ڈاکٹر عبد القدیر خان: ایک تعارف
ایٹم بم کے خالق اور معروف پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان ہندوستان کے شہر بھوپال میں (یکم اپریل 1936ء کو) ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے پندرہ برس تک یورپ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس اور بیلجیم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان شادی سے پہلے تک جرمنی میں ہی مقیم تھے۔ آپ کی زوجہ کا تعلق ہالینڈ سے تھا، لہٰذا انہوں نے بھی ہالینڈ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہالینڈ میں انہوں نے ڈیلفٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ڈیلفٹ یونیورسٹی میں ہالینڈ کے مقامی طلبہ کو بھی ڈگری حاصل کرنے کے لیے کئی سال تک تحقیق اور مشکل ترین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مگر ڈاکٹر عبد القدیر نے یہاں بھی اپنی بے مثال ذہانت کا لوہا منوایا اور 80 فیصد سے زیادہ نمبر حاصل کر کے ماسٹرز آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور ریکارڈ قائم کر دیا۔ بعد ازاں وہ کچھ عرصہ مشہور پروفیسر برگزر کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کرتے رہے۔ ان کی صحبت میں رہ کر آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید جلا ملی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ بھی دائر کیا۔ لیکن ڈاکٹر عبد القدیر خان کی خوش قسمتی تھی کہ جب ہالینڈ، بیلجیم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ دائر کیا گیا ہے وہ تو عام کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالتِ عالیہ نے ان کو باعزت بری کر دیا۔
آپ 31 مئی 1976ء کو پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر پاکستان تشریف لائے اور ’’انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز‘‘ (ERL) کے نام سے پاکستانی ایٹمی پروگرام پر کام شروع کیا۔ بعد ازاں یکم مئی 1981ء کو اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے تبدیل کر کے ’’ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘‘ (KRL) رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ایٹمی طاقت بننے کی کہانی ڈاکٹر عبد القدیر خان کی زبانی کچھ یوں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جب میں دسمبر 1975ء میں پاکستان آیا تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ درخواست کی کہ میں واپس نہ جاؤں اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کام کروں۔ لہٰذا وطنِ عزیز سے اپنے جذبۂ محبت کی وجہ سے میں سب کچھ چھوڑ کر بیرون ملک سے پاکستان آیا۔ بہت ہی قلیل تنخواہ پر کام کیا اور اَن گنت مشکلات اور سازشوں کا سامنا کیا، لیکن ہمت نہیں ہاری۔ عزمِ مصمم کے ساتھ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے اور اس کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے پرعزم رہا اور اپنی ٹیم کے ساتھ نہایت کم عرصے میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔ میں نے اربوں ڈالرز کی ٹیکنالوجی پاکستان کو مفت فراہم کی۔ مجھے اٹامک انرجی کمیشن میں مشیر لگا دیا گیا اور میری تنخواہ تین ہزار روپے مقرر کی گئی جو مجھے چھ ماہ بعد ملی۔
مختلف طرح کی رکاوٹوں کی اطلاع وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ہوئی تو بھٹو صاحب جو اس وقت لاہور میں تھے انہوں نے مجھے فوراً بلا لیا۔ میں نے حقائق سے آگاہ کیا تو کہنے لگے مجھے دو دن دیں، میں حالات ٹھیک کر دوں گا۔ دو دن بعد مجھے جنرل امتیاز کا فون آیا کہ شام پانچ بجے آغا شاہی کے دفتر میں میٹنگ ہے۔ میں پہلی مرتبہ آغا شاہی، غلام اسحاق خان اور اے جی این قاضی سے ملا۔ دوسرے دن پھر بلایا اور یہ کہا کہ میرے مشوروں کو قبول کر لیا گیا ہے، کل سے یہ پروگرام علیحدہ ہو گا اور میں اس کا سربراہ ہوں گا۔
پھر ٹھیک دو دن بعد بھٹو صاحب نے میٹنگ بلا لی، اور خوش آمدید کہنے کے بعد مجھ سے کہا کہ بتاؤ کیا چاہیے؟ میں نے کہا کہ فوج کی کور آف انجینئرز کی ایک ٹیم چاہیے۔ جنرل ضیاء الحق جو اس وقت آرمی چیف تھے اور میٹنگ میں شریک تھے، انہوں نے کہا کہ وہ کام کر دیں گے۔ بعد ازاں جنرل ضیاء الحق نے جب اختیار سنبھالا تو اس کے تین ماہ بعد ہی انہوں نے ایٹمی پروگرام کو اول ترجیح دینا شروع کر دی۔ اور مہینے میں کم از کم دو مرتبہ ضرور وہ اور جنرل ضامن نقوی مجھ سے تفصیلی ملاقات کرتے تھے۔
1979ء کے وسط میں مغربی ممالک کو ہمارے پروگرام کی بھنک پڑ گئی، جنرل ضیاء اور غلام اسحاق خان صاحب کو بڑی فکر ہوئی کہ سامان کی درآمد پر پابندی سے ہمارا پروگرام بند نہ ہو جائے۔ لیکن اتنا ضرور تھا کہ 1981ء اواخر میں ہم نے بہت ترقی کر لی تھی۔ اور ہمیں یقین تھا کہ ہم بہت جلد کامیابی حاصل کر لیں گے۔
ڈاکٹر قدیر خان نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب کہوٹہ میں ریسرچ لیبارٹریز زیر تعمیر تھی تو وہ سہالہ میں پائلٹ پراجیکٹ چلا رہے تھے۔ انہی ایام کی بات ہے کہ اس وقت کے فرانسیسی فرسٹ سیکرٹری فوکو کہوٹہ کے ممنوعہ علاقے میں بغیر اجازت گھس آئے تھے، جس پر ان کی مار کٹائی ہوئی اور پتہ چلا کہ وہ سی آئی اے کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے تہران میں اپنے سی آئی اے باس کو لکھا کہ کہوٹہ میں کچھ عجیب و غریب ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں کہ 1983ء میں ہم نے کئی کولڈ ٹیسٹ کیے اور وہ بہت امید افزا تھے۔ 1984ء میں ہم نے مزید ٹیسٹ کیے اور ہمیں یقین ہو گیا کہ اب ہم کامیابی کے قریب ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے میرے سامنے آغا شاہی اور بعد میں صاحبزادہ یعقوب علی خان کو بھی سختی سے ہدایت کر دی تھی کہ وہ کسی بھی ملک سے ایٹمی پروگرام پر قطعی بات نہ کریں، بلکہ صاف کہہ دیں کہ یہ بات آپ ضیاء الحق کے ساتھ کریں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی پروگرام میرے مشورے پر ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی وفات کے بعد صدر ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان مغربی دباؤ رد نہ کرتے تو بھی ہمارا پروگرام ختم نہ ہو سکتا تھا۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان وہ مایہ ناز سائنسدان ہیں کہ جنہوں نے آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں ان تھک محنت اور لگن کے ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کر کے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کو بھی حیران کر دیا۔ 28 مئی 1998ء کو آپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلے میں حکومتِ وقت سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی۔ بالآخر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان نے پورے عالم کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔
یوں آپ پوری دنیا میں مقبولِ عام ہوئے۔ سعودی مفتی اعظم نے عبد القدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا۔ اور اس وقت سعودی حکمرانوں نے پاکستان کے لیے خام حالت میں تیل مفت فراہم کرنے کا فرمان جاری کیا۔ مغربی دنیا نے پروپیگنڈے کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا، جسے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بخوشی قبول کیا۔
پرویز مشرف دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رہے۔
ڈاکٹر عبد القدیر صاحب بہت اچھے لکھاری بھی ہیں، ادب سے آپ کو گہرا لگاؤ ہے، یہ ان کے اپنے ہی اشعار ہیں جن کو انہوں نے اپنے دکھ اور کرب کے اظہار کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس قدر مشکلیں جھلینے اور بعد ازاں مسلسل نظر بندی کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو گئے
؎
اس شہر باکمال میں اک ہمیں چھوڑ کر
ہر شخص بے مثال ہے ہر شخص لاجواب ہے
؎
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ قائد اعظم محمد جناح نے پاکستان بنایا، اور ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اس کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنایا۔ گویا ایک بنانے والا اور دوسرا استحکام بخشنے والا ہے۔
1993ء میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔ 14 اگست 1996ء میں صدر فاروق خان لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز ’’نشانِ امتیاز‘‘ دیا۔ جبکہ 1998ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ کا تمغہ بھی ان کو عطا کیا گیا۔ آپ نے 150 سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔
ڈاکٹر عبد القدیر خان ایٹمی سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی رحم دل اور انسانیت کا دم بھرنے والے انسان ہیں۔ اور انسانیت کی خدمت کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اسی جذبے کے تحت پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال کے نام سے بنیاد رکھی ہے۔ ان کا یہ جذبہ انتہائی قابلِ تحسین ہے کہ وہ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستانی قوم کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں صَرف کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کی زیر قیادت زندہ دلوں کے شہر لاہور میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے اور بادشاہی مسجد کے پہلو میں سات منزلہ عمارت پر مشتمل ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اس ہسپتال کا کل رقبہ 16 کنال پر محیط ہے۔ ہسپتال کی تعمیر کا تخمینہ تقریباً 100 کروڑ روپے ہے۔ تین سو بستروں پر مشتمل یہ ہسپتال غریب اور مستحق مریضوں کو کسی تفریق و امتیاز کے بغیر ہر طرح کے امراض کے علاج کے لیے بین الاقوامی معیار کی سہولیات ایک ہی چھت تلے فراہم کرے گا۔
https://www.facebook.com
ڈاکٹر عبد القدیر خان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
تعلیم و مہارت
ڈاکٹر افضل خان (ایٹمی سائنسدان) : ڈاکٹر صاحب کوالیفیکیشن کے اعتبار سے metallurgy engineer (دھاتوں کے انجینئر) تھے، تو ان کی جو پہلی ڈگری تھی بی ایس سائنس کی، وہ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے کی تھی۔ اس کے بعد پھر وہ 1950ء کی دہائی میں چلے گئے تھے جرمنی، وہاں وہ ٹیکنیکل ایجوکیشن لیتے رہے، میٹلرجی انجینئرنگ کی۔ اس کے بعد وہ چلے گئے ہالینڈ، وہاں ایم ایس کی انہوں نے میٹلرجی انجینئرنگ میں۔ پھر اس کے بعد وہ بلجیم چلے گئے، وہاں انہوں نے کیتھولک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی میٹلرجی انجینئرنگ میں۔ پھر اس کے بعد ان کو جاب مل گئی اسی یورینکو میں، جو یورینیم کمپنی تھی۔ تو ڈاکٹر صاحب اُن کےٹیکنیکلی رپورٹ رائٹر کہہ لیں، یا کنسلٹنٹ کہہ لیں، یا میٹلرجی کی جو پرابلمز آتی تھیں ان کو وہ حل کرتے تھے۔ تو ان (کمپنی والوں) کے پاس ان ملکوں میں، ہالینڈ، بیلجیم، جرمنی، فرانس، انگلینڈ، پانچ ملکوں میں کارخانے تھے یورینیم کے، تو جہاں بھی کوئی پرابلم آتی تھی تو اس کو وہ دیکھتے تھے۔ اچھا فرنچ جو ہے وہ انگلش نہیں سمجھتا، اور انگلش جو ہے وہ فرنچ نہیں سمجھتا، فرنچ جو ہے وہ جرمن نہیں سمجھتا، اور جرمن جو ہے وہ انگلش نہیں سمجھتا۔ تو ان کو بلا کر وہ ساری ڈرائنگز، ساری رپورٹس اور سارا ڈیٹا ٹرانسلیٹ کراتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب واحد آدمی تھے کیونکہ ان کو عبور تھا ان زبانوں کے اوپر۔
کام کا انداز
ڈاکٹر تسنیم شاہ (سابق سائنٹفک آفیسر خان ریسرچ لیبارٹری): کام کرنے کی خوبصورتی ان کی یہ تھی کہ جب لوگ راتوں کو کام کرتے تھے تو چار چار دن پانچ پانچ دن گھر نہیں جاتے تھے۔ اے کیو خان کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ تھی کہ وہ چھوٹے سے ٹیکنیشن کو کوئی کام دے کر جاتے، اور اسے کہتے کہ ان دو چیزوں کو جوڑنا ہے، جڑ نہیں رہیں، اس کی ویلڈنگ کرنی ہے، اس کو جوڑنا ہے، جب جوڑتے ہیں، اس کو چلاتے ہیں، گر جاتی ہے، جب جوڑتے ہیں، چلاتے ہیں، گر جاتی ہے۔ تو تم اس میں کوئی ایسی تکنیک لگا کر جوڑو، اور جونہی یہ کام مکمل ہو جائے مجھے فون کرنا، یہ نہیں دیکھنا کہ وہ ٹائم کون سا ہے، مجھے رنگ کرنا۔ تو وہ اے کیو خان کو فون کیا کرتے تھے۔ رات کو ڈھائی بجے گاڑی چلا کر، ایف ایٹ میں رہتے تھے اس زمانے میں، ایف ایٹ سے خود ڈرائیو کر کے، یہ پنڈی کے پاس ہمارے بریکس ہیں جہاں شروع میں کام ہوتا تھا، اس ٹیکنیشن کے پاس آتے، کافی کی ایک مشین ہوتی تھی، اس سے دو کپ کافی کے بناتے تھے، اسے کہتے تھے یہاں بیٹھ جاؤ میرے پاس، کام نہیں دیکھتے تھے، انہوں نے کہا اس نے فون کر دیا ہے تو کام تو ہو گیا ہے۔
اب دیکھیں حوصلہ افزائی اس کو کہتے ہیں، اسی کو کہتے ہیں ٹیکنیکل مینجنٹ کہ اس شخص نے کام کو ہاتھ نہیں لگایا، پوچھا نہیں، کافی بنائی، ایک کافی اس کو دی کہ میرے پاس بیٹھ جاؤ۔ اب وہ ٹیکنیشن گیارہ گریڈ کا ہو گا بیچارہ۔ وہ تو کانپ رہا تھا ان کے سامنے کہ بھئی بیٹھوں کیسے ان کے سامنے، کافی کیسے پیوں۔ انہوں نے کہا بیٹھ جاؤ۔ اس کے سامنے کافی پی رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کون کون ہے گھر میں، گھر کیسے چلتا ہے، فلاں کیا ہوتا ہے، جنرل سی باتیں واتیں کر کے، اس کے پاس جاتے ہوئے اس کو ایک آنریریم (honorarium) دے دیتے تھے کہ بھئی یہ تمہارے کام کی آنریریم ہے، کام کو نہیں دیکھتے تھے، ان کو پتہ تھا کام تو ہو گیا ہے۔ اب جس لڑکے کے ساتھ وہ یہ والا کام کر جائیں، کافی پلا جائیں اس کو رات کو دو ڈھائی بجے آ کر، ذرا آپ سوچیں کہ اس کے اندر کیسا جذبہ ہو گا کام کرنے کا۔ وہ اس کے بعد تین تین دن تک گھر نہیں جاتے تھے۔ اس کو منع نہیں تھا کہ تم گھر نہیں جاؤ، وہ کہتا تھا میں گھر جا کر کیا کروں گا۔
پلانٹ ایسا تھا کہ سیڑھیوں سے چڑھ کر آپ جائیں، جہاں کنٹرول روم ہے، وہاں سے آپ کو پورا پلانٹ نظر آتا ہے۔ اور ایسے کئی پلانٹ تھے۔ اس پلانٹ میں دس دس ہزار کے سنٹری فیوجز نصب کیے گئے تھے۔ تو ہمارے جتنے بھی جنرلز آتے تھے وزٹ کرنے کے لیے، وہ پہلے سیڑھیاں چڑھ کر جاتے تھے، جب سیڑھیاں چڑھتے تھے اور سامنے پلانٹ کو دیکھتے تھے تو پلانٹ کو سلیوٹ کرتے تھے، خالی پلانٹ کو سلیوٹ کرتے تھے، اے کیو خان کو نہیں، پلانٹ کو سلیوٹ کرتے تھے۔ اس کی خوبصورتی ایسی تھی کہ لوگ کام کرنے والے ایسے لگتے تھے سویڈن میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا ہلنا جلنا، کپڑے، یہ وہ، سب اسی طرح سے تھا۔ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ اس قدر ہائی ٹیکنالوجی تھی اس علاقے کے اندر، اس پلانٹ کے اندر کہ اس کو دیکھ کر آپ کو نہیں لگتا کہ یہ پاکستان میں ہم کھڑے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی ہائی کلاس ٹیکنالوجی کے کسی ملک میں ہم کھڑے ہیں۔ ورنہ ایسے پلانٹ، چائنہ بھی میں گیا ہوں، وہاں جا کر دیکھا انہوں نے مٹی میں بنائے ہوئے تھے، ہوٹل کو تبدیل کر کے بنایا ہوا تھا۔
اے کیو خان، لوگ تو یہ کہا کرتے تھے، میں ذاتی طور پر یقین نہیں کرتا کہ ڈرائنگز ان کے ہاتھ میں تھیں اور وہ کچھ باہر سے ڈرائنگز لے کر آئے تھے اور ان ڈرائنگز سے یہ (سب بنایا)۔ دیکھیں اگر ڈرائنگز ہوتیں تو ڈرائنگز سے جب کنسٹرکشن انسان کرتا ہے تو ڈرائنگ سے دیکھ کر کنسٹرکشن کیا اور ہال بن گیا۔ کم از کم سات آٹھ دفعہ وہ پورے کا پورا ہال بنا ہے، اور اس کے بعد توڑا گیا ہے اس کو۔ کیوں؟ جب بنا لیتے تھے تو سنٹری فیوج رکھتے تھے۔ جب رکھتے تھے تو پتہ چلتا تھا کہ ابھی اس میں دو کم رہ گئے ہیں، دو زیادہ ہو گئے ہیں، دو ایسے ہو گئے ہیں، دو ویسے ہو گئے ہیں۔ یہ سب ان کی یادداشت میں تھا، اس کا سائز، جہاں کہ وہ گھومتے رہے تھے، وہ کہتے تھے اچھا یہ سائز ہو گا، وہ سائز بنا دیا، جب سنٹری فیوج رکھے تو اس کے اندر پرابلمز آئیں، اس کو گرا دیا، انہوں نے کہا دوبارہ کنسٹرکشن ہو گی۔ تو کم سے کم، اگر میں مبالغہ نہ کروں تو تیسری چوتھی کنسٹرکشن میں جا کر ایک ہال مکمل ہوتا تھا۔ جس کے بارے میں ہم نے کہا کہ یہ وہ ہال بن گیا ہے جس میں کہ اتنے سنٹری فیوجز آسانی سے درست طریقے سے نصب ہو گئے ہیں۔ ان کے درمیان میں جگہ بھی ہے گھومنے پھرنے کی، سیڑھیاں بھی ہیں دیکھنے کے لیے، اور سب۔
تو یہ وہ والا پلانٹ ہے جس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ nothing else۔ اس آدمی کی میموری کی آپ لوگ داد دیں، کہ وہ ایک دفعہ آپ کا نام سنتا تھا، اگر دس سال کے بعد آپ ملتے تھے تو آپ کو نام سے پکارتا تھا۔ ہزاروں لوگ ان کے سامنے سے گزرے ہیں، لیکن دیکھ کر ان کی یادداشت میں محفوظ ہو جاتا تھا، یہ ہے ان کی میموری کا عالم، چیزیں ازبر ہوا کرتی تھیں انہیں۔
تو یہی چیز انہوں نے وہاں پلانٹ میں (استعمال کی)۔ پندرہ دن صرف انہوں نے اس (ہالینڈ کے) پلانٹ میں کام کیا۔ اور روزانہ رات کو آ کر وہ اس کے بارے میں لکھا کرتے تھے کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہیں، کیسے ہیں، کس طرح ہیں، جتنا لکھ سکتے تھے، کیونکہ وہاں سے کچھ لانا اور لے جانا تو آپ کر نہیں سکتے تھے۔ تو یہ ساری چیزیں ان کی میموری میں تھیں، جو کچھ انہوں نے حاصل کیا۔
اس لیے وہ جب ذوالفقار علی (بھٹو) سے ملے ہیں تو انہوں نے کہا اب آپ یہاں سے جائیں گے نہیں، آپ نے یہاں پر چھ مہینے تک سیر کرنی ہے، سب دیکھنا ہے، اور ایک کمرے میں بند ہو کر، یہ کہا گیا تھا ان سے، ایک کمرے میں بند ہو کر جو کچھ آپ نے وہاں دیکھا ہے ، وہ آپ نے یہاں بنانا ہے۔ لکھتے جائیں، لکھتے جائیں۔
مجھے نہیں پتہ، یہ تو جنوں کا کام ہوتا ہے، حضرت سلیمانؑ کرایا کرتے تھے جنوں سے یہ سارے کام۔ تو ہم لوگ اس زمانے میں، کچھ گروپس تھے ہمارے، جو نئے لڑکے آئے ہوئے تھے، ہم لوگ اے کیو خان کو جن بابا ہی کہا کرتے تھے، کہ یہ تو جن بابا ہیں جو کام کرواتے ہیں اس طرح۔
ایٹمی تجربات کا فیصلہ
ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی (ایٹمی انجینئر): میں نمبر ٹو کے آفس میں تھا، ڈاکٹر ہاشمی صاحب نمبر ٹو تھے، خان صاحب نمبر وَن تھے۔ اور ہاشمی صاحب نے مجھے کہا بھئی ظفر، انڈیا نے تو کر لیا دھماکہ۔ تو میں نے کہا سر، ہم بھی کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا اگر تم نے نہیں کیا دو تین ہفتے میں، پھر ختم ہو تم۔ اتنے میں خان صاحب آئے اپنے آفس سے، یوں دروازہ کھول کر جھانکا، ڈاکٹر ہاشمی اور میں کچھ بات کر رہے تھے، میں نے ان کی طرف دیکھا ان کی آنکھوں میں۔ اب خان صاحب کے اوپر بہت، ظاہر ہے پورے ملک کا پریشر تھا۔ تو اس کے بعد میں نے یہ سنا کہ پریزیڈنٹ نے دونوں کو بلایا۔ ڈاکٹر اے کیو خان کو اور جو چیئرمین آف پاکستان اٹامک انرجی کمیشن تھے، ڈاکٹر اشفاق اس وقت چیئرمین تھے۔ ڈاکٹر اشفاق نے ڈاکٹر ثمر مبارک کو اس پراجیکٹ کا ہیڈ بنایا تھا۔ ڈاکٹر اشفاق اور ڈاکٹر اے کیو خان کی میٹنگ پریزیڈنٹ سے ہوئی، پریزیڈنٹ آف پاکستان سے۔ خان صاحب جب واپس آئے تو ہم سب کو بتا دیا کہ آپ لوگ تیار رہیں۔
دیکھیں، کچھ ہماری اندرونی سیاست بھی تھی، اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا، کہ ایک طرف ہم بہت خوش تھے، ایک طرف مایوسی تھی کہ ہمیں اہمیت نہیں دی گئی اس میں۔ اور خان صاحب کو، جب آپ کے لیڈر کو اہمیت نہ دی جائے تو ظاہر ہے، آپ جو ان کے ورکرز ہوتے ہیں، تو ہم سب کا ایک ڈاؤن پیریڈ بھی تھا، لیکن ہمیں ایک ایک اضافی تنخواہ بھی ملی۔ اور یہ بات میں ریکارڈ پر آپ کو لا دیتا ہوں کہ ڈاکٹر اے کیو خان کی تنخواہ چھبیس ہزار روپے تھی اس وقت۔ میری سترہ ہزار روپے تھی۔ تو ہم سب کو ایک ایک تنخواہ اضافی ملی۔ تو آپ سوچیں کہ ہم لوگوں نے اتنی تنخواہ میں اس ملک کے لیے کتنا بڑا کام کیا۔ آج سوچ سکتا ہے کوئی؟ آج تو لوگ کروڑوں کی اور کئی سو کروڑوں کی بات کرتے ہیں۔ ہم لوگوں نے، کیا تنخواہیں تھیں، کس جذبے سے کام کیا، اور جس شیڈ میں ہمارا فنکشن ہوا، خان صاحب مجھ سے کوئی دس فٹ آگے کھڑے تھے، ہم کوئی میرے خیال میں ہزار ڈیڑھ ہزار لوگ کھڑے تھے، ان کے سامنے ہم نے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگائے۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ تو میرا تو آئی کانٹیکٹ تھا خان صاحب کے ساتھ۔ ہمیں پتہ تھا اصل ہیرو کون ہے، ہمیں تو پتہ تھا کہ اصل ہیرو کون ہے، ہمیں تو پتہ تھا کہ اصل آدمی کون ہے۔
الوداعی دن
ڈاکٹر افضل خان: میں جنازے پر گیا تھا، میرا بیٹا بھی ساتھ تھا، اور ہزاروں لوگ تھے، اور ہمیں جگہ نہیں ملی تھی، آخر میں فیصل مسجد کے عقب میں ہمیں جگہ ملی۔ وہاں دو بہت عجیب واقعات مجھے پیش آئے۔ ایک تو تیز بارش ہو رہی تھی نماز جنازہ کے دوران، دوسرا اوپر سے بجلی کڑک رہی تھی۔ تو میرے ساتھ جو تھے کچھ نوجوان آئے ہوئے تھے، ایک نوجوان کہتا ہے دیکھو، آج آسمان بھی رو رہا ہے اے کیو خان کے جنازے پر۔ تو پیچھے سے ایک زور سے آواز آئی، کہتا ہے، نہیں نہیں نہیں، یہ جو بجلی کڑک رہی ہے، یہ اللہ تعالیٰ اکیس توپوں کی سلامی دے رہے ہیں جنازے کو۔ تو خیر، مجھے بڑی خوشی بھی ہوئی، حیرت بھی، میں نے کہا دیکھو لوگوں کی سوچ کیا ہے، اس سے قطع نظر کہ گورنمنٹ کیا کرتی ہے یا باقی لوگوں نے کیا کیا ہے۔ لیکن بڑی دنیا آئی تھی اور اتنا رش تھا کہ ہمیں جگہ ہی نہیں مل رہی تھی، بڑی دیر بعد ہمیں جگہ ملی۔ یعنی میں یہ کہوں گا کہ ہزاروں لوگ تھے جنازے پر۔
ڈاکٹر ظفر اللہ قریشی: وہاں پہ کھڑے ہوئے، پھر بارش شروع ہو گئی، تو پھر تین بجے بہت تیز بارش ہوئی، جیسے اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ ملا ہو، پورے پاکستان کو، پوری دنیا کو، یہ سچ بات ہے کہ آسمان کالا ہوگیا تھا، اور جیسے آٹھ اکتوبر 2005ء کو ایک بہت بڑ ازلزلہ آیا تھا، میں ادھر ہی تھا ایئر یونیورسٹی میں ہفتے کے روز نو بج کر دو منٹ تھے صبح کے، اس شام کو بہت تیز بارش ہوئی تھی، تو جو میری عمر کے لوگ ہیں ان کو یاد ہو گا، وہ بھی اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑا (اشارہ) تھا۔ اور یہ بارہ اکتوبر کو خان صاحب کے جنازے پر کالا آسمان ہو گیا تھا، اور اتنی تیز بارش ہوئی اور ہم سب کھڑے تھے، ہم سب گیلے ہو گئے، لیکن آپ یقین جانیں کہ مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ اللہ کے سامنے ہم کھڑے ہیں۔ تو اس کے بعد آسمان صاف ہو گیا، آدھے گھنٹے کے بعد، جیسے کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے اس دن پشاور جانا تھا، پانچ بجے میں پشاور چلا گیا اور موٹر وے بالکل صاف تھی، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
تو اس سے کیا آپ کو پتہ چلتا ہے اپنے ملک کے بارے میں۔ جہاں میں نے ایک طرف آپ کو شروع والی ہسٹری بتائی، تو دوسری ہسٹری بھی میں آپ کو بتا دوں کہ اس ملک نے ڈاکٹر اے کیو خان کی کوئی عزت نہیں کی۔ اور یہ آپ سب کو پتہ ہونا چاہیے کہ آپ کا جو مین لیڈر تھا، جو مین ہیرو تھا، جس کی وجہ سے آپ کا جھنڈا آج لہرا رہا ہے، جس آدمی کی وجہ سے آپ کی پریزیڈنسی کے آگے پاکستان کا اتنا اونچا جھنڈا لہرا رہا ہے، اس کو ہم کوئی اسٹیٹ فیونرل نہیں دے سکے۔ اس کو بیس سال ہم نے اس کے گھر میں بند رکھا۔ اس کو کوئی ہم نے عزت نہیں دی۔ اور جن حالات میں ان کا انتقال ہوا، میں کچھ کہنا بھی نہیں چاہتا، کیونکہ میری ان کے ساتھ لاسٹ ٹیلی فون کی بات ہوئی تھی، جب میں خود ہاسپٹل میں تھا ان کے انتقال سے دو مہینے پہلے، میں خود شفا ہسپتال میں داخل تھا، کچھ مسائل تھے، تو میری وائف اور سب سے چھوٹا بیٹا میرے ساتھ کمرے میں تھے۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا مجھے کہہ رہا تھا کہ آپ کی تو کوئی ڈاکٹر اے کیو خان سے اتنی دوستی نہیں ہو گی۔ تو جب ہم ہاسپٹل سے ڈسچارج ہو رہے تھے تو فون بجا، میں نے فون سنا تو ڈاکٹر اے کیو خان تھے، تو میں نے اپنے بیٹے اور وائف کے سامنے کیا کہ دیکھو ڈاکٹر اے کیو خان مجھے فون کر رہے ہیں۔ اور ڈاکٹر خان نے مجھے کہا کہ آپ کا پتہ چلا آپ ہاسپٹل میں ہیں تو کیسی طبیعت ہے؟ میں نے کہا سر میں تو ٹھیک ہوں، میں آج گھر جا رہا ہوں، آپ کیسے ہیں؟ سنا ہے کہ آپ آ گئے ہیں ہاسپٹل سے۔ وہ ملٹری ہاسپٹل میں داخل تھے اس وقت۔ ان کو کوویڈ ہوا تھا، پھر کچھ پیچیدگیاں ہوئی تھیں ان کی۔ تو میں نے کہا میں تو ٹھیک ہوں، آپ کے لیے ہم سب دعا مانگتے ہیں، آپ کیسے ہیں؟ فرمایا، میں ٹھیک ہوں ۔ پھر وہ گھر آئے، پھر مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد میری ان سے واٹس ایپ پر ہوتی تھی۔ میں نے ایک کتاب لکھی نیوکلیئر انجینئرنگ پر، میری کتاب امریکہ میں شائع ہوئی ہے مارچ ۲۰۲۲ء میں۔ میں نے ان کو واٹس ایپ بھیجا کہ میں آپ کو ایئر یونیورسٹی میں چیف گیسٹ انوائیٹ کرنا چاہتا ہوں۔