توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ

توہینِ رسالتؐ کے مقدمات کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو کمیشن قائم کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے جس پر ایک بار پھر اس حوالہ سے بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور بہت سے دوستوں نے تقاضہ کیا ہے کہ اس سلسلہ میں ہم بھی کچھ گزارش کریں۔ چنانچہ اس مقدمہ کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت اور فیصلہ کے معاملات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اصولی طور پر اس مسئلہ کے چند ضروری تقاضوں پر چند معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔

جہاں تک توہینِ رسالتؐ کے سنگین جرم اور اس کی سزا پر عالمی سطح پر ہونے والی تگ و دو اور بحث و مباحثہ کی بات ہے یہ اب تک کی مسلّمہ حقیقت ہے کہ عالمی اداروں اور ماحول میں توہینِ رسالتؐ اور دینی شعائر کی بے حرمتی کو جرم تسلیم کرنے کی بجائے آزادئ رائے اور آزادئ فکر کے عنوان سے اسے حقوق کی فہرست میں شامل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، جو بین الاقوامی سیکولر لابیوں کی منظم محنت کا اہم ایجنڈا ہے ، مگر اس کے جواب میں اس سطح پر کوئی منظم اور مربوط جدوجہد نظر نہیں آ رہی۔ مسلم حکومتوں کو تو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، عالمِ اسلام کے نجی علمی و فکری ادارے بھی اس کے لیے اس درجہ میں متفکر دکھائی نہیں دیتے کہ اس سلسلہ میں کسی منظم جدوجہد کا اہتمام کر سکیں۔

ملک کے اندر توہینِ رسالتؐ و توہینِ صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہ قانوناً‌ جرم ہونے کے باوجود ان کے حوالہ سے درج مقدمات کی کاروائی کو جلد از جلد نمٹانے اور بزرگ شخصیات کی گستاخی کرنے والوں کو قانون کے مطابق کیفر کردار تک پہنچانے میں سنجیدگی کا ماحول نہیں ہے۔ جبکہ مختلف لابیاں اور این جی اوز ان مقدمات کو غیر مؤثر بنانے اور ان کی اہمیت کم کرنے کے لیے مسلسل محنت کر رہی ہیں۔

ہمارے ہاں مختلف مکاتبِ فکر کے مشترکہ فورم تحفظِ ختمِ نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالتؐ دونوں حوالوں سے کسی اشد ضرورت کے وقت تو متحرک ہو جاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ کر بھی لیتے ہیں مگر دوسری طرف کی محنت روز مرہ اور مستقل ایجنڈے کی بنیاد پر ہے، اس کا سامنا کرنے اور اس کا جواب دینے کے لیے یہ مشترکہ فوم مستقل کام کے موڈ میں نہیں ہیں حالانکہ جس انداز سے یہ کام سیکولر حلقوں کی طرف سے ہر سطح اور ہر دائرے میں مسلسل ہو رہا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالتؐ کے حوالہ سے مشترکہ فورم مستقل بیدار اور حرکت میں رہیں اور لادین عناصر کی سرگرمیوں کا سنجیدگی کے ساتھ علمی، فکری اور تحریکی سطح پر مقابلہ کریں۔

اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ایسے مقدمات بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گروہی، مسلکی اور طبقاتی عصبیت کے پس منظر میں درج ہوئے ہیں اور مبینہ طور پر ان میں بہت سے بے گناہ افراد کو پھنسایا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی اس قسم کے بہت سے مقدمات ہمارے ریکارڈ میں شامل چلے آ رہے ہیں، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کی اہمیت کو کم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ جس طرح کسی گستاخِ رسولؐ کو کیفر کردار تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے اسی طرح کسی بے گناہ کو سزا سے بچانا بھی ہم سب کی دینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے جس کا تمام دینی حلقوں کو احساس کرنا چاہیے۔

اس تناظر میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے حوالہ سے ہمارے نزدیک تمام مکاتبِ فکر کے سنجیدہ راہنماؤں کی باہمی مشاورت اور اس کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل و معاملات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ محنت وقت کا ناگزیر تقاضہ ہے جس کی طرف ہماری اعلیٰ قیادتوں کو سنجیدہ توجہ دینی چاہیے ورنہ صورت حال کے مزید خلفشار کا شکار ہونے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے مختلف دینی مکاتب فکر کی اعلیٰ قیادتوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس مسئلہ کی عالمی صورت حال اور ملک کے داخلی تناظر میں باہمی مشاورت کا جلد از جلد اہتمام کریں اور قوم کی صحیح سمت راہنمائی فرمائیں۔

(۱۷ جولائی ۲۰۲۵ء)


حافظ امجد محمود معاویہ: اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے توہینِ مذہبؐ کے سلسلہ میں درج مقدمات کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن قائم کرنے کی جو ہدایت جاری کی گئی تھی،  اسے اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کے دو رکنی بنچ نے   معطل کر دیا ہے۔

مولانا راشدی: ان عدالتی مقدمات میں ہم نہ فریق ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں ہم نے کسی بحث میں حصہ لیا ہے۔ ہمارا ایک اصولی موقف شروع سے چلا آ رہا ہے جس کا اظہار وہ گذشتہ دو عشروں کے دوران متعدد کالموں میں کر چکے ہیں کہ توہینِ رسالتؐ کے سنگین جرم کے حوالہ سے درج مقدمات میں بہت سے ایسے مقدمات بھی ریکارڈ پر ہیں جو مسلکی، گروہی اور دیگر وجوہات کے باعث درج ہوئے ہیں اور بہت سے بے گناہ افراد سالہا سال سے ان میں زیر حراست ہیں۔ جبکہ جس طرح صحیح مقدمات میں گستاخان رسولؐ و صحابہ کرامؓ کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچانا شرعاً‌ اور قانوناً‌ ضروری ہے اسی طرح غلط مقدمات میں ملوث بے گناہ افراد کو بچانا بھی شرعاً‌ و قانونا ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔ اس لیے اس سلسلہ میں محنت کرنے والے اداروں اور دینی جماعتوں کے لیے دونوں باتوں کا یکساں طور پر لحاظ رکھنا ضروری ہے ورنہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے اور توہینِ رسالتؐ و صحابہ کرامؓ پر سزا کے قانون کو بھی نقصان پہنچے گا کیونکہ اگر غلط مقدمات کا اندراج اور ان کی ریکارڈ پر موجودگی معروضی حقیقت ہے تو انہیں نظرانداز کر دینا کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ہو گا۔ ہمیں امید ہے کہ ہائی کورٹ اس معاملہ کے دونوں پہلوؤں کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی اور انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے گا۔

(۲۵ جولائی ۲۰۲۵ء)


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter