پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟

(وائس آف امریکہ کے یوٹیوب چینل پر ۱۲ اگست ۲۰۲۴ء کو نشر ہونے والا یہ انٹرویو جون ۲۰۲۲ء میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جسے ضروری تسہیل کے ساتھ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔)


پاکستان نے ایٹم بم کیوں بنایا؟

پاکستان 1947ء کے بعد ایک بہت ہی کمزور ملک تھا، اگر آپ اس کا انڈیا کے ساتھ موازنہ کریں تو پاکستان کے پاس آرمی، ایئرفورس، نیوی اور باقی گورنمنٹ سسٹمز بہت کمزور تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ ثابت ہو گیا تھا کہ دو ہی بڑی طاقتیں ہیں: ایک امریکہ کی اور ایک سوویت یونین کی۔ تو ’’سرد جنگ‘‘ کا جو شروع کا دور تھا، اس میں پاکستان نے ان میں سے کسی ایک کا سہارا لینا تھا، چنانچہ ابتدائی سالوں میں جب پاکستان کی تعمیر ہو رہی تھی، پاکستان کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ان کو امریکہ کے ساتھ رہنا چاہیے، کیونکہ اگر وہ کسی بڑی طاقت کے ساتھ رہیں گے تو ان کی ترقی میں اس کا عمل دخل بھی رہے گا۔

دوسری طرف انڈیا نے سوویت یونین کی سائیڈ لی، اگرچہ شروع میں انہوں نے کہا کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں ملیں گے، لیکن پاکستان کے موازنے میں ان کا جھکاؤ سوویت یونین کی طرف تھا۔ آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان کی متعدد جنگیں ہو چکی ہیں انڈیا کے ساتھ، تو شروع سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں انڈیا کا عمل دخل بہت زیادہ نمایاں تھا، اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو صرف یہی فکر ہوتی تھی کہ اگلی جنگ اگر ہوئی تو پاکستان کس طرح سے یہ جنگ جیتے گا؟ یا پاکستان کو اپنے بچاؤ کے لیے ضرورت تھی کہ اس کے پاس آرمی بھی ہو اور ہتھیار بھی ہوں تاکہ وہ انڈیا کے ساتھ لڑ سکے۔

انڈیا کی چائنہ کے ساتھ جو دشمنی تھی اور جو سرحدی تنازعات تھے اس کی وجہ سے انڈیا کا جھکاؤ جوہری پروگرام کی طرف ہم سے پہلے شروع ہوا تھا۔ 1964ء میں جب چائنہ نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس کے بعد سے انڈیا نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں حکمتِ عملی بنانا شروع کر دی تھی۔

پاکستان کے ساتھ انڈیا کی 1965ء میں جو جنگ ہوئی، اس جنگ میں پاکستان اور انڈیا دونوں کو امریکہ نے ہتھیار سپلائی کیے ہوئے تھے۔ ان کا ایک پروگرام تھا ’’میوچؤل اسسٹنس پروگرام‘‘ اس کے تحت یہ ہتھیار مہیا کیے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ یہ آپس میں استعمال نہیں کرنے، ہاں چائنہ کے خلاف اگر استعمال ہوں تو ان کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لیکن 1965ء میں جب جنگ ہوئی تو وہ ہتھیار استعمال ہوئے۔

توانائی کے حوالے سے پاکستان اور بھارت پہلے سے ہی کام کر رہے تھے لیکن 1965ء کی جنگ کے بعد انڈیا کے جوہری پروگرام نے زور پکڑنا شروع کیا کیونکہ اس سے بھی پہلے 1962ء میں انڈیا اور چائنہ کی جو جنگ ہوئی تھی اس میں انڈیا کو بہت بری طرح سے شکست ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ چائنہ اور پاکستان کے آپس میں تعلقات بڑھ رہے ہیں، اس سے انڈیا نے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھا۔

اس وقت جب انڈیا نے مقابلے پر اپنا یہ پروگرام شروع کیا اور اس کے بارے میں سوچنا شروع کیا، تو 1965ء کی جنگ اور اس کے مراحل سے آپ واقف ہیں، تب پاکستان میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ اگر انڈیا جوہری ہتھیار بنا لیتا ہے تو پاکستان پیچھے رہ جائے گا۔ وہ جوہری ہتھیار چاہے چائنہ کے لیے کیوں نہ بنا رہا ہو، لیکن پاکستان اور انڈیا کے جس نوعیت کے تعلقات تھے اس کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے یہ سوچا کہ وہ ہتھیار پاکستان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ تب 1965ء کے بعد سے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایوب خان کے دور میں اس بارے میں تھوڑی سی بات کرنی شروع کی لیکن جنرل ایوب کچھ زیادہ خوش نہیں تھے اس معاملے پر کہ پاکستان اپنا پروگرام شروع کرے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جب 1971ء میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوا، اور اس میں انڈیا کا پاکستان کو توڑنے میں اتنا بھرپور کردار رہا، تو اس کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ پاکستان کی ڈائریکشن کیا ہو گی۔

پریسلر ترمیم اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام

پاکستان میں ایک بہت مشہور موقف یہ ہے کہ ’’پریسلر ترمیم‘‘ جو آئی وہ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ تباہ کن پابندیاں تھیں۔ پریسلر ترمیم 1985ء میں پاس ہوئی تھی۔ یہ وہ وقت ہے جو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اپنے عروج پر تھے، جب سب سے زیادہ اقتصادی امداد آ رہی تھی۔ 1985ء میں جو میں نے انٹرویوز کیے، خارجہ پالیسی بنانے والے اپنے سفارتکاروں سے جب اس بارے میں پوچھا، اور اپنی تحقیق کے لیے جو دستاویزات تلاش کیں، تو اس سے ثابت یہ ہوا کہ جب یہ ترمیم پاس ہو رہی تھی تو پاکستان کو بتایا گیا تھا۔ اس ترمیم میں پاکستان کے جوہری پروگرام کے حوالے سے صرف یہ ایک بات تھی کہ اگر امریکی صدر یہ کہہ دیتا ہے کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، تو اس تصدیق کی بنیاد پر پاکستان کے لیے امریکہ کی طرف سے امداد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ تو آپ نے دیکھا کہ امریکی صدر رونالڈ ریگن نے تین دفعہ یہ سرٹیفکیشن دی، ایک سرٹیفیکیشن جارج بش (سینئر) نے دی۔

1985ء سے 1990ء تک جب ان کا مقصد پورا ہو گیا، سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا، اور پاکستان کی مدد سے یہ سب کچھ ہوا، تو جو معروف بیانیہ ہے وہ یہ کہتا ہے کہ جی امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا اور جب ان کا مقصد پورا ہو گیا تو انہوں نے پاکستان پر پابندیاں لگا دیں۔ جبکہ یہ اس ترمیم کا حصہ تھا کہ اگر امریکی صدر تصدیق نہیں کرتا کہ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں، تو خودبخود پابندیاں لگ جائیں گی۔

1990ء میں پاکستان اور انڈیا کا ایک بحران ہوا تھا جس میں جوہری ہتھیاروں کا معاملہ بھی تھا جس کے لیے پاکستان کو سامنے آ کر کچھ باتیں کرنی پڑیں۔ جب وہ باتیں باہر نکلیں تو پھر امریکہ کے پاس کوئی جواز نہیں تھا سرٹیفیکیشن دینے کا۔ اس طرح 1990ء میں یہ پابندیاں ہم پر لگیں۔ مسئلہ ان پابندیوں کا صرف یہ تھا کہ اگر وہ ہماری اقتصادی امداد روک لیتے تو بالکل ٹھیک تھا، لیکن انہوں نے ہمارے 28 ایف سولہ جنگی طیارے، جن کی پاکستان نے 658 ملین ڈالرز کی ادائیگی کی تھی، اس کی قسطوں میں ادائیگی ہو رہی تھی، وہ انہوں نے روک لیے۔ تو اس کی پاکستان کو بہت تکلیف تھی کیونکہ یہ امداد کا حصہ نہیں تھے۔

تو اب جو بیانیہ بنا پریسلر ترمیم کے بارے میں وہ یہ نہیں تھا کہ جی سرد جنگ ختم ہو گئی تو اب انہوں نے پاکستان پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ پابندیاں تو لگنی تھیں کیونکہ ہم نے بطور ملک کے 1990ء کے بحران کے بعد (ایٹمی پروگرام کے حوالے سے) بیان دیے تھے۔ جو مسئلہ اس پریسلر ترمیم میں تھا وہ ہمارے ایف سولہ کا تھا جو انہوں نے رکھ لیے تھے، جو کہ غیر قانونی چیز تھی۔ لیکن چونکہ امریکہ ایک سپرپاور ہے اور پاکستان کے پاس اتنی قوت نہیں تھی کہ وہ اپنے 28 ایف سولہ نکلوا سکتے، تو وہ ابھی تک بہت بڑا پوائنٹ ہے پاک امریکہ تعلقات میں۔

جب میں نے تحقیق کی اس مسئلہ پر اور انٹرویوز کیے تو مجھے پتہ چلا کہ 1990ء میں پاکستان پر پابندیاں لگی تھیں لیکن 1993ء تک پاکستان ان ایف سولہ جہازوں کی ادائیگی کرتا رہا۔ حالانکہ آپ کو نہیں کرنی چاہیے تھی، لیکن اس امید میں کہ جب یہ پریسلر ترمیم اٹھے گی تو ہمیں وہ 28 ایف سولہ مل جائیں گے۔ تو یہ پاکستان امریکہ تعلقات کا ایک بہت افسوسناک مرحلہ تھا جہاں ہمیں یہ لگا کہ ہمارے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوئی، اور واقعی ہوئی بھی تھی۔

ایٹمی دھماکے اور پابندیاں

اس وقت کلنٹن صدر تھے، اور دو دفعہ وہ صدر منتخب ہوئے تھے، 1998ء کے دھماکوں سے پہلے بھی پاکستان نے کلنٹن انتظامیہ کو انٹیلیجنس دی تھی کہ انڈیا دھماکے کرنا چاہتا ہے آپ ان کو روکیں۔ لیکن وہ انٹیلیجنس بیکار گئی کیونکہ دھماکے اس وقت نہیں ہوئے۔ لیکن پھر مئی کے مہینے میں انڈیا نے بھی دھماکے کیے اور ہم نے بھی کیے۔ اس کے بعد خودبخود ہم دونوں کے اوپر ’’گلین سینکشنز‘‘ لگیں جو کہ سینیٹر گلین نے پیش کی تھیں۔ اور وہ یہ تھی کہ جو بھی دھماکہ کرے گا اس کی بیرونی امداد اور اقتصادی تعاون رک جائے گا۔ تو وہ پابندیاں خودبخود انڈیا پر بھی لگ گئیں اور پاکستان پر بھی۔ لیکن جو بات بہت سے لوگوں کو نہیں پتہ وہ یہ ہے کہ اسی سال 1998ء کے آخر تک پاکستان اور انڈیا دونوں پر سے یہ پابندیاں ہٹ چکی تھیں اور امریکہ کے تعلقات دونوں کے ساتھ بحال ہو چکے تھے۔

ایک یہ تھا کہ انہوں نے قبول کر لیا کہ جی اب تو دھماکے ہو گئے ہیں، اب تو ہم کچھ نہیں کر سکتے، ساری عمر کے لیے تو بین نہیں لگا سکتے۔ اس طرح جو تجارت کے یا اور بہت سے معاملات تھے، ان پر سے کافی پابندیاں انہوں نے ہٹا دیں اور ہمارے ساتھ تعلقات بحال کیے۔

1999ء میں آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان میں حالات تبدیل ہوئے (جنرل مشرف اقتدار میں آئے) اور پھر کارگل بھی ہوا۔ اس میں بھی پاک امریکہ تعلقات کے اہم پہلو سامنے آئے۔ کارگل ایک بہت بڑا واقعہ ہے پاکستان کی تاریخ میں۔ پاکستان کا 1998ء سے 2001ء تک کا جو عرصہ ہے اس دوران کلنٹن انتظامیہ رہی ہے، اس نے پاکستان کے ساتھ بہت پازیٹو اور موافق تعلقات رکھنے کی کوشش کی ہے، ہر معاملے میں پاکستان کو سہولت پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ایف سولہ جہازوں کے علاوہ بھی ہمارا دفاعی سامان تھا، اس سلسلہ میں ہم کورٹ گئے اور ہم نے کہا کہ ہم نے جو ادائیگی کی ہے وہ واپس کریں، اس میں بھی کلنٹن انتظامیہ نے ہماری بہت مدد کی اور کچھ رقم واپس ملی، باقی کچھ گندم بھی ملی، آلو بھی ملے۔

2001ء میں جو معاملات سامنے آئے، تب پاکستان کی پھر ان کو ضرورت پیش آئی نائن الیون کے واقعات کے بعد۔ اور پاکستان سے ان کو پھر پابندیاں اٹھانی پڑیں، اسی طرح جیسے 1979ء میں انہوں نے پابندیاں ہٹائی تھیں۔ تمام کی تمام پابندیاں پاکستان سے اٹھا لی گئیں تاکہ ’’گلوبل وار آن ٹیررازم‘‘ جو انہوں نے شروع کی تھی نائن الیون کے دھماکوں کے بعد، اس میں پاکستان ان کا ساتھ دے۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان پر الزامات

ڈاکٹر عبدالقدیر خان، اللہ ان کو جنت نصیب کرے، پاکستان کے لیے بہت بڑا کردار تھے۔ جب وہ پاکستان واپس آئے تو ایسا نہیں تھا کہ امریکہ کو پتہ نہیں تھا۔ پوری دنیا کی انٹیلیجنس ان کے پیچھے تھی، اور جب وہ پاکستان ڈیزائنز لے کر آئے اور پاکستان کا یورینیم افزودگی کا پروگرام انہوں نے شروع کیا تو امریکہ کو اس بات کا پوری طرح سے علم تھا۔

اب بھی جب ہم کسی کانفرنس میں بیٹھتے ہیں تو وہ پاکستان کو ایک طرح سے ’’پوسٹر چائلڈ‘‘ بنا دیتے ہیں، پرولیفریشن اور عدم پھیلاؤ کے حوالے سے، اور وہ کہتے ہیں کہ جی ڈاکٹر عبد القدیر خان کا ایک پورا بلیک مارکیٹ کا نیٹ ورک تھا۔ لیکن آپ کتابیں پڑھیں اور ریسرچ پڑھیں، جنہوں نے اس بلیک مارکیٹ نیٹ ورک کو دیکھا ہے، اس میں 32 ممالک شریک تھے، سی آئی اے خود اس میں شامل تھی۔ چنانچہ 1974ء کے بعد سے پاکستان کے حوالے سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کا جو سفر ہے، اور جو بھی ان کی سرگرمیاں ہیں، اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے جو چیزیں انہوں نے حاصل کی ہیں، اس سب کا علم سی آئی اے کو شروع سے ہی ہے۔

ہم جب کسی کانفرنس میں بیٹھتے ہیں اور کوئی یہ کہتا ہے کہ جی پاکستان نے تو جھوٹ بولا امریکہ سے، پاکستان نے دنیا سے جھوٹ بولا، تو میرا ان سے ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ آپ مجھے یہ بتا دیں کہ پاکستان نے کون سا قانون توڑا ہے؟ پاکستان نے ’’ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدہ‘‘ پر دستخط نہیں کیے تھے تو پاکستان اس چیز کا مجاز نہیں ہے کہ وہ آپ کو بتائے کہ وہ کہاں سے چیزیں لا رہا ہے۔ قانون تو تب توڑا ہو جب آپ اس قانون کا حصہ ہوں۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ آرام سے بیٹھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی پاکستان نے یہ سب کچھ کیا، یہ پاکستان کی منافقت ہے، تو سی آئی اے کی بھی منافقت ہے، ڈاکٹر عبد القدیر خان کو تب کیوں نہیں روکا جب ان کے بارے میں سارے شواہد موجود تھے۔ 1970ء میں روک لیتے، 1980ء کی دہائی میں روک لیتے، 1990ء میں روک لیتے، 2000ء میں روک لیتے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں جب سے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے معاملات شروع ہوئے ہیں، ایک بھی دستاویز ایسی نہیں جس کے بارے میں کسی امریکی صدر نے پاکستان سے کہا ہو کہ یہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں، ہم اس ثبوت کی بنیاد پر یہ بات کر رہے ہیں، اس لیے آپ اپنا پروگرام بند کریں، ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا۔

2004ء میں جب ان کو پاکستان کی ضرورت تھی اور ان کو یہ محسوس ہوا کہ پاکستان اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کچھ پیچھے ہٹ رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی اپنی فوجی اور شہری جانیں ضائع ہو رہی تھیں اور پاکستان یہ سوچ رہا تھا کہ یہ جنگ تو اس کی ہے ہی نہیں۔ تب امریکہ نے سوچا کہ اب اگر ہم ان ڈاکومنٹس کو سامنے لاتے ہیں تو پاکستان مجبور ہو جائے گا اور پاکستان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ پھر 2004ء میں صدر مشرف کو مجبور کیا گیا کہ جی ہمارے پاس یہ ثبوت ہیں، جو 1970ء سے ہمارے پاس ہیں، اور اب یہ موقع ایسا ہے کہ آپ سوچ لیں ورنہ ہم پوری دنیا کو بتائیں گے کہ آپ نے کیا کیا ہے، اور پھر آپ پر پابندیاں لگیں گی۔

اس طرح یہ ایک سیاسی ایجنڈا تھا اور اس میں میرا نہیں خیال کہ پاکستان کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت ہے۔ ہر ملک اپنے قومی مفاد کو دیکھتا ہے، پاکستان نے بھی اپنے قومی مفاد کو دیکھا، اور جو خدمات ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ہمارے لیے دی ہیں، ہمیں بطور پاکستان کے شہری کے ان پہ فخر ہونا چاہیے اور ہر فورم پر ان کا دفاع کرنا چاہیے۔

پاکستان کی نیوکلیئر ڈپلومیسی کتنی کامیاب؟

میں تو اس کو دس میں سے گیارہ نمبر دوں گی۔ پاکستان کی اتنی بہترین نیوکلیئر ڈپلومیسی رہی ہے کہ آپ سوچیے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک چھوٹا ملک ہے، رقبے میں بھی اور اثرورسوخ کے لحاظ سے بھی۔ اور ایک سوپر پاور کے ساتھ آپ کے تعلقات کا عروج ہے، جب 1980ء کی دہائی ختم ہو رہی ہے اور آپ ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں، تب آپ کے پاس جوہری ہتھیار بنانے کی قابلیت آ چکی تھی۔ اس سے بڑی کامیابی ایک چھوٹی سی ریاست کے لیے، جو 1947ء کے بعد سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھ رہی تھی، اور اب ایک ایٹمی قوت بن گئی۔ یہ سب ہماری نیوکلیئر ڈپلومیسی اور ہماری قیادت کا نتیجہ ہے، اور میں یہ سمجھتی ہوں، جو میں نے اپنی ریسرچ میں بھی لکھا ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام، حتیٰ کہ توانائی کے حوالے سے بھی، اس کے اندر تمام سیاسی و فوجی قیادت اور سیاسی جماعتوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور ان میں سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ پروگرام ان کا ہے۔

پاکستان میں بھٹو سے لے نواز شریف تک جتنے لیڈرز آئے ہیں سب نے اس کو اپنا سمجھا ہے اور یہ وہ واحد مقصد ہے جس پر کبھی کسی نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہمارے بہت بڑے ڈپلومیٹس گزرے ہیں، آغا شاہی صاحب، یعقوب صاحب، نجم الدین شیخ صاحب، ریاض محمد خان صاحب، ڈاکٹر ملیحہ لودھی، یہ سارے وہ سفارتکار ہیں جنہوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے مشکل زمانے میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ اور پاکستان کا جو قومی مفاد تھا کہ یہ پروگرام بننا ہی بننا ہے، اس پر کمپرومائز نہیں کیا۔ تو میرا سلیوٹ ہے ہمارے ان سب لیڈرز اور ڈپلومیٹس کو جنہوں نے ہمیں یہ پروگرام دیا، اتنے مشکل وقت سے پاکستان کو نکالا، اور اس وقت جب حالات ہمارے خلاف تھے، بہت مشکلات تھیں، پابندیاں لگی ہوئی تھیں، اس دوران وہ ہمیں ایسے منصوبے کی تیاری کی طرف لے کر گئے اور کہا کہ خود پہ بھروسہ کرنا چاہیے۔

گزشتہ پچھتر سال جو پاکستان کے گزرے ہیں اس میں اتنی مشکلات اور پابندیوں کے دباؤ میں رہتے ہوئے پاکستان نے یہ منصوبہ تیار کیا ہے، اس سے بڑی مثال پاکستان کی برداشت کی نہیں ملتی۔ اس لیے یہ مجھے اگلے پچھتر سال کے لیے بھی بہت پرامید بناتا ہے کہ پاکستانی قوم اور پاکستانی قیادت اگر وطن کا مفاد سب سے اوپر رکھیں تو پاکستان کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں سب سے زیادہ مددگار کون؟

اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی سب سے زیادہ مدد امریکہ نے کی ہے اور شروع سے کی ہے، اور اس میں ظاہر ہے کہ امریکہ کا مفاد بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ امریکہ کو وقتاً‌ فوقتاً‌ پاکستان کی ضرورت رہی ہے، اور 2001ء کے بعد بھی آپ نے دیکھا کہ امریکہ کے لیے بیس سال تک پاکستان ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ لڑتا رہا ہے، ہم نے خود جانیں گنوائی ہیں، جس میں 80 ہزار سے زیادہ ہمارے شہری اور فوجی مارے گئے ہیں۔

اس کے باوجود لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک ٹرانزیکشنل ریلیشن شپ ہے۔ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے۔ میرا سب سے یہی سوال ہے کہ اس دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں، آپ مجھے کوئی ایک ریلیشن شپ بتا دیجیے جو ٹرانزیکشنل نہیں ہے۔ ممالک آپس میں جو بھی کام کرتے ہیں، چاہے وہ تجارت ہو، چاہے وہ کمیونیکیشن ہو، چاہے وہ سفارتی تعلقات ہوں، یہ کسی بنیاد پر ہوتے ہیں، وہ بھائی چارے پر نہیں ہوتے۔ اگر سعودی عرب ہمیں پیسے دیتا ہے، یا چائنہ سے ہم قرض لیتے ہیں، تو وہ پیار محبت میں یہ نہیں دیتے، ان کو بھی پاکستان کی ضرورت ہے، ہمیں بھی ان کی ضرورت ہے۔ یہ سب ٹرانزیکشنل ہے۔ دیکھیں، جو پیسہ پاکستان میں 1980ء کی دہائی کے دوران آیا ہے وہ پاکستان کے لیے بہت کرامت ثابت ہوا ہے، اور ظاہری بات ہے کہ وہ جوہری پروگرام کی طرف منتقل ہوا، وہاں خرچ ہوا ہے۔ میں تو یہی کہوں گی کہ امریکہ سے زیادہ فائدہ مند پاکستان کے لیے ابھی تک کوئی نہیں رہا۔

پاکستان کا میزائل پروگرام

شمالی کوریا کے ساتھ پاکستان کے جو تعلقات رہے اس حوالے سے اب بہت سی دستاویز سامنے آ چکی ہیں کہ ان کے ساتھ چیزوں کا تبادلہ ہوا، ایک دوسرے سے ڈیزائنز اور میزائلز وغیرہ لیے گئے۔ اسی طرح چائنہ کے حوالے سے بھی بہت زیادہ ڈاکومنٹیشن دستیاب ہے۔ لیبیا کے حوالے سے بھی موجود ہے، اور لیبیا پر اگر پابندیاں نہ ہوتیں اور اس پر دباؤ نہ ہوتا تو شاید وہ بھی ڈیزائن استعمال کر کے ایک ایٹمی ریاست بن سکتا تھا، لیکن انہوں نے پھر دباؤ میں آ کر نام لیا، اس طرح بلیک مارکیٹ نیٹ ورک ٹوٹ گیا۔ میں پھر کہوں گی کہ اس میں ڈاکٹر عبد القدیر خان اکیلے نہیں تھے، اس میں 32 ممالک شامل تھے۔ چونکہ لٹریچر میں ہر جگہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام ہے، تو پڑھنے والے لوگ انہی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ اس میں سوئٹزرلینڈ تھا، اور بہت سے ممالک شریک تھے، آپ ان کی لسٹ دیکھ لیں۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کا نام لیا جاتا ہے کہ ایسا کرنا آسان ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس بیانیے کو ختم کرنے کے لیے جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا، اس پر اتنا لکھا نہیں گیا۔ شاید ہم نے سوچا کہ وقت کے ساتھ یہ بات ختم ہو جائے گی، لیکن اس کے اوپر لکھنا چاہیے، ہماری نئی جنریشن کو اس پر لکھنا چاہیے کہ وہ اکیلے نہیں تھے، لیبیا کو جو پروگرام یا ڈیزائنز ملے، یا ایران کو جو ری ایکٹرز کے ڈیزائنز ملے، تو اس میں پورا نیٹ ورک شریک تھا۔ میں خیال ہے کہ جہاں جہاں پاکستان کو ضرورت پڑی ہے اس نے اپنے فائدے کے لیے تعلقات استعمال کیے ہیں۔

ایٹمی پروگرام: ڈیٹرنس یا معیشت پر بوجھ؟

یہ ایک بہت بڑی بحث ہے، لیکن ڈیٹرنس کے حوالے سے جوہری ہتھیاروں کا جو بنیادی کردار ہے وہ تبدیل نہیں ہوا۔ آپ پاکستان اور انڈیا کے بحرانوں کا جائزہ لیں، کارگل کے بعد سے جتنے بھی بحران آئے ہیں، 2001ء کا، 2002ء کا، اس کے بعد پاکستان انڈیا CBMs (باہمی اعتماد بات چیت) پر بات کرنے کے لیے بیٹھے، اس کے بعد ممبئی کا بحران تھا، اڑی، پٹھان کوٹ، پلوامہ، تو آپ جنگ کی طرف کیوں نہیں گئے؟ آپ جنگ کی طرف جا سکتے تھے اور پاکستان نے کئی جنگیں لڑی ہیں انڈیا کے ساتھ۔ لیکن جب تک سٹریٹیجک لیول پر یہ ایک خوف موجود ہے کہ جوہری ہتھیار استعمال ہو سکتا ہے، اور جب سے پاکستان نے نصر بنایا ہے جو مختصر 60 کلومیٹر فاصلے کا جوہری ہتھیار لے جانے والا میزائل ہے، یہ سب چیزیں دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہیں، تو پاکستان کے مکمل دفاع کا جو تصور ہے، وہ یہ ہے کہ اسٹریٹیجک لیول سے لے کر سب کنونشنل لیول تک سب کا احاطہ کیا گیا ہے۔

میں اپنے سٹوڈنٹس کو ایک شعر سنایا کرتی ہوں کہ اگر ڈیٹرنس کو سمجھنا ہے تو وہ یہ ہے کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔ جب تک آپ کا یقین اس بات پر نہیں ہے کہ میں کسی بھی حد تک جا کر اپنا بچاؤ کروں گا چاہے میں خود ہی (ختم) کیوں نہ ہو جاؤں، تب تک ڈیٹرنس کام نہیں کرے گی۔ سو یہ ہمیشہ رہے گا۔

امریکہ تو اب چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی طرف جا رہا ہے تاکہ وہ اس کو جنگ میں استعمال کر سکے۔ اس وقت جو ہتھیار ہیں وہ بہت بڑے ہیں، اس کا وزن بہت زیادہ ہے، اس کے کلو ٹن بہت زیادہ ہے، تو اس کی افادیت میں اور ایک چھوٹے قابل استعمال ہتھیار کی افادیت میں فرق ہے۔ تو اب دنیا اس طرف جا رہی ہے تاکہ ڈیٹرنس پر اعتماد بڑھایا جائے۔

اور ڈیٹرنس کے حوالے سے جو پابندیوں کی بات آپ نے کہی ہے، یا معیشت پر بوجھ پڑھنے کی بحث ہے، میرا خیال ہے کہ جب پاکستان نے یہ دکھا دیا ہے کہ ہمارا دفاع مضبوط ہے اور ہمارے پاس نیوکلیئر ڈیٹرنس موجود ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ قابل اعتماد بنانے کے لیے مزید بہتری لانی ہو گی کیونکہ انڈیا اس میں تجدید کر رہا ہے تو پاکستان کو بھی کرنی ہو گی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ہتھیار کے مقابلے میں ہتھیار بنائیں، پلیٹ فارم کے مقابلے میں پلیٹ فارم بنائیں، میزائل کے مقابلے میں میزائل بنائیں، یہ ضرورت سے زیادہ ہو جائے گا۔ پاکستان اور انڈیا کے پاس ایک دو ہتھیار ہونا کافی ہیں ایک دوسرے کو اڑانے کے لیے۔

پاکستان نے جب اپنا دفاع مضبوط بنا لیا تو اب پاکستان کو اپنی معیشت پر زور دینا چاہیے، پاکستان کی تعلیم اور صحت کے شعبے اس بات کے حقدار ہیں کہ ان پر خرچ کیا جائے۔ اور جب تک آپ کی معیشت مضبوط نہیں ہو گی، آپ اپنے دفاع کو بھی مضبوط نہیں رکھ سکتے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ جی جوہری ہتھیار آپ کی معیشت کو تباہ ہونے سے بچا لیں گے، تو یہ بالکل نہیں بچا پائیں گے۔ ہاں جغرافیائی سالمیت اور آپ کی خودمختاری کو بچانے کے لیے ان کا ہونا لازمی ہے۔ اور انڈیا کے ذہن میں جو ایک خوف ہے وہ ہمارے ان ہتھیاروں کا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ان کو ہماری کمزوریوں اور ہمارے مسائل کا بھی پتہ ہے، تو اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ٹی ٹی پی‘‘ کو یا تخریبی عناصر کو فنڈ کر کے وہ پاکستان کو توڑ سکتے ہیں، تو یہ پاکستان کی ایک ریڈ لائن ہے، پاکستان کو اس کے اوپر کام کرنا چاہیے، اور اس کے لیے آپ کو مضبوط معیشت چاہیے، ایک مضبوط موقف چاہیے جس میں عام شہری ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں، اور یہ جنگ جو پانچویں چھٹی سطح تک پہنچ چکی ہے، جس میں انفرمیشن ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے، اس کی طرف سٹریٹجی بنانی چاہیے۔ مجھے دفاع کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے، پاکستان کا دفاع مضبوط ہے، لیکن ہاں ایک حد سے زیادہ اب اس کو مزید بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے، اس کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، اور جو آپ کے وسائل وہاں خرچ ہو رہے ہیں، اگر آپ کو لگتا ہے کہ انہیں بچا کر کہیں اور لگایا جا سکتا ہے تو ایسا کرنا چاہیے۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام کتنا محفوظ؟

اس حوالے سے پاکستان ہمیشہ خبروں میں رہا ہے، 2001ء کے بعد سے یہ باتیں ہوتی آ رہی ہیں کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار دہشت گرد لے جائیں گے، اگر تو یہ کوئی شب برات کے پٹاخے ہوتے تو وہ شاید لے جاتے، لیکن سیفٹی اور سکیورٹی پاکستان کے جوہری پروگرام کے دو بنیادی اجزاء ہیں، اور دونوں کے لحاظ سے پاکستان کے ہتھیار انتہائی محفوظ حالت میں ہے، کسی دہشت گرد کو اس تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ ایک دفعہ میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند سے انٹرویو کر رہی تھی، انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ایسی حالت میں ہیں کہ ان کا وارہیڈ میزائل کے ساتھ ہی نہیں پڑا ہوا، بلکہ وارہیڈ کے اپنے حصے کئی مختلف جگہوں پر پڑے ہوئے ہیں۔ تو اس سے زیادہ محفوظ حالت کیا ہو گی کہ ہتھیار کو قابل استعمال بنانے کے لیے آپ کو مختلف جگہوں سے جا کر اس کو جمع کرنا پڑے۔ اس کے علاوہ اگر جب ہتھیار بن بھی جاتا ہے تو اس کے استعمال کے لیے جو کوڈز استعمال ہوتے ہیں وہ تین مختلف لوگوں کے پاس ہوتے ہیں، جب تک وہ کوڈز اکٹھے نہیں ہوں گے وہ ہتھیار نہیں چلے گا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے۔ اگر ہم چاہتے کہ ایسی حالت میں رکھیں کہ وہ فوراً‌ ہی استعمال ہو سکیں تو یہ ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہوتا۔ جیسا کہ امریکہ اور روس کا ہے کہ ان کے ہزاروں کی تعداد میں ہتھیار ہائی الرٹس پر ہیں۔ تو دنیا کو ان کی فکر کرنی چاہیے نہ کہ پاکستان کے ہتھیاروں کی جو قابل استعمال حالت میں موجود ہی نہیں ہیں۔ اور ایسا اس لیے بھی کیا گیا ہے تاکہ جب بھی کوئی بحران ہو تو فوراً‌ ہی کوئی جذباتی فیصلہ نہ کر لیا جائے، اس پر سوچا جائے کیونکہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ آپ کے پچھلے صحن میں پڑے ہوئے ہیں اور کوئی آ کر اٹھا لے جائے، ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔

یہ سب پروپیگنڈا ہے پاکستان کے پروگرام کے خلاف۔ پاکستان کی نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی، پاکستان کا اٹامک انرجی کمیشن، پاکستان کی اسٹریٹجک پلانز ڈویژن، اور پاکستان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم نہایت محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ سیفٹی اور سکیورٹی کے متعلق ایک باقاعدہ نظام ہے۔ IAEA جیسی آرگنائزیشن نے پاکستان کو ہر فورم پر سراہا ہے، اور پاکستان کے ہاں ’’نیوکلیئر سینٹر آف ایکسیلنس‘‘ بنایا ہے پاکستان کے حفاظتی نظام کو دیکھتے ہوئے۔

یہ بہت سی چیزیں ہیں جو عام لوگوں کو نہیں معلوم، اور کیونکہ جب تک سنسنی خیز چیز نہ ہو تو لوگ خبریں نہیں سنتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کو اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ پاکستان کا سیکیورٹی اور سیفٹی کا جو نظام ہے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے وہ کسی بھی جوہری ریاست کے اعلیٰ سے اعلیٰ نظام کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

کیا پاکستان دنیا کے لیے اب بھی اہم ہے؟

پاکستان کا جو جغرافیائی محل وقوع ہے، میں سمجھتی ہوں کہ وہ پاکستان کے لیے مسئلہ بھی رہا ہے اور پاکستان کے لیے نعمت بھی رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں مختلف لیڈرز اس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی رسائی میں روس اور چائنہ دونوں ہیں، اور آج کل سوپرپاورز کی کشمکش میں یہ امریکہ کے لیے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ تو پاکستان کے جغرافیہ کو دیکھتے ہوئے جب ’’چائنہ پاکستان ایکنامک کوریڈو‘‘ کی تعمیر کا منصوبہ زیر غور آیا تو امریکہ یہ خدشہ تھا کہ اس کے پاکستان کے ساتھ ویسے تعلقات نہیں رہیں گے، جیسا کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت استعمال کر کے اب تک جو کام وہ کرتا آیا ہے، وہ تعلقات شاید ختم ہو جائیں، اور پاکستان کا جھکاؤ چائنہ کی طرف زیادہ ہو جائے۔ اور ابھی آپ نے دیکھا ہے یہ 20 سال کے بعد امریکہ نے افغانستان سے جو اپنی فوجیں نکالی ہیں، تو اب اس کو واپس اس خطہ میں آنے کے لیے کوئی ملک اجازت دے گا تو وہ پاکستان ہو گا۔

چنانچہ پاکستان کی اہمیت موجود ہے، چاہے وہ امریکہ کے لیے ہو، چائنہ کے لیے ہو، وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے ہو، اقتصادی ترقی کے لیے، یا خطوں کو ایک دوسرے سے ملانے کے حوالے سے ہو۔ تو پاکستان بہت زیادہ اہم ہے، نہ صرف امریکہ کے لیے بلکہ ہمارے جو ہمسائے میں ممالک ہیں ان کے لیے بھی۔ اگرچہ پاکستان اپنی اس حیثیت کا پچھلے پچھتر سالوں میں جو فائدہ اٹھا سکتا تھا، وہ نہیں اٹھا پایا، لیکن اب اگلے پچھتر سال پر پاکستان کی نظر ہونی چاہیے اور ان سب طاقتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اگر امریکہ کی یہاں اس وقت موجودگی نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگلے پچھتر سال میں بھی نہیں ہو گا۔

پاکستان کو متوازن تعلقات قائم کرنا ہوں گے، امریکہ کے ساتھ، چائنہ کے ساتھ اور روس کے ساتھ بھی۔ اور یہ تب ہو گا جب آپ کے پاس ایسی قیادت ہو گی جو اگلے پچھتر سال کے بارے میں سوچے گی کہ اس میں پاکستان کا بنیادی قومی مفاد کیا ہے۔ پاکستان کا بنیادی مفاد حفاظت کا ہے اور مضبوط معیشت کا ہے، اسی سے دنیا میں بھی آپ کی عزت ہو گی، آپ علاقائی روابط کا مرکز بنیں گے اور یہاں سے سب ملک آپس میں منسلک رہیں گے، اور آپ کی معیشت مضبوط ہو گی۔ اور یہ تب ہو گا جب خطے میں پیس اینڈ سکیورٹی ہو گی، جس کے لیے ابھی اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان میں امن و امان کا نہ ہونا ہے۔

تو میرا خیال یہ ہے کہ اگلے پچھتر سال کے لیے اگر پاکستان ایسی سٹریٹجی بناتا ہے کہ اپنے جغرافیائی محل وقوع سے وہ فائدہ اٹھا سکے جو وہ پہلے نہیں اٹھا سکا۔ اور مجھے لگتا ہے کہ ابھی تک قسمت کا بڑا عمل دخل رہا ہے، اگر روس 1979ء میں افغانستان نہ آتا اور وہاں دس سال نہ رہتا تو شاید پاکستان کا راستہ آج مختلف ہوتا، اور ہم جوہری ریاست بن تو سکتے تھے کہ جب ارادہ کر لیا تو اس سے پیچھے نہیں ہٹنا تھا، لیکن اس کے اوقات شاید مختلف ہوتے، اور ہمارے آج کے حالات مختلف ہوتے، ہمارے تعلقات مختلف ہوتے، تو پاکستان کا جغرافیہ اس کے لیے بہت بڑی نعمت ہے اگر اس کے حوالے سے باقاعدہ منصوبہ سازی کی جائے۔

https://youtu.be/wOm4_xOMDz8


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter