سارا فساد شریعت کی تعلیمات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ہے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی و نسلم علیٰ رسولہ الکریم اما بعد۔
ایک دلخراش واقعہ پیش آیا ہے بلوچستان میں، اور اس طرح کے واقعات صرف بلوچستان میں نہیں، خیبرپختونخوا میں، پنجاب میں، سندھ میں ہر جگہ پیش آتے رہتے ہیں، وقتاً فوقتاً پیش آتے ہیں کہ کوئی جوڑا اگر پسند کی شادی کر لیتا ہے تو دونوں کو یا کم از کم لڑکی والے اپنی لڑکی کو قتل کر دیتے ہیں۔ تو اسی طرح کا یہ واقعہ پیش آیا کہ لڑکی کے ہاتھ میں پہلے قرآن ہے، وہ قرآن اس سے چھینا گیا، اور اسے دیوار کی طرف چلایا گیا، ایک خاص جگہ کھڑا کیا گیا، آس پاس چند گاڑیاں ہیں، کچھ لوگ اسلحہ بردار موجود ہیں، اور اسے گولیوں سے بھون دیا گیا۔
تو یہ دلخراش واقعہ ہمارے معاشرے کا وہ ایک المناک رخ ہے کہ جس پر آدمی کو شرم آتی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے دین کی تعلیمات بڑی پاکیزہ، بڑی عمدہ، بڑی پیاری تعلیمات ہیں۔ اگر والدین اور اولاد دونوں ان تعلیمات کو پیش نظر رکھ کر اس طرح کے معاملات نمٹائیں شادی بیاہ کے، نکاح کے، تو کسی قسم کی الجھن پیدا نہ ہو۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلہ میں فریقین افراط و تفریط کا شکار ہیں۔
اولاد بعض اوقات سکول کالج کے ماحول میں، یا ویسے بے پردگی اور عریانی کے ماحول میں وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں، جو چند روزہ ہوتی ہے اور اس کے بعد پھر ختم ہو جاتی ہے، اور وہ لڑکی کسی غلط جگہ پھنس جاتی ہے اور اس کے بعد اس کے لیے نہ واپسی کا راستہ ہوتا ہے، نہ شوہر اس کو صحیح طریقے سے رکھ رہا ہوتا ہے، وہ اس پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے، لیکن لڑکی مجبور ہوتی ہے، کئی دفعہ خودکشی تک کے واقعات پیش آتے ہیں۔ تو اولاد کو اپنے والدین پر اعتماد کرنا چاہیے نکاح اور رشتہ کے سلسلہ میں۔ والدین کا تجربہ ہوتا ہے، والدین اپنی اولاد کے لیے خیرخواہ ہوتے ہیں، اور ان کے مشورے سے ہی اس طرح کے امور طے ہونے چاہئیں، اسی میں اولاد کا فائدہ ہے۔
البتہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ لڑکی یا لڑکے کی عمر زیادہ ہو رہی ہوتی ہے اور والدین اپنی خودساختہ شرطوں میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں، یا برادری ازم میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں، اور کتنا معقول رشتہ لڑکا یا لڑکی بتا رہی ہو کہ فلاں جگہ مجھے شادی کرنی ہے، لڑکا پڑھا لکھا ہے، لڑکا دیندار ہے، سیرت اور کردار والا ہے، خوش اخلاق ہے، اچھی کمائی کرتا ہے، لیکن چونکہ ہماری برادری کا نہیں ہے اس لیے ہم نہیں کریں گے۔ اور لڑکیاں بعض اوقات چالیس چالیس سال کی عمر تک پہنچ جاتی ہیں۔ اور اسی طرح یا جہیز اتنا نہیں دے سکتا، یا اس کے پاس ذاتی مکان نہیں ہے، یا فلاں فلاں چیزیں نہیں ہیں، تو اس لیے ہم رشتہ نہیں کر سکتے اور چالیس چالیس سال تک اپنی بیٹیوں کو بٹھائے رکھتے ہیں۔ وہ نفسیاتی مریضہ ہو جاتی ہیں، وہ بڑھاپے میں داخل ہو جاتی ہیں، اور وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی ہوتی ہیں۔ تو یہ والدین کی طرف سے بھی بہت ہی زیادتی کا معاملہ ہوتا ہے۔
اگر لڑکی نے کوئی معقول رشتہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگرچہ لڑکے اور لڑکی کا خلوت میں بیٹھنا اور اس طرح نکاح کے بغیر دوستیاں لگانا، یہ ناجائز اور حرام ہے، حدیث میں آتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہیں بیٹھتا مگر تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ اور جب عورت بے پردہ باہر نکلتی ہے تو ’’استشرفھا الشيطان‘‘ شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے، لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ تو یہ جو پردہ ہے، حیا ہے، یہ عورت کی حفاظت کے لیے ہے، عورت کی عزت کی حفاظت کے لیے ہے، اس پر اولاد کو عمل کرنا چاہیے، وہ اگر اس میں کوتاہی کریں گے تو گناہگار ہوں گے، اور اس طرح کے غلط رویوں کا نتیجہ بھی پھر غلط نکلتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود فقہ حنفی میں اگر بالغ لڑکا اور لڑکی آپس میں رضامندی سے نکاح کریں، اور نکاح کی شرائط موجود ہوں، دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو، تو ایسی صورت میں وہ نکاح باطل نہیں ہوتا۔ وہ نکاح، نکاح ہوتا ہے۔ اور ایسی صورت میں اس طرح کے کسی جوڑے کو قتل کرنے کا شریعت کا کوئی حکم نہیں ہے، یہ ظلم اور زیادتی ہے، یہ قتلِ عمد ہے۔ اس میں لوگوں کو اور دونوں فریقوں کو شریعت کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے اور اس طرح کا ظلم و ستم اب بند ہو جانا چاہیے۔
ریاست کہاں کھڑی ہے، جہاں اس طریقے سے لوگوں کو بے دردی سے سرِ عام ایک میدان میں ایک صحرا میں قتل کیا جا رہا ہے، یا کسی آبادی میں قتل کیا جا رہا ہے، بعض اوقات لوگ گھروں میں گھس کر ایسے جوڑے کو قتل کر دیتے ہیں، تو ریاست کو بھی اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، وہ ایسے مجرموں کو پکڑیں اور قتلِ عمد کی سزا میں ان کو قتل کی سزا جاری کرے، تاکہ ہمارے ملک سے اس طرح کے جرائم کا خاتمہ ہو اور اس طرح کے ظلم و ستم کا خاتمہ ہو۔
ہم سب کو اس طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ سب اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور شریعت کی تعلیمات پر عمل کریں، یہ سارا فساد شریعت کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ سب اگر شریعت کی تعلیمات پر عمل کریں گے تو سب کا اس میں فائدہ ہے، دنیا میں بھی سکون ہے، آخرت کی زندگی بھی کامیابی والی زندگی ہو گی۔ اور اس کے بغیر ہمارے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے، آخرت میں بھی رسوائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے پر رحم فرمائے، اور سب کو دین کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
https://youtu.be/eUtfYg4ydh4
فساد کے اِس دور میں بچوں کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں
سوال: ہمارے قاری صاحب ہمیں آنکھوں پہ پٹی باندھ کر قمیص اتار کر گیس کے پائپ سے مارتے تھے (اللہ ہدایت دے یار۔ مفتی صاحب) اب میں سوچتا ہوں تو غصہ بہت آتا ہے، کیا ان کے خلاف ذاتی کاروائی کر سکتا ہوں؟
جواب: اپنے قاری صاحب کے خلاف فی الحال تو کاروائی نہ کریں لیکن یہ تحقیق کریں کہ ابھی بھی اگر وہ یہ کام کر رہے ہیں دوسرے بچوں کے ساتھ تو پھر ان بچوں کے ماں باپ کو بتائیں کہ اِن کو سمجھائیں، نہیں سمجھاتے، ایف آئی آر کٹائیں، ویڈیو بنا کر تھانے میں جا کر ایف آئی آر کٹائیں۔
اسلام میں بڑوں سے زیادہ حقوق کس کے ہیں؟ بچوں کے۔ بچے کو صدقہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، آپ اندازہ لگا لو، کیونکہ اس کا مال ذاتی مال ہے، آپ اس سے صدقہ نہیں کروا سکتے، کیونکہ اس کا پیسہ ضائع ہو رہا ہے، شریعت کہتی ہے بالغ ہو گا عقل ہو گی پھر مانیں گے، ابھی اسی کے لیے رکھے جائیں یہ پیسے۔ تو مارنے کی کہاں سے اجازت ہو گئی میرے بھائی؟ اور درندوں کی طرح بعض قاری لوگ کوٹتے ہیں۔
تو اس لیے مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ قاری بچوں کو مار سکتا ہے؟ میں جواب میں کہتا ہوں اس زمانے میں مارنا تو دور کی بات، کسی قاری کو استاذ کو، چھوٹے بچے کی بات کر رہا ہوں، مارنا دور کی بات، ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ صرف سر پہ پیار کرے، بس۔ سر پہ ہاتھ رکھے، بس۔ باڈی کو بھی ٹچ کرنے کی اجازت نہیں ہے، یہ فساد کا دور ہے۔ تو کسی بھی مسجد میں مدرسے میں سکول میں کہیں بھی ایسا ہو رہا ہے کہ قاری صاحب بچے کو تھپڑ مار رہا ہے، ماں باپ بولیں بھئی آپ کو پرمیشن نہیں دی ہاتھ لگانے کی۔ ٹھیک ہے وہ اب فتویٰ لائیں گے جائز ہے، میں ان فتووں میں نہیں پڑ رہا، میں بات کر رہا ہوں کس کی؟ اس زمانے کی۔ قطعاً اجازت نہیں ہے، کیونکہ اس کی کوئی لمٹ نہیں ہے، آپ نے ایک تھپڑ کی اجازت دے دی، وہ دو چار دس، کوٹتا ہے، وہ اپنی ٹھرک نکالتا (ہے)، ہاتھ پاؤں ٹوٹتے ہوئے دیکھے ہیں میں نے قاریوں کے ہاتھوں بچوں کے۔
ایک بچے سے میں ملا، سنتا ہی نہیں ہے، بڑا ہو گیا ہے اب تو، شادی ہو گئی، اس کے بچے ہو گئے، سنتا ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا، کیا ہوا، سماعت کیوں کمزور ہے؟ کہہ رہے ہیں، قاری نے ایک تھپڑ مارا تھا اتنی زور سے، کانوں کی سماعت چلی گئی۔ تو اس لیے۔
سارے قاری ایسے نہیں ہوتے، ہم نے بھی قاریوں سے پڑھا ہے، اللہ کا شکر ہے کبھی نہیں تھپڑ مارا۔ میں نے جس مدرسے میں پڑھا ہے، کبھی نہیں مار پڑی۔ صرف ایک دفعہ پڑی تھی، مجھے آٹھ سال میں ایک تھپڑ پڑا تھا، اتنا تو حق بنتا ہے، وہ تو دو چار پڑتے، ہم تو اور۔ ہمیں تو خوشی ہوتی تھی ہمارے استاذ ماریں، کیوں؟ ہمارے استاذ ہی اتنے نرم دل ہمیں ملے، اتنے پیارے پیارے سویٹ سویٹ سے استاذ تھے کہ وہ تو ہمیں مارتے تو ہمیں خوشی ہوتی یار اس سے فائدہ بھی تو ہوتا ہے نا۔ لیکن ایسے استاذ مارکیٹ میں بھی تو شارٹ چل رہے ہیں۔ تو مجھے ایک تھپڑ پڑا ہے، طالب علمی، مدرسے کی بات کر رہا ہوں۔ استاذ بھی پٹھان، پٹھان ٹیچر تھے، بڑے سخت تھے، پورے دورہ حدیث تک انہوں نے ایک تھپڑ مارا، وہ بھی گردن پہ۔ وہ بھی کیسے مارا؟ دورہ حدیث کا پرچہ، دورہ حدیث نہیں، اس سے پہلے جو موقوف علیہ ہوتا ہے، میں ایسے تیاری کر رہا ہوں رات کو حاشیے دیکھ رہا ہوں، صبح پیپر ہے، ایک دم ایک غیبی آواز آئی نا، تو مجھے لگا، پہلے میں سمجھا کوئی فرشتوں کی آواز ہے کہیں سے، پھر مجھے لگا کہ کچھ محسوس سا ہوا یہاں (گردن) پر۔ لیکن تکلیف بعد میں ہوتی ہے، سنتا پہلے ہے۔ تکلیف کی سپیڈ سے آواز کی سپیڈ تیز ہے۔ تو مجھے یہ بھی اندازہ ہو گیا اس دن کہ تکلیف محسوس کرنے کی سپیڈ سے جو آواز کی سپیڈ ہے، دیکھو سائنسدان اسی طرح تو فارمولے نکالتے ہیں۔ تو میں نے دیکھا یہ ہوا کیا ہے؟ تو میرے استاذ کھڑے ہوئے تھے، انہوں نے گردن پہ ایک رکھ کے لگایا۔ انہوں نے کہا پورے سال تمیز سے محنت کرتے نا تو اس وقت ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے نہیں (ہوتے)۔ انہوں نے دیکھا نا کہ۔ ہمیں ذرا بھی نہیں دل میں، ہمیں تو خوشی ہوتی تھی یار ہم ویسے کہاں سے بخشے جائیں گے بھئی۔ تھوڑا سا استاذوں سے پٹ جائیں تو شاید اللہ بخشش کر دے۔ تو ہمیں تو خوشی ہوئی، بس وہ ایک لگا تھا۔
اور ایک سزا ملی ہے مجھے دورہ حدیث میں۔ دورہ حدیث میں آدمی پورا مولانا بن چکا ہوتا ہے۔ ہو یہ رہا تھا کہ ہم رات کو مطالعہ کرتے تھے، صبح کوئی طالب علم کتاب اٹھا کر کہیں اور رکھ دیتا تھا، وہ صفائی والا۔ کتاب ہی نہیں ملتی تھی، دو چار دفعہ ایسا ہوا، سبق میں بیٹھے ہوئے ہیں، کتاب ہی نہیں ہے۔ وہ کتاب صفائی والا پتہ نہیں کہاں رکھ دیتا تھا۔ تو ہم چار طالب علم تھے دورہ حدیث میں، چاروں کے پاس کتاب نہیں ہے۔ تو ہمارے استاذ نے دو دن تین دن تنبیہ کی، اس کے بعد ہم چاروں کو مرغا بنا دیا۔ اب اچھے بھلے بڑے مرغے تھے۔ ہم چاروں بنے ہوئے ہیں مرغا۔ بس، تھوڑی دیر بنائے رکھا، پھر ڈانٹا، بولے انسان کے بچے بنو، کتاب، تو پھر ہم کتاب لا کر بیٹھتے تھے، بس۔
اور ایک اور یاد آ گئی مجھے ایک سزا۔ وہ سزا یہ تھی کہ، روزانہ میرا واش روم کا ٹائم اس وقت تھا جب کلاس شروع ہوتی تھی۔ ایک دن دو دن ہو گئے استاذ نے دیکھا روز لیٹ آ رہا ہے، میرا ٹائم، سیٹنگ ہی ایسی ہو گئی تھی۔ تو مجھے استاذ نے تھوڑی دیر کھڑا رکھا کہ آپ کو اب آنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ وہ بھی پٹھان استاذ تھے۔ بس اتنا۔ پھر بھی ہم ٹوٹا پھوٹا پڑھ ہی لیے نا یار۔ خوامخواہ میں جنگلیوں کی طرح کوٹنا پیٹنا مارنا، اس سے بچے کے اخلاق خراب ہوتے ہیں۔
اور ایک اور واقعہ میں بار بار سناتا ہوں، یہ بعض ٹیچر اور استاذ کہتے ہیں کہ بچے مار کے بغیر پڑھتے نہیں ہیں۔ یہ بھی ہنڈرڈ پرسنٹ غلط ہے۔ ایک مدرسے میں، میں نے چند دنوں کے لیے پڑھایا، بلکہ چند دن نہیں چھ سات مہینے کے لیے پڑھایا۔ میرے پاس پچاس بچے تھے چھوٹے چھوٹے پدے پدے، اتنے اتنے سے۔ یعنی ایک کلاس کے دو حصے تھے، سیکشن اے سیکشن بی ہوتا ہے نا، تو پچاس بچے میرے پاس، پچاس بچے اسی کلاس کے سامنے ٹیچر کے پاس۔ اور کتابیں دونوں کی سیم (same)۔ میں نے چھ سات مہینے میں نہ کسی کو تھپڑ مارا ہو گا، نہ کسی کو ڈانٹا ہو گا، مزے سے گپ شپ لگا کے لطیفے سنا سنا کے ان کو میں نے پڑھا دیا۔ سامنے ٹیچر، روزانہ بچے پٹ بھی رہے ہیں، کوئی مرغا بنا ہوا ہے، کوئی ایک ٹانگ پہ، کوئی ہیلی کاپٹر، کوئی بغیر کرسی کے بیٹھا ہوا ہے، سمجھ رہے ہیں؟ اور میرے بچوں کا رزلٹ بھی وہی جو ان کے بچوں کا رزلٹ۔
میں نے کہا، الگ الگ بھی مدرسہ بھی ہوتا نا، میں کہتا اس مدرسے کے بچے نالائق ہیں۔ یا الگ الگ کلاسیں ہوتیں، یا الگ الگ کتابیں ہوتیں تو کوئی کہہ سکتا تھا بھئی وہ کتاب ایسی ہے جو مار کے بغیر نہیں پڑھائی جا سکتی، اور یہ کتاب ایسی ہے جو مار کے بغیر پڑھائی جا سکتی ہے۔ میں نے کہا، میرا ایمان اور مضبوط ہو گیا، یہ جو کہتے ہیں نا مار کے بغیر بچے پڑھتے نہیں ہیں، یہ ان کی اپنی ٹھرک ہوتی ہے، گھر میں بیوی کے ساتھ ان کا جھگڑا ہوتا ہے، مسائل ہوتے ہیں، یا یہ خود اتنے پٹے ہوتے ہیں بچپن میں، کہ وہ پٹائی آگے پارسل کر رہے ہوتے ہیں۔
تو ہم نے تو پڑھایا ہے بھئی، ایسے بچے، چٹکلے سناتا تھا، ہنستے تھے، پھر پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔ بچوں کو بچوں کے سٹائل میں پڑھانا پڑتا ہے۔ میں ترنم سے پڑھاتا تھا بچوں کو۔ ترنم سے، ایسی سر لگا کر، لے لگا کر، بچے بھی وہی لے میں یاد کرتے تھے۔ تو آپ کی اپنی بد اخلاقی ہوتی ہے، آپ کی اپنی ٹھرک ہوتی ہے، آپ سمجھتے ہو کہ بچے مار کے بغیر پڑھیں گے نہیں۔ بچے پہ ہاتھ اٹھایا اگر آپ نے، بچہ معاف بھی کرے گا تو وہ معاف۔ دیکھو بڑے کو آپ نے تھپڑ مار دیا نا، آپ نے سوری کی، اس نے کہا میں نے معاف کیا، اللہ کیا کر دے گا؟ معاف۔ لیکن آپ نے بچے کو مارا نا، بچہ سو دفعہ کہے میں نے معاف کیا، اللہ کہتا ہے بچے کی معافی کا شریعت میں اعتبار نہیں ہے۔ ہے ہی نہیں اعتبار۔
اس لیے بچے کے حقوق بہت زیادہ ہیں بھئی! بچے پہ صرف ماں باپ ہاتھ اٹھا سکتے ہیں، اور ماں باپ کی پرمیشن سے جو ان کے قریبی رشتہ دار ہیں، جو خاندان کے بڑے ہوتے ہیں، باقی کوئی بھی بچے پہ ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔