پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC)
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) کی بنیاد وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی نے مارچ 1956ء میں رکھی تھی۔ اس کا قیام پاکستان کے ایٹمی توانائی کے قانون (Energy Council Act) کے تحت عمل میں آیا، جس کا مقصد ملک میں جوہری توانائی کے پرامن استعمال، سائنسی تحقیق، اور صنعتی ترقی کو فروغ دینا تھا۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) ایک خودمختار وفاقی ادارہ ہے۔ اس ادارے کا بنیادی ہدف قومی ترقی میں جوہری ٹیکنالوجی کا کردار متعین کرنا تھا۔ چنانچہ PAEC نے نہ صرف توانائی کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں بلکہ طب، زراعت، صنعت، اور تعلیم میں بھی جوہری ٹیکنالوجی کے ذریعے انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں۔
یہ ادارہ Atoms for Peace پروگرام کے تحت امریکہ کے ساتھ شراکت داری میں قائم ہوا تھا، جس کا مقصد جوہری توانائی کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔ PAEC نے بعد میں PINSTECH جیسے تحقیقی ادارے قائم کیے اور ملک کے پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹ KANUPP کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ابتدائی طور پر PAEC نے غیر عسکری مقاصد کے لیے جوہری تحقیق کا آغاز کیا، جس میں خوراک کی شعاعی تحفظ، کینسر کے علاج کے لیے نیوکلیئر میڈیسن، اور زرعی تحقیق شامل تھی۔ 1960ء کی دہائی میں ادارے نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (PINSTECH) قائم کیا، جو آج بھی جوہری تحقیق کا مرکز ہے۔ PAEC نے ملک کے پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹ، KANUPP، کی تعمیر میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔
1974ء میں بھارت کے جوہری دھماکے کے بعد پاکستان نے دفاعی جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیرِاعظم جنہوں نے میں بھارت کے جوہری تجربے کے بعد پاکستان کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی، انہوں نے ’’اسلامی بم‘‘ کے تصور کو فروغ دیا اور PAEC کو جوہری صلاحیت حاصل کرنے کا ہدف دیا۔ PAEC نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا اور 28 مئی 1998ء کو چاغی کے پہاڑوں میں کامیاب جوہری تجربات کیے، جنہیں ’’یومِ تکبیر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان تجربات نے پاکستان کو دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بنا دیا۔
PAEC آج بھی ملک کے چھ نیوکلیئر پاور پلانٹس چلا رہا ہے، جن میں چشمہ نیوکلیئر کمپلیکس کے یونٹس شامل ہیں۔ چشمہ یونٹ-5 کی تعمیر جاری ہے، جو 1200 میگاواٹ بجلی فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ PAEC نے کئی نیوکلیئر میڈیسن سینٹرز قائم کیے ہیں جو جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں، جیسے کہ سائبر نائف ریڈیو سرجری۔ PAEC کی خدمات میں زرعی تحقیق بھی شامل ہے، جیسے فیصل آباد میں نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ فار ایگریکلچر اینڈ بائیولوجی (NIAB)، جو بیماریوں سے مزاحم فصلیں تیار کر رہا ہے۔ PAEC کا عزم ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کو امن، ترقی، اور خوشحالی کے لیے استعمال کیا جائے، اور یہ ادارہ قومی سطح پر سائنسی تعلیم و تحقیق کو فروغ دینے میں بھی پیش پیش ہے۔
ابتدائی طور پر اس ادارے کے پہلے چیئرمین نذیر احمد تھے، جو ایک تجرباتی طبیعیات دان تھے۔ ان کے ساتھ دیگر ممتاز سائنسدانوں جیسے سلیم الزمان صدیقی (نامور کیمیا دان) اور رضی الدین صدیقی (ریاضیاتی طبیعیات دان) نے تحقیقاتی شعبوں کی قیادت سنبھالی۔ نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے ابتدائی دور میں PAEC کے ساتھ کام کیا اور نوجوان سائنسدانوں کی تربیت میں مدد دی۔ منیر احمد خان PAEC کے تیسرے چیئرمین تھے جنہیں بھٹو صاحب نے مقرر کیا، انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری، پلوٹونیم ری پروسیسنگ، اور چاغی کے تجربات کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر اشفاق احمد PAEC کے چیئرمین رہے اور جوہری تعلیم و تحقیق کے فروغ میں نمایاں خدمات انجام دیں، انہوں نے CERN جیسے بین الاقوامی اداروں سے روابط قائم کیے۔ محمد نعیم PAEC کے سابق چیئرمین جنہیں نشانِ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، انہوں نے نیوکلیئر میڈیسن اور پاور پلانٹس کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر انعام الرحمان اور ڈاکٹر قمر محبوب PAEC کے سائنسدان جنہیں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، ان کی خدمات نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال میں نمایاں رہی۔
ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی خدمات
ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) سے گہرا اور دیرینہ تعلق رہا ہے۔ 1962ء میں انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) میں شمولیت اختیار کی اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ حاصل کی۔ 1966ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے تجرباتی نیوکلیئر فزکس میں DPhil مکمل کرنے کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے منسلک ہو گئے۔ پھر وہ وہ جلد ہی پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (PINSTECH) سے منسلک ہو گئے جہاں انہوں نے نیوٹران فزکس اور گاما اسپیکٹروسکوپی جیسے شعبوں میں تحقیق کی۔ 1974ء میں ڈاکٹر عبدالسلام کے مشورے پر اٹامک کمیشن نے ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا جس کا نام ’’فاسٹ نیوٹران فزکس گروپ‘‘ (FNPG) رکھا گیا، اس کی سربراہی ڈاکٹر ثمر کو سونپی گئی، اس گروپ میں انہوں نے نیوٹران توانائی کی تقسیم، امپلوشن فزکس، اور ایٹمی دھماکوں سے متعلق اہم خدمات سرانجام دیں۔ بعد میں انہیں اٹامک کمیشن کے ’’ڈائیگناسٹک گروپ‘‘ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے ایٹمی تجربات کے لیے کاؤنٹ ڈاؤن سسٹمز، ڈیٹیکشن اور میئرمنٹ آلات کی تیاری کی نگرانی کی۔ 1983ء میں ہونے والے پاکستان کے پہلے کولڈ ٹیسٹ (Kirana-I) اور 1998ء کے چاغی کے ایٹمی تجربات (Chagai-I اور Chagai-II) میں ان کی قیادت اور تکنیکی مہارت بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔ 1995ء سے 2000ء تک وہ اٹامک کمیشن کے ممبر ٹیکنیکل کے طور پر کام کرتے رہے، اس دوران انہوں نے کمیشن کے مختلف تکنیکی منصوبوں کی نگرانی کی جن میں ایٹمی میڈیسن، زراعت اور ایندھن کی ری پروسیسنگ شامل ہیں۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اٹامک کمیشن کے تحت ایک خفیہ ادارے ’’ڈائریکٹوریٹ فار ٹیکنیکل ڈیویلپمنٹ‘‘ (DTD) کے بھی سربراہ رہے، جہاں وہ ایٹمی ہتھیاروں کے لیے بارودی لینز اور ٹریگرنگ میکنزم کے ڈیزائن پر کام کرتے رہے۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان ریسرچ لیبارٹریز کہوٹہ (KRL)
خان ریسرچ لیبارٹریز (KRL)، جسے پہلے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کہا جاتا تھا، 31 جولائی 1976ء کو قائم کی گئی۔ اس ادارے کی بنیاد پاکستان کے ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے رکھی، جنہوں نے ہالینڈ اور بیلجیئم سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے 1981ء میں اس ادارے کا نام تبدیل کر کے ’’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘‘ رکھ دیا۔ KRL کا بنیادی مقصد یورینیم کی افزودگی کے ذریعے پاکستان کو جوہری صلاحیت فراہم کرنا تھا۔ یہ ادارہ کہوٹہ کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے، جو اس کے خفیہ اور حساس نوعیت کے کام کے لیے موزوں ترین مقام تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک ماہر ٹیم تشکیل دی جس میں فوجی اور سویلین انجینئرز شامل تھے۔ اس ٹیم نے نہایت قلیل وقت میں یورینیم افزودگی کا عمل مکمل کیا، جو پاکستان کے جوہری پروگرام کی بنیاد بنا۔
KRL نے نہ صرف ایٹمی بم کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ میزائل ٹیکنالوجی میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ غوری میزائل، جو ایک ہزار کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسی ادارے میں تیار کیا گیا۔ اس کے علاوہ KRL نے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، اور دیگر دفاعی آلات بھی تیار کیے، جو پاک فوج کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ KRL کی خدمات نے پاکستان کو ایک مضبوط دفاعی اور سائنسی بنیاد فراہم کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کی خدمات کے اعتراف میں نشانِ امتیاز اور ہلالِ امتیاز جیسے اعلیٰ سول اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی قیادت میں KRL نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں جو کردار ادا کیا، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
ادارے نے صنعتی شعبے میں بھی خدمات انجام دیں، جیسے ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کے لیے آلات کی تیاری۔ KRL نے اپنے ملازمین کے لیے ہسپتال، رہائشی کالونی، سکول، اور کھیلوں کی سہولیات بھی فراہم کیں۔ اس ادارے نے کرکٹ کے شعبے میں بھی نامور کھلاڑی پیدا کیے، جن میں سعید انور، شعیب اختر، اور مصباح الحق شامل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان KRL کے بانی اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے روحِ رواں، انہوں نے یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی حاصل کی اور پاکستان کو جوہری طاقت بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو انہوں نے ڈاکٹر خان کو دعوت دی کہ وہ پاکستان آ کر جوہری پروگرام میں حصہ لیں، ان کی سیاسی حمایت نے KRL کے قیام کو ممکن بنایا۔ جنرل ضیاء الحق صدر پاکستان جنہوں نے KRL کا نام ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھا اور ادارے کو مکمل سیاسی و عسکری حمایت فراہم کی۔ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر خان فوجی انجینئر جنہوں نے KRL کی تعمیر اور انتظامی امور میں ڈاکٹر خان کے ساتھ مل کر کام کیا، ان کی ٹیم نے تمام کام وقت مقررہ ہدف سے پہلے مکمل کیا۔ ڈاکٹر فخر الحسن ہاشمی KRL میں حساس مشینوں کی تیاری کے ذمہ دار، میٹالرجی اور فزکس کے ماہر، جنہیں بعد میں ڈائریکٹر جنرل بنایا گیا۔ ڈاکٹر جاوید ارشد مرزا، ڈاکٹر اشرف عطا، منصور احمد، یہ تینوں سائنسدان برطانیہ اور امریکہ سے تعلیم یافتہ تھے اور KRL کے مختلف شعبوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بریگیڈیئر شیخ محمد جعفر، کرنل مجید، کرنل رشید علی قاضی فوجی افسران جنہوں نے الیکٹریکل انجینئرنگ، مشین سازی، اور دفاعی آلات کی تیاری میں اہم خدمات انجام دیں۔ میاں محمد نواز شریف وزیرِاعظم جن کے دورِ حکومت میں 28 مئی 1998ء کو چاغی میں کامیاب جوہری تجربات کیے گئے، جنہوں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو مکمل اختیار دیا تھا۔
جوہری بم سازی کا بانی کون ہے؟
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) اپنے قیام 1956ء سے ہی جوہری تحقیق اور ترقی میں شامل رہا تھا، اور 1970ء کی دہائی کے اوائل سے (خاص طور پر 1974ء میں بھارت کے جوہری تجربے کے بعد) ایک جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو فعال طور پر آگے بڑھایا، اصل ہتھیاروں کی تیاری ان تجربات کے ذریعے ظاہر ہوئی۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) نے سب سے پہلے پاکستان کا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام شروع کیا، اس معنی میں کہ اسے ابتدائی طور پر جوہری ٹیکنالوجی کو پرامن اور بالآخر فوجی مقاصد دونوں کے لیے تلاش کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر جوہری توانائی کے پرامن استعمال پر توجہ دی گئی تھی، لیکن ایک ممکنہ ہتھیاروں کے پروگرام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ 1974ء میں بھارت کے جوہری تجربے کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے چیئرمین منیر احمد خان کی قیادت میں PAEC کو واضح طور پر ایک جوہری ہتھیار تیار کرنے کی ہدایت کی۔ اس کا کوڈ نام پراجیکٹ-706 تھا۔
خان ریسرچ لیبارٹریز (KRL) بعد میں 1976ء میں قائم کی گئی، جسے ابتدائی طور پر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز (ERL) کا نام دیا گیا تھا۔ اسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں تشکیل دیا گیا تھا اور اس ادارے کی توجہ خاص طور پر جوہری بم کی تیاری کے لیے یورینیم افزودگی کے راستے پر مرکوز تھی۔ PAEC کی بنسبت KRL اپنی سرگرمیوں میں بڑی حد تک آزاد تھا۔ ڈاکٹر اے کیو خان کی گیس سنٹرفیوج ٹیکنالوجی میں مہارت KRL کی ترقی کے لیے انتہائی اہم تھی۔ 1981ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان کی خدمات کی ستائش کے طور پر اس وقت کے سربراہ مملکت صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے اس ادارے کا نام تبدیل کر کے ’’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘‘ رکھ دیا۔
خلاصہ یہ کہ PAEC وہ وسیع ادارہ تھا جس نے سیاسی ہدایت کے بعد وسیع جوہری پروگرام شروع کیا، جس میں جوہری ہتھیاروں کا حصول بھی شامل تھا۔ KRL پھر اس ہتھیاروں کے پروگرام کا ایک مخصوص اور اہم جزو یعنی یورینیم افزودگی کے حوالے سے انتہائی خفیہ ادارے کے طور پر وجود میں آیا۔ اگرچہ دونوں کے درمیان اکثر کشیدگی کے ساتھ ساتھ ترقی کے علیحدہ راستے بتائے جاتے ہیں، لیکن PAEC حکومت کی براہ راست ہدایات کے تحت جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں شامل ہونے والا پہلا ادارہ تھا۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان کے پاس 1987ء تک ہتھیار کے لیے کافی مواد موجود تھا، اور 1980ء کی دہائی میں مبینہ طور پر کولڈ ٹیسٹ کیے گئے تھے۔ تاہم دونوں اداروں کی جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کا حتمی عوامی مظاہرہ مئی 1998ء میں ہوا جب حکومتِ پاکستان کی ہدایت پر 28 مئی کو اٹامک کمیشن نے تجربات کیے اور 30 مئی کو خان لیبارٹریز کہوٹہ نے۔