پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق

گزشتہ کچھ عرصے سے ہم نے ماہانہ بلاگ کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس میں مختلف اداروں اور شخصیات کے شائع کردہ مواد کے تراجم (translations) اور ویڈیوز کے متون (transcripts) شامل کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ معیاری کام کیا جائے تاکہ اصل مواد کی اہمیت و قدر کسی طرح سے کم نہ ہو۔ لیکن بہرحال چونکہ تراجم اور متون اس طرح سے بغیر پیشگی اجازت کے شائع کرنا قانونی طور پر قابلِ اعتراض ہے، تو اس سلسلے میں اصل مواد کے مالکان سے تعاون کی توقع رکھتے ہوئے ہم قارئین کو یہ اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ اگر اس بارے میں کوئی اعتراض موصول ہوا تو متعلقہ مواد ہمارے ماہانہ بلاگ سے ہٹا دیا جائے گا۔ ادارہ


کاپی رائٹ آرڈیننس 1962ء

پاکستان میں تخلیقی کاموں، ادبی و فنّی اثاثوں، اور مواد کی ملکیت کے تحفظ کے لیے جو قانون نافذ ہے، وہ "کاپی رائٹ آرڈیننس 1962ء" (The Copyright Ordinance, 1962) ہے۔ یہ قانون ابتدائی طور پر 3 جولائی 1962ء کو نافذ ہوا، اور اس کے بعد متعدد ترامیم کے ذریعے اسے وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا۔ یہ قانون دراصل برطانوی نوآبادیاتی دور میں رائج "انڈین کاپی رائٹ ایکٹ 1914ء" کا تسلسل تھا، جسے آزادی کے بعد پاکستان میں نافذ کیا گیا، لیکن جلد ہی ایک آزاد قومی قانون سازی کی ضرورت محسوس ہوئی، جو بعد میں 1962ء کے آرڈیننس کی شکل میں سامنے آئی۔

قانون کا دائرہ کار

کاپی رائٹ ایکٹ 1962ء پاکستان کے اندر درج ذیل تخلیقی اصناف کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے:

  • ادبی تخلیقات (کتابیں، نظمیں، مضامین)
  • فنّی کام (تصاویر، پینٹنگز، نقشہ جات)
  • موسیقیاتی کمپوزیشنز
  • ڈرامائی تخلیقات
  • فلمیں اور سنیماٹوگرافک ورکس
  • صوتی ریکارڈنگز
  • کمپیوٹر سافٹ ویئر (بعد ازاں ترامیم کے ذریعے شامل)

اہم دفعات و شقیں

دفعہ 3: کاپی رائٹ کا حق

یہ دفعہ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کون سا کام کاپی رائٹ کے تحت تحفظ کا اہل ہے اور کس حد تک۔

دفعہ 5: ملکیت کا تعین

یہ شق بتاتی ہے کہ اصل مصنف یا تخلیق کار کو عمومی طور پر کاپی رائٹ حاصل ہوتا ہے، تاہم مخصوص حالات (مثلاً اجرت پر تیار کردہ کام یا اشاعتی معاہدہ) میں حقوق کسی دوسرے شخص یا ادارے کو منتقل ہو سکتے ہیں۔

دفعہ 12: مدتِ تحفظ

ادبی، فنّی اور ڈرامائی کاموں کے لیے کاپی رائٹ کا تحفظ عام طور پر مصنف کی زندگی + 50 سال تک نافذ رہتا ہے۔

دفعہ 56 تا 70: خلاف ورزی اور سزائیں

اگر کوئی شخص کسی بھی تخلیق کو بغیر اجازت نقل کرے، شائع کرے یا نشر کرے تو یہ جرم سمجھا جاتا ہے، اور اس پر جرمانہ، مقدمہ اور قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

دفعہ 74: کسٹم اتھارٹیز کو اختیارات

غیر قانونی درآمد یا برآمد ہونے والے مواد کو روکنے کے لیے کسٹم حکام کو خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں۔

ترمیمات

اس قانون میں وقتاً فوقتاً ترامیم کی گئی ہیں جن میں نمایاں درج ذیل ہیں:

  • 1992ء کی ترمیم: کمپیوٹر سافٹ ویئر کو کاپی رائٹ کے دائرہ کار میں شامل کیا گیا۔
  • 2000ء کی ترمیم: ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرنیٹ سے متعلق تحفظات شامل کیے گئے۔
  • 2005ء کی ترمیم: پاکستان نے WTO اور TRIPS معاہدوں کی روشنی میں قانون کو ہم آہنگ کیا۔

عمل درآمد کا طریقہ کار اور عملی صورتحال

کاپی رائٹ کے تحفظ کے لیے وفاقی حکومت کے تحت "کاپی رائٹ آفس" (Copyright Office) کام کرتا ہے جس میں تخلیقات کو رجسٹر کروایا جا سکتا ہے۔ تاہم رجسٹریشن کا عمل لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے، اور قانونی تحفظ تخلیق کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی حاصل ہو جاتا ہے۔

عملی صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ:

  • پاکستان میں جعلی مواد، غیر قانونی سافٹ ویئر، اور کتابوں کی قسط وار کاپیاں عام ہیں، جو قانون کے عملی نفاذ میں کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
  • کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے مقدمات اکثر لمبے عرصے تک عدالتوں میں لٹکے رہتے ہیں۔
  • عام مصنفین اور فنکاروں کو اپنے حقوق کا شعور نہیں ہوتا جس کا فائدہ پبلشرز اور بڑے ادارے اٹھاتے ہیں۔

ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کی قانونی حیثیت

تراجم (Translations) کی حیثیت

بطور ثانوی تخلیق (Derivative Work)

قانون کے مطابق، اگر آپ کسی اصل ادبی، ڈرامائی یا سائنسی تخلیق کا ترجمہ کرتے ہیں، تو یہ ترجمہ "Derivative Work" (ثانوی تخلیق) کے زمرے میں آتا ہے۔

ترجمے کے لیے اجازت درکار

آپ کو کسی بھی اصل مصنف کے کام کا ترجمہ کرنے سے پہلے اصل تخلیق کے کاپی رائٹ ہولڈر سے تحریری اجازت لینا ضروری ہے۔ اگر ترجمہ بغیر اجازت کے شائع کیا جائے تو یہ خلاف ورزی (Infringement) میں شمار ہوگا۔

ترجمے پر الگ کاپی رائٹ

اگر اجازت لے کر ترجمہ کیا جائے تو مترجم کو اپنے ترجمے پر کاپی رائٹ حاصل ہوتا ہے، بشرطیکہ وہ ترجمہ ایک تخلیقی کاوش کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

پبلک ڈومین

اگر اصل تخلیق Public Domain (یعنی جس پر کاپی رائٹ ختم ہو چکا ہو) میں ہو، تو کوئی بھی فرد اس کا ترجمہ کر سکتا ہے اور اس ترجمے پر اسے الگ کاپی رائٹ حاصل ہوگا۔

ٹرانسکرپٹس (Transcriptions) کی حیثیت

اگر یہ تخلیقی نوعیت کے ہوں

اگر ٹرانسکرپٹ میں کوئی تخلیقی یا فنّی عمل شامل ہو—مثلاً کسی تقریر یا سمعی مواد کو واضح اور سلیقے سے تحریری شکل دینا—تو یہ نئی تخلیق تصور ہو سکتی ہے اور اس پر کاپی رائٹ حاصل ہو سکتا ہے۔

اصل مواد کا تحفظ

تاہم، اگر ٹرانسکرپشن کسی ایسے مواد پر مبنی ہو جو پہلے سے کاپی رائٹ کے تحت ہو (مثلاً ایک ناول کی آواز کی ریکارڈنگ)، تو اس مواد کو بغیر اجازت نقل کرنا کاپی رائٹ کی خلاف ورزی ہوگی، چاہے وہ نقل تحریری شکل میں ہو۔

تقاریر اور خطابات

اگر کوئی شخص اپنی ذاتی تقریر یا خطاب کا ٹرانسکرپٹ تیار کرے، تو اس پر اسے مکمل کاپی رائٹ حاصل ہوتا ہے۔ تاہم، اگر کسی اور کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ بنایا جائے، تو اجازت لینا لازم ہے۔

قانونی حوالہ

دفعہ 2، ذیلی دفعہ (m) میں "Adaptation" اور "Translation" دونوں کی تعریف شامل کی گئی ہے، اور بعد کی دفعات (خصوصاً دفعہ 3 اور دفعہ 5) کے تحت یہ واضح ہے کہ:

"کاپی رائٹ کا حق ہر اس کام پر ہوتا ہے جو اصل یا اجازت یافتہ تخلیق پر مبنی ہو، بشمول ترجمے، ماخوذہ کام، یا کسی دوسرے میڈیم میں تبدیلی۔"

عملی اطلاق

  • ایک مترجم کسی انگریزی ناول کا اردو ترجمہ صرف اس صورت میں شائع کر سکتا ہے جب اسے اصل مصنف یا پبلشر سے باقاعدہ اجازت حاصل ہو۔
  • کوئی تعلیمی ادارہ یا ادارہ نشریات (Broadcaster) کسی تقریر یا لیکچر کا ٹرانسکرپٹ صرف تب شائع کر سکتا ہے جب مواد کے اصل حقوق محفوظ نہ ہوں یا اجازت لی گئی ہو۔
  • اردو کلاسیکی ادب، جیسے غالب، میر یا سعدی وغیرہ، جن پر کاپی رائٹ ختم ہو چکا ہے، ان کے تراجم یا ٹرانسکرپٹس پر مترجم کو الگ حقوق حاصل ہو سکتے ہیں۔

مناسب استعمال (Fair Use/Fair Dealing)

پاکستانی قانون میں "فیئر ڈیلنگ" (Fair Dealing) کا تصور موجود ہے، جو کہ کچھ خاص حالات میں کاپی رائٹ شدہ مواد کے استعمال کی اجازت دیتا ہے بغیر اجازت کے۔ تاہم، یہ بہت محدود ہوتا ہے اور درج ذیل مقاصد کے لیے ہو سکتا ہے:

  • ذاتی تحقیق یا نجی مطالعے کے لیے۔
  • کسی کام پر تنقید یا تبصرہ کرتے وقت اس کے کچھ حصے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
  • خبروں یا حالات حاضرہ کی رپورٹنگ کے لیے۔
  • تعلیمی مقاصد کے لیے محدود استعمال۔

فیئر ڈیلنگ کا تعین کیس بہ کیس کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اس کی حدود کو سمجھنا ضروری ہے۔ بہت زیادہ مواد استعمال کرنا یا تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا فیئر ڈیلنگ کے تحت نہیں آتا۔ ایک ٹرانسلیشن یا مکمل ٹرانسکرپٹ عام طور پر فیئر ڈیلنگ کے زمرے میں نہیں آتی۔

 ٹرانسلیشن خود ایک تخلیقی کام سمجھی جا سکتی ہے، لہٰذا ٹرانسلیٹر کے بھی اس پر کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ تاہم، یہ حقوق اصلی کام کے کاپی رائٹ کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اگر آپ اجازت سے ٹرانسلیشن کر رہے ہیں، تو ہمیشہ اصلی مصنف اور کام کا حوالہ دیں اور اپنی ٹرانسلیشن کو اصلی کام کا ترجمہ قرار دیں۔ کسی بھی ٹرانسلیشن کا تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے پہلے یقینی بنائیں کہ آپ کے پاس تمام ضروری حقوق موجود ہیں۔

ترانسکرپٹس بنانا یعنی کسی کی تقریر، انٹرویو، یا آڈیو ریکارڈنگ کا متن تیار کرنا اور اسے شائع کرنا کاپی رائٹ کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر وہ تخلیقی نوعیت کا مواد ہو۔ اگر تقریر عوامی دائرے میں ہے (جیسا کہ پرانی تاریخی تقریریں جن کے کاپی رائٹ کی مدت ختم ہو چکی ہے) تو اس کی ٹرانسکرپٹ بنائی جا سکتی ہے۔ براہ راست نشر ہونے والے پروگراموں یا لائیو ایونٹس کی ٹرانسکرپٹس اکثر خبروں کی رپورٹنگ کے تحت فیئر ڈیلنگ میں آ سکتی ہیں، لیکن مکمل ٹرانسکرپٹ شائع کرنے سے پہلے اجازت لینا بہتر ہے۔

کاپی رائٹ قوانین کے مطابق، کچھ مخصوص صورتیں ایسی ہیں جن میں ادبی، ڈرامائی، موسیقی یا فنکارانہ مواد کا استعمال خلاف ورزی نہیں سمجھا جاتا۔ اگر یہ مواد تحقیق، ذاتی مطالعہ، تنقید، جائزہ یا خبری رپورٹنگ کے لیے منصفانہ انداز میں استعمال کیا جائے، تو یہ جائز ہے۔ نثری مواد کے اقتباسات مخصوص حدوں کے اندر لیے جا سکتے ہیں، جیسے کہ 400 الفاظ تک ایک اقتباس یا کل 800 الفاظ تک متعدد اقتباسات، جبکہ نظموں میں 40 اشعار تک کا اقتباس مجاز ہے۔ تعلیمی مقاصد کے لیے اساتذہ یا طلباء کی طرف سے مواد کی نقل یا ترمیم کی جا سکتی ہے، اور تعلیمی اداروں میں عملہ اور طلباء تخلیقی کام پیش بھی کر سکتے ہیں۔ اگر کوئی کتاب فروخت کے لیے دستیاب نہ ہو، تو سرکاری یا غیر منافع بخش لائبریری اس کی تین نقلیں بنا سکتی ہے۔ بعض حکومتی کاموں کی اشاعت کی بھی اجازت ہے، جب تک اس پر پابندی نہ ہو۔ اسی طرح، "فریڈم آف پینوراما" کے تحت عوامی جگہوں پر موجود فن تعمیر یا مجسمے کی تصاویر، خاکے یا فوٹو بھی بنائے اور شائع کیے جا سکتے ہیں۔

خلاصہ

کاپی رائٹ آرڈیننس 1962ء پاکستان میں تخلیقی و فکری اثاثوں کے تحفظ کا بنیادی ستون ہے۔ اگرچہ اس قانون میں ضروری ترامیم اور توسیعات کی گئی ہیں، مگر عملی طور پر اس کے مؤثر نفاذ کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات، تکنیکی اپ ڈیٹس، اور عوامی آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ ادبی و فنّی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ مصنفین اور فنکاروں کو اُن کے حقوق کا تحفظ دیا جائے، تاکہ تخلیق کا عمل ایک محفوظ اور باعزت ماحول میں فروغ پا سکے۔

ترجمہ اور ٹرانسکرپشن دونوں صورتوں میں کاپی رائٹ کا تصور اصل تخلیق کے تحفظ اور مترجم یا ٹرانسکرائبر کی محنت کی تسلیم شدہ حیثیت دونوں کو متوازن رکھتا ہے۔ بغیر اجازت ترجمہ یا ٹرانسکرپٹ بنانا قانونی خلاف ورزی ہے، مگر اجازت یا پبلک ڈومین کی صورت میں یہ تخلیقی کام شمار ہوتا ہے اور اس پر الگ کاپی رائٹ حاصل ہو سکتا ہے۔

(سورسز: چیٹ جی پی ٹی، گوگل جیمنی، ویکیپیڈیا، مائیکروسافٹ کوپائیلٹ)


معلوماتِ عامہ

(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter