(یہ تحریر "نیوکلیئر ویپن آرکائیو" ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کا اردو ترجمہ ہے، جس میں 1998ء میں بھارت کے ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کی طرف سے کیے گئے ایٹمی دھماکوں کے فیصلے، تیاریوں اور عملی اقدامات کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ترجمہ کرتے وقت حوالہ جات کو الگ ذکر کرنے کے بجائے ان کا مواد براہِ راست متن میں شامل کر دیا گیا ہے تاکہ مطالعہ میں روانی برقرار رہے، بعض مقامات پر اختصار سے کام لیا گیا ہے، نیز مواد کی درجہ بندی کی غرض سے ذیلی سرخیاں شامل کی گئی ہیں، البتہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے متعلق آخر میں دی گئی تکنیکی معلومات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ادارہ)
پس منظر
1998ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی دوبارہ حکومت میں آمد دنیا کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی کیونکہ اس نے 24 سال بعد بھارت کے نئے جوہری تجربات کا فیصلہ کیا۔ بھارت کئی برسوں سے اس کوشش میں تھا کہ وہ جوہری تجربات کرے، اور متعدد حکومتیں اس کی باقاعدہ تیاریوں میں مصروف رہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات تجرباتی شافٹوں میں آلات نصب بھی کیے گئے۔ بی جے پی کی پہلی مختصر حکومت نے تجربات کے احکامات بھی جاری کیے۔ 1995ء تک بھارتی عوام میں جوہری حیثیت کے اعلان کی حمایت بڑھ چکی تھی، اور یہ بی جے پی کے منشور کا باقاعدہ حصہ بن چکی تھی۔ چنانچہ بی جے پی کی دوسری حکومت کے تحت تجربات کا کامیاب انعقاد ایک طے شدہ امر بن گیا۔
بھارت کی طرح پاکستان نے بھی برسوں تک جوہری تجربات کی تیاری کی تھی، اور اس لیے فوری طور پر اس پر عمل درآمد ممکن تھا۔
6 اپریل 1998ء کو پاکستان نے غوری میزائل کا پہلا تجربہ کیا۔ پاکستانی میڈیا نے 1100 کلومیٹر فاصلے اور 350 کلومیٹر بلندی کی خبر دی، مگر دیگر ذرائع کے مطابق میزائل صرف 800 کلومیٹر تک گیا۔ اس نظام کی دعویٰ کردہ حد 1500 کلومیٹر تھی۔ پاکستان نے میزائل کی مکمل مقامی تیاری کا دعویٰ کیا، مگر درحقیقت یہ شمالی کوریا کا تیار کردہ نو-ڈونگ میزائل تھا۔ یہ نو-ڈونگ کا دوسرا تجربہ تھا، اور کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے مبصرین موجود تھے۔ اگرچہ یہ تجربہ بھارت کی جانب سے پانچ ہفتوں کے بعد ہونے والے تجربوں کی تیاری پر اثر انداز نہیں ہوا، مگر اس نے خطے میں تناؤ کی وہ فضا پیدا کر دی تھی جس میں (ایٹمی دھماکے) کیے گئے۔
11 مئی 1998ء بروز پیر کو بعد دوپہر، بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایک فوری نوعیت کی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اسی روز بھارت نے تین جوہری تجربات کیے ہیں۔ دو دن بعد مزید دو تجربات کی خبر نے دنیا کو مزید حیرت میں ڈال دیا۔
تجربے کا فیصلہ
بھارت کے تجربات کے بعد وزیر اعظم محمد نواز شریف کے لیے صورتِ حال ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ پاکستان نے فوری طور پر جوابی اقدام کی ضرورت محسوس کی تاکہ بھارت کو ممکنہ تکنیکی برتری کو زائل کیا جا سکے اور طاقت کا توازن بحال کیا جا سکے، نہ صرف خود پاکستان کی اپنی نظر میں بلکہ بھارت اور عالمی برادری کی نظر میں بھی۔
- تجربات کی حمایت سیاسی جماعتوں کے مختلف دھڑوں سے آئی،
- حتیٰ کہ حزب اختلاف کی رہنما بینظیر بھٹو نے مبینہ طور پر کہا کہ ’’اگر بھارت کی جوہری صلاحیت ختم کرنے کی فوجی طاقت (پاکستان کے پاس) موجود ہے، تو اسے استعمال کیا جانا چاہیے۔‘‘
- وزیر خارجہ گوہر ایوب خان سمیت شریف حکومت کے قدامت پسند عناصر نے شدید دباؤ ڈالا- بھارت کے پہلے تجربات کے اگلے دن (وزیر خارجہ) گوہر ایوب خان نے کہا کہ ایشیا کو جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں دھکیل دیا گیا ہے، اور پاکستان بھی تجربات کے لیے تیار ہے: ’’ہم بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمارے پاس صلاحیت موجود ہے … ہم پاکستان میں ہر میدان میں بھارت کے ساتھ توازن قائم رکھیں گے۔‘‘
- اور پاکستانی فوج، جو اصل اختیار کی حامل تھی، برسوں سے تجربات کی خواہش مند تھی۔
چنانچہ نواز شریف کو شدید دباؤ کا سامنا تھا کہ وہ جوہری تجربات کی اجازت دیں، اور غالب امکان یہ ہے کہ اگر وہ مزاحمت کرتے، تو ان کی حکومت فوری طور پر فوجی بغاوت کا شکار ہو جاتی (جو 17 ماہ بعد ویسے ہی ہو گئی)۔ وزیر اعظم نواز شریف نے محتاط لب و لہجے میں بیان دیا: ’’ہم صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور اپنی سلامتی کے حوالے سے مناسب اقدام کریں گے۔‘‘
اگرچہ پاکستان کا جوابی اقدام متوقع تھا، مگر یہ حکمتِ عملی کے لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہوا۔ برسوں سے پاکستان پریسلر ترمیم کے تحت پابندیوں کا سامنا کر رہا تھا۔ اگر اس موقع پر پاکستان تجربات سے اجتناب کرتا، تو دنیا میں اس کا مقام بلند ہو جاتا، بطور اس ’’ذمہ دار فریق‘‘ کے جو اشتعال انگیزی کے باوجود صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس اقدام سے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والے ممالک میں پاکستان کا امیج بہتر ہوتا، اور ممکن ہے کہ پریسلر ترمیم کا خاتمہ بھی ہو جاتا۔ لیکن جوابی تجربات کر کے پاکستان نے نہ صرف یہ مواقع کھو دیے بلکہ مزید پابندیوں کا سامنا بھی کیا۔
فیصلہ سازی کے مراحل اور جوہری تجربات پر مشاورت
13 مئی کو وسطی ایشیا کے دورے سے وطن واپس آنے کے بعد وزیرِاعظم نواز شریف نے سینئر عسکری افسران اور کابینہ کے ارکان کے ساتھ کئی گھنٹے ملاقاتیں کیں تاکہ بھارت کے جوہری تجربات پر غور کیا جا سکے۔
ایسا لگتا تھا کہ پاکستان کی دفاعی قیادت ان تجربات سے حیرت زدہ ہو گئی تھی۔ شریف کابینہ کے ایک رکن نے کہا: ’’ہمیں ان دھماکوں کے بارے میں پیشگی کوئی اطلاع نہیں تھی‘‘۔
کابینہ کے ایک اور رکن نے کہا: ’’جیسا کہ توقع تھی، کئی وزراء کا خیال تھا کہ یہ پاکستان کے جوہری آلات کے تجربے کے لیے مثالی موقع ہے‘‘۔
پاکستانی فوج نے وزیرِ اعظم کو اطلاع دی کہ وہ 24 گھنٹے کے نوٹس پر زیرِ زمین تجربہ کرنے کے لیے ’’ایک ہفتے‘‘ میں تیار ہو جائے گی۔ مگر اس وقت کے فیصلوں سے واقف حکام نے بتایا کہ کابینہ میں اس بات پر اختلاف تھا کہ پاکستان کو کس نوعیت کا جواب دینا چاہیے۔
وزیرِ اعظم کے ایک معاون کے مطابق نواز شریف ’’متوازن اور معتدل ردِعمل‘‘ کے حامی نظر آتے تھے، اور انہوں نے اس ممکنہ معاشی قیمت پر رپورٹ طلب کی جو پاکستان کو عالمی پابندیوں کی صورت میں ادا کرنا پڑ سکتی تھی۔
اسی روز صدر کلنٹن نے وزیرِ اعظم شریف سے فون پر رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ جوہری تجربہ نہ کریں: ’’غیر ذمہ دارانہ اقدام کا اسی طرح جواب نہ دیں‘‘۔
15 مئی کو ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس
15 مئی 1998ء کو وزیرِ اعظم سیکریٹریٹ اسلام آباد میں ڈیفنس کمیٹی آف کیبنٹ (DCC) کا اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت خود وزیرِ اعظم نے کی۔ اس اجلاس میں وزیرِ دفاع، وزیرِ خارجہ گوہر ایوب خان، وزیرِ خزانہ سرتاج عزیز، خارجہ سیکریٹری شمشاد احمد خان، اور بری، فضائی و بحری افواج کے سربراہان: جنرل جہانگیر کرامت، پرویز مہدی قریشی اور ایڈمرل فصیح بخاری شریک ہوئے۔
چونکہ چیئرمین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) ڈاکٹر اشفاق احمد اس وقت امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر تھے، اس لیے بھارتی تجربات کا تکنیکی تجزیہ اور پاکستان کی جوابی صلاحیت کا جائزہ پیش کرنے کی ذمہ داری ڈاکٹر ثمر مبارک مند پر تھی۔ وہ اٹامک کمیشن کے ٹیکنیکل ڈیولپمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ (DTD) تھے، جوہری پروگرام کا سب سے خفیہ ادارہ، جس کا محلِ وقوع دنیا بھر کے لیے ایک راز ہے۔ ثمر مبارک مند نے 1983ء سے کئی کولڈ ٹیسٹ کی نگرانی کی تھی اور خفیہ منصوبوں کے نگران تھے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈائریکٹر خان ریسرچ لیبارٹری (کہوٹہ) بھی شریک تھے۔
اجلاس کا ایجنڈا
اجلاس کا ایجنڈا دو نکات پر مشتمل تھا:
- کیا پاکستان کو بھارتی تجربات کے جواب میں اپنے جوہری تجربات کرنے چاہئیں؟
- اگر تجربات کیے جائیں تو اٹامک کمیشن یا خان لیبارٹری میں سے کون سا ادارہ یہ انجام دے؟
تبادلۂ خیال کئی گھنٹوں تک جاری رہا، جس میں معاشی، سفارتی، عسکری، تزویراتی اور قومی سلامتی کے پہلو زیرِ بحث آئے۔ وزیرِ خزانہ سرتاج عزیز واحد رکن تھے جنہوں نے معاشی بحران، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور ممکنہ پابندیوں کے خدشات کی بنیاد پر تجربات کی مخالفت کی۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے نہ حمایت کی نہ مخالفت؛ دیگر شرکاء نے تجربات کی حمایت کی۔
تکنیکی جائزہ اور اداروں کی مسابقت
ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے اٹامک کمیشن کی طرف سے بھارتی تجربات کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 11 مئی کو صرف ایک تجربہ کامیاب ہوا تھا، اور اگر تھرمونیوکلئر ڈیوائس استعمال ہوئی تھی تو وہ ناکام ثابت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو تجربات کرنے کا فیصلہ ہو جائے تو اٹامک کمیشن 10 دن میں مکمل تیاری کے ساتھ تجربات کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خان لیبارٹری کی جانب سے کہا کہ وہ بھی 10 دن کے اندر مکمل تیاری کے ساتھ جوہری تجربہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بشرطیکہ ڈیفنس کمیٹی اجازت دے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یورینیم کی افزودگی، دھات میں تبدیلی، نیم کروی شکل میں دھات کی مشیننگ، بم کی ڈیزائننگ اور کولڈ ٹیسٹ، یہ سب کام خان لیبارٹری نے اٹامک کمیشن کی مدد کے بغیر خود انجام دیے۔ انہوں نے کہا کہ خان لیبارٹری جوہری میدان میں مکمل خود مختار ہے، اور چونکہ اسی ادارے نے پاکستان کے جوہری سفر کی بنیاد رکھی تھی، اس لیے تجربات کرنے کا اعزاز اسی کو دیا جانا چاہیے؛ اگر ایسا نہ ہوا تو ادارہ مایوسی کا شکار ہوگا۔
اٹامک انرجی کمیشن کی اضافی برتری
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) اور خان ریسرچ لیبارٹریز کہوٹہ (KRL) دونوں جوہری تجربات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، تاہم اٹامک کمیشن کو دو اضافی برتری حاصل تھیں:
- اس ادارے نے چاغی (بلوچستان) میں پاکستان کے جوہری تجربے کے لیے سائیٹ تیار کی تھی۔
- کولڈ ٹیسٹ کی انجام دہی میں اٹامک کمیشن کو خان لیبارٹریز کی نسبت زیادہ تجربہ حاصل تھا۔
15 مئی کو ہونے والے دفاعی کمیٹی اجلاس میں ان دو نکات پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
امریکی جاسوسی اور عوامی دباؤ
اسی ہفتے کے اختتام پر امریکی جاسوس سیٹلائٹس نے چاغی کی پہلے سے تیار کردہ سائیٹ پر آلات کی آمدورفت نوٹ کی، جو ایران کی سرحد سے صرف 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ CIA نے اندازہ لگایا کہ تجربہ جلد سے جلد 17 مئی اتوار کے روز ہو سکتا ہے۔
ہفتے کے دوران وزیرِاعظم نواز شریف نے مختلف حلقوں سے مشاورت کی، اور انہیں تجربات کے لیے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ عوامی جذبات بھی فوری جواب کی حمایت میں تھے۔ سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو نے نہ صرف فوری تجربات بلکہ بھارت پر پیشگی حملے کر کے اس کی جوہری صلاحیت تباہ کرنے کا مطالبہ کیا اور نواز شریف کے استعفے کی اپیل بھی کی۔
گوہر ایوب خان، جو عسکری حلقوں سے قریب اور سخت گیر تصور کیے جاتے تھے، ہفتہ کے روز انہوں نے صحافیوں کو یہ بتا کر تناؤ کو مزید بڑھا دیا کہ ’’یہ صرف وقت کا معاملہ ہے، پاکستان کی حکومت خود فیصلہ کرے گی کہ کب تجربہ کرنا ہے، جوہری تجربہ تو یقینی ہے‘‘۔ اتوار کو بھی انہوں نے اسی موقف کو دہراتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’’پاکستان نے جوہری تجربہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، یہ بات طے ہو چکی ہے، صرف وقت کا تعین باقی ہے‘‘۔
اتوار 17 مئی کو قیاس آرائیاں انتہا کو پہنچ گئیں، جب یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ جوہری ڈیوائس نصب کی جا چکی ہے۔ اس روز جرمنی کے صدر ہیلمٹ کوہل کے ایک غلط بیان نے سنسنی پھیلا دی جب انہوں نے کہا کہ میرے پاس معتبر اطلاع ہے کہ پاکستان نے جوہری دھماکہ کر دیا ہے۔ یہ اطلاع فوری طور پر غلط قرار دے دی گئی۔
وزیرِاعظم کی اٹامک کمیشن سے ذاتی مشاورت
چیئرمین اٹامک کمیشن ڈاکٹر اشفاق احمد اپنا غیر ملکی دورہ مختصر کر کے 16 مئی 1998ء کو پاکستان واپس پہنچ گئے۔ 17 مئی کی صبح انہیں فوجی ہیڈکوارٹر راولپنڈی سے فون موصول ہوا کہ وہ وزیرِاعظم سے ملاقات کے لیے تیار رہیں۔ بعد ازاں انہوں نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے ہمراہ نوازشریف سے ملاقات کی۔ نوازشریف نے 15 مئی کو ہونے والے اجلاس کے نکات پر ان کی رائے طلب کی۔ ڈاکٹر اشفاق احمد نے کہا کہ اٹامک کمیشن مکمل طور پر تیار ہے لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ ان کا کام نہیں کہ تجربہ کیا جائے یا نہیں۔ انہیں کہا گیا کہ تیاری مکمل رکھیں لیکن حتمی فیصلے کے انتظار میں رہیں۔
17 مئی کا ’’غیر سرکاری‘‘ خصوصی اجلاس
چونکہ 15 مئی کا اجلاس نتیجہ خیز نہ رہا، اس لیے 16 یا 17 مئی کو ایک محدود نوعیت کا اجلاس منعقد ہوا جس میں صرف وزیرِاعظم، وزیرِ خارجہ، وزیرِ خزانہ اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے۔ یہ اجلاس سرکاری طور پر تسلیم شدہ نہیں ہے، لیکن اس کا انعقاد ناگزیر تھا کیونکہ صرف وزیرِاعظم یا آرمی چیف تنہا یہ فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس وقت چونکہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی (NCA) موجود نہیں تھی، اس لیے ڈیفنس کمیٹی (DCC) ہی واحد مجاز ادارہ تھا۔ اسی اجلاس میں دونوں اہم فیصلے ہوئے:
- بھارت کے تجربات کا مکمل اور مناسب جواب دیا جائے گا۔
- تجربات کی ذمہ داری اٹامک انرجی کمیشن کو سونپی جائے گی، جو اس کام کے لیے موزوں ترین ادارہ تھا۔
حکومتِ پاکستان کا فیصلہ اور معاونت
18 مئی 1998ء کو چیئرمین اٹامک کمیشن کو دوبارہ وزیرِ اعظم ہاؤس طلب کیا گیا، جہاں انہیں ڈیفنس کمیٹی کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔ وزیرِ اعظم کے الفاظ تھے: ’’دھماکہ کر دیں‘‘۔ یہی الفاظ حکومتِ پاکستان کی جانب سے جوہری تجربات کرنے کے فیصلے کی اطلاع رسانی کے لیے استعمال ہوئے۔ چیئرمین اٹامک کمیشن دفتر واپس گئے اور اپنے عملے کو فوری تیاریوں کا حکم دیا۔ ساتھ ہی GHQ اور ایئر ہیڈکوارٹرز نے بلوچستان میں تعینات 12 کور، نیشنل لاجسٹکس سیل (NLC)، آرمی ایوی ایشن کور اور نمبر 6 (ایئر ٹرانسپورٹ سپورٹ) اسکواڈرن کو متعلقہ تعاون فراہم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) نے قومی ایئرلائن PIA کو ہدایت کی کہ اٹامک کمیشن کے سائنسدانوں، انجینئرز اور تکنیکی عملے کو بلوچستان لے جانے کے لیے مختصر نوٹس پر Boeing 737 طیارہ فراہم کیا جائے۔
خان ریسرچ لیبارٹریز کی ناراضگی اور شمولیت
جیسے ہی یہ خبر ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک پہنچی کہ تجربات کی ذمہ داری اٹامک کمیشن کو سونپی گئی ہے، انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت سے شدید احتجاج کیا۔ آرمی چیف نے معاملہ وزیرِ اعظم تک پہنچایا۔ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فیصلہ ہوا کہ خان لیبارٹریز کے عملے کو اٹامک کمیشن کے ساتھ تجرباتی مقام کی حتمی تیاریوں میں شریک کیا جائے گا اور وہ تجربے کے وقت موجود ہوں گے۔
مراعات کی امریکی پیشکش اور مزید پابندیوں کی دھمکی
اسی دوران امریکہ نے پاکستان کو تجربہ کرنے سے روکنے کے لیے مراعاتی پیکج کی تیاری شروع کر دی تھی۔
- پریسلر ترمیم کی منسوخی کی پیشکش کی گئی،
- پاکستان کو F-16 لڑاکا طیارے فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی، جن کی پاکستان نے ادائیگی کی تھی لیکن اسے موصول نہیں ہوئے تھے۔
- اضافی امداد پر بھی غور شروع ہوا۔
- ساتھ ہی بھارت کی طرح سخت پابندیاں عائد کرنے کی وارننگ دی گئی۔
وزیرِاعظم شریف نے گوہر ایوب کے بیانات کی تصدیق نہیں کی، اور اگلے ہفتے کے آغاز میں پاکستان بظاہر فوری فیصلہ کرنے سے پیچھے ہٹتا دکھائی دیا تاکہ امریکہ کی پیشکش کا جائزہ لیا جا سکے۔ تاہم پسِ پردہ حالات تیزی سے پیش رفت کر رہے تھے۔
یہ امکان بڑھتا جا رہا تھا کہ امریکہ کی جانب سے دی جانے والی امداد کا پیکج پاکستانی توقعات پر پورا نہیں اُترے گا۔ اس وقت جو اہم پیشکشیں کی جا رہی تھیں وہ زیادہ پرکشش نہیں تھیں، جن میں وہ 28 ایف-16 طیارے شامل تھے جن کی قیمت پاکستان پہلے ہی ادا کر چکا تھا اور جن کا وعدہ صدر کلنٹن نے دو سال قبل کیا تھا، نیز قرضوں کی دوبارہ ادائیگی کی نئی ترتیب بھی زیر غور تھی۔ جبکہ پاکستان کی خواہش تھی کہ امریکہ واضح حفاظتی ضمانتیں دے، جو بظاہر دیے جانے کا امکان نہ تھا۔
تجربے کی عملی تیاری
ڈاکٹر اشفاق احمد نے اٹامک کمیشن کے سائنسدانوں اور انجینئرز بشمول ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے ساتھ منصوبہ بندی اجلاس منعقد کیا۔ مختلف ڈیوائسز کے انتخاب پر غور ہوا، اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ بھارت کے تجربات نے پاکستان کو 14 سال بعد کولڈ ٹیسٹ سے ہٹ کر تجربہ کرنے کا موقع دیا ہے، اس موقع سے مکمل فائدہ اٹھایا جائے گا۔ اس لیے مختلف طاقتوں اور ڈیزائنز کی چھ ایٹمی ڈیوائسز کا انتخاب کیا گیا، جنہیں پہلے کولڈ ٹیسٹ کیا جا چکا تھا۔ راس کوہ پہاڑوں کی سرنگ میں چھ تجربات کی گنجائش موجود تھی۔
بعد ازاں ان ڈیوائسز اور ٹیسٹنگ آلات کے اجزا کی کیفیت اور معیار کی جانچ شروع ہوئی۔ پاکستان آرمی اور ایئر فورس کے اشتراک سے ایک مؤثر لاجسٹکس آپریشن شروع ہوا، جس میں ملک کے مختلف حصوں سے افراد، آلات اور جوہری ڈیوائسز کو تجرباتی مقام تک منتقل کیا گیا۔
جوہری تجربات کی جانچ کے متعلق تکنیکی شکوک و شبہات
اس تفصیل میں چند تشویشناک نکات سامنے آتے ہیں:
- پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایک حقیقی جوہری تجربہ (جس میں پاکستان کو برسوں کے کولڈ ٹیسٹس کے باوجود کوئی تجربہ نہیں تھا) سے کامیابی کے ساتھ ڈیٹا اکٹھا کرنا اتنا سیدھا معاملہ نہیں تھا۔
- ایک ہی سرنگ میں کئی تجربے ہونے کی صورت میں غیر متوقع ردِعمل یا داخلی خرابی سے پورے ڈیٹا کے ضائع ہونے کا خدشہ تھا۔
- اگر اندرونی ٹیلی میٹری (جانچ/ریکارڈنگ) مکمل طور پر یا جزوی طور پر ناکام ہو جاتی ہے، تو بیک وقت قریب قریب کیے گئے کئی تجربوں کے نتیجے میں ہونے والے بیرونی زلزلہ کی پیمائش سے مفید نتائج حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔
- ان چھ تجرباتی ڈیوائسز میں اندازاً 90 کلوگرام اعلیٰ افزودہ یورینیم استعمال ہوا، جبکہ پاکستان کے پاس اس وقت صرف 210 کلوگرام دستیاب تھا۔ گویا پاکستان نے اپنے جوہری وسائل کا بڑا حصہ ایک بڑے مگر غیر یقینی تجربے پر لگا دیا۔ (اگرچہ پاکستان اپنے کم افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو پروسیس کر کے چند سالوں میں یہ مقدار 800 کلوگرام تک پہنچا سکتا تھا۔)
مزید یہ کہ:
- بعد از تجربات کے بیانات کے مطابق تمام ڈیوائسز ایک ہی قسم کی تھیں — فِیوژن بوسٹڈ فِشن بم۔
- چار ڈیوائسز انتہائی کم طاقت کی تھیں (ایک ہزار کلوٹن سے کم رینج سے لے کر چند ہزار کلو ٹن تک کی رینج کے ساتھ)، جبکہ بقیہ دو میں نسبتاً زیادہ طاقت ظاہر کی گئی۔
- یہ امر قابلِ غور ہے کہ اس نوعیت کے اتنے مختلف نظاموں کی جانچ سے حقیقتاً کیا نتائج حاصل کیے جا سکتے تھے؟ چونکہ ان کے غیر جوہری رویے پہلے ہی وسیع پیمانے پر جانچے جا چکے تھے، لہٰذا فقط ایمپلوژن اسمبلی میں تغیرات کے لیے جوہری تجربہ شاید ضروری نہ تھا۔
- ایک ہی بار چھ دھماکے کر کے نہ تو نتائج کا تجزیہ ممکن تھا، اور نہ دوبارہ تجربہ یا ڈیزائن میں بہتری کی گنجائش۔
یہ ماننا مشکل ہے کہ اتنے پیچیدہ اور حساس جوہری تجربات صرف 10 دن میں منصوبہ بند اور مکمل کیے جا سکتے تھے۔ اگرچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تیاریوں کی بنیاد کئی سال، بلکہ دہائیوں پہلے رکھی جا چکی تھی،آلات، طریقۂ کار اور انفرسٹرکچر پہلے سے موجود تھے، لیکن ایک بم کے مقابلے میں پانچ بموں کے تجربے کی پیچیدگی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ بغیر کسی پیشگی عملی تجربے کے اتنی جلدی کامیاب عملدرآمد کا ممکن ہونا مشکل ہے۔ تاہم ایک وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ سرنگوں میں (گزشتہ برسوں کے دوران) کیے جانے والے کولڈ ٹیسٹس حقیقی تجربات کی نقل کے طور پر کام آ سکتے تھے، کم از کم ڈیٹا اکٹھا کرنے کی حد تک، لیکن کولڈ ٹیسٹنگ ان آلات کے درست رویے کی تصدیق نہیں کر سکتی جس کا مقصد لاکھوں گنا زیادہ توانائی کی کثافت اور پیداوار سے ڈیٹا اکٹھا کرنا ہو۔
اسی طرح بھارتی تجربات کے فوراً بعد جو تیاری شروع ہوئی، وہ امریکی انٹیلی جنس کی نظروں سے بچ نہ سکی۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے اصل منصوبہ بندی بھارتی تجربات سے پہلے ہی مکمل کی جا چکی تھی، جو کچھ انٹیلی جنس سے پتہ چلا وہ محض ان منصوبوں کا عملی آغاز تھا۔
یہ بھی اہم بات ہے کہ وزیراعظم شریف کی منظوری سے ایک ہفتہ قبل ہی تیاری کا عمل شروع ہو چکا تھا، جو اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ تجربات کی سرگرمیاں شاید مکمل طور پر ان کے اختیار میں نہیں تھیں۔
تجرباتی سرنگ کی ساخت اور منصوبہ بندی
کوہ کمبران کے نیچے جو سرنگ تعمیر کی گئی تھی، وہ ایک کلومیٹر طویل تھی اور اسے L کی شکل میں بنایا گیا تھا (بالکل جیسے بھارتی عمودی سرنگیں L کی شکل کی تھیں)۔ اس طرزِ تعمیر کا مقصد یہ تھا کہ داخلی حصے کی جانب جانے والی شافٹ (سرنگ طرز کا راستہ) کو دھماکہ خیز آلے کی زد سے محفوظ رکھا جا سکے، تاکہ توانائی سیدھے اس شافٹ سے داخلی مقام تک منتقل نہ ہو سکے۔ سرنگ کی تفصیل میں الگ الگ اسمبلنگ رومز کا ذکر یہ بتاتا ہے کہ آخری حصے میں L شکل کی سرنگ کے علاوہ مرکزی سرنگ میں ہر چند سو میٹر کے فاصلے پر متعدد چھوٹی شاخیں (side tunnels) بھی نکلتی تھیں۔
19 مئی 1998Tء کو اٹامک کمیشن کے 140 سائنسدانوں، انجینیئروں اور تکنیکی ماہرین کے دو الگ الگ گروہ دو پی آئی اے بوئنگ 737 طیاروں پر چاغی، بلوچستان روانہ ہوئے۔ ان پروازوں میں واہ گروپ، تھیوریٹیکل گروپ، ڈائریکٹوریٹ آف ٹیکنیکل ڈیولپمنٹ (DTD)، اور ڈائیگنوسٹک گروپ کے ارکان بھی شامل تھے۔ چند افراد اور آلات بذریعہ سڑک NLC کے ٹرکوں کے ذریعے منتقل کیے گئے، جن کی حفاظت پاکستان آرمی کے خصوصی کمانڈو دستے SSG کے ارکان کر رہے تھے۔
جوہری ہتھیاروں کی باحفاظت خفیہ ترسیل
جوہری ہتھیاروں کو جزوی حصوں کی حالت میں راولپنڈی سے بلوچستان (ممکنہ طور پر کوئٹہ) تک ایک C-130 ہرکولیس طیارے پر منتقل کیا گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تمام حساس ڈیوائسز کو ایک ہی طیارے پر منتقل کرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ چار F-16 طیارے اس C-130 کے ہمراہ تھے جنہیں خاص ہدایت دی گئی تھی:
- اگر C-130 پاکستانی فضائی حدود سے باہر جانے کی کوشش کرے تو اسے مار گرایا جائے۔
- F-16 کی ریڈیو کمیونیکیشن بند رکھی گئی تاکہ انہیں متضاد احکامات نہ دیے جا سکیں۔
- اگر کوئی پیغام پہنچ بھی جائے تو اس پر عمل نہ کیا جائے، چاہے وہ فضائی ہیڈکوارٹر سے ہی کیوں نہ ہو۔
جوہری ہتھیاروں اور جانچ کے آلات کی تنصیب
ہر جوہری ہتھیار الگ کمرے (اسمبلی روم / زیرو روم) میں جوڑا گیا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ان تمام پانچ ڈیوائسز کی تیاری کی ذاتی نگرانی کی، اس عمل میں غالباً ایک دن سے زائد لگا۔ سرنگ کے اندر جانچ کی تاریں (ڈائیگناسٹک کیبلز) بچھائی گئیں جو جانچ کے مرکز (ٹیلیمیٹری اسٹیشن) سے 10 کلومیٹر دور مشاہداتی چوکی (کمانڈ/آبزرویشن پوسٹ) تک رابطہ فراہم کرتی تھیں۔ اس کے بعد ٹیلی کمانڈ کے ذریعے ایک مکمل مصنوعی تجربہ (سیمولیٹڈ ٹیسٹ) کیا گیا۔
یہ تمام تیاری بشمول ہتھیاروں کی تنصیب، تاروں کا بچھانا، اور مشاہداتی چوکی کا قیام وغیرہ تقریباً 5 دن میں مکمل ہوئی، یعنی 24 مئی تک۔
بین الاقوامی انٹیلیجنس کی سرگرمیاں
25 مئی کو ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز کی جانب سے یہ خبر دی گئی کہ امریکی انٹیلیجنس حکام نے بتایا ہے کہ پاکستان کی جوہری تیاریوں میں حالیہ دنوں میں تیزی آئی ہے، اور یہ سرگرمیاں اس مقام پر ہو رہی ہیں جسے راسکوہ کہا جاتا ہے، جو چاغی کی پہاڑیوں میں واقع بتایا گیا۔ (بعد میں یہ واضح ہوا کہ جوہری تجربہ دراصل راس کوہ ہی کے علاقے میں کیا گیا، تاہم راس کوہ دراصل چاغی ہلز سے تقریباً 40 کلومیٹر دور ایک الگ پہاڑی علاقہ ہے)۔ سرنگوں کی کھدائی اور دھماکہ خیز مواد کی نگرانی کے آلات کی تنصیب دیکھی گئی۔ ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ اب وہ کسی بھی وقت جوہری تجربہ کر سکتے ہیں۔
28 مئی 1998: پاکستان کا جوہری تجربہ
سرنگ کی بندش اور فنی تیاری
تجرباتی سرنگ کو 25 مئی کو پاکستان آرمی کی 5 کور نے پاکستان آرمی انجینئرنگ کور، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (FWO)، اور اسپیشل ڈیولپمنٹ ورکس (SDW) کی نگرانی اور مدد سے بند کیا۔ SDW ایک فوجی یونٹ تھا جو اس سے 20 سال قبل خاص طور پر جوہری تجربات کے لیے مقام کی تیاری کی غرض سے تشکیل دیا گیا تھا۔
یہ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے گھٹن زدہ سرنگوں میں 5 کلومیٹر پیدل چل کر آلات اور تاروں کی بار بار جانچ پڑتال کی، یہاں تک کہ کیبلز کو حتمی طور پر جوہری آلات سے جوڑ دیا گیا۔ سرنگ کو سیل کرنے کے لیے 6000 سیمنٹ کی بوریاں استعمال کی گئیں، اور یہ کام 26 مئی 1998ء کی دوپہر تک مکمل ہو گیا۔ 24 گھنٹے بعد ریگستانی گرمی میں سیمنٹ مکمل طور پر جم گیا اور انجینئرز نے سائٹ کو مکمل طور پر تیار قرار دے دیا۔ یہ خبر کہ تجربات کے لیے سب کچھ تیار ہے، جنرل ہیڈکوارٹرز کے ذریعے وزیرِ اعظم تک پہنچائی گئی۔
امریکی انٹیلیجنس اور صدر کلنٹن کی کال
27 مئی کو امریکی حکومت نے اطلاع دی کہ پاکستان چاغی پہاڑیوں میں تجرباتی سرنگ کو سیمنٹ سے بند کر رہا ہے، جو تجربے سے فوراً پہلے کا آخری قدم ہوتا ہے۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے اس رات وزیراعظم نواز شریف سے 25 منٹ طویل اور جذباتی فون کال کی۔ 11 مئی کے بھارتی تجربے کے بعد یہ چوتھی کال تھی۔ مگر فیصلہ ہو چکا تھا: 28 مئی 3:00 بجے دوپہر۔
ظہر کی نماز
اُس تاریخی صبح کو جب پاکستان نے جوہری طاقت کے اظہار کی تیاری مکمل کر لی تھی، حفاظت اور رازداری کے تمام اقدامات اختیار کیے گئے۔ پاکستانی سیسمک اسٹیشنز (ارتعاشی اطلاعات کے مراکز) کے بیرونی دنیا سے مواصلاتی روابط کاٹ دیے گئے۔ ملک بھر کے فوجی اور اسٹریٹیجک تنصیبات کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا، اور پاک فضائیہ کے F-16A اور F-7MP طیارے کسی بھی لمحے اُڑان بھرنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔
روشن، صاف دن تھا۔ دھماکہ اور جانچ کرنے والے گروپ کے کے علاوہ تمام افراد کو گراؤنڈ زیرو سے ہٹا دیا گیا۔ 10 افراد آبزرویشن پوسٹ پر پہنچے جو گراؤنڈ زیرو سے 10 کلومیٹر دور تھی۔ 1:30 بجے فائرنگ آلات کی جانچ کی گئی، اور نماز ادا کی گئی۔
قومی قیادت کی آمد
2:30 بجے پاکستان آرمی کے فوجی ہیلی کاپٹر نے سینئر سائنسدانوں اور عسکری افسران کو اس مقام پر پہنچایا۔ ڈاکٹر اشفاق احمد (اٹامک کمیشن)، ڈاکٹر عبدالقدیر خان (خان لیبارٹریز)، چار دیگر سائنسدان بشمول ڈاکٹر فخر ہاشمی (خان لیبارٹریز)، ڈاکٹر جاوید اشرف مرزا، ڈاکٹر نسیم خان، اور ایس منصور احمد سائیٹ پر پہنچے۔ نیز ان کے ساتھ پاکستان آرمی کی ایک ٹیم تھی جن کی سربراہی چیف کامبیٹ ڈویژن جنرل ذوالفقار علی کر رہے تھے۔
یومِ تکبیر — اللہ اکبر
دوپہر 3 بجے، ایک ٹرک جس میں سائٹ کی تیاری میں شامل آخری اہلکار اور فوجی سوار تھے، آبزرویشن پوست کے سامنے سے گزرا۔ جلد ہی یہ اطلاع دی گئی کہ سائٹ مکمل طور پر خالی کر دی گئی ہے تو تجربے کے لیے اجازت دے دی گئی۔
موقع پر موجود 20 افراد میں سے ایک نوجوان چیف سائنٹیفک آفیسر محمد ارشد کو بٹن دبانے کے لیے منتخب کیا گیا، جنہوں نے ٹریگرنگ میکنزم تیار کیا تھا۔ ان سے کہا گیا کہ اللہ اکبر کہیں اور بٹن دبائیں۔ ٹھیک 3:16 بجے بٹن دبایا گیا اور محمد ارشد گمنامی سے تاریخی ہو گئے۔
جیسے ہی بٹن دبایا گیا، کنٹرول سسٹم کمپیوٹر کے ذریعے سنبھال لیا گیا، سگنل ایئر لنک کے ذریعے منتقل ہوا جس نے فائرنگ کے چھ مراحل کا آغاز کیا، اور ساتھ ہی ساتھ حادثاتی دھماکے کو روکنے کے لیے لگائے گئے تمام سیکیورٹی سسٹم کو یکے بعد دیگرے بائی پاس کیا۔ ہر مرحلے کی کمپیوٹر نے تصدیق کی اور ہر اسٹیج کے لیے پاور سپلائی آن کر دی۔ آخری مرحلے میں نیوکلیئر ڈیوائسز کو دھماکے سے اڑانے والی ہائی وولٹیج پاور سپلائی کو فعال کر دیا گیا۔ ہر سطح سے گزرنے کے ساتھ ساتھ فائرنگ کے مراحل میں حفاظتی سوئچز کو بند کیا گیا اور پاور سپلائی کو آن کیا گیا۔ کمپیوٹر نے ہر قدم کو ٹیلی میٹری کے ذریعے ریکارڈ کیا، ایک ایسا نظام جو آلات کی سرگرمیوں کو ریڈیو کے ذریعے منتقل کرتا ہے۔ ایک تابکاری سے محفوظ ٹی وی کیمرہ خاص لینز کے ساتھ پہاڑ کی بیرونی سطح کو ریکارڈ کر رہا تھا۔ وولٹیج پانچوں جوہری آلات تک بیک وقت پہنچا، تمام ایکسپلوسیو لینزز میں مائیکرو سیکنڈ کی ہم آہنگی کے ساتھ۔ فائرنگ کے مراحل آگے بڑھتے رہے، اور آبزرویشن پوسٹ میں موجود 20 افراد کی آنکھیں 10 کلومیٹر دور پہاڑ پر مرکوز تھیں۔ اندر اور باہر مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔
بٹن دبانے کے تھوڑی دیر بعد راس کوہ کی پہاڑیوں میں اور اس کے گرد زمین لرز اٹھی۔ آبزرویشن پوسٹ ہلنے لگی کیونکہ دھواں اور گرد و غبار ان پانچ مقامات سے پھٹ پڑا جہاں جوہری آلات نصب تھے۔ پہاڑ لرز اٹھا اور اس کا رنگ تبدیل ہونے لگا، ہزاروں سال کی گرد سطح سے ہٹ گئی، اور اس کا سیاہ پتھر سفید ہو گیا کیونکہ اندر موجود تابکار قوتوں نے ڈی آکسیڈائزیشن کا عمل شروع کیا، پھر ایک بڑا خاکی گرد کا بادل پہاڑ پر چھا گیا۔
یہ تمام عمل، بٹن دبانے سے لے کر پہاڑ میں دھماکے ہونے تک، صرف 30 سیکنڈ پر محیط تھا۔ آبزرویشن پوسٹ میں موجود افراد کے لیے، جو مکمل خاموشی میں پہاڑ پر نظریں جمائے تھے، وہ 30 سیکنڈ زندگی کے سب سے طویل لمحے تھے۔ یہ ایک ایسے سفر کی انتہا تھی جو دو دہائی قبل شروع ہوا تھا: آزمائشوں، مشکلات اور ناامیدیوں کے باوجود حقیقت اور فتح کا لمحہ۔ ان 30 سیکنڈز کا اختتام، یہ پاکستان کی تقدیر کا لمحہ تھا۔
سیسمک ریڈنگز کے مطابق دھماکے کا وقت 10:16:17.6 UCT تھا (±0.31 سیکنڈ)۔ اس کی ابتدائی زلزلاتی معلومات اور سرکاری اعلان پاکستان حکومت کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
بعد ازاں وزارت خارجہ نے اس لمحے کو ’’پاکستان کی شاندار ترین گھڑی‘‘ قرار دیا۔ پاکستان دنیا کی ساتویں جوہری طاقت اور اسلامی دنیا کی پہلی جوہری ریاست بن گیا۔
وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کا اعلان
28 مئی کو شام 8 بجے وزیراعظم نواز شریف نے اپنی ٹیلی ویژن تقریر کا آغاز کیا (جو چار گھنٹے قبل پیشگی طور پر اعلان کی گئی تھی) اور کہا: ’’آج ہم نے حساب چکایا ہے اور پانچ کامیاب جوہری تجربات کیے ہیں‘‘۔
بعد میں پاکستانی و غیر ملکی صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا: ’’پاکستان نے آج کامیابی سے پانچ جوہری تجربات انجام دیے، نتائج توقع کے مطابق تھے، کسی قسم کی تابکاری خارج نہیں ہوئی۔ میں تمام پاکستانی سائنسدانوں، انجینیئروں اور تکنیکی ماہرین کو ان کی محنت، ٹیم ورک اور جدید و پیچیدہ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پوری قوم پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز اور متعلقہ اداروں کی کامیابیوں پر بجا طور پر فخر کرتی ہے… ہماری سلامتی، اور پورے خطے کا امن و استحکام سنگین خطرے میں تھا۔ ایک خوددار قوم کی حیثیت سے ہمارے پاس کوئی اور راستہ باقی نہ تھا۔ موجودہ بھارتی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات نے ہمیں مجبور کر دیا۔ ہم خطرے کی شدت کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے… پاکستانی قوم اپنی بقا اور زندگی سے متعلق امور پر کسی بھی صورت میں سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ جوہری آپشن استعمال کرنے کا فیصلہ قومی خود دفاع کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ یہ ہتھیار جارحیت کو روکنے کے لیے ہیں، خواہ وہ جوہری ہو یا روایتی۔‘‘
ایک دلچسپ اور اہم پہلو اس تقریر میں یہ تھا کہ وزیراعظم شریف نے اداروں کو مبارکباد دینے میں جس ترتیب کو اختیار کیا، اس میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) کو اولین حیثیت دی گئی، حالانکہ عام طور پر زیادہ معروف ادارہ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز (KRL) سمجھا جاتا ہے۔
ایک اور قابلِ ذکر نکتہ یہ ہے کہ تجربات اور وزیراعظم کی سرکاری تقریر کے درمیان جو ابتدائی رپورٹس پاکستان سے جاری ہوئیں، ان میں دو تجربات کا ذکر تھا، نہ کہ پانچ۔ جیسا کہ آگے بیان کیا گیا ہے، ایک ہی سرنگ میں بیک وقت کیے گئے تجربات کی تکنیکی حدود کے باعث دو تجربات کرنا زیادہ قابلِ فہم معلوم ہوتا ہے، خاص طور پر ایسی ریاست کے لیے جس کے پاس پہلے سے کوئی تجرباتی تاریخ نہ ہو اور جوہری مواد کی مقدار محدود ہو۔
جوہری تنصیبات پر بھارتی حملے کا خطرہ
پاکستان میں جوہری تجربات کے وقت کی شدید کشیدگی کی ایک مثال یہ ہے کہ وزیرِاعظم شریف کے اعلان کے پانچ گھنٹے بعد (جیسا کہ ایجنز فرانس پریس نے رپورٹ کیا)، پاکستان نے بھارتی ہائی کمشنر کو دفترِ خارجہ طلب کیا اور انہیں اطلاع دی کہ ’’قابلِ اعتبار معلومات‘‘ ملی ہیں کہ بھارت کی جانب سے قبل از صبح پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ ایسی صورت میں ’’فوری اور شدید جوابی کارروائی‘‘ کی جائے گی۔ سفیر ستیش چندر سے کہا گیا کہ وہ نئی دہلی کو یہ پیغام پہنچائیں کہ اسلام آباد ’’بھارتی حکومت سے کسی غیر ذمہ دارانہ اقدام سے باز رہنے کی توقع رکھتا ہے‘‘۔ اس کے فوراً بعد صدر رفیق تارڑ نے ایک مختصر اعلامیہ جاری کرتے ہوئے پاکستان میں ہنگامی حالت اور بنیادی حقوق کی معطلی کا اعلان کیا، جس میں غیر واضح ’’بیرونی جارحیت‘‘ کے خطرات کو وجہ قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان اور اٹامک انرجی کمیشن کے تبصرے
30 مئی 1998ء کو ایک انٹرویو میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اسلام آباد کے معروف اخبار دی نیوز کو بتایا کہ ’’پانچوں تجربات یورینیم-235 استعمال کرنے والے بوسٹڈ فشن آلات‘‘ تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ان میں سے کوئی بھی دھماکہ تھرمو نیوکلئیر نہیں تھا، ہم تحقیق کر رہے ہیں اور اگر کہا گیا تو فیوژن تجربہ بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ حالات، سیاسی صورتحال اور حکومت کے فیصلے پر منحصر ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ان میں سے پہلا تجربہ ایک بڑا بم تھا جس کی طاقت تقریباً 30–35 کلوٹن تھی، جبکہ باقی چار کم طاقت کے حربی ہتھیار تھے جو چھوٹے میزائلوں پر نصب کیے جا سکتے ہیں اور میدانِ جنگ میں فوجی دستوں کے اجتماع کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے اخبار کو بتایا: ’’یہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب جوہری دھماکہ تھا، سب کچھ بالکل ویسا ہی ہوا جیسے ہم نے منصوبہ بنایا تھا اور نتائج اتنے ہی اچھے تھے جتنی ہمیں امید تھی‘‘۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پانچوں دھماکوں نے richter scale پر 5.0 درجے کی شدت پیدا کی، اور ان کا اثر 40 کلوٹن TNT کے برابر تھا۔ سابق چیئرمین کمیشن منیر احمد خان نے ایجنز فرانس پریس سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’یہ بوسٹڈ آلات تھرمو نیوکلئیر بم کے درمیانی مرحلے کی مانند ہیں۔ یہ تھرمو نیوکلئیر عمل کے اجزا استعمال کرتے ہیں اور اصل میں زیادہ طاقتور ایٹم بم کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان 1984ء سے جوہری صلاحیت رکھتا ہے اور تمام پاکستانی آلات افزودہ یورینیم سے تیار کیے گئے ہیں۔