ملی مجلس شرعی، جو پاکستان کے تمام دینی مکاتب فکر کا ایک مشترکہ علمی فورم ہے، اس کا ایک اجلاس آج مولانا زاہد الراشدی صاحب (صدرِ مجلس) کی زیر صدارت جامعہ اشرفیہ لاہور میں ہوا جس میں قانون ناموسِ رسالت پر عمل درآمد کے حوالے سے غور کیا گیا۔
علماء کرام کا موقف یہ تھا کہ سیکولر اور لبرل لابی اور غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز اس قانون کے غلط استعمال کا پروپیگنڈا کر کے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنا چاہتی ہیں اور اس قانون کو ختم اور غیر مؤثر کرنا چاہتی ہیں۔ علماء کرام نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ نبی کریم ﷺ کی حرمت و عزت سارے مسلمانوں کے دین و ایمان کا مسئلہ ہے۔
علماء کرام نے حکومت پر زور دیا کہ اس قانون کے غلط استعمال پر کمیشن کی بجائے قانون پر مؤثر اور بلاتاخیر عمل درآمد کیا جائے۔ جن کیسوں پر فیصلہ ہو چکا ہے ان پر فوراً عمل کیا جائے اور زیر ٹرائل کیسز کو بلاتاخیر نمٹایا جائے۔ علماء نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ توہین انبیاء کو قابلِ سزا جرم بنانے کے لیے عالمی سطح پر قوانین بنوانے کی کوشش کی جائے۔ صدر مجلس نے علماء کرام کی مشاورت سے ایک سات رکنی کمیٹی قائم کی جو اس سارے معاملے پر غور کر کے اپنی سفارشات جلد پیش کرے گی۔
اس مجلس میں سارے مکاتب فکر کے علماء کرام نے شرکت کی خصوصاً مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد یوسف خان، مفتی شاہد عبید، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، مولانا ڈاکٹر محمد کریم خان، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی، حافظ محمد عمران طحاوی، مولانا عبد الودود، حافظ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی، چوہدری غلام مصطفیٰ ایڈووکیٹ، مفتی شمس الدین ایڈووکیٹ، حافظ نعمان حامد جالندھری، مولانا ڈاکٹر حسیب قادری، مولانا خان بہادر، عرفان جہانگیر ایڈووکیٹ، مفتی خالد محمود، حافظ مبشر اقبال چوہدری، محمد یونس ایڈووکیٹ، مولانا محمد امجد، مولانا مزمل رسول، اور دوسرے بہت سے علماء کرام نے شرکت کی۔
(۳۱ جولائی ۲۰۲۵ء)