پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء

مولانا اسرار مدنی: ہماری بہت خوش قسمتی ہے کہ ہمارے استاذ، سینئر پروفیسر، قانون دان اور مصنف جناب ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب، سابق ڈائریکٹر جنرل شریعہ اکیڈمی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، اور اس کے علاوہ وہ لاء ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہے ہیں اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، اور خیبرپختونخوا سے ان کا تعلق ہے، تو آپ لوگ پشتو میں بھی ان سے بات کر سکتے ہیں، اور وہ بہت اچھی پشتو لکھ بھی سکتے ہیں بول بھی سکتے ہیں، اور ان کا جو ٹاپک تھا کہ (۱) پاکستان کے آئین کے حوالے سے اور افغانستان کے آئین کے حوالے سے  اس کا ایک تقابلی جائزہ، (۲) اور پھر جو اسلامائزیشن کی بات ابھی چل رہی تھی اسلامی قوانین کے حوالے سے اور پھر انسانی حقوق کے حوالے سے، ان دونوں کے تناظر میں وہ بات کریں گے، اور اس کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہو گا، یہ اس ورکشاپ کا ایک اہم ترین سیشن ہے، کل بھی آپ سے اس پہ گزارش کی تھی تو براہ کرم آپ بھرپور توجہ کے ساتھ سنیں بھی، اور سوالات اپنے ساتھ لکھتے رہیں تو آخر میں پھر ان شاء اللہ سر کے پاس ٹائم ہو گا، ہماری کوشش ہو گی کہ اس ڈیبیٹ کو جاری رکھیں گے، اور بہت بہت شکریہ سر  آپ کے آنے کا اور ٹائم دینے کا، بہت مشکور ہوں میں ذاتی طور پر، جزاک اللہ۔


ڈاکٹر محمد مشتاق احمد: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ بہت شکریہ مولانا اسرار مدنی صاحب! آپ اسی طرح مجھ سے اپنی محبت کا اور تعلق کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور مجھ پر اعتماد کا بھی اظہار کرتے ہیں جو میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ اور میں کوشش کروں گا کہ، وقت تو مختصر ہے لیکن کچھ بنیادی جو نکات ہیں وہ یہاں اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کروں، اور کچھ اپنی سناؤں کچھ ان کی سنوں۔ ظاہر ہے یہ قانونی مسائل ہیں، اور پھر بالخصوص قانون میں بھی وہ حصہ، بالکل بنیاد کے ساتھ جس کا تعلق ہے، جس کو ہم اساسی قانون کہتے ہیں، کانسٹیٹیوشن، تو اس میں کچھ پیچیدگیاں تو ہوں گی، کچھ مسائل تو ہوں گے، میں کوشش کروں گا کہ ان کو آسان بنا کر پیش کروں، لیکن بہت زیادہ آسان بنا کر اس لیے بھی نہیں پیش کیا جا سکتا کہ پھر جو اصل پرابلمز ہیں مسائل ہیں وہ سامنے نہیں آتے۔ تو اس لیے اگر تھوڑی بہت اس میں کچھ ٹیکنیکل ڈسکشن ہو جس کی وجہ سے کچھ مسائل بظاہر گھمبیر نظر آئیں، تو اس پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں بھی جو بھی ایشو میں کلیئر نہیں کر سکا تو آپ ضرور اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں اور سوالات کریں، ہم اس کو ڈسکس کریں گے ان شاء اللہ۔ 

جو مجھے انہوں نے ٹاپک دیا تھا تو اس کے تین بنیادی اجزا ہیں:

  1. ایک تو کانسٹیٹیوشن کے حوالے سے میں نے بات کرنی ہے، اور میں واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ کانسٹیٹیوشن سے مراد کیا ہے۔ یعنی ہم جب کہتے ہیں کہ پاکستان کا کانسٹیٹیوشن یا افغانستان کا دستور یا قانونِ اساسی، تو قانونِ اساسی ہوتا کیا ہے؟ اور اس میں کیا مواد ہوتا ہے؟ ان میں کیا سوالات ہوتے ہیں جن کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے؟ دیگر قوانین کے ساتھ قانونِ اساسی کا تعلق کس نوعیت کا ہوتا ہے؟ اس طرح کی کچھ چیزیں ڈسکس کر کے پھر میں آپ کے سامنے پاکستان کے دستوری نظام کا، اساسی قانون کا، ایک خاکہ پیش کروں گا کہ ہم نے یہاں کس طرح دستور سازی کی ہے اور سسٹم ہماری حکومت کا ہماری ریاست کا کیسے چل رہا ہے؟ 
  2. پھر میں کوشش کروں گا کہ اسی طرح افغانستان کا جو کانسٹیٹیوشن ہے بلکہ مدنی صاحب پوچھ رہے تھے اس دن کہ یہ جو ابھی حال ہی میں افغانستان میں تبدیلی آئی ہے اور حکومت تبدیل ہو گئی ہے تو اس کے بعد کانسٹیٹیوشن کی کیا حیثیت ہے۔ تو ایک دو پوائنٹس میں اس پر بھی ذکر کروں گا۔ اور بنیادی طور پر میرا فوکس ہو گا اس پر کہ اسلامائزیشن کے حوالے سے، اسلامی دفعات کے حوالے سے، اسلامی قانون کے حوالے سے پاکستان میں اور افغانستان میں سسٹم کیسے کام کر رہا ہے۔ 
  3. اور اسی طرح ہیومن رائٹس کے تناظر میں حقوقِ انسانی کا جو بین الاقوامی قانون ہے، اس کو کیسے دونوں نظاموں میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ وہ بنیادی خاکہ ہے جو میں کوشش کروں گا کہ آدھے گھنٹے میں آپ کے ساتھ ڈسکس کر سکوں۔ 

 

① پاکستان کا دستوری نظام

دستور یا قانونِ اساسی کیا ہوتا ہے؟

کانسٹیٹیوشن یا اساسی قانون، بنیادی بات تو وہی ہے کہ یہ ہے قانون۔ لیکن اسے جب ہم اساسی قانون کہتے ہیں، افغانستان میں عام طور پر اس کے لیے یہی ترکیب استعمال ہوتی ہے، پاکستان میں ہم اس کو دستور یا آئین کہتے ہیں، تو یہ عام قوانین سے ذرا مختلف چیز ہے۔ اب مختلف کیوں ہے؟ اس کے دو بنیادی مظاہر ہیں، یعنی دو پہلوؤں سے ہم کہہ سکتے ہیں، دو زاویوں سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ دستور یا قانونِ اساسی عام قوانین سے مختلف ہے۔  

ایک تو اِس کی حیثیت دوسرے قوانین سے بالاتر ہوتی ہے، باقی قوانین اِس کے ماتحت ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مواد کے لحاظ سے، سبجیکٹ میٹر کے لحاظ سے، کہ اس قانون میں کون سے مسائل ہوتے ہیں، کون سے سوالات ہوتے ہیں جن کا جواب دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب پاکستان میں ہم کہتے ہیں کہ یہ کریمنل لاء ہے، فوجداری قانون ہے، جنایات کا قانون ہے، تو وہاں ظاہر ہے جرم، سزا، اس پر بحث ہوتی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں یہ مدنی قانون ہے افغانستان میں، یا پاکستان میں ہم اس کو سول لاء کہتے ہیں، دیوانی قانون کہتے ہیں، تو وہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ دو بندوں کا آپس میں مثال کے طور پر ایک معاہدہ ہوا، عقد ہوا، اس کی ایک بندے نے خلاف ورزی کی، اب دوسرا عدالت میں آیا ہے قضا کے پاس، اب وہاں کیسے مسئلہ ڈیسائیڈ ہو گا، دو افراد کا مسئلہ ہے، وہاں سزائیں نہیں ہوتیں، لیکن وہاں یہ ہوتا ہے کہ ایک بندے نے دوسرے کے حق کو تسلیم نہیں کیا، یا تسلیم کرنے کے بعد اس کو اس کا حق دے نہیں رہا، تو اس طرح کے تنازعات ہوتے ہیں، تو وہ تو سول لاء ہو جاتا ہے، مدنی قانون، جنایات کا قانون ہو جاتا ہے۔ اسی طرح فیملی لاء، اسی طرح اور قوانین، تجارت کا قانون وغیرہ۔ 

دستور کی رو سے حکومتی نظام کیسے تشکیل پاتا ہے؟

جب ہم کہتے ہیں قانونِ اساسی، تو قانونِ اساسی میں ہم بنیادی طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ جو آپ کی ریاست ہے جو آپ کی حکومت ہے اس کا نظام کیسے کام کرتا ہے۔ حکمران کون ہوگا؟ حکومت کیسے وجود میں آئے گی؟ الیکشنز ہوں گے یا کسی اور طریقے سے حکومت تبدیل ہو گی؟ حکومت کے پاس کون سے اختیارات ہوں گے؟ اب جو کانسٹیٹیوشنل لاء، دستوری قانون دنیا بھر میں پڑھایا جاتا ہے تو اس میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت کے تین شعبے ہوتے ہیں، تین شاخیں ہوتی ہیں: 

  1. ایک کو کہا جاتا ہے مقننہ، قانون سازی کا ادارہ، جیسے پاکستان میں پارلیمنٹ ہے۔پاکستان میں ایک مرکزی سطح پر ہے جس کو ہم پارلیمنٹ کہتے ہیں، یہ مرکزی سطح پر قانون بناتی ہے۔ اور پھر پاکستان میں چار صوبے ہیں اور ہر صوبے کی اپنی مقننہ ہے، اس کو ہم صوبائی اسمبلی کہتے ہیں، پرووِنشل اسمبلی، وہ قانون بناتی ہے۔  
  2. پھر کہتے ہیں کہ حکومت کا دوسرا شعبہ ہے عدلیہ، قضا، جوڈیشری۔ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ قانون کی تشریح اور تعبیر کرتی ہے۔ قانون کیا کہتا ہے، یہ ہمیں بتاتی ہے۔ مقننہ نے، پارلیمنٹ نے قانون بنا لیا، اب آپ کہتے ہیں اس قانون کی رو سے میرا یہ حق ہے۔ وہ کہتا ہے، نہیں، اس کی رو سے آپ کا یہ حق نہیں بنتا، یہ بنتا ہے۔ آپ کے درمیان تنازع اٹھا، آپ جاتے ہیں عدالت میں، وہاں فیصلہ ہوتا ہے۔ عدالت قانون کو بھی دیکھتی ہے، آپ کے دعووں کو بھی دیکھتی ہے، پھر فیصلہ کرتی ہے کہ آپ کا دعویٰ درست ہے یا اُس کا درست ہے، یا کسی حد تک آپ کی بات ٹھیک ہے، کسی حد تک اُس کی بات ٹھیک ہے۔ قانون کی رو سے وہ فیصلہ کرتی ہے، اس کو ہم کہتے ہیں عدلیہ۔ 
  3. پھر کہتے ہیں کہ حکومت کا تیسرا شعبہ وہ ہے جس کو انتظامیہ کہتے ہیں، ایگزیکٹو، جو اس قانون کا نفاذ کرتی ہے، تنفیذ کرتی ہے۔ قانون بن گیا، عدالت نے فیصلہ سنا دیا، اس نے کہا اِس کا یہ حق ہے، اُس کا یہ حق ہے، اب اس پر عمل درآمد کیسے ہو؟ اب وہ فیصلہ نافذ کیسے کیا جائے؟ اس کے لیےحکومت کا ایک پورا شعبہ ہوتا ہے، اس کو انتظامیہ کہا جاتا ہے۔ 

یہ تینوں شعبہ: مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ، یہ تینوں مل کر حکومت کی تشکیل کرتے ہیں۔ تو اس کے بارے میں کانسٹیٹیوشن میں ہمیں بتایا جاتا ہے، قانونِ اساسی میں بتایا جاتا ہے کہ مقننہ کیسے وجود میں آئے گی؟ مقننہ کے ارکان کون ہوں گے؟ ان کا انتخاب ہو گا یا سلیکشن ہو گی تو کن بنیادوں پر ہو گی؟ کتنے عرصے کے لیے وہ ممبر رہیں گے؟ ان کے اختیارات کیا ہوں گے؟ کن کن موضوعات پر وہ قانون سازی کر سکیں گے؟ جیسے پاکستان میں ہمارا سسٹم ہے فیڈرل، وفاقی اس کو ہم کہتے ہیں۔ یہاں چار صوبے ہیں: خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ، بلوچستان۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کو الگ حیثیت حاصل ہے، اس کو ہم کہتے ہیں اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (ICT)، یہ وفاقی علاقہ ہے، یہاں وفاقی، مرکزی حکومت ہوتی ہے ہماری۔  اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے ساتھ ہمارا الگ، یوں کہیں کہ ایک تعلق ہے، اور آزاد جموں و کشمیر کے ساتھ ایک اور طرح کا تعلق ہے۔ تو ان دونوں کو تو ایک طرف رکھیں  لیکن چار بنیادی طور پر ہمارے صوبے ہیں اور ایک یہ مرکز کا علاقہ ہے اسلام آباد۔ 

وفاق اور صوبائی سطح پر قانون سازی کیسے ہوتی ہے؟

اب ایک ہماری وفاقی حکومت ہوتی ہے جس کے سربراہ اِس وقت عمران خان ہیں، اور ہر صوبے کی اپنی حکومت ہوتی ہے، صوبے کی حکومت کے سربراہ کو وزیر اعلیٰ کہتے ہیں۔ یہ جو وفاقی حکومت ہے یہ پورے ملک کے لیے قانون بناتی ہے، جیسے میں نے کہا پارلیمنٹ اس کام کے لیے ہے۔  اور جو صوبائی اسمبلی ہوتی ہے وہ اس صوبے کی حد تک قانون بناتی ہے۔ اب اگر وفاقی حکومت نے قانون بنایا اور صوبائی حکومت نے بھی بنایا، اور ان میں تعارض ہو تصادم ہو، پھر کیا ہو گا؟ ایک قانون کچھ کہتا ہے دوسرا قانون کچھ اور کہتا ہے۔ یا اگر صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے ایک قانون بنایا، صوبہ سندھ کی اسمبلی نے دوسرا قانون بنایا، پھر کیا ہو گا؟ ہم نے اپنے قانونِ اساسی میں، دستور میں، موضوعات کی تقسیم کی ہے کہ یہ موضوعات ہیں جن پر صرف وفاقی حکومت قانون سازی کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ باقی سارے امور صوبوں کے پاس ہیں۔ پہلے صوبوں کے پاس اختیارات نسبتاً‌ کم تھے۔ ہماری جو فہرستیں تھیں قانون سازی کے لیے وہ تین تھیں:

  1.  ایک وفاقی، جس پر وفاق قانون سازی کر سکتی تھی، جیسے ملک کا دفاع، اس کے لیے اگر کوئی قانون بنایا جائے گا تو وہ وفاق کے اختیار میں ہے۔ امورِ خارجہ، دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات۔  کرنسی، اور اس طرح کے کچھ امور ایسے ہیں، جن پر صرف وفاق کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے۔
  2.  پھر کچھ امور ایسے ہیں پر جن میں صرف صوبہ قانون سازی کر سکتا ہے، وہ صوبے کے اپنے اختیار میں ہے۔ جیسے مثال کے طور پر بہت سارے، یوں کہیں کہ عائلی قوانین جو ہوتے ہیں، جن کا تعلق خاندانی امور سے ہے، نکاح، طلاق، میراث وغیرہ۔ اور بھی بہت سارے امور ہیں جن پر صرف صوبہ قانون سازی کر سکتا تھا۔ 
  3. پھر درمیان میں ہم نے ایک مشترک فہرست رکھتی تھی، اس کو ہم concurrent list کہتے تھے، مشترک فہرست میں وہ موضوعات تھے جن پر وفاق بھی قانون بنا سکتا تھا اور صوبہ بھی، جیسے تعلیم ہے، تعلیم کے لیے وفاق بھی قانون بنا سکتا تھا اور صوبہ بھی۔ 

اب اگر ان قوانین میں تعارض آجائے تصادم آجائے تو ہمارے ہاں اصول یہ تھا کہ وفاقی قانون پر عمل ہو گا۔ یہ سلسلہ ہم نے دستور میں ترمیم کر کے، amendment کر کے  ۲۰۱۰ء میں ختم  کر دیا، اٹھارہویں ترمیم اس کو ہم کہتے ہیں۔ یعنی وہ اٹھارہویں دفعہ تھی جب ہم نے دستوری قانون میں تبدیلی کی۔ تو اس کے ذریعے ہم نے یہ مشترک فہرست بھی ختم کر دی، صوبائی فہرست بھی ختم کر دی، اور اب ہمارے پاس صرف وفاقی فہرست ہے اور اس میں ہم نے کہا ہے کہ وفاق ان امور پر قانون سازی کر سکتا ہے، باقی سارے امور صوبوں کے پاس ہیں۔ تو گویا ہم نے صوبوں کو زیادہ اختیار دے دیا، صوبائی خودمختاری جس کو کہا جاتا ہے، provincial autonomy، یہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ہوا۔ اب صوبے کہاں تک اس اختیار کو استعمال کر سکتےہیں، کر پا رہے ہیں، اور کہاں ان کو مسائل ہیں، تو  وہ الگ بحث ہے، لیکن ہم اس تجربہ سے اس وقت گزر رہے ہیں۔ 

عدلیہ کی مختلف سطحوں پر مقدمات کے فیصلے کس طرح ہوتے ہیں؟

اسی طرح صرف مقننہ کے حوالے سے ہی نہیں، جو عدلیہ کا سسٹم ہے ہمارے ہاں، اس کا بھی اس طرح ایک پورا شجرہ ہم نے بنایا ہے۔ 

ضلعی اور صوبائی سطح کی عدالتیں (سول، ڈسٹرکٹ، ہائی کورٹس)

سب سے نچلی سطح پر، بنیادی یونٹ آپ اس کو کہیں تو وہ ہمارے ہاں ہوتا ہے ڈسٹرکٹ کا، ضلع، ایک صوبے کے اندر کئی اضلاع، جیسے ڈسٹرکٹ مردان ہے، ڈسٹرکٹ پشاور ہے، ڈسٹرکٹ چارسدہ ہے، ڈسٹرکٹ صوابی ہے وغیرہ۔ اب ڈسٹرکٹ میں مدنی قانون کے حوالے سے جو عدالتیں ہیں ان کو ہم سول کورٹس کہتے ہیں، مدنی عدالتیں کہیں ان کو۔ 

  • وہ جو سول کورٹس ہیں، ان میں سب سے نیچے، بنیادی، جہاں سے مقدمہ شروع ہوتا ہے، اگر آپ کا کسی دوسرے بندے کے ساتھ تنازع اٹھے، سب سے پہلے آپ جس عدالت میں جائیں گے، سول کورٹ میں، اس کو ہم کہتے ہیں سول جج۔ اس کے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہوئے، اس نے فیصلہ کیا، آپ کو اس پر اطمینان نہیں ہے۔ 
  • آپ اس کے فیصلے کے خلاف اس سے اوپر کی عدالت میں جاتے ہیں۔ تو اس کو ہم کہتے ہیں ڈسٹرکٹ جج۔ ڈسٹرکٹ جج کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ سول جج کے فیصلے پر نظر دوڑائے اور اس کو اگر معلوم ہو کہ اس میں غلطی ہوئی ہے تو اس کی تصحیح کر دے، یا اس کو ختم کر دے، کالعدم کر دے اور اس کی جگہ نیا فیصلہ سنا دے۔  
  • ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں، یا دوسرا فریق مطمئن نہیں ہے، تو وہاں سے معاملہ جاتا ہے صوبے کی سطح پر بڑی عدالت میں۔ اس کو کہا جاتا ہے ہائی کورٹ۔ اور چاروں صوبوں میں ایک ایک ہائی کورٹ ہے۔ پشاور میں ہے، لاہور میں ہے، کراچی میں ہے، کوئٹہ میں ہے، اور ایک اسلام آباد میں ہے، اسلام آباد کے اپنے علاقے کے لیے۔ تو یہ پانچ ہمارے ہاں ہائی کورٹس ہیں۔ 

اسی طرح جنایات کا جو قانون ہے، فوجداری قانون، جہاں جرائم (کے مقدمات آتے ہیں)، کسی بندے پر الزام ہے کہ اس نے جرم کیا، اس کو سزا سنائی گئی۔ مقدمہ کے لیے، سزا کے لیے جو آپ کے پاس پہلا فورم ہوتا ہے، جو پہلی عدالت ہوتی ہے اس کو ہم کہتے ہیں مجسٹریٹ کی عدالت۔ مجسٹریٹ کی عدالت کے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں، آپ اس کے خلاف ڈسٹرکٹ کی سطح پر جاتے ہیں، اس کو ہم کہتے ہیں سیشن جج، سیشن کی عدالت۔ اچھا، سیشن جج کے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں، آپ آتے ہیں ہائی کورٹ میں۔ 

وفاق کی سطح کی عدالت (سپریم کورٹ)

ہائی کورٹ سے اوپر ملک کی سطح پر سب سے بڑی عدالت کو کہا جاتا ہے ہمارے ہاں سپریم کورٹ۔ سپریم کورٹ کو پورے ملک پر اختیار حاصل ہے، لیکن سپریم کورٹ میں سارے مقدمات نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کی دو حیثیتیں ہیں: 

  1. ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ فائنل کورٹ آف اپیل ہے۔ یعنی ہائی کورٹ کے فیصلے سے بھی آپ مطمئن نہیں ہیں تو آپ آخری اپیل کے لیے سپریم کورٹ میں جاتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ ہر اپیل نہیں سنتی۔ پہلے دو جج آپ کی درخواست سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، آپ کے دلائل سنتے ہیں کہ اس میں آپ کو اپیل کا حق دیا جائے یا نہ دیا جائے، سپریم کورٹ آپ کی اپیل سنے یا نہ سنے؟ تو وہ دو جج آپ کی اپیل کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ ہاں اس میں گنجائش ہے اور اس کو سنا جا سکتا ہے۔ یا کہہ دیں، نہیں نہیں، بس وہ جو ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا وہ کافی ہے۔ ایک تو یہ کورٹ آف اپیل کی حیثیت ہے سپریم کورٹ کی۔ (مولانا اسرار مدنی: ایک بار ہو سکتا ہے یا دو بار بھی، ایک بار خارج کر دے تو؟) نہیں، بس خارج کر دیا تو خارج ہو گئی۔ اس کے بعد ایک اور امکان ہوتا ہے اس کو نظرِثانی کہتے ہیں لیکن وہ اس لیول پر نہیں ہوتی۔ وہ جب آپ کی درخواست اپیل کے لیے وہ تسلیم کر لیں کہ ہاں آپ کی درخواست اب سنی جائے گی، اس کے بعد عدالت نے آپ کو سن کر فیصلہ سنا دیا، پھر بھی آپ مطمئن نہیں ہیں، آپ ایک دفعہ پھر درخواست کر سکتے ہیں کہ ایک دفعہ پھر دیکھیے، اس کو نظرثانی کہتے ہیں، لیکن وہ بہت ہی محدود اختیار ہوتا ہے، اس میں صرف اس پورے کیس کو ایک دفعہ اوپر سے نیچے تک دیکھا جاتا ہے کہ کوئی بڑی غلطی تو نہیں ہوئی۔ تو یہ سپریم کورٹ کی ایک حیثیت ہے، اس کو فائنل کورٹ آف اپیل کہتے ہیں۔ 
  2. اور دوسری حیثیت سپریم کورٹ کی یہ ہے کہ وہ قانونِ اساسی کی تعبیر اور تشریح کرتی ہے۔ ہمارا جو کانسٹیٹیوشن ہے، اس میں ہم نے پاکستان کے شہریوں کے لیے بھی اور اُن تمام لوگوں کے لیے جو پاکستان میں موجود ہیں، چاہے وہ غیر ملکی ہوں، باقاعدہ ویزہ لے کر آئے ہوں، یا حتیٰ کہ ان لوگوں کے لیے بھی جو بغیر ویزے کے ہیں، کسی وجہ سے پاکستان میں اس وقت موجود ہیں، تو کچھ حقوق ایسے ہیں جو ان کے لیے بھی قانونِ اساسی میں تسلیم شدہ ہیں۔ البتہ کچھ حقوق ایسے ہیں جو صرف پاکستانی شہریوں کے لیے ہیں۔ تو وہ حقوق جو دستوری قانون میں، جو قانونِ اساسی میں مذکور ہیں، ان کو ہم فنڈامینٹل رائیٹس کہتے ہیں، بنیادی حقوق۔
    ویسے تو مختلف جتنے بھی قوانین ہیں ان میں آپ کے حقوق کا ذکر ہوتا ہے، لیکن وہ حقوق جن کی ضمانت دی گئی ہے، جن کی حفاظت کا دعویٰ کیا گیا ہے کانسٹیٹیوشن میں، قانونِ اساسی میں، ان کو ہم فنڈامینٹل رائیٹس کہتے ہیں، بنیادی حقوق۔ اب اگر اُن حقوق میں کسی حق کی خلاف ورزی ہو جائے تو آپ سول جج کے پاس، یا مجسٹریٹ کے پاس، پھر اس کے بعد سیشن جج یا ڈسٹرکٹ جج کے پاس، پھر ہائی کورٹ، اس لمبے چکر میں نہ جائیں۔ بلکہ اگر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ  ہے آپ براہ راست ہائی کورٹ میں آ سکتے ہیں۔ اس کو ہم کہتے ہیں writ jurisdiction ، رِٹ پٹیشن آپ فائل کر لیتے ہیں وہاں، رٹ کی درخواست آپ کرتے ہیں، ہائی کورٹ سے کہتے ہیں کہ کانسٹیٹیوشن میں جو میرا حق ہے وہ متاثر ہوا ہے، آپ اس پر میری مدد کریں، دادرسی کریں اور میرا حق مجھے دلوائیں۔ ہائی کورٹ مطمئن ہو تو وہ آپ کو وہ حق دے دے گی۔ آپ کو اس فیصلے پر اعتراض ہو یا دوسرے فریق کو اعتراض ہو، وہ سپریم کورٹ میں جاتے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ پھر حتمی ہوتا ہے۔ تو یہاں وہ جو بیچ میں سول جج اور  ڈسٹرکٹ جج، یا مجسٹریٹ اور سیشن جج والا  سلسلہ تھا وہ نکل جاتا ہے، براہ راست ہائی کورٹ میں، پھر ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ میں۔
    اور اگر معاملہ فنڈامینٹل رائیٹس کا بھی ہو اور اس کے علاوہ عوامی اہمیت کا ہو۔ یعنی بنیادی حقوق جو کانسٹیٹیوشن میں مذکور ہیں، ان کی خلاف ورزی کا معاملہ ہو، اور صرف ایک دو بندوں کا معاملہ نہ ہو بلکہ بہت وسیع پیمانے پر بہت سارے لوگوں کے حقوق متاثر ہوتے ہوں اس سے، تو آپ ہائی کورٹ کو بھی چھوڑ کر براہ راست سپریم کورٹ میں جا سکتے ہیں۔ اس کو public interest litigation کہتے ہیں (PIL)  کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، اس میں آپ براہ راست سپریم کورٹ میں آ گئے۔
    اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جب یہ دیکھتے ہیں کہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، کوئی بندہ خود نہیں آ رہا سپریم کورٹ میں لیکن چیف جسٹس نے یہ دیکھا کہ معاملہ بہت اہم ہے، تو وہ اَزخود نوٹس لیتا ہے، اور وہ حکومت کو بھی اور باقی لوگوں کو بھی نوٹس دے کر بلا لیتا ہے کہ آپ اِدھر آئیں اور اس مسئلے کو یہاں ہمارے سامنے پیش کریں، یہ کیا ہوا ہے، یہ جو فلاں جگہ فلاں خاتون کے ساتھ مثال کے طور پر ریپ کا معاملہ ہوا اور وہ بہت زیادہ ہائی لائٹ ہوا، وہ جو بچی کا معاملہ تھا قصور میں، زینب کا۔ اس کو ہم کہتے ہیں  suo moto notice  (of its own motion) کہ کسی نے وہاں درخواست نہیں دی تھی بلکہ سپریم کورٹ نے از خود اس پر کارروائی شروع کی۔ 

دستور و قانون میں اسلامی پہلو سے کیا کام ہوا ہے؟

اب اس میں اسلامی قانون کے پہلو سے کہاں ہم نے کام کیا ہے اور کیسے کیا ہے؟ 

قراردادِ مقاصد کی منظوری

سب سے بنیادی کام ہم نے یہ کیا کہ پاکستان 1947ء میں وجود میں آیا تو دو سال بعد جو ہماری دستور ساز اسمبلی تھی، جس نے دستور بنانا تھا، قانونِ اساسی بنانا تھا، اس نے ایک قرارداد منظور کی جس کو ہم کہتے ہیں قراردادِ مقاصد (Objectives Resolution) اس میں ہم نے بنیادی اصول طے کیے کہ ہمارا دستوری نظام، اساسی جو قانون ہے وہ کن اصولوں پر مبنی ہو گا۔ اس میں سب سے پہلا اصول جو ذکر کیا گیا، اس میں ہم سب یہ اقرار کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ حکم صرف اللہ کا ہے

۔ whereas sovereignty of entire world belongs to Almighty Allah alone    کہ پوری کائنات پر حکم صرف اللہ کا ہے۔ اس کے بعد ہم نے مزید یہ کہا کہ  انسانوں کے پاس، پاکستانی قوم کے پاس جو اختیار ہے وہ اللہ کی دی ہوئی امانت ہے، جو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کیا جائے گا۔ within the limits prescribed by Him  اور sacred trust کے الفاظ ہم نے استعمال کیے کہ یہ مقدس امانت ہے جو اللہ نے ہمیں یہ ذمہ داری دی ہے، اور ہم یہ ذمہ داری پوری کریں گے اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر۔ 

اس کے بعد جب ہم نے باقاعدہ قانونِ اساسی بنایا 1956ء میں، پھر 1962ء میں ایک اور بنا کیونکہ بیچ میں مارشل لاء آ گیا، وہ قانونِ اساسی منسوخ کیا گیا، اس کے بعد پھر مارشل لاء آیا، 1962ء کا قانونِ اساسی بھی منسوخ ہوا، پھر 1973ء میں کانسٹیٹیوشن آیا۔ بیچ میں ایک دفعہ ضیاء الحق اور دو دفعہ جنرل مشرف نے بھی اس قانون کو کلی طور پر یا جزوی طور پر منسوخ کیا لیکن پھر بحال ہوا۔ 

1973ء کا دستور

اب یہ جو ہمارا قانونِ اساسی ہے اس میں ہم نے دو بنیادی وعدے کیے ہیں، دو بنیادی اعلانات کیے ہیں, ایک یہ کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو گا۔ دوسرا یہ کہ جتنے موجودہ قوانین ہیں ان میں اگر کچھ شقیں ایسی ہیں، کچھ دفعات ایسی ہیں جو قرآن و سنت کے خلاف ہیں، تو ہم ان کو قرآن و سنت سے ہم آہنگ کر لیں گے، ہم ان سے وہ غیر اسلامی چیزیں نکال لیں گے۔ 

اسلامی نظریاتی کونسل

اب یہ کریں گے کیسے؟ یہ دو دعوے تو ہم نے کر لیے کہ پاکستان میں جتنے موجودہ اس وقت رائج قوانین ہیں، ان سے غیر اسلامی امور کو ہم دور کر لیں گے۔ مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان جب بنا تو یہاں اس سے پہلے انگریزوں کی حکومت رہی، اور انہوں نے بہت سارے، سینکڑوں نہیں ہزاروں قوانین بنائے تھے اور نافذ کیے تھے، اور پھر وہ چھوڑ کر چلے گئے۔ وہی قوانین یہاں رائج رہے، ان میں ظاہر ہے بہت ساری چیزیں ایسی تھیں جو شریعت سے متصادم تھیں۔ تو اب ان کا جائزہ لے کر ان میں سے جو چیزیں قرآن و سنت کے خلاف ہیں ان کو کیسے دور کریں، اس مقصد کے لیے ایک ادارہ وجود میں لایا گیا، جس میں اس وقت ہم بیٹھے ہوئے ہیں،  اسلامی نظریاتی کونسل  (Council of Islamic Ideology)۔ اس کو یہ کام دیا گیا کہ آپ ان قوانین کا جائزہ لیں اور ان میں جو جو چیزیں قابلِ اعتراض ہیں ان کی نشاندہی کر کے آپ پارلیمنٹ کے حوالے کر دیں، پارلیمنٹ کو اپنی سفارشات دے دیں، پارلیمنٹ چونکہ قانون بناتی ہے، وہ اس کے مطابق وہ چیزیں تبدیل کر لے گی۔ 

وفاقی شرعی عدالت

دوسرا وعدہ یہ تھا کہ آئندہ بھی جو ہم قانون بنائیں گے  قرآن و سنت کے مطابق بنائیں گے، اس کے خلاف نہیں بنائیں گے۔ تو اگر صوبائی اسمبلی کوئی قانون بناتی ہے یا پارلیمنٹ کوئی قانون بناتی ہے نیا قانون بناتی ہے اس معاملے میں بھی وہ اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی حاصل کر سکتی ہے کہ ہم یہ قانون بنا رہے ہیں، آپ اس پر ایک نظر ڈال کر ہمیں بتا دیجیے کہ اس میں کون سی چیزیں قابلِ قبول ہیں، کون سی غلط ہیں، تاکہ ہم قانون اس کے مطابق کر لیں۔ 

اب یہ تجربہ ہم نے کیا اور اس کے فوائد بھی نکلے اور یہاں شاید آپ کو اس کے بارے میں کچھ تفصیل دی بھی گئی ہو، یا دے دی جائے گی۔ دوسرا اس کے بعد ہم نے ایک اور تجربہ کیا کہ چونکہ یہ جو کونسل ہے، اسلامی نظریاتی کونسل، یہ سفارشات تو دے دیتی ہے پارلیمنٹ کو، لیکن پھر پارلیمنٹ اس پر عمل نہیں کرتی، اب اس کو مجبور کیسے کریں کہ وہ اس پر عمل کرے۔ یا پارلیمنٹ نے کوئی قانون بنایا اور اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھا ہی نہیں، یا پوچھ لیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا، قانون بنا لیا، اب کیا کریں؟ تو 1979ء میں ہم نے پہلے ہائی کورٹس میں، پھر ان کو ختم کر کے ایک مستقل الگ عدالت بنائی، اس عدالت کو کہا جاتا ہے وفاقی شرعی عدالت (Federal Shariat Court)، یہ 1980ء میں بنی ہے۔ پہلے ہم نے ہائی کورٹس میں شریعت بینچ بنائے، پھر شریعت بینچز کو ختم کر کے اگلے سال 1980ء میں ہم نے فیڈرل شریعت کورٹ بنائی۔ 

وفاقی شرعی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے، قانونِ اساسی کی رو سے،  کہ اگر پاکستان کا کوئی شہری یہ سمجھے کہ اس قانون میں یہ یہ چیزیں اسلام کے خلاف ہیں، وہ اس کے خلاف درخواست لکھ کر عدالت میں آئے، عدالت اس کی درخواست دیکھے گی، اس کے دلائل سنے گی، حکومت کے نمائندوں کو بھی طلب کرے گی، ان کی رائے بھی لے گی، ان کے دلائل بھی سنے گی، اس کے بعد عدالت اگر اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ یہ چیز اسلام کے خلاف ہے تو وہ اس کے خلاف فیصلہ دے گی۔ اور وہ فیصلہ ماننا لازمی ہو گا۔ اگر وفاقی قانون ہے تو پارلیمنٹ کو کہے گی، اگر صوبائی قانون ہے تو صوبائی اسمبلی کو کہے گی کہ اتنی مدت میں، تین مہینوں میں چار مہینوں میں، یہ قانون تبدیل کر لیں، اس سے یہ یہ چیزیں نکال لیں۔ اگر پارلیمنٹ نے اس پر عمل کیا، صوبائی اسمبلی نے اس پر عمل کیا، تو بہت خوب۔ اگر پارلیمنٹ نے اس پر عمل نہیں کیا، صوبائی اسمبلی نے اس پر عمل نہیں کیا اور وہ مدت گزر گئی، تو اس مدت کے گزرنے کے بعد وہ چیزیں اس قانون سے خودبخود نکل جائیں گی، شریعت کورٹ کے فیصلے کے مطابق۔ شریعت کورٹ نے کہا، اس میں سیکشن 18 مثال کے طور پر، سیکشن 19 اسلام کے خلاف ہے، آپ 31 جنوری تک اس کو تبدیل کر لیں۔ اکتیس جنوری کی تاریخ گزر گئی آپ نے تبدیل نہیں کیا، وہ چیزیں نہیں نکالیں، تو اکتیس جنوری کے بعد وہ چیزیں خودبخود نکل جائیں گی، اب وہ قانون کا حصہ نہیں رہیں گی۔ 

سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بنچ

اگر شریعت کورٹ کے فیصلے پر کسی کو اعتراض ہو تو اپیل میں وہ سپریم کورٹ میں جاتے ہیں۔ اور سپریم کورٹ میں اس کے لیے الگ سے ایک خصوصی شعبہ ہے، اس کو کہا جاتا ہے شریعت اپیلٹ بنچ۔ شریعت اپیلٹ بنچ میں چیف جسٹس آف پاکستان ہوتے ہیں، دو سینئر جج ہوتے ہیں اور دو علماء ہوتے ہیں۔ تو وہ پانچ ججوں پر مشتمل بینچ ہوتا ہے، وہ شریعت کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لیتا ہے اور سب کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سناتا ہے جو حتمی اور آخری فیصلہ ہوتا ہے۔ 

یہ سسٹم ہم نے اِدھر پاکستان میں بنایا ہوا ہے، اور اس میں ظاہر ہے مسائل بھی ہوتے ہیں لیکن ہم نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے اور بہت اہم فیصلے پاکستان میں اس طرح کے آئے بھی ہیں۔ 


② افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء

اب کچھ چیزیں میں افغانستان کے حوالے  سے ذکر کروں گا، افغانستان کے کانسٹیٹیوشن کے حوالے سے، پھر میں آپ کے سوالات لینا چاہوں گا۔ مجھے موقع ملا 2018ء میں کابل جانے کا، اور وہاں جو دستور کے حوالے سے کمیشن بنایا گیا تھا، قانونِ اساسی کی تعبیر اور تشریح کے لیے، تو اس کے ممبرز اور ریسرچ سٹاف کی ٹریننگ تھی، اس کے لیے مجھے بلایا گیا تھا، تو میں وہاں گیا۔ اور اس کے لیے مجھے افغانستان کا جو کانسٹیٹیوشن 2004ء سے نافذ ہے اس پر کام بھی کرنا پڑا۔ اور جو پچھلے قوانین تھے ان کا بھی میں نے جائزہ لیا۔ اسی طرح ایک دو کیسز میں، جو انگلینڈ میں عدالتوں میں چلے، اس میں مجھے وہاں کی عدالتوں کے لیے کچھ رپورٹس تیار کرنی پڑیں expert opinion کے طور پر۔ 

افغانستان کے ایک مقدمہ کا جائزہ

ان میں ایک بڑا دلچسپ مقدمہ وہ تھا جس میں قندھار میں بازار میں جاتے ہوئے برطانوی جو افواج تھیں، انہوں نے فائرنگ کی تھی اور کچھ لوگ اس میں شہید ہوئے تھے، کچھ زخمی ہوئے تھے، تو ان میں سے ایک شخص جو شہید ہوا تھا بلکہ اس کا بیٹا بھی، تو اس کا بھائی چلا گیا انگلینڈ میں اور وہاں اس نے مقدمہ درج کیا برطانوی فوج کے خلاف۔ اور اس نے کمال یہ کیا تھا، جس نے بھی اسے یہ مشورہ دیا تھا، کہ اس نے سزا کے لیے مقدمہ نہیں دائر کیا بلکہ اس کا مقدمہ تھا تاوان کے لیے، کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے، میں ذہنی اذیت میں مبتلا ہوا، میرے سامنے میرے بھائی کو مارا گیا بغیر کسی وجہ کے، میرے بھتیجے کا قتل ہوا، مجھے اتنی شدید تکلیف پہنچی ہے۔ انگلینڈ کے قانون میں اس کی بنیاد پر آپ کو ظاہر ہے ہرجانہ یا جرمانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔  وہاں کی عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ واقعہ چونکہ انگلینڈ میں نہیں ہوا ، افغانستان میں ہوا ہے، تو کیا انگلینڈ کی عدالت اس مقدمے کو سن سکتی ہے؟ اس کو ہم کہتے ہیں principle of territorial jurisdiction  کہ عدالت ان امور پر مقدمہ سن سکتی ہے جو اس علاقے میں ہوں جن پر عدالت کا اختیار ہے۔ اب وہ علاقہ افغانستان ہزاروں کلومیٹر دور انگلینڈ سے، تو انگلینڈ میں تو واقعہ ہوا نہیں، افغانستان میں ہوا ہے، تو کیا انگلینڈ کی عدالت اِس مقدمے کو سن سکتی ہے۔ اس پر بالآخر عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ چونکہ وہ علاقہ برطانوی فوج کے ماتحت تھا، اور برطانوی فوج پر برطانیہ کا قانون لاگو ہوتا ہے، تو اس وجہ سے مقدمہ ہم سن سکتے ہیں۔ 

اس کے بعد دوسرا سوال یہ تھا کہ اب مقدمے کا فیصلہ کس قانون کے تحت کریں گے، انگلینڈ کے قانون کے تحت کریں گے، یا جہاں واقعہ ہوا ہے وہاں کا قانون اس پر لاگو کریں گے؟ دلچسپ سوال ہے نا۔ تو انگلینڈ کی عدالت نے بالآخر یہ طے کیا کہ اس پر اس علاقے کے قانون کا اطلاق ہو گا جہاں یہ واقعہ ہوا ہے، افغانستان کا قانون اس پر ہم لاگو کریں گے۔ اب افغانستان کا قانون اس میں ہے کیا؟ وہ تو ظاہر ہے انگلینڈ کے جج کو معلوم نہیں تھا، بلکہ انگلینڈ کے وکیلوں کو بھی معلوم نہیں تھا۔ تو وہاں پھر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اب اُس علاقے کا قانون ہم نے نافذ کرنا ہے تو اس قانون کے جو ماہرین ہوتے ہیں ان سے پوچھنا ہے۔ وہ عدالت کے لیے اپنی رائے تفصیل سے لکھ کر دیں گے۔ جیسے آپ مفتی سے استفتاء کرتے ہیں، وہ فتویٰ دیتا ہے۔ جب جج کو پتہ نہیں ہوتا کہ ابھی ہم نے کیا کرنا ہے تو وہ اس طرح expert opinion لے  لے گا۔  

اس میں دلچسپ سوال یہ تھا کہ افغانستان کے مدنی قانون کی رو سے جب آپ کسی معاملے میں تاوان کے لیے ہرجانے کے لیے جرمانے کے لیے دعویٰ کرتے ہیں تو اس کے لیے تین سال کی مدت ہے، تین سال کے بعد آپ مقدمہ دائر نہیں کر سکتے۔ یہاں اس کو چار پانچ سال ہو گئے تھے۔ تو وہاں انگلینڈ کی عدالت سے جب وہ معاملہ میری طرف بھیجا گیا تو اس میں ایک سوال یہ تھا کہ کیا تین سال کے بعد اس مقدمے کو ہم سن سکتے ہیں یا نہیں سن سکتے؟ اور وہاں کے قانون کی رو سے اس میں اب کیا چیزیں ہوں گی؟ 

اب اس میں بہت ساری تفصیلات ہیں جو وقت کی کمی کی وجہ سے میں نہیں بتا سکتا لیکن میں مختصراً‌ یہ بتا دیتا ہوں کہ ظاہر ہے اس میں مجھے دیکھنا پڑا افغانستان کے جنایات کے قانون کو بھی، مدنی قانون کو بھی، اور یہ جو مدت کی تحدید جس قانون میں کی گئی ہے، مدنی قانون میں، اس کا بھی میں نے جائزہ لیا۔ اور اس میں ظاہر ہے ایک اہم پہلو یہ سامنے آیا کہ افغانستان کے قانونِ اساسی میں بھی، ابھی ہم ذکر کریں گے، اور مدنی قانون میں بھی، اور جنایات کے قانون میں بھی، اور دیگر کئی قوانین میں بھی، لیکن چونکہ میرا تعلق اس وقت ان تینوں سے تھا، قانونِ اساسی بھی، مدنی قانون بھی، جنایات میں بھی، تینوں میں صراحت کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ حنفی فقہ پر فیصلہ ہو گا، اگر کہیں کوئی تنازع ہو، قانون میں دو یا تین طرح کی تشریح ممکن ہو تو کون سی تشریح پر، کس تعبیر پر ہم عمل کریں گے، تو اس کےلیے ہم حنفی فقہ کا جائزہ لیں گے۔ تو اس وجہ سے اس میں مجھے حنفی فقہ کا تڑکہ بھی لگانا پڑا، تو وہ بہت دلچسپ چیز سامنے آئی اور نتیجہ اس میں ہم نے یہ نکالا کہ تین سال کی یہ جو مدت ہے اس کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا، مقدمہ چل سکتا ہے، اور تاوان اس میں اچھا خاصا لیا جا سکتا ہے، اور اس میں ہم نے دیت اور عرش وغیرہ کی تفصیلات بھی کافی تفصیل سے ذکر کیں۔ مطلب یہ ہےکہ جب آپ کام کرنے پر آئیں تو بہت سارے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں قانون کے اندر بھی۔ 

اسلامی دفعات پر ایک نظر

اب قانونِ اساسی کے حوالے سے میں صرف وہ چند دفعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن پر ہم نے وہاں کابل میں کافی تفصیل سے گفتگو کی تو بہت دلچسپ وہاں سوالات بھی اٹھے تھے۔ چند ایک میں کوشش کروں گا اگر موقع ملا یہاں ڈسکس کر لیں گے۔ لیکن میں پہلے جلدی سے اس فہرست پر آپ کے ساتھ ایک نظر دوڑاؤں، اسلامی قانون کے حوالے سے جو چیزیں 2004ء کے قانونِ اساسی میں مذکور ہیں۔ 

  •  ایک تو جو بالکل مقدمہ ہے دستور کا ، دیباچہ، اس میں یہ اقرار کیا گیا، جو بالکل پہلا فقرہ ہے، اس میں یہ صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور اسلام ہمارا عقیدہ ہے اور اسلام پر ہم عمل پیرا ہوں گے۔ 
  •  اسی طرح جو بالکل پہلی شق ہے، پہلی دفعہ ہے، پہلا مادہ ہے کانسٹیٹیوشن کا۔ وہ یہ کہتا ہے کہ افغانستان اسلامک رپبلک ہے، اسلامی جمہوریہ ہے۔ 
  •  پھر آرٹیکل 2 میں یہ کہا گیا ہے کہ اسلام ریاست کا مذہب ہے، اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہو گی۔ 
  •  آرٹیکل 3 میں، دفعہ تین میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بنایا جائے گا افغانستان میں۔  یہ تو کہا گیا کہ نہیں بنایا جائے گا، وہاں کابل میں جب ہم یہ ڈسکس کر رہے تھے تو میں نے وہاں دوستوں سے پوچھا کہ اگر بنایا گیا تو پھر کیا کریں گے؟ یعنی ہم نے یہ تصریح تو کی ہے کہ کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، لیکن اگر بنایا گیا، یا اگر کسی شخص کا یہ کہنا ہے کہ یہ جو قانون بنایا گیا ہے یہ اسلام کے خلاف ہے، دوسرا کہہ دے کہ نہیں ہے۔ اب کیا کریں گے؟ ظاہر ہے اس کے لیے آپ کے ہاں ایک تو یہ جو کمیشن ہے اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ دستور کی تعبیر و تشریح کرے۔ تو وہ اس دستور کی تعبیر اور تشریح کرتے ہوئے یہ اختیار استعمال کر سکتا ہے کہ وہ بتائے کہ یہ قانون دستور کے مطابق  ہے یا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ ہے۔ سپریم کورٹ کو کانسٹیٹیوشن کے تحت یہ اختیار دیا گیا ہے کہ قانونِ اساسی کی تشریح اور تعبیر کرے۔ اور پھر بعض امور میں جو رئیس المشر، صدر ہیں جمہوریہ کے، ان کے پاس یہ اختیار ہے کہ قوم کے سربراہ کی حیثیت سے فرمان جاری کریں، کوئی حکم نامہ جاری کریں ، تو وہ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے اس سسٹم کو چلنے میں اور ڈیویلپ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ جیسے میں نے کہا پاکستان میں ہم نے اس کے لیے الگ سے باقاعدہ ادارے بنا لیے۔ کسی فرد کو دینے کی بجائے ہم نے اِدھر ایک تو یہ ادارہ بنایا کونسل آف اسلامی آئیڈیالوجی کا، جو پارلیمنٹ کو اس سلسلہ میں سفارشات دیتا ہے، تجاویز دیتا ہے، اور پھر ہم نے الگ سے عدالت بنائی، مستقل عدالت جس کو  ہم فیڈرل شریعت کورٹ کہتے ہیں، وفاقی شرعی عدالت، جو اس بارے میں اپنے فیصلے بھی سناتی ہے۔
  • پھر آگے دفعہ 35 میں سیاسی جماعتوں کے حوالے سے خصوصاً‌ یہ کہا گیا ہے کہ سیاسی جو جماعتیں ہوں گی افغانستان میں، ان کے منشور میں کوئی چیز اسلام کے خلاف نہیں ہو گی۔ 
  •  پھر دفعہ 45 میں بہت اہم بات کہی گئی ہے تعلیم کے حوالے سے۔ اور دیکھیں پاکستان میں آج ہم یکساں نصاب کی بات کر رہے ہیں لیکن افغانستان کے کانسٹیٹیوشن 2004ء میں یہ کہا گیا ہے کہ ریاست کی، دولۃ کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ یکساں نصابِ تعلیم تشکیل دے اور اس میں اسلام کے عقیدے اور تصورات کے مطابق لوگوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ چلائے۔ 
  •  اسی طرح دفعہ 54 میں خاندان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے گی، اور ماں کے لیے بچے کے لیے خصوصی حقوق کا بھی ذکر ہے۔ اور وہ رسوم و رواج جو اسلام کے خلاف ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے گا۔ یہ بھی بہت اہم بات ہے۔ 
  •  پھر آرٹیکل 62 میں، دفعہ باسٹھ میں، ملک کے صدر کے لیے، سربراہ کے لیے جو شرائط رکھی گئی ہیں، ان میں ایک شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو، افغان ماں باپ کا بیٹا ہو، افغانستان کا شہری ہو، کسی اور ملک کا شہری نہ ہو۔
  •  اسی طرح دفعہ 63 میں صدر کے حلف کے حوالے سے، اس میں باقاعدہ اللہ کے نام سے قسم کھا کر اور پھر اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کر کے اور اللہ سے مدد مانگتے ہوئے، ان چیزوں کا ذکر ہے۔ 
  •  آرٹیکل 74 میں، جو وزیر ہیں ان کے حلف کا ذکر ہے، اس میں بھی اس طرح کی باتیں ہیں۔
  •  پھر آرٹیکل 118 میں سپریم کورٹ کے ججز کے بارے میں یہ کہا گیا ہے، جو بہت اہم بات ہے میرے نزدیک، کہ سپریم کورٹ کے ججز کے لیے اہلیت کی شرط یہ ہے کہ اصول الفقہ میں، اسلامی علوم میں اعلیٰ تعلیم انہوں نے حاصل کی ہوئی ہو، اور افغانستان کے عدالتی نظام میں ان کا اچھا خاصا تجربہ ہو۔ 
  •  ایک اور بہت اہم شق، دفعہ 149 ہے، جس میں قانونِ اساسی میں ترمیم کا ذکر ہے کہ اگر قانونِ اساسی کو کوئی تبدیل کرنا چاہے تو اس کے لیے کیا شرائط ہیں اور کیا اس میں قیود ہیں۔  سب سے پہلی قید یہ ذکر کی گئی ہے کہ یہ جو اسلامی دفعات ہیں یہ ناقابلِ تبدیل ہیں، ان کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری بات، حقوقِ انسانی کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ جو حقوق ہیں، ان میں آپ تبدیلی کر سکتے ہیں ان کو بہتر بنانے کے لیے، یعنی کم کرنے کے لیے نہیں۔ 
  •  اور اس سلسلہ میں آخری اہم جو شق ہے وہ  آرٹیکل 130 ہے جس میں حنفی فقہ (jurisprudence) اور اصول کا ذکر ہے  کہ جہاں باقاعدہ کوئی تصریح نہ ہو یا جہاں ابہام ہو تو وہاں حنفی فقہ اور اصول پر عمل ہو گا۔ 

ہیومن رائیٹس کے حوالے سے تین چیزیں بہت اہم ہیں افغانستان کے کانسٹیٹیوشن میں:

  • ایک تو ظاہر ہے جو دیباچہ ہے، اس میں یہ خصوصاً‌ ذکر کیا گیا ہے کہ ہم اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر بھی عمل پیرا ہوں گے اور یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائیٹس، جو انسانی حقوق کا عالمی اعلان ہے، اس پر عمل کریں گے۔ 
  • اور اسی طرح آرٹیکل 6 ہے، دفعہ چھ، اس میں یہ کہا گیا ہے کہ ریاست پر یہ فرض ہے اس پر یہ لازم ہے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرے اور مساوات اور جمہوریت کے لیے کام کرے اور ان کو یقینی بنائے۔ 
  • اور آرٹیکل 7 میں پھر یہ کہا گیا ہے، باقاعدہ طور پر تصریح کی گئی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر، دیگر ریاستوں کے ساتھ معاہدات کی افغانستان پابندی کرے گا۔ اور جو انسانی حقوق کا عالمی منشور ہے، اعلان ہے، اس پر بھی عمل کرے گا۔ 

اچھا، میں نے یہ سوال وہاں بھی کیا تھا، یہاں بھی ظاہر ہے اس پر بحث کی ضرورت ہے کہ اگر اس سلسلہ میں کوئی سوال ہو کوئی مسئلہ ہو کہ آپ ہیومن رائیٹس پر عمل پیرا ہیں یا نہیں ہیں، پھر کیا ہوتا ہے؟ یعنی پاکستان میں مثال کے طور پر، میں پہلے پاکستان کا ذکر کروں گا، پھر افغانستان کا، یہ میری اس سلسلہ میں آخری بات ہے، اس کے بعد آپ لوگوں کے سوالات میں سنوں گا۔ 


③ اسلامی احکام و قوانین اور بین الاقوامی معاہدات

پاکستان نے بہت سارے بین الاقوامی معاہدات پر دستخط کیے ہیں، ان کی توثیق کی ہوئی ہے۔ اس کے بعد پاکستان کا جو قانون ہے، اس کی رو سے یہ ضروری ہے، یعنی پاکستان نے مثال کے طور پر جو بچے کے حقوق سے متعلق معاہدہ ہے Convention on the Rights of the Child، پاکستان نے اس پر دستخط بھی کیے ہیں، اپنے اوپر اس کی پابندی لازم کروائی۔ لیکن کیا کوئی شخص اس بین الاقوامی معاہدے کی کسی شق کی بنیاد پر پاکستان کی کسی عدالت میں مقدمہ شروع کر سکتا ہے؟ نہیں کر سکتا، جب تک اس کے بعد ایک اور قدم نہ اٹھایا جائے۔ اس کو کہتے ہیں incorporating legislation  کہ اُس بین الاقوامی معاہدے میں جو باتیں کہی گئی ہیں، پارلیمنٹ ان کو باقاعدہ ایک قانون کے ذریعے، ایک قانون منظور کرے، اس میں وہ چیزیں ڈالے، تو اب وہ جو قانون پارلیمنٹ منظور کرے گی اس کے بعد وہ چیزیں پاکستان میں نافذ ہو جائیں گی، پھر آپ عدالت میں جا سکتے ہیں، اس قانون کی بنیاد پر جو پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ 

اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں مثال کے طور پر بہت ساری اس طرح کی قانون سازی پچھلے کچھ عرصے سے ہونے لگی ہے۔ جیسے domestic violence کا مسئلہ ہے، گھریلو تشدد کا، کہ گھر میں بچوں پر یا خواتین پر اگر تشدد ہوتا ہے۔ اب، تشدد نہیں ہونا چاہیے، اور پھر بالخصوص جب آپ نے بین الاقوامی معاہدات پر دستخط بھی کیے ہیں توثیق بھی کی ہوئی ہے، اب ان کی پابندی بھی آپ پر لازم ہے تو اس سلسلہ میں آپ نے قوانین بنانے ہیں۔ تو ہم نے سندھ میں، اور پھر بلوچستان میں، پھر پنجاب میں، اور اب حال ہی میں خیبرپختونخوا میں، اس سلسلہ میں الگ الگ قانون سازی کی ڈومیسٹک وائلینس کے خلاف۔ اور اسلام آباد میں جب کی جا رہی تھی تو اس پر پھر بہت ساری باتیں ہوئیں، تو وہ معاملہ ابھی معلق ہے۔ اور جو پنجاب میں قانون سازی ہوئی تو اس کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں درخواست گئی ہے کہ اس میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی شریعت سے متصادم ہیں۔ 

اب یہ وہ مسئلہ ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ایک جانب آپ نے یہ دعویٰ کیا ہے، یہ اقرار کیا ہے، اور بحیثیتِ مسلمان ظاہر ہے آپ کی ذمہ داری بھی ہے کہ آپ کے ملک میں کوئی قانون اسلام کے خلاف نہ ہو۔ دوسری جانب آپ نے بین الاقوامی معاہدات پر دستخط بھی کیے ہیں، ان کی توثیق بھی کی ہے، ان کی پابندی اپنے اوپر لازم بھی کی ہے، وعدے کی پابندی بھی مسلمان پر لازم ہے۔ لیکن  اب اگر اس بین الاقوامی معاہدے میں کوئی ایسی بات کی گئی ہے، جو آپ نے اپنے اوپر لازم کر دی ہے، آپ نے اس بات کو یہاں قانون کے ذریعے ملک میں نافذ کر لیا، لیکن وہ بات اسلام کے خلاف ہے۔ تو اب اگر اس کے خلاف درخواست جائے وفاقی شرعی عدالت میں، اور عدالت کہہ دے کہ یہ چیزیں اسلام کے خلاف ہیں ان کو ختم کر دیں۔ تو مسئلہ یہ ہو جاتا ہے کہ آپ اس کو اسلام کے خلاف قرار دے کر ختم کر رہے ہیں، اُدھر آپ نے بین الاقوامی معاہدے کی پابندی اپنے اوپر لازم کی ہے، وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے یہ کیوں ختم کیا؟ کیونکہ آپ نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، اب دوسرے فریق آپ سے پوچھتے ہیں۔ لیکن اِدھر بھی سوال یہ ہے کہ اگر وہ بین الاقوامی معاہدہ میں مان لوں اور اس کو  یہاں نافذ کر لوں تو یہاں اسلام کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو وہ بھی میں نہیں کر سکتا۔ 

اب اس میں توازن کیسے قائم کیا جائے، اور اس میں تطبیق کی راہ کیسے اختیار کی جائے، یہ بہت اہم ہے۔ اور میرے خیال میں اس سے بھی زیادہ اہم یہ بات ہے کہ جس  وقت معاہدات تشکیل پا رہے ہوں، جب ابھی معاہدہ لکھا جا رہا ہے، یا اگر لکھا جا چکا ہے پہلے ہی سے اور آپ اس معاہدے میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تو اس مرحلے پر اچھی خاصی سوچ بچار کی ضرورت ہے، بہت زیادہ ڈسکشن کی ضرورت ہے، بہت زیادہ تحقیق اور تجزیے کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں سے معلوم ہو کہ ہم اس معاہدے کو مان سکتے ہیں یا نہیں مان سکتے، اس میں کون سی چیزیں ہیں جو ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔ پھر آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ آپ کہیں کہ اس معاہدے میں سو دفعات ہیں، ان میں نوے تو میرے لیے قابلِ قبول ہیں، لیکن یہ آٹھ نو دس ایسی ہیں جن پر مجھے تحفظات ہیں، یہ میرے لیے ناقابلِ قبول ہیں، تو میں ان پر ریزرویشن (تحفظات) رکھتا ہوں، میں باقی باتیں مانوں گا، یہ والی نہیں مانوں گا۔ تو یہ امکانات آپ کے پاس ہوتے ہیں بشرطیکہ جس وقت آپ معاہدے پر دستخط کر رہے ہوں، معاہدے میں شامل ہو رہے ہوں، اس وقت آپ اچھی خاصی تیاری کر کے جائیں، سوچ بچار کریں۔ 

بلکہ اس کے بعد بھی امکان ہوتا ہے، بعض اوقات یہ ہوا کہ امریکہ کے صدر نے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے، لیکن امریکہ میں معاہدہ امریکہ پر ماننا تب لازم ہوتا ہے جب اس معاہدے کی توثیق امریکی سینٹ کرے۔ امریکہ میں جو قانون ساز ادارہ ہے، اس کا  جو ایوانِ بالا ہے اُس کو سینٹ کہتے ہیں۔ سینٹ جب اس معاہدے کی منظوری دے دے، اس کے بعد وہ امریکہ پر ماننا لازم ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ جو بچے کے حقوق کا معاہدہ ہے، اس پر امریکہ کی جو وزیر خارجہ تھیں، میڈلین البرائٹ نے اس پر دستخط کیے، امریکی وزیر خارجہ نے دستخط کیے 1995ء میں، یعنی آج سے چھبیس سال پہلے، لیکن آج تک امریکی سینٹ نے اس کی منظوری نہیں دی، تو امریکہ ابھی تک ’’کنونشن آن دی رائٹس آف دی چائلڈ‘‘  بچے کے حقوق کے معاہدے کو اپنے اوپر لازم نہیں مانتا۔ اور دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کی تمام ممبر اسٹیٹس میں امریکہ اس وقت واحد ملک ہے جو اس معاہدے میں شامل نہیں ہے، بچے کے حقوق کے متعلق جو معاہدہ ہے۔ اس لیے کہ وہاں معاہدے میں تفصیلی بحث ہوتی ہے سینٹ میں، اور اس کے بعد طے کیا جاتا ہے کہ ہم اس معاہدے کو اپنے اوپر لازم کریں یا نہ کریں۔  

ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ معاہدہ ہو جاتا ہے، دستخط ہو جاتے ہیں، توثیق ہو جاتی ہے، ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب ہوا، کیا ہوا، کس نے کیا۔ کیونکہ پاکستان میں برطانیہ کے ماڈل کو فالو کرتے ہوئے معاہدے کی توثیق کرنا، یہ پارلیمنٹ کا کام نہیں، وزارتِ خارجہ میں سیکرٹری لیول کا بندہ کرتا ہے، بیوروکریٹ کرتا ہے۔ تو یہ اصل میں، اگر پارلیمنٹ میں آئے، وہاں ڈسکس ہو، وہاں اس پر مختلف اطراف سے بحث ہو، تو شاید بہتری کی صورت پیدا ہو۔ ویسے پارلیمنٹ کی بھی حالت کچھ اتنی بہتر تو نہیں ہے، ایک دن میں اب چالیس چالیس قوانین بھی منظور کر لیتے ہیں، اللہ رحم کرے۔ 

https://youtu.be/TyE8jvln2HM

سوالات کے جوابات

عبوری نظامِ حکومت اور اس کا بین الاقوامی تصور

پاکستان میں بھی بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ اگر کانسٹیٹیوشن کے مطابق حکومت وجود میں نہیں آتی یعنی  مثال کے طور پر مارشل لاء آ گیا، جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء آیا، یا جنرل مشرف نے کیا، اب وہ کانسٹیٹیوشن کے مطابق تو نہیں تھا، لیکن وہ پورے کانسٹیٹیوشن کو معطل نہیں کرتے، پورے کانسٹیٹیوشن کو منسوخ نہیں کرتے، بلکہ ایک آرڈر جاری کرتے ہیں، پاکستان میں اس طرح سے سسٹم چل رہا تھا، اس کو کہتے ہیں PCO پروویژنل کانسٹیٹیوشنل آرڈر، یعنی عارضی یا عبوری دستوری حکم نامہ۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ دستور کی یہ یہ جو شقیں ہیں، یہ معطل ہو گئی ہیں، باقی نظام اسی طرح چلتا رہے گا۔ البتہ اس میں یہ یہ چیزیں ہم ڈال رہے ہیں۔ یعنی یہ چیزیں ہم نے معلق کیں، معطل کیں، یہ چیزیں ہم نے اضافہ کیں، باقی سسٹم اسی طرح چلتا رہے گا۔

اب یوں کہیں کہ افغانستان میں بھی اس وقت "PCO" چل رہا ہے، پروویژنل کانسٹیٹیوشنل آرڈر کے تحت سسٹم چل رہا ہے، جس میں سسٹم اسی طرح چل رہا ہے جیسے چل رہا تھا، لیکن اگر پارلیمنٹ کے حوالے سے، اس کو معطل کیا گیا ہے، یا صدر کے حوالے سے جو شقیں تھیں، وہ معطل ہو گئی ہیں، اور اب تحریر میں چونکہ کوئی چیز موجود نہیں ہے، تو ہم عمل کو دیکھتے ہیں، اور دستوری نظام میں ویسے بھی ہر چیز لکھی ہوئی نہیں ہوتی، حتیٰ کہ برطانیہ میں اس وقت بھی دستوری امور سے متعلق بہت سارے امور تو ایسے ہیں جو مختلف قوانین میں بکھرے ہوئے ہیں، ایک ڈاکومنٹ میں نہیں ہیں۔ امریکہ میں تو ایک ڈاکومنٹ ہوتا ہے جس کو آپ کانسٹیٹیوشن کہتے ہیں، پاکستان میں بھی ایک ڈاکومنٹ ہے، افغانستان میں بھی یہ تھا، برطانیہ میں تو بہت سارے قوانین میں وہ چیزیں بکھری ہوئی الگ الگ ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں جو لکھی ہوئی موجود نہیں ہوتیں، وہ عمل میں موجود ہوتی ہیں، اور عملاً‌ ایک سسٹم چل رہا ہوتا ہے اس کو ہم دیکھتے رہتے ہیں۔

تو اس وقت یوں کہیں کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے ایک عبوری حکم نامہ نافذ کیا گیا ہے، جس کی رو سے 2004ء کے اس کانسٹیٹیوشن کے کچھ حصے معطل ہو گئے ہیں، لیکن باقی سسٹم اسی طرح چل رہا ہے۔ اب ان کا اپنا سسٹم کیسے چل رہا ہے؟ تو اس پر ظاہر ہے تفصیل میں جانے کا موقع بھی نہیں ہے، لیکن ان کا اپنا کچھ سسٹم تو بہرحال موجود ہے، حکم کہاں سے آتا ہے، کیسے نافذ ہوتا ہے، وہ آپس میں کیسے اس کو چلاتے ہیں؟ لیکن یوں کہیں اس وقت ہم عبوری دور میں ہیں افغانستان میں۔ اور ویسے بھی جہاں بہت زیادہ خانہ جنگی ہو، جنگ ہوئی ہو، بہت زیادہ نقصانات ہوئے ہوں، اور پھر برسوں تک ہوئے ہوں، جیسے افغانستان کے ساتھ اتنے عرصے سے ہو رہا ہے، تو اس میں اسی طرح ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بہتری کی طرف جاتی ہیں۔ 

اور ایک تصور جو بین الاقوامی سطح پر آج کل بہت زیادہ مقبول ہے، اس کو کہا جاتا ہے transitional justice کا یعنی عبوری انصاف کا۔ مکمل انصاف تو آپ نہیں دے سکتے، وہ تو جب باقاعدہ نظام قائم ہو جائے گا، پورا سسٹم چلے گا، اس کے بعد صحیح سسٹم چلے گا۔ لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے کے خلاف بہت سارے جو ہمارے گلے شکوے ہیں ان کو دور کر کے کچھ بڑی بڑی چیزوں پر اقدامات کریں، باقی چھوٹے چھوٹے مسائل چھوڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو شاید معاملہ آگے جائے۔

حصولِ انصاف میں تاخیر کا معاملہ

ٹائم کا جہاں تک تعلق ہے، ہمارے ہاں بھی مقدمات کے لیے مختلف مواقع پر ٹائم مقرر کیا گیا ہے، بعض خصوصی عدالتیں ہوتی ہیں، ان کو خصوصی ٹائم بھی دیا جاتا ہے، دہشت گردی کے حوالے سے بالخصوص، اسی طرح ریپ کے معاملے میں، اسی طرح جو فیملی لاز ہیں ان میں بھی مدت کی تحدید کی گئی ہے۔ اور یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جب مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے تو اس کا نقصان ہوتا ہے اور وہ بے انصافی ہوتی ہے۔ لیکن مقدمات کے فیصلوں میں جب آپ جلدی کرتے ہیں تو اس میں بھی نقصان ہوتا ہے۔ یعنی اگر یہ بات درست ہے کہ justice delayed is justice denied تو یہ بھی درست ہے کہ justice rushed is justice crushed جب آپ جلدی میں فیصلہ کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ انصاف کی بجائے بہت بڑا ظلم کر بیٹھیں۔ تو اس وجہ سے دوسرے فریق کو سننا پڑتا ہے۔ بلکہ میں جب سٹوڈنٹس کے پیپرز چیک کرتا ہوں تو جن کا پیپر اچھا ہوتا ہے وہ تو بندہ جلدی چیک کر لیتا ہے، جس بندے نے فیل ہونا ہوتا ہے، یعنی اس کا پیپر ایسا ہے کہ وہ پاس نہیں ہو سکتا، اس کا پیپر مجھے بغور پڑھنا پڑتا ہے  کہ کہیں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس کا فائدہ اسے پہنچ سکتا ہو اور میں اسے نہ دوں۔ اسی طرح جب آپ کسی کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں تو وہ تو معاملہ آسان ہوتا ہے، لیکن جب آپ نے کسی کو سزا دینی ہے تو پھر اس کے لیے تو آپ کو بہت زیادہ احتیاط کرنی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے موقع دینا پڑتا ہے اور بعض اوقات اس ٹائم کی پابندی نہیں ہو سکتی۔

افغان صدر کی دوہری شہریت کا سوال

dual nationality کا سوال تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ افغانستان کے قانون کی رو سے ڈوئل نیشنلٹی کا جو حامل ہوتا ہے، جو شخص ڈوئل نیشنل ہو وہ صدر نہیں ہو سکتا، یعنی یہ باقاعدہ اس میں تصریح کی گئی ہے۔ (حاضرین میں سے سوال) اب، نہیں ہو سکتا ایک بات ہے، ہو گیا تو وہ دوسری بات ہو جاتی ہے۔ (حاضرین میں سے سوال) کیا واقعی اس کے پاس ڈوئل نیشنلٹی تھی یا ہے، مجھے نہیں معلوم، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا، (حاضرین میں سے سوال) میرا مفروضہ تو یہی ہے، اچھا، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کینسل کی ہو، ٹھیک ہے۔

اسلامی احکام اور بین الاقوامی معاہدات کی ہم آہنگی کا معاملہ

کیا اسلامی قانون میں اور بین الاقوامی قانون میں کوئی بہت بڑی چیز ہے جہاں اختلاف ہو؟ کئی لوگ کئی ساری مثالیں پیش کرتے ہیں، اس میں بحث کی جا سکتی ہے، لیکن میں ایک سیدھی سادی مثال دوں گا کہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے خواتین کے حقوق کے حوالے سے جس کا ٹائٹل ہے Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination Against Women (CEDAW) اس کے آرٹیکل 16 میں یہ کہا گیا ہےکہ جو ممبر سٹیٹس ہیں وہ اس کو یقینی بنائیں گے کہ خواتین کا وہی حق ہو جو مردوں کا ہے، equal right to marriage and divorce

اب equal right to divorce پر تو پھر بھی اسلامی قانون کی رو سے بحث کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔ حنفی فقہ میں بالخصوص جب آپ طلاقِ تفویض کی بات کرتے ہیں، اور خاتون کو بھی طلاق دینے کا حق delegate کر دیتے ہیں۔ اگرچہ delegated divorce اور divorce میں فرق بھی ہوتا ہے نتائج کے اعتبار سے، لیکن بہرحال ایک امکان اس کا پیدا ہو جاتا ہے۔

لیکن equal right to marriage آپ کیسے انشور کریں گے، اگر کریں گے، اب پاکستان میں مثال کے طور پر سیکشن 6 ہے مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961ء کا، جس کا یہ کہنا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک شادی کی ہے، وہ دوسری کر رہا ہے، یا دو کی ہیں اور وہ تیسری کر رہا ہے، یا تین کی ہیں اور وہ چوتھی کر رہا ہے، تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ پہلے اس علاقے کی یونین کونسل کو درخواست دے اور اس میں وجوہات ذکر کرے کہ وہ کیوں دوسری تیسری یا چوتھی شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس میں اس کی جو پہلے سے موجود بیوی یا بیویاں ہیں، تو ان کی نمائندگی بھی ہو گی، اگر ان کو اعتراض ہو تو وہ اپنا اعتراض بھی ذکر کریں گی۔ اور پھر اس کے بعد کونسل فیصلہ کرے گی کہ اس کو دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کی اجازت دی جائے یا نہ دی جائے، اور اگر دی جائے تو کن شرائط کے تحت دی جائے۔ اور پہلے سے موجود بیوی یا بیویوں کے حقوق کے لیے اگر وہ آپس میں کوئی سمجھوتہ کرنا چاہیں۔

اگر کسی نے اس قانون کو فالو نہیں کیا اور دوسری تیسری یا چوتھی شادی کر لی، قانون اس دوسری تیسری چوتھی شادی کو ناجائز نہیں کہتا، لیکن قانون کی خلاف ورزی پر اس شخص کو سزا ہو سکتی ہے۔ اور اس کے علاوہ پہلے سے موجود بیوی یا بیویوں کے حقوق کے حوالے سے بھی اس پر کچھ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اب یہاں دوسری تیسری یا چوتھی شادی ناجائز نہیں ہے پاکستانی قانون کی رو سے، لیکن اس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے، اور فیملی کے مسائل کو محدود کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ان شرائط کے تحت کیا کسی خاتون کو دوسری تیسری چوتھی شادی کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے اسلامی شریعت کی رو سے نہیں دی جا سکتی۔ تو اب equal right to marriage and divorce آپ کیسے انشور کریں گے؟ جب ہم نے CEDAW پر سائن کیے تو ہمارے صدر مملکت تھے ان دنوں فاروق لغاری صاحب مرحوم، انہوں نے اس پہ لکھا تھا کہ subject to the constitution of Islamic Republic of Pakistan کہ ہم اس معاہدے پر عمل پیرا ہوں گے پاکستانی دستور کی حدود کے اندر رہتے ہوئے۔ اب عملاً‌ کیسے ہو گا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

وفاق اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم

اچھا، پرووِنسز کے جو ریسورسز ہوتے ہیں، تو جو امور جن پر قانون سازی کا اختیار پرووِنسز کے پاس ہے تو ان پر ریسورسز کی بھی لسٹ اس میں شامل ہے تو ظاہر ہے وہ انہی کے پاس ہو گی۔ البتہ کچھ ریسورسز ایسے ہیں جن کو ہم نے وفاق کے اختیار میں رکھا ہوا ہے، جیسے سوئی گیس ہے مثال کے طور پر، جو، سوئی، بلوچستان کا علاقہ ہے، وہاں سے وہ نیچرل گیس نکلتی ہے، اور بھی کئی علاقوں سے اب نکلتی ہے، لیکن بہرحال اس کو ابھی تک سوئی گیس ہی کہا جاتا ہے۔ اس طرح منرلز کے حوالے سے اور بھی چیزیں ہیں، تو وہ وفاق کے اختیار میں ہوتی ہیں۔ بلکہ اب تو بعض اوقات یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ پرووِنسز کے پاس ریسورسز ہوتے ہیں اور وہ ان کو استعمال نہیں کر پاتے اور بجٹ laps ہو جاتا ہے۔

پاکستان کا پہلا دستور کہاں سے آیا؟

فرسٹ کانسٹیٹیوشن پاکستان کا؟ انگریزوں نے جاتے ہوئے ایک قانون کے تحت ہندوستان کو تقسیم کیا، اس قانون کو کہتے ہیں The Indian Independence Act 1947 ’’قانونِ آزادئ ہند ۱۹۴۷ء‘‘۔ اس میں باقاعدہ طور پر صراحت کی گئی کہ جو پہلے سے نظام چلا آ رہا ہے، یہ چلتا رہے گا، جب تک ہندوستان یا پاکستان اپنے لیے نیا نظام نہ بنا لیں۔ تو 1935ء میں انگریزوں نے ایک قانون نافذ کیا تھا، The Government of India Act 1935 ’’قانونِ حکومتِ ہند ۱۹۳۵ء‘‘ اس کے تحت نظام چل رہا تھا۔ وہی پاکستان کا بھی، وہی بھارت کا بھی عبوری یا عارضی دستور ہوا۔ تو اس کے بعد ہم نے اس کو replace کیا۔

جمہوریت اور بادشاہت کی بحث

اس کا جواب یہ ہے کہ ایک بہت پرانا ٹی وی کا ڈرامہ تھا، اس میں ہم نے یہ ڈائیلاگ سنا تھا، کہ اس میں دیکھا کہ وہ جو خاتون ہے اس کو اپنی بہو سے بہت سارے مسائل تھے، اکثر ہوتے ہیں، بلکہ ہیلری کلنٹن آئی تھیں اِدھر لاہور میں تو ان کو بھی جب بتایا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں۔ تو ساس کو بہو کے ساتھ اور بہو کو ساس کے ساتھ، ایک یونیورسل مسئلہ ہے۔ تو اس (ساس) سے پوچھا گیا مسئلہ کیوں ہے، یعنی کون قصور وار ہوتا ہے ساس بہو کے جھگڑے میں، تو اس نے کہا کہ جس وقت میں بہو تھی اس زمانے کی ساس بہت بری ہوتی تھی، اور آج جو بہو ہے وہ بہت بری ہوتی ہے۔ 

ویسے جو سوالات طالبان سے کرنے ہیں وہ طالبان سے ہی کیے جائیں، میں ان کا spokesperson نہیں ہوں، لیکن جہاں تک انسانی نفسیات کا مسئلہ ہے، وہ یہ ہے کہ جب آپ receiving end پر ہوتے ہیں، جب آپ کو مسئلہ ہوتا ہے کہ اگر آپ پر الزام ہے خدانخواستہ، تو وہ تمام حقوق آپ کو یاد آ جائیں گے جو کسی بھی ملزم کو دینے کے لیے دنیا کے تمام نظاموں میں ضروری ہیں۔ اس کو right to fair trial ہونا چاہیے، اگر وہ خاموش ہے تو اس کو زبردستی بولنے پر مجبور نہ کیا جائے، نہ اس کی خاموشی کو اس کے خلاف سمجھا جائے (نہ) اس کا اقرار سمجھا جائے، اس کو دفاع کا پورا موقع دیا جائے، اس کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے دیا جائے، اس کو اپیل کا حق ملے، جو اس کے خلاف گواہ ہیں ثبوت ہیں ان کا جائزہ لینے کا حق اسے ہو، وغیرہ وغیرہ، سارا کچھ۔ اور اس میں بہت ٹائم لگے گا۔ لیکن آپ کہیں گے یار میرا حق ہے اور مجھے سنے بغیر آپ کیسے مجھے سزا دے سکتے ہیں؟ لیکن اگر آپ دوسری سائیڈ سے ہیں تو پھر آپ کہیں گے یار اس ایک مسئلے میں آپ نے اتنے مہینے لگائے، جلدی سے لٹکاؤ۔

تو مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کہاں آپ کو فائدہ دیتی ہے، اور بادشاہت آپ کو کہاں فائدہ دیتی ہے، یہ ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ آپ اِس سائیڈ پر ہیں تو آپ کو جمہوریت اچھی لگے گی، کیونکہ اس میں آپ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے خلاف فیصلہ مرضی سے نہیں ہو گا بلکہ کسی قاعدے ضابطے کسی اصول کے مطابق ہو گا۔ اور اگر آپ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں تو آپ کے پاس اس کے خلاف جانے کے لیے یا اس پر نظر ثانی کرانے کے لیے گنجائش موجود ہے۔ آپ اِس فورم پر جائیں گے یا اُس پر جائیں گے۔ لیکن اگر آپ دوسری سائیڈ پر ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ فوری طور پر کھڑکاؤ، لٹکاؤ، معاملہ ختم کرو، تو پھر آپ کہیں گے یار یہ کیا راستیں میں مسائل کھڑے ہو گئے ہیں۔ ہمارے عمران خان صاحب بھی کہتے ہیں نا یار یہ جوڈیشری راستے میں حائل ہو گئی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور وہ تو حائل ہوتی رہے گی۔

افغانستان کے قانونِ اساسی کی اسلامی حیثیت

وہ جو دستور کے متعلق پوچھا گیا تھا، پرانا (ظاہر شاہ کے دور کا) یا نیا (2004ء والا)۔ کوئی خاص فرق قانون میں تو نہیں ہے، قوانین تو وہی ہیں جو پہلے سے ہی نافذ ہیں۔ یعنی مدنی قانون آپ لیں، جنایات کا لیں، دیگر قوانین لے لیں۔ بلکہ مجھے افغانستان کے جنایات کے قانون میں یہ بات بہت زیادہ اچھی لگی تھی کہ جو اس کا بالکل سیکشن 1 ہے وہ کہتا ہے کہ یہ جو قانون ہے یہ صرف تعزیر کے متعلق ہے، اور جہاں تک قصاص اور حدود اور دیت کا تعلق ہے، تو وہ حنفی فقہ پر ہو گا۔ انہوں نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ اس پر تو اس قانون کا اطلاق ہی نہیں ہوتا، یہ تعزیر کے معاملات میں ہم جا رہے ہیں۔ اسی طرح مدنی قانون میں بھی۔  اس کانسٹیٹیوشن میں، یہاں تک کہ جو ڈاکٹر نجیب کے دور کا کانسٹیٹیوشن ہے، اس میں بھی آپ کو حنفی فقہ کا ذکر نظر آتا ہے۔ تو مسئلہ اس میں نہیں ہے۔ اس کے لیے آپ کو یہ دیکھنا ہو گا کہ جو "PCO" عملاً‌ نافذ ہے افغانستان میں، تو ان کو دستور کے کن کن حصوں سے اصل میں مسئلہ ہے، جس کو انہوں نے معطل کیا ہوا ہے۔ وہی اصل مسئلہ ہے۔ اور میرے نزدیک اس مسئلے کا حل یہ ہے، جیسے کچھ دیر پہلے میں نے ذکر کیا، کہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا سوچنا چاہیے، اگر ہم ماضی میں ہی اسی طرح قید رہے کہ میرے ساتھ فلاں نے یہ کیا، فلاں نے وہ کیا۔ 

افغان قوم کی ’’مستقل مزاجی‘‘

علامہ اقبال 1933ء میں، آج سے گویا اٹھاسی سال پہلے نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان گئے تھے۔ اور انہوں نے نثر میں بھی، لیکن شعر میں بہت کچھ افغانستان کے بارے میں کہا ہے، فارسی میں، اردو میں۔ ایک پوری مثنوی ہے ان کی، مثنوی مسافر، جس میں انہوں نے افغانستان کے اس سفر کو منظوم پیش کیا ہے۔ بابر کے مزار پر گئے تو کیا ہوا، غزنی میں کیا تھا، حکیم سنائی، اور وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے ضربِ کلیم میں ایک پورا حصہ رکھا ہے جس کو انہوں نے نام دیا ہے، یا ارمغانِ حجاز میں، ‘‘محراب گل افغان کے افکار‘‘۔ اب محراب گل افغان کوئی حقیقی کردار تھا یا فکشن، بہرحال وہ بھی، لیکن محراب گل کی زبانی انہوں نے بہت ساری باتیں کہی ہیں۔ 1933ء میں وہ گئے تھے۔ 2018ء میں، میں ہفتہ دس دن کے لیے گیا۔ اور ویسے بھی افغانستان میں، جیسے میں نے ذکر کیا، سینکڑوں میرے سٹوڈنٹس ہیں اور سینکڑوں شاگرد ہیں، تو رابطہ بھی رہتا ہے، تو جو صورتحال 1933ء میں تھی وہ 2018ء میں بھی تھی وہ 2021ء میں بھی ہے۔ اقبال کے دو شعروں پر میں اس کا خاتمہ کروں گا:

ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی
کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زنّاری
عزیز تر ہیں انہیں نامِ وزیر و محسود
ابھی یہ خلعتِ افغانیت سے ہیں عاری

تو اس پر بہت، یعنی آپ جیسے پڑھے لکھے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ کب تک اس طرح چلتا رہے گا اور کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر آگے جانے کا نہیں سوچ سکتے؟ اللہ ہم سب کو اس پر سوچنے کی اور عمل کی توفیق دے۔

مولانا اسرار مدنی: بہت شکریہ جی ڈاکٹر صاحب۔

https://youtu.be/XQlgEwlBlJo


(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter