غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟

پچیس جولائی 2025 کو مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے دوحہ میں جاری حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی مذاکرات کی اچانک ناکامی کا اور اپنی ٹیم کو دوحہ سے واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ اس نے مذاکرات کی ناکامی کا سارا الزام حماس کے سر ڈال دیا۔ اس کے بعد امریکی صدر ٹرمپ، جس نے ہفتہ عشرہ قبل خود اپنی طرف سے یک طرفہ جنگ بندی کا پیشگی اعلان کیا تھا، نے رعونت بھرے لہجے میں کہا کہ:

"حماس موت چاہتی ہے اور اسرائیل کو اب اسے ختم کر دینا چاہیے" (They wanna death, Israel should finish the job)

جبکہ حماس اس بار بھی اور اس سے قبل بھی کئی بار مذاکرات کی شرائط مان چکی تھی، البتہ ایک دو شقوں میں اس نے کچھ ترمیم چاہی تھی مگر اسٹیو وِٹکوف اور خود ٹرمپ بھی سو فیصد اسرائیلی خواہشات کے غلام بنے ہوئے ہیں اس لیے اسی کے بیانیہ کو بلا چون و چرا تسلیم کر کے وائٹ ہاؤس کے ترجمانوں کے ذریعے اس کو پھیلا رہے ہیں۔

ساری دنیا جانتی ہے اور خود اسرائیل کے دو سابق وزرائے اعظم ایہود باراک اور ایہود اولمرٹ بھی جنگی مجرم نیتن یاہو کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں۔ لیکن امریکی انتظامیہ کو غزہ کے لاکھوں معصوموں کی جان کی فکر نہیں، وہ تو بس مجرم نیتن یاہو کو ہر قیمت پر اس کے جرائم سے بچانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کو دھمکیاں دی گئیں۔ اس عدالت کے چھ ججوں پر پابندی لگائی گئی اور تو اور خود اسرائیلی کورٹ میں مجرم نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے کیسوں کی شنوائی کو مؤخر کروا دیا گیا۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کس مجرمانہ ذہنیت کے ساتھ جنگی جرائم اور نسل کشی کے مجرم نیتن یاہو کی حمایت اندھا بہرا ہو کر کر رہا ہے۔ اب فرانس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا تو امریکہ اور اسرائیل دونوں نے بلا تاخیر اس کے اعلان کو سبوتاژ کر دینے کی مجرمانہ کوشش شروع کر دی۔

جنگ بندی مذاکرات بار بار صرف نیتن یاہو کی ضد کی وجہ سے ناکام ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خود اسرائیلی فوجی حکام بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ غزہ میں اپنے اہداف پورے کر چکے اور اب سیاسی قیادت کو فیصلے کرنے چاہییں۔ اسرائیل میں لیفٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں نیتن یاہو کی جنگ بازی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں مگر امریکی سرپرستی اور آشیرواد کی وجہ سے اور خطہ میں عرب حلیفوں کی خفیہ اور علانیہ حمایت کے باعث نیتن یاہو غزہ کے دو ملین لوگوں کی جان لینے پر تلا ہوا ہے۔

غزہ میں یہ مذاکرات بار بار صرف نیتن یاہو کی ضد کی وجہ سے ناکام ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دو ملین فلسطینی بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے ہیں۔ غزہ میں وحشت ناک حد تک بھکمری، دواؤں کی قلت اور خوراک کی کمی ہو چکی ہے جس کی وجہ سے بچے اور بوڑھے اور مریض بلک بلک کر جان دے رہے ہیں۔ دو سال سے غزہ کے لوگوں نے گوشت نہیں چکھا ہے مگر دنیا کے لوگ ان کا گوشت کھا رہے ہیں۔ چاروں طرف سے اسرائیل کا محاصرہ ہے۔ چھ ہزار امدادی ٹرک مختلف کراسنگز (رفح بارڈر، معبر کرم ابو سالم، فلاڈیلفیا کوریڈور وغیرہ) پر مہینوں سے امدادی سامان لیے اسرائیلی اجازت کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ ان پر جو غذائی سامان لدا ہوا ہے وہ اب خراب ہونے لگا ہے۔ 

یو این او کی امدادی ایجنسی اونروا کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کم از کم دو ملین لوگوں کی غذائی ضرورت دو مہینے تک پوری کرنے کا سامان موجود ہے مگر اس کو امریکہ اور اسرائیل امدادی خدمات انجام ہی دینے نہیں دیتے۔ اس بہانے سے کہ اس کے ذریعے حماس کے لوگوں تک یہ سامان پہنچ جائے گا۔ اونروا پر حماس کا ساتھ دینے کا یہ الزام سراسر بے بنیاد ہے۔ یہاں تک کہ 26 جولائی کو خود امریکہ کی متعین کردہ تفتیشی ایجنسی نے اونروا کو کلین چٹ دی اور کہا کہ اس کو کوئی شواہد نہیں ملے کہ حماس نے بین الاقوامی امدادی سامان کی چوری کی ہو یا اونروا کسی غلط مقصد کے لیے استعمال ہوئی ہو۔ 

اس کے مقابلہ میں غزہ ہیومینٹیرین ایڈ (GHA) نامی جس ادارے کو امریکہ اور اسرائیل نے سیٹ کیا ہے وہ غزہ کے لوگوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔ وہ وہاں امداد لینے جاتے ہیں اور ان پر اسرائیلی فوجی فائر کھول دیتے ہیں۔ اب تک ایک ہزار لوگوں کو اس طرح سے شہید کیا جا چکا ہے۔ مصر کی شقاوت اور جنرل سیسی کی بدبختی ہے کہ اس نے اسرائیلی کنٹرول سے باہر واحد کراسنگ رفح بارڈر کو بھی بند کر رکھا ہے۔ اور شیخ الازہر نے اسرائیل کے خلاف اور غزہ کے حق میں جو فتویٰ جاری کیا تھا اسے بھی سیسی کے دباؤ میں واپس لینا پڑا ہے۔

مصریوں کی اس بے حسی و بے غیرتی پر شدید دکھ کا اظہار عرب سوشل میڈیا پر جب شروع ہوا تو سیسی کے خلاف ہیش ٹیگ مہم چلی۔ مظاہرین نے نعرے لگائے: "حکومت عربیہ یا للعاہ! باعوا غزۃ بالدولار" (عرب حکومتیں ہائے ہائے، انہوں نے غزہ کو ڈالروں کے لیے بیچ ڈالا) تو شاید مصریوں کو کچھ غیرت آئی اور انہوں نے رفح بارڈر سے 167 امدادی ٹرک غزہ کے اندر بھجوائے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کی مصداق تھے۔

دنیا بھر میں، یورپ و امریکہ میں، افریقہ کے عرب مسلم ملکوں تیونس، الجزائر وغیرہ میں لوگ اب بھی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر آ رہے ہیں اگر کہیں سکوت طاری ہے تو وہ ہیں ترکی، سعودی عرب، امارات، اردن اور بحرین، انڈونیشیا و ملیشیا اور پاکستان وغیرہ۔ قطر اور مصر ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ 

امریکہ میں مقیم عرب امریکیوں کی ٹرمپ کی حمایتی سیاسی تنظیم (عرب امریکہ من اجل ٹرمپ) کے فلسطینی نژاد صدر بشارہ بحبوح جو ٹرمپ انتظامیہ سے قربت رکھتے ہیں وہ بھی ان مذاکرات کا حصہ ہیں اور دوحہ میں موجود ہیں۔ انہوں نے العربیہ چینل کو حال ہی میں تفصیلی انٹرویو دیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بشارہ بحبوح کی رائے میں عرب ممالک ٹرمپ انتظامیہ کو اپنا یہ موقف پہنچا چکے ہیں کہ ان کو فلسطینیوں کی جبری مہاجرت قابل قبول نہیں ہو گی لہٰذا اب ٹرمپ اس پر اصرار نہیں کریں گے۔ اور ان کی کوشش ہو گی کہ اسرائیل کو کسی طرح منا کر کسی طرح کی ایک فلسطینی ریاست قائم کر دی جائے (جو اسرائیل کے لیے بالکل بے ضرر ہو)۔ بشارہ بحبوح نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ غزہ کے مذاکرات کو کسی سیاسی ایشو کے بطور نہیں بلکہ اقتصادی فائدہ کے سودے کے طور پر دیکھتی ہے وہ تبھی اس کو کامیاب کرائے گی جب اس کو اس میں کوئی اقتصادی فائدہ دکھائی دے گا۔ حماس کو آگے بڑھ کر اس کی شرائط مان لینی چاہییں کیونکہ کسی سیز فائر میں دیری سے امریکہ یا اسرائیل کا نقصان نہیں حماس کا اور فلسطینیوں کا نقصان ہے ان کو بہت بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ممکن ہے کہ اسٹیو وِٹکوف کی اچانک پلٹی مارنا جبکہ اسرائیل بھی حماس کے جواب کو غور کے قابل قرار دے چکا تھا، شاید حماس پر مزید دباؤ بنانے کے لیے ہو۔ 

جبکہ کچھ عرب چینلوں پر بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ ایسی کوئی خیر سگالی غزہ والوں کے لیے نہیں دکھائیں گے اور چونکہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ اب وہ اس کام کے لیے خصوصی امریکی کمانڈوز وہاں بھیجیں یا ایف بی آئی کے ذریعے سے کوئی خفیہ بڑی کارروائی کروائیں اور حماس کو بالکل ختم کرنے کی کوشش کریں۔ 

ان سطور کے لکھنے تک اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے اور غالباً ٹرمپ کے اشارہ پر اسرائیل نے محاصرہ میں تھوڑی نرمی دکھائی اور کچھ وقت کے لیے راستے کھول دیے اور تقریباً ایک ہزار امدادی ٹرکوں کو اندر آنے کی اجازت دی۔ امارات اور اردن نے ریلیف کا کچھ سامان فضا سے بھی غزہ میں پھینکا ہے جس میں کئی لوگوں کی جان چلے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو رہی؟ — ایک تجزیاتی نظر

1- اسرائیلی سیاسی قیادت کے اہداف

اسرائیل کی موجودہ حکومت، بالخصوص وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، اپنے سیاسی مستقبل اور اندرونی دباؤ سے نمٹنے کے لیے جنگ کو طول دے رہی ہے۔ نیتن یاہو پر بدعنوانی کے الزامات ہیں اور اسے عوامی احتجاجات کا سامنا ہے، اور جنگ کی موجودگی اس کے لیے "قومی سلامتی" کے نام پر سیاسی بقا کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔

2- مکمل ہدف کا حصول (حماس کا خاتمہ)

اسرائیل کا سرکاری موقف یہ ہے کہ جنگ کا مقصد حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ جب تک یہ ہدف پورا نہیں ہوتا، اسرائیل جنگ بندی کو ایک "ادھورا کام" تصور کرتا ہے۔ تاہم، ماہرین کا ماننا ہے کہ حماس جیسی تنظیم کو مکمل طور پر ختم کرنا زمینی حقائق کے برعکس ایک خواب ہے۔

3- امریکی حمایت اور بین الاقوامی دوہرا معیار

اگرچہ دنیا کے کئی ممالک جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن امریکہ اب تک اسرائیل کو فوجی امداد بھی فراہم کر رہا ہے اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو بھی کرتا رہا ہے۔ یہ عملی حمایت اسرائیل کو جنگ جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ وہ کتنا ہی انسانیت کے خلاف جرائم کرے فوری طور پر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

4- حماس کے مطالبات اور اسرائیلی انکار

حماس کی طرف سے مستقل جنگ بندی کے لیے شرائط رکھی گئی ہیں — مثلاً غزہ سے فوجی انخلا، معاشی محاصرہ ختم کرنا اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینی قیدیوں کی رہائی — جنہیں اسرائیل فوری طور پر ماننے کو تیار نہیں۔ اس فاصلے کی وجہ سے جنگ بندی کی کوششیں بار بار ناکام ہو رہی ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں کی نیت کسی اچھے ارادہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ وہ دونوں بس اسرائیلی یرغمالیوں کو حماس کی قید سے رہا کروانا چاہتے ہیں اس کے بعد لاکھ امریکی وعدوں اور ضمانتوں کے باوجود سب جانتے ہیں کہ اسرائیل فوراً غزہ پر دوبارہ حملے کرے گا اور اپنے اہداف یعنی حماس کا خاتمہ اور یوں فلسطینی جدوجہد آزادی سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا چاہنا، کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

5- خطے میں بڑی طاقتوں کا مفاد

امریکہ، روس اور چین سب ہی اس خطہ میں اپنے مفادات کا حصول چاہتے ہیں مگر ابھی امریکہ کو سب پر اَپر ہینڈ ملا ہوا ہے کیونکہ خطہ کی تمام بڑی عرب حکومتیں امریکی چھتری کے نیچے ہیں۔ وہ اگرچہ روس اور چین کے ساتھ بھی تعلقات استوار کر رہی ہیں تاہم امریکہ اپنی فوجی قوت کے ذریعے بالکل ان کے سروں پر بیٹھا ہے اس لیے وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کسی طور پر امریکہ یا اسرائیل دونوں کے لیے کچھ خطرہ بن سکیں یا ان کی مخالفت ہی کر سکیں۔ 

  • امریکہ تو بہت کھل کر اسرائیل کے ساتھ ہمیشہ ہی رہتا ہے مگر روس اور چین دونوں کی پالیسی گومگو کی ہے وہ نہ کھل کر اس کی حمایت کرتے ہیں اور نہ کھل کر مخالفت۔ مخالفت کرتے بھی ہیں تو بس بیان بازی کی حد تک۔ ورنہ چین سے اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور روس کی حمایت بھی اس کو حاصل ہے کیونکہ اسرائیل میں روسی نژاد یہودی بیس فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ 
  • ان کے علاوہ خطہ کی دو بڑی معیشتیں سعودی عرب اور امارات میں امارات تو کھل کر اسرائیل کے پالے میں جا چکا ہے۔ سعودی عرب ابھی پس و پیش میں ہے مگر یہ سب جانتے ہیں کہ خفیہ خفیہ اس کے تعلقات اسرائیل سے کب کے قائم ہو چکے ہیں وہ تو عوامی رد عمل کا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے رد عمل کا خوف ہے جو ابھی سعودی عرب کو اس کا باضابطہ اعلان کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ 
  • باقی خطہ کے دوسرے چھوٹے ممالک یا تو سعودی کیمپ میں ہیں یا امارات کے دستِ نگر۔ قطر ان دونوں سے آزاد ہے مگر امریکہ کی بیڑیوں میں کسا ہوا ہے اور ویسے بھی اس کا رقبہ چھوٹا، دفاعی صلاحیت نہ ہونے کے برابر، لہٰذا اس کی بہت زیادہ تزویراتی اہمیت نہیں ہے۔ البتہ یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ عرب ممالک میں صرف وہی ہے جو کھل کر فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اور غزہ پر مسلط اس جنگ کو رکوانے کی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔

6- انسانی بحران کو نظرانداز کرنا

غزہ میں بدترین انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے، لیکن چونکہ فلسطینیوں کو عالمی سیاست میں انسان نہیں بلکہ صرف "سیکورٹی مسئلہ" سمجھا جاتا ہے، اس لیے انسانی ہمدردی کے تقاضے پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ بڑی عرب معیشتیں سعودی عرب اور امارات امریکہ پر (مہنگے معاشی سودے کرنے کی وجہ سے) کچھ دباؤ بنا سکتی تھیں مگر انہوں نے خاموشی کو ہی ترجیح دی ہے۔ سعودی عرب کو غزہ کے انسانوں کی نہیں اپنے منصوبہ ویژن 2030ء کی کامیابی کی فکر ستا رہی ہے۔ اور امارات کو اپنے ملک میں AI (مصنوعی ذہانت) کے منصوبہ کی تکمیل کی فکر ہے۔

7- ثالثی کی کوششوں میں سنجیدگی کا فقدان

مصری، قطری اور امریکی ثالثی کے باوجود اب تک کوئی پائیدار حل سامنے نہیں آ سکا۔ ہر فریق اپنے مفادات کے مطابق ثالثی کرتا ہے، نہ کہ فلسطینی عوام کی زندگی بچانے کی نیت سے۔ قطر ایک بہت چھوٹا اور کمزور کھلاڑی ہے جو اپنی حفاظت کے لیے بھی امریکہ پر ہی منحصر ہے۔ مصر امریکہ سے زبردست معاشی امداد سالانہ وصول کرتا ہے جو اس کی فوج کی جیب میں جاتی ہے اور فوج ہی ملک پر قابض ہے لہٰذا مصر امریکی خواہشات کے برخلاف نہیں جا سکتا۔ اور امریکہ خود جانبدار ثالث ہے۔

نتیجہ

عرب اور اسلامی ممالک کی اسرائیل کی مخالفت صرف زبانی جمع خرچ ہے اور عملاً وہ کچھ نہیں کرتے نہ غالباً کرنا چاہتے اور اس حقیقت کو اسرائیل اور امریکہ دونوں اچھی طرح جانتے ہیں۔ خود اسرائیل کے اندر جنگ کے خلاف جو آوازیں ہیں وہ بہت کمزور ہیں اور زیادہ تر بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں جبکہ اسرائیلی سماج پوری طرح دائیں بازو کے جنونی صہیونیوں کے زیر اثر ہے جو حقیقتاً تمام فلسطینیوں کو ختم کرنے اور مغربی کنارہ اور غزہ پر اسرائیل کے مکمل قبضہ کی حمایت کرتا ہے۔ اور اس کے دباؤ میں ہی 25 جولائی 2025ء کو اسرائیلی کنیست نے یہ قانون پاس کر دیا ہے کہ مغربی کنارہ کو اسرائیل میں ضم کر لیا جائے۔ اس کوشش کو امریکی صدر ٹرمپ کی پہلے ہی سے حمایت حاصل ہے۔ غزہ میں جنگ بندی نہ ہونے کی بنیادی وجہ صرف "جنگ" نہیں، بلکہ عالمی سیاست، مفادات کی جنگ، اور انسانی جان کی بے توقیری ہے۔ جب تک اس طرز فکر میں تبدیلی نہیں آتی، جنگ بندی کی تمام کوششیں عارضی اور ناکام ہی رہیں گی۔

اب بظاہر جنگ بندی کا زیادہ امکان اس چیز میں دکھائی دیتا ہے کہ 

  1. حماس اور دوسری مزاحمتی تنظیمیں گوریلا حملوں سے اسرائیلی فوج اور اہداف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں۔ ایک یہی چیز ہے جو اسرائیلی سماج کو جنگ بندی کے لیے تیار کر سکتی ہے۔ 
  2. دوسرے یہ کہ جنگی مجرم نیتن یاہو کی حکومت گر جائے اور اس کی جگہ کسی دوسرے لیڈر مثلاً یائیر لیپڈ کی سرکار بن جائے جو جنگ بندی کا مخالف نہیں ہے، جس کا امکان کچھ نہ کچھ موجود ہے کیونکہ نیتن یاہو کی حکومت کو اب پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں رہ گئی ہے۔ 
  3. ایک تیسرا امکان یہ ہے کہ فرانس، انگلینڈ اور دوسرے مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں جس سے اسرائیل مزید پریشر میں آئے۔ اور امریکہ خود کسی اور علاقہ میں زیادہ شدت کے ساتھ انوالو ہو جائے۔

بہرحال مسلم دنیا پر سرکاری سطح پر ایسا ہی موت کا سکوت طاری ہے جیسے کبھی حسینؓ کے قافلہ کو تمام مسلمانوں نے کربلا میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا تھا اور جیسے 1492ء میں خلافت عثمانیہ جیسی سپر پاور اور مصر کے سلطانوں نے اندلس میں اسلام کی ٹمٹماتی شمع غرناطہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا جس کو صلیبی بھیڑیوں نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا اور اقتصادی ناکہ بندی کر کے ویسے ہی بھکمری کے حالات پیدا کر دیے تھے جن حالات سے آج اہل غزہ دوچار ہیں۔ افسوس کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اخلاقی صورت حال بالکل وہی ہو گئی ہے جس کا اقبال نے ماتم کیا تھا یہ کہہ کر ؎ 

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

مسئلہ فلسطین

(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter