بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
حتیٰ کہ حکومت بھی اس میں ملوث ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت کی جانب سے اجین شہر میں ایک ہندو مندر کی توسیع کے لیے 'وقف' زمین کا حصول ایک بڑے منصوبے کی عکاسی کرتا ہے۔


بھوپال، بھارت — اس سال جنوری کے دوران اُجین میں، جو کہ وسطی ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش کا ایک شہر ہے، حکام نے تقریباً 250 جائیدادوں کو مسمار کر دیا، جن میں گھر، دکانیں اور ایک صدی پرانی مسجد شامل تھی، تاکہ 2.1 ہیکٹر (5.27 ایکڑ) پر پھیلی ہوئی زمین کو خالی کیا جا سکے۔

یہ زمین مدھیہ پردیش وقف بورڈ کی ملکیت تھی۔ عربی سے ماخوذ ’’وقف‘‘ کا مطلب ہے منقولہ یا غیر منقولہ جائیدادیں: مساجد، اسکول، قبرستان، یتیم خانے، ہسپتال اور حتیٰ کہ خالی پلاٹ، جو مسلمانوں کی طرف سے مذہبی یا فلاحی مقاصد کے لیے خدا کے نام پر عطیہ کی جاتی ہیں، جس سے ایسی جائیداد کی منتقلی ناقابلِ تنسیخ ہو جاتی ہے اور اس کے فروخت اور دیگر استعمالات پر پابندی لگ جاتی ہے۔ لیکن اُجین کی وقف زمین ’’مہاکال کوریڈور‘‘ کے لیے صاف کی گئی، جو شہر کے مشہور مہاکالیشور مندر کے اردگرد ایک ارب ڈالر کا ایک سرکاری منصوبہ ہے۔

بھارت، جو 200 ملین (بیس کروڑ) سے زیادہ مسلمانوں کا ملک ہے، کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ وقف اثاثے ہیں: 872,000 سے زیادہ جائیدادیں، جو تقریباً 405,000 ہیکٹر (ایک ملین یعنی دس لاکھ ایکڑ) پر پھیلی ہوئی ہیں، جن کی مالیت کا تخمینہ تقریباً 14.22 ارب ڈالر ہے۔ ان کا انتظام ہر ریاست اور وفاقی زیرانتظام علاقے کے وقف بورڈ کرتے ہیں۔ فوج اور ریلوے کے بعد وقف بورڈ ملک میں سب سے زیادہ زمین کے مالک ہیں۔ 

بھارتی پارلیمنٹ سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ شاید اسی ہفتے دہائیوں پرانے وقف ایکٹ میں ترامیم پر بحث کرے گی، جس کے مطابق یہ وقف بورڈز چلائے جاتے ہیں، اور جس نے گزرے سالوں کے دوران ان کے ہاتھوں میں مزید سے مزید طاقت مرکوز کر دی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو اکثریتی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف سے تجویز کردہ ترمیم بل حکومت کو وقف املاک پر ان کی مرضی کا کنٹرول دے سکتا ہے۔

مسلم طبقات کا الزام ہے کہ مودی انتظامیہ اپنی پارلیمانی طاقت کا استعمال کر کے اقلیتی برادری کو مزید تنہائی کا شکار بنا رہی ہے۔ لیکن جیسا کہ یہ بحث ٹیلی ویژن اسٹوڈیوز میں بہت زیادہ ہو رہی ہے، کچھ کارکنان اور وکلاء اُجین کے معاملے کو وقف املاک سے وابستہ اُن گہرے مسائل کی مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں جو طویل عرصے سے موجود ہیں، (مثلاً‌) کئی سالوں کی بدانتظامی، جس کے نتیجے میں قبضے ہوئے، اور جسے ترمیم شدہ قانون ممکنہ طور پر مزید بگاڑ سکتا ہے۔

'براہ راست خلاف ورزی'

مدھیہ پردیش، جو سائز کے لحاظ سے بھارت کی دوسری سب سے بڑی ریاست ہے، پچھلے 22 سالوں کے زیادہ تر حصے میں بی جے پی کے زیر اقتدار رہی ہے، سوائے دسمبر 2018ء سے مارچ 2020ء تک کے مختصر عرصے کے جب اعتدال پسند کانگریس پارٹی اقتدار میں تھی، پھر اس نے ریاستی اسمبلی میں اکثریت کھو دی۔

اُجین سے بی جے پی کے ایک سیاستدان موہن یادِو دسمبر 2023ء میں ریاست کے وزیر اعلیٰ مقرر ہونے کے بعد سے کمبھ 2028ء کی تیاری کر رہے ہیں، جو ہر 12 سال بعد شہر کے شِپرا دریا کے کنارے منعقد ہونے والی ایک ہندو یاترا ہے۔ مہاکالیشور مندر کے اردگرد وقف املاک کی مسماری کو بڑے پیمانے پر حکومت کی طرف سے کمبھ یاترا کے لیے زمینوں کے حصول کا حصہ سمجھا جاتا ہے، جس میں لاکھوں یاتریوں کی آمد متوقع ہے۔ 

ناقدین کا الزام ہے کہ ریاستی حکام نے 1985ء کی ایک سرکاری دستاویز کو نظر انداز کیا ہے جس کی رو سے اُجین کی یہ جگہ ایک مسلم قبرستان تھی جہاں 2,000 افراد کی گنجائش رکھنے والی ایک تاریخی مسجد بھی موجود تھی۔ بعد کے سالوں میں سیاسی روابط رکھنے والی بااثر تعمیراتی کمپنیوں نے وہاں ایک رہائشی کالونی کے لیے غیرقانونی طور پر پلاٹ فروخت کیے جس کے نتیجے میں 250 سے زیادہ مستقل عمارتیں بنیں، جنہیں جنوری میں منہدم کیا گیا۔

الجزیرہ نے جو حکومت کی ملکیتی دستاویز حاصل کی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ جون 2023ء میں اُجین کے ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے وقف زمین پر ریاستی انتظامیہ کے قبضہ کرنے کے منصوبے پر اعتراض کیا تھا۔ افسر نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ رہائشیوں نے اسے 1985ء کا گزٹ نوٹیفکیشن دکھایا تھا، جس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ یہ وقف زمین ہے۔

افسر نے تجویز دی کہ زمین حاصل کرنے کے لیے ریاستی وقف بورڈ سے ’’عدمِ اعتراض سرٹیفکیٹ‘‘ حاصل کیا جانا چاہیے۔ لیکن ایک ماہ کے بعد اُجین ضلع انتظامیہ نے ایک حکم جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ  ’’جب [زمین] سماجی مقصد کے لیے حاصل کی جاتی ہے تو کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی‘‘۔

وکیل سہیل خان، جنہوں نے اُجین کے قبضے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے، نے کہا، ’’یہ قبضہ وقف ایکٹ کی براہ راست خلاف ورزی ہے‘‘۔

جن لوگوں کے گھروں یا دکانوں کو مسمار کیا گیا تھا، اگرچہ حکومت نے جنوری میں انہیں معاوضے کے طور پر 330 ملین روپے (3.8 ملین ڈالر) ادا کیے، شہر میں بہت سے لوگوں کا یہ سوال تھا کہ وقف بورڈ نے یہ رقم کیوں نہیں مانگی، ان لوگوں کے برعکس جنہوں نے مبینہ طور پر وہاں گھر اور دکانیں قائم کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر پلاٹ پر قبضہ کیا تھا؟

جب الجزیرہ نے مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئرمین اور اُجین میں بی جے پی کے رہنما سَنوار پٹیل سے پوچھا کہ انہوں نے قبضہ کی مخالفت کیوں نہیں کی یا معاوضہ کا دعویٰ کیوں نہیں کیا، تو انہوں نے کہا کہ ’’میں وہی کروں گا جو پارٹی حکم دے گی کیونکہ میں یہاں پارٹی کی وجہ سے ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ نے اُجین ضلع انتظامیہ کو ایک خط لکھا جس میں اس سے غیر قانونی گھروں کے رہائشیوں کو معاوضہ نہ دینے کی درخواست کی گئی۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے انتظامیہ کو عدالت میں چیلنج کیوں نہیں کیا۔ پٹیل نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ریاست میں 90 فیصد سے زیادہ وقف املاک یا تو تجاوزات کا شکار ہیں یا عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

اس دوران مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ترجمان آشیش اگروال نے دعویٰ کیا کہ ریاستی حکومت نے اُجین کی زمین ’’اپنی ضرورت کی بنیاد پر اور طے شدہ قوانین پر عمل کرتے ہوئے‘‘ حاصل کی۔ انہوں نے مزید بات کرنے سے انکار کر دیا۔

'تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی'

بھارت کے وقف بورڈ 1954ء کے وقف ایکٹ کے تحت قائم کیے گئے ہیں، اور مسلمان تب سے حکومتی تعاون کے ساتھ ان اداروں کو چلا رہے ہیں۔ بعد کے سالوں 1995ء اور 2013ء میں مزید قوانین پاس ہوئے جنہوں نے وقف بورڈز کو مزید اختیارات دیے اور حتیٰ کہ وقف ٹربیونلز بھی قائم کیے جو کہ متبادل عدالتیں ہیں جن کا مقصد وقف املاک سے متعلق تنازعات کو حل کرنا ہے۔ 

لیکن گزشتہ ماہ کے آخر میں مودی کی کابینہ نے وقف (ترمیمی) بل 2024ء کے مسودے کی منظوری دے دی، جو پرانے قانون میں 14 ترامیم تجویز کرتا ہے۔ چند متنازعہ مجوزہ ترامیم میں غیر مسلم افراد کو وقف بورڈ کے اراکین کے طور پر مقرر کرنے کی اجازت دینا، اور ایسی جائیدادوں کو جو 'وقف' سمجھی جاتی ہیں، ان کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ لازمی رجسٹریشن شامل ہے۔

’’یہ مساجد اور درگاہوں [مزاروں] کی زمین پر قبضہ کرنے کی شروعات ہے۔ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی‘‘  اپوزیشن کی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ (اے اے پی) کے ایک رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے کہا، جو ایک جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے 31 اراکین میں سے ایک ہیں، جو اس ہفتے پارلیمنٹ میں ترامیم پر ہونے والی تفصیلی بحث سے پہلے ان مجوزہ ترامیم پر اپوزیشن کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کا جائزہ لینے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل انس تنویر نے الجزیرہ کو بتایا کہ اُجین کا معاملہ ’’وقف املاک میں سیاسی مداخلت اور انحطاط کے قومی سطح پر پائے جانے والے خدشات کی عکاسی کرتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’بھارت میں وقف املاک کا انتظام طویل عرصے سے بدانتظامی اور تجاوزات کا شکار رہا ہے‘‘۔ ’’مجوزہ وقف (ترمیمی) بل 2024ء ممکنہ طور پر مسائل کو بڑھا دے گا‘‘۔

لیکن مدھیہ پردیش وقف بورڈ کے چیئرمین پٹیل نے دعویٰ کیا کہ حکومت یہ ترامیم ’’موجودہ مسائل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور بے ضابطگیوں کو دور کرنے‘‘ کے لیے لائی ہے۔

سوچی سمجھی بے دخلی

جیسا کہ یہ سوچی سمجھی ترامیم اس بارے میں خدشات کا باعث بنی ہیں کہ ان کے ذریعے حکومت کو وقف املاک پر زیادہ کنٹرول ملنے کا امکان ہے، بہت سے مسلم کمیونٹی کے رہنما اور وکلاء کا کہنا ہے کہ موجودہ قانون کے تحت بھی ان زمینوں پر بڑے پیمانے پر تجاوزات کی گئی ہیں۔

ماہرین نے حکومت کے زیر انتظام وقف املاک میں جان بوجھ کر بے دخلی، بدانتظامی اور بدعنوانی کے دہائیوں پرانے طرزِ عمل کا حوالہ دیا ہے۔ انہیں ضلعی ریونیو حکام اور دیگر حکام کی طرف سے وقف املاک کی منظم منتقلی، اور وقف اراضی پر بڑے پیمانے پر غیر قانونی قبضے اور اسے نجی ملکیت میں تبدیل کرنے کے حوالے سے شکایت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر وقف اراضی یا املاک کو حکومت کے ریونیو ڈپارٹمنٹ نے غیر وقف قرار دے دیا ہے، جو کہ ریاستی ادارہ ہے جس کے پاس زمین کا ریکارڈ ہے اور وہ ان سے متعلق ٹیکس جمع کرتا ہے۔ 

مدھیہ پردیش وقف بورڈ نے اب تک اپنی جائیدادوں کے دو سروے کیے ہیں: 1960ء کی دہائی کے آخر میں اور 1980ء کی دہائی میں، جن سے پتہ چلا کہ 23,000 سے زیادہ جائیدادیں اس کے کنٹرول میں ہیں۔ اس کے بعد کے سالوں میں اس نے اپنے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا اور بہتر شناخت کے لیے انہیں جیو ٹیگ (جغرافیائی نشانزدہ) کیا۔ تاہم ماہرین یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ حکومت کے ریونیو ڈپارٹمنٹ کے پاس زمین کے پرانے ریکارڈ ہیں جو اکثر آزادی سے پہلے کے سروے پر مبنی ہیں۔ 

اس کے باوجود کہ 1954ء کے وقف ایکٹ کی رو سے یہ لازمی تھا کہ وقف بورڈ کے سروے کی بنیاد پر محکمہ اپنے زمین کے ریکارڈ میں متعلقہ تبدیلیاں کرے، لیکن ریونیو ریکارڈ کو اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر 1985ء کے گزٹ کے مطابق اُجین میں 1,014 وقف املاک تھیں لیکن ان میں سے کوئی بھی ریونیو ریکارڈ میں وقف اثاثہ کے طور پر درج نہیں ہے۔

اُجین کے ایک وکیل عاشر وارثی کی طرف سے دسمبر کے دوران مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک عوامی مفاد کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’ان 1,014 اثاثوں میں سے 368 کو سرکاری ملکیت کے طور پر درج کیا گیا ہے، 454 کو نجی کے طور پر، اور 192 جائیدادوں کے ریکارڈ یا تو نامکمل ہیں یا مکمل طور پر غائب ہیں‘‘۔

2000ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہونے والی زمین کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن نے مسئلے کو مزید بڑھا دیا۔ چونکہ سافٹ ویئر میں صرف دو کالم تھے: سرکاری اور نجی، (فوری حل کے طور پر) ریونیو ریکارڈ میں وقف کی ملکیت کے طور پر ذکر کردہ زمینیں اکثر سرکاری کالم میں منتقل کر دی گئیں۔

وقف اراضی کی بحالی کے لیے مہم چلانے والے ایک کمیونٹی گروپ کے رکن مسعود خان نے کہا کہ ’’اس کی وجہ سے بھوپال کی تاریخی موتی مسجد جو 1857ء میں بنی تھی وہ ایک سرکاری جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ ہے، جو کہ مضحکہ خیز ہے‘‘۔ خان نے وقف ٹربیونل میں شکایت درج کرائی ہے جس میں ریونیو ڈپارٹمنٹ کو مسجد سے متعلق اپنے ریکارڈ میں اصلاحات کرنے کی ہدایت جاری کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

الجزیرہ نے مدھیہ پردیش کے ریونیو منسٹر کرن سنگھ ورما سے پوچھا کہ سرکاری ریکارڈ میں ریونیو ریکارڈ کو اپ ڈیٹ کیوں نہیں کیا گیا۔ ان کے دفتر نے جواب دیا کہ ’’چونکہ یہ ایک طویل مسئلہ ہے، وزیر کو اس کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہے۔ ہم اس معاملے کو دیکھیں گے‘‘۔

بدانتظامی اور بدعنوانی

مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اُجین کا قبضہ ایک منفرد واقعہ نہیں ہے، بلکہ مدھیہ پردیش اور بھارت کے دیگر حصوں میں دیکھے جانے والے ایک سلسلہ کا حصہ ہے۔

وارثی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومتوں اور اس کے عہدیداروں کی نگرانی میں وقف املاک کی منظم اور جان بوجھ کر لوٹ مار‘‘ ہو رہی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش وقف بورڈ اور وفاقی اقلیتی بہبود کی وزارت کی جانب سے 2001ء سے 2023ء کے درمیان مدھیہ پردیش حکومت کو اپنے ریونیو ریکارڈ میں اصلاحات کرنے کا مشورہ دینے کے متعدد خطوط بھیجنے کے باوجود، اس نے اس مسئلے پر ’’کوئی توجہ نہیں دی‘‘ جس سے ’’وقف املاک کی لوٹ مار بلاروک ٹوک جاری رہی‘‘۔

سپریم کورٹ کے وکیل اور وقف قانون کے ماہر محمود پراچہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’’ملک بھر میں وقف زمین کے ریکارڈ اور ریونیو ریکارڈ کے درمیان عدمِ مطابقت ایک عام رجحان ہے جو تجاوزات کرنے والوں کو تقویت دے رہا ہے‘‘۔

جنوری 2021ء میں مدھیہ پردیش حکومت نے ایک این جی او کو، بی جے پی کے رہنما جس کے ٹرسٹیز تھے، بھوپال میں 1.2 ہیکٹر (2.88 ایکڑ) وقف اراضی حاصل کرنے کی اجازت دی۔ زیادہ تر مسلم آبادی والے محلے میں واقع یہ جگہ ریاستی ریکارڈ میں قبرستان کے طور پر نامزد تھی اور اس پر آدھی درجن قبریں تھیں۔

اس سے پہلے کہ وقف بورڈ کا ٹربیونل یا کوئی عدالت اس کے حصول پر پابندی لگا سکتی، این جی او نے 2021ء میں اس کے اردگرد ایک دیوار بنائی اور پھر وہاں ایک کمیونٹی ہال کی تعمیر کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ حکام نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا اور کسی بھی احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی نفری تعینات کر دی۔

خان نامی ایک کارکن کا کہنا تھا کہ ’’وقف ایکٹ ضلعی انتظامیہ یا حکومت کو غیر مجاز تعمیرات کو ہٹانے کا پابند کرتا ہے، لیکن جب حکومت خود تجاوزات میں ملوث ہو تو قانون پر کون عمل کرے گا؟‘‘

وقف بورڈ کے ارکان کا کہنا ہے کہ بھوپال، اندور اور مدھیہ پردیش کے دیگر شہروں میں سینکڑوں وقف املاک یا تو ریاستی حکومت کی تجاوزات میں ہیں یا بااثر نجی افراد کے پاس ہیں۔

ایک وقف بورڈ کے رکن نے گمنام رہنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ’’مدھیہ پردیش پولیس ہیڈکوارٹر، بھوپال پولیس کنٹرول روم، ٹریفک پولیس اسٹیشن اور کئی دیگر سرکاری دفاتر وقف کی ملکیت والی قیمتی زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاستی دارالحکومت سے 100 سے زیادہ قبرستان غائب ہو گئے ہیں، جہاں کبھی تقریباً 140 قبرستان تھے۔

اکثر متولی یعنی وقف بورڈ کی طرف سے مقرر کردہ جائیداد کے نگہبان، وقف زمین کی دھوکہ دہی سے فروخت یا وقف املاک پر غیر مجاز تعمیرات میں ملوث پائے گئے ہیں۔

دسمبر 2024ء میں مدھیہ پردیش پولیس نے ناصر خان نامی ایک شخص کو، جو اندور میں ایک وقف جائیداد کا سابق نگہبان تھا، مبینہ طور پر ذاتی فائدے کے لیے وقف دستاویزات میں جعل سازی کرنے اور شہر میں ایک کروڑوں روپے کی وقف جائیداد فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ پولیس کو اس کے گھر سے جعلی لیٹر ہیڈ اور سرکاری وقف بورڈ کی مہریں ملیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سالوں سے جاری حکومتی اور نجی تجاوزات، بدعنوانی اور بدانتظامی نے وقف املاک کو کمزور کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی ترامیم کے ساتھ حکومت انہیں قانونی طور پر اپنے قبضے میں لینا چاہتی ہے۔

وکیل پراچہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’’بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، زمینوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ چونکہ وقف بورڈ پورے بھارت میں قیمتی جگہوں پر وسیع املاک کے مالک ہیں، حکومت تازہ ترین ترمیم کا استعمال کرتے ہوئے ان زمینوں پر ایک ہی بار میں کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے’’۔

www.aljazeera.com


(الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — اگست ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۸

ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علمِ حدیث کی تاریخ؛ آغاز و ارتقا
ڈاکٹر سید عبد الماجد غوری
فضل الرحمٰن محمود

’’سنتوں کا تنوع‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
ابو الاعلیٰ سید سبحانی

مسئلہ تکفیر پر چند معاصر کتب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مسلمانانِ عالم کی موجودہ صورتِ حال اوراس کا تدارُک
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہے
سید علی خامنہ ای

حد سے تجاوز کی معاشرتی روایات اور اسلامی تعلیمات
مولانا مفتی محمد
مولانا مفتی طارق مسعود

مولانا محمد فاروق شاہین: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق
مولانا حافظ عزیز احمد

جمعہ کے دن خرید و فروخت اور ہفتہ وار تعطیل کی شرعی حیثیت
مفتی سید انور شاہ

Ummul-Mumineen Khadija Radhi Allahu Anhaa
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر : باقاعدہ سلسلہ کی تکمیل
ابو الاعلیٰ سید سبحانی
ادارہ الشریعہ

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۲)
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۳)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۶)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

ماہانہ بلاگ

قانونِ ناموسِ رسالت پر فوری اور مؤثر عمل درآمد کیا جائے
ڈاکٹر محمد امین

توہینِ مذہب کے مقدمات اور اسلام آباد ہائی کورٹ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان کا دستوری نظام اور افغانستان کا قانونِ اساسی 2004ء
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
محمد اسرار مدنی

غزہ میں جنگ بندی کیوں نہیں ہو پا رہی ہے؟
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے والے ممالک اور آسٹریلیا کا موقف
اے بی سی نیوز آسٹریلیا
ویکی پیڈیا

بھارت کے چودہ ارب ڈالرز کے مسلم اوقاف کو کیسے لوٹا جا رہا ہے؟
الجزیرہ

دس فٹبالرز جنہوں نے اسلام قبول کیا
اسلام آن ویب

پاکستان کے قانون کی رو سے ٹرانسلیشنز اور ٹرانسکرپٹس کے جملہ حقوق
ادارہ الشریعہ

پاکستان کا ایٹمی پروگرام: کب، کیوں اور کیسے؟
ڈاکٹر رابعہ اختر
وائس آف امریکہ

ایٹمی قوت کے حصول کا سفر اور ایٹمی سائنسدانوں کا ’’جرم‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان کا جوہری ریاست بننے کا سفر
مڈل ایسٹ آئی
ٹی آر ٹی ورلڈ

ڈاکٹر عبد القدیر کون تھے اور ان کے رفقاء انہیں کیسے یاد کرتے ہیں؟
قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن
دی سینٹرم میڈیا

یومِ تکبیر کی کہانی، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی زبانی
ڈاکٹر ثمر مبارک مند
جاوید چودھری

دو ایٹمی ادارے: پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹریز
ادارہ الشریعہ

پراجیکٹ 706 :   پاکستان کی جوہری بم سازی
دی سینٹرم میڈیا

1998ء :  بھارتی ایٹمی تجربوں سے پاکستان کے ایٹمی تجربات تک
کیری سبلیٹ

ہم نے جنوبی ایشیا میں دفاعی توازن قائم کر دیا ہے
ڈاکٹر عبد القدیر خان
دی نیوز پاکستان

مطبوعات

شماریات

Flag Counter