ایٹمی قوت کے حصول کا سفر
بھارت کا پہلا ایٹمی تجربہ
انڈیا نے گزشتہ روز راجستھان کے صحراؤں میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور اس طرح امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے بعد ایٹمی طاقتوں کی فہرست میں چھٹے ملک کا اضافہ ہوگیا۔ بھارت کے اس ایٹمی دھماکے پر عالمی رائے عامہ کی طرف سے ملے جلے ردعمل کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان اور دوسرے بہت سے ممالک نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس دھماکے سے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے اس اقدام سے مرعوب نہیں ہوگا۔
ایٹمی توانائی کا دو طرفہ پہلو
ایٹم اس دور میں قوت و توانائی کا محور شمار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس قوت سے بہرہ ور ممالک ہی آج دنیا کے بڑے ممالک سمجھے جاتے ہیں اور عملاً دنیا کی قیادت انہی ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ حتیٰ کہ اقوام عالم کے مابین عدل و انصاف کے سب سے بڑے علمبردار ادارہ اقوام متحدہ میں بھی ایٹمی قوتوں کو خصوصی اور امتیازی مراعات و اختیارات حاصل ہیں۔ ایٹم جہاں قوت و توانائی کا نشان ہے وہاں تباہی و بربادی کا بھی ایک خوفناک ذریعہ ہے۔ اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ تہذیب و امن کی نام نہاد پرچارک بڑی طاقتوں نے اس عظیم قوت کو انسانیت کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی بجائے تباہی اور بربادی کا ذریعہ بنانے کو ترجیح دی ہے۔ نتیجتاً ایٹمی ہتھیاروں کی آج اس قدر بہتات ہو چکی ہے کہ خود ایٹمی طاقتیں دوسری اقوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بسا اوقات ایٹمی اسلحہ میں تخفیف کی بات کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
بڑی طاقتوں کے اسی دوہرے کردار کے باعث وہ ایٹم جو انسانی ترقی و فلاح میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے آج اس کا نام زبان پر آتے ہی تباہی و بربادی کے ہولناک تصورات ذہنوں میں لرزنے لگتے ہیں گویا ’’ایٹم‘‘ اور ’’تباہی‘‘ مترادف لفظ ہیں۔ اسی بنا پر بھارت کے اس دعوے کو عالمی رائے عامہ نے کوئی وقعت نہیں دی کہ وہ ایٹمی قوت کو پر امن مقاصد کے لیے استعمال کرے گا کیونکہ اس کی پیشرو ایٹمی قوتوں نے ’’پر امن مقاصد‘‘ کے حسین خول اور ’’تخفیف اسلحہ‘‘ کی خوبصورت اوٹ میں ہی انسان کی ہلاکت و خانماں بربادی کے سامان تیار کیے ہیں بلکہ دن رات ان ہتھیاروں کی تیاری کا سلسلہ جاری ہے۔
عالمِ اسلام کی خودانحصاری کا تقاضہ
ایٹمی طاقتوں میں ایک اور کے اضافے سے عالمی سطح پر کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی اور برصغیر میں کونسی اور حقیقتیں تسلیم کی میز پر رونمائی کے لیے تشریف فرما ہوں گے، اس کے بارے میں صورتحال جلد واضح ہو جائے گی۔ سردست ہم عالم اسلام کے قائدین کو اس طرف توجہ دلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالیں اور بڑی طاقتوں کے مفادات سے الگ ہو کر کچھ دیر کے لیے اپنے سود و زیاں کی بابت سوچیں۔ آخر عالم اسلام کب تک بے یقینی کی اس دلدل میں پھنسا رہے گا؟ جہاں تک وسائل کا تعلق ہے عالم اسلام کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں، لیکن ان وسائل پر اغیار کا تسلط ہے اور مسلم ممالک اپنے وجود کی حفاظت تک کے لیے ’’دشمن‘‘ سے تحفظ کے حصول پر مجبور ہیں۔ عالم اسلام کے قائدین کو یہ باور کر لینا چاہیے کہ مسلم ممالک کا روشن مستقبل بڑی طاقتوں کے دامن سے وابستہ ہو کر سیاسی و دفاعی تحفظ کے حصول میں نہیں بلکہ اپنے تمام تر وسائل کو مجتمع کر کے صنعتی و دفاعی سائنس میں بڑی طاقتوں کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے میں مضمر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اپنی استطاعت اور وسائل کی حد تک قوت فراہم کرو۔ اور آج کے دور میں قوت و طاقت کے بغیر کسی قوم کا باوقار طور پر زندہ رہنا ناممکن ہے۔ اس لیے ہم جس قدر جلد یہ راستہ اختیار کر لیں گے عالم اسلام کے لیے مفید اور یقین و اعتماد کا باعث ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے قائدین کو صحیح سمت چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا الہ العالمین۔
(ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور۔ ۲۴ مئی ۱۹۷۴ء)
کینیڈا سے ایٹمی مواد کے حصول کا معاملہ
قائد جمعیۃ علماء اسلام مولانا مفتی محمود نے گزشتہ روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ کینیڈا نے کراچی کے ایٹمی بجلی گھر کے لیے ایندھن وغیرہ سے جو انکار کیا ہے وہ ہماری خارجہ پالیسی کی کمزوری کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی اتنی کامیاب نہیں جتنی کہ اس کی تشہیر کی جاتی ہے چنانچہ میں نے ایک موقع پر قومی اسمبلی میں خارجہ پالیسی پر بحث کرنا چاہی تھی مگر حکومت اس مسئلہ پر بحث سے گریزاں ہے۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۵ جنوری ۱۹۷۷ء)
مفتی صاحب کے اس بیان پر وفاقی وزیر اطلاعات محمد حنیف خان سیخ پا ہوئے ہیں اور روزنامہ امروز لاہور ۷ جنوری ۱۹۷۷ء کے مطابق:
’’وفاقی وزیر اطلاعات مسٹر محمد حنیف خان نے مفتی محمود کے بیان پر کڑی نکتہ چینی کی ہے جس میں مفتی صاحب نے حکومت پاکستان پر یہ الزام لگایا تھا کہ اس نے کینیڈا سے ایٹمی مواد حاصل کرنے کے لیے منفی رویہ اختیار کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے مفتی محمود سے سوال کیا ہے کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کینیڈا کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے؟ مسٹر محمد حنیف نے کہا کہ مفتی محمود نے اس سلسلہ میں جو بیان دیا ہے وہ ان کے اپنے احساس کمتری کا مظہر ہے۔‘‘
اسے کہتے ہیں کہ ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ مفتی صاحب نے کب کہا ہے کہ پاکستان کو کینیڈا کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے چاہئیں، انہوں نے تو کینیڈا کی طرف سے ایٹمی مواد کی فراہمی سے انکار کو پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اور محمد حنیف خان صاحب کے لیے یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ایٹمی مواد کی فراہمی سے کینیڈا کا انکار ایک الگ مسئلہ ہے، اور کینیڈا کی شرائط اور دباؤ کو قبول کرنے سے پاکستان کا انکار الگ مسئلہ ہے۔ بحث پاکستان کے انکار پر نہیں، کینیڈا کے انکار پر ہے۔ اور مولانا مفتی محمود نے یہی سوال اٹھایا ہے کہ حالات نے یہ رخ کیوں اختیار کیا کہ کینیڈا نے ایٹمی مواد فراہم کرنے سے انکار کر دیا، اس انکار کا پس منظر کیا ہے، اس کے محرکات و عوامل کیا ہیں، اور کیا کوئی بھی عقلمند شخص اس انکار کے پس منظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متحرک، مضبوط اور کامیاب قرار دے سکتا ہے؟ محمد حنیف خان صاحب کو چاہیے کہ وہ خلط مبحث کر کے عوام کو ذہنی خلجان میں مبتلا کرنے کی بجائے حقیقت پسندی کے ساتھ مولانا مفتی محمود کے سوال کا سامنا کریں اور عوام کو بتائیں کہ کامیاب اور متحرک خارجہ پالیسی کا دعویٰ کرنے والی حکومت پاکستان کینیڈا کو ایٹمی مواد کی فراہمی سے کھلم کھلا انکار سے باز کیوں نہیں رکھ سکی؟ رہی بات احساس کمتری کی تو اس کا مظہر مولانا مفتی محمود کا بیان نہیں بلکہ حکومت پاکستان کا رویہ ہے جو قومی اسمبلی میں خارجہ پالیسی کو زیر بحث لانے سے مسلسل گریزاں ہے اور جسے پارلیمنٹ میں بحث کی صورت میں خارجہ پالیسی کی کامیابی کے بارے میں پراپیگنڈا کے غبارے سے ہوا نکلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
(ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور۔ ۱۴ جنوری ۱۹۷۷)
فرانس سے ایٹمی پلانٹ خریدنے کا معاملہ
امریکہ کے صدر جمی کارٹر نے فرانس سے ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ حاصل کرنے کے سلسلہ میں پاکستان کے اقدامات کی ایک بار پھر مخالفت کی ہے جبکہ دوسری طرف موصوف نے دہلی کے دورہ کے موقع پر پر بھارت کی طرف سے ایٹمی تحفظات فراہم کرنے سے انکار کے باوجود بھارت کو امریکہ کی طرف سے ایٹمی ایندھن کی فراہمی جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ (ملخص از جنگ کراچی ۸ جنوری ۱۹۷۸ء)
پاکستان کے بارے میں امریکہ کا رویہ باہمی دفاعی معاہدوں کے باوجود ہمیشہ محل نظر رہا ہے اور مذکورہ بالا خبر غماز ہے کہ ابھی تک امریکہ کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر لیا اور وہ اسلحہ کے معاملہ میں کافی حد تک خود کفالت کی راہ پر گامزن ہے لیکن پاکستان کا فرانس سے ایٹمی پراسیسنگ پلانٹ خریدنے کا معاملہ ابھی تک امریکہ کی نظر میں کھٹک رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان بار بار یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ ایٹمی پلانٹ کو پر امن مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔
ہماری رائے میں پاکستان کو بڑی طاقتوں پر سہارا کرنے کی بجائے خود اپنے وسائل کو زیادہ سے زیادہ کام میں لانے اور اسلامی ممالک کے تعاون سے اسلحہ کی بھاری صنعت کو فروغ دینے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہی راستہ پاکستان اور عالم اسلام دونوں کے لیے عزت و وقار اور سلامتی کا واحد راستہ ہے۔
(ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور۔ ۱۴ جنوری ۱۹۷۸ء)
چھوٹے ملکوں کا دفاع برطانوی وزیر اعظم کی نظر میں
برطانوی وزیراعظم مسز مارگریٹ تھیچر نے گزشتہ دنوں اپنے دورۂ روس کے دوران ماسکو ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے اصولی طور پر چھوٹے ملکوں کی طرف سے ایٹم بم بنانے کی کوششوں کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ کوئی چھوٹا ملک ایٹم بم کے بغیر اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ میں ایٹم بم ہی قیامِ امن کا ضامن بنا تھا۔ (بحوالہ روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۱۱ اپریل ۱۹۸۷ء)
ایٹمی توانائی پر بڑے ممالک کی اجارہ داری
ایٹمی توانائی آج کے دور میں ایک قوت ہے جو دفاع اور ترقی دونوں شعبوں میں کلیدی حیثیت اختیار کر چکی ہے لیکن عالمی قوتیں، جن میں خود برطانیہ بھی شامل ہے، ایک عرصہ سے ایٹمی ٹیکنالوجی پر بڑی قوتوں کی اجارہ داری قائم رکھنے اور چھوٹے ممالک بالخصوص عالمِ اسلام کو ایٹمی قوت سے محروم رکھنے کی حکمتِ عملی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش چلی آرہی ہے کہ ایٹمی توانائی کا دائرہ بڑی طاقتوں کے مخصوص مفادات سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ عالمِ اسلام اپنے گرد عالمی طاقتوں کی سازشوں کے حصار کے باعث ابھی تک جدید ٹیکنالوجی اور ایٹمی توانائی کے جائز حقوق اور وسائل سے محروم ہے اور جو مسلم ممالک ان عالمی سازشوں اور مخالفتوں کے باوجود ایٹمی قوت کے حصول کی راہ پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں قدم قدم پر مزاحمت کا سامنا ہے۔ عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کی تباہی اور پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی سنٹر پر حملہ آور ہونے کی کوششیں اسی عالمی دہشت گردی کا ایک حصہ ہیں۔
جدید دفاعی صلاحیت کے حصول کا قرآنی حکم
ہمارا موقف شروع سے یہ رہا ہے کہ ایٹمی قوت پر کسی طاقت کی اجارہ داری نہیں ہے اور ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ترقی اور دفاع کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کی کوشش کرے۔ بالخصوص عالمِ اسلام کے لیے ایٹمی توانائی کا حصول اس لیے بھی ضروری ہے کہ قرآنِ کریم کے حکم کے مطابق وقت کی جدید ترین قوت کا حصول مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ بہرحال اس پس منظر میں برطانوی وزیراعظم کی طرف سے ایٹم بم بنانے کے لیے چھوٹے ممالک کی کوششوں کی حمایت ایک مثبت تبدیلی کی علامت ہے جو ان طاقتوں کے موقف میں محسوس کی جا رہی ہے اور اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سچائی اور استحقاق ایک ایسی لازوال قوت ہے جسے زیادہ دیر نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی مسترد کیا جا سکتا ہے۔
(ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور۔ ۱۷ اپریل ۱۹۸۷ء)
پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکی پابندیوں کی زد میں
امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی اس قرارداد پر ایک نظر ڈال لینا بھی مناسب ہوگا جسے پاکستان میں امریکی لابی پاکستان کی بہت بڑی فتح قرار دینے پر مصر ہے اور اسے امریکہ کی پرخلوص پاکستان دوستی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
امریکی سینٹ کی قرارداد
اس قرارداد کی خبر روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۲۵ اپریل ۱۹۸۷ء کو ’’امریکی امداد کو جمہوری عمل، انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے ساتھ مشروط کر دیا گیا‘‘ کی شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا جس کا متن یہ ہے:
’’امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے پاکستان کو چھ سال کے عرصے کے دوران چار ارب دو کروڑ ڈالر کی امداد کی فراہمی کے سلسلہ میں قرارداد کی آٹھ کے مقابلے میں گیارہ ووٹوں سے منظوری دے دی ہے۔ وائس آف امریکہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس قرارداد کے مسودہ میں یہ شرائط بھی شامل ہیں کہ امریکی حکومت کو ہر برس یہ تصدیق کرنا ہوگی کہ پاکستان نہ تو ایٹم بم بنا رہا ہے اور نہ ہی دوسری اقوام کو ایٹم بنانے کی تیاری میں کوئی مدد دے رہا ہے۔ وائس آف امریکہ نے مزید بتایا کہ قرارداد کے مسودہ میں امداد کی فراہمی کے ضمن میں پاکستان میں جمہوری عمل کے مسلسل جاری رہنے، انسانی حقوق کے احترام اور مذہبی آزادیوں کی شرائط بھی شامل ہیں۔ اب سینٹ اور ایوان نمائندگان میں علیحدہ علیحدہ پاکستان کو امداد کی فراہمی کی قراردادوں پر رائے شماری ہوگی اور یہ عمل جون تک مکمل ہو جائے گا۔‘‘
جبکہ روزنامہ جنگ کے خصوصی مضمون نگار جناب ارشاد احمد حقانی نے جنگ لاہور کی ۵ مئی ۱۹۸۷ء کی اشاعت میں ’’مشروط امریکی امداد اور پاکستان کا ردِعمل‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی مذکورہ قرارداد کے کچھ حصوں کا ترجمہ شامل کیا ہے جو ان کے الفاظ میں یوں ہے کہ ’’……اگر بھارت اپنی جوہری سہولتوں اور ساز و سامان پر جامع تحفظات قبول کرے تو پاکستان کو ملنے والا استثناء ختم ہو جائے گا۔ ہاں اگر صدرِ امریکہ یہ تصدیق کر دیں کہ پاکستان نے بھی ویسے ہی تحفظات قبول کر لیے ہیں تو اس کی امداد جاری رہ سکے گی‘‘……
عالمِ اسلام کے بارے میں عالمی قوتوں کا خوف
جہاں تک پاکستان کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کا مسئلہ ہے یہ عالمی قوتوں کی اس طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے کہ عالمِ اسلام کے کسی ملک کو ایٹمی قوت کے قریب نہ پھٹکنے دیا جائے کیونکہ وہ اپنے طور پر یہ سمجھے بیٹھی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر جہاد کا جو جذبہ ہے اگر وہ منظم ہوگیا اور اسے ایٹمی قوت کا سہارا بھی مل گیا تو جذبے اور قوت کا یہ امتزاج مسلمانوں میں عظمتِ رفتہ کی بحالی کے تصور کو اجاگر کر دے گا۔ اور ملتِ اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ملتِ اسلامیہ ایک بار پھر عالمی قوت کی حیثیت سے ابھرے اور اپنے دورِ زوال کے عرصے میں جنم لینے والے سیاسی، نظریاتی اور معاشی نظاموں کو میدانِ عمل میں شکست دے کر دنیا میں ایک بار پھر اسلام کی بالادستی کا پرچم بلند کر دے۔
یہی وہ خوف ہے جو عالمی قوتوں کو مسلم ممالک کے اندرونی معاملات میں زیادہ سے زیادہ دخیل ہونے پر مجبور کر رہا ہے اور اس خوف کی ایک ہلکی سی جھلک امریکہ کے سابق صدر مسٹر نکسن کی طرف سے روسی دانشوروں کو دی جانے والی اس دعوت میں دیکھی جا سکتی ہے جس میں انہوں نے عالمِ اسلام کے مختلف ممالک میں ابھرنے والی دینی بیداری کی تحریکات کو امریکہ اور روس کے لیے مشترکہ خطرہ قرار دیتے ہوئے روسی دانشوروں کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ اس خطرہ کا احساس کریں اور امریکہ کے ساتھ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر عالمِ اسلام کی دینی بیداری کی تحریکات کو غیر مؤثر بنانے کے لیے امریکی دانشوروں کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمتِ عملی وضع کریں۔
سامراجی قوتوں کا یہ خوف بجا ہے لیکن اس خطرہ کو روکنے کے لیے مسلمانوں کو ایٹمی قوت اور نظریاتی بیداری سے محروم رکھنے کی سازشیں کرنا ایسا طریقِ کار نہیں ہے جسے جرأت مندانہ یا اخلاقی طرزِ عمل قرار دیا جا سکے۔ مقابل کو ہتھیاروں اور مقابلہ کے مساویانہ ذرائع سے محروم رکھنے کی سوچ بنیادی طور پر خود اعتمادی کے فقدان کی دلیل ہے۔ امریکہ، روس اور دیگر بڑی قوتوں میں اپنے نظریات اور نظاموں کے بارے میں خود اعتمادی کا یہ فقدان ہی ان قوتوں کی ایسی پالیسیوں کا باعث بن رہا ہے جن کا مقصد عالمِ اسلام کو جدید ترین ٹیکنالوجی، ایٹم بم کی دفاعی قوت اور نظریاتی بیداری سے ہر حالت میں اور ہر قیمت پر روکنا ہے۔
عراق کی ایٹمی تنصیبات کی تباہی کے بعد پاکستان پر نظر
ہمیں عالمی قوتوں کی اس اجارہ دارانہ روش کے بارے میں بہرحال کوئی دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔ مسلمان دنیا میں ایک ارب کے قریب ہیں اور ان کے آزاد ممالک کی تعداد نصف صد کے لگ بھگ ہے لیکن وہ ایٹم بم جیسے ضروری ہتھیار سے محروم ہیں۔ عراق کا ایٹمی مرکز تباہ کر دیا گیا ہے جبکہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات ہر وقت دشمن کے حملے کی زد میں ہیں اور عالمی قوتوں کی مسلسل سازشوں کے حصار میں ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اگر امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو پاکستان کو اس کا حق کیوں نہیں ہے؟ اور اگر ان اجارہ دار قوتوں کو بھارت اور اسرائیل کا ایٹمی قوت ہونا گوارا ہے تو پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے تصور سے ان کی نیندیں کیوں حرام ہو جاتی ہیں۔ ایٹم بم پاکستان کا بلکہ عالمِ اسلام کا حق ہے، اور صرف حق نہیں بلکہ قرآنِ کریم کی زبان میں یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ وقت کی جدید ترین قوت کو اس حد تک حاصل کریں جس سے وہ اپنے دشمن کو خوفزدہ کر سکیں اور طاقت کا توازن ان کے حق میں ہو۔ آخر امریکہ اور روس کی فوجی پالیسوں کا محور بھی تو یہی ہے کہ مخالف پر رعب اور خوف کی کیفیت طاری کر کے طاقت کے توازن کو اپنے حق میں رکھا جائے۔ اس لیے اگر یہی بات قرآن کریم نے مسلمانوں سے کہہ دی ہے اور مسلمان اس مذہبی فریضہ کی تکمیل کے لیے ایٹم بم بنانے کے خواہاں ہیں تو اس پر پیشانیوں کو شکن آلود کر لینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
ہمارے نقطۂ نظر سے ایٹم بم پاکستان کی ضرورت اور اس کا جائز حق ہے اور اسے اس حق سے محروم رکھنے کی کوئی بھی کوشش پاکستان کے ساتھ دوستی کا عنوان اختیار نہیں کر سکتی۔ اس پسِ منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کی امداد کے لیے ایٹم بم نہ بنانے کی شرط سراسر غیر منصفانہ ہے جس کے بارے میں حکومتِ پاکستان کو دوٹوک اور جرأت مندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد کر دینا چاہیے۔
(ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور۔ ۲۶ جون ۱۹۸۷ء)
سی ٹی بی ٹی پر دستخط کا عالمی دباؤ
قومی حلقوں میں ان دنوں ایٹمی پروگرام کے حوالہ سے سی ٹی بی ٹی (Comprehensive Nuclear-Test-Ban Treaty) پر دستخط کے لیے حکومت پاکستان کی آمادگی زیر بحث ہے اور اسے امریکی دباؤ کا نتیجہ قرار دے کر اس پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ مجوزہ معاہدہ جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۵۱ ویں اجلاس میں زیر بحث آنے والا ہے اس کے تحت ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کو کسی بھی ملک کی ایٹمی تنصیبات کو چیک کرنے کا اختیار مل جائے گا۔ اس سمجھوتے کے ضمن میں یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ ایٹمی توانائی کے حوالہ سے بین الاقوامی طاقتوں کی قائم کردہ حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کی اقتصادی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ اس کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر کے انہیں تباہ کرنے کا اختیار بھی عالمی ادارے کو مل جائے۔
اس وقت دنیا میں امریکہ، روس، چین، فرانس، اور برطانیہ باضابطہ طور پر ایٹمی قوت شمار ہوتے ہیں جبکہ اسرائیل، بھارت، اور پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ اسرائیل اور بھارت اپنی ایٹمی صلاحیت کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت غیر اعلان شدہ ہے بلکہ ہمارے حکمرانوں کے بقول عالمی دباؤ کی وجہ سے پاکستان کے ایٹمی توانائی کے حصول کا پروگرام منجمد کیا جا چکا ہے اور اسے رول بیک کرنے کے لیے دباؤ جاری ہے۔
بھارت اور پاکستان کا دستخط سے انکار
سی ٹی بی ٹی پر پاکستان اور بھارت دونوں اب تک دستخط کرنے سے انکار کرتے چلے آرہے ہیں اور پاکستان کا موقف یہ رہا ہے کہ جب تک بھارت اس پر دستخط نہ کر دے پاکستان دستخط نہیں کرے گا کیونکہ یہ علاقہ میں فوجی قوت کے توازن کا مسئلہ ہے جس سے صرف نظر کرنا پاکستان کی سالمیت کے منافی ہوگا۔ مگر اب جبکہ بھارت دستخط سے انکار پر بدستور ڈٹا ہوا ہے، حکومت پاکستان نے اس سمجھوتے پر یکطرفہ طور پر دستخط کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جس پر قومی حلقوں میں بجا طور پر تشویش و اضطراب کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی فوجی قوت کے بارے میں بھی امریکہ اور دیگر عالمی قوتوں کے اس دباؤ کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان اپنی قوت کو کم کر دے اور دفاعی اخراجات کو عالمی قوتوں کی مقرر کردہ حدود میں لے آئے، اس صورت میں پاکستان کے دفاع کی ضمانت دینے کی بات بھی کی جا رہی ہے۔
قومی خودکشی سے بچنے کی قرآنی ہدایت
ہم اس موقع پر اس مسئلہ کی شرعی حیثیت کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کیونکہ ایک مسلمان ملک ہونے کے علاوہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے نافذ العمل دستور کی رو سے بھی ہم ہر معاملہ میں شرعی حدود کے دائرہ میں رہنے کے پابند ہیں۔ فوجی قوت کے بارے میں قرآن کریم نے ایک ہی جملہ میں مسلمانوں کو واضح ہدایت دے دی ہے کہ ’’واعدّوا لھم ما استطعتم من قوۃ‘‘ (سورہ انفال ۸ ۔ آیت ۶۰) ’’اور ان کے مقابلہ میں جتنی قوت تمہارے بس میں ہو فراہم کرو‘‘۔ اس کے ساتھ ہی اس کی حد بھی بیان فرمائی کہ ’’ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم‘‘ (سورہ انفال ۸ ۔ آیت ۶۰) ’’تاکہ اس قوت کے ساتھ تم اللہ کے اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کر سکو‘‘۔ آج کی اصطلاح میں اس کا معنی یہ ہوں گے کہ دشمن کے مقابلہ میں طاقت کا توازن تمہارے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی ترمذی شریف کی ایک روایت بھی ملاحظہ فرما لیں جس میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ انصار مدینہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد اپنے باغات اور کاروبار وغیرہ سے بے نیاز ہو کر ہمہ تن حضور علیہ السلام کے ساتھ ہوگئے تھے اور مسلسل جنگوں کی وجہ سے ان کی معاشی حالت خاصی متاثر ہو گئی تھی، غالباً غزوۂ خیبر کے بعد انہوں نے باہمی مشورہ کیا کہ اب اسلام کو پہلے کی طرح کا خطرہ نہیں رہا اور صورتحال خاصی بہتر ہو گئی ہے اس لیے ہمیں جہاد پر زیادہ خرچ کرنے کی بجائے اب اپنے باغات اور کاروبار سدھارنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس موقع پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ‘‘ (سورہ البقرہ ۲ ۔ آیت ۱۹۶) ’’اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو‘‘۔
گویا اللہ رب العزت نے انصار مدینہ کو تنبیہ فرمائی اور دفاعی اخراجات کی کمی کو ’’قومی خودکشی‘‘ قرار دیا۔ ان احکام الٰہی کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایٹمی توانائی کے حصول کے سلسلہ میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا اور دفاعی اخراجات میں کمی کی تجاویز قومی خودکشی کے مترادف ہیں۔ چنانچہ ہر باغیرت اور محب وطن پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ اس پر جتنا احتجاج اس کے بس میں ہو وہ اس سے گریز نہ کرے۔
(روزنامہ وفاق، لاہور۔ ۲ اگست ۱۹۹۶ء)
معاشی خوشحالی کے سبز باغ آخر کس لیے؟
امریکہ بھارت کو ایٹمی طاقت تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے اور اسرائیل کے پاس ایٹم بموں کی موجودگی پر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا اسے کسی قیمت پر گوارا نہیں ہے، اور وہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کو اسلام، جہاد اور ایٹمی قوت تینوں سے محروم کر دینے کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہے اور اسی لیے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کے لیے پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔
سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے حامی عناصر کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس معاہدے پر دستخط کر دینے سے پاکستان کی ایٹمی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر اس کے عوض ملک کو بہت سی مراعات حاصل ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ جب ایٹمی قوت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا تو بہت سی مراعات آخر کس چیز کے عوض حاصل ہوں گی؟ اور مغرب کا یہودی ساہوکار ہم پر کس لیے اتنا مہربان ہو رہا ہے کہ کوئی معاوضہ وصول کیے بغیر وہ ہمیں مراعات سے مالامال کر دینا چاہتا ہے؟ ہمیں جن اقتصادی سہولتوں کی خوشخبری دی جا رہی ہے اور جس معاشی خوشحالی کے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں آخر وہ کس چیز کے بدلے میں ہیں؟ سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں سے پاکستان کی ایٹمی پوزیشن میں کوئی فرق نہ پڑنے کا ڈھنڈورا پیٹنے والے دانشور اگر اس گتھی کو سلجھا سکیں اور مغرب کے یہودی سرمایہ کاروں کی ہم پر متوقع بے تحاشا نوازشات کی وجہ بتا سکیں تو ان کی بے حد نوازش ہوگی۔
سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دینے کی حمایت میں یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ دستخط کر دینے کا مطلب ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنا نہیں بلکہ مزید آگے بڑھنے سے روکنا ہے، جبکہ ہم اس وقت اتنی ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں کہ ہمیں اس میں مزید پیشرفت کی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اگر اپنے ایٹمی پروگرام پر سی ٹی بی ٹی کے ذریعے بین الاقوامی کنٹرول قبول کر لیتے ہیں اور خود کو ایک معاہدہ کا پابند کر لیتے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بین الاقوامی کنٹرول کی کنٹرولنگ اتھارٹی آئندہ ہمیں اس ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کے لیے کبھی نہیں کہے گی؟ آخر اس معاملہ میں کنٹرولنگ اتھارٹی خود ہم تو نہیں ہیں بلکہ یہ پوزیشن انہی بین الاقوامی اداروں اور قوتوں کو حاصل ہے جو نصف صدی سے ہمارے خلاف بھارت اور اسرائیل کو ہر طرح سپورٹ کرتے چلے آرہے ہیں اور ہماری کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان قوتوں اور اداروں کو ہم گزشتہ پچاس برس سے دیکھ رہے ہیں بلکہ بھگت رہے ہیں اس لیے ان کی کسی بات اور کسی وعدے پر بھروسہ آخر کس طرح کیا جا سکتا ہے؟
(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد۔ ۲۳ جنوری ۲۰۰۰ء)
بھارت کے ایٹمی دھماکے اور پاکستان پر عالمی و داخلی دباؤ
بھارت نے پے در پے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے لیے اپنے خیال میں جو مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے اس پر قومی حلقوں میں مسلسل بحث جاری ہے۔ حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ پاکستان کو بھی اپنی ایٹمی پوزیشن اب عملاً واضح کرنا ہی پڑے گی۔ باخبر حلقوں کے مطابق پاکستان اس کی تیاری کر رہا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک یقیناً اس کی کوئی عملی شکل سامنے آ چکی ہو گی۔ ادھر امریکہ نے پاکستان پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے کہ وہ ایٹمی دھماکہ نہ کرے اور اس کے بدلے کچھ مراعات حاصل کر لے جن میں قرضوں میں چھوٹ کے علاوہ ایف سولہ طیاروں کی فراہمی بھی شامل ہے۔
بھارتی بالادستی قبول کرنے کی ترغیب
ہمارے خیال میں اصل قصہ یہ ہے کہ امریکہ بہادر ایک عرصہ سے اس کوشش میں ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کو چین کے خلاف ایک بلاک کی شکل دی جائے جس کی قیادت بھارت کے ہاتھ میں ہو، اور پاکستان بھارت کی قیادت اور بالادستی کو قبول کرتے ہوئے اس بلاک میں ایک فعال ممبر کی حیثیت سے شریک ہو۔ امریکی صدر بل کلنٹن کے نومبر ۱۹۹۸ء کے دوران جنوبی ایشیا کے مجوزہ دورے سے پہلے امریکی حکام چاہتے ہیں کہ صورتحال واضح ہو جائے تاکہ صدر امریکہ کو اس موقع پر معاملات اور ترجیحات طے کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اس مقصد کے لیے یہ ضروری تھا کہ بھارت ایٹمی دھماکے کر کے اپنے بالاتری کا عملی اظہار کرے جو اُس نے کر دیا ہے۔ اور یہ بھی اس مقصد کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان ایٹمی دھماکے سے گریز کرے تاکہ وہ بھارت کے برابر کی پوزیشن حاصل نہ کر سکے۔ اور اس طرح جنوبی ایشیا کو بھارت کی قیادت میں چین کے خلاف متحد کرنے کا پروگرام مکمل کرایا جائے۔
ایٹمی دھماکے سے گریز اور مسلح افواج کی ڈاؤن سائزنگ کی تجویزیں
پاکستان کو ایٹمی دھماکے سے روکنے اور اس کی مسلح افواج کی ڈاؤن سائزنگ کی تجویزوں کے پیچھے یہی خواہش کارفرما ہے، اور اس کے لیے مسئلہ کشمیر کے کسی نہ کسی حل سمیت پاکستان کو بہت سے مفادات کا لالچ دیا جا رہا ہے۔ لیکن بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کی رائے عامہ نے جس پرجوش ردعمل کا اظہار کیا ہے وہ ہر لحاظ سے حوصلہ افزا ہے، اور کسی بھی حکومت کے لیے قوم کے اس جوش و جذبہ کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔
جہاں تک پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں ہمارا موقف شروع سے واضح ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں کو ایسی عسکری قوت کے حصول کا حکم دیا ہے جو دشمن پر مسلمانوں کا رعب قائم رکھنے کا باعث ہو۔ لیکن بدقسمتی سے دنیا بھر کی مسلم حکومتیں اس قرآنی حکم پر عمل کے سلسلہ میں کوتاہی سے کام لے رہی ہیں جس کی وجہ سے عالمِ اسلام جدید دفاعی ٹیکنالوجی اور ایٹمی قوت سے مسلسل محروم چلا آ رہا ہے۔ اب اگر پاکستان اس طرف عملی پیش قدمی کرتا ہے اور استعماری قوتوں کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کرتا ہے تو یہ نہ صرف قومی حمیت کا اظہار اور غیور مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی ہو گی بلکہ قرآن کریم کے ایک واضح حکم کی تعمیل بھی ہو گی جو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد اور فضل و رحمت کا باعث بنے گی۔
(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ۔ جون ۱۹۹۸ء)
پاکستان کا پہلا ایٹمی تجربہ اور مستقبل کے تقاضے
بالآخر تاریخ کا وہ فیصلہ کن مرحلہ آپہنچا جس کا پوری ملت اسلامیہ کو ایک مدت سے انتظار تھا اور جس کے لیے لاکھوں پیشانیاں بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوتی رہی ہیں اور جسے دیکھنے کی حسرت دل میں لیے کروڑوں مسلمان قبروں میں جا بسے۔ جب مجھے مقامی صحافی دوست جناب محمد شفیق نے فون کر کے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی خبر دی تو دل اور آنکھوں پر قابو نہ رہا۔ انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے کو کہا تو زبان کو الفاظ نہیں سوجھ رہے تھے۔ انہیں چند منٹ انتظار کا کہہ کر حواس کو مجتمع کیا اور دل و دماغ اور زبان کا رشتہ پھر سے جوڑ کر بمشکل چند جملے ترتیب دے سکا۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا خطاب
شام چھ بجے ٹی وی پر وزیراعظم کا خطاب سنا اور رات نو بجے خبرنامہ دیکھا تو خوشی کی انتہا نہ رہی کہ یہ کیفیت صرف میری نہیں بلکہ ہر اس پاکستانی کی ہے جو پاکستان کے لفظ کا معنیٰ سمجھتا ہے، پاکستان کے قیام کے مقصد سے آگاہ ہے اور مسلم ممالک کی برادری میں پاکستان کے مقام و مرتبہ سے باخبر ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب میں حالات کا جو تناظر پیش کیا ہے اور ایٹمی دھماکوں کے ناگزیر ہونے کے جو اسباب بیان کیے ہیں وہ بلاشبہ حقیقت پسندانہ ہیں اور ان پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے والا کوئی بھی شخص ان کی واقعیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن ان کے خطاب سے پہلے تلاوت کرنے والے قاری صاحب نے قرآن حکیم کی جن آیات کا انتخاب کیا وہ عالم اسلام کے موجودہ حالات اور ملت اسلامیہ کی دینی ذمہ داریوں کی بہت صاف اور واضح عکاسی کر رہی تھیں۔ انہوں نے سورۃ الاحزاب کی چند آیات پڑھیں جن میں غزوۂ خندق کا ذکر ہے۔……
پوری ملتِ اسلامیہ مبارکباد کی مستحق ہے
میاں محمد نواز شریف اور ان کی حکومت کو اس عظیم کارنامے پر قوم کے ہر طبقے اور ہر محب وطن شہری نے مبارک باد دی ہے۔ اس مبارک باد میں ہمارے قابل فخر سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر، جنرل ضیاء الحق مرحوم اور جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم بھی شریک ہیں۔ اور اپنے جوش و جذبہ کے ساتھ ان کی پشت پر کھڑی رہنے والی پاکستانی قوم اور پاکستان سے اپنی امیدیں اور آرزوئیں وابستہ کرنے والی پوری ملت اسلامیہ ان سب سے زیادہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ لیکن میں ایٹمی دھماکے کے ساتھ بلکہ اس سے بھی زیادہ ایک اور دھماکے پر میاں نواز شریف کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ وہ وزیراعظم سیکرٹریٹ کی عالی شان عمارت چھوڑ دینے اور تعیش اور آسائش کا راستہ ترک کر دینے کا دھماکہ ہے جو میرے جیسے نظریاتی کارکن کے لیے ایٹمی دھماکے سے بھی بڑا ہے۔ کیونکہ اگر ہم اس تجربہ میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ اقتصادی اور معاشی میدان میں بھی آج کی قوتوں کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اور عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ان جیسے دیگر عالمی اداروں کے ظالمانہ چنگل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
دنیا کی زندگی دینِ اسلام کی نظر میں
اسلام کی بنیادی تعلیم بھی یہی ہے کہ یہ دنیا خواہشات کی نہیں بلکہ ضروریات کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں خواہشات کسی بھی شخص کی پوری نہیں ہو سکتیں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے آخرت کی وسیع اور لامتناعی دنیا سجا رکھی ہے۔ اس لیے اس دنیا میں ہم سب اگر اپنے آپ کو ضروریات تک محدود رکھیں تو سوسائٹی کے ہر شخص کی ضروریات با آسانی پوری ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ خرابی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں کچھ لوگ ضروریات کا دائرہ پھلانگ کر دنیا کے محدود وسائل سے لا محدود خواہشات پوری کرنے کے لیے لگژری اور تعیش کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سے وسائل اور ضروریات کا توازن بگڑ جاتا ہے اور چند لوگوں کی خواہشات پر بے شمار لوگوں کی ضروریات قربان ہو جاتی ہیں۔ اسلام کے معاشی فلسفے کی بنیاد اسی پر ہے اور یہی خلافت راشدہ کا طرۂ امتیاز تھا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ پورے معاشی نظام پر ازسرِنو نظر ڈالی جائے اور وزیراعظم جس انقلاب کی بات کر رہے ہیں اس کی ابتدا اسی شعبہ سے کی جائے۔ مگر اس کے لیے عمر بن عبد العزیزؒ بننا پڑے گا۔ اور میں وزیر اعظم محترم کو مشورہ دوں گا کہ اگر وہ فی الواقع ملک میں کوئی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو عمر ثانی یعنی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی سوانح حیات اپنے ہاتھ میں رکھیں اور اس سے راہنمائی حاصل کریں۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ ایسا کر گزرے تو اکیسویں صدی میں ملت اسلامیہ کا داخلہ ایسا شاندار ہوگا کہ پچھلی دس صدیاں تو کم از کم اس پر ضرور رشک کریں گی اور میاں نواز شریف تاریخ اسلام میں ہمیشہ کے لیے زندہ باد ہو جائیں گے۔
(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد۔ ۱۰ جون ۱۹۹۸ء)
پاکستانی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
ایٹمی قوت پر چند ملکوں کی اجارہ داری کا یکطرفہ قانون
ایٹمی سائنسدانوں کی ’’ڈی بریفنگ‘‘ اور قومی ردعمل
ایٹمی سائنس دانوں کی ’’ڈی بریفنگ’’ جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے، عوام کے اضطراب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان اور ان کے رفقاء کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایٹمی راز فروخت کیے اور دوسرے ممالک کو ایٹمی طاقت حاصل کرنے میں مدد دی۔ سائنس دانوں کے خفیہ بینک اکاؤنٹس کا تذکرہ ہو رہا ہے، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا حوالہ دیا جا رہا ہے، عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جا رہا ہے، جبکہ بعض معزز جج صاحبان کو شکوہ ہے کہ انہیں ضروری معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں اور اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔ دینی اور سیاسی راہنما سائنس دانوں کو زیر حراست لینے اور ڈی بریفنگ کے عنوان سے ان سے تفتیش پر احتجاج کر رہے ہیں، عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں، احتجاجی بیانات میں شدت آ رہی ہے اور تحریک چلانے کا عزم کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف ارباب قلم اور اصحاب دانش کی طرف سے ملے جلے ردعمل پر مشتمل افکار و خیالات سامنے آرہے ہیں۔ ایسے ارباب دانش بھی ہیں جو ڈی بریفنگ کے نتائج سامنے آنے سے پہلے ہی سارے الزامات کو درست تسلیم کیے بیٹھے ہیں اور ’’مجرم سائنس دانوں’’ کو کیفر کردار تک پہنچانے کو قومی مفاد کا سب سے بڑا تقاضا قرار دے رہے ہیں۔ اور ان اصحاب فکر و دانش کی بھی کمی نہیں جو اس ساری مہم کو پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے کے لیے مغرب کی منظم اور مربوط منصوبہ بندی کا ایک حصہ تصور کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مغرب اگر کسی مقصد کے لیے پلاننگ کرتا ہے تو پلاننگ کے نقشے میں وہ تمام ضروری رنگ بڑی مہارت سے بھرتا ہے جو اس نقشے کو عالمی برادری سے منٖظور کرانے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ خواہ بعد میں وہ رنگ پھیکے ہی پڑ جائیں، لیکن ان کی ابتدائی چمک دمک خاصی چکاچوند کر دینے والی ہوتی ہے، اس لیے اس سارے قضیہ کو اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔
وہ اصول جس پر عالمی مہم کی بنیاد رکھی گئی ہے
ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک بات بہت آگے بڑھ چکی ہو، لیکن تادم تحریر جو صورتحال ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسئلے کے ایک اہم پہلو پر کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ یہ کہ اس ساری مہم کی بنیاد اس مبینہ اصول پر ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا کام جن طاقتوں نے اس سے پہلے کر لیا ہے اور وہ اپنے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ کر چکی ہیں، ایٹمی صلاحیت کو صرف ان تک محدود رہنا چاہیے۔ ان کے علاوہ کسی ملک کو ایٹمی ہتھیار بنانے کا حق نہیں ہے اور جو اس کی طرف پیشرفت کرے گا، وہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے جرم کا مرتکب ہوگا۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی قوانین بنائے گئے ہیں اور عالمی ادارے اس کی نگرانی اور تفتیش کے لیے مصروف عمل ہیں۔
ہم اس سے قبل اس بات کو بطور اصول تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں اور اس سلسلہ میں عملی طور پر ہمارا موقف یہ رہا ہے کہ اقوام متحدہ میں ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک کے علاوہ دوسرے ممالک بھی ایٹمی صلاحیت کے حصول کا حق رکھتے ہیں اور خاص طور پر عالم اسلام کا یہ جائز حق ہے۔ نیز جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کے عدم توازن کے باعث پاکستان کی یہ دفاعی ضرورت اور اس کی قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرے۔ اسی موقف کی بنیاد پر ہم نے ایٹمی پروگرام تشکیل دیا اور اسے تکمیل تک پہنچا کر ایٹمی دھماکہ کر دکھایا، ورنہ ایٹمی دھماکے کی منزل تک پہنچنے سے قبل عالمی برادری کے سامنے ہماری پوزیشن یہی تھی جو اس وقت ایران اور لیبیا کی ہے۔ انہی سائنس دانوں پر جنہیں آج دوسرے ملکوں کو ایٹمی راز منتقل کرنے کے جرم کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے، اس وقت یہ الزام تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کے لیے ایٹمی راز حاصل کیے ہیں اور ایٹمی ٹیکنالوجی اور آلات چوری کیے ہیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان پر اس حوالے سے باقاعدہ مقدمہ چلا جس میں پاکستان کے ممتاز قانون دان بالخصوص جناب ایس ایم ظفر ان کے دفاع میں پیش ہوئے۔ مغرب کے الزامات ایک ایک کر کے سامنے آتے رہے لیکن ہم نے کان لپیٹ کر انہیں سر کے اوپر سے گزر جانے دیا۔ یہی مغرب تھا، یہی الزامات تھے اور یہی دباؤ تھا، لیکن ہم نے سنی ان سنی کر دی اور مغرب کے واویلے کی طرف توجہ دیے بغیر ایٹمی دھماکے کی منزل تک جا پہنچے۔ لیکن آج صورتحال وہ نہیں ہے، آج ہم ان الزامات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، ہم نے اپنے سائنس دانوں کو ان الزامات کی بنیاد پر حراست میں لے رکھا ہے اور ڈی بریفنگ کے نام سے ان کی تذلیل کر رہے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کی خدمت میں چند گزارشات
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم نے ایٹمی صلاحیت پر پانچ ملکوں کی اجارہ داری کے بارے میں ان کا موقف تسلیم کر لیا ہے اور اپنے اس موقف سے دستبردار ہو گئے ہیں جس کی بنیاد پر پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنا تھا۔ اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جب ہم چند تسلیم شدہ ایٹمی طاقتوں کے دائرے سے باہر ایٹمی صلاحیت اور ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا وہ بین الاقوامی قانون تسلیم کر رہے ہیں جسے ہم نے ایٹم بم بنا کر عملاً مسترد کر دیا تھا، مگر اَب اس قانون کی رو سے ایٹمی ٹیکنالوجی کی منتقلی کو جرم تسلیم کر کے اسی کی بنیاد پر اپنے سائنس دانوں کے خلاف کارروائی کے لیے پر تول رہے ہیں، تو یہ صرف موقف سے دستبرداری نہیں ہے بلکہ ایٹمی صلاحیت سے دستبرداری کا فیصلہ بھی ہے، کیونکہ
- اگر ٹیکنالوجی اور آلات مبینہ طور پر ایران اور لیبیا کو دینا ’’جرم‘‘ ہے تو پاکستان کے لیے انہیں حاصل کرنا بھی اسی طرح کا جرم تھا۔
- اور اگر حکومتوں سے ہٹ کر ’’افراد‘‘ کا ایران اور لیبیا کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی اور آلات کی فراہمی کے لیے سرگرم عمل ہونا بلیک مارکیٹنگ ہے تو افراد کی سطح پر پاکستان کے لیے کیا جانے والا یہ عمل بھی ”بلیک مارکیٹنگ“ ہی کہلائے گا۔
اور جب ہم موقف کے حوالے سے ’’یوٹرن‘‘ کے اس مرحلے تک آجائیں گے تو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، ایٹمی ٹیکنالوجی اور آلات کی مجرمانہ منتقلی، اور ایٹمی صلاحیت کی بلیک مارکیٹنگ کی بنیاد پر حاصل ہونے والی ایٹمی صلاحیت کا ہمارے پاس کوئی جواز باقی نہیں رہے گا، اور اگر لیبیا کے ایٹمی پلانٹ کے آلات اور مشینوں کی طرح ہمارے ایٹمی اثاثے اور آلات واشنگٹن پہنچانے کے لیے ہوائی جہاز آ پہنچے تو اپنی ایٹمی صلاحیت کے تحفظ کے ہمارے دعوے ان کی پرواز کو روکنے کے لیے کسی سطح پر رکاوٹ نہیں بن سکیں گے۔
ہمارے نزدیک اس معاملے کا سب سے اہم اور نازک پہلو یہی ہے کہ ایٹمی صلاحیت پر چند ملکوں کی اجارہ داری کے نام نہاد اصول اور اس کے لیے بنائے گئے یکطرفہ بین الاقوامی قوانین کو تسلیم کر کے ہم اب تک کے اپنے قومی اور عملی موقف سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے لیے اس بات کی وضاحت ممکن نہیں رہے گی کہ اگر ایران یا لیبیا یا کسی اور ملک کو ایٹمی صلاحیت اور آلات فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی جرم، چوری اور بلیک مارکیٹنگ ہے تو پاکستان کے لیے بین الاقوامی قوانین اور نیٹ ورک سے ہٹ کر ایٹمی صلاحیت اور آلات کا حصول کیوں چوری اور بلیک مارکیٹنگ نہیں تھا؟ اس لیے ایٹمی سائنس دانوں کے خلاف کارروائی کے اس پس منظر اور جواز کو قبول کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔
(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۲ فروری ۲۰۰۴ء)
ڈاکٹر عبد القدیر خان کا ’’اعترافِ جرم‘‘
ڈاکٹر عبد القدیر کے ’’اعترافِ جرم‘‘ اور وفاقی کابینہ کی طرف سے سفارش کے بعد صدر پرویز مشرف نے ان کے لیے جس معافی کا اعلان کیا ہے، اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس سے مسئلہ نمٹ جائے گا اور ایٹمی پھیلاؤ کے مبینہ جرم کے ارتکاب کے حوالہ سے پاکستان کے خلاف جو الزامات عالمی سطح پر سامنے آرہے ہیں، ان کی شدت میں شاید اب کمی آجائے گی، لیکن دوسری طرف عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادعی نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر کا مبینہ اعتراف جرم اس وسیع جال کی پہلی کڑی ہے جو ایٹمی پھیلاؤ کے لیے دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے اور جس میں اور بھی بہت سے حقائق سامنے آنے کی توقع ہے۔ گویا جس بات کو ہم اس قضیے کا اختتام سمجھ رہے ہیں، وہ الزام عائد کرنے والوں کے نزدیک نقطہ آغاز کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے ابھی صورتحال یہی ہے کہ ’’آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا‘‘۔
قرآنی تعلیمات اور اسلامی تاریخ سے راہنمائی
یہ اتفاق کی بات ہے کہ آج جمعۃ المبارک کے خطاب کے لیے جب میں منبر پر بیٹھا اور قرآن کریم کی ورق گردانی کی کہ آج کے حالات کے مناسب کوئی آیت کریمہ تلاش کر کے اس کی روشنی میں کچھ معروضات پیش کروں تو چند اوراق آگے پیچھے کرتے ہوئے نظر سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۱۷ پر ٹک گئی جس میں اللہ تعالیٰ نے اسی نوعیت کے ایک واقعے کا تذکرہ فرمایا ہے اور ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے ہدایات بھی دی ہیں۔
دور جاہلیت میں قمری سال کے چار مہینوں رجب، ذی قعدہ، ذی الحج اور محرم کو حرمت والے مہینے سمجھا جاتا تھا اور ان مہینوں میں باہمی قتل و قتال اور دشمنیاں عارضی طور پر موقوف ہوجاتی تھیں۔ جبکہ سال کے باقی آٹھ مہینوں کے دوران قبائلی معاشرہ میں باہمی لڑائیوں کا بازار گرم رہتا تھا، دشمن قبیلوں کے علاقہ سے گزرنا ممنوع ہوتا تھا اور دشمن قبائل کے درمیان عملاً حالت جنگ رہتی تھی۔ قبائل کا یہ قانون اور رواج ابتدا میں مسلمانوں کے ہاں بھی قابل احترام تھا جبکہ بعد میں ان مہینوں کی حرمت والا قانون منسوخ ہو گیا، لیکن منسوخی سے قبل مسلمانوں کے ہاں بھی ان مہینوں کی حرمت کے بارے میں عرب روایات اور ضابطوں کی پابندی کا اہتمام ہوتا تھا۔
اس دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر جہاد کے لیے روانہ کیا۔ یہ لشکر جب اپنے ہدف پر پہنچا تو جمادی الاخریٰ کے آخری ایام تھے اور رجب کا آغاز ہونے والا تھا۔ امیر لشکر حضرت عبداللہ بن جحشؓ نے یہ سمجھ کر کہ جمادی الاخریٰ کا آخری دن ہے، دشمن پر ہلہ بول دیا۔ قتل و قتال بھی ہوا اور دشمن سے مال غنیمت بھی ہاتھ آیا، مگر اصل واقعہ یہ تھا کہ رجب کا چاند نظر آ چکا تھا اور یہ حملہ رجب میں ہوا تھا۔ اس پر مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈا کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور عرب روایات میں سے اس روایت کو توڑ دیا ہے جس کو وہ خود بھی تسلیم کرتے آ رہے ہیں، انہوں نے رجب کی حرمت توڑی ہے اور حرمت کے ضابطوں کو پامال کر دیا ہے۔ مشرکین مکہ نے اس بات کو بطور خاص اچھالا کہ ان کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ براہ راست دشمنی تھی۔ حضرت عبداللہ بن جحشؓ جب واپس آئے تو ان کی ”ڈی بریفنگ“ ہوئی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صورتحال کے بارے میں تفتیش کی تو انہوں نے پورے حالات سے آگاہ کر دیا اور عذر بھی پیش کر دیا کہ اس خلاف ورزی کی اصل وجہ غلط فہمی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنبیہ فرما کر معاملہ نمٹا دیا لیکن مشرکین مکہ کی طرف سے طعن اور اعتراض کا سلسلہ جاری رہا جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت میں چند اصولی باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔
اس آیت کریمہ میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حرمت والے ماہ رجب میں لڑائی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ اس کا کیا حکم ہے تو اے پیغمبرۖ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ حرمت والے مہینہ میں جنگ کرنا بڑی بات ہے، یعنی یہ غلطی ہے جس کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اعتراض کرنے والے اور طعنہ دینے والے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے جرائم تو اس سے کہیں زیادہ بڑے ہیں اور انہیں اس غلطی کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے بڑے بڑے جرائم کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں ان کے جرائم کا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے لوگوں کو روکنا، اللہ تعالیٰ کے دین کا انکار کرنا، مسجد حرام سے لوگوں کو روکنا، اور مکہ والوں کو ظلم و جبر کے ساتھ وہاں سے نکلنے پر مجبور کر دینا، (یہ) حرمت والے مہینہ میں لڑائی کی غلطی سے کہیں زیادہ بڑے جرم ہیں اور وہ فتنہ و فساد جو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف ہر طرف بپا کر رکھا ہے، وہ قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔
قرآن کریم کے اس اسلوب سے ہمیں یہ راہنمائی ملتی ہے کہ جہاں کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو اور اس وقت کے معروضی حالات میں اس کا اعتراف کرنا ضروری ہو تو اسے تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ غلطی کا الزام لگانے والوں کو ان کے جرائم بھی یاد دلائے جائیں اور تقابل کر کے انہیں بتایا جائے کہ ان کے جرائم انسانیت کے حوالہ سے، امن کے حوالہ سے اور اصول و اخلاقیات کے حوالہ سے زیادہ بڑے جرائم ہیں، اس لیے انہیں دوسروں پر اعتراض کرنے سے قبل اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے۔
عالمِ کفر کا اصل ہدف اور عالمِ اسلام کی ذمہ داری
اس کے بعد اسی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عالم کفر اور عالم اسلام کی باہمی کشمکش اور تنازع و اختلاف کے حوالہ سے ایک اور حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ کافر قومیں جب مسلمانوں کے خلاف معرکہ آرا ہوتی ہیں تو ان کا اصل ہدف وہ اعتراضات اور شکایات نہیں ہوتیں جن کا وہ اظہار کرتی ہیں، بلکہ ان کا حقیقی ہدف اور حتمی مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی طرح اپنے دین سے پھر جائیں اور اپنے عقائد اور اپنی روایات سے دستبردار ہوجائیں، اور جب تک عالم کفر کا یہ آخری ہدف حاصل نہیں ہو جاتا، ان کی یہ جنگ مسلمانوں کے خلاف جاری رہے گی۔ چنانچہ آیت مبارکہ کے اس حصے کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’یہ کافر تم مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے واپس نہ پلٹا دیں، اگر یہ بات ان کے بس میں ہو۔ ‘‘ اور پھر آیت کریمہ کا اختتام اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اس تنبیہ پر کیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین سے پھر گیا تو اس کے اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو جائیں گے اور یہ اس کے لیے سراسر خسارے کا سودا ہوگا۔
اس آیت کریمہ کے پس منظر میں ہم آج کے حالات، بالخصوص ایٹمی سائنس دانوں کے حوالہ سے صورتحال کا جائزہ لیں تو ہمیں چند امور کی واضح رہنمائی ملتی ہے:
- بین الاقوامی عرف و تعامل کا احترام ضروری ہے مگر اس وقت تک جب تک اس کے بارے میں قرآن و سنت کی کوئی ہدایت اس کے خلاف سامنے نہ آجائے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں بین الاقوامی عرف و تعامل کے احترام میں ہمیں تامل نہیں ہے، مگر یہ دو وجہ سے اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ یہ بین الاقوامی عرف و تعامل یا قوانین ایٹمی صلاحیت پر چند ملکوں کی اجارہ داری کو تسلیم کرنے کے اصول پر قائم ہیں جو انصاف اور قوموں کی برابری کے مسلمہ ضوابط کے منافی ہے۔ اور دوسرا اس وجہ سے کہ قرآن کریم نے سورۃ الانفال کی آیت ۶۰ میں مسلمانوں کو واضح حکم دیا ہے کہ وقت کی جدید ترین عسکری قوت کو حاصل کرو اور تمہاری عسکری صلاحیت اس درجہ کی ہونی چاہیے کہ عالمی تناظر میں قوت کا توازن تمہارے ہاتھ میں ہو۔ اس لیے ایسے کسی بین الاقوامی عرف و تعامل اور قانون کی پابندی ہم پر ضروری نہیں ہے جو قرآنی احکام سے متصادم ہو۔
- اگر کسی معاملہ میں کوئی غلطی سامنے آجائے جو اس وقت کے عالمی ماحول میں غلطی تصور کی جاتی ہو تو اس کو تسلیم کر لینے میں قباحت نہیں ہے، مگر اس کے ساتھ دشمن کو اس کے جرائم یاد دلاتے رہنا بھی ضروری ہے اور اعتراض و طعن کی زبان دراز کرنے والوں کے سامنے ان کے اعمال کا آئینہ رکھنا بھی ناگزیر ہے۔
- مسلمانوں کو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اسلام پر ان کے قائم رہتے ہوئے عالم کفر ان کے ساتھ کوئی رواداری اور مصالحت برت سکتا ہے، اور اسلام سے دستبرداری اختیار کیے بغیر مسلمانوں کے خلاف کافروں کی محاذ آرائی میں کوئی کمی آسکتی ہے۔ اس لیے ان کی ہر پالیسی اور حکمت عملی کا تعین اس بنیادی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے طے ہونا چاہیے۔
فردِ جرم عائد کرنے والوں کے اپنے جرائم
ڈاکٹر عبد القدیر خان نے جس ’’جرم‘‘ کا اعتراف کیا ہے وہ فی الحقیقت جرم ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، لیکن دو منٹ کے لیے اسے جرم تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس جرم کی سنگینی اور حجم اس قدر نہیں جو اسے جرم قرار دینے والوں کے اپنے جرائم میں پائی جاتی ہے۔ انسانیت کی تاریخ میں اس سے بڑا جرم کون سا ہوگا کہ
- مٹھی بھر افراد نے دنیا بھر کے وسائل پر قبضہ جمایا ہوا ہے،
- اقوام و ممالک کی آزادی اور خود مختاری پر پہرے بٹھا رکھے ہیں،
- سائنس، ٹیکنالوجی اور عسکری قوت و صلاحیت پر اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے،
- انسانی سوسائٹی پر آسمانی تعلیمات کی عمل داری کو قوت کے بل پر روک رکھا ہے،
- آسمانی تعلیمات کی نمائندگی کرنے والی ظاہری علامتیں بھی ان کی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہیں،
- اور انہوں نے ملکوں اور قوموں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے، تفتیش کرنے، فیصلہ سنانے اور اسے نافذ کرنے کے تمام اختیارات خود سنبھال لیے ہیں۔
تاریخ انسانی کے اس سب سے بڑے استحصال، اجارہ داری، جبر و تشدد اور جنگل کے قانون کے بارے میں بھی کسی کو حرکت میں آنا چاہیے، ان کی بھی ڈی بریفنگ ہونی چاہیے، اور ان کی بھی نقاب کشائی ہونی چاہیے اور اگر یہ کام ہم نے نہ کیا تو قانون فطرت تو بہرحال حرکت میں آئے گا، اور جب وہ حرکت میں آتا ہے تو جرم کرنے والے اور اس پر خاموش رہنے والے، دونوں اس کی گرفت میں ہوتے ہیں۔
(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۹ فروری ۲۰۰۴ء)
پاکستانی سائنسدانوں کو مجروح کرنے کا اصل مقصد
پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں پر ابتلا اور آزمائش کا جو دور گزر رہا ہے اس نے ہر محب وطن شہری کو الم و اضطراب سے دو چار کر رکھا ہے اور ذہنوں میں خودبخود یہ سوال ابھر رہا ہے کہ ایٹمی سائنسدانوں کے ساتھ اس سلوک کے بعد ایٹمی پروگرام اور صلاحیت کا مستقبل کیا ہوگا ؟ ڈاکٹر عبد القدیر سمیت ممتاز سائنسدانوں پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایٹمی پھیلاؤ جیسے ’’ناقابل معافی‘‘ جرم کا ارتکاب کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی بعض ملکوں کو منتقل کرنے میں حصہ لیا ہے۔
صرف بڑے ممالک ایٹم بم بنانے کے حقدار ہیں؟
ایٹمی پھیلاؤ امریکہ اور اس کی ہمنوا قوتوں کے لیے آج کے دور کا سب سے بڑا جرم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جن ممالک نے اس سے قبل ایٹم بن بنا لیا تھا اور ایٹمی کلب کے ممبر بن چکے ہیں ان کے علاوہ دنیا میں کسی اور ملک کو ایٹم بم بنانے کا حق نہیں ہے اور اگر کسی ملک نے ایٹم بم بنانے کی کوشش کی یا کسی نے ایسے ملک سے تعاون کیا تو وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ’’ایٹمی پھیلاؤ‘‘ کا مجرم ہوگا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس کے خلاف کسی بھی کاروائی کا حق حاصل ہے جو افغانستان اور عراق پر امریکہ کے مسلح حملہ اور قبضہ کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے۔ بلکہ عراق پر حملے اور قبضے کے لیے تو سلامتی کونسل کو اعتماد میں لینا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا اور امریکہ نے تکلف کا یہ لبادہ بھی اتار کر ایک طرف رکھ دیا، اس لیے اب یہ امریکہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ جس ملک کو چاہے ’’بدمعاش ریاست‘‘ قرار دے دے اور جسے چاہے اس کے ساتھ تعاون کے الزام میں مجرم ٹھہرا دے ۔اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لیبیا نے ایٹمی پروگرام سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے اور بہت سے ایٹمی آلات امریکہ کے سپرد کر دیے ہیں جبکہ ایران پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے لیے بھی اس دباؤ کا زیادہ دیر تک سامنا کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
عالمِ اسلام سے امتیاز اور بھارت و اسرائیل کی پشت پناہی
یہ واضح طور پر چند بڑے ملکوں کی دھاندلی ہے کہ وہ خود تو ایٹم بموں کے انبار لگائے بیٹھے ہیں اور ان کی شہہ پر اسرائیل اور بھارت بھی ایٹم بموں کا ذخیرہ کیے ہوئے ہیں لیکن مسلم ملکوں کے لیے انہوں نے یہ مستقل پالیسی طے کر رکھی ہے کہ دنیا کا کوئی مسلم ملک ایٹمی قوت نہ بننے پائے، اسی وجہ سے پاکستان کا ایٹم بم ان کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکتا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے اس بات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ہاتھ ڈالنے کا موقع ملے اور اسے اگر ختم نہ کیا جا سکے تو بین الاقوامی نگرانی کے نام سے امریکہ کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔
مسلم دنیا کو ٹیکنالوجی سے محروم رکھنے کی مربوط منصوبہ بندی
پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں پر مذکورہ الزام، ان کی مسلسل کردارکشی اور انہیں حراست میں لینے یا گھروں میں محدود کر دینے کی حالیہ کاروائیاں بادی النظر میں اسی مہم کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ اور اس سے جہاں پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں وہاں یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمانوں اور عالم اسلام کے پیچھے رہ جانے کی وجہ صرف مسلمانوں کی سستی اور غفلت نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے مغربی ملکوں کی منظم اور مربوط منصوبہ بندی کار فرما ہے جس میں مسلم ممالک کے حکمران بھی مسلسل شریک ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ملک و قوم کے عظیم محسن اور ہیرو شمار ہونے والے سائنس دانوں کے ساتھ اس قسم کا معاملہ ہوگا تو کون اپنے بچوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم دلانے میں خوش ہوگا؟ اور جب بین الاقوامی قوانین کی آڑ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے باہمی تبادلہ کی راہیں اسی طرح مسدود رہیں گی تو دنیا کا کون سا ملک اس سمت آگے بڑھنے کا حوصلہ کر سکے گا؟ اس لیے عالم اسلام کو ایٹمی صلاحیت سے محروم رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کو جدید ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنا اور عالم اسلام میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کی حوصلہ شکنی بھی اسی منصوبہ بندی کا ایک اہم حصہ ہے جس کا مشاہدہ ہم کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں۔
مسلم حکومتوں کا افسوسناک کردار
اس سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوسناک کردار مسلم دنیا کے حکمرانوں کا ہے جو مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں بیٹھ کر ملت اسلامیہ کی نمائندگی اور مسلمانوں کے جذبات کی پاسداری کرنے کی بجائے مسلم ممالک میں مغرب کے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں اور یہی آج دنیا بھر کے سوا ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ مسلم دنیا کے دانشوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور ملت اسلامیہ کو اس مخمصہ سے نکالنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عالم اسلام کی راہنمائی کریں۔