مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت

تقریظ ہمدم عمرؓ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، نحمدہ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم اما بعد۔

زیر نظر کتاب ’’ہمدم عمرؓ‘‘ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد امیر المؤمنین سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرتِ مبارکہ پر لکھی جانے والی پہلی غیر منقوط کتاب ہے جو کہ جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام مدنی محلہ جہلم کے استاذ الحدیث برادرم حضرت مولانا محمد فاروق شاہین صاحب مدظلہ کے منفرد علمی ذوق کا مظہر اور حضرات خلفائے راشدینؓ سے والہانہ عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قبل ازیں وہ خلیفہ اول بلا فصل سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرتِ مبارکہ پر ’’ہمدم مکرمؓ‘‘ کے نام سے پہلی غیر منقوط کتاب تحریر کرنے کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں۔

مولانا موصوف کا شمار جامعہ کے ان قابلِ فخر فضلاء میں ہوتا ہے جن میں اپنے اکابرین بالخصوص قائد اہلِ سنت وکیلِ صحابہؓ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ اور فخرِ اہلِ سنت حضرت مولانا عبد اللطیف صاحب جہلمیؒ کی تعلیمات اور تربیت کا اثر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اور ان اکابرین کے فیض یافتگان میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہؓ اور اہلِ بیت بالخصوص حضرات خلفائے راشدینؓ کی سچی محبت و عقیدت سے سرشار ہوتے ہیں، ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔ 

رب تعالیٰ مولانا موصوف کی اس عظیم علمی کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطاء فرمائیں اور ان کی زندگی و صحت میں، علم و عمل میں، تقویٰ اور اخلاص میں مزید برکت عطاء فرمائیں۔ آمین بجاہ النبی الکریمؐ۔

خادم اہلسنت والجماعت، قاری محمد ابوبکر صدیق غفرلہ 

۱۵ ذی الحجہ ۱۴۴۶ھ بروز جمعرات بمطابق ۱۲ جون ۲۰۲۵ء

مولانا محمد فاروق شاہین:  ایک ہمہ جہت شخصیت 

دینی و علمی شخصیات کا تذکرہ محض سوانحی بیان نہیں، بلکہ اہلِ علم کے لیے رہنمائی، جذب و شوق کی بیداری اور اخلاصِ عمل کا آئینہ ہوتا ہے۔ ان نفوسِ قدسیہ کی حیات میں علم کی جستجو، عمل کی استقامت، اور خدمتِ دین کی وہ بے لوث روح پوشیدہ ہوتی ہے جسے دیکھ کر دلوں میں خیر کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ مولانا محمد فاروق شاہین صاحب بھی ان ہی باکمال شخصیات میں سے ایک ہیں، جنہوں نے درس و تدریس، علم و ادب اور تصنیف و تالیف کے میدان میں ایک خاص مقام پیدا کیا۔ ان کا سفرِ حیات نہ صرف مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے مشعلِ راہ ہے بلکہ اردو ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے بھی بصیرت کا سرمایہ ہے۔

نسب و مقامِ ولادت

ہزارہ کے سرسبز و شاداب پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد فاروق شاہین صاحب پنجاب کے تاریخی شہر جہلم کی قدیم و معروف دینی درسگاہ جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام میں استاذ الحدیث ہیں۔ آپ 11 دسمبر 1977ء کو اندر کوٹ دروازہ، ایبٹ آباد ہزارہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ محترم کا نام "محمد اذان عباسی" ہے جو ایک عرصہ تک چئیر لفٹ ایوبیہ میں سپروائزر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

ابتدائی عصری تعلیم

آپ نے عصری تعلیم کا آغاز گورنمنٹ پرائمری سکول خانس پور ایوبیہ سے کیا۔ مڈل گورنمنٹ مسلم ہائی سکول بنی چوک راولپنڈی سے پاس کی، جبکہ میٹرک تک کی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول خانس پور ایوبیہ سے مکمل فرمائی۔

ناظرہ و حفظ قرآن مجید

1989ء میں آپ کا تعلق دارالعلوم فیض القرآن عیدگاہ روڈ راولپنڈی سے قائم ہو گیا۔ یہاں رہ کر آپ نے صرف ایک سال کی قلیل مدت میں قاری غلام یاسین رحمۃ اللہ علیہ (آف کوٹ گلہ تلہ گنگ) سے ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ اس کے بعد قرآن حکیم کو اپنے سینے میں محفوظ کرنے کی آرزو لیے، قاری عابدالرشید صاحب کھوکھر کی نگرانی میں تقریباً ڈھائی سال کی پیہم ریاضت کے بعد حفظ قرآن مجید کا اعزاز پایا، جبکہ تجوید و قرأت کے فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے قاری سلیم صاحب سے فیض حاصل کیا۔

دینی تعلیم کے حصول کے سلسلے میں جامعہ حنفیہ جہلم آمد

سن 1993ء میں دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے آپ نے جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم میں داخلہ لیا۔ ابتدائی درجات سے لے کر دورہ حدیث شریف تک کی تعلیم اسی مدرسے میں رہ کر مکمل ہوئی۔ آپ کے مشہور اساتذہ میں مولانا نور اشرف صاحب ہزاروی، شیخ الحدیث مدرسہ ہذا مولانا قاری ظفر اقبال صاحب مدظلہ، مناظر اعظم علامہ عبدالستار تونسوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا منیر احمد منور مدظلہ اور مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ (ظاہر پیر) کے نام نمایاں ہیں۔

دورانِ تعلیم اساتذہ و علوم کی تفصیل

دورانِ تعلیم درسِ نظامی کے نصاب میں، آپ نے مولانا نور اشرف ہزاروی سے صرف، تفسیر اور ابو داؤد شریف کا درس لیا۔ مولانا سعید احمد صاحب اٹکی سے نحو، معانی و بیان اور مشکوٰۃ شریف پڑھی۔ مولانا قاری ظفر اقبال صاحب میانوالوی سے منطق، اصولِ فقہ اور بخاری شریف، مولانا عبدالودود صاحب سے ترمذی، اور مولانا سلطان صاحب کوہستانی سے مسلم شریف کی تعلیم حاصل کی۔ فقہ کے دقیق علوم کی تحصیل کے لیے آپ نے مولانا رانا احمد خان صاحب سرگودھوی اور مولانا عبد الودود صاحب ہزاروی کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا۔

درس و تدریس کا آغاز

2002ء میں درسِ نظامی کی رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد اگلے سال 2003ء میں اپنے مادرِ علمی جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم ہی سے تدریس کا آغاز کیا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں درسِ نظامی کی متعدد چھوٹی بڑی کتب آپ کے زیرِ تدریس رہیں، جس سے سیکڑوں طلبہ مستفید ہوئے۔ اس سال بھی نحومیر، شرح تہذیب، توضیح تلویح، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور شمائل ترمذی کے اسباق آپ سے متعلق ہیں۔

تحصیل علم کا تسلسل

راقم الحروف کو سن 2011ء میں مولانا محمد فاروق شاہین صاحب سے "شرح تہذیب" پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس وقت ان کا ایک جملہ، جو انہوں نے ہمیں بطور نصیحت فرمایا تھا، مجھے اب بھی یاد ہے: "علماء کی حصولِ علم سے فراغت دراصل تکمیلِ علومِ دین نہیں بلکہ آغازِ علومِ دین ہے"۔ آپ مزید فرماتے تھے کہ "درسِ نظامی کا یہ کورس تو محض ایک چابی ہے جس سے علوم کے دروازے کھلتے ہیں، یہ تکمیل ہرگز نہیں"۔ یہ نصیحت صرف علماء کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ آپ نے خود اس پر عمل کر کے بھی دکھایا۔ چنانچہ، اگرچہ مولانا موصوف نے 2002ء میں سندِ فراغت حاصل کرکے تدریس کے شعبے سے وابستگی اختیار کر لی تھی، تاہم آپ نے حصولِ علمِ دین کو کبھی ترک نہیں کیا۔ آپ نے اس سلسلے میں در در کی خاک چھانی اور تاحال آپ کی جہدوجہد جاری ہے۔ آپ کچھ عرصہ دارالمبلغین، نواں شہر ملتان میں بھی مقیم رہے، جہاں آپ نے علامہ عبدالستار تونسوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالغفار تونسوی مدظلہ العالی، مولانا منیر احمد منور اور مولانا بشیر احمد الحسینی (شور کوٹ والے) سے علمِ جدل و مناظرہ کے مختلف اسباق پڑھے۔اسی تسلسل میں، آپ نے محترم مولانا مفتی انور غازی صاحب مدظلہ سے صحافت اور مضمون نگاری کا علم بھی حاصل کیا۔

تخصصات کی تفصیل

2004ء کی سالانہ تعطیلات میں آپ نے جامعہ حقانیہ ساہیوال سے ممتاز اساتذہ مفتی سید عبد القدوس صاحب ترمذی اور مفتی محمد اعظم صاحب ہاشمی (فیصل آبادی) کی نگرانی میں تخصص فی الفقہ کیا۔ تخصص فی علم المیراث کی تعلیم اپنے استاذ مولانا محمد سعید صاحب اٹکی سے حاصل کی۔

تصوف و سلوک

تصوف و سلوک میں آپ نے پہلی بیعت قائد اہل سنت وکیل صحابہ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمۃ اللہ علیہ تلمیذ و خلیفہ مجاز حضرت مدنی قدس سرہ سے کی۔ 2004ء میں جب آپ کا وصال ہو گیا تو اس کے بعد آپ نے خلیفہ مجاز حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب سومرو سے اپنا روحانی تعلق قائم کیا۔

اخلاق و مزاج

آپ نہایت خوش مزاج، کریمانہ اخلاق اور صاف ستھرے کردار کے پیکر ہیں، طبیعت میں بے حد تواضع و انکساری پائی جاتی ہے۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے والا شخص، خواہ کتنا ہی وقت گزار لے، ان کے اندر تکبر یا بڑائی کا ذرہ برابر بھی شائبہ محسوس نہیں کرتا۔

نام کی تبدیلی

آپ کا پیدائشی نام محمد شاہین تھا، مگر بانی تحریک خدامِ اہل سنت مولانا قاضی مظہر حسین نے اس نام میں تبدیلی کا حکم دے کر دو نام تجویز فرمائے: محمد فاروق اور فاروق احمد۔ بانیِ مدرسہ ہذا مولانا قاضی عبد اللطیف جہلمی (خلیفۂ مجاز حضرت لاہوری) نے پہلے نام کو منتخب فرما کر آپ کا نام "محمد فاروق" رکھ دیا۔ بعد ازاں، حضرت جہلمی کے جانشین صاحبزادہ مولانا قاری خبیب احمد عمر نے اس میں مزید تبدیلی کے ساتھ آپ کا نام "محمد فاروق شاہین" کر دیا، اور اب یہی نام آپ کی پہچان بن چکا ہے۔

درسِ قرآن و حدیث اور فتویٰ نویسی

جہلم شہر کی مرکزی جامع مسجد گنبد والی میں آپ عرصہ دراز سے روزانہ فجر کی نماز کے بعد درسِ حدیث جبکہ عشاء کی نماز کے بعد درسِ قرآن دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اب مفتی محمد شریف صاحب مدظلہ، جو پہلے اس مرکزی جامع مسجد سے ملحقہ دارالافتا میں لوگوں کو مسائل کا حل بتاتے اور فتویٰ دیتے تھے اور جو مجاہدِ اہلِ سنت مولانا قاضی عبداللطیف جہلمی کے پرانے رفیق ہیں، کی ضعیف العمری کے باعث دارالافتا کی تمام ذمہ داریاں بھی حضرت مفتی صاحب ہی کی نگرانی میں مولانا محمد فاروق شاہین صاحب کو سونپ دی گئی ہیں۔

خطابت کی خدمات

2004ء میں آپ جامع مسجد عمر (مشین محلہ نمبر 3) میں خطیب مقرر ہوئے، جسے آپ نے کم و بیش پندرہ برس بحسن خوبی انجام دیا۔ 2021ء میں آپ جہلم شہر سے کچھ فاصلے پر راولپنڈی جی ٹی روڈ پر واقع علی جامع مسجد سٹی ہاؤسنگ راٹھیاں جہلم میں منصبِ خطابت پر فائز ہوئے اور تاحال یہ خدمت وہیں انجام دے رہے ہیں۔

تصنیفی خدمات

آپ تدریسی ذوق کے ساتھ ساتھ خارجی کتب کے وسیع اور گہرے مطالعے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ اسی وُسعتِ نظر اور غور و خوض کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے منفرد کام کی توفیق بخشی جو اردو ادب میں یکتائے زمانہ کہلانے کا مستحق ہے۔ اِس وقت آپ کی دو ایسی تالیفات منظرِ عام پر آ چکی ہیں جو صرف عنوان ہی کے اعتبار سے نہیں، بلکہ اپنے اسلوبِ تحریر اور فنی ترتیب کی بنا پر بھی اہلِ علم کے لیے باعثِ حیرت و تحسین ہیں۔ ان میں پہلی کتاب "ہمدم مکرم" ہے، جو یارِ غار و مزار، خلیفۂ بلا فصل، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شانِ اقدس میں بے نقط زبان میں تحریر کی گئی ہے۔ اس نادر اسلوب کی جھلک دیکھنے کے لیے یہ اقتباس پڑھیں:

ہمدم مکرم اور علمائے اسلام کا کلام

"علمائے اسلام سے مروی ہے کہ ہمدم مکرم، دور موسوی کے مرد مسلم سے اس لئے اولیٰ ہے کہ وہ موسی رسول اللہ صلی اللہ علی روحہ وسلم کا کلامی حامی رہا؛ مگر ہمدم مکرم کا حوصلہ ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علی رسولہ وسلم کا روح و دل سے ممد رہا اور دامی درمی، کلامی، عملی ہر طرح سے مددگار اور حامئ رسول رہا۔ سرّہ اللہ۔" (ہمدم مکرم، صفحہ 42)

ہمدم عمر سرّہ اور مکے والوں کا سردار

دوسری کتاب "ہمدم عمر" ہے، جو خلیفۂ دوم، فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ اور سیرت پر اسی فنی اسلوب میں مرتب کی گئی ہے۔لیجیے اس کتاب سے بھی ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

"سرکار دو عالم صلی اللہ علی رسولہ وسلم کو اطلاع ہوئی کہ اہل مکہ معاہدہ صلح کے مکسّر اور اس سے روگرداں ہو گئے ادھر اس معاہدہ صلح کو ٹکڑے کر کے اہل مکہ سرگرداں اور ڈرے سہمے رہے کہ اہل اسلام کسی لمحے مکہ مکرمہ دھاوا آور ہوں گے اس لئے رائے دی گئی کہ اس حال کے سدھار کے لئے کہ مکّہ والوں کا سردار معمورہ رسول راہی ہو اور معاہدہ کو سرے سے کر کے لوٹے گمراہوں کا سردار اس ارادے سے مکہ مکرمہ سے راہی ہوا معمورہ رسول آ کر اولاً رسول اللہ صلی اللہ علی رسولہ وسلم سے ملا اور صلح کے واسطے سے کلام کی مگر رسول اکرم صلی اللہ علی رسولہ وسلم کے کلام و عمل سے اسے معلوم ہوا کہ صلح کا معاملہ اعسر و محال ہے وہاں سے اٹھ کر ہمدم مکرم سرّہ اللہ سے آ کر ملا مگر وہ اس کی مدد سے دور رہے ہمدم عمر اور ہمدم علی کرّمہ اللہ کے ہاں وارد ہوا اور دوڑ، سعی کی ہر دو کے واسطے سے معاہدہ صلح سرے سے طے ہو مگر وہ ہر دو اس کی امداد سے الگ رہے مروی ہے کہ ہمدم عمر سرّہ اللہ آگے ہوئے اور کہا عمر گوارا کر سکے گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علی رسولہ وسلم سے کہے اے رسول اکرم صلی اللہ علی رسولہ وسلم اہل مکہ سے ملائمی و رحم کرو واللہ اگر اہل اسلام کو لکڑی کے ٹکڑوں کے سوا کوئی اور اسلحہ ہی ملے گا اسی کو لے کر مکّہ والوں سے لڑائی کے لئے ہماری آمادگی اور سعی ہو گی، اس سے سردار مکہ کو محسوس ہوا کہ معاہدہ صلح کی راہ مسدود ہے سو وہ معمورہ رسول سے،،دل مسوس کرکے ،، محروم ہی لوٹا۔" (ہمدم عمر، صفحہ 76)

اگر غور کیا جائے تو یہ کام محض ایک ادبی چیلنج نہیں، بلکہ ایک علمی مشقت، لسانی مہارت، اور فکری ریاضت کا امتزاج ہے۔ اردو کے کل چھتیس حروفِ تہجی میں سے اکیس غیر منقوط حروف کو بروئے کار لاتے ہوئے 256 صفحات کی مکمل، ہم آہنگ اور مربوط المعانی کتب تحریر کرنا عام اہلِ قلم کے بس کی بات نہیں۔ یہ کارنامہ نہ صرف نثرنگاری میں انفرادیت رکھتا ہے بلکہ اردو ادب کی اس صنف میں ایک نئی راہ کھولنے کے مترادف ہے۔ مولانا محمد فاروق شاہین صاحب نے بے نقط نثر میں جس روانی، معنویت اور فکری گیرائی کا ثبوت دیا ہے، وہ ان کے عالی ذہن اور زبان پر عبور کی گواہی دیتا ہے۔ یہ تصانیف اس وقت علمی حلقوں میں نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھی جا رہی ہیں بلکہ آئندہ اردو ادب کی فہرستِ نایاب میں ایک دلکش اضافہ ثابت ہوں گی۔ یقیناً جب بھی اردو ادب میں بے نقط نثر کا تذکرہ ہو گا، مولانا محمد فاروق شاہین کا نام اس فن کے نمائندہ اور نمایاں خدمت گار کے طور پر سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ مولانا موصوف کی علمی کاوشیں، تدریسی وابستگی، اور ادبِ اسلامی میں بے نقط تصانیف جیسے کارنامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ محض ایک مدرس یا خطیب نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت عالمِ دین ہیں۔ اُن کی زندگی میں علم و عمل، ادب و اخلاق، تواضع و وقار اور دینی غیرت کی حسین آمیزش ہے۔ خاص طور پر اُن کی تصانیف "ہمدم مکرم" اور "ہمدم عمر" نہ صرف اردو نثر کا نادر نمونہ ہیں بلکہ اسلامی سیرت نگاری میں بھی ایک نیا باب ہیں۔ ایسے علماء کی زندگیوں سے روشنی لینا وقت کی ضرورت ہے تاکہ ہماری نئی نسلیں شخصیت سازی، علمی محنت، اور دینی وفا شعاری کے اصل معانی سے واقف ہو سکیں۔ بلاشبہ مولانا موصوف کا یہ علمی و فکری سفر ابھی جاری ہے، اور آنے والے وقت میں ان سے مزید گراں قدر خدمات کی امید کی جا سکتی ہے۔

نوٹ: یہ دونوں غیر منقوط کتابیں حاصل کرنے کے لیے نیچے دیے گئے نمبرز پر رابطہ کریں:

3075813350

0544277828


شخصیات

(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter