جاوید جوہدری: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ لاکھوں کروڑوں درود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور ان کی آل پر۔ آج اٹھائیس مئی ہے اور آج کا دن پاکستان کی تاریخ کا انتہائی اہم ترین دن ہے۔ اور اگر ’’اٹھائیس مئی‘‘ نہ ہوتا تو شاید ’’دس مئی‘‘ بھی نہ ہوتا اور پاکستان کی سلامتی داؤ پر لگ چکی ہوتی۔ اٹھائیس مئی کے بہت سارے ہیرو ہیں لیکن جو سب سے بڑا ہیرو ہے، جو لیجنڈ ہے پاکستان کا، اور جس کی وجہ سے آج ہم سکھ کے ساتھ اسی ملک کے اندر اطمینان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، وہ شخص اگر نہ ہوتا تو شاید پاکستان آج اس لیول پر نہ ہوتا۔ وہ شخص ہے، ان کا نام ہے ڈاکٹر ثمر مبارک مند صاحب، ایٹمی سائنس دان ہیں، اور ان کی وجہ سے پاکستان ایٹمی پاور بھی بنا، اور آج ہم اطمینان کے ساتھ خوشی کے ساتھ سکون کے ساتھ اس ملک میں زندگی بھی گزار رہے ہیں۔ ان سے سب کچھ پوچھنا ہے کہ اٹھائیس مئی کو کیا ہوا تھا، یعنی 1998ء میں، اور اس کے ساتھ ساتھ جو دس مئی کا واقعہ ہے، دس مئی کا جو دن ہے، کتنا اہم ہے؟ اور مستقبل میں اس طرح کے اور دن آتے ہیں تو پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟
ڈاکٹر صاحب، بہت شکریہ آپ کا۔ یہ بتائیے گا کہ پاکستان کا جو دفاع ہے، ہمارے کنٹرول میں ہے اور محفوظ ہے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: دیکھیں دفاع جو ہے، جب آپ ایٹمی ہتھیاروں کی بات کرتے ہیں تو اس کی حفاظت اور اس کا کنٹرول ایک بہت اہم شعبہ ہے، اور ہم نے ہمیشہ سے بہت احتیاط سے اس کی پلاننگ کی ہے، اس کی ڈیزائننگ کی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز ہیں ’’بِٹ فور / بِٹ فائیو پاورز‘‘ کے، ان کی جو بہترین خصوصیات ہیں، وہ لے کر ان کو ایک جگہ پر سمو کر ہم نے اپنا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بنایا۔ یہ 1998ء، 1999ء کی بات ہے، اس کا پہلا ڈرافٹ میں نے ہی بنایا تھا، مجھے اس کا پتہ نہیں تھا لیکن پڑھ پڑھا کر بنا لیا، پھر یہ ہمارے دفاعی ماہرین کے پاس گیا، انہوں نے اس میں اپنی آراء دیں، اس سب سے گزر کر یہ حتمی صورت میں آیا، تو بہت جلد اس کی آزمائش شروع ہو گئی، کیونکہ پاکستان 1998ء میں ایک جوہری ریاست بن چکا تھا، اور دہشت گردی ساتھ ہی شروع ہو چکی تھی۔ ہماری مغربی سرحد پر مصیبت پڑ گئی تھی، اِدھر دھماکہ، اُدھر دھماکہ، آپ کو پتہ ہے پاکستان میں کتنی جانیں ضائع گئیں، ایک نوبت یہ بھی آ گئی تھی کہ اسلام آباد بھی محفوظ نہیں رہا تھا۔ تو اس ماحول میں ہمارے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا ٹیسٹ ہوا۔ اور مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ نہ تو ہمارا کوئی چھوٹا یا بڑا ہتھیار دائیں بائیں ہو سکا، نہ ہمارے ایٹمی مواد کی کوئی چوری ہوئی، جس طرح آئے روز سنتے ہیں انڈیا میں تھوریم چوری ہو گیا، فلیروویم چوری ہو گیا، اب یہ چیز ہو گئی، پاکستان کا کبھی کوئی نیوکلیئر میٹیریل ایک گرام بھی مشکوک نہیں ہوا Everything is under control تو یہ اس کا ٹریک ریکارڈ ہے۔
2011ء، 2012ء جب تک دہشت گردی رہی یہاں پر، اس میں یہ ٹیسٹ ہوا، تو اس وقت انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے اس کا نوٹس لیا کہ یہ سسٹم کیا ہے کہ اتنے سخت وقت میں، یہ تیسری دنیا کا ملک ہے جہاں اتنے منظم نہیں ہوتے ہم لوگ، نہ اتنی یہاں تعلیم ہوتی ہے، بہرحال تو وہ بہت متاثر ہوا اس کارکردگی سے، تو پھر انہوں نے آ کر یہ سب کچھ دیکھا اور دیکھنے کے بعد انہوں نے پوری دنیا میں جہاں جہاں ایٹمی قوتیں ہیں، جن ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، ان سب کو دعوت دی کہ اسلام آباد میں آؤ اور ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم (چیک کرو)، ہمیں کہا کہ یہاں ایک ورکشاپ کا اہتمام کرو اور ان کو بتاؤ کہ آپ نے کیسے اتنا محفوظ اس کو بنایا ہے۔ کیونکہ ہم نے سب کے بیسٹ فیچرز کو لے کر بنایا تھا نا۔ ہر ایک نے آ کر دیکھا اور پھر انہوں نے بہت ساری امپروومنٹس جا کر کیں، اور اسے بین الاقوامی سطح پر بہت سراہا گیا۔ تو جہاں تک حفاظت کا تعلق ہے Everything is very safe
جاوید چوہدری: اس کے اندر کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: نہیں، ان شاء اللہ۔
جاوید چوہدری: یہ جو انڈیا کی طرف سے پراپیگنڈا ہوا تھا کہ یہاں پر لیکیج ہو گئی ہے اور ریڈی ایشن پھیل گئی ہے پاکستان کے اندر؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: جب ہم نے ایٹمی ٹیسٹ کیے تھے 1998ء میں، تو آخری ٹیسٹ خاران میں کیا تھا، تو اس وقت وہ کیا کہہ رہے تھے، کہ جی ہمیں پلوٹونیم کا پتہ چلا ہے، یہ پلوٹونیم بم ہے، باقی یورینیم کے ہوں گے، یہ پلوٹونیم کا ہے۔ اس وقت تک ہمارے پاس اس کا پلانٹ بھی نہیں تھا اور پلوٹونیم کی ہم نے ابھی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ دنیا کا پروپیگنڈا ہوتا ہے، وہ جھوٹے لوگ ہیں، جھوٹوں کے پیچھے لگنے کی ضرورت نہیں ہے، عقل مند لوگ انہیں نظرانداز کرتے ہیں، بس انہیں نظر انداز کریں، جو ان کی خبر ہے نا ریڈیو ایکٹیویٹی کی، اور جس لوکیشن کے بارے میں ہے There is nothing there at all
جاوید چوہدری: اس لوکیشن کے ساتھ تعلق ہی کوئی نہیں۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: وہاں کچھ بھی نہیں ہے اب، وہاں پر تو ایک امیونیشن ڈپو ہے فوجیوں کا جہاں وہ بندوقیں اور گولیاں بارود وغیرہ سٹور کرتے ہیں، بس، ہمارا کیا واسطہ اس سے۔
جاوید چوہدری: اچھا اب یہ فرمائیے سر، پاکستان کا میزائل سسٹم جو ہے، اور انڈیا کا میزائل سسٹم، کیسے موازنہ کریں گے ان دونوں کا؟ اور پاکستان کے ایٹم بم کا انڈیا کے ایٹم بم سے کیسے موازنہ کریں گے؟ دونوں چیزیں۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہاں، دو چیزیں ہیں نا۔ دیکھیں، ایٹم بم کا تو آپ نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اس سے آپ نے کیا کام لینا ہے۔ اگر ایک میدانِ جنگ کی صورتحال ہے، لڑائی ہو رہی ہے، سرحد کے پار ان کی بیس پچیس آرمرڈ ڈیویژنز کھڑی ہیں، اِدھر آپ کی پانچ سات کھڑی ہیں، اور وہ آپ کو دھمکی دے رہے ہیں اور آپ کے سر پر چڑھ گئے ہیں، تو ایسے وقت کے لیے پاکستان نے ٹیکٹیکل (محدود پیمانے کے) ہتھیار بنائے ہوئے ہیں۔
اس کے لیے خاص طور پر کم فاصلے کا میزائل بنایا ہے، صرف ساٹھ ستر کلو میٹر رینج کا، انتہائی درستگی کے ساتھ وہ انچوں کے لحاظ سے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح ایک چھوٹا ایٹمی وارہیڈ ہے، جو اتنا چھوٹا ہے کہ دنیا کے جو ترقی یافتہ مغربی ملک ہیں، وہ بھی دنگ رہ گئے کہ اتنا چھوٹا وارہیڈ پاکستان نے کیسے بنا لیا؟ اگر میں کہوں کہ ہاتھ کی گھڑی کو ایک کاغذ جتنا پتلا بنا لوں، تو ایسی ٹیکنالوجی آپ سمجھ لیں، وہ ہم نے بنایا ہے۔ اور جیسے آپ دیکھتے ہیں کہ ملٹی بیرل لانچرز سے پانچ پانچ سیکنڈز کے وقفے سے میزائل لانچ ہوتے ہیں، اس طرح سے وہ چھوٹی میزائل ہم فائر کر سکتے ہیں جس کا نام ہے ’’نصر‘‘۔ تو میدانِ جنگ کی صورتحال کے لیے ہم نے وہ بنائی ہے۔
جاوید چوہدری: نصر جو ہے، یہ شارٹ رینج ہے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: شارٹ رینج ہے، اور ایسے ہے جیسے آپ آمنے سامنے کھڑے ہو کر لڑ رہے ہیں۔ دیکھیں، تیس چالیس پچاس کلو میٹر میں آرمی کے مقابلے کے دوران، اللہ نہ کرے آپ کبھی اسے استعمال کریں، وہ تو آرمرڈ ڈویژن کو ہوا میں ایسے اڑا دے گی جیسے پتے ہوا میں اڑتے ہیں، کیونکہ ظاہر ہے وہ چھوٹے چھوٹے ایٹمی وارہیڈز ہیں جو بہت طاقتور ہیں۔ وہ تو ہو گیا سب سے چھوٹا ہتھیار۔
جاوید چوہدری: اچھا، ٹیکٹیکل ویپنز کے بارے میں مختلف قسم کی (باتیں ہیں)، شیخ رشید صاحب نے کہا کہ آدھا پاؤ کا بھی بنایا ہوا ہے، پاؤ کا بھی بنایا ہوا ہے۔ اور انڈیا کے اندر بھی وہ بہت زیادہ ڈسکس ہوتا ہے اور وہ ہنستے ہیں کہ اتنا چھوٹا کیسے بنا لیا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: چلیں، جیسے میں نے کہا نا کہ کچھ باتیں نظرانداز کرنے والی ہوتی ہیں، اب آپ بات اس سے کر رہے ہیں جس نے بنایا ہے، میرا خیال ہے درگزر کریں، آپ کا وقت ضائع ہو گا۔
جاوید چوہدری: لیکن یہ چھوٹی رینج کا ہے مثلاً پچاس کلو میٹر کے دائرے کا احاطہ کرے گا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: یہی نہیں، اگر آپ اسے لمبے فاصلے پر ماریں گے تو وہاں جا کر بھی وہی کام کرے گا جو یہاں (چھوٹے فاصلے) پر کرے گا۔ میں آپ کو میدانِ جنگ کا بتا رہا ہوں کہ اگر وہ آپ کے سر پر چڑھ آئیں تو ان کی آرمی کو بھی آپ نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اس کے بعد اس سے تھوڑا سا اور بڑا ہتھیار بنایا، جو آپ کے پاس دوسری سطح کے حملے کی صلاحیت ہے۔ یہ آپ کی (زیر سمندر) سب میرینز سے لانچ ہوتا ہے، جو برصغیر کے سمندر میں، بحیرۂ ہند میں پھر رہی ہوتی ہیں، آپ چاہیں تو وہاں سے فائر کریں اور انڈیا کے اندر کسی زمینی ہدف کو اڑا دیں۔ سب میرین میں اتنا بڑا بم تو نہیں لگ سکتا، اس کے لیے بھی چھوٹے بم ہوتے ہیں جو اس کے تارپیڈو (سمندر کے اندر سے نکلنے والا میزائل) میں لگ جائیں۔
جاوید چوہدری: اور اس کے لیے میزائل ہم نے کون سا بنایا ہوا ہے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: اس کے لیے تارپیڈو ہوتے ہیں جو سب میرین سے جنگی بیڑے (پر حملہ) کے لیے ہیں، اور اگر آپ نے سب میرین سے زمینی ہدف کی طرف فائر کرنا ہے تو اس کے لیے کروز میزائل ہے۔
جاوید چوہدری: کروز میزائل ہے، اور وہ بھی ہم نے اپنے بنائے ہیں؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہمارے اپنے ہیں۔ وہ نکلتے ہیں، پانچ سو چھ سو آٹھ سو کلو میٹر تک جا کر جہاں مرضی زمینی ہدف کو فنا کر دیں۔ یہ دوسرا سائز ہے۔
پھر اس کے بعد آپ کے پاس یہ جو فتح ون اور فتح ٹو میزائل ہے، ان کی گولائی تقریباً آدھے میٹر کے قریب ہے، اس کے اندر مزید بڑا وارہیڈ آ سکتا ہے، تو ظاہر ہے اس کا دھماکہ بھی بڑا ہوتا ہے۔ اس میں روایتی بم بھی لگ سکتا ہے، ایٹم بم بھی لگ سکتا ہے۔ بلکہ ہر میزائل میں دونوں قسم کے بم لگ سکتے ہیں۔ اب اس کی درستگی اتنی زیادہ ہم نے بنائی ہے کہ آپ نے (حالیہ جنگی تصادم میں) گن کر پچیس سے تیس فتح وَن مارے ہیں، اور پچیس تیس ان کے ایئر بیسز اڑ گئے ہیں نا۔ اور ان کا آرٹلری ہیڈکوارٹر، ان کا ڈیویژن ہیڈکوارٹر، مقبوضہ کشمیر کے ان کے ٹریننگ سکولز، جو بھی چوکیاں وغیرہ تھیں، جتنے ہم نے مارے ہیں اتنی جگہوں پر جا کر انہوں نے تباہی کر دی۔ اس کے بعد ہماری ایئرفورس نے جا کر جو کوئی بلڈنگ وغیرہ بچی تھی اس کا صفایا کر دیا۔ یہ ایک کوارڈینیٹڈ اٹیک (نظاموں کا مربوط حملہ) تھا جس میں میزائل اور ایئرفورس دونوں استعمال ہوئے اور انہوں نے مکمل تباہی یقینی بنائی۔
اور پھر آپ شاہین سیریز میں آجائیں، ان کی بڑی جان نکلتی ہے شاہین سے، جس دن شاہین چلیں گے تو پھر یہ اپنے گھر میں سو نہیں سکیں گے جو آپ کو روز چیلنج کرتے ہیں۔ شاہین ون کی رینج ہے چھ سات سو، پھر شاہین ون اے ہے جس کی رینج ہے نو سو، پھر شاہین ٹو ہے جس کی رینج ہے دو ہزار بائیس سو، پھر شاہین تھری ہے جس کی رینج پونے تین ہزار سے تین ہزار تک ہے۔
تو ہم نے اپنی دفاعی ضروریات کو سامنے رکھ کر میزائلز اور وارہیڈز کے سائز کا انتخاب کیا ہے۔ شاہین تھری کا وارہیڈ بہت بڑا ہے اور اس کا بہت بڑا دھماکہ ہے، اور وہ اس لیے بنایا ہے کہ انڈیا کی جو دور دراز دفاعی تنصیبات ہیں وہ اینڈامین کے جزیرے میں ہیں، خلیج بنگال میں، جسے انگریزوں کے زمانے میں کالا پانی کہا کرتے تھے۔ وہاں پر انہوں نے میزائل بنانے والی تنصیبات لگائی ہوئی ہیں، اور لمبے فاصلے تک میزائل لانچ کرنے والی تنصیبات بھی، جو انہوں نے کبھی سوچا تھا کہ چائنہ تک ماریں گے۔ تو ان کو اب یہ احساس نہیں تھا کہ وہاں تک پاکستان کا شاہین میزائل جا سکے گا۔ انہوں نے وہاں تنصیبات بنائیں تو ہم نے شاہین تھری میزائل بنا لیا جو اسٹیج فور کا میزائل ہے۔ تو اس میزائل کی درستگی 0.0001 کی ہے، یعنی تین ہزار کلو میٹر تک جا کر وہ تین میٹر کے اندر درستگی کے ساتھ ہدف پر لگتا ہے، دس فٹ کے اندر۔ درستگی کی پیمائش ایسے کرتے ہیں کہ ایک دائرہ بناتے ہیں دس فٹ کا، اور اس کے اندر دس میزائل مارتے ہیں، اگر ان میں سے آٹھ میزائل اس دائرے کے اندر لگیں تو یہ اس کی درستگی ہوتی ہے۔ تو شاہین تھری کی یہ صلاحیت ہے۔
ہم ہمیشہ اعلان کر کے فائر کرتے ہیں، بحرِ ہند میں ٹیسٹ کرتے ہیں، بحری اور فضائی ٹریفک کو رکوا کر، پوری دنیا کو بتا کر، نوٹس جاری کر کے، تو سب اپنی سیٹلائیٹس سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، ہم کبھی چھپا کر نہیں کام کرتے، اور وہاں پر تیرتا ہوا ایک تختہ ہوتا ہے جس پر ہمارا جھنڈا لگا ہوتا ہے، اس کے اوپر جا کر میزائل لگتا ہے This is the accuracy of our systems
اور جو ہمارے ’’دوست‘‘ ہیں ادھر کے، جنہوں نے آج کل آپ کا موڈ خراب کیا ہوا ہے، ان کی حالت یہ ہے کہ یہ میزائل مارتے ہیں، اور جب وہ کہیں پہنچتے نہیں تو کہتے ہیں کہ ہم سسٹمز ٹیسٹ کر رہے تھے، اس کے بعد اب سسٹمز ٹیسٹ کرنے بھی انہوں نے بند کر دیے ہوئے ہیں۔ تو آپ نے دیکھ لیا کہ روس سے خرید کر براہموس میزائل انہوں نے مارے ہیں، وہ آپ کو پتہ ہی ہے کہ کہاں کہاں اور کتنے کتنے لگے ہیں۔
جاوید چوہدری: ہاں، وہ انڈیا کے اندر گر گئے، اور ایک افغانستان چلا گیا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: اور جہاں سے انہوں نے مارے تھے وہاں ہم نے اٹیک کیا تو ان کی چھٹی ہو گئی۔ دو جگہ بیاس میں اور ایک کشمیر میں ان کا اسٹوریج تھا، وہ دونوں ہم نے اڑا دیے۔ ان کی جتنی بھی دفاعی تنصیبات ہیں وہ ہمارے ہدف پر ہیں، وہ لاک ہو چکی ہیں۔
جاوید چوہدری: اگر خدانخواستہ کبھی ایٹمی جنگ ہو جاتی ہے تو انڈیا کہتا ہے کہ ہم پہلے حملہ نہیں کریں گے، اور پاکستان کہتا ہے کہ اگر ہمیں اپنی سلامتی کا خطرہ ہوا تو ہم باز نہیں آئیں گے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہماری تو تین ریڈ لائنز ہیں۔ ایک پانی ہے کہ اگر پانی روک دیا تو یہ پہلی ریڈ لائن ہے۔ اگر آپ نے حملہ کر کے اندر آ کر ہمارے علاقے پر قبضہ کر لیا تو یہ دوسری ریڈ لائن ہے۔ اگر آپ نے ہماری بندرگاہیں بلاک کر دیں یا ایسا کچھ کر دیا تو ہمارے بچاؤ کا سوال پیدا ہو جائے گا، اور جب وہ خطرے میں پڑ جائے تو پھر کیا کرنا ہے؟ تو پھر ہم نے ان کے نیچے لگ کر تو نہیں رہنا ہے جن پر ہم نے آٹھ سو سال حکومت کی ہے، تو عزت سے رہنا ہے نا برصغیر میں، اور عزت سے پھر ایسے ہی رہ سکتے ہیں، پھر جو ہو گا دیکھی جائے گی، اللہ مالک ہے۔
جاوید چوہدری: ڈاکٹر صاحب، آپ کے لیے سوال ہے کہ اگر انڈیا ہمارا پانی بند کر دیتا ہے تو پھر ہمارے پاس آپشن کیا بچے گا، کیونکہ پاکستان میں بہت سارے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پھر ہمیں میزائل سے ان کے ڈیمز کو اڑانا پڑے گا۔ کیا یہ آپشن ہے؟ پورا پاکستان یہ سوال پوچھنا چاہتا ہے، اور انٹرنیشنل آبزرورز کا بھی یہی سوال ہے، کہ اگر انڈیا ہمارا پانی بند کر دیتا ہے، سرِدست تو اس نے بند کیا ہوا ہے، اور سندھ طاس معاہدے کو بحال نہیں کرتا، تو ہمارے پاس آپشن پھر یہی بچے گا کہ ہم ان کے ڈیمز اڑا دیں۔ تو کیا یہ آپشن ہے ہمارے پاس؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہمارے لیے تو مسئلہ نہیں ہے، تین بٹنز دبانے ہیں اور تین ڈیمز اڑ جانے ہیں، ان کو بھی پتہ ہے اور ہمیں بھی پتہ ہے، اور جس درستگی سے وہ ڈیمز اڑیں گے وہ دنیا دیکھے گی تو حیران رہ جائے گی۔ ڈیمز تو اڑا سکتے ہیں ہم، لیکن آپ کو پتہ ہے کہ آپ سائبر اٹیک کر کے ڈیمز کے گیٹ بھی کھول سکتے ہیں، وہ بھی سارے الیکٹرانیکلی کنٹرولڈ ہیں۔ جیسے ابھی ہوا تھا کہ آپ نے ان کی ستر فیصد پاور بند کر دی تھی، تو آپ ان کے ڈیمز کے گیٹس کھول دیں یہاں سے بیٹھے بیٹھے۔
جاوید چوہدری: اچھا، تو ہمارے پاس آپشن ہے یہ، اور ہمارے پاس یہ صلاحیت بھی ہے، کہ جب چاہیں گیٹ کھول دیں؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند، ہاں ہاں بالکل، کیوں نہیں ہے صلاحیت، ابھی تو انہوں نے کھولے ہوئے ہیں، بند کرتے تو دیکھتے، پہلے بند کر دیے تھے، تو پھر تین چار دن کے بعد کھول دیے تھے۔ تو یہ بات ہے، آپشنز بہت ہیں، گیٹ بھی کھول سکتے ہیں، اور ہمارے دوست ان کا مشرق کی طرف سے آنے والا پانی بھی بند کر سکتے ہیں۔
جاوید چوہدری: چائنہ بند کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہاں تو پھر ایسے کا تیسا ہو سکتا ہے نا، یہ تو بات ہے۔
جاوید چوہدری: تو آخر کار چائنہ کو ہمارے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: لیکن آپ تو روایتی ہتھیاروں سے انڈیا کے ڈیمز توڑ سکتے ہیں، ایٹمی ہتھیار کی ضرورت بھی نہیں ہے، وہ تو ایسے ہی شاہین ٹو، شاہین تھری ماریں گے تو اڑا دیں گے ڈیمز۔ جیسے ان کو پتہ ہے پہلے جو (میزائل) لگے ہیں، اور ضرورت ہوئی تو اور ماریں گے۔
جاوید چوہدری: تو بالآخر انڈیا کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: دیکھیں، یہ تو وہ بیلنس آف پاور ہے کہ آپ کی میزائل ٹیکنالوجی نے، نیوکلیئر ٹیکنالوجی نے، ایئرفورس نے، اور آپ کی آرمی نے جس طرح سے اس کا مظاہرہ کر کے قائم کر دی ہے۔ یہ بیلنس آور پاور انڈیا کی بیلنس آف پاور سے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہت زیادہ سوپیریئر ہے۔ اور یہ لوگ جھوٹ پر جو اپنے دفاع کو بنا کر دکھاتے ہیں، وہ وقت آنے پر، کرنچ ٹائم پر ناکام ہو جائیں گے۔
جاوید چوہدری: اچھا ڈاکٹر صاحب، انڈیا کے ایٹم بم اور پاکستان کے ایٹم بم میں فرق کیا ہے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: دیکھیں، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ نے بم سے کرنا کیا ہوتا ہے۔ فرض کریں بہت بڑی فیکٹری ہے پانچ سو ایکٹر میں جہاں پر وہ میزائل بناتے ہیں، وہ آپ کا ٹارگٹ ہو سکتا ہے۔ کوئی فیول ڈپو آپ کا ٹارگٹ ہو سکتا ہے جہاں پیٹرول سٹور کیا ہوا ہے۔ کوئی امیونیشن فیکٹری ہو سکتی ہے۔ آپ نے دلی شہر کے بیچ میں جا کر لوگوں کو تو نہیں مارنا، یہ حرکت تو کمینے لوگ کرتے ہیں، اور ان سے تو ہمیں بعید نہیں ہے۔ جو بھی ٹارگٹس میں بتا رہا ہوں ان کے لیے ایک پانچ کلو ٹن کا یا دس کلو ٹن کا ایٹمی ہتھیار بہت ہے One is enough ہیروشیما پر جو ہوا تھا وہ دس بارہ کلو ٹن کا وہ بم تھا، اس سے آدھا بھی ہو تو کافی ہے۔ ایک فیکٹری کو ہی اڑانا ہے نا، یا ایک چھاؤنی کو اڑانا ہے۔
ما شاء اللہ (ہم نے یہ نہیں کیا) ہمیں بہت دفعہ کہا گیا کہ آپ ہائیڈروجن بم بنا لیں، بیس میگا ٹن، یا پچاس میگا ٹن کا۔ بھئی، بم ایک ٹارگٹ پر ہی مارنا ہے نا، وہ ٹارگٹ کیا ہو گا، وہی جو میں نے بتائے ہیں، تو اس کے اوپر اتنا بڑا بم مارنے کا کیا مقصد ہے؟ جیسے چیونٹی کے اوپر ہاتھی کا پیر رکھ کر مارنا ہو، بے وقوفی ہے نا؟ اس کے لیے جتنی ضرورت ہے اس سائز کا بم (ہونا چاہیے)۔ اور ہمارے پاس وہ سب ہیں۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کے پاس ایک سے زیادہ وار ہیڈز والے میزائل (MIRVs) موجود ہیں جو مختلف ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ان کی رینج انڈین سب کانٹینٹ سے زیادہ ہے۔ میزائل جو کسی ایک ٹریک پر اڑ رہا ہے وہ راستے میں دائیں بائیں ہو سکتا ہے، تو وہ اپنے وارہیڈز پھینکتا جاتا ہے مختلف اہداف پر، یعنی ایک پرواز میں یہ ایک سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے، اور اگر آپ چاہیں تو ایٹمی وارہیڈز کے ساتھ بھی۔
جاوید چوہدری: مختلف ڈائریکشنز میں چلیں گے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: وہ اس میزائل میں سے نکلیں گے اور ایک جا کر اس چھاؤنی کو ہٹ کرے گا، ایک اس کو کرے گا، ایک اس کو کرے گا This is called MIRVs (Multiple Independently Targetable Reentry Vehicle) اور یہ بھی پاکستان کے پاس ٹیسٹ شدہ موجود ہیں اور کامیاب ہیں۔
جاوید چوہدری: اور آپ نے خود بنائے ہیں یہ؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: بالکل، ہم نے خود بنائے ہیں۔ آپ ’’جینز ڈیفنس ویکلی‘‘ اٹھا لیں، ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کا جو ڈیفنس کے متعلق سپلیمنٹ ہے وہ اٹھا لیں۔ جینز ڈیفنس ویکلی میں پاکستان اور انڈیا کے ڈیفنس کا پورا موازنہ کیا گیا ہے کہ ایٹمی مواد کس کے پاس زیادہ ہے، ہتھیار کس کے پاس زیادہ ہیں، میزائل کس کے پاس زیادہ ہیں، ان کی کارکردگی کیا کیا ہے، ان کے فاصلے اور درستگی کیا ہے، وہ کتنے قابل اعتماد ہیں، ان کی ناکامی کی شرح کیا ہے۔ وہ آپ دیکھیں تو وہ ایسے ہے کہ پاکستان یہاں اوپر ہے اور انڈیا یہاں نیچے ہے۔ جس طرح (حالیہ تصادم میں) ایئرفورس میں ان کا موازنہ ہوا ہے نا، اس سے بھی زیادہ فرق ہے ان کی اور ہماری میزائل اور نیوکلیئر ٹیکنالوجیز میں۔
جاوید چوہدری: تو سر، ڈرونز میں کہاں پر ہیں ہم؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہمارے پاس سارے ڈرونز ہیں۔ جب یہ سلسلہ چلا تھا تو پورے دہلی کے اوپر ہمارا ڈرون اڑ رہا تھا۔
جاوید چوہدری: پہنچا تھا دہلی؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہاں، کلکتہ جا سکتا ہے، کہیں بھی جا سکتا ہے۔ آج سے نہیں یہ تو دس سال پہلے سے ہماری صلاحیت ہے۔ وہاں جا کر یہ انہیں دیکھ رہا تھا کہ وہ کر کیا رہے ہیں، کون سا جہاز کہاں سے اڑ رہا ہے، کون سا ڈرون کہاں سے فائر ہو رہا ہے، آرمی کی ڈویژن کدھر جا رہی ہے، اس پر دن اور رات کے وقت دیکھنے والے کیمرے لگے ہوئے ہیں اور وہ ہر چیز آپ کو ٹرانسمٹ کر رہا ہے۔ اور وہ فضا میں بہت بلندی پر موجود رہتے ہیں اور راڈارز میں بھی نظر نہیں آتے، ہمارے جو ڈروزنز ہیں، ہم نے بنائے ہوئے ہیں۔
جاوید چوہدری: کہتے ہیں ترکی سے لیے ہیں۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: جب جنگ ہوئی ہے ترکی سے تو اس دن جہاز آیا ہے نا، بیس سال سے ہم نے پوری ورائیٹی بنائی ہوئی ہے۔ ترکی کی بھی بڑی مہربانی ہے، ان کی بڑی سپورٹ ہے، ان کی جو دو بہترین چیزیں تھیں، وہ بھی انہوں نے بھیج دی تھیں۔ اور وہ (انڈیا والے) آج ترکی کے دشمن بھی ہو گئے ہیں۔
جاوید چوہدری: یہاں پر ڈاکٹر صاحب ایک سوال اور بھی ہے کہ جو اسرائیلی ڈرونز انڈیا نے استعمال کیے ہیں، وہ تقریباً نوے پاکستان کے اندر آئے تھے اور پاکستان نے نوے کے نوے گرا لیے تھے۔ اس ڈرون میں اور پاکستان کے ڈرون میں کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: دیکھیں، ڈرونز مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی کئی قسموں کے ڈرونز ہیں۔ Unmanned Aerial Vehicles (بغیر پائلٹ کے) بھی ہیں۔ ان کے پاس بھی ہیں اور اسرائیل سے بھی کچھ لیے ہوئے ہیں۔ اس میں ایک بڑا والا بھی تھا جسے ہم نے گرایا تھا۔ جب آپ 1+6 گنتے ہیں تو ایک وہ بڑا والا تھا، وہ پچیس تیس چالیس ملین ڈالرز کا ہوتا ہے۔ Some drones are just for obsevation جنہوں نے تصویریں لیں اور واپس آ گئے، آپ نے کیمرا نکالا اور تصویریں نکال لیں۔
جاوید چوہدری: جاسوسی کے ڈرونز۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: جاسوسی ڈرونز۔ اور ایک وہ ہوتا ہے جو اوپر جاتا ہے اور براہ راست آپ کو دکھاتا ہے۔ پھر جو مہنگے والے ہیں اور بڑے ہیں وہ مسلح ہیں، ان میں مختلف میزائل ہوتے ہیں جو لیزرگائیڈڈ بھی ہو سکتے ہیں، دوسرے عام میزائل بھی، گائیڈڈ میزائل بھی ہو سکتے ہیں، وہ بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے ابھی جو اسرائیل سے لیے ہیں بڑے والے، ایک آپ نے گرایا ہے۔ They were not seen anywhere (near) اور وہ دور سے فائر نہیں کر سکتے، ان کے چھوٹے چھوٹے میزائل ہوتے ہیں کہ نیچے کوئی گاڑی جا رہی ہے اس کو مار دیا، کسی گھر پر مار دیا، دہشت گرد کہیں چھپے ہوئے ہیں تو ان کو ختم کر دیا۔ تو وہ ڈرونز ادھر زیادہ نہیں آئے، ایک آیا تھا تو اسے آپ نے گرا دیا۔
جو زیادہ تر Nuisance پیدا کرنے کے لیے تھے وہ ایسے تھے کہ ان پر چھوٹا بم لگایا اور ہدف پر پہنچا کر اسے گرا دیا، جیسے دس پندرہ کلو کے چھوٹے بم ہوتے ہیں، جو لوگوں کے لیے افراتفری پیدا کے لیے ہوتے ہیں۔ انہیں وہ پیچھے سے ریموٹ کنٹرول سے اڑاتے ہیں، اس پر کیمرا لگا ہوتا ہے جو آپریٹر کو بتا رہا ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے، آپریٹر اسے گائیڈ کرتا ہوا ہدف پر لاتا ہے اور اسے کہتا ہے وہاں پر پھینک دو۔
اس کا ہم نے بڑا اچھا علاج رکھا ہوا تھا کہ ہم نے جیمنگ سسٹمز لگائے ہوئے تھے اپنے کافی علاقوں میں۔ جب وہ آتے تھے، تو ایک جگہ کو میں براہ راست اپنے لیپ ٹاپ پر دیکھ رہا تھا، تو فیلڈ میں جو ہمارے جیمنگ سسٹمز تھے، ایک ڈرون سیدھا آ رہا تھا ٹارگٹ کی طرف، جب وہ جیمنگ سسٹم آن ہوا تو ڈرون دائیں بائیں کچھ ڈول کر دھڑام سے وہیں گر گیا So, we locked down the droes with our jamming systems ان کا جو پیچھے ریڈیو کنٹرول لنک ہوتا ہے، جیمنگ سے وہ لنک ٹوٹ جاتا ہے Then the drone does not get any signals
جاوید چوہدری: اور یہ جامرز بھی ہمارے اپنے بنے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: اپنے ہیں بالکل۔
جاوید چوہدری: بہت اچھا۔ اچھا، ڈاکٹر صاحب، اٹھائیس مئی 1998ء کی طرف جاتے ہیں واپس۔ جب یہ ایٹمی دھماکے کر رہے تھے تو آپ کو ڈر نہیں لگا کہ کہیں غلط بھی ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے بم چلے ہی نا اور ہماری بے عزتی ہو جائے دنیا میں۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: جب میں گیا تھا یہاں سے تو مجھے پرائم منسٹر نے بلایا تھا، مغرب کا وقت تھا، نماز ہم نے اکٹھے ہی پڑھی تھی۔ (سعید) مہدی صاحب تھے جو پرنسپل سیکرٹری تھے، وزیر اعظم تھے، اور میں تھا۔ ہم تین تھے۔ تو انہوں نے یہ پوچھا کہ آپ کی تیاری کیسی ہے، ہم کر سکتے ہیں، نہیں کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا، تیاری پوری ہے۔ ٹنلز کی تیاری؟ میں نے کہا، وہ بھی پوری ہے، آلات لگے ہوئے ہیں، دھماکے کی پیمائش بھی کر سکتے ہیں، سب کچھ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ 1980ء (کی دہائی) سے تو میں نے وہ آلات تیار کر کے ٹنلز میں نصب کر کے ٹیسٹ کیے ہوئے تھے سارے۔ بہرحال، وہ کہنے لگے کہ اگر ٹیسٹ نہ ہوئے تو ہماری جتنی نیوکلیئر تنصیبات ہیں اسے دشمن نہیں چھوڑیں گے، اور دنیا میں ہمارا مذاق اور تمسخر الگ بنے گا۔ میں نے تو ان کو یہی کہا تھا، پوچھ لیجیے گا نواز شریف صاحب سے، میں نے کہا جی ہمارا ایمان ہے کہ ہم کوشش کر سکتے ہیں، نتیجہ اللہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے، آپ دعا کریں، اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا۔بہت اللہ کا شکر ہے، بڑا کرم ہوا، ہم نے چھ ٹیسٹ کیے۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کتنے ٹیسٹ کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا انڈیا نے پانچ کیے ہیں ہم نے ایک زیادہ کرنا ہے۔ میں نے کہا جی ٹھیک ہے So, we took that many devices with us وہاں پر انہیں اسمبل کیا۔
پہلے میں نے ٹنلز وغیرہ کو جزوی طور پر پلگ کیا ہوا تھا کیونکہ آخری دن ان کی پلگنگ نہیں کر سکتے کہ کئی کلومیٹرز میں ان کی لمبائی ہے، ان کو آپ کنکریٹ سے بند تو نہیں کر سکتے۔ 1996ء میں ایک موقع آیا تھا کہ ٹیسٹ کرنے ہیں تو اس وقت ہمیں کہا گیا تھا کہ تیاری کریں، تو اس وقت ہم نے تاریں بچھا لیں، ہر کیبل یوں سمجھ لیں کہ تین انچ کے ڈایامیٹر کا ایک پائپ ہوتا ہے، کئی سو ٹن ان کا وزن ہوتا ہے۔ وہ ایسی تاریں نہیں ہیں جیسے یہ آپ نے یہ بچھائی ہوئی ہیں۔ اور کئی کلو میٹر ان کی لمبائی ہوتی ہے۔ وہ سارا کام اس وقت ہم نے کر کے ٹنلز کو ہم نے تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر تیار کر دیا تھا۔
جب ہم گئے ہیں تو ایٹم بم کو الگ الگ پارٹس میں لے کر گئے تھے اور ٹنل میں جہاں جا کر ہم نے رکھنا تھا، وہاں ہم نے اسے اسمبل کیا تھا۔ وہ تین چار دن میں ہو گیا تھا۔ اس کے بعد تین چار دن میں ہم نے صرف ٹنلز کے گیپس کو کنکریٹ سے بند کرنا تھا، اور یہ ہم نے دو دن میں کر لیے تھے، جب کنکریٹ سخت ہو گئی تو ہم تیار تھے۔
یہ تو ہو گیا لیکن پھر اسے ریموٹ سے Detonate کرنا تھا، کوئی بیس تیس کلو میٹر دور سے۔ ہم نے اپنے سر پر تو نہیں مارنا تھا نا۔ ہمیں یہ پتہ نہیں تھا کہ پہاڑ کتنا (مضبوط ہے)۔ ہم نے اپنی پیمائشیں بہت کی ہوئی تھیں لیکن کیکولیشنز اپنی جگہ ہوتی ہیں، اگر پہاڑ میں کوئی شگاف آجائے جہاں سے ریڈیو ایکٹیویٹی نکل پڑے تو آپ کیا کر لیں گے، کسی نے اس کے اندر گھس کر تو نہیں دیکھا … تو میری ٹیم کے اسی نوے لوگ تھے وہاں چاغی میں، ان سب کو ہم نے واپس بھیج دیا، اب ہم صرف پانچ چھ لوگ رہ گئے تھے چلانے کے لیے، باقیوں سے میں نے کہا کوئٹے واپس چلے جاؤ۔
جاوید چوہدری: پانچ چھ لوگ رہ گئے، انہوں نے اپنی جان کو رسک میں ڈالا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: میں ساتھ تھا۔ رسک تو دیکھیں کہ جب ہم نے یہ ٹرانسپورٹ کیے ہیں، یہاں سے جب گئے ہیں تو سامان تو کوئٹہ گیا نا۔ کریٹس میں پیک تھے ایٹم بمز، کوئٹے سے جب چاغی گئے تو ہیلی کاپٹر میں گئے، ساتھ بندے بھی تھے، اگر اس وقت میرا پاس موبائل کیمرا ہوتا، جو اس زمانے میں تھے نہیں، تو میں آپ کو دکھاتا کہ ہیلی کاپٹر میں کریٹس پڑے ہوئے ہیں ایٹم بم کے، اور کریٹس کے اوپر ہم ٹانگیں لٹکا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس میں یہ نہیں سوچنا ہوتا کہ کیا ہو گا، سوچنا یہ ہوتا ہے کہ کیا کرنا ہے۔
جاوید چوہدری: اچھا، یہ ٹرانسپورٹیشن آپ نے اسلام آباد سے کی تھی، ٹیکنیکل سوال ہے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ظاہر ہے، وہ تو پاکستان ایئر فورس نے ہماری مدد کی تھی۔ کوئٹہ سے آگے ہیلی کاپٹرز پھر آرمی نے دیے تھے۔
جاوید چوہدی: تو کتنا وقت لگا آپ کو اسمبل کرنے میں اور تیاری میں؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہم بیس تاریخ کو پہنچے تھے رات کو بارہ بجے، بیس مئی کو۔ انڈیا نے ٹیسٹ کیے تھے گیارہ اور تیرہ مئی کو۔ چودہ کو DCC (ڈیفنس کمیٹی آف دی کیبینٹ) کی میٹنگ ہوئی تھی، اس میں فیصلہ ہوا کہ ہم نے ٹیسٹ کرنے ہیں۔ چار پانچ دن میں انہوں نے پھر اپنے دوست ممالک کو بتانا تھا۔ تو ہمیں بیس مئی کو اجازت ملی تھی۔ بیس کو ہم پی آئی اے کی فلائیٹ میں کوئٹہ پہنچ گئے تھے، وہاں سے رات کو بارہ بجے چاغی پہنچ گئے تھے۔ سامان ایک دو دن میں سارا پہنچ گیا تھا We started assembling, in four five days we were ready کنکریٹ بھی پلگ کر لی تھی اور سب کچھ۔
ستائیس کی رات کو ہم کام بالکل ختم کر کے سوئے تھے۔ صبح چار بجے ہم اٹھے پھر نماز پڑھی دعا مانگی اور پھر اللہ کے اوپر چھوڑ دیا سارا کچھ۔ دن کو تین بجے ٹیسٹ کا وقت تھا۔ وہاں آرمی کی پوری بریگیڈ تھی، ان کو میں نے کہا کہ آپ نکل جائیں۔
پھر ایک وقت تھا اس چیز کا مجھے خیال آتا ہے کہ ہم نے اتنے قریب جو چیز محفوظ رکھی ہوئی تھی، دل کے ساتھ لگا کر رکھی ہوئی تھی، خفیہ مقامات ہیں وغیرہ، اور جب بریگیڈ کو نکال دیا تو ایک وقت ایسا آیا کہ ایک گھنٹے کے لیے اس مقام پر کوئی ایک انسانی روح بھی نہیں تھی۔
Totally unattended, atom bombs were in place, all wired up waiting for the button to be pressed.
وہ جو ’’اللہ کا توکل‘‘ کہتے ہیں نا، اس وقت اللہ کے توکل پر چھوڑا تھا ہم نے۔ پھر بیس پچیس کلو میٹر دور سے ہم نے اس کی Detonation کی۔ جب کاؤنٹ ڈاؤن کیا … تو میرا انجینئر تھا جو ریموٹ کنٹرول سسٹم آپریٹ کر رہا تھا، میں نے کہا ’’یار تو کر دے اے کم‘‘۔ اس نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! تسی کرو‘‘۔ میں نے کہا نہیں ’’تم کرو یار تم نے بڑی محنت سے یہ کیا ہے‘‘۔ کہنے لگا ’’الٹی گنتی شروع کروں؟‘‘ میں نے کہا ’’الٹی گنتی کیوں شروع کرنی ہے؟ اللہ اکبر اور بٹن دبا دے بس‘‘۔ اللہ اکبر کہہ کر بٹن دبا دیا۔ اسی لیے اسے یومِ تکبیر کہتے ہیں۔ کوئی گنتی شنتی نہیں، میں نے کہا انگریز گنتی کرتے ہیں، نائن ٹین، فلان ٹینگ۔
اس کے بعد اب ہم کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں۔ گاڑی میں تھے ہم، مرسڈیز کا بڑا زبردست ٹرک تھا، اس میں سب انسٹرومنٹس لگے ہوئے تھے۔ بٹن دبا کر ہم ٹرک سے باہر آ گئے، پہاڑ کی طرف دیکھنا شروع کیا، کچھ بھی نہ ہوا۔ میں نے کہا، یہ کیا ہوا یار؟ ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے ہیں ہم۔ پینتیس سیکنڈ کے بعد، ہم وہیں پر کھڑے تھے، اتنی زور سے جھٹکا لگے کہ ہم تقریباً گر ہی گئے، اتنی زور سے زلزلہ آیا۔ کالے پتھر کے پہاڑ تھے، دھوپ میں جلے ہوئے، پچپن ڈگری ٹمپریچر تھا، صدیوں سے، وہ پہاڑ سفید ہونے شروع ہوئے، جیسے برف پڑنی شروع ہوتی ہے نا۔ پورا پہاڑی سلسلہ، تیس کلو میٹر تک ہم دیکھ سکتے تھے، سارا اوپر سے سفید ہو گیا۔ اس کے بعد جہاں پر ہم نے بم لگایا تھا، وہاں جو پہاڑ سفید تھے وہ سرخ ہونا شروع ہو گئے They started getting red hot میں نے کہا یار یہ تو کام خراب ہونے لگا ہے، لیکن It stayed there پہاڑ نے اسے قابو میں رکھا۔ ہم نے بڑی احتیاط سے اس کا انتخاب کیا تھا This was a strongest highest density rock in the country سب سے مضبوط پہاڑ تھا یہ، راسو کا پہاڑا۔
جاوید چوہدری: آپ نے بتایا کہ جب وہ پہاڑ سرخ ہو رہا تھا تو آپ کو خوف تھا کہ کہیں پھٹ نہ جائے۔ اگر خدانخواستہ ڈاکٹر صاحب، وہ جو سرخ ہو رہا تھا پہاڑ، تو خطرہ آپ کو تھا کہ کہیں لیک نہ کر جائے؟ تو یہ پھٹنے سے کیا ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: دیکھیں، ہم نے ٹنل پلگ (بند) کی ہوئی تھی، تو اندر جب نیوکلیئر ڈیٹونیشن ہوتی ہے تو درجہ حرارت بہت اوپر چلا جاتا ہے، کئی ہزار ڈگریز پر پہنچ جاتا ہے، تو پہاڑ کے پتھر سرخ اور گرم ہو جاتے ہیں، اس سے بھی زیادہ درجہ حرارت ہو تو یہ پگھل بھی جاتے ہیں، اور پگھل گئے تو پھر یہ کھل جائیں گے۔ تو پگھلنے کی نوبت نہیں آئی، گرم ہونے کی نوبت آ گئی۔ اندر گیسز پھیل رہی ہوتی ہیں، اس میں ہیٹ بھی ہے اور پریشر بھی، دونوں چیزیں ہیں۔ ایک تو Shokwave ہے نا جو زلزلہ آیا ہے، وہ تو آسٹریلیا میں بھی ماپا گیا ہے اور امریکہ میں بھی، یہ پوری دنیا میں گھوما، اتنا زبردست جھٹکا ہوتا ہے ایٹمی دھماکے کا۔ لیکن جو تباہی ہوتی ہے، جیسے ہیروشیما اور ناگاساکی شہر تباہ ہوئے، وہ گرمی کی لہر ہوتی ہے، اور دھماکے سے ہوا کا جو پریشر ہوتا ہے، اس سے اموات ہوتی ہیں، عمارتیں گر جاتی ہیں، چیزیں پگھل جاتی ہیں۔
جاوید چوہدری: چاغی میں آج بھی ریڈی ایشن کے امکانات ہیں یا ختم ہو گئے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: وہ ایسے ہے کہ، آپ یہ دیکھیں کہ جب ٹیسٹ ہوئے تب ہم پندرہ بیس کلو میٹر دور تھے اور آٹھ دس لوگ ہی تھے۔ جو باقی میرے ساتھی تھے وہ کہنے لگے کہ ہم نے جا کر دیکھنا ہے۔ میں نے کہا، کیا دیکھنا ہے؟ کہتے ہیں جی ٹنل میں جانا ہے۔ میں نے کہا یار بات سنو، وہاں پہ ریڈیو ایکٹیویٹی نہ ہو کہیں۔ ہمارے پاس گاڑی تھی، ایک دو جیپیں تھیں، ریڈی ایشن مانیٹر لے کر گئے وہ، دس کلو میٹر دور تھا، دس پندرہ منٹ گزر گئے وہ واپس ہی نہ آئے اور نہ ہی وائرلیس پر کچھ بتایا۔ میں نے کہا، چلو میں بھی جاتا ہوں۔ کیونکہ ہم نے اندھیرے سے پہلے خاران پہنچنا تھا، اور یہ تین چار بجے کی بات تھی۔ اور رات کو آپ ہیلی کاپٹر میں سفر نہیں کر سکتے۔ تو وہ تماش بینی کر رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے۔ اور خوش تو ظاہر ہے کہ ہم بہت تھے، اس سے زیادہ اور کیا خوشی ہو سکتی ہے۔
ہم وہاں گئے تو ٹنل پر ہم نے ایسے ہی ایک گیٹ لگایا ہوا تھا، اس پر چائنیز تالا تھا جو ایسے ہی لٹک رہا تھا، اسے کچھ نہیں ہوا So the shockwave did not even destroy the outer gate لیکن جو بنکر تھا جس میں ہمارے سارے آلات وغیرہ تھے جنہوں نے دھماکے کی شدت وغیرہ ریکارڈ کی تھی، اس بنکر کی اڑتالیس انچ کی سیمنٹ اور سریے کے ساتھ ری انفورسڈ دیواریں بنائی گئی تھیں، وہ دیواریں ایسے پھٹی ہوئی تھیں کہ اس کے اندر سے آپ بندہ گزار دیں، پتلا سا بندہ اس میں گزر سکتا تھا، اتنے گیپ ان میں پڑ گئے تھے۔
جاوید چوہدری: اڑتالیس انچ کی دیوار ٹوٹ گئی۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: اتنا شدید وہ جھٹکا تھا، لیکن وہ تو ٹنل کے منہ کے اوپر تھا، اور شاک ویو تو پھر امریکہ بھی جانی تھی نا۔ ریڈیو ایکٹیویٹی کوئی نہیں تھی، ہم وہاں تھے، ہم نے مانیٹر کیا، کیونکہ کچھ لیک نہیں ہوا تھا، اگر لیک ہوتی تو پھر کام خراب ہوتا۔
جاوید چوہدری: اچھا آج تک ایک راز ہے کہ میاں نواز شریف صاحب شاید دھماکے نہیں کرنا چاہتے تھے، یا رائے کا اختلاف تھا، کچھ کہتے تھے چھوڑ دیں امریکہ سے پیسے لے لیں، کچھ کہتے تھے ہر صورت کرنا ہے، یاد ہے آپ کو سر، کیا فیصلہ ہوا تھا؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: بالکل یاد ہے، میں ڈیفنس کمیٹی کی میٹنگ میں تھا۔ انہوں نے پہلے تو انفرادی ملاقات کی تھی نا میرے ساتھ بارہ تیرہ تاریخ کو، پھر مجھے انہوں نے بلایا تھا کہ کمیٹی کی میٹنگ چودہ تاریخ کو ہو رہی ہے تو آپ کو میں اسپیشل انویٹیشن پر بلا رہا ہوں، ڈاکٹر (عبد القدیر) خان صاحب کو بھی بلا رہا ہوں، آپ کو بھی بلا رہا ہوں۔ پھر ہم دونوں گئے تھے اس میں۔ پھر وہ ساری ڈسکشن میرے سامنے ہوئی تھی۔ زیادہ لوگ نہیں تھے، کوئی چودہ پندرہ لوگ ہوں گے۔ پرائم منسٹر کے ساتھ ایک طرف کچھ منسٹر تھے۔
جاوید چوہدری: آرمی چیف تھے جنرل جہانگیر کرامت۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: آرمی، سروس چیف تھے، فنانس منسٹر تھے، وہ مجھے اس لیے یاد ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ نا کرو۔
جاوید چوہدری: سرتاج عزیز صاحب نے کہا تھا؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہاں، انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ بہت پابندیاں لگا دے گا، معیشت خراب ہو جائے گی، انہوں نے تو اکانومی کا سوچنا تھا نا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیسے بھی دے رہا ہے تو۔
جاوید چوہدری: لے لو۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہاں۔ خیر، سب کی باتیں سنیں۔ نواز شریف بہت ڈیموکریٹک بندہ ہے۔ انہوں نے بالکل ظاہر نہیں کیا کہ ان کی اپنی مرضی کیا ہے۔ انہوں نے گفتگو کا آغاز کروا دیا کہ Floor is open for discussion باری باری پوچھتے رہے۔ پھر انہوں ڈاکٹر خان صاحب کو بھی ایک ٹیکنیکل سوال پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب اگر ہم فیصلہ کریں اور آخری وقت پر آپ کو بھیج دیں کہ جا کر ٹیسٹ کریں، تو ایسا وقت بتائیں کہ جس کے بعد Point of no return ہو یعنی اب کرنا ہی کرنا ہے، ورنہ وہاں چھوڑ کر آجانا ہے بغیر ڈیٹونیشن کے، تو پوائنٹ آف نو ریٹرن کیا ہو گا؟ ڈاکٹر خان صاحب نے کہا کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، جب آپ کہیں گے ہم ڈیٹونیشن کی تاریں اتار دیں گے اور باہر آجائیں گے۔
جاوید چوہدری: یعنی وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ یہ ہو۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: (یہ بات) نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آسان ہے یہ، جب آپ کہیں گے کہ نہ کرو تو ہم نہیں کریں گے اور تاریں اتار کر بم اٹھا کر گھر لے آئیں گے۔
وہی سوال انہوں نے اس کے بعد مجھ سے پوچھا۔ میں نے کہا کہ بھئی جس وقت کنکریٹ پلگ ہو گئی تو اب یہ کام نہیں ہو گا، تاریں وغیرہ سب کچھ تو اندر ہے، اب کنکریٹ توڑنے جائیں گے تو بم بھی ٹوٹ جائیں گے، اس لیے یہ پوائنٹ آف نو ریٹرن ہے، کنکریٹ کا پہلا پلگ ڈالنے سے ایک گھنٹہ بعد تک، جب کنکریٹ سخت ہو گئی تو ختم۔
جاوید چوہدری: ختم، اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر صاحب، یہ فرمائیے گا کہ جو پہلا بم چلا تھا 1945ء میں ہیرو شیما پر چلا تھا، وہ بم اور آج کے بم، کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: دیکھیں، اس بم میں اور آج کے بم میں فرق یہ ہے کہ وہ کوئی دس بارہ کلو ٹن کے بم تھے دونوں، اس کا سائز کوئی دو سے تین ڈایا میٹر کا تھا۔
جاوید چوہدری: ’’لٹل بوائز‘‘، عام جہاز سے گرایا تھا انہوں نے۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: لٹل بوائز، عام جہاز سے گرائے تھے … اب جو چھوٹا Miniature بم ہے، جو شاہین ون پر لگتا ہے، وہ اتنا سا ہے (ایک ڈیڑھ فٹ)، اس کے دھماکے کی شدت ان بموں سے زیادہ ہے۔ ایک تو Miniaturization (مختصر کرنے کی تکنیک) بہت اچھی ہو گئی ہے، بم کے ڈیزائن بہت بہتر ہو گئے ہیں، کارکردگی ان میں بہت آ گئی ہے۔ وہ جو اتنا سا پانچ چھ انچ کا بم ہے جو ٹیکٹیکل میزائل میں لگتا ہے، وہ بھی بڑی بلا ہے۔
جاوید چوہدری: وزن میں کتنا ہو گا ویسے؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: ہمارے جو بڑے بم ہیں دس بارہ کلو ٹن کے، ان کا وزن ہیروشیما والے بم سے 1/20th ، 1/15th ہے۔ بہت چھوٹے بم ہیں۔ کیونکہ اگر بہت وزنی لگائیں تو پھر میزائل کی رینج نہیں ہوتی You have to make it compact and light
جاوید چوہدری: آج اگر خدانخواستہ یہ بم چل جاتے ہیں تو ہیروشیما سے دس گنا، پندرہ گنا، پچاس گنا زیادہ تباہی آئے گی؟
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: بہت زیادہ، تباہی تو بہت آئے گی، اللہ کرے اس کی نوبت نہ آئے، ہم لوگوں کو ڈرانا نہیں چاہتے، لیکن ہم لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دشمن کو پتہ ہونا چاہیے کیونکہ اس کے پاس یہ بم ہیں، تو ایسے ہی کوئی غیر سنجیدہ قیادت وہاں آجائے تو وہ اٹھا کر اسے ہمارے سر پر نہ دے مارے، کیونکہ اگر وہ ایسے ماریں گے تو ان کا بھی سر پھٹے گا، ہم بھی ان کا سر توڑ سکتے ہیں۔ اس لیے یہ ڈیٹرنس کے لیے بنائے گئے ہیں۔
جاوید چوہدری: آخری کوئی پیغام جو آپ مودی صاحب کو دینا چاہیں، کیونکہ اس وقت تو وہ دیکھ رہے ہوں گے آپ کو۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند: مودی صاحب بزرگ آدمی ہیں، لیکن میرے سے وہ عمر میں چھوٹے ہیں So, I don't have to respect him like an elder, but I do respect him as a head of a neighboring state وہ ہمارے ہمسائے ہیں، تو ان کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ آپ کے اپنے جو بھی انتخابات کے مسئلے ہیں، جو آپ کے مقامی مسائل ہیں، جو آپ کی مجبوریاں ہیں، جو ملک کا اندرونی دباؤ ہے جیسے جمہوریت کے ہوتے ہیں، وہاں کئی تحریکیں چل رہی ہیں جیسے ناگالینڈ والوں کی اور سکھوں کی، تو آپ اپنے دباؤ کو خود برداشت کریں اور اٹھا اٹھا کر انہیں پاکستان کی طرف مت پھینکیں۔ اس frenzy (بے لگام اشتعال) میں پھر آپ کا پریس آجاتا ہے اور آپ کا میڈیا آجاتا ہے تو پھر بات بڑھ جاتی ہے، آپ بھی پھر حد پار کرنے کی کوشش کریں گے، آپ ایسی نوبت ہی نہ آنے دیں، آپ سمجھدار آدمی ہیں حکومت کے سربراہ ہیں، تو سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ اس طرف جو بندے بیٹھے ہیں نا، یہ بڑی ’’فائر برینڈ‘‘ قوم ہے، ’’مارشل ریس‘‘ بیٹھی ہے ادھر۔ اِدھر کوئی پنسل کاغذ والے بندے نہیں بیٹھے، برٹش آرمی ادھر سے ہی ریکروٹ ہوتی تھی اور دوسری جنگ عظیم بھی انگلینڈ نے ادھر سے ہی بیٹھ کر لڑی ہے، تو اس قوم کا دماغ خراب ہو گیا تو پھر آپ کی شامت آجائے گی۔
جاوید چوہدری: ڈاکٹر صاحب، آپ کا بہت بہت شکریہ۔ (ناظرین) آپ نے گفتگو سنی، فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے، اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کے اہلِ خانہ کو ہر قسم کی مصیبت سے محفوظ رکھے، اللہ حافظ، پاکستان زندہ باد۔