یہاں دو مسئلے الگ الگ ہیں، بسا اوقات دونوں میں خلط ملط ہونے کے باعث غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں:
- ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا جمعہ کے دن حلال کاروبار کرنا جائز ہے یا ناجائز۔
- اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کی مروجہ ہفتہ وار سرکاری وغیر سرکاری سطح پر عام تعطیل کا انتظامی نظم جمعہ کے دن طے کیا جائے یا اتوار کو یا کسی اور دن۔
جمعہ کے دن خرید و فروخت کا حکم
پہلے مسئلے کا جواب واضح ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے جمعہ یا کسی بھی دن حلال اور جائز کاروبار کرنے سے منع نہیں کیا، جب تک کہ کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم نہ آئے، چنانچہ جس طرح دوسرے دنوں میں شرعی احکام کو اپنے اپنے مقام پر بجا لاتے ہوئے کاروبار کرنا جائز ہے، اسی طرح جمعہ کے دن بھی جائز ہے۔
البتہ جہاں جمعہ کی نماز قائم ہوتی ہے، وہاں جمعہ کی نماز کی اذان ہونے پر خرید و فروخت، بلکہ ہر وہ چیز ممنوع ہو جاتی ہے، جو جمعہ کی نماز کی تیاری میں داخل نہ ہو اور وہ خطبہ اور جمعہ کی نماز کی حاضری میں مخل ہو۔ اور اس کا صحیح انتظام جب ہو سکتا ہے کہ جب بازار اور دکانیں بند کر دی جائیں، کیونکہ اس طرح کرنے میں خریداری خودبخود بند ہو جائے گی، وجہ اس کی یہ ہے کہ گاہکوں اور خریداروں کا تو کوئی حد شمار نہیں ہوتا، ان سب کے روکنے کا انتظام آسان نہیں، لیکن فروخت کرنے والے دکاندار افراد خریداروں کے مقابلے میں محدود ہوتے ہیں، ان کو اشیا کے فروخت سے روک دیا جائے تو باقی سب خریداری سے خود رک جائیں گے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورہ جمعہ میں ’’وذرو البيع‘‘ یعنی ’’تم فروخت چھوڑ دو‘‘ میں صرف بیع چھوڑ دینے کے حکم پر اکتفا فرمایا، تاکہ فروخت کرنے والوں کے کاروبار بند کرنے سے خریداری خودبخود بند ہو جائے۔
پھر جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو جائیں، اس کے بعد پھر سے کاروباری مشاغل کو اللہ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:
یآیہا الذین آمنوا اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الیٰ ذکر اللہ وذروا البیع ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔ فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ واذکروا اللہ کثیرا لعلکم تفلحون۔ (سورۃ الجمعۃ الآیۃ ۹)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب ندا دی جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن کی تو تم سعی کرو اللہ کے ذکر کی طرف اور چھوڑ دو بیع کو، یہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم رکھتے ہو علم، پھر جب پوری ہو چکے نماز تو تم منتشر ہو جاؤ زمین میں اور تلاش کر و اللہ کے فضل (یعنی روزی) کو اور ذکر کرو اللہ کا کثرت سے، تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کی طرف سے انفرادی طور پر جمعہ کے دن اذان سے نمازِ جمعہ ختم ہونے تک خرید و فروخت ممنوع نہیں ہے۔
ہفتہ وار سرکاری و غیر سرکاری عام تعطیل
جہاں تک دوسرے مسئلہ کا تعلق ہے کہ آج کل کی مروجہ ہفتہ وار سرکاری و غیر سرکاری سطح پر عام تعطیل کا انتظامی نظم جمعہ کے دن طے کیا جائے یا اتوار کو یا کسی اور دن؟
تو اگرچہ شریعت نے ہفتہ وار چھٹی کو فرض اور واجب وغیرہ قرار نہیں دیا کہ اگر کوئی ہفتہ وار چھٹی نہ کرے تو وہ گناہ گار ہو، اس لیے فی نفسہ شرعاً ہفتہ کے تمام دنوں میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنا جائز ہے۔
اور اسی وجہ سے اگر کسی ملک یا علاقہ میں ہفتہ میں سے کسی ایک دن بھی چھٹی کا نظم یا قانون نہ ہو تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، لیکن اگر ہفتہ وار چھٹی کا نظم بنایا جائے اور کسی وجہ سے اس کی ضرورت سمجھی جائے تو مسلمانوں کو ہفتہ وار عام تعطیل اور چھٹی کا جمعہ کے دن کر نا چند وجوہات کی بنا پر مستحب اور افضل ہے۔ اور وہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) جمعہ کا دن اس امت کے لیے خاص عبادت کا دن ہے، جو اس امت کو بطورِ خاص عطا ہوا ہے (جیسا کہ پہلے تفصیلاً ذکر ہو چکا ہے) لہٰذا اس دن میں دنیاوی مشغولیات کم کر کے عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کرنا چاہیے اور اس دن میں ہفتہ وار تعطیل اور چھوٹی ہونے سے اس مقصد کو بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
(۲) جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جانے کے احادیث میں بہت فضائل آئے ہیں اور ان فضائل کو حاصل کرنے کے لیے پہلے زمانے میں بہت سے حضرات صبح سویرے جامع مسجد پہنچ جایا کرتے تھے۔ اور احادیث میں بیان شدہ جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جانے کی فضیلت کا پہلا درجہ صبح سورج طلوع ہونے پر شروع ہو جاتا ہے اور اس فضلیت کو حاصل کرنا کم از کم مستحب ہے۔ ظاہر ہے کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے بھی صبح سے فراغت کی ضرورت ہو گی اور اس غرض کے لیے دوسرے مشاغل سے فارغ ہونا اور کاروباری چھٹی کرنا بھی مستحب ہوگا۔
(۳) جمعہ کے دن ایک گھڑی خاص قبولیت کی ہوتی ہے جس میں دعا قبول کی جاتی ہے اور یہ گھڑی کس وقت ہوتی ہے؟ اس بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں، اگرچہ بعض حضرات کسی قول کو اور بعض نے دوسرے کسی قول کو ترجیح دی ہے، لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ تمام اقوال صبح سے لیکر سورج غروب ہونے کے وقت کے درمیان دائر ہیں۔ لہٰذا اس قبولیت کی گھڑی کو حاصل کرنے کے لیے بھی جمعہ کے دن کو دنیاوی مشغولیات سے فارغ رکھنے کی ضرورت ہوگی اور جمعہ کے دن تعطیل سے اس پر بآسانی عمل ہو سکتا ہے۔
(۴) جمعہ کے دن ہفتہ وار عام تعطیل ہونے میں اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اظہار ہے، وہ اس طرح سے کہ دوسرے مذاہب والے اپنے خاص عبادت و تعظیم والے دنوں میں ہفتہ وار عام تعطیل کر کے اس دن کی شرافت و کرامت کا اظہار کرتے ہیں، جب مسلمان جمعہ کے دن یہ عمل کریں گے تو دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں جمعہ کے اس عظمت و فضیلت والے اسلامی دن کی کرامت و شرافت کا اظہار ہو گا اور جمعہ کے دن کے عبادت و فضیلت والا دن ہونے کی عملی طور پر تبلیغ ہوگی۔
(۵) بعض احادیث میں جمعہ کے دن کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن قرار دیا گیا ہے، لہٰذا عید کے دن جس طرح چھٹی کو ترجیح دی جاتی ہے، اسی طرح یہ دن بھی چھٹی کا مستحق ہے۔ کئی احادیث میں جمعہ کے دن کے بارے میں عید کا دن ہونے کا ذکر آیا ہے۔
(۶) بطورِ خاص ہمارے ملک پاکستان کے آئین کا تقاضا یہ ہے کہ ہفتہ یا اتوار کے بجائے جمعہ کے دن کی عام تعطیل کا نظم ہونا چاہیے، کیونکہ پاکستان کے آئین میں یہ صاف ذکر ہے کہ: مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق، جو قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں (’’تصورِ پاکستان بانیانِ پاکستان کی نظر میں‘‘ ۱۵۳)۔ اور ظاہر ہے کہ قرآن و سنت سے ثابت شدہ دلائل کا تقاضا ہفتہ یا اتوار کے دن چھٹی کا نہیں، بلکہ جمعہ کے دن چھٹی کا ہے۔
(۷) تجارت اور کاروبار میں مشغولی کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں مبتلا ہو کر انسان عموماً غافل ہو جاتا ہے اور مال و پیسہ کی کشش اس کو اپنے اندر ایسی منہمک کر دیتی ہے کہ اس کی وجہ سے جلدی جان نہیں چھوٹتی۔ تو اگر جمعہ کے دن کاروبار میں مشغولی رکھی جائے گی تو اس سے خطرہ ہے کہ جمعہ کی نماز تک یہ مشغولی جاری رہے اور جمعہ کی نماز کی سعی اور جمعہ کی نماز کے خطبہ کے حصول میں بھی خلل آئے (جیسا کہ آجکل مشاہدہ ہے) اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ شروع دن ہی سے دنیاوی مشغولیات موقوف رکھی جائیں اور اس دن تعطیل کی جائے۔
(۸) اسلاف اور متقدمین سے بھی جمعہ کے دن کی چھٹی کا معمول ثابت ہے اور ان کی اتباع مستحب ہے۔ ان وجوہات کی بناء پر جمعہ کے دن چھٹی کرنا اور عبادت میں مشغول ہونا مستحب ہے۔ لیکن اگر کسی ملک و علاقہ میں اتوار کے روز چھٹی کا نظم ہو اور اس کی وجہ سے کسی کو اتوار کے دن چھٹی کرنی پڑے اور اس کی نیت اتوار کے دن کی تعظیم کی نہ ہو، بلکہ انتظامی مجبوری اور ضرورت ہو، تو ایسا شخص مجبور ہے اور وہ گناہ گار بھی نہیں ہے۔
اتوار کے دن بین الاقوامی کاروبار کا معاملہ
آج کل اتوار کے دن چھٹی کرنے کے خواہش مند حضرات میں سے بعض لوگ ملکی سطح پر اتوار کے دن چھٹی کرنے پر اس لیے زور دیتے ہیں کہ اس دن عالمی منڈیاں خصوصاً مغربی ممالک کی مارکیٹیں بند رہتی ہیں، اس لیے بین الاقوامی سطح پر ان کے ساتھ اس دن کاروبار نہیں کیا جا سکتا اور اس کے برعکس جمعہ کے دن عالمی منڈیوں اور مارکیٹوں میں کاروبار جاری رہتا ہے، اس لیے اتوار کے بجائے جمعہ کے دن چھٹی کرنے میں ملک کو معاشی نقصان ہوتا ہے اور جمعہ کے بجائے اتوار کے دن چھٹی کرنے میں اس نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ
- اولاً تو ایک مسلمان اگر جمعہ کے دن کی چھٹی جمعہ کے دن عبادت اور اطاعت میں مشغولی کے باعث کرے اور اس دن میں عبادت و دعا وغیرہ میں مشغولی اختیار کرے تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کو اتنا رزق عطا فرمائیں گے، جس کا گمان بھی نہیں ہو سکتا۔
- دوسرے، مغربی ممالک سے سارا دن گزرنے کے بعد رابطہ ہوتا ہے، کیونکہ جب ہمارے ہاں صبح ہوتی ہے تو وہاں شام ہو جاتی ہے، اس لیے چھٹی کے اعتبار سے اتوار یا جمعہ دونوں دن برابر ہیں، لہٰذا یہ شبہ زیادہ وزنی معلوم نہیں ہوتا۔
- تیسرے، مسلمانوں کے دنیا میں بہت سے ممالک ہیں (اور بہت سے ملکوں میں جمعہ کے دن عام تعطیل بھی ہوتی ہے) اگر سب مسلمان باہم مل کر تجارتی و کاروباری معاملات چلائیں اور جمعہ کے دن چھٹی کریں اور اتوار کو کاروبار کریں تو مسلمان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے غیر مسلموں سے زیادہ ترقی کر سکتے ہیں۔
جمعہ کا دن خرافات اور فضولیات کا نہیں
بعض لوگ جمعہ کے دن چھٹی ہونے میں یہ عذر پیش کیا کرتے ہیں کہ لوگ چھٹی کی وجہ سے اس دن کئی خرافات میں مبتلا ہو کر اس دن کی ناقدری کرتے ہیں، مگر یہ عذر تو ایسا ہے کہ جیسے کسی مسجد میں اہلِ علاقہ نماز پڑھنے میں کوتاہی کریں، مسجد کو عبادت سے آباد نہ کریں، تو کوئی ’’سمجھدار‘‘ اس کا یہ حل تجویز کرے کہ مسجد کو گرا دو یا اس میں دکانیں بنا دو۔ ظاہر ہے کہ لوگوں کو مسجد آباد کرنے پر راغب کرنا چاہیے، نہ کہ مسجد کی بندش کرنی چاہیے۔ اس لیے مسلمانوں کو اس طرزِ فکر سے باز آنا چاہیے، جمعہ کا دن خرافات اور فضولیات کا دن نہیں، بلکہ عبادت و اطاعت کا دن ہے، جو اس امت کو بطورِ خاص عطا ہوا ہے، نہ یہ کہ الٹا جمعہ کے دن کی ناقدری کریں۔
خلاصہ یہ کہ فی نفسہ جمعہ کے دن کاروبار کرنا گناہ نہیں، لیکن اگر ہفتہ وار تعطیل اور چھٹی کرنی ہو تو اس کے لیے جمعہ کا دن منتخب کرنا مستحب اور افضل ہے، تاکہ مسلمان اس دن زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے اس دن کے فضائل سے فائدہ اُٹھا سکیں اور اس دن کے عظمت و فضیلت والا ہونے کا اظہار کر سکیں، نہ یہ کہ اس وجہ سے کہ کاروباری مشاغل سے فارغ رہ کر اس دن کو فضولیات و خرافات اور منکرات و گناہوں کی نذر کریں۔
جمعہ کے دن کی چھٹی اہلِ علم کی نظر میں
بہت سے اہلِ علم حضرات نے جمعہ کے دن چھٹی کی تحسین و تصویب فرمائی ہے۔
چنانچہ کفایت المفتی میں ہے کہ:
اگر وہ جمعہ کی اذان سے پہلے کاروبار کو ناجائز نہ سمجھتے ہوں، بلکہ باوجود جائز اور حلال سمجھنے کے محض انتظام، ضروریاتِ نماز کے خیال سے دکانیں بند رکھیں، کیونکہ غسل وغیرہ کے لیے اور نمازِ جمعہ میں تبکیر یعنی جلدی سے حاضری کے واسطے اس صورت میں آسانی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ موجبِ اجر ہے۔ (كفایت المفتی مبوب جلد ۳ صفحہ ۲۸۵)
اور فتاوی محمودیہ میں ہے کہ:
اتوار کے دن تعطیل کرنے میں تشبہ ہے غیروں کے ساتھ، دینی مدرسہ میں اس کو ہرگز اختیار نہ کیا جائے۔ (فتاوی محمودیہ مبوب جلد ۸ صفحہ ۳۶۳، باب صلاة الجمعۃ)
اور حیاتِ ترمذی میں ہے کہ:
جمعہ کے دن جامع مسجد میں بہت جلدی جانا اور صبح سے ہی وہاں پہنچنا شرعاً مستحب اور قربت ہے۔ حدیث شریف میں اس کا ثواب بتلا کر اس کی ترغیب اور فضیلت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے آدابِ جمعہ میں فرمایا ہے: الرابع: البکور إلی الجامع ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویدخل وقت البکور بطلوع الفجر وفضل البکور عظیم۔ (شرح الاحياء ج ۳ ص ۲۴۵)
جب صبح صادق سے ہی جامع مسجد میں جانا باعثِ ثواب اور موجبِ قربت ہے تو پھر جمعہ کے دن کاروبار بند کر کے ہی یہ فضیلت حاصل کی جا سکتی ہے اور عام تعطیل کر کے ہی تبكيرِ مستحب اور سویرے جانے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے امام غزالی رحمہ اللہ نے ایسے تمام اشغال اور کاموں سے فارغ رہنے کو آدابِ جمعہ میں شمار فرمایا ہے، جن میں مشغول ہو کر جمعہ میں سویرے جانے کی فضیلت حاصل کرنے میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ویفرغ قلبہ من الأشعال التی تمنعہ من البکور إلی الجمعۃ۔ (شرح الاحياء ج ٣ ص ۲۷۰)
تبكيرِ مستحب کے بھی اگرچہ درجات ہیں اور ہر درجے کا علیحدہ ثواب وارد ہوا ہے، مگر افضل درجہ صبح کے وقت جامع مسجد جانا ہی ہے اور یہ درجہ کاروبار اور اشغال دنیا میں مصروفیت کے ساتھ حاصل نہیں ہو سکتا، اس لیے جمعہ کے دن صبح سے ہی تعطیل عام اور کاروبار بند کرنا مستحب ہوگا۔
البتہ اذانِ جمعہ کے بعد کاروبار بند کرنا لازم اور واجب ہوگا، جس کا آیت جمعہ میں ذکر ہے اور شریعت کا مشہور حکم ہے، مگر اذانِ جمعہ کے بعد کاروبار بند ہونے کے وجوبی حکم سے یہ سمجھنا درست نہیں کہ اذان سے قبل کاروبار کرنا واجب ہے اور یہ کہ کاروبار بند کرنا مستحب بھی نہیں ہے۔ ایسا سمجھنا حدیث تبكير الی الجمعۃ (یعنی جمعہ کے دن جلدی اور سویرے جانے) کے خلاف ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اذانِ جمعہ کے بعد تو کاروبار بند کرنا واجب ہے، اور اذانِ جمعہ سے قبل اگرچہ وجوبی حکم نہیں ہے لیکن اس کا استحبابی حکم اوپر ثابت کر دیا گیا ہے، اس لیے اگر اذانِ جمعہ کے قبل استحبابی حکم سمجھ کر تعطیل کی جائیگی تو درست ہے۔
تحریر بالا سے واضح ہو گیا ہو گا کہ اذانِ جمعہ سے قبل کی تعطیل بدعت اور گناہ اور شریعت کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مستحب اور کارِ ثواب ہے، گو واجب بھی نہیں ہے، واجب صرف اذانِ جمعہ کے بعد نمازِ جمعہ سے فارغ ہونے تک ہے۔ فقط واللہ اعلم، سید عبدالشکور ترمذی عفی عنہ، ساہیوال ضلع سرگودھا، ۱۸ صفر المظفر ۱۳۹۹ھ (حیاتِ ترمذی صفحہ ۴۰۷ و صفحہ ۴۰۸)
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے عربی میں ایک سوال کے جواب میں جمعہ کے دن تدریس سے تعطیل کو مستحب اور سنت مسلوکہ للسلف الصالحين قرار دیا ہے اور اس کی وجہ یہ فرمائی ہے ’’لتفردہم فی ہذا الیوم للعبادۃ ولکونہ یوم عیدنا‘‘ (ملاحظہ ہو: امداد المفتيين صفحہ ۴۰۶،۴۰۵)
اور ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں ہے کہ:
چھٹی تو جمعہ کے دن ہی کی ہونی چاہیے (اگر ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی ضروری ہو)، رہا یہ کہ لوگ اس مقدس دن کو لغویات میں گزارتے ہیں، اس کے لیے ان لغویات پر پابندی ہونی چاہیے اور جو لوگ ان لغویات میں مبتلا ہو کر جمعہ کی نماز میں کوتاہی کرتے ہیں، اُن کو اپنے دین و ایمان کی خیر منانی چاہیے (آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ۸ صفحہ ۴۱۴)
اور انعام الباری میں ہے کہ:
اگر ہفتے میں کسی بھی دن چھٹی کرنی ہے تو جمعہ کا دن زیادہ مستحق ہے، اس لیے کہ چھٹی کی وجہ سے اس دن کو زیادہ سے زیادہ عبادت میں خرچ کرنے کا موقع ہوگا۔ اگر اس دن کو کام کا دن بنایا تو پھر عبادت کا موقع کم ہوگا، لہٰذا مقصد فوت ہو جائے گا۔ جمعہ کے علاوہ اتوار کو چھٹی کرنے میں دوسری خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں ایک غیر قوم کی نقالی کا شبہ ہے۔ (انعام الباری جلد ۴ صفحہ ۴۱)
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو جمعہ کے دن کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(المستفاد، جمعہ مبارکہ کے فضائل و احکام، مؤلف مولانا رضوان صاحب، ص: ۳۱۲ - ۳۲۲ / ط: ادارہ غفران، راولپنڈی)