پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی

قسط نمبر 1

اٹل بہاری واجپائی (بھارتی وزیر اعظم): 

Today at 15:45 hours India conducted 3 underground nuclear tests in the Pokhran Range. (11th May 1998)

شمشاد احمد (سابق وزیر خارجہ پاکستان): 1998ء میں آ کر انڈیا نے 11 مئی کو تین ٹیسٹ کیے اور پھر 13 مئی کو دو اور ٹیسٹ کر دیے۔

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی (ایٹمی انجینئر): میں نمبر ٹو کے آفس میں تھا، ڈاکٹر ہاشمی صاحب نمبر ٹو تھے، خان صاحب نمبر وَن تھے۔ اور ہاشمی صاحب نے مجھے کہا بھئی ظفر، انڈیا نے تو کر لیا دھماکہ۔ تو میں نے کہا سر، ہم بھی کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا اگر تم نے نہیں کیا دو تین ہفتے میں، پھر ختم ہو تم۔ اتنے میں خان صاحب آئے اپنے آفس سے، یوں دروازہ کھول کر جھانکا، ڈاکٹر ہاشمی اور میں کچھ بات کر رہے تھے، میں نے ان کی طرف دیکھا ان کی آنکھوں میں۔ اب خان صاحب کے اوپر بہت، ظاہر ہے پورے ملک کا پریشر تھا۔

اشرف ملخم (صحافی): پوکھران میں کہیں ایٹمی دھماکے کر دیے، پاکستان میں ایک وار کا ماحول ہو گیا۔ گو کہ جو پاکستان کی انٹیلی جنسیا ہے، جو با خبر ہیں، ان کو پتہ تھا کہ پاکستان کے پاس یہ capacity ہے capability ہے، صرف ٹائمنگ کی ضرورت ہے، لیکن پھر بھی ایک اناؤنسمنٹ تو رہتی تھی۔

شیخ رشید احمد (سیاستدان): میری سیاسی زندگی میں جو ہندوستان نے سب سے بڑی غلطی کی، وہ ایٹمی دھماکہ کیا۔ اگر ہندوستان ایٹمی دھماکے نہ کرتا، سات کیے یا آٹھ کیے، یا جتنے بھی کیے، تو شاید ہم ایٹمی دھماکوں کی طرف نہ جاتے۔

فوزیہ شاہد (صحافی): اگر آپ اس کے پیچھے تھوڑا سا چلے جائیں نا تو پیچھے ڈیڑھ ماہ دو ماہ سے اس قسم کے اشارے ضرور مل رہے تھے۔ کیونکہ بھارت کی جانب سے خود بھی بہت سی جگہ پہ وہ آ رہا تھا۔

شمشاد احمد: اپریل میں، اپریل کے غالباً‌ پہلے ہفتے میں، میں نے ایک خط بنا کر پرائم منسٹر نواز شریف کی طرف سے G8 کے جتنے بھی ہیڈز آف گورنمنٹ تھے، کیونکہ اس وقت واجپائی کی حکومت نئی نئی انتخاب جیت کر آئی تھی، اور آتے ہی انہوں نے اشارتاً‌ کہہ دیا تھا کہ اب ہم اپنا نیوکلیئر آپشن استعمال کریں گے، ایکسرسائز کریں گے۔ اور ہم نے فوراً‌ دنیا کو الرٹ کیا، اس خط کے ذریعے سے بتایا کہ روک لو ’’روک سکو تو روک لو‘‘۔

سرتاج عزیز (سابق وزیر خارجہ پاکستان): فیصلہ تو وہ کر چکے تھے کہ کرنا ہے ہم نے، کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ اگر ہم نے نہ کیا تو پھر کبھی نہیں کر سکیں گے، ہندوستان نے، خاص طور پر وہاں سے آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ پاکستان اب آزاد کشمیر کی خیر منائے، اب ہمارا بیلنس آف پاور چینج ہو گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ (سابق چیف سائنٹسٹ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی): 1998ء میں جب انڈیا نے مئی میں ایکسپلوڈ کیا، ہمیں بھی موقع ملا کہ ہم بھی دکھائیں کہ ہمارے پاس بھی نیوکلیئر ویپن ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طارق پرویز (سابق کورپس کمانڈر کوئٹہ): if there is one man who is responsible for this اگر جہانگیر کرامت ان کو کہتا کہ کوئی ضرورت نہیں، تو آج یہ ٹیسٹ نہ ہو چکے ہوتے۔

سکرین:

The then PM Nawaz Sharif held several meetings starting from 12th May 1998 with his cabinet, defense chiefs and scientists, to discuss whether Pakistan should go for nuclear tests as its defense strategy or not.

شمشاد احمد: جب یہ پہلا ٹیسٹ ہوا، انڈیا نے، تو اس وقت پرائم منسٹر نواز شریف، میں ان کے وفد میں شامل تھا، تو ہم لوگ قازاقستان کا جو کیپیٹل ہے الماتی، وہاں تھے، تو وہاں مجھے میرے کولیگ سلمان بشیر کا ٹیلی فون آتا ہے تو میں، خیر، دوڑا دوڑا پرائم منسٹر کے کمرے میں گیا اور ان کو میں نے بتایا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کرنا ہے پھر اب، ہمیں کیا کرنا ہے؟ میں نے کہا جی ہمیں جواب دینا ہو گا، لیکن اس کے لیے آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اسلام آباد میں آرمی چیف سے بات کر لوں۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ: یہ دو ہفتے بڑے ٹینس تھے، اور گورنمنٹ آف پاکستان جو تھی، یعنی پرائم منسٹر نواز شریف اس وقت، وہ مختلف حلقوں سے اپنی انفرمیشن لے رہا تھا۔

فوزیہ شاہد: صرف ایک حکومت کا یہ فیصلہ نہیں ہوتا، پھر دیگر جو باتیں ہوتی ہیں، جو اپوزیشن ہوتی ہے، ان کو بھی اعتماد میں لینا ہوتا ہے۔ پھر اگر دیکھا جائے تو آپ کے دوسرے جو طبقۂ فکر ہوتے ہیں، ان کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔

اشرف ملخم: بل کلنٹن اس وقت پریزیڈنٹ آف دی یو ایس اے تھے، انہوں نے بار بار شاید پانچ ارب ڈالرز کی آفر کی، ہم دے دیتے ہیں، تم دھماکے نہ کرو۔ لیکن نواز شریف، میں تعریف کروں گا اس مسئلے پر، کہ بڑا ڈپلومیٹ ہے، وہ اپنے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکالتے تھے جو غیر ضروری ہو he kept quite کنسلٹیشنز چلتی رہیں، لیکن ماحول بن گیا کہ اگر نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو پاکستان کی عوام اس کا دھماکہ کر دے گی۔

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز: ہم سارے کور کمانڈرز کو، جنرل جہانگیر کرامت چیف کمانڈر تھے، ہمیں بلایا اور رات کا وقت تھا، ہم چیف ہاؤس میں، یہ جو سامنے گھر ہے، اس میں جنرل جہانگیر کرامت کے ساتھ تمام کور کمانڈرز وہاں پہ موجود تھے، میں بھی موجود تھا، اور ہر دس منٹ کے بعد مسٹر نواز شریف کا ٹیلی فون آتا تھا کہ ابھی بتائیں کیا کرنا ہے، کیا کرنا ہے۔

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی (ایٹمی انجینئر): پریزیڈنٹ نے دونوں کو بلایا۔ ڈاکٹر اے کیو خان کو اور جو چیئرمین آف پاکستان اٹامک انرجی کمیشن تھے، ڈاکٹر اشفاق اس وقت چیئرمین تھے۔ ڈاکٹر اشفاق نے ڈاکٹر ثمر مبارک کو اس پراجیکٹ کا ہیڈ بنایا تھا۔ ڈاکٹر اشفاق اور ڈاکٹر اے کیو خان کی میٹنگ پریزیڈنٹ سے ہوئی، پریزیڈنٹ آف پاکستان سے۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ (سابق سائنٹفک آفیسر خان ریسرچ لیبارٹریز کہوٹہ): اس پہ ہم ڈسکشن بھی کرتے تھے کہ بھئی اگر یہ اس وقت نہیں ہوا اور اجازت نہیں ملی، تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جو اتنے عرصے سے ہم بیٹھے ہوئے تھے۔

سرتاج عزیز: 14 یا 15 مئی کو کیبنٹ کی میٹنگ ہوئی، تو اس میں مجھے حیرت ہوئی کہ صرف تین لوگ تھے جن کو میں hawk کہوں گا۔ جو کہہ رہے تھے کہ فوری کریں اور یہ وہ۔ اور پانچ یا چھ جو تھے وہ doves تھے کہ جی اگر اس وقت اکنامک پیکج آپ کو مل رہا ہے اور آپ اپنی اکانومی کو ٹھیک کر سکتے ہیں تو کر لیں۔ اور جو باقی سات آٹھ تھے ان کو میں نے haves کہا ہے۔ نہ وہ doves تھے نہ وہ hawks تھے، وہ haves تھے، انہوں نے rhetoric استعمال کیا hawks کا اور پالیسی ریکمنڈ کی وہ doves کی کی کہ جی آپ باتیں وغیرہ کریں لیکن آپ کوئی ٹائم گین کریں جب بھی چاہیں گے کر لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ میں اور ایک دو اور ممبر تھے، ہم یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں امریکہ اکنامک ایڈ تو آفر کر رہا ہے، سکیورٹی گارنٹی آفر کر رہا ہے کہ نہیں۔ اگر سکیورٹی گارنٹی نہیں ہے تو ہندوستان اس سے فائدہ اٹھا کر، conventional imbalance تو ہے، پھر ہمارا کیا فائدہ، تو وہ تو پھر ہو ہی نہیں سکتا۔

شیخ رشید احمد: ڈیفنس کی میٹنگ ہوئی جہاں سارے جرنیل بیٹھے ہوئے تھے، جرنیلز نے کہا کہ سیکشنز لگیں گی لیکن جو شیخ رشید کہتا ہے کہ یہ ایک موقع ہے، تو اس موقع کو آپ کنسڈر کر لیں۔ اور اس جرنیلز کی میٹنگز میں جس میں ساری کور بیٹھی ہوئی تھی، سارے کور ہیڈ کوارٹرز تھے، اور میں خصوصی طور پر، کیونکہ میں نے کیبنٹ میں یہ کیس زندگی اور موت کا کیس بنایا۔ تو جب یہ کیبنٹ میں آیا تو سب سے زیاوہ vocal میں اور راجہ ظفر الحق صاحب تھے، اور گوہر ایوب صاحب تھے۔ باقی ساری کیبنٹ جو ہے، سینکشنز لگ جائیں گی، اکانومی تباہ ہو جائے گی، ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز: مختلف اوپینئنز ہوتی تھیں لیکن but generally overwhelmingly سب نے یہ کہا کہ یہ ٹیسٹ ہونا چاہیے۔

شمشاد احمد: میرے لیے سینکشنز یا اکنامک پابندیاں امپارٹنٹ نہیں ہیں۔ میں سفارتکار ہوں اور میری کمٹمنٹ ہے ریاست کی سلامتی کے لیے اور سالمیت کے لیے۔ اور وہ سلامتی اور سالمیت جو کہ جڑی ہوئی تھی ڈائریکٹلی ہمارے انڈیا کے جواب میں فیصلہ دینے کے لیے۔ تو میں نے اس وقت پرزور طریقے سے یہی کہا کہ جی ہمیں ایک موقع مل گیا ہے، اگرچہ ہمارے پاس نیوکلیئر کیپبلٹی 1980ء کی دہائی سے ہے، ہم نے بنا لیا ہوا تھا ٹیسٹ۔ انڈیا نے تو اس سے پہلے سے بنا لیا تھا، یعنی 1974ء میں تو وہ دھماکہ کر بیٹھا تھا۔ تو ہم نے بھی 1980ء کی دہائی میں بنا لی تھی یہ ٹیکنالوجی، ہم نے کولڈ ٹیسٹ کر لیے تھے، لیکن ہم نے اس وقت شو نہیں کیا تھا، تو میں نے کہا جی اب موقع ملا ہے تو کرنا ہو گا۔ میں نے بہت زور دے کر کہا، اور اس پر مجھے اب تک یاد ہے، کہ مجھے پھر کہا گیا کہ دیکھو، اکنامکلی بہت قیمت دینی پڑے گی، میں نے کہا جی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے آزادی کی، اور آپ کے وجود کی۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ: ایک میٹنگ ہوئی فارن آفس میں، اس میں اتفاق سے میں بھی انوائیٹڈ تھا، پچیس تیس لوگ تھے، اور نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری، رپورٹ کرنے کے لیے وہ بھی تھے۔ تو وہ ڈسکس کر رہے تھے کہ فارن پالیسی کے لحاظ سے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ مجھے انہوں نے پوچھا جی آپ بتائیں سائنٹیفکلی کیا کرنا چاہیے؟ تو میں نے ان کو صاف طور پر کہا کہ scientifically we must test it

ڈاکٹر افضل خان (ایٹمی سائنسدان): چار ادرے انوالو تھے اس میں۔ (۱) ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز، جس نے یہ ڈیوائس بنائی تھی۔ (۲) اس میں NESCOM انوالو تھی جنہوں نے پورا وہاں پر لائنیں ڈالی تھیں، یا کمپیوٹر سسٹم ڈالے تھے، یا ٹریگرنگ سسٹم ڈالے تھے، یا جو بھی ڈیوائس کو چلانے والے سسٹم ڈالے تھے۔ تو میں نے آپ کو کہا کہ ایک تو پہاڑ کے اندر تھا، اور ایک ان کنوؤں کے اندر تھا، تو یہ سارا انہوں نے کیا تھا۔ (۳) پاکستان اٹامک انرجی کے بھی سائنسدان تھے اس میں۔ (۴) پھر آرمی والے تھے، جنہوں نے پورے کا پورا یہ سیٹ اپ چھ سات سال لگا کر بنایا تھا۔ بلکہ 1984ء سے وہ شروع ہو گئے تھے، اِن ڈائریکٹلی، ضیاء الحق کے آرڈر سے، کہ آپ یہ سسٹم لگانا شروع کر دیں۔

شمشاد احمد: فوج نے ہی تو نیوکلیئر دھماکے کا سارا ارینجمنٹ کیا ہوا تھا۔ وہی تو سارا پروگرام چلا رہے تھے۔ تو اس وجہ سے یہ توقع کرنا کہ وہ نیوکلیئر دھماکے نہیں کر رہے، یہ لوگوں کی ایک اڑائی ہوئی غلط، جس طرح ہمیشہ کی طرح باتیں کرتے ہیں نا سیاستدان، انہوں نے اڑائی تھی۔ حالانکہ اس وقت یہ تھا کہ تینوں سروسز چیفس نے یہ کہا تھا، بالخصوص جنرل جہانگیر کرامت نے، کہ ہم تیار ہیں، آپ جو فیصلہ کریں گے we are ready لیکن آپ ذرا سوچ لیجیے کہ جو آگے ہونا ہے، آپ کے اس decision کے بعد جو نتائج ہیں، ان کا بھی سوچ لیجیے۔

سرتاج عزیز: 13 کو ہماری ڈیفنس کمیٹی آف دی کیبنٹ کی میٹنگ ہوئی، جس میں اے کیو خان صاحب اور اُدھر سے چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن تھے، انہوں نے بھی حصہ لیا۔ اور میرا اپنا جو اندازہ تھا اور جو بعد میں کنفرم ہوا، کہ نواز شریف نے اس وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم نے ٹیسٹ کرنا ہے، وہ باقی سب going through the motions تھا، کوئی اس میں بات نہیں تھی۔ تو اس میں انہوں نے پوچھا، تو انہوں نے کہا ہمیں دو ہفتے چاہئیں، ٹنلز تو تیار ہیں لیکن ان کو ٹھیک کرنے کے لیے۔ تو انہوں نے اسی وقت گرین سگنل دے دیا کہ آپ اپنی تیاری کریں۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ: بڑا hectic ٹائم تھا، ہماری ٹیم اَنڈر ڈاکٹر ثمر مبارک مند، اس وقت کوئی 150 بندے، سائنٹسٹس، انجینئرز، ٹیکنیشنز لے کر چاغی گئے۔ اور پھر جو KRL (خان ریسرچ لیبارٹریز کہوٹہ) کا تھا، وہ اس میں استعمال ہوا۔ اور within two weeks بڑا hectic تھا اور بڑا مشکل ٹائم تھا ان کے لیے۔

سوال:

Is Pakistan going to test its nuclear device?

میاں محمد نواز شریف:

We don't want to blindly follow the path of the Indians. They have tested a bomb again after 24 years and Pakistan has never done so, we never wanted to do so. But the present test of India has really shaken the balance of power in this region and we now have legitimate security concerns. (16th May 1998)

شمشاد احمد: میں نے بلکہ پرائم منسٹر کو مشورہ دیا کہ اس سے پہلے کہ ہم کوئی فیصلہ کریں ہم چائنہ کو ذرا اعتماد میں لے لیں۔ اور جو دو تین وزیر بیٹھے تھے فوراً‌ jump ہوئے جی بالکل میاں صاحب ’’تسی جاؤ جی بلکہ‘‘، یہ مشورہ دینے لگے میاں صاحب کو کہ تسی خود جاؤ۔ میں نے ان سب کو دھیما کیا، میں نے کہا میاں صاحب کو، میں نے کہا سر ان کی باتوں پر نہ جائیں، آپ کو میں بالکل نہیں کہوں گا کہ آپ جائیں، کیونکہ اس سے دنیا میں غلط فہمی پیدا ہو جائے گی کہ جیسے ہم چائنہ سے کوئی اجازت لینے جا رہے ہیں۔ میں خفیہ طور پر جاؤں گا اور چائنہ کو صرف بتانے کے لیے کہ ہم یہ کرنے جا رہے ہیں۔ اور اگر ہمارے ٹیسٹ کرنے کے بعد ہم پہ جو پریشرز پڑیں گے، اس میں چائنہ نے ہمارا ساتھ دینا ہو گا۔ انہوں نے بھی اسی طرح جس طرح ہمارے سروسز چیفس پرائم منسٹر کو متنبہ کر رہے تھے، چائنہ نے بھی یہی کہا کہ آپ یہ سوچ لیجیے کہ آپ پر پریشرز بہت ہوں گے، آپ کو قیمت بڑی دینی پڑے گی، مگر فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔ یعنی وہ یہ نہیں کہنا چاہتے تھے کہ ہمارے کہنے پہ کریں۔ لیکن فیصلہ آپ کر لیں، اگر آپ نے فیصلہ کرنے کا کر لیا، تو ہم سے جو کچھ بھی بن پڑے گا، ہم آپ کی مدد کر دیں گے۔

بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) فیروز حسن خان (فارمر ڈائریکٹر کمبیٹ ڈیولپمنٹ ACDA): جیسے ہی ٹیسٹ ہوا، اب ان کو پتہ چلا کہ اگر پاکستان ٹیسٹ کرے گا تو ان پر سینکشنز لگ جائیں گی۔ جو آپ کے ایلیٹ لوگ تھے، میرے سامنے کی یہ بات ہے، جن جن کے بڑے بڑے پیسے تھے، ڈالرز اکاؤنٹ جن کے تھے، یہ بڑے بڑے جو بگ فِش تھے politicians and big businessmen سب کے پیسے باہر نکلنے شروع ہو گئے۔ پیسہ کس کا پھنس رہا ہوتا ہے؟ جو غریب باہر لے جا نہیں سکتا۔ آپ کا اور میرا جو ڈالر اکاؤنٹ تھا وہ فریز ہو رہا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز: کیونکہ امریکنز کا بہت زیادہ پریشر تھا کہ آپ یہ نیوکلیئر ٹیسٹ نہ کریں، ہم آپ کو یہ دے دیں گے، ہم فلاں کر دیں گے، زمین آسمان کے قلابے ملاتے تھے، کہ کسی طریقے سے یہ ٹیسٹ نہ کریں۔

فوزیہ شاہد: 1998ء میں بلاسٹ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ آسان کام میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ دنیا میں پہلی دفعہ آپ ظاہر ہے کہ روس، امریکہ اور دیگر جو ایٹمی صلاحیت کے ممالک تھے، پہلی دفعہ آپ ان کو اپنی طاقت بتانے جا رہے تھے کہ ہمارے پاس یہ کوئی خواب نہیں ہے، وہ باقاعدہ ایک وجود رکھتا ہے۔

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: اگر کوئی ملک آپ کو ایک بہت بڑی ٹیکنالوجی دکھا دے، جیسے انڈیا نے نیوکلیئر ٹیسٹ کیے اور آپ کو بتا دیا کہ ہم نیوکلیئر پاور ہیں، تو اس کے دو تین ہفتے کے بعد آپ نہ کرتے تو پھر ساری دنیا کو پتہ چل جاتا کہ آپ ان کے برابر نہیں ہیں۔ یا آپ اپنے آپ کو ڈیفنڈ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

سرتاج عزیز: اگر ہم نہ کرتے ٹیسٹ، تو وہ ہندوستان، ظاہر ہے کہ پھر وہ ایسے حالات پیدا ہوتے کہ ہمارے لیے مشکل ہو جاتی۔ اور جب وہ ہمیں 5 بلین ڈالرز کا پیکج ملتا تو اس میں ایسی شرائط ہوتیں کہ رول بیک کریں اور کیا کریں، اور بعد میں بھی وہ لگے رہے رول بیک کے لیے۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ: ضیاء الحق کا دور تھا یہ، 1984ء تک ہمارے پاس یہ تمام چیزیں بن کر تیار ہو گئی تھیں۔ 1984ء سے لے کر 1998ء تک ہم صرف انتظار کرتے رہے۔ چھ اور آٹھ، چودہ سال۔ اس میں کچھ کرنا نہیں تھا، صرف پرمیشن کی بات تھی کہاں اب آپ کریں۔ جب انڈیا نے کیا تو اس وقت یہ پریشر پڑا ہم پر، اور ہم نے کیا۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ: پبلک بھی بڑی انوالو تھی، اس کا بھی پریشر تھا کہ بھئی ہماری ڈیفنس کے لیے۔ تو اس لیے پبلک بھی تیار تھی، سائنٹسٹس بھی تیار تھے، تو وہ ٹیسٹ ہوا۔

بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) فیروز حسن خان: ان 17 دنوں کے اندر امریکن پریشر، انٹرنل پریشر، ملٹری کا پریشر، and actually physically the scientists were continuing as the tests were happening

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز: I was in Quetta میرا ایک بریگیڈ under the orders of GHQ اس کو میں نے وہاں پر بھیجا۔ وہ جتنا area around the testing site تھا وہ سارے کو کور کیا ہوا تھا تاکہ اس علاقے میں کوئی نہ جائے، کوئی انٹرفیرنس نہ ہو، کوئی گراؤنڈ ایکشن نہ کر سکے اس ٹیسٹنگ کو سبوتاژ کرنے کے لیے۔

اشرف ملخم: اس پہ ایک بک لکھی تھی کوئی تین جرنلسٹس نے مل کے، تینوں امریکنز تھے، Deception کے نام سے۔ اس میں بڑی تفصیل سے اس کو ڈسکرائب کیا کہ how Pakistan deceived the world

شمشاد احمد: ان دنوں ہمارے جمبو جیٹس ہوا کرتے تھے، اور مجھے یاد ہے، میرے ساتھ میرے جو تین اور ساتھی تھے، میں اوپر بیٹھا تھا، اور وہ تینوں نیچے بیٹھے تھے، اتنے میں ایک ایئرہوسٹ آتی ہے میرے پاس اور مجھے ایک چٹ دیتی ہے کہ یہ آپ کے ساتھی نے چٹ بھجوائی ہے۔ جب میں نے وہ کھولا، اس پہ لکھا تھا Mr. Shamshad, you will be burnt alive, baked and roasted میرے دفتر میں بھی ایک دو ٹیلی فون کالز ایسی آئی تھیں کہ شمشاد کو کہہ دو کہ یہ نیوکلیئر ٹیسٹوں کی بات نہ کریں، ورنہ ہم سے برا کوئی نہیں ہو گا۔

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: یہ ہمارے پورے ملک کے لیے ضروری تھا۔ جو بھی پرائم منسٹر تھا، پریزیڈنٹ تھا، کیونکہ ہم لوگوں نے، اس ایج کے جو لوگ ہیں، ہم نے دیکھا تھا کہ ہمارا ملک کتنے برے حالات سے 1971ء میں گزرا تھا۔ اور ظاہر ہے ہم تو پاکستان کو نہیں دیکھنا چاہتے تھے کہ ختم ہو۔ ہم سب تو یہی چاہیں گے کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہو۔ اور مضبوطی کے لیے پھر آپ کو ضروری ہوتا ہے کہ آپ کی ڈیفنس، لیٹسٹ ٹیکنالوجیز کے ساتھ ہو۔

اشرف ملخم: تین دن پہلے خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ امریکنوں نے شور کرنا شروع کر دیا تھا کہ فلاں سائیٹ کی طرف پاکستان کی موومنٹس ہو رہی ہیں، ایکوپمنٹ کی، سکیورٹی پرسنلز کی، جہازوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی تھی، کیونکہ وہاں پر ایک چھوٹی سی ایئر سٹرپ بھی بنائی ہوئی تھی، اٹامک انرجی کمیشن کے لوگ جاتے تھے وہاں پر، وہ جہاز پر ہی جاتے تھے، کافی دور ہے، دالبدین کے پاس جو چاغی کی پہاڑیاں ہیں۔ تو وہ موومنٹس سے نظر آ گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔

بریگیڈیئر فیروز حسن خان:

Dr. A.Q. Khan used to say that a country that couldn't produce a decent bicycle is producing one of the most sophisticated technologies. in the world.
https://youtu.be/HfnbdmRC0xA

قسط نمبر 2

شمشاد احمد: 27 کی رات کو بارہ بجے مجھے ٹیلی فون آتا ہے GHQ سے، ڈی جی ملٹری آپریشنز تھے، انہوں نے مجھے کہا کہ سر ہمیں ابھی انٹیلی جنس رپورٹس ملی ہیں کہ فلاں ایئرپورٹ پر انڈیا میں، انڈیا اور اسرائیل کے سکواڈرن کھڑے ہیں اور وہ حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں پاکستان کی نیوکلیئر انسٹالیشنز جو بلوچستان میں ہیں، وہاں۔ تو میں نے اسی وقت رات کے ایک بجے انڈین ہائی کمشنر کو بلایا، ستیش چندر اس کا نام تھا، اس کو میں نے بلا کر کہا کہ یہ مجھے خبر ملی ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی حکومت سے چیک کر لو کہ اگر ایسی کوئی misadventure ہے تو یہ ایک میسج ہماری طرف سے کنوے کر دو کہ ہم بھی deployed ہیں پوری طرح۔ انڈین ہائی کمشنر کے بعد میں نے دوسرا بلایا چائنیز ایمبسڈر، اس کو رات ایک بجے، میں نے اس کو کہا کہ یہ ہمیں خبر ملی ہے، اور مجھے پتہ تھا کہ اسرائیل کا پرائم منسٹر نیتن یاہو اس وقت بیجنگ میں تھا، میں نے کہا کہ میں چاہوں گا کہ آپ لوگ اپنی حکومت کو کہیں کہ چاہے نیتن یاہو کو جگانا پڑے، اگر وہ سو رہے ہیں، تو اسے چیک کیا جائے کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے۔ اور اس کے بعد پھر میں نے امریکن ایمبیسڈر کو summon کیا، اس کو بلا کر میں نے کہا کہ بھئی یہ بات ہے، تو آپ چیک کیجیے۔ then I called Kofi Annan اس کے دفتر میں چیف آف سٹاف پاکستانی تھا، اقبال رضا، اس سے میں نے خود بات کی اور اس کو کہا کہ یہ کوفی عنان کے نوٹس میں لے آؤ۔ then I called our ambassador in New York, Ahmed Kamal اس کو میں نے کہا کہ CNN پہ لائیو جاؤ اور سی این این پہ یہ بات کہو کہ پاکستان کو یہ اطلاعات ملی ہیں کہ انڈیا اور اسرائیل پاکستان پر حملہ کرنے والے ہیں۔ میرے ایمبسڈر نے وہاں سی این این پہ لائیو بات کی، اور اس کا اچھا اثر ہوا، امپیکٹ ہوا، کیونکہ اگر انڈیا اور اسرائیل نے کوئی ایسا پلان بنایا ہوا تھا تو صبح تک وہ پلان ان کا ختم ہو گیا۔

احمد کمال:

The only way to reinstate balance in the region in South Asia was through deterrents and dissuasion which would visible and it would send a clear message to India not to embark on any actions which would be reckless of the type that they were promising to take in Kashmir and against Pakistan itself. (28th May 1998)

سکرین:

While the political decision was being made, the scientific institutes along with XII Corps (Quetta Corps) were alerted in order to move the nuclear bomb from Kahuta to Chagai.

سرتاج عزیز: ادھر جو ڈسکشن تھی، پبلک میں بھی اور نیوز پیپر میں بھی، کہ ہو رہا ہے کہ نہیں ہو رہا، وہ ساری ایک ایموشنز تھیں، اور نواز شریف صاحب کو پتہ تھا کہ میں نے کرنا تو ہے، جو باتیں کر رہے ہیں لوگوں کو کرنے دیں۔

شیخ رشید (سابق وفاقی وزیر): نہ مندروں میں گھنٹیاں بجیں گی، نہ گھاس اگے گی، نہ چڑیاں چہکیں گی، آپ نے دھماکہ کیا ہے، ہم دھماکہ کرنے جا رہے ہیں۔

بریگیڈیئر فیروز حسن خان:

17 nights starting from 6pm 11th May onwards till 28th May and 30th May, this was totally a military program. The total program was executed as a complete military operation program including the scientific community and the military.

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز: they got all the devices over there اور میرے بریگیڈ کی موجودگی میں وہاں پر یہ سلسلہ ہوا۔ I provided all the administrative support that was required for this test

فوزیہ شاہد: میری اطلاعات تھیں اور میں نے اس پر رپورٹ بھی کیا تھا، وہ یہ تھا کہ حکومت کی جانب سے مشاورت ضرور چل رہی تھی لیکن وہاں الرٹ بھی کر دیا گیا تھا۔ جو لیب تھا، یا ظاہر ہے کہ جس طرح انسٹالیشنز، یہ اس طرح اٹھا کے لے کر جانے والی چیز تو ہوتی نہیں، وہاں ان کو انفارم کر دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: دیکھیں، ہمارا اپریل میں ٹیسٹ ہو گیا تھا ڈیلوری سسٹم کا، کیونکہ نیوکلیئر بم صرف آپ نے لے جا کر تو نہیں، آپ نے ڈیلیور کرنا ہوتا ہے، ڈیلیور کسی میزائل کے اوپر کرتے ہیں، تو ہمارے میزائل کا ٹیسٹ کامیاب ہو گیا تھا اپریل 1998ء میں۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ: ایئرفورس نے بڑا کام کیا اس کے اندر کہ how to place this، دیکھیں نا، بہت مشکل ہوتا ہے کہ اتنی ڈینجرس چیز کو ہوائی جہاز، اب ہوائی جہاز اس طرح سے بنا نہیں تھا ہمارا F-16، ایف سکسٹین کے اندر وہ جگہ ہی نہیں تھی جس میں آپ اس کو رکھتے۔ یہ کام پھر ہماری ایئرفورس نے کیا۔

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز: بٹس اینڈ پارٹس میں آیا، ایک دم نہیں آ سکتا تھا اس لیے کہ they couldn't run the risk تھوڑی تھوڑی کر کے چیزیں لا کر آگے وہ بھیجتے رہے۔ اور جب وہ اسمبل کر لیا اور سب کچھ تو پھر then it was made public

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: نیوکلیئر بم کو لے جانا، بیسمنٹ میں ڈالنا، تیار کرنا ٹیسٹ کے لیے، it takes days and days اور سچی بات آپ کو بتاؤں کہ ہم لوگوں کو یہ انشورنس نہیں تھی کہ ہم کتنی جلدی یہ ٹیسٹ کر سکیں گے، ہمیں تو ٹائم کا پریشر تھا۔ پھر ہمیں یہ بھی پریشر تھا کہ، جیسے وہ عراق کا اٹیک تھا، ہمیں کوئی اٹیک نہ کر دے، ہماری سائیٹ کو کوئی اٹیک کر کے مار نہ دے (تباہ نہ کر دے)۔

اشرف ملخم: دھماکہ ہوتے ہی صبح پتہ چل گیا تھا۔ بلکہ ایک دن پہلے ہی پتہ چل گیا تھا۔ وہاں پر کچھ ٹرانسپورٹیشن ایسی ہوئی، ریلوے استعمال ہوئی چاغی تک پہنچنے میں، کافی دور دراز مقام تھا چاغی، اتنی بڑی موومنٹ جب ہوئی، سکیورٹی پرسنلز کی ڈپلائمنٹ ہوئی، انٹرنیشنلی بھی لوگ دیکھ رہے تھے، ٹیلی فون کا دور بھی آ گیا تھا، موبائل آ گئے تھے، پتہ چل گیا تھا یہاں کچھ ہونے والا ہے۔

فوزیہ شاہد: میرے کچھ تھوڑے سورس ایسے تھے دو چار کہ مجھے یہ پتہ تھا کہ بلوچستان کسی جگہ یہ چیز ہونے جا رہی ہے، کب ہوگی، کیا ہو گا، کیا ٹائم ہو گا، اس بارے میں تو that was very secret وہ صرف دو لوگوں کو پتہ تھا۔ ایک تو پرائم منسٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو علم تھا، آرمی چیف، اور ڈاکٹر صاحب کو اس کے بارے میں علم تھا۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ: اس وقت پھر کہتے ہیں کہ وہ پریزیڈنٹ کلنٹن جو یو ایس اے کا تھا، اس کا ٹیلی فون بھی آیا ان کو۔ اور ان کے سیٹلائٹ اوپر موو کر رہے تھے کہ ہماری موومنٹ کیسی ہے۔ تو ہمارے سائنٹسٹس نے کیلکولیٹ کیا ہوا تھا کہ ان کا جو سیٹلائیٹ ہمارے چاغی سائیڈ پہ آنا ہے وہ اس ٹائم پہ آنا ہے۔ تو یہ کرتے تھے کہ اس وقت ہمارے ٹرک وغیرہ کی موومنٹ نہیں کرتے تھے، ملٹری کے یا اپنے سائنٹسٹس کے۔ جب سیٹلائیٹ گزر جاتے تو پھر ہماری موومنٹ ہوتی تھی۔

بریگیڈیر فیروز حسن خان: ہمیں صرف اس بات کا چیلنج تھا کہ اس پروگرام کو وہ intercept نہ کر لیں، اس پر کوئی اٹیک نہ کر دیں، so that security was done, Air Force, Navy, everybody was on full alert یہ آپ کہہ لیں کہ undeclared سی ایمرجنسی تھی کہ ایسی ٹائیٹ سکیورٹی میں یہ کام ہوا۔ every unit, the entire Quetta, the entire corps were on alert, Air Force was alert, we were alert seawards as well, our eyes and ears were open

سکرین:

Pakistan conducted five simultaneous underground nuclear tests at 15:15 hours PST on 28th May 1998. It was codenamed as Chagai-I.

شمشاد احمد: نیشنل ڈیفنس کالج میں جو فوجی یوتھ تھی وہ اکٹھی ہوئی ہوئی تھی ساری۔ تو خیر، ہم گئے وہاں، وہاں وہی ہوا، جو نعرہ لگ رہا تھا do it now, do it now, I could see the prime minister sweating چہرے سے پسینہ نکل رہا تھا، تو مجھے کہنے لگے کہ شمشاد صاحب آپ میرے ساتھ آجائیں۔ میز پر ایک طرف جنرل جہانگیر کرامت بیٹھے ہیں اور اس طرف میں بیٹھا ہوں، تو نواز شریف نے ان سے پوچھا، جنرل صاحب، کیا کرنا ہے؟ انہوں نے وہی بات کہی جو ہمیشہ کہتے تھے کہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے، ہم تیار ہیں، لیکن آپ بطور چیف، ایگزیکٹو کے، ہیڈ آف گورنمنٹ کے، آپ کو ان حالات کی بھی انڈرسٹینڈنگ رکھنی ہو گی جو پیدا ہوں گی مشکلات ہمارے لیے۔ یہ انہوں نے کہا۔ اس کے بعد مجھ سے انہوں نے پوچھا کہ شمشاد صاحب، انہوں نے اسی طرح کہا، شمشاد صاحب۔ تو میں نے کہا سر، آپ کی آزادی اور بقا کے لیے کوئی بھی قیمت نہیں ہوتی۔ بس، یہ میرا فقرہ تھا۔ تو نواز شریف نے دونوں کا ہمارا شکریہ کیا کہ جاؤ۔ اور اس کے بعد شام کو جتنے بجے بھی، تین بجے، چار بجے، اب مجھے ایگزیکٹ ٹائم نہیں پتہ، ٹیسٹ ہو گئے۔

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز: this was at the staff level ہمیں بتا دیا گیا تھا اور میرے خیال میں کوئی ہفتہ دس دن پہلے ہم نے وہ بریگیڈ وہاں پر موو کر دیا تھا آگے، that brigade was moved into the area اور اس کی جتنی strategic locations تھیں جہاں سے کوئی intrusion ہو سکتا تھا، وہ ساری کور کی ہوئی تھیں۔

سرتاج عزیز: اکنامک پریشر تھے they were not relevant at that time ہمیں کسی نہ کسی طرح سے گزارا کرنا تھا۔ کیونکہ نیوکلیئر کیپسٹی ہمارے لیے جو ہے سب سے امپارٹنٹ پرائرٹی تھی۔ تو پریشر میں آ کر that we could compromise

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: اتنی محنت کے بعد ہم کر رہے ہیں، اگر کوئی ذرا سی بھی تار ہل گئی، یا کوئی نیڈل صحیح نہیں لگی، کوئی کنکشن صحیح نہیں ہوا، اور آپ پریس کر رہے ہیں اور وہ کرنٹ صحیح نہ گیا، اور ٹیسٹ اگر فیل ہو گیا تو پھر کیا ہو گا؟ دیکھیں نا، پھر تو لوگ کہیں گے، اوئے یہ تو کچھ تھا ہی نہیں، آپ کو پتہ ہے پاکستانی کیسے ہیں۔

میاں محمد نواز شریف: گزشتہ دنوں بھارت نے جو ایٹمی تجربات کیے، آج ہم نے اس کا حساب بھی چکا دیا ہے اور پانچ کامیاب ایٹمی تجربات کیے ہیں۔

مظاہرین: پاکستان کا مطلب کیا؟ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘۔ نعرہ تکبیر ’’اللہ اکبر۔

ڈاکٹر افضل خان: پہلا ان کا جو سیٹ اپ تھا وہ پچیس کلو میٹر دور تھا، جہاں سے بم چھوڑنا تھا۔ تو انہوں نے دیکھا ایک دم پہاڑ جو ہے، پہلی جب ڈیوائس چھوڑی، تو اس کو آگ لگ گئی، سرخ ہو گیا، یا آگ بگولا بن گیا۔ تو پھر یہ وہاں سے بھاگے کہ کہیں پہاڑ پھٹ نہ جائے، اور ریڈی ایشن باہر نکل آئے گی اور یہ مر جائیں گے سارے سائنس دان اور فوج والے اور جتنے بھی، تو یہ بہت زیادہ لوگ تھے سائنس دان، سارے اٹامک انرجی (PAEC) کے، نیس کام (NESCOM) کے، کے آر ایل کے (KRL) کے، سارے سائنسدان وہاں موجود تھے۔

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز: جتنے سائنسدان تھے یہ سارے وہاں پر گئے، اور انہوں نے from a distance یہ سارا دیکھا I was in Quetta at that time میرا بریگیڈ وہاں پر تھا مجھے لمحہ بہ لمحہ خبر مل رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے، کیسے ہو رہا، اور یہ ٹیسٹ ہوئے۔

اشرف ملخم: براؤن ٹائپ کے پہاڑ تھے بالکل خشک، گرینری کی وہاں دور دور تک کوئی چیز نہیں تھی، لیکن جب بلاسٹ ہوا تو اس کا کلر تھوڑا سا سلفر ٹائپ، پیلا رنگ جس طرح مسٹرڈ کلر ہوتا ہے اس طرح ییلوئش ٹائپ ہو گیا تھا۔ لیکن وہ بہت بڑا پہاڑ تھا، چھوٹے پہاڑ نہیں تھے that was huge تو پورے پہاڑ کو ہلا دیا تھا اس بلاسٹ نے، اتنا پاورفل تھا، تو وہ ہمیں دور سے دیکھنے کا ٹائم ملا تھا، قریب انہوں نے ہمیں نہیں جانے دیا تھا، کیونکہ جب تک وہ بڑا سکیور ڈریس نہیں پہنتے تھے، وہاں کہتے ہیں تابکاری کے خطرات اس وقت بھی تھے۔

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: اِدھر کے پہاڑ اتنے سالڈ نہیں ہیں۔ اس لیے بلوچستان کے پہاڑ چنے گئے، وہ ذرا سالڈ راک ہے۔ یہاں کے پہاڑ ہوتے تو پہاڑ ہی اڑ جاتے۔ تو وہاں کے جو پہاڑ تھے وہ اڑے نہیں، لیکن آپ نے دیکھا کہ ییلو میں اس کا رنگ بدل گیا، اس کے بعد اس میں دھواں آیا۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ: یہ پہاڑ ایسا تھا کہ اگر یہ کٹ گیا، پراسیس ہو گیا، آپ نے اس کے اندر سارا لے جا کر پلیس کیا، جب اس کا دھماکہ کیا تو اس سے جو چیز نکل کر باہر سامنے آئی، آپ دیکھیں کتنی شائننگ تھی اس کی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ سونا اگل رہا ہے، حالانکہ وہ سب ہیٹ تھی۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ: دیکھیں دو قسم کے ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اوپن ایئر ٹیسٹ میں ریڈی ایشن پھیلتی ہے۔ تو ایسے پہاڑ کا انڈرگراؤنڈ لیا جاتا تھا تاکہ وہ نیوکلیئر ریڈی ایشن باہر نہ آئے۔ وہ اور جو ریموٹ ایریا بھی ہو پبلک، سیفٹی پوائنٹ آف ویو سے یہ چاغی جو تھا یہ 1980ء کی دہائی میں سلیکٹ ہو چکا تھا اور خندق بن چکی تھی۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان (ایٹمی سائنسدان):

Now that we have responded positively to the Indian arms race that when they got nuclear, we also developed nuclear capability, even though our program is for peaceful purposes, but we don't hide the face that we have the nuclear capability that if the country so decides, if there is political desire or a decision, then we can go nuclear in a very short span of time.

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: ایک سیٹ آفس ٹیسٹس 28 کو ہوئے، ایک 30 کو ہوئے۔ اٹھائیس کو جو ہوا وہ یورینیم کا تھا، اور جو تیس کو ہوئے وہ مکسڈ تھے یعنی کچھ پلوٹونیم کچھ یورینیم۔

فوزیہ شاہد: ISPR کی جو پریس ریلیز آئی تھی، وہ تو، مجھے ٹھیک ٹائم تو نہیں پتہ، کیونکہ آفس میں آئی تھی، ہمارے تھرو نہیں آئی تھی، رپورٹر کے تھرو نہیں آئی تھی۔ لیکن یہ ہے کہ اس سے پہلے ہی یہ بات پھیل گئی تھی کہ یہ ہو گیا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز:

They couldn't take any aerial action or ground action because we were fully prepared to counter any move to disrupt the process of carrying out these tests.

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: سب سے بڑا ٹینشن 28 مئی کو جو GHQ میں تھا، ہم سارے تھے وہاں، ہم جس جگہ پہ تھے، جب ہمیں پتہ تھا کہ کتنے بجے ٹیسٹ ہونا ہے، اور جب اسے پریس کیا، سیکنڈز میں جب وہ گیا، جب تک detonate ہو کر آیا نہیں، until we heard Allah Akbar on our phones ourselves سب کے دل کی دھڑکن رکی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر افضل خان: اس کا یومِ تکبیر نام اس لیے پڑا کہ جس وقت انہوں نے پہلا بٹن دبایا اور پہلا ایکسپلوژن ہوا تو ایک دم ایک آدمی جو سائنسدان تھا، اس نے نعرۂ تکبیر آواز دی۔ یومِ تکبیر اس سے نکلا ہے۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ: ڈاکٹر ثمر، میرے ساتھ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ رہے تھے ابھی، جب میں لیکچرار تھا، تو سارا ان سے رابطہ تھا۔ وہ بتانے لگے کہ وہ جو ٹیسٹ تھا it was a very tough test کیونکہ وہاں پہ گرمی تھی، مئی کا مہینہ تھا، پوری گرمی تھی، کیونکہ ایمرجنسی میں سارے، پہلے تو وہاں بلڈنگیں نہیں بنائی گئی تھیں، ٹرین کے ڈبے سے ہوتے، ان میں انہوں نے رات کو سونا، باہر بچھو چل رہے ہیں، اِدھر اُدھر، مطلب بڑی ٹف کنڈیشنز تھیں، لیکن ایک قومی جذبہ تھا۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ: جب ایکسپلوژن کرتے ہیں تو ایک لحاظ سے ہماری زبان میں اس کو تباہی کہتے ہیں۔ تو وہ تباہ ہو گیا سب کچھ جو کچھ بنایا تھا انہوں نے، لیکن اس تباہی سے وہ خوشی اس لیے ہو رہی تھی کہ جس طریقے سے ہم نے ارینج کیا تھا، جس طریقے سے ہم نے پلیس کیا تھا، اور جو ہماری کیکولیشنز تھیں، ہم لوگ جو بیٹھ کے کیلکولیٹ کرتے تھے، کمپیوٹر پر جو سیمولیشنز ہماری تھیں، اس سمولیشنز کے accordingly, more or less اس کے بہت قریب قریب yield اس کی نکلی، اس کی پاور نکلی۔

شمشاد احمد: ان کے نیوکلیئر دھماکوں سے امن کو نقصان پہنچا، ہم نے اس نقصان کو ختم کر کے peace کی طرف ایک قدم اٹھایا۔

سید مشاہد حسین (وزیر اطلاعات):

As a Pakistani I feel and this is a feeling shared by my colleagues that we are coming here for a spiritual pilgrimage. There is a new hope, confidence and faith in the future among the people of Pakistan after this historical, technological achievement which was made possible by Pakistan scientists. (2nd July 1998)

ڈاکٹر نور محمد بٹ: سائنٹسٹس ہمارے تیار تھے، اٹامک انرجی کمیشن کے، تیار تھے کہ ریڈی ایشن کو ٹیسٹ کرنا ہے، نظر تو نہیں آتی نا، وہ ہمارے پاس انسٹرومنٹس ہوتے ہیں کہ یہاں پہ ریڈی ایشن ہے کہ نہیں، یا کتنی ہے، یہ انسان کے لیے ڈینجرس ہے یا نہیں۔ تو یہ ساری چیزیں ایک ہفتے کے بعد وہاں سارا ٹیسٹ کیا گیا۔

اشرف ملخم: ایک تو بلوچستان کا وہ والا ایریا ویسے ہی، جو پاپولیشن ڈینسٹی ہے وہ بہت کم ہے، وہاں دور دور تک کوئی انسان نہیں ملتا آپ کو، پاپولیشن ہے نہیں، آبادی بہت کم ہے۔ لیکن پہاڑوں میں بہت دور، مجھے جہاں تک یاد ہے، شاید وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی ڈرائیو کے بعد ہم اس جگہ تک پہنچے تھے جہاں پر وہ ٹنل تھی، جہاں بلاسٹ ہوا تھا۔ ریڈی ایشن اگر تھی بھی تو انسان تو وہاں پہ تھا ہی نہیں جی۔

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: the estimate was 30 kilotons تو ہیروشیما، ناگاساکی پہ جو امریکہ نے دو گرائے تھے 1945ء میں ان کا 20 کلوٹن تھا۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ: یہ امیرکنز نے بھی ریکگنائز کیا کہ ہمارا ٹیسٹ جو تھا بڑا ہائی کوالٹی کا تھا۔ انڈیا نے ایک اور کلیم کیا جی ہم نے ایک تھرمل بم بھی چلایا ہے نیوٹن بم۔ لیکن اس کا کوئی پروف نہیں ہے، امریکنز نے اس کو سرٹیفائی نہیں کیا۔

مظاہرین: (۱) مٹھائی کھائیں جی۔ (۲) اس کے لیے جو بھی قربانی دینی پڑی، فنڈ دینے پڑے، ہر قسم کے فنڈ دینے کے لیے تیار ہیں، چاہے ہم بھوکے بھی مر جائیں۔ (۳) پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کر کے بہت اچھا کیا اور انڈیا کا ایک دفعہ پھر بچہ بچہ سو گیا ہے۔

بریگیڈیئر فیروز حسن خان:

More than the international community, more than your enemies, India, the most important was that the people of Pakistan would have not accepted anything other than this.

لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز: we are trained to, you know, undergo pressures and tensions and so on کسی قسم کا کوئی پریشر نہیں تھا کچھ نہیں تھا we were very happy that they have done it اور تین چار دن کے بعد جب سب چیزیں کمپلیٹ ہو گئیں my troops came back and business (went on) as usual

شیخ رشید احمد: ہمارے عوام تو بہت خوش تھے۔ ایک ہم نے اپنا دفاع مضبوط کیا۔ کنونشنل وار ہم انڈیا کے ساتھ، ہماری نہ اکانومی ہے، نہ حالات ہیں، روایتی جنگ ہو نہیں سکتی، ہمارے پاس یہ ہم نے پھلجھڑی کے لیے نہیں رکھا ہوا۔

فوزیہ شاہد: باقاعدہ لوگ اللہ اکبر کرتے کرتے گلی محلوں میں بھی نکلے تھے۔ اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم نے بہت بڑی چیز فتح کر لی ہے۔

اشرف ملخم: جب دھماکہ ہو گیا تو پورے پاکستان میں jubilation ہوئی بہت لوگوں نے celebrate کیا اس کو، نواز شریف بڑے مشہور ہوئے کہ ہم نے انڈیا کو جواب دے دیا۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ: ہم لوگ تو پتہ نہیں دو رات تک سوئے نہیں اس خوشی میں کہ بھئی ایک چیز ہو گئی ہے۔ پھر تو ہم خبروں سے سنتے تھے کہ کیا ہو گیا، دھماکے کیے، اس کی سٹرنتھ کتنی تھی، انڈیا نے پانچ کیے، ہم نے چھ کیے۔

ڈاکٹر افضل خان: پوری قوم نے جشن منایا تھا۔ پوری قوم نے اذانیں دی تھیں۔ پوری قوم نے مٹھائی تقسیم کی تھی۔ پوری قوم نے ختمِ قرآن شریف کرائے تھے۔ پوری قوم نے نفل پڑھے تھے شکرانے کے۔

شمشاد احمد: ان سترہ دنوں میں پاکستان میں ہر بندہ یہی توقع کر رہا تھا کہ ہم جواب فوراً‌ دیں گے۔ جب ہم نے ٹیسٹ کیے تو نہ صرف یہ کہ لوگوں میں ایک خوشی کی نئی لہر دوڑ گئی بلکہ ایک تقویت یہاں پر ملی ہماری قوم کو کہ اب ہمیں انڈیا کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

https://youtu.be/GaWdOp2OuEo

قسط نمبر 3

سکرین: 

Pakistan started its nuclear program as an energy program during the 1950s under supervision of Dr Abud Salam. Pakistan Atomic Energy Commission (PAEC) started its efforts towards safe usage of nuclear technology.

ڈاکٹر عبد السلام: 

 It's at the secondary level that we do not train enough technical people. What we do is, train 90% of our young people to go to the universities, and only 10% of the other people are trained in order to take up the technical subjects.

ڈاکٹر نور محمد بٹ: اٹامک انرجی کمیشن پاکستان کی بن چکی تھی 1956ء میں۔ اور 1961ء میں ڈاکٹر آئی ایس عثمانی صاحب، بہت ایک پی ایچ ڈی اٹامک فزکس میں تھے، لیکن وہ بیوروکریٹ بھی تھے، انڈین سول سروسز میں تھے، اور وہ پاکستان کے بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے، وہ پھر چیئرمین بنے اٹامک انرجی کمیشن کے 1961ء میں۔

بریگیڈیئر فیروز حسن خان:  

It was a triangle of PAEC chairman Mr. I.H. Usmano, and Dr Abdus Salam, and at the time before he became the foreign minister or the minister of science and technology and industries, Zulfiqar Ali Bhutto. These are the three people who initially laid down the foundation as to what to do with, what would be called the soft technology, educating people and creating the technological base.

ڈاکٹر نور محمد بٹ: اس وقت اٹامک انرجی کمیشن کے باقی سارے پروگرام جو ہیں، جس میں زیادہ جو basis تھا وہ safe application of nuclear technology تھا۔

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: 

The enthusiasts essentially wnated that because the world environment is changing, India is building a bomb, conventional matching is not going to be done, you know, 1965 war had happened, the world did not come to Pakistan's rescue, there were very strong arguments as to why Zulfiqar Ali Bhutto was actually sort of pushing the program at the time that you can turn the program now before India takes the lead.

اشرف ملخم: پہلی میٹنگ جس پہ امریکی بھی حیران ہو گئے تھے، ذوالفقار علی بھٹو، اس کا سارا کریڈٹ انہی کو جاتا ہے، وہ پرائم منسٹر بنے، تو انہوں نے جون 1973ء میں، ملتان میں کوئی شادی تھی، انہوں نے جان بوجھ کر وہ شادی کا فنکشن اٹینڈ کیا اور سارے اٹامک انرجی کمیشن کے جتنے بھی سائنٹسٹس تھے ان کو وہاں انوائیٹ کیا۔ امریکیوں کو پہلے تو نہیں پتہ تھا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ملتان میں جون کی گرمی میں تھری پیس سوٹ پہن کر ایک لان میں میٹنگ ہو رہی ہے، اس پہ ان کی آنکھیں کھلیں، یہ کیا ہو رہا ہے۔  

ڈاکٹر نور محمد بٹ: I was present in that meeting سائنٹسٹس سارے پاکستان کے، نیو کلیئر سائنٹسٹس اور یونیورسٹیز کے وہاں ملتان میں ایک میٹنگ ہوئی، اس میں انہوں نے انڈیکیٹ کیا کہ ہم نیوکلیئر سائنس کی طرف جائیں گے۔

شمشاد احمد NPT (Non-Proliferation Treaty) کی جب نیگوشیشنز ہو رہی تھیں تو اس وقت ہم پارٹیسپنٹ تھے نیگوشیشن میں، کیونکہ ہمیں اس کے جو اغراض و مقاصد تھے اس ٹریٹی کے، ہم ان سے اتفاق کرتے تھے، اور ہم چاہتے تھے کہ دنیا میں یہ جو نیوکلیئر ویپنز کا بزنس ہے اس کو کنٹرول کیا جائے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جب وہ ٹریٹی تیار ہوا 1970ء میں تو انڈیا نے سائن نہ کیا، تو پھر ہم نے بھی نہیں سائن کیا۔ 

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: 

The moment he (Zulfiqar Ali Bhutto) took the power, within one month, he gave direction to PAEC which way the program direction would go, something that he always wanted, now he was in power.

فوزیہ شاہد: ذوالفقار علی بھٹو نے جب یہ صلاحیت لی تھی شروع میں ہی اس کا جو کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم ہے وہ بہت سٹرانگ کر کے ایک ایسے ادارے کو دے دیا گیا تھا کہ وہ ادارہ اپنے طور پہ کام کرتا جائے۔ نیشنل سکیورٹی کا ایک بہت بڑا پراجیکٹ سمجھتے ہوئے سبھی حکومتیں اس کو فنڈنگ بھی کرتی رہیں۔

اشرف ملخم: اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے as prime minister کہہ دیا تھا کہ اس کا کوئی آڈٹ نہیں ہو گا، کوئی اس کا پوچھنے والا نہیں ہو گا، whatever you want, let me know we will provide it

سکرین:

In Decembter 1974, Dr. Abdul Qadeer Khan came back to Pakistan and joined the national effort to develop atomic weapons. He adopted the uranium route through centrifuges technology.

ڈاکٹر عبد القدیر خان:

I have no doubt and no reservation that it is a destructive weapon system, but you see, if you know, or if you talk to the people who know me very closely, I am one of the kindest persons in Pakistan. 

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: 

But then in India in 1974 test happened, that completely changed. Every organization, every institution that was even sceptical, they all came on the same page. Then it became a question of now or never. 

ڈاکٹر نور محمد بٹ: اس وقت تو ہمارے سارے نیوکلیئر پروگرام پیس فل پروگرام تھے۔ اور بھٹو صاحب نے پھر منیر احمد خان صاحب کو ایک سیپریٹ پراجیکٹ دیا کہ اب آپ نے nuclear defence weapon کی طرف کام کرنا ہے۔

فوزیہ شاہد: عبد القدیر خان صاحب کو جس طرح لے کر آئے، جس طرح ان کو یہاں ایک پوری جگہ، اس طرح کی facilities دی گئیں تھیں کہ شاید کسی کو، ظاہر ہے کہ ملک میں تو پتہ نہیں چل رہا تھا، لیکن یہ اشارہ مل گیا تھا کہ ہم ایٹم بم بنانے کی طرف جا رہے ہیں۔ 

ڈاکٹر تسنیم شاہ: اے کیو خان کی زبانی جو سننے میں آیا کہ ان کو جب بلایا گیا تھا یہاں اس کام کے لیے، وائف کے ساتھ آئے تھے ملنے کے لیے، انہوں نے آ کے بتایا کہ جی میں تو وہاں کام کر رہا ہوں، ایمسٹرڈیم میں، ہالینڈ میں، اور آپ نے بلایا ہے، مل لیا۔ بھٹو صاحب بات چیت کرنے کے بعد کہنے لگے کہ ہمیں بہت جلدی ہے، ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے، آپ نے فیصلہ کر کے بتانا ہے کہ بس آپ یہ جاب سٹارٹ کریں یہاں۔ وہ کہنے لگے آپ مجھے اتنی تو مہلت دیں میں گھر جا کر وائف سے تو پوچھ آؤں۔ کہنے لگے ہاں آپ ان سے۔ وائف کو آ کر انہوں نے کچھ نہیں کہا، انہوں نے کہا کہ اب بس ہم نے پاکستان سے جانا نہیں ہے، اب یہیں رہنا ہے۔ 

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: 

A.Q. Khan arrived 1975-76 time frame, and offered the alternate route that highly enriched uranium could be done through the centrifuge methods, and that is how he became program in-charge eventually to sum it up all. He brought that technology from Holland and Germany which was a highly enriched uranium centrifuge based technology. 

سکرین: 

Kahuta, a tehsil of Rawalpindi district in Punjab province of Pakistan, was a place selected for making Pakistan's main nuclear weapons laboratory, now known as Khan Research Laboratories (KRL).

بریگیڈیئر فیروز حسن خان:

It is a very fascinating story about how they began doing it in a basement in Chaklala until you know have the Khan Research Laboratory. 

ڈاکٹر نور محمد بٹ: چکلالہ میں کوئی بریکس میں شروع ہو گیا تھا کام، نیوکلیئر انجینئرنگ، جیسے ریسرچ لیبارٹری۔ 

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: ڈاکٹر اے کیو خان تو پاکستان میں 1970s میں آئے تھے اور انہوں نے شروع کیا تھا یہاں F-8 میں گھر میں شروع کیا تھا، اسلام آباد میں۔ پھر وہ شفٹ ہو گئے تھے ایئرپورٹ کے پاس، پھر وہ کہوٹہ شفٹ ہوئے۔ 

ڈاکٹر افضل خان: پہلے جو کہوٹہ پراجیکٹ شروع ہوا تھا 1975ء میں تو اس کا نام ’’انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری‘‘ رکھا گیا تھا۔ تو ضیاء الحق صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے اتنا کام کیا ہے، اتنی محنت کی ہے، اور آپ نے یہ کہوٹہ بنایا ہے، تو ہم اس کا نام، اس نے چینج کیا، اس نے ’’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری‘‘ اس کا نام رکھا۔ 

ڈاکٹر تسنیم شاہ: جب ہم نے جوائن کیا، جوائن کرنے کے بعد وہ ایک پتلی سی گلی سے ہوتے ہوئے ایئر پورٹ چوک کے پیچھے، وہاں وہ بنی ہوئی تھیں، بریکس، اس کے اندر جا کر جوائن کیا، جوائن کرنے کے بعد ایک چھوٹے سے کمرے میں لے جا کر ہمیں بٹھا دیا کہ یہ آپ کا آفس ہے یہاں بیٹھیں۔

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: اس وقت KRL کا انفراسٹرکچر معمولی تھا، زیادہ اچھا نہیں تھا، لیکن سپورٹ بہت اچھی ملی، جو بھی پریزیڈنٹ بنے پاکستان کے، ان سے فنانشل سپورٹ ملی، ٹیکنالوجی سپورٹ ملی، انجینئرنگ انفراسٹرکچر، آرمی سے سپورٹ ملی۔ ان میں میرے خیال میں 250-200 آفیسرز تھے، اور اس میں کوئی 8، 10 بلڈنگز تھیں۔ اور ایک centrifuge hall تھا ہمارا۔ 

ڈاکٹر افضل خان: 36 فیکٹریز تھیں کہوٹہ میں۔ تو یہ (ڈاکٹر عبد القدیر خان) ہر روز ہر دوسرے دن ہر جگہ جاتے تھے، جہاں بھی کوئی ٹیکنیکل پرابلم آتی تھی، یہ جاتے تھے۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ: ان کو ٹاسک دیا گیا کہ چار مہینے کا کہ آپ پورے پنجاب میں، بلکہ پورے پاکستان میں تلاش کریں کہ سب سے موزوں بہترین جگہ کونسی ہے، جہاں یہ کام، ہم centrifuge کا پلانٹ لگانا چاہتے ہیں، جو کہ safe ہو ہر طرح سے۔ تو اے کیو خان چلتے رہے چلتے رہے، تمام علاقہ دیکھا انہوں نے، جا کر کہوٹہ کا علاقہ، جو اِس وقت کہوٹہ ہے، اُس زمانے میں وہ گاؤں ہوتا تھا۔ 

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: کہوٹہ کی ایک تو وجہ یہ ہو گی کہ کیپیٹل کے قریب تھا، اور سنا ہے کہ پہلے انہوں نے چکوال کی سائیٹ سلیکٹ کی تھی لیکن وہ پھر decision making سے دور ہو جاتی۔ تو ہم لوگ یہاں سے جاتے تھے تو ہمیں کوئی چالیس منٹ لگتے تھے پہنچنے میں۔  

ڈاکٹر نور محمد بٹ: کہوٹہ جو چنا گیا تھا ایک لیبارٹری کے لیے for uranium enrichment باقی تو ہماری جگہیں، میں نے بتایا واہ (کینٹ) اور اِدھر اُدھر تھیں، اور ڈیفنس، وہاں پہاڑیوں کی وجہ سے، ڈیفنس کی وجہ سے وہ ایک سائیٹ سلیکٹ ہوئی۔ 

ڈاکٹر تسنیم شاہ: وہ علاقہ ایسا تھا کہ آپ سڑک بنا کر ایسے اندر لے گئے، تو ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی کا جو فاصلہ تھا وہ تقریباً‌ پچاس پچپن فٹ کا تھا، اور اس کے بعد یہ پہاڑی یوں ایسے پیالے کی طرح اوپر ہونا شروع ہو جاتی تھی۔ ہوائی جہاز کو انہوں نے ٹرائی کر کے دیکھا تھا، کہ وہ ہوائی جہاز جب ڈائیو کرتا اس علاقے میں، تو ڈائیو کرنے کے بعد جب وہ اڑتا تو پہاڑ سے جا کر ٹکرا جاتا۔ 

ڈاکٹر افضل خان: کہوٹہ پراجیکٹ، اٹامک انرجی والوں نے شروع کیا تھا بھٹو کے زمانے میں۔ وہ پہلے جو ٹیم تھی وہ ساری اٹامک انرجی سے آئی تھی، سائنسدان کہہ لیں، انجینئر کہہ لیں۔ بعد میں جب یہ سائیٹ سلیکٹ ہوئی، کہوٹہ جس کو ہم کہتے ہیں، تو یہ %100 ڈاکٹر اے کیو خان کی سپرویژن میں پورا سیٹ اپ لگا ہے، جس کو میں 36 فیکٹریز کہتا ہوں۔ 

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: دو آرگنائزیشنز کو کام دیے گئے تھے: ایک کو uranium کا کام دیا گیا تھا یعنی ڈاکٹر اے کیو خان۔ اور ایک کو plutonium کا کام دیا گیا تھا یعنی پاکستان اٹامک انرجی کمیشن۔ 

بریگیڈیئر فیروز حسن خان:

Nuclear program is a very collective effort. There is no one hero in a nuclear program, there are many heroes. What happened in Pakistan  unfortunately is that people are fighting who is the hero? Of course there are more people who are technical heroes, there are political heroes, there are financial heroes, there are security heroes. Everyone has contributed in the program. 

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: پاکستان نے پہلا اپنا یورینیم افریقہ سے لیا تھا۔ نائجیریا سے اوپر ایک ملک ہے نائجر، تو وہاں سے 1970-1969ء پانچ ہزار ٹن لیبیا کے تھرو آیا تھا۔ وہاں پر ایک پریزیڈنٹ ہوتے تھے حمانی دیوری، ان کے ساتھ پہلی ڈیل ہوئی تھی، نائجر یورنیم کا بہت بڑا، مائننگ ہوتی ہے وہاں پر، وہاں سے پانچ ہزار ٹن آیا۔ کچھ ڈیرہ غازی خان سے بھی یورینیم نکلتا ہے۔ تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے U3O8 کو uranium oxide میں کنورٹ کیا، پھر uranium tetrafluoride میں کنورٹ کیا، پھر یورینیم hexafluoride میں کنورٹ کیا۔ تو ہمارے ہاں بڑے بڑے سلنڈرز آتے تھے اٹامک انرجی کے، جو ٹریلر پہ آتے تھے، جو ایک بہت بڑا ہوتا ہے ٹریلر، تو اس پہ آتے تھے، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا، اس UF6 کا، کیونکہ وہ weapons grade نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں اس کو enrich کرتے تھے۔ انرچمنٹ پلانٹ تھا کے آر ایل۔ تو انرچ کا مطلب ہے آپ اس کو ویپنز گریڈ پہ لے کر جاتے تھے۔ 

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: جب پروگرام کی بگننگ ہوتی ہے، فیول کو کرنا ہوتا ہے، مائننگ کرنا ہوتا ہے، اس کو کور بنانا ہوتا ہے، اس میں ہیکسافلورائیڈ گیس ہوتی ہے، اس میں سب کی کنٹریبیوشن ہے۔ 

جان مکلاکلن:

You have created the illusion, and that would be your word, that you have the bomb and you don't have the bomb, so you still gonna get the American aid and you are still gonna keep India off balanced.

جنرل محمد ضیاء الحق:

I'm not indulging in self praise but Pakistanis are intelligent people. (1980s)

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: خان صاحب نے آ کر، جو یورپ سے آئے تھے، ان کے پاس سنٹریفیوج ٹیکنالوجی بہت اچھی تھی، ان کے پاس کیپبلٹی تھی کہ پاکستان کے لیے یورینیم کو انرچ کر سکتے تھے، یہی اس میں سب سے مین چیز تھی۔ اور آپ کو پتہ ہے اس کی ٹیکنالوجی اس وقت بہت ہی کم ملکوں کے پاس تھی۔

ڈاکٹر افضل خان: ان میں سے کوئی NASA میں کام کرتا تھا، کوئی کدھر کام کرتا تھا، کوئی کہاں کام کرتا تھا، تو کچھ جو تھے وہ بڑی بڑی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے امریکہ میں اور انگلینڈ میں اور فرانس میں، تو یہ وہاں سے لے کر آئے لوگوں کو اپنے کام کے لیے۔ یہ سائنٹسٹس اور انجینئرز جو باہر سے آئے تھے، نیچرلی ان کی سپرویژن میں تھے۔ 

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: میرا جو کام تھا وہ یہ تھا کہ ہم اس کی ساری verifications کرتے تھے، نیوکلیئر۔ میں نے بی ایس، ایم ایس، پی ایچ ڈی تینوں نیوکلیئر انجینئرنگ میں کیں اور میری ایکسپرٹیز تھیں نیوکلیئر انجینئرنگ۔ تو بیسکلی جو ویپن کا کور ہوتا ہے، اتنا بڑا تھا (دو ڈھائی فٹ) ہمارا نیوکلیئر بم، اس میں جو نیوکلیئر پارٹ تھا وہ صرف اتنا (سات آٹھ انچ گولائی) تھا۔ بعد اس کے آپ کو پتہ ہے (مختلف سائزوں میں) کیمیکل ایکسپلوسوز وغیرہ آتے ہیں۔ تو ہم اس (نیوکلیئر) پارٹ کی ٹیسٹنگ، ویریفیکیشن وغیرہ کرتے تھے کہ یہ ٹھیک ہے، نہیں ہے، اس کا میٹیریل اچھا بنا ہے، اس میں گیپس تو نہیں ہیں۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ: we are here to make centrifuges اور وہ میٹیریل ہم نے نکالنا ہے ان سنٹریفیوجز سے جس سے کہ ہم ایک اٹامک بم بنا سکیں۔ 

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: اور بہت سا پروگرام جگاڑ سے بنا ہے۔ because technological things were being denied to them تو انہوں نے اننوویٹ کیا، ریورس انجینئر کیا، چین نہیں ملی تو بائیسکل کی چین لگا کر چلا لیا انہوں نے، they wanted the result, they did it

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: اس کے لیے بہت خاص قسم کی سٹیل چاہیے تھی جو  (revolutions per minute) 68000، کوئی سٹیل ایسی نہیں ہوتی، آپ کو پتہ ہے گاڑی کا انجن ٹوٹ جاتا ہے چھ سات ہزار RPM پر۔ تو پاکستان میں سپیشل سٹیلز بنے، سنٹریفیوج ٹیکنالوجی بنی، اور ہم سب لوگ مجھ سمیت، ہم سب ڈاکٹر خان کی ایک آرمی بنے، اور ہم سب ان کے ساتھ کام کرتے تھے اور وہ ہمارے لیڈر تھے۔ 

ڈاکٹر تسنیم شاہ: کم از کم سات آٹھ دفعہ وہ پورے کا پورا ہال بنا ہے، پورا ہال، اور اس کے بعد توڑا گیا ہے اس کو۔ کیوں؟  جب بنا لیتے تھے تو سنٹری فیوج پلیس کرتے تھے، جب وہ پلیس کرتے تھے تو پتہ لگا اس میں ابھی دو کم رہ گئے ہیں، دو زیادہ ہو گئے ہیں، دو ایسے ہو گئے ہیں، دو ویسے ہو گئے ہیں۔ یہ سب ان کی photogenic memory میں اس کا سائز تھا، جہاں کہ وہ گھومتے رہے تھے اور وہ لے کر آئے تھے، وہ کہتے تھے اچھا یہ سائز ہو گا بھلا، وہ سائز بنا دیا، جب سنٹری فیوج پلیس کیا تو اس کے اندر پرابلمز آئیں، اس کو گرا دیا، انہوں نے کہا دوبارہ کنسٹرکشن ہو گی۔ تو کم سے کم، اگر میں مبالغہ نہ کروں تو تیسری چوتھی کنسٹرکشن میں جا کر ایک ہال مکمل ہوا تھا۔ 

ڈاکٹر افضل خان: نیوکلیئر کی کہوٹہ میں سنٹریفیوج مشین تھی، تو اس میں یہ enrich کرتے تھے uranium کو۔ تو اگر یورینیم %90 سے زیادہ انرچ ہو جائے تو پھر اس سے ایٹم بم بن سکتا ہے۔ 

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: اسلام آباد میں زلزلے ہلکے پھلکے آتے رہتے ہیں۔ تو سنٹریفیوج اتنی نازک چیز ہوتی ہے کہ ہلکے سے زلزلے میں ہزاروں سنٹریفیوجز ٹوٹ جاتے تھے۔ اور اب یہ کوئی نیشنل سیکرٹ نہیں ہے کہ ایک گھنٹے میں 4 گرامز بنتے تھے ہمارے، یعنی آپ سوچیں ایک دن میں 90 گرامز، تو ایک مہینے میں 3 کلو گرام یورنیم انچرڈ بنتی تھی۔ اور نیوکلیئر ویپن کے لیے 25 کلو گرام چاہیے ہوتی ہے، تو اس وقت ہماری capability تھی کہ ایک دو سال میں ہی ایک (بم) بن سکتا تھا۔ تو اس وقت مجھے یاد ہے 30 دسمبر 1984ء کو ایک بہت بڑا زلزلہ آیا تھا اسلام آباد میں تو ہمارے ملینز آف ڈالرز کا نقصان ہوا تھا، بہت سارے سنٹریفیوجز ٹوٹ گئے تھے۔ 

ڈاکٹر تسنیم شاہ: اگر ایک ایٹم بم، اب تو سائز چھوٹے ہو گئے ہیں اس کے، اُس زمانے کی بات کر رہا ہوں، اس کے لیے 2 کلو گرام پیور +%95 یورینیم چاہیے، اور اس سے جو دھماکہ ہو گا، تقریباً‌ 20 ٹن جتنی انرجی اس سے ریلیز ہو گی۔ لیکن چونکہ آپ %100 اچیو نہیں کر سکتے، اس میں مکسنگ ہوتی جاتی ہے، تو جتنی مکسنگ ہوتی جائے گی، یعنی %95 سے %85 ہو گا، %65 ہو گا، %35 ہو گا، تو چین ری ایکشن تو بنائے گا وہ، لیکن آپ کو دوسرے میٹیریلز ایکسپلوسِوز اور ڈالنے پڑیں گے۔ جب آپ اور ڈالیں گے تو وہ جو 2 کلو گرام ہے، وہ پھر 200 کلو گرام تک چلا جائے گا۔ تو جو ہمارا پہلا ٹارگٹ تھا around 200kg کے برابر تھا، اس لیے اس کا سائز بھی کوئی تقریباً‌ 80 سینٹی میٹر، ایک میٹر جتنا سائز تھا، جس طرح round ball ہو۔ 

سکرین:

In 1981, India planned to bomb Kahuta, inspired by the Israeli attack on under-construction Iraqi nuclear reactors.

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: مجھے یاد ہے آرمی کی طرف سے balloons تھے اور پورا ایک umbrella بنا تھا surface to air missiles کا اور ہمارے آفسز کے باہر بھی اس طرح کی کھڑکیاں نہیں ہوتی تھیں، اس میں پتھر کی دیوار ہماری کھڑکی کے باہر ہوتی تھی کیونکہ اس وقت اسرائیل کا انڈیا کا بہت ڈر تھا۔ 

اشرف ملخم: اس کی خبر، اگر ایک ہی بلڈنگ میں چھ لوگ کام کر رہے ہیں، چھ کو ایک دوسرے کا نہیں پتہ ہوتا تھا کیا کر رہے ہیں، بڑا سیکرٹ رکھتے تھے، تو اے کو نہیں پتہ بی کیا کر رہا ہے، بی کو نہیں پتہ سی کیا کر رہا ہے، کہاں تک success پہنچی، جب پہنچی ہے تو کس نے کیا ہے۔ 

ڈاکٹر تسنیم شاہ: اس زمانے میں ہم نے سنا تھا کہ اسرائیل وغیرہ لگے ہیں کہوٹہ کو تباہ کرنے کے لیے، دو چار ٹرائیاں بھی ہوئی ہیں، ہم نے اپنے سامنے جہازوں کو بھی دیکھا ہے آتے جاتے ہوئے یہاں۔ 

بریگیڈیئر فیروز حسن خان:

Information that India was planning to attack Kahuta in 1984, then they decided to do it in 1986 during Exercise Brasstacks. These are all well recorded. Yeah, so, India actually got the idea after the Israeli attacked the Osirak plant in Iraq, they thought that they can emulate and do the same to Kahuta. So they decided to have a special project in their combat school, that was, actually the project in-charge was General Sundarji himself, Lieutenant General, 3-star.

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: ایک چھوٹا سا ہمیں ملا تھا (انہوں نے) سینسر لگایا ہوا تھا کہوٹہ کی سڑک پہ، تو جو ٹرک آتا تھا اور جاتا تھا تو اس سے ان کو سیٹلائیٹ پہ سگنلز ملتے تھے کہ کتنی enriched uranium ہے۔ جنرل ضیاء الحق جب پریزیڈنٹ تھے تو امریکنز نے، سی آئی اے نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کتنے percentage تک یہ لوگ پہنچے ہیں۔ تو پھر پریزیڈنٹ ضیاء نے امریکن امبیسڈر کو بلا کر پورا بتایا تھا کہ آپ لوگ یہ حرکتیں کر رہے ہیں، اور فرنچ کا بھی اس میں رول تھا، امریکنز کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ 

https://youtu.be/LkWB8PqzPXM

قسط نمبر 4

اشرف ملخم: وہاں پہ کچھ سائنٹسٹس ایسے تھے جو 1974ء، 1975ء سے سٹیشنڈ (مقیم) تھے ان پہاڑوں پر۔ وہ پہاڑ، بالکل بنجر پہاڑ جن کو ہم کہتے ہیں، براؤن ریڈش رنگ کے، دور دور تک کوئی گرینری کا نشان نہیں، تو جب میں گیا ہوں وہاں پانی کا ایک ٹینک کھڑا تھا، ایک چھوٹا سا ہٹ بنا ہوا تھا، کنٹینر کا گھر بنا ہوا تھا، جنریٹر تھا، اے سی تھا، جو صاحب تھے ان سے میں نے بات چیت چیک کرنا شروع کی، انہوں نے مجھے بتایا کہ میں 1974ء سے یہاں سٹیشنڈ ہوں۔ وہ ٹنل جس میں بلاسٹ ہوئے اس کو کھودنے کا کام، جو بھی سکیورٹی فیچرز تھے وہ، 1974ء سے شروع ہو گیا تھا۔ جب اس نے سٹوری سنائی، بقول اس کے کہ جب وہ 1974ء میں یہاں سٹیشن ہوئے، نہ بجلی تھی، نہ پانی تھا، پانی کا ٹینکر بھی کوئٹہ سے آتا تھا، جو کہ آٹھ سے نو گھنٹے کی ڈرائیو تھی وہاں سے۔ نہ کوئی انسان تھا، سکیورٹی والوں نے آمد و رفت بند کر دی تھی، وہ بڑا خوش ہو کر بتا رہا تھا کہ صرف پرندوں سے یہاں میری واقفیت ہوتی تھی، مجھے پتہ تھا صبح کے وقت کون کون سے پرندے کس سمت سے آتے ہیں، کس سمت جاتے ہیں۔ سیملر، شام کو وہ کیسے واپس جاتے ہیں۔ تو میں نے اس سے پوچھا، میں نے کہا آپ کا زندگی سے پبلک سے رابطہ کیسے تھا؟ اس نے کہا صرف ریڈیو، کبھی کبھی اس کے سگنل آتے تھے، تو باقی اللہ سے ہی رابطہ تھا۔ بلکہ اس نے بتایا کہ کس طرح یہاں رہ کر مسلسل میرا اسلام پہ خدا کی ذات پہ یقین پختہ ہو گیا، انسان کو کیسے کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جان مکلاکلن:

You have created the illusion, and that would be your word, that you have the bomb and you don't have the bomb, so you still gonna get the American aid and you are still gonna keep India off balanced.

جنرل محمد ضیاء الحق:

I'm not indulging in self praise but Pakistanis are intelligent people. (1980s)

ڈاکٹر تسنیم شاہ: کہوٹہ جا کر جب کام کرتے تھے، چار چار پانچ پانچ دن رات کو وہیں رہتے تھے۔ ایک دفعہ وہ (ڈاکٹر عبد القدیر خان) آئے اور کہا تم لوگ گھر ور نہیں جاتے ہو، پرینٹس پوچھتے نہیں ہیں؟ ہم نے کہا کہ سر گھر جائیں گے تو امی سے لڑائی ہو گی، بہتر ہے کہ ہم یہیں رہیں۔ تو اس پہ وہ ذرا جوک، وہ بڑا نفیس سا کر جاتے تھے، کہتے تھے، نہیں، چلے جایا کرو، یہ نہ ہو کہ کبھی گھر بھول جاؤ تم لوگ۔ گھر جانا ہی ہے، اتنا اپنے آپ کو exert نہ کرو، ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔

ڈاکٹر افضل خان: ذوالفقار علی بھٹو صاحب تو خیر آپ کو پتہ ہے وہ چلے گئے اس دنیا سے، لیکن جب تک وہ تھے نا، انہوں نے تو، اس طرف دیکھتے بھی نہیں تھے، اور ڈاکٹر صاحب کو کبھی نہیں کہتے تھے آپ کو کیا چاہیے کیا نہیں چاہیے، کیونکہ انہوں نے ان کو اتنی پاورز دے دی تھیں، کہ اس کو کسی گورنمنٹ منسٹری میں، کسی جگہ جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، ان کے پاس اپنی اتھارٹی ہوتی تھی، جو کچھ کرنا چاہیں وہ کرتے تھے۔

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: نیوکلیئر ویپن بہت مشکل چیز ہوتی ہے۔ اس میں بہت ساری ٹیکنالوجیز آ کے perfect synchronisation کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو اس میں ہم سب مختلف کام کرتے تھے۔ میٹلرجی کے انجینئرز تھے، کیمیکل انجینئرز تھے، مکینیکل انجینئرز تھے، اور میرے جیسے نیوکلیئر انجینئرز تھے۔

ڈاکٹر تسنیم شاہ: we are here in to make centrifuges اور وہ میٹیریل ہم نے نکالنا ہے ان سنٹریفیوجز سے جس سے کہ ہم ایک اٹامک بم بنا سکیں۔

شمشاد احمد: چوبیس سال پہلے (1998ء) یہ ساؤتھ ایشیا جو ہے یہ overly nuclearised ہوا تھا۔

بریگیڈیئر فیروز حسن خان:

Turning the nuclear program into a weapon program, the first publicly known idea that was planted was by Zulfikar Ali Bhutto. He was the one who was actually asked a question publicly, "what would you do if India builds a bomb?" Because it was China's nuclear test in 1964 followed by a change in India's program, that changed Pakistan's program into two camps. 

فوزیہ شاہد: ہم نے early 1980s میں دیکھا بلکہ end of 1970s میں بھی ہم یہ جانتے تھے کہ اس قسم کی جو ڈیوائس ہے وہ ہمارے پاس آ چکی ہے۔ اس وقت جب ایٹم بم کی بات آتی تھی تو وہ ایک یورینیم کی افزودگی کی بات ہوتی تھی کہ اس کو کس طرح وہ کیا جا رہا ہے۔ 

اشرف ملخم: امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی پتہ تھا کہ پاکستان بم کام کر رہا ہے، انہوں نے اٹامک بم بنایا ہوا ہے، لیکن چونکہ پاکستان کا کردار بہت اہم تھا اس وقت against Soviet Union اس لیے امریکنوں نے پاکستان کو یہ سارا کچھ کرنے دیا۔ 

سکرین:

In march 1976, France and Pakistan signed a mutual agreement for the supply of a plutonium-based nuclear reprocessing plant at Chashma. However, this deal came under attack from various countries, particularly the United States.

اشرف ملخم: mid 1970s میں کہیں پاکستان نے فرانس کے ساتھ ایک ری پراسیسنگ پلانٹ کا ایگریمنٹ کر لیا۔ ایکچوئلی وہ بھی ایک deception تھی، پاکستان never wanted کہ اس کے لیے جائے، پوری دنیا نے اس ایگریمنٹ کو کینسل کروانے کے لیے، سپیشلی انڈیا نے اور امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، بھٹو کہتا ہے ہم نہیں کینسل کریں گے، فرانس کینسل نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان کبھی وہ ری پراسیسنگ پلانٹ کا ایگریمنٹ کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔

ڈاکٹر افضل خان: ایٹم بم بنانے کے نا تین راستے ہیں۔ جو دنیا میں شروع میں تھا وہ یہ تھا کہ نیوکلیئر پاور پلانٹ میں سے جو یورینیم نکلتا ہے، اس کو پلوٹونیم کہتے ہیں، اس کو آپ ریفائن کر کے ایٹم بم بناتے تھے۔ دوسرا ہوتا ہے ایک ری پراسیسنگ ہے، کیمیکل طریقہ ہے۔ تیسرا یہ تھا سنٹری فیوج والا جو ڈاکٹر اے کیو خان صاحب لے کر آئے تھے۔ 

ڈاکٹر نور محمد بٹ: ہمارے دو پروگرام تھے نیوکلیئر۔ ایک ہوتا ہے پلوٹونیم سے، یا جو یورینیم ری ایکٹرز میں بنتا ہے، اس سے پلوٹونیم تیار ہوتا ہے، اس سے پرانے بم (بنتے ہیں) جو امریکہ نے چلائے تھے، وہ پلوٹونیم کا بم تھا۔ 

شمشاد احمد: تو 1974ء سے ہمیں بہت سخت پریشانی تھی کہ کیا کیا جائے۔ تو ہم نے بہت initiatives لیے، بھٹو نے، اور ان میں سب سے پہلا یہی تھا کہ یونائیٹڈ نیشنز میں ہم نے پروپوزل دی کہ ساؤتھ ایشیا کو نیوکلیئر فری زون قرار دیا جائے۔ اور ہم نے یہ کہا کہ joint renunciation of manufacture and acquisition of nuclear weapons ہونی چاہیے، ہم دونوں مل کر، انڈیا اور پاکستان، یہ ایک معاہدہ کریں۔ اور ہم نے یہ بھی آفر کیا کہ ہم mutually bilaterally agree کریں کہ کوئی نیوکلیئر ٹیسٹ نہیں کریں گے، کوئی میزائل کا ٹیسٹ نہیں کریں گے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اتنے سارے initiatives کرنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ انڈیا نے کوئی توجہ نہیں دی بلکہ پوری دنیا نے اس کو اگنور کیا۔ 

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: 

This is one element of Pakistan's (nuclear) policy that is never ever for compromise. 

سکرین:

Pakistan carried out the first cold tests of weapon design between 1983 and 1984. By 1985, Pakistan was capable of testing the nuclear device.

ڈاکٹر تسنیم شاہ: ضیاء الحق کا دور تھا یہ، 1984ء تک ہمارے پاس یہ تمام چیزیں بن کر تیار ہو گئی تھیں۔ 1984ء سے لے کر 1998ء تک ہم صرف انتظار کرتے رہے، چھ اور آٹھ چودہ سال۔ 

اشرف ملخم: ضیاء الحق اس وقت پریزیڈنٹ آف پاکستان تھے، یا شاید پریزیڈنٹ نہیں تھے وہ، مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہی تھے، انہوں (ڈاکٹر عبد القدیر خان) نے کہا جی we are ready ہمارا بالکل پورا سسٹم ریڈی ہے، جب چاہیں گے ہم ایٹمی دھماکہ کر دیں گے، اناؤنس آپ نے کرنا ہے، ٹائمنگ آپ کی ہو گی we are ready for it

ڈاکٹر افضل خان: پہلے بھی ہمارے اوپر بہت زیادہ پریشر ہوتا تھا باہر کی گورنمنٹس کا، خاص طور پر یورپ کا اور امریکہ کا۔ تو یہ لوگ بہت ڈرتے تھے کہ کچھ ہو نہ جائے، کچھ ہو نہ جائے، تو یہ ہر چیز سیکرٹ کرتے تھے۔ تو کولڈ ٹیسٹ بھی انہوں نے سیکرٹلی کیا تھا۔ 

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: ایک cold test ہوتا ہے، ایک hot test، ہاٹ ٹیسٹ تو ایکسپلوژن کو کہتے ہیں۔ کولڈ ٹیسٹ وہ ہوتے ہیں جو آپ شروع میں بہت سارے کرتے ہیں تاکہ آپ میں کانفیڈنس آئے، تو جہاں تک مجھے پتہ ہے ہم کوئی 78 کولڈ ٹیسٹ کر چکے تھے کامیاب۔ 

ڈاکٹر تسنیم شاہ: ایک میٹیریل ہوتا ہے، اس کو پلیس کیا جاتا ہے سنٹرل میں، اس کے چاروں طرف لینزز ہوتے ہیں، اور الیکٹرانکلی (ان) لینزز کو چارج کیا جاتا ہے، اور لینز سے ہیٹ نکلتی ہے، اور وہ ہیٹ جنریٹ ہوتی ہے، اور وہ جو بیچ میں source پلیس ہوا ہوا ہے، اس سورس میں سے ایک منٹ میں 72 نیوٹرانز نکلنے چاہئیں، اگر اتنے نکل گئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ اس کو hot test کریں گے تو chain reaction ہو جائے گا۔

ڈاکٹر نور محمد بٹ: کئی قسم کے کام ہوتے ہیں جو وہاں پہ، مین اٹامک انرجی کمیشن کی ٹیم، جس میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند تھے، اور بھی کافی سائنٹسٹس تھے a few hundred scientists and engineers were involved اور یہاں تک کہ چاغی کی جو انڈرگرؤنڈ، پہاڑ کے نیچے جو ٹنل تھی، چھ سات کلو میٹر خندق کھودی گئی تھی، جس میں کیبلز ڈالنے تھے، کنٹرول روم، جس سے کمپیوٹر سے بم کو آن کرنا تھا وہ چھ سات کلو میٹر دور تھا۔ وہ ساری چیز مین اٹامک انرجی کمیشن کے جیالوجسٹس وغیرہ یا سائنٹسٹس وغیرہ نے تیار کی ہوئی تھی by 1980s ہم تیار تھے۔ 1984ء یا 1982ء وغیرہ میں ہم تیار تھے testing of our nuclear weapon لیکن پولیٹیکل ریزنز کی وجہ سے ہم نے اس کو روکے رکھا۔ 

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: غلام اسحاق جب تک زندہ تھے تب تک تو یہ (اٹامک کمیشن اور خان لیبارٹریز کا باہم اختلاف) کنٹرول میں رہا، لیکن after the death of Ghulam Ishaq Khan یہ 1993ء کے بعد سے it became very ugly until the nuclear test یہاں تک کہ ٹیسٹ کے اوپر بھی ہو گیا کہ میں کروں گا، تو کون کرے گا so that became a problem

پاکستانی سفارتکار:

 These would have an adverse effect on the economy and I think the government and the people are prepared for it in the sense that, firstly, there would be no flow of capital coming from there, and I think the worst form of, the most adverse reaction would be as a consequence of the stopping of the investment, you know, which we were expecting as a consequence of the opening of our market. (30th May 1998)

سرتاج عزیز: یہ جو ہماری نیوکلیئر کیپسٹی ہے اس پہ شکر ہے خدا کا کہ ہم نے کبھی کمپرومائز نہیں کیا، اور نہ صرف یہ کہ گورنمنٹ نے نہیں کیا، پوری قوم اس کے لیے تیار تھی۔ 

شیخ رشید احمد: اس میں بعد میں ان لوگوں نے بھی حمایت کی جنہوں نے مخالفت کی تھی۔ 

فوزیہ شاہد: سب کے علم میں تھا، امریکہ کی طرف سے سینکشنز کا بھی پتہ تھا، ہماری اکانومی کی کیا صورتحال ہے، وہ بھی تمام چیزوں کا سب کو علم تھا۔ 

سرتاج عزیز: اس سے پہلے جو پریسلر سینکشنز لگی تھیں 1990ء میں، وہ صرف امریکہ نے لگائی تھیں، کہ ہم نیوکلیئر کیپسٹی بلڈ کر رہے ہیں۔ لیکن جو 1998ء میں لگی تھیں وہ تمام G8 کنٹریز نے لگائی تھیں سینکشنز، اور ہماری پوری ایڈ جو ہے وہ ایک طریقے سے بند ہو گئی تھی، تو contigency پلان ہم نے بنایا کہ کس طریقے سے ہینڈل کرنا ہے۔ چھ مہینے کے اندر اندر جب ہم نے CTBT کی بات کی تو وہ کسی حد تک ریلیکس ہو گئی تھیں اور پھر ہماری aid بھی جو ہے وہ resume ہو گئی تھی۔ 

اشرف ملخم: جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دیے، بڑی سخت سینکشنز آئیں امریکہ کی طرف سے، جب ماشل لاء لگا اکتوبر 1999ء میں تو ہم almost default کر گئے تھے، ہماری مالی پوزیشن اتنی خراب ہو گئی تھی کہ گورنمنٹ نے عام پبلک کے بینک اکاؤنٹس فریز کر کے ان سے ڈالرز لے لیے تھے، ڈالرز ان کو کبھی واپس نہیں ملے، روپیہ بھی بہت سالوں بعد ملا۔ 

شمشاد احمد: انڈیا کے 11 اور 13 مئی کو ٹیسٹ ہوئے، کسی کو سلامتی کونسل کی یاد نہیں آئی تھی، مگر جس دن ہم نے ٹیسٹ کیے، 28 مئی کو اور 30 مئی کو، تو 6 جون کو سلامتی کونسل کی ایک ایمرجنسی کی میٹنگ بلا لی گئی کہ condemn کرنے ہیں ٹیسٹ۔ یعنی ہمارے ٹیسٹوں سے دنیا پریشان ہو گئی، انڈیا کے ٹیسٹوں سے ان کو کوئی، لگتا تھا کہ جیسے کوئی مٹھاس ملی ہو۔ 

فوزیہ شاہد: تو اس وقت وہ بات آنے لگی تھی خودانحصاری کی، اپنے پہ ہم نے خود کرنا ہے وہ کرنا ہے، اور مجھے تو کچھ ایسے ایکسپیرئنسز لوگوں کے سننے میں آئے کہ وہ چیزیں جو ہم امپورٹ کر رہے تھے، اور خاص طور پر ڈیفنس ریلیٹڈ چیزیں بھی تھیں، اس میں، میں نیوی کے وہاں کراچی گئی تو وہاں سے بھی پتہ چلا کہ بہت سی چیزیں تھیں جو ہم پابند تھے کہ امریکہ لینے کے لیے، لیکن جب ہم پر سینکشنز لگیں تو وہ جو چیزیں تھیں، پرزے کہہ لیجیے، پیچ کہہ لیجیے، کچھ بھی کہہ لیجیے، چھوٹی چھوٹی چیزیں جو ہوتی ہیں مختلف اوقات میں بنتی رہتی ہیں، تو وہ انہوں نے خود بنانا شروع کر دیں۔

ڈاکٹر افضل خان: ایٹم بم سب سے پہلے کس نے بنایا ہے؟ امریکہ نے بنایا ہے۔ ایجاد کس نے کیا ہے؟ جرمنی نے کیا تھا ورلڈ وار ٹو سے پہلے۔ پھر کس نے بنایا تھا ایٹم بم؟ رشیا نے بنایا تھا۔ رشیا نے کہاں سے لیا تھا ڈیٹا؟ جرمنی سے لیا تھا۔ امریکہ نے ایٹم بم کا ڈیٹا کہاں سے لیا تھا؟ جرمنی سے لیا تھا۔ پھر یہ کس نے بنایا جی؟ انگلینڈ نے بنایا۔ پھر کس نے بنایا جی؟ فرانس نے بنایا۔ پھر چائنہ آجاتا ہے۔ اور اس کے بعد انڈیا آجاتا ہے۔ اور پھر ساتویں نمبر پر پاکستان آتا ہے۔ 

اشرف ملخم: جو peace process بہت آگے بڑھا تھا ان بم دھماکوں کی وجہ سے بڑھا تھا، دونوں سائیڈز کی جو انٹیلجنسیا تھی، جو اکانومسٹس تھے، جو دوسرے سپیشلائزڈ لوگ تھے، ڈپلومیٹ تھے، ان کا کہنا تھا کہ اب ہمیں صلح کر لینی چاہیے۔ 

شمشاد احمد: امریکہ نے کوشش اور جاری رکھی، دونوں انڈیا اور پاکستان کے ساتھ، اور ایک ڈائیلاگ شروع کیا جس کے آٹھ آٹھ راؤنڈز ہوئے، انڈیا کے ساتھ سیپرٹلی اور پاکستان کے ساتھ سیپرٹلی۔ انڈیا کے وزیر خارجہ تھے جسونت سنگھ، وہ ان کی طرف سے لیڈ کرتے تھے، اور امریکہ کی طرف سے سٹروب ٹالبوٹ تھے جو ڈپٹی سیکرٹری تھے وہاں کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے۔ میں پاکستان کی ترجمانی کرتا تھا، اور سٹروب ٹالبوٹ میرا کاؤنٹر پارٹ تھا۔ تو ہم دونوں نے، انڈیا نے اور پاکستان نے اس کے ساتھ ڈائیلاگ کر کے اپنی اپنی پوزیشن رکھی۔ بلکہ ہم نے کشمیر کا ایشو بھی اس میں ڈالا۔ ان کا چار نکاتی ایجنڈا تھا۔ پہلی تھی کہ CTBT سائن کریں۔ نمبر دو Fissile Material Treaty پہ نیگوشیئشنز جوائن کریں۔ تیسرا تھا ایکسپورٹ کنٹرول۔ اور چوتھا تھا کہ non-deployment ہونی چاہیے۔ 2005ء میں جب جارج ڈبلیو بش، جو ینگ بش ہے، وہ انڈیا گیا، اور وہاں جا کر انڈیا کے ساتھ ایک ایگریمنٹ کر کے آیا من موہن سنگھ کے ساتھ بات چیت کر کے، اور اس ایگریمنٹ کے تحت نہ صرف انڈیا کے ساتھ ایک ڈیفنس ایگریمنٹ ہوا بلکہ نیوکلیئر ایگریمنٹ بھی کر لیا کہ انڈیا کو جو non-proliferation regime ہے اس سے waiver دینا شروع کر دیا، وہ ایگریمنٹ تھا۔ پہلے ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ انڈیا پاکستان اکٹھا دورہ کیا کرتے تھے، لیکن اس دورے میں بش نے پاکستان آنے کے لیے کوئی رضامندی ظاہر نہیں کی، ہاں، رکا تھوڑی دیر کے لیے آکے یہاں، اور امریکن ایمبسی میں رکا، تو جس وقت اس نے پریس کانفرنس مشرف کے ساتھ پریزیڈنسی میں کھڑے ہو کر ایڈریس کی تو ہمارے کسی جنرلسٹ نے پوچھا کہ آپ نے انڈیا کے ساتھ ایک waiver دے دیا ہے preferential treatment دیا ہے، تو پاکستان کو کیوں نہیں؟ تو اس نے کہا کہ Pakistan is a different country انڈیا ایک اور ملک ہے، انڈیا کی اپنی اور تاریخ ہے، پاکستان کی اپنی تاریخ ہے، تو ہم پاکستان کو انڈیا کے برابر نہیں سمجھتے۔ دوسرے لفظوں میں اس نے انڈیا کو پاکستان سے الگ کر دیا۔ 

شمشاد احمد (وزیر خارجہ):

 We will not submit to browbeating. We will take all appropriate measures to protect our sovereignty, territorial integrity and national interests. Pakistan will uphold its image as a self-respecting nation with pride and dignity. (28th May 1998)

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: in order to prevent that unhealthy competition and to turn that into a synergy of efforts from both sides یہ کام پھر SPD (سٹریٹیجک پلانز ڈویژن) کے آنے کے بعد ہوا ہے جب ہم نے ایس پی ڈی فارم کیے نیوکلیئر ٹیسٹس کے بعد، پھر ایس پی ڈی نے یہ ساری چیزیں کنٹرول کر کے یہ ساری چیزوں کو ایک پیج پر لائے ہیں۔ 

ڈاکٹر نور محمد بٹ: ایک اور امپارٹنٹ پروگرام تھا میزائل پروگرام، کیونکہ جب ایٹم بم بن جائے تو اس کو ڈیلیور کرنے کے لیے بھی عام جہاز تو استعمال نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ سپیشل پروگرام جو میزائلز کا تھا وہ بھی خان صاحب نے شروع کیا۔ لیکن اس کے بعد پھر NESCOM جو ایک نیا (ادارہ بنا) جس میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند چیئرمین بنے، ایکسپلوژن کرنے کے بعد، تو وہ پھر میزائل پروگرام انہوں نے پھر شروع کیا نئی ٹیکنالوجی سے۔ 

ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: اس ملک کے سائنٹسٹس، انجینئرز بہت capable ہیں، اس ملک کے ٹیکنیشنز، میں نے وہاں لوگوں کو دیکھا، KRL میں جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قابلیت پاکستانیوں کی، محنت، جذبہ، اور یہ ملک مرا نہیں ہے زندہ ہے، اور یہ ملک، اگر آپ لوگ اگر آپ کی جنریشن اس کو ٹھیک چلائے تو آپ گاڑیاں بھی بنا سکتے ہیں، جہاز بھی بنا سکتے ہیں، کمپیوٹرز بھی بنا سکتے ہیں، مطلب پاکستان کوئی سیکنڈ کلاس ملک نہیں ہے۔

بریگیڈیئر فیروز حسن خان: the biggest example of independent foreign policy is Pakistan's nuclear program نیوکلیئر پالیسی تو پہلے سے evolve ہو رہی تھی، بہت پہلے سے، لیکن there was no structural organization جو کہ coherent طریقے سے comprehensively نیوکلیئر پالیسی کو پروڈیوس کرے۔ پالیسی کا فنڈامنٹل رول یہ تھا کہ we will never allow a humiliating defeat of the kind that happened in Dhaka in 1971

ڈاکٹر نور محمد بٹ: ہماری پالیسی ہے سیلف ڈیفنس کی، اور اگر پتہ لگے تو یہ ہماری پالیسی ہے we will not hesitate to attack، انڈیا کے لیے یہ جو وار کی تھریٹ تھی، نیوکلیئر کی، وہ تو ختم۔ لیکن یہ ہے کہ اب وہ دوسرے طریقے سے پاکستان کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں، cultural revolution ہے، میڈیا میں خاص طور پہ۔

https://youtu.be/uGgWszgCmrI


(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter