ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے

مشہور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جمعہ کے روز (30 مئی 1998ء) کہا کہ پاکستان کے جوہری دھماکوں نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے۔ دی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر خان نے کہا کہ بھارت نے جوہری دھماکے کر کے پاکستان کو کمزور ظاہر کرنے کی کوشش کی، مگر ’’ہم نے مناسب جواب دیا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے انشقاقی آلات (fission devices) کا تجربہ کیا ہے، لیکن اگر حکومت چاہے تو تھرمو نیوکلیئر بم بھی بنا سکتا ہے۔

سوال: پاکستان کو ان تجربات سے کیا حاصل ہوا؟ 

جواب: یہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب جوہری دھماکہ تھا، بالکل ویسا ہی ہوا جیسے ہم نے منصوبہ بندی کی تھی، اور نتائج ہماری توقعات کے مطابق تھے۔

سوال: یہ ہتھیار فِشن (انشقاقی) تھا یا فیوژن (مربوطی)؟ 

جواب: یہ تمام یورینیم 235 پر مشتمل بوسٹڈ فِشن ڈیوائسز تھیں۔ ہم گزشتہ 18، 19 سال سے کہوٹہ میں اسے تیار کر رہے ہیں۔ پہلا افزودہ یورینیم 4 اپریل 1978ء کو تیار ہوا۔ پلانٹ 1979ء میں فعال ہوا، اور 1981ء میں ہم قابلِ ذکر مقدار میں یورینیم پیدا کر رہے تھے۔

سوال: پلوٹونیم اور یورینیم پر مبنی دھماکے میں کیا فرق ہے؟ 

جواب: دونوں فِشن مواد ہیں، مگر ان کی ٹیکنالوجی مختلف ہے۔ پلوٹونیم کا عمل زیادہ مشقت طلب اور خطرناک ہوتا ہے، یہ مہنگا اور پیچیدہ طریقہ ہے۔ یورینیم نسبتاً محفوظ ہے، مگر مشکل، بہت کم ممالک یہ صلاحیت رکھتے ہیں۔

سوال: ہمارا جوہری پروگرام بھارت سے کیسے مختلف ہے؟ 

جواب: میں یہ کہوں گا کہ انہوں نے استعمال شدہ ایندھن (spent fuel) سے حاصل کیے گئے پلوٹونیم کی پرانی ٹیکنالوجی استعمال کی ہے، جبکہ ہم نے افزودہ یورینیم (enriched uranium) استعمال کیا ہے جو کہ کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور محفوظ طریقہ کار ہے۔ پلوٹونیم سے بنائے گئے آلات کے نتائج برے ہوتے ہیں، لیکن اس کا عمل نسبتاً زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔

سوال: ان تجربات کی مجموعی طاقت کتنی تھی؟ 

جواب: جیسا کہ وزیراعظم نے بتایا ہے، ایک بڑا بم تھا جس کی طاقت تقریباً 30–35 کلوٹن تھی، جو کہ ہیروشیما پر گرائے گئے بم سے دو گنا بڑا تھا۔ باقی چار چھوٹے، کم طاقت والے ٹیکٹیکل ہتھیار تھے، یہ چھوٹے میزائلوں پر نصب کیے جا سکتے ہیں اور فوجی جتھوں کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی دھماکہ تھرمونیوکلیئر نہ تھا، مگر ہم تحقیق کر رہے ہیں اور حکومت کے کہنے پر فیوژن دھماکہ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ سیاسی حالات اور حکومت کے فیصلے پر منحصر ہے۔

سوال: اس میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟ 

جواب: توقع سے کہیں کم۔ بھارتی وزیراعظم کے حکم پر ان کے سائنسدانوں نے ایک ماہ لیا، جبکہ ہمارے سائنسدانوں نے 15–16 دن میں مکمل کر لیا۔

سوال: کیا ہدف حاصل ہو گیا؟ 

جواب: تحقیقی ترقی ایک مسلسل عمل ہے۔ ہمیشہ نئے اہداف ہوتے ہیں،آپ ہتھیار کا حجم کم کر سکتے ہیں، طاقت بڑھا سکتے ہیں، اور اس کی ذخیرہ اندوزی کی مدت بڑھا سکتے ہیں۔ ہم انہیں مزید مؤثر بنا سکتے ہیں۔

سوال: ذخیرہ اندوزی کی مدت کتنی ہے؟ 

جواب: افزودہ یورینیم کی خرابی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی عمر لا محدود ہے۔ اس میں استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد کی عمر دس سال ہوتی ہے، مگر یہ عام مواد ہے اور آسانی سے بدلا جا سکتا ہے۔

سوال: بھارت کے پاس کتنے بم ہیں؟ 

جواب: تعداد سے زیادہ اہمیت ان کی مؤثریت اور تکنیکی سطح کی ہوتی ہے۔ جنگ میں چند ہی بم کافی ہوتے ہیں۔ اصل فائدہ (بھارت کو) باز رکھنے والی قوت کا ہے۔ اب بھارت جانتا ہے کہ پاکستان کے پاس بھی جوہری ہتھیار ہیں، تو حملے سے پہلے دس بار سوچے گا۔

سوال: ان آلات کا دھماکہ کرنے والی ٹیم کی نگرانی کس نے کی؟ 

جواب: ٹیم بہت اچھی اور بہت قابل، اعلیٰ تعلیم یافتہ، اور بہادر افراد پر مشتمل تھی۔ میری موجودگی ضروری نہ تھی۔

سوال: کیا پروگرام پابندیوں کے بغیر جاری رہ سکتا ہے؟

جواب: ہاں، ہم کر سکتے ہیں، پابندیاں ہمارا پروگرام متاثر نہیں کرتیں۔ ہم مکمل طور پر آزاد ہیں، خود کفیل ہیں، اور ہر چیز یہاں بناتے ہیں۔

سوال: کیا حکومتوں کی تبدیلی نے کبھی پروگرام پر اثر ڈالا؟ 

جواب: یہ قومی منصوبہ ہے، کسی حکومت نے رکاوٹ نہیں ڈالی۔ صدر غلام اسحاق خان اس میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شامل رہے۔ جنرل ضیاء الحق نے بھی انہیں برقرار رکھا۔ پھر انہوں نے ایک بورڈ بنایا جس میں آغا شاہی، آفتاب غلام نبی قاضی، صاحبزادہ یعقوب اور جنرل خالد محمود عارف شامل تھے۔ غلام اسحاق خان کی اس میں بہت خاص دلچسپی تھی، وہ ہر ماہ کہوٹہ کا دورہ کرتے اور پیشرفت دیکھتے۔ چونکہ ضیاء الحق کا دور طویل ترین تھا، ہم نے سب سے زیادہ ترقی اسی دور میں کی۔ وزیراعظم جونیجو نے بھی مکمل حمایت دی کہ غلام اسحاق یہ کام جاری رکھ سکیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی پروگرام کی مکمل حمایت کی۔ بے نظیر بھٹو نے بھی ایسا ہی کیا جب وہ وزیراعظم تھیں۔ ہر حکومت نے اسے قومی ترجیح سمجھا۔

سوال: ہم کب جوہری دھماکہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے تھے؟ 

جواب: ہم نے 1984ء کے آخر میں یہ صلاحیت حاصل کر لی تھی۔ پاکستان کبھی جوہری ہتھیار نہیں بنانا چاہتا تھا۔ حالات نے اسے مجبور کیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے پاکستان کو کمزور کر دیا تھا۔ بھارت کا 1974ء کا دھماکہ ایک واضح تبدیلی تھا۔ ہم خاموش رہے کیونکہ کوئی اشتعال انگیزی نہ تھی، جنرل ضیاء سے کہا گیا کہ وہ دھماکہ کریں مگر انہوں نے کہا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک غیر اعلانیہ تعطل (moratorium) موجود ہے، دھماکہ کیوں کیا جائے؟ مگر جب بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی اور وزیراعظم واجپائی نے کہا کہ بھارت ایک جوہری ریاست ہے، تو پاکستان کے لیے سلامتی کا مسئلہ بن گیا۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ یہ ہمارے لیے مشکل کام نہ تھا۔ ہم اس سے زیادہ مشکل کام پہلے کر چکے ہیں۔ ہم ہمیشہ اپنے وزیراعظم اور عوام سے کہتے رہے: جب آپ کہیں گے، ہم کر دیں گے۔

سوال: ہمارے ملک کے مخالفین کہتے ہیں کہ پاکستان پہلے چین میں دھماکہ کر چکا ہے، کیا یہ درست ہے؟ 

جواب: کوئی ملک دوسرے ملک کو اپنے ہتھیار پھاڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔ صرف امریکہ اور برطانیہ کے درمیان ایسا معاہدہ ہے۔ چونکہ ’’کولڈ ٹیسٹ‘‘ سے کافی اچھا اندازہ ہو جاتا ہے، ہمیں چین میں دھماکہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ ہم نے 1983ء میں کولڈ ٹیسٹ کیے تھے اور 1984ء میں جنرل ضیاء سے کہا تھا کہ جب آپ حکم دیں گے، ہمیں ایک یا دو ہفتے سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

https://nuclearweaponarchive.org


(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter