پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر

ڈاکٹر عبد القدیر خان کی جدوجہد اور اسرائیل کی منصوبہ بندی

پاکستانی سائنسدان اسرائیلی نگرانی میں

سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جارج ٹینٹ انہیں اسامہ بن لادن سے کم خطرناک نہیں سمجھتے تھے۔ اور موساد کے سابق سربراہ شبطائی شاویٹ کو انہیں ہلاک نہ کرنے کا افسوس تھا۔ لیکن تقریباً پچیس کرور پاکستانیوں کے لیے عبدالقدیر خان، جو پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی ہیں، ایک لیجنڈ اور قومی ہیرو ہیں۔ 1936ء میں پیدا ہونے والے اور 2021ء میں 85 سال کی عمر میں انتقال کر جانے والے اس جوہری سائنسدان کا جنوبی ایشیائی ملک کو جوہری بم بنانے میں سب سے زیادہ کردار ہے۔ انہوں نے ایک خفیہ جوہری پروگرام بنایا جس کا سرکاری طور پر کوئی وجود نہیں تھا۔ انہوں نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو ان کے جوہری پروگراموں میں مدد فراہم کرنے والا اس سے بھی زیادہ خفیہ ایک نیٹ ورک چلایا۔ اسرائیل، جو خود ایک جوہری طاقت ہے، نے مبینہ طور پر پاکستان کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کی کوشش میں قتل کی کوششیں اور دھمکیاں استعمال کیں۔ 1980ء کی دہائی میں اسرائیل نے بھارتی مدد سے پاکستان کی جوہری تنصیبات پر بمباری کا بھی منصوبہ بنایا تھا۔ ان میں سے کچھ بھی کام نہیں آیا اور پاکستان ایک جوہری طاقت بن گیا۔

بھارت کا پہلا ایٹمی دھماکہ اور ذوالفقار علی بھٹو کا عزم

اس سلسلہ کا آغاز 18 مئی 1974ء کو ہوا جب بھارت نے اپنے پہلے جوہری ہتھیار کا تجربہ کیا۔ پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فوری طور پر اپنے ملک کے لیے جوہری ہتھیار تیار کرنے کا عہد کیا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم گھاس یا پتے کھائیں گے، بھوکے بھی رہیں گے، لیکن ہم اپنا بم حاصل کریں گے۔‘‘ انہوں نے اعلان کیا کہ ’’(پہلے) ایک مسیحی بم تھا، ایک یہودی بم تھا، اور اب ایک ہندو بم ہے، تو اسلامی بم کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘

ڈاکٹر عبد القدیر خان کی پاکستان آمد

اے کیو خان، جیسا کہ پاکستانی عام طور پر ان کا ذکر اس نام سے کرتے ہیں، وہ شخصیت تھے جنہوں نے یہ بم بنایا۔ 1974ء میں خان ایمسٹرڈیم میں ایک بڑی جوہری ایندھن کمپنی یورینکو کے ذیلی ٹھیکیدار کے طور پر کام کر رہے تھے۔ خان کو تنصیبات کے انتہائی خفیہ علاقوں اور دنیا کے بہترین سینٹری فیوجز کے بلیو پرنٹس تک رسائی حاصل تھی، جو قدرتی یورینیم کو افزودہ کرتے اور اسے بم کے ایندھن میں تبدیل کرتے تھے۔ جنوری 1976ء میں انہوں نے نیدرلینڈز سے اچانک اور پراسرار طور پر روانگی اختیار کی، یہ کہتے ہوئے کہ انہیں ’’پاکستان میں ایک ایسی پیشکش کی گئی ہے جسے وہ ٹھکرا نہیں سکتے۔‘‘ خان پر بعد میں یورینیم سینٹری فیوجز کا ایک بلیو پرنٹ چرانے اور اسے پاکستان لے جانے کا الزام لگایا گیا۔ اس سال جولائی میں انہوں نے راولپنڈی میں ایک ریسرچ لیبارٹری قائم کی جس نے جوہری ہتھیاروں کے لیے افزودہ یورینیم پیدا کرنا شروع کیا۔

اے کیو خان کے جوہری آپریشن کا مقصد بڑی حد تک نظریاتی تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ کہا، ’’میں امریکیوں اور برطانویوں کے اس 'خودساختہ پارسائی' کے رویے پر سوال اٹھانا چاہتا ہوں، کیا یہ منحوس دنیا کے خدا کی طرف سے مقرر کردہ نگہبان ہیں؟‘‘

ایٹمی منصوبہ کی سرکاری سطح پر رازداری

پاکستان کے فوجی ادارے نے خان کے کام کی معاونت کی، البتہ سول حکومتوں کو عام طور پر اندھیرے میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو بھی ان کے جرنیلوں نے ایران کے ساتھ جوہری ٹیکنالوجی شیئرنگ پروگرام کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بتایا۔ انہیں اس کا علم 1989ء میں تہران میں اتفاقی طور پر ہوا۔ ایرانی صدر انہیں ایک طرف لے گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ خصوصی دفاعی امور پر دونوں ممالک کے معاہدے کی دوبارہ تصدیق کر سکتے ہیں۔ بھٹو نے حیران ہو کر پوچھا، ’’مسٹر صدر، آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟‘‘ ایرانی صدر نے جواب دیا، ’’جوہری ٹیکنالوجی، میڈم وزیراعظم، جوہری ٹیکنالوجی۔‘‘ بے نظیر بھٹو حیران رہ گئیں۔

تنصیبات کی تباہی کے لیے بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ

پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی سنگین کوششیں کی گئیں، جن میں قتل کی کوششوں کا ایک سلسلہ بھی شامل تھا جسے عمومی طور پر اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کا کام سمجھا جاتا ہے۔ یورپی کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کو نشانہ بنایا گیا جو عبد القدیر خان کے ساتھ کاروبار کر رہے تھے۔ مغربی جرمنی میں ایک صاحب کو لیٹر بم بھیجا گیا، وہ بچ گئے لیکن ان کا کتا مارا گیا۔ ایک اور بم دھماکے میں سوئس کمپنی کورا انجینئرنگ کے ایک سینئر ایگزیکٹو کو نشانہ بنایا گیا جس نے پاکستان کے جوہری پروگرام پر کام کیا تھا۔

1980ء کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل نے بھارت کو یہاں تک تجویز پیش کی کہ دونوں راولپنڈی میں پاکستان کی جوہری تنصیب پر بمباری اور اسے تباہ کرنے میں تعاون کریں۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے حملے کی منظوری دی۔ اسرائیلی بمبار طیاروں کے بھارت کے گجرات میں ایک فضائی اڈے سے پرواز کرنے اور پاکستانی تنصیب پر حملے کرنے کا ایک منصوبہ تیار کیا گیا۔ لیکن گاندھی بعد میں پیچھے ہٹ گئیں، اور منصوبہ ترک کر دیا گیا۔

امریکہ کی پاکستان کے منصوبہ سے چشم پوشی

بھارتی اور اسرائیلی مخالفت کے باوجود امریکیوں نے جوہری پروگرام سے آنکھیں بند کر لیں کیونکہ پاکستان ’’سرد جنگ‘‘ کے دوران ایک اہم اتحادی تھا۔ لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ اکتوبر 1990ء میں امریکہ نے جوہری پروگرام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پاکستان کو اقتصادی اور فوجی امداد روک دی۔ پاکستان نے تب یہ کہا کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنا بند کر دے گا۔ تاہم، اے کیو خان نے بعد میں انکشاف کیا کہ آپریشن خفیہ طور پر جاری رہا۔

پاکستان کا کامیاب ایٹمی تجربہ

1998ء میں پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ عبد القدیر خان ایک قومی ہیرو بن گئے۔ سڑکوں، سکولوں اور یہاں تک کہ کرکٹ ٹیموں کا نام بھی ان کے نام پر رکھا گیا۔ لیکن وہ خاص طور پر ایک اور خطرناک آپریشن بھی منظم کر رہے تھے۔ 1980ء کی دہائی کے وسط سے، عبد القدیر خان نے ایک بین الاقوامی جوہری نیٹ ورک چلایا جس نے ایران، شمالی کوریا اور لیبیا کو (جوہری) ٹیکنالوجی اور ڈیزائن مہیا کیے موساد نے مشرقِ وسطیٰ میں ان کے سفر کے دوران ان پر نظر رکھی، لیکن وہ یہ معلوم کرنے میں ناکام رہے کہ سائنسدان کی سرگرمیاں کس بارے میں ہیں۔ پھر موساد کے سربراہ شبطائی شاویٹ نے بعد میں کہا کہ اگر انہیں خان کے ارادوں کا احساس ہوتا تو وہ ان کے قتل کا حکم دینے پر غور کرتے۔

دیگر ممالک کو جوہری صلاحیت فراہم کرنے کا انکشاف

بالآخر لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر قذافی نے امریکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں 2003ء کے دوران عبد القدیر خان کے آپریشن کا پردہ فاش کر دیا۔ قذافی نے سی آئی اے اور ایم آئی سِکس کو بتایا کہ عبد القدیر خان لیبیا کی حکومت کے لیے جوہری تنصیبات بنا رہے ہیں، جن میں سے کچھ کو مرغی فارمز کے طور پر چھپایا گیا تھا۔ سی آئی اے نے لیبیا کے لیے بھیجی جانے والی مشینری کو تب قبضے میں لے لیا جب اسے سوئز کینال کے ذریعے سمگل کیا جا رہا تھا۔ تفتیش کاروں کو اسلام آباد کے ایک ڈرائی کلینر کے تھیلوں میں ہتھیاروں کے بلیو پرنٹس ملے۔

2004ء میں عبد القدیر خان نے اس کا اعتراف کیا، انہوں نے کہا کہ انہوں نے اکیلے کام کیا تھا اور پاکستانی حکومت کی کوئی حمایت حاصل نہیں تھی، اور امریکی دباؤ کے تحت پاکستانی حکومت نے عبد القدیر خان کو 2009ء تک اسلام آباد میں گھر پر نظر بند کر دیا۔

اپنے بعد کے سالوں میں خان نے اسلام آباد میں ایک کمیونٹی سینٹر کے لیے فنڈز فراہم کیے اور اپنا وقت بندروں کو پالنے میں گزارا۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ ’’میں نے پہلی بار ملک کو تب بچایا جب میں نے پاکستان کو ایک جوہری قوم بنایا، اور دوسری بار تب بچایا جب میں نے اعتراف کیا اور سارا الزام اپنے سر لے لیا‘‘۔ امریکہ میں، انہیں بڑے پیمانے پر مذمت کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن جو لوگ انہیں جانتے تھے انہوں نے کہا کہ عبد القدیر خان کو پختہ یقین تھا کہ انہوں نے جو کیا وہ صحیح تھا۔

قوم کو ڈاکٹر عبد القدیر خان کی یقین دہانی

2019ء میں اپنی موت سے دو سال قبل عبد القدیر خان نے عوامی طور پر کہا کہ قوم کو ’’یقین رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک محفوظ جوہری طاقت ہے، کوئی اس پر بری نظر نہیں ڈال سکتا۔‘‘

https://youtu.be/bBsqHkkeycE


پاکستان واحد مسلمان ایٹمی ملک کیسے بنا؟

اسرائیل نے حال ہی میں ایران پر حملہ کرنے اور اس کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ اس اقدام نے ایک ایسے بحران کو جنم دیا جس میں دونوں ملکوں نے 12 دنوں تک مہلک حملوں کا تبادلہ کیا۔ یہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ جب علاقائی طاقت کی کشمکش میں جوہری عزائم بھی شامل ہو جائیں تو کیا کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے کسی مسلم ملک کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کی کوشش کی ہو۔ 1980ء کی دہائی میں تل ابیب نے بھارت کی خفیہ مدد سے پاکستان کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔ تو پھر پاکستان نے، جو کہ معاشی طور پر ترقی یافتہ ملک نہیں تھا، ایک ایسا جوہری پروگرام کیسے بنا لیا جس سے وہ اسرائیل کے نشانے پر آ گیا۔ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں سرد جنگ کے دور میں جانا ہوگا۔

امریکہ کا ’’ایٹمز فار پیس‘‘ پروگرام 

1956ء میں امریکی پروگرام ’’ایٹمز فار پیس‘‘ (Atoms for Peace) کے تحت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) قائم کیا گیا تھا۔ یہ اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور کا آئیڈیا تھا، جس کا مقصد ممالک کو عوامی جوہری توانائی تیار کرنے میں مدد فراہم کر کے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو سست کرنا تھا، اس کے بدلے میں کہ وہ بم نہ بنائیں۔ پاکستان نے 37 سائنسدانوں کو بیرون ملک بھیجا، امریکی امداد سے جوہری سازوسامان حاصل کیا، اور 1961ء تک لاہور میں اپنا تحقیقی مرکز قائم کر لیا۔ دو سال بعد اس کے دارالحکومت اسلام آباد کے قریب ایک چھوٹا جوہری بجلی گھر قائم ہو چکا تھا۔ پھر 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ ہوئی۔

1965ء کی جنگ کے بعد پاکستان پر امریکی پابندیاں

امریکہ، جو پاکستان کو ہتھیار مہیا کرنے والا بنیادی ملک تھا، اس نے پاکستان پر بھارت کے خلاف امریکی ساختہ ہتھیاروں کا استعمال کرنے پر پابندیاں لگا دیں، کیونکہ اس نے اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ اپنے ایک معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ اسی دوران بھارت نے خاموشی سے جوہری ہتھیار کی تیاری شروع کر دی۔

فیروز حسن خان (مصنف اور نیول پوسٹ گریجویٹ سکول کے پروفیسر): اگر بھارت بم بناتا ہے تو اس کا تقاضہ تھا کہ پاکستان بھی بم بنائے گا۔

پاکستان کو اب دو فوری ضروریات کا سامنا تھا: (۱) قابلِ اعتماد اتحادی تلاش کرنا اور (۲) اپنا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع کرنا۔ وہ اتحادی چین بنا، اور اسلام آباد نے خود انحصاری کا راستہ اختیار کیا۔ اس وقت کے پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے واضح کیا کہ اگر نئی دہلی کے پاس بم ہوگا تو اسلام آباد بھی ایک حاصل کرے گا، چاہے اس کے لیے گھاس ہی کیوں نہ کھانی پڑے۔

1971ء کی جنگ میں شکست

1971ء میں پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہونے والی ایک اور جنگ کے بعد اپنا مشرقی حصہ کھو دیا، جو اب بنگلہ دیش ہے۔ اس کے تین سال بعد (1974ء میں) بھارت نے اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا جسے سمائلنگ بدھا (Smiling Buddha) کا نام دیا گیا۔ اور اسے امریکہ اور سابق سوویت یونین کی فراہم کردہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اسے پرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ 

اندراگاندھی (وزیر اعظم بھارت): نہیں، میں نے پریسٹیج (وقار) کی کبھی پرواہ نہیں کی۔

پاکستان نے پابندیوں کا مطالبہ کیا۔ واشنگٹن نے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے ذریعے سرد مہری کا مظاہرہ کیا، گویا یہ کہا جا رہا ہو کہ ’’اسے برداشت کریں‘‘۔ 1972ء میں بھٹو نے ملتان میں ایک خفیہ اجلاس میں سائنسدانوں اور بیوروکریٹس کو جمع کیا جہاں انہوں نے جوہری ہتھیار تیار کرنے کا عہد کیا۔ اس خفیہ اقدام کو پروجیکٹ 706 کا نام دیا گیا، جو پاکستان کا اپنا ’’مین ہیٹن پروجیکٹ‘‘ تھا (مین ہیٹن پراجیکٹ امریکہ کا پہلا ایٹمی پروگرام تھا)۔

فیروز حسن خان: ’’ایک رجحان ہے جسے ’’پھر کبھی نہیں‘‘ کا نام جاتا ہے۔ جب ملک اور معاشرہ ایک ایسے عمل سے گزرتے ہیں کہ ہمیں پھر کبھی ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور یہ جوہری دور میں اس حوالے سے تمام ممالک کی ابتدائی تاریخ ہے۔ جیسا کہ سوویت یونین نے کہا، ’ہم پھر کبھی اس طرح سے ذلیل نہیں ہوں گے جیسے نازیوں نے کیا‘۔ بھارت جب چین کے ہاتھوں ذلیل ہوا تو انہوں نے کہا، ’یہ پھر کبھی نہیں ہو گا‘۔ لہٰذا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک سلسلہ ہے ہر ملک کے اس احساس کا کہ اگر آپ کو ذلت ملے اور ایک طرح سے ٹھکانے لگنے کا احساس پیدا ہو، اور اس سے قومی فخر وابستہ ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر عبد القدیر خان کا کردار

اور پھر یورپی یورینیم افزودگی فرم یورینکو (URENCO) میں کام کرنے والے ایک جوہری طبیعیات دان کا کردار شروع ہوتا ہے۔ عبد القدیر خان نے 1974ء میں بھٹو کو اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ ہالینڈ سے ’’چوری شدہ‘‘ سینٹرفیوج ڈیزائنز کے ساتھ پاکستان واپس آئے اور ملک میں ایک متوازی یورینیم افزودگی پروگرام شروع کیا۔

فیروز حسن خان: یہ پاکستان کی جوہری ہتھیاروں کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ 1974ء میں ہونے والے بھارت کے تجربے کے بعد پاکستان کو کسی بھی ری پروسیسنگ سہولت یا کسی بھی تکنیکی مہارت کے حصول سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ تو یہ اس وقت تھا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہالینڈ میں سینٹرفیوج پلانٹ پر کام کر رہے تھے، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط بھیجا کہ وہ ایک مختلف راستے سے مدد کر سکیں گے، جسے انتہائی افزودہ یورینیم کا راستہ کہا جاتا ہے، یورینیم-235 کو 90 فیصد سے زیادہ افزودہ کر کے (بم) بنانے کے ذریعے۔ انہوں نے سوچا کہ یہ وہ راستہ ہے جو جس کی آپ کو اصل میں ضرور ت ہے۔

PAEC، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے پلوٹونیم پر کام کیا، اور خان نے کہوٹہ نامی ایک چھوٹے سے پرسکون قصبے میں ایک یورینیم افزودگی لیبارٹری قائم کی۔

پاکستان نے منصوبہ خفیہ کیسے رکھا؟

یورپ سے سازوسامان خریدنے کے لیے عبد القدیر خان نے نمائندہ کمپنیوں کا ایک نیٹ ورک بنایا، ان میں سے ایک مکھن کی فیکٹری کے طور پر کام کرتی تھی۔

فیروز حسن خان: اس پروگرام کی خوبصورتی یہ تھی کہ یہ ملک کے اندر چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مدد سے ہتھیاروں کے نظام کو جوڑ سکتا تھا، ایسی چیزیں جن میں دوہرے استعمال کی صلاحیتیں ہوتی تھیں، جیسے کہ آپ جانتے ہیں، ویکیوم کلینر، واشنگ مشینیں اور معیاری انجینئرنگ کا سامان۔

اپنے روابط اور سرکاری حمایت کے ذریعے عبد القدیر خان نے ایک کارآمد افزودگی پلانٹ کے لیے درکار تقریباً ہر چیز درآمد کی یہاں تک کہ اسپیئر پارٹس بھی۔ 1977ء میں ایک بغاوت کے ذریعے بھٹو کو معزول کر دیا گیا، جس کے بعد واشنگٹن نے ملک پر مزید پابندیاں عائد کر دیں، لیکن عبد القدیر خان کے منصوبے کو بھٹو کے جانشین جنرل ضیاء الحق کی انتظامیہ کے تحت اور بھی زیادہ حمایت اور فنڈنگ ملی۔

فیروز حسن خان: انہوں نے ایک کتاب لکھی جس میں اس کا ذکر کیا اور یہ ان کا کہنا تھا کہ اگر عیسائی دنیا کے پاس بم ہو سکتا ہے، اگر یہودیوں کے پاس بم ہو سکتا ہے، ہندوؤں کے پاس بم ہو سکتا ہے، کمیونسٹوں کے پاس بم ہو سکتا ہے، تو مسلم ملک کے پاس بم کیوں نہیں ہو سکتا؟

1979ء میں برطانوی انٹیلی جنس اور اس کے بعد ایک جرمن دستاویزی فلم نے پاکستان کے جوہری عزائم کو بے نقاب کیا، اور اس بات کو بھی کہ وہ کیسے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کو نظرانداز کر رہا تھا۔

لیکن امریکہ نے کارروائی نہیں کی۔ کیوں؟ کیونکہ اسے پاکستان کی ضرورت تھی۔ سوویت یونین نے اسی دور میں افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ ایرانی انقلاب نے شاہ کا تختہ الٹ دیا تھا جو کہ امریکہ کا ایک اہم اتحادی تھا۔  واشنگٹن کو اب پاکستان کی ایک علاقائی اتحادی کے طور پر ضرورت تھی۔

جان مکلاکلن (امریکی صحافی): ’’آپ کے لیے یہ ایک بہترین صورتحال ہے۔ آپ نے وہ تاثر پیدا کیا ہے، اور یہ آپ ہی کے الفاظ ہیں، کہ آپ کے پاس بم ہے لیکن آپ کے پاس بم نہیں ہے۔ تو آپ کو اب بھی امریکی امداد ملے گی اور آپ اب بھی بھارت کو فکرمند رکھیں گے۔‘‘

ضیاء الحق (صدر پاکستان): ’’میں اپنی تعریف نہیں کر رہا، لیکن پاکستانی ایک ذہین قوم ہے۔‘‘

ضیاء نے اس حوالے سے انکار جاری رکھا کہ پاکستان کے پاس کوئی جوہری ہتھیار ہیں۔

ضیاء الحق: ’’یہ غلط ہے۔ بالکل غلط۔ جب پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار رکھنے کا کوئی ارادہ یا خواہش نہیں ہے، تو ہمیں ایسی چیزیں کیوں رکھنی چاہئیں؟‘‘

لیکن مارچ 1983ء میں اسلام آباد نے اپنا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام عوامی کیا جس میں اپنے پہلا جوہری ہتھیار کا کولڈ ٹیسٹ کیا۔ اگلے سال تل ابیب نے پاکستان کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے نئی دہلی کے ساتھ شراکت کی۔

اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ

1979ء میں سی آئی اے کو معلوم ہوا کہ اسرائیل پاکستان کو بم بنانے سے روکنے کے لیے کہوٹہ پر فضائی حملہ کرنے پر غور کر رہا ہے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ تاہم اسرائیل نے 1981ء میں عراق کی جوہری تنصیب پر بمباری کی، اور بھارت کی مدد سے پاکستان پر پیشگی حملے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

فیروز حسن خان: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل ہمیشہ سے اس بارے میں فکرمند رہتا چلا آ رہا ہے کہ کون جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے۔ اس کا تعلق 1974ء میں (لاہور میں) ہونے والے اسلامی سربراہی اجلاس سے تھا جس میں اسرائیلیوں کو معلوم ہوا کہ اس وقت تمام مسلم ممالک پاکستان کے جوہری پروگرام کی خفیہ طور پر حمایت کر رہے تھے۔ اور اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اگر کوئی ملک کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ بم بن جائے گا جو بالآخر اسرائیل کے لیے خطرہ ہوگا۔ امریکہ نے ایک طرح سے بھارت کو یہ سمجھایا کہ یہ ایک خطرناک کام ہو سکتا ہے۔ 1981ء میں جب اسرائیلیوں نے عراق میں اوسیراک ری ایکٹر پر حملہ کیا تو حالات بدلنے لگے۔ اور یہ ایک بڑا خطرہ بن گیا کیونکہ اس کے بعد بھارت نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی، 'اوہ، تم یہ کر سکتے ہو، میں بھی یہ کر سکتا ہوں‘۔ بھارت آج بھی یہی کرتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل جو کچھ کر کے بچا رہ سکتا ہے، وہ بھی اپنے پڑوس میں وہ کچھ کر کے بچے رہ سکتے ہیں۔ یہ واضح نہیں کہ اسرائیلی نے وہ حملہ کرنے میں براہ راست شرکت کرنی تھی یا نہیں، ہمارے پاس اس بارے میں کوئی یقینی معلومات نہیں ہے، لیکن یقینی طور پر اسرائیلی بھارتیوں کو تربیت دینے میں مدد کر رہے تھے۔

اس مشترکہ مشن کو آپریشن کہوٹہ (Operation Chakhuda) کا نام دیا گیا اور اس میں اسرائیلی جیٹ طیاروں نے بھارتی فضائی اڈوں کا استعمال کرتے ہوئے کشمیر کی فضائی حدود میں ریڈار سے بچ کر اڑنا تھا۔ بھارت کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس منصوبے پر دستخط کیے لیکن بعد میں اسے منسوخ کر دیا۔ ان کے بیٹے راجیو، جو ان کے بعد آئے، انہوں نے شروع میں ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہ کیا۔

ضیاء الحق (بھارت کے دورہ کے موقع پر): اس وقت فضا اتنی سازگار نظر آ رہی ہے کہ جناب وزیر اعظم (راجیو گاندھی) مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ان (صحافیوں) کے سوالات ختم ہو گئے ہیں۔

پھر 1986ء آیا، بھارت نے آپریشن براس سٹیکس (Operation Brasstacks) نامی بڑی فوجی مشقوں کا آغاز کیا۔ ان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ 800,000 سے زیادہ فوجی اور بھاری جنگی ساز و سامان کا استعمال ہوا۔ اسلام آباد کا خیال تھا کہ یہ جنگ کا ایک منصوبہ ہے۔ 1987ء میں دونوں ممالک اپنی سرحدوں پر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔

فیروز حسن خان: ایک جنگ چھڑ جائے گی، ایک بحران پیدا ہو جائے گا، جو کہ پھر ایک طرح کی مخصوص کارروائی والی جنگ میں بدل جائے گا۔ وہی جیگوارز وغیرہ (طیاروں) کا منصوبہ، آپ جانتے ہیں، زمین کے قریب رہ کر، ریڈار سے بچنے کے لیے نچلی پرواز، اور پھر تقریباً‌ 3 سے 5 منٹ کے وقفوں سے کہوٹہ پر حملہ۔

بھارت اور پاکستان کے ایٹمی دھماکے

1998ء میں بھارت نے پانچ مزید جوہری تجربات کیے۔ پاکستان کی جوہری تنصیبات پر بھارتی فضائی اڈوں سے اسرائیلی فضائی حملے کی خبروں کے درمیان، اسلام آباد نے اپنے تجربات کی ایک سیریز کے ساتھ جواب دیا، جس سے قابل اعتماد جوہری حفاظت (ڈیٹرنس) قائم ہوئی۔

ڈیوڈ بار ایلان (اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مشیر): یہ طاقت کے توازن کو بدل دے گا اور یہ عالمی امن کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ پیدا کرے گا۔

پاکستان کا بم کچھ پابندیوں اور تنازعات لے کر آیا۔ 2000ء کی دہائی کے اوائل میں ڈاکٹر عبد القدیر خان پر ایران، شمالی کوریا، اور لیبیا کو جوہری راز فروخت کرنے کا الزام لگایا گیا۔ امریکی دباؤ پر پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے سائنسدان کو گھر میں نظر بند کر دیا۔ اے کیو خان کو قومی ٹیلی ویژن پر اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔

عبد القدیر خان: ’’تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ بہت سی رپورٹ شدہ سرگرمیاں واقعتاً ہوئیں اور یہ لامحالہ میری ایما پر شروع کی گئیں۔‘‘

2007ء میں مشرف کو معزول کیے جانے کے بعد اے کیو خان کے خلاف تمام الزامات خارج کر دیے گئے اور سائنسدان 2021ء میں انتقال کر گئے۔

فیروز حسن خان: اگر (جواباً‌) جوہری روک تھام نہ ہوتی تو جنوبی ایشیا میں اب تک بہت سی تباہ کن جنگیں ہو چکی ہوتیں۔ اس نے واضح طور پر جنگ کے (امکانات کو) بڑھنے کو روکا ہے۔ کیونکہ یہی سب سے بنیادی بات ہے، اس سے قطع نظر کہ یہ کیسے ہوا، ہم نے دیکھا ہے کہ آپ پاکستان کو کتنا ہی مجبور کرنے کی کوشش کریں، یہ مجبور نہیں ہوگا۔ یہ اپنی خودمختاری بنیادی طور پر اس لیے برقرار رکھے ہوئے ہے کیونکہ اس کے پیچھے حتمی طاقت ہے۔ اور یہ پاکستانی فوج کو ایک بھرپور جواب دینے کے قابل بناتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس اپنا حتمی ہتھیار ہے، اس لیے وہ جواب دے سکتے ہیں۔ بھارت پاکستان کے ساتھ لبنان جیسا برتاؤ نہیں کر سکتا، جیسے اسرائیل اپنے پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے۔

https://youtu.be/342U08wHaDU


(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter