسے تھی، خدیجہؓ نے یہ کیا، خدیجہؓ نے وہ کیا۔ بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ! وہ بڑھیا آپ کو بھولتی نہیں؟ ہر بات پر خدیجہؓ ایسے تھی، خدیجہؓ ایسے تھی، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھی بیویاں دے دی ہیں۔ اور اچھی تھیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ آپؐ جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے، خدیجہؓ کی کوئی سہیلی آتی ہے تو کہتے ہیں کہ اسے کھلاؤ پلاؤ، خدیجہؓ خدیجہؓ کرتے رہتے ہیں آپؑ، تو وہ آپ کو بھولتی نہیں ہے؟ تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملے میں یہ بات کہہ دی، اللہ اکبر، عائشہ! وہ میرے دکھ کے وقت کی ساتھی تھی۔ دکھ کے وقت کا ساتھی کبھی بھولتا ہے؟ وہ تکلیفوں کا دور، وہ آزمائشوں کا دور، وہ طعن و تشنیع کا دور، اذیتوں کا دور، کیسے بھول سکتی ہے۔ تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا آغاز ہوا تھا ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے۔6
آقائے نامدارؐ کا پہلا تعارف
سوشل ورک یا انسانی خدمت اور معاشرہ کے غریب و نادار لوگوں کے کام آنا بہت بڑی نیکی ہے اور اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے۔ یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے اور آپؐ نے دکھی انسانیت کی خدمت اور نادار لوگوں کا ہاتھ بٹانے کا بڑا اجر و ثواب بیان فرمایا ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ آقائے نامدارؐ پر وحی نازل ہونے کے بعد آپؐ کا پہلا تعارف ہمارے سامنے اسی حوالہ سے آیا ہے کہ آپؐ نادار اور مستحق لوگوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔
چنانچہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ آنحضرتؐ کا معمول یہ تھا کہ چند دن کی خوراک اور پانی لے کر غارِ حرا میں چلے جاتے تھے اور سب لوگوں سے الگ تھلگ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مصروف رہتے تھے۔ ایک دن وہیں غار میں وحی کے آغاز کا واقعہ پیش آگیا، حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو قرآن کریم کی پہلی آیات سنائیں۔ اس واقعہ کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کیونکہ آپ نے کئی بار سن رکھا ہوگا اور آپ کے ذہن میں ہوگا۔ اچانک یہ واقعہ ہوا، اس سے قبل اس قسم کی بات کبھی نہیں ہوئی تھی اس لیے جناب نبی کریمؐ پر گھبراہٹ کا طاری ہونا فطری بات تھی۔ آپؐ گھر تشریف لائے، چادر اوڑھی اور لیٹ گئے۔ اہلیہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا دانا و بینا خاتون تھیں، پریشانی بھانپ گئیں، پوچھا تو آنحضرتؐ نے سارا واقعہ بیان کر دیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ’’خشیت علیٰ نفسی‘‘ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگ رہا ہے۔ اس پر حضرت خدیجہؓ نے آپ کو تسلی دی اور کہا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو غمزدہ نہیں کرے گا۔ اور انہوں نے اپنے دعویٰ پر جو دلیل دی وہ یہ تھی کہ ’’آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں، مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں، لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘‘۔ گویا ام المؤمنین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کہ جو لوگ انسانی سوسائٹی میں دوسروں کے کام آنے والے ہوں اللہ تعالیٰ انہیں غمزدہ اور پریشان نہیں کیا کرتا۔
اس طرح پہلی وحی نازل ہونے کے بعد احادیث کے ذخیرہ میں نبی کریمؐ کا جو سب سے پہلا تعارف ہمارے سامنے آتا ہے وہ ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؐ بہت بڑے سوشل ورکر تھے اور دکھی انسانیت کی خدمت آپؐ کی سب سے پہلی سنتِ مبارکہ ہے۔7
پہلی وحی کا واقعہ اور حضرت خدیجہؓ کی تسلی
جب حضرت جبریل علیہ السلام غارِ حرا میں پہلی وحی لے کر آئے تو یہ حضورؐ کے لیے ایک اچانک بات تھی، آپؐ نے وحی تو قبول کر لی لیکن اِس غیر معمولی واقعہ کی وجہ سے آپؐ کی طبیعت پر بے پناہ بوجھ تھا۔ پہلی وحی کے مراحل سے گزر کر آنحضرتؐ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے اِس تمام واقعہ کا ذکر کیا، ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ جو جناب نبی کریمؐ کی زوجہ محترمہ تھیں اور قیامت تک دنیا کے مسلمانوں کی محترم ماں ہیں، رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ مجھ پر شخصی احسانات کرنے والی عورتوں میں سب سے بڑھ کر خدیجہؓ تھیں۔
حضرت خدیجہؓ بڑی سمجھ دار خاتون تھیں، حضورؐ نے گھر آ کر زوجہ محترمہ کو غارِ حرا کا یہ واقعہ سنایا اور ساتھ ہی پریشانی کا اظہار فرمایا جو کہ ایک طبعی اور فطری بات تھی، اس پر ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ نے پہلا ردِ عمل یہ ظاہر کیا، ’’واللّٰہ لا یخزیک اللّٰہ أبدًا‘‘ خدا کی قسم! آپ تسلی رکھیے اللہ تعالیٰ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا، اس واقعے میں آپ کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر حضرت خدیجہؓ نے اس کی وجہ بیان فرمائی ’’انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علیٰ نوائب الحق‘‘ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس لیے ضائع نہیں ہونے دے گا کہ معاشرے میں آپ کی خدمات اور کارکردگی قابلِ تعریف و ستائش ہیں، آپ صلہ رحمی کرنے والے ہیں، رشتوں کو جوڑنے والے ہیں، ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ملانے والے ہیں، بیواؤں اور لاوارث لوگوں کا بوجھ اٹھانے والے ہیں، محتاجوں کو کما کر دینے والے ہیں، مہمانوں کی مہمانداری کرنے والے ہیں اور لوگوں پر آنے والی مشکلات میں ان کی مدد کرنے والے ہیں۔ یعنی جو آدمی سوسائٹی کے حقوق ادا کرتا ہو اور معاشرے کے نادار لوگوں کا سہارا بنتا ہو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ضائع نہیں کرتے بلکہ اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ ایک نبی کے طور پر جناب نبی کریمؐ کا پہلا تعارف ہی اس بات سے ہوا کہ آپؐ بیواؤں، یتیموں، مسکینوں اور غریبوں کے کام آتے ہیں۔ چنانچہ سماجی خدمت سوسائٹی کا حق ہے، معاشرے کا یہ حق جناب نبی کریمؐ نے خود بھی ادا کیا اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دی۔8
ورقہ بن نوفل کی تصدیق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ کا واسطہ اہلیہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓکے ذریعے ایک عیسائی عالم سے پڑا۔ بخاری کی روایت کے مطابق آپؐ نے غارِ حرا کا واقعہ ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ سے ذکر کیا اور فرمایا ’’خشیت علیٰ نفسی‘‘ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا ہے۔ حضورؐ کو تشویش تھی، آپؐ نے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو ام المومنینؓ نے تسلی دی کہ ’’لن یخزیک اللّٰہ ابدًا‘‘۔ اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ ’’لانک تصل الرحم و تحمل الکل و تکسب المعدوم و تقری الضیف و تعین علی نوائب الحق‘‘۔ یہ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی سماجی خدمات کا ذکر کیا۔ وہ عیسائی عالم حضرت خدیجہؓ کے چچازاد بھائی تھے۔ ورقہ بن نوفل جو عیسائیت کے عالم تھے، عبرانی زبان جانتے تھے اور انجیل کا عربی میں ترجمہ کر کے لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔
حضرت خدیجہؓ نے حضورؐ کو تسلی دی اور آپؐ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں کہ وہ پرانے بزرگ اور عالم ہیں، اس کیفیت کا ذکر ان سے کرتے ہیں، ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا معاملہ ہوا ہے، کیا خدشات ہیں۔ وہاں جا کر حضورؐ نے ان کو غار میں پیش آنے والا اپنا واقعہ سنایا، ورقہ بن نوفل چونکہ پرانی آسمانی کتابوں کے عالم تھے، وہ سمجھ گئے کہ یہ نبوت اور وحی ہے۔ کہا، یہ تو وہی ناموس ہے جو حضرت موسٰیؑ پر نازل ہوا تھا۔ اور پھر خدشے کا اظہار کیا کہ ایک وقت آئے کہ لوگ آپ کو پریشان کریں گے اور قوم کے لوگ آپ کو مکہ سے نکال دیں گے۔ اور اس حسرت کا اظہار کیا کہ اے کاش! میں اس وقت موجود ہوں، طاقتور ہوں، تو میں آپ کا ساتھ دوں گا، آپ کی مدد کروں گا۔ اس پر حضورؐ کو تعجب ہوا کہ یہ قوم تو مجھ سے بڑی محبت کرتی ہے، مجھے صادق و امین کہتی ہے، مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، میرے پاس فیصلے لاتے ہیں۔ ’’او مخرجی ھم؟‘‘ کیا وہ مجھے مکہ سے نکال دیں گے؟ ورقہ بن نوفل نے کہا آپ جیسی بات جس نے بھی کی ہے اس کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ چونکہ اس وقت تک حضورؐ نے اسلام کی دعوت کا آغاز نہیں کیا تھا تو ورقہ بن نوفل کے ان جذبات کے اظہار پر محققین ان کو اہلِ حق میں سے شمار کرتے ہیں۔9
حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ کا ہار
بڑا دلچسپ واقعہ ہے، امام بخاریؒ بیان فرماتے ہیں، بدر میں حضرت زینبؓ حضورؐ کے گھر میں ہیں اور خاوند کافر قیدیوں میں ہیں، نکاح باقی ہے، نکاح قائم ہے، فدیہ کا فیصلہ ہوا، ابوالعاص بن ربیع کے پاس کچھ دینے وینے کو تھا نہیں کہ میں فدیہ میں کیا دوں گا۔ اہلیہ محترمہ گھر میں ہیں، مدینہ منورہ میں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا، ان کو پتہ چلا کہ میرا خاوند قیدی ہے، فدیے کا فیصلہ ہوا ہے، فدیے کے پیسے نہیں ہیں، تو اپنا ہار گلے سے اتارا، کسی ذریعے سے بھجوایا کہ ابوالعاص کو دے دو تاکہ اپنا فدیہ ادا کر دے۔ مسلمان بہت بعد میں ہوئے ہیں۔ اپنا ہار دیا کہ جا کر ابوالعاص کو دے دو کہ وہ اپنا فدیہ ادا کر کے رہا ہو جائے گا۔ ابوالعاص نے دیکھ لیا کہ میری بیوی کا ہار ہے، بیوی نے بھیجا ہے۔ تو وہ حضورؐ کی خدمت میں جب پیش کیا، اوہو! حضورؐ کی تو انکھیں بھر آئیں۔ یہ ہار اصل میں حضرت خدیجہؓ کا تھا۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار تھا جو انہوں نے شادی کے موقع پر بیٹی کو ہدیہ کیا تھا۔ تو حضورؐ کو وہ پرانا دور سارا یاد آگیا کہ یہ تو خدیجہؓ کا ہار ہے، بیٹی کے پاس ہے، اب بیٹی نے خاوند کو بھیجا ہے آزاد ہونے کے لیے۔ تو حضورؐ نے سفارش کی۔ عام طور پر حضورؐ سفارشیں اس قسم کی نہیں کیا کرتے تھے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ دیکھو بھئی! یہ خدیجہؓ کا ہار ہے، بیٹی کے پاس ماں کی نشانی ہے، اگر تم اجازت دو تو یہ زینبؓ کو واپس کر دوں؟ یا رسول اللہ! حاضر ہے پیش کر دیں۔10
جنگی قیدیوں کے بارے میں حضورؐ کا یہ معمول رہا ہے۔ غزوۂ بدر کے قیدیوں میں حضورؐ کے داماد ابوالعاص بن ربیع تھے جو حضرت خدیجہؓ کے بھانجے تھے، حضرت خدیجہؓ ان کی خالہ بھی تھیں اور ساس بھی، حضرت زینبؓ کے خاوند تھے، قید ہو کر آ گئے تھے۔ بخاری شریف میں ان کا قصہ ہے کہ جب حضرت زینبؓ کو پتہ چلا کہ میرا خاوند گرفتار ہو گیا ہے اور فدیہ کا فیصلہ ہو گیا ہے، اور اس غریب کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، تو انہوں نے اپنا ہار خفیہ طریقے سے بھجوایا کہ ابوالعاص کو یہ دے دو کہ فدیہ دے کر آزاد ہو جائے۔ اس وقت تک مسلمان اور غیرمسلموں کے نکاح قائم تھے، اس وقت حضرت زینبؓ مدینہ میں ابا جانؐ کے گھر پر تھیں۔ ابوالعاصؓ نے جب وہ ہار حضورؐ کو دیا تو آپؐ پہچان گئے کہ زینبؓ نے اپنا ہار اپنے خاوند کو چھڑانے کے لیے بھیجا ہے۔ ہار دراصل حضرت خدیجہؓ کا تھا جو انہوں نے اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر تحفہ میں دیا تھا ۔حضورؐ نے جب حضرت خدیجؓہ کا ہار دیکھا تو صحابہ کرامؓ سے ارشاد فرمایا کہ یہ بیٹی کے پاس ماں کی نشانی ہے، اگر اجازت ہو تو واپس کر دوں؟ حضورؐ ویسے سوال نہیں کیا کرتے تھے لیکن یہاں یہ بات کی، صحابہ کرامؓ نے کہا جیسے آپ کی رضا۔ چنانچہ وہ ہار حضرت زینبؓ کو واپس کر دیا گیا۔11
حضرت زید بن حارثہ ؓ
بیع الحر کی ایک اور مثال حضرت زید بن حارثہ ؓ تھے جو کہ غلام بن کر حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے تھے اور حضرت خدیجہؓ نے انہیں حضورؐ کی خدمت میں دے دیا تھا۔ … حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی ایک آزاد خاندان کے فرد تھے راستے میں سفر کرتے ہوئے کسی نے پکڑا اور بیچ دیا، یہ حضرت خدیجہؓ کی ملکیت میں آئے انہوں نے حضورؐ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضورؐ نے انہیں آزاد کر دیا لیکن وہ آزادی کے بعد بھی آپؐ کی خدمت میں رہے۔ حضورؐ نے انہیں متبنّٰی یعنی منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور وہ اس وقت تک حضورؐ کے منہ بولے بیٹے رہے جب تک اس کی ممانعت کے احکامات نازل نہیں ہوئے۔ یہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن کریم میں ہے۔12
حوصلہ مند اور وفا شعار زوجہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں مصائب و مشکلات میں ان کا سہارا بن کر اور الجھنوں اور پریشانیوں میں مونس و غمخوار بن کر اپنا سب کچھ جناب نبی اکرمؐ کی ذات اور مشن پر لٹا دیا۔ ذرا تصور میں لائیے اس منظر کو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی بار غارِ حرا میں وحی کے تجربہ سے دوچار ہوئے، اچانک واقعہ اور وحی جیسا عظیم بوجھ پہلی بار سامنے آیا، گھبراہٹ میں گھر آئے، چہرے سے پریشانی ہویدا تھی۔ سب سے پہلے ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے ہی اس کیفیت کو محسوس کیا۔ دریافت کیا تو نبی اکرمؐ نے واقعہ بیان فرما دیا اور ساتھ ہی کہا کہ مجھے اپنے بارے میں پریشانی ہو رہی ہے۔ یہ حضرت خدیجہؓ تھیں جنہوں نے ایک حوصلہ مند خاتون اور وفا شعار بیوی کی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا، اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، محتاجوں کو کھلاتے ہیں، مشکلات میں لوگوں کا سہارا بنتے ہیں اور ضرورتمندوں کو کما کر دیتے ہیں۔ حضرت خدیجہؓ مالدار خاتون تھیں اور کاروبار میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت سے متاثر ہو کر ہی انہوں نے آپ سے شادی کا فیصلہ کیا تھا، لیکن جب وقت آیا تو اپنا سارا مال اور کاروبار جناب نبی اکرمؐ کے مشن پر نچھاور کر دیا اور مشکلات و مصائب کے اس دور میں آخر دم تک آپ کا ساتھ نبھایا۔13
مہمان نوازی باعثِ رحمتِ الٰہی
مہمان نوازی کے حوالے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہدایات فرمائی ہیں اور حضورؐ کی سنتِ مبارکہ کیا تھی؟ آپؐ کا نبوت کے بعد جو پہلا تعارف ہے وہ مہمان نوازی کے حوالے سے ہے۔ جناب نبی اکرمؐ پر جب غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ نے یہ واقعہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ سے ذکر کیا اور فرمایا ’’خشیت علیٰ نفسی‘‘ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا ہے۔ آپؐ کو تشویش تھی، حضورؐ نے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو حضرت خدیجہؓ نے حضورؐ کو تسلی دی کہ ’’لن یخزیک اللہ ابدًا‘‘ اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اور پھر انہوں نے آپؐ کی کچھ صفات بیان کیں کہ ان صفات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو پریشان نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ اچھے لوگوں کو پریشان نہیں کیا کرتا۔ ان صفات میں یہ فرمایا ’’تصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق‘‘ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی سماجی خدمات کا ذکر کیا کہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کے کام آتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں، مہمانوں کی مہمانی کرتے ہیں۔ ’’الضیف‘‘ اس زمانے میں دو قسم کے لوگوں کے لیے بولا جاتا تھا۔ ایک وہ جو کہیں سے ملنے کے لیے آئیں، اور دوسرے بے ٹھکانہ مسافر پر بھی الضیف کا لفظ بولا جاتا تھا۔ پہلے زمانے میں ہوتا تھا کہ مسجد میں مسافر آجاتے اور کہتے میں مسافر ہوں تو لوگ ان کی مہمانی کر دیا کرتے تھے۔14
امہات المؤمنینؓ اور صنعت و تجارت
ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ تجارت کیا کرتی تھیں اور جناب رسول اکرمؐ کی ازواج مطہرات میں حضرت ام سلمہؓ، حضرت ام حبیبہؓ اور حضرت زینبؓ اپنے گھر میں کام کرتی تھیں اور مختلف چیزیں تیار کر کے بازار میں فروخت کیا کرتی تھیں۔ دیگر حضرات صحابہ کرامؓ کی ازواج مطہرات بھی تجارت اور حرفت کے کام کرتی تھیں اور کمائی کیا کرتی تھیں۔ …… اسلام نے عورت اور مرد کے میل جول کی حدود متعین کی ہیں اور پردے و حجاب کے ضابطے نافذ کیے ہیں جن کی پابندی بہرحال ضروری ہے۔ ان حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے عورت ملازمت بھی کر سکتی ہے، کاروبار بھی کر سکتی ہے اور جائز کمائی کے دیگر ذرائع بھی اختیار کر سکتی ہے جس کی شریعت میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی طبقہ ملازمت اور کاروبار وغیرہ کے جواز کے نام پر مرد اور عورت کے درمیان اس فطری فرق کی نفی کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد پر اسلام نے مردوں اور عورتوں کے لیے قوانین میں فرق رکھا ہے تو فطرتِ سلیمہ کے طے کردہ اس فرق کو ختم کرنے کی اجازت کسی صورت میں نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی عملاً اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔15
عام الحزن — غم کا سال
حضرت خدیجہؓ اور حضورؐ کے چچا ابو طالب کی وفات قریب قریب ہوئی۔ گھر میں سب سے زیادہ حضورؐ کا ساتھ دینے والی حضرت خدیجہؓ تھیں جبکہ گھر سے باہر خاندان میں سب سے زیادہ محافظ اور مددگار جناب ابوطالب تھے۔ ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انہوں نے چچا ہونے کے ناطے سے چچا ہونے کا حق ادا کر دیا۔ ابو طالب رسول اللہؐ کے ساتھ شعب ابو طالب میں بھی محصور رہے۔ جناب ابو طالب کی زندگی میں کسی کو حضورؐ کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں ہوئی، جسے بھی کوئی شکایت ہوتی تو وہ ابو طالب سے کرتا تھا کہ اپنے بھتیجے سے یہ بات کرو، اپنے بھتیجے کو یہ سمجھاؤ۔ ابوطالب کی شخصیت کا ایک رعب اور مقام تھا۔ جس سال یکے بعد دیگرے جناب ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا تو وہ سال حضورؐ کے لیے بہت پریشانی کا تھا کہ عالمِ اسباب میں جو دو بڑے سہارے تھے، دونوں ختم ہوگئے۔ اس لیے رسول اللہؐ نے اسے عام الحزن قرار دیا کہ یہ میرا غم کا سال ہے۔16