شہرِ عزیمت غزہ میں دنیا کے کروڑوں مسلمانوں، ان کے اداروں، ان کی فوجوں، ان کے ممالک، او آئی سی وغیرہ کے ہوتے ہوئے بھی جو تباہی مچی ہے، معصوموں کا جو معصوم خون بہا ہے اس سے عام مسلمانوں اور خاص کر نوجوانوں کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں۔ ان کے دلوں میں اضطراب ہے، دماغوں میں بے چینی اور سوالوں کا طوفان بپا ہے۔ جذبات بھڑکنے بھی چاہییں مگر یہ دنیا جذبات کی بنیاد پر نہیں چل رہی۔ یہ اسباب کی دنیا ہے، علت و معلول کی دنیا ہے۔ اس لیے وسائل اور اسباب کو اختیار کرنا بے حد ضروری ہے، ہمارے دین کی تعلیم یہی ہے۔ اور اس سے پہلے یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ موجودہ دنیا میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا دشمن کہاں کھڑا ہے۔
نقاطِ قوت
مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ جغرافیائی محلِ وقوع عالمِ اسلام کو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ دنیا کو بحری تجارت کے لیے جن آبی گزرگاہوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ زیادہ مسلم ممالک سے ہو کر گزرتی ہیں۔ مثلاً بحرِ احمر اور مصر کا سوئز کینال وغیرہ۔
اسی طرح قدرتی ریسورسز (معدنیات، پیٹرول، گیس، سونے چاندی کے ذخیرے نیز rare minerals سے متعدد مسلم اور خاص کر عرب ممالک مالا مال ہیں اس لیے آج سعودی عرب ایک بہت بڑی اکانومی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اپنے جدید ترین انفرااسٹرکچر کے ذریعے اپنے آپ کو دنیا کا تجارتی سینٹر بنا دیا ہے جو اس کی اکانومی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیا نے ٹیکنالوجی میں خاصی ترقی کی ہے۔
نیز افرادی قوت (manpower)، مسلم ملکوں میں آبادی بہت ہے۔ ان میں سے کئی ملکوں کے پاس طاقتور افواج ہیں مثلاً ترکی، پاکستان، مصر اور ایران، الجزائر اور مراکش وغیرہ۔ حالیہ دنوں میں ایران پر طاغوتی قوتیں اسرائیل اور امریکہ دونوں حملہ آور ہوئیں جن کا مقابلہ اس نے پامردی سے کیا۔ پاکستان نے جواں مردی سے انڈیا کے ہندتوا کے بڑھتے قدم روکے۔
نقاطِ ضعف
اس سب کے ہوتے ہوئے بھی مسلمان امت دنیا میں اتنی بے وزن کیوں ہے؟ عالمی اداروں میں اس کی کوئی say (مؤثر آواز) کیوں نہیں ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو بہتوں کو پریشان رکھتا ہے۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے کمزوری کے پوائنٹس پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ یہ نقاطِ ضعف داخلی و خارجی دونوں سطحوں پر ہیں اور اس طرح کے ہیں کہ ان سے صَرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا:
امت کا تصور عملاً ختم ہونا
سب سے پہلے تو امت کا تصور عملاً ختم ہوگیا ہے۔ اسلامی ادبیات میں اب بھی مسلم امہ کا ذکر خوب ہوتا ہے مگر اب وہ صرف ایک روحانی اور اخلاقی تصور بن کر رہ گیا ہے۔ اب مسلمان بھی عملاً چھوٹی چھوٹی قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان قومیتوں اور ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ سب سے پہلے سعودی عرب، سب سے پہلے پاکستان، سب سے پہلے مصر، سب سے پہلے ترکیہ، یہ مسلم دنیا کی عمومی صورت حال ہے۔ نیشن اسٹیٹ یا قومی ریاستوں کا یہ مظہر جدید سیاسی تصورات کی دین ہے اور اس کے عواقب بڑے خطرناک ہوئے ہیں، جن کو اہلِ نظر نے پہلے ہی محسوس کر لیا تھا۔ اقبالؒ نے یوں ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیراہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
ایران پر امریکہ و اسرائیل کے حالیہ حملوں میں بھی مسلم دنیا کا رول مذمت کے بیانات سے آگے بڑھ کر کچھ سامنے نہیں آیا اور اس کی قابلِ رحم حالت پھر سب کے سامنے اجاگر ہو گئی۔
مسلم حکمرانوں اور بادشاہوں میں قوتِ ارادی کا فقدان
مسلمان حکمرانوں اور بادشاہوں کے پاس کوئی will power نہیں، ورنہ اگر یہ سب متحد ہو کر واقعی کوشش کرتے تو غزہ میں جاری فلسطینی مسلمانوں کا قتلِ عام روک سکتے تھے۔ مگر تلخ صورتِ حال یہ ہے کہ شروع میں تو حرم میں غزہ کے لیے دعا بھی منع تھی اور غزہ کا نام لینے پر گرفتار کر لیا جاتا تھا، اب ہلکی پھلکی دعا کی اجازت ہے جس سے اسرائیل اور امریکہ کے ماتھے پر کوئی شکن نہ آئے۔ اس سے بھی زیادہ شقاوت اور بے حسی کی انتہا یہ کہ سعودی عرب کے جدہ اور ریاض میں برابر امریکی رقاصہ جینیفر لوپیز کے عریاں کنسرٹ حکومت کی سرپرستی میں کرائے جاتے رہے اور اب بھی یہ مکروہ سلسلہ جاری ہے۔
اس بارے میں علماء کرام اور دینی جماعتوں کے ذمہ داران نے بھی اپنا شدید احتجاج درج نہیں کرایا۔ مسلمان علماء و دانشور، صحافی، سیاست داں اور عوام اتنی بڑی تعداد میں باہر نکل کر نہیں آئے کہ وہ اپنی حکومتوں اور اپنی آرمی پر کوئی دباؤ بنا سکتے۔ اپنی پارلیمنٹوں سے اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دلوا سکتے۔ اگر وہ ایسا کر لیتے تو شاید مغربی قوتیں ان کا کچھ تو نوٹس لینے پر مجبور ہوتیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پاکستان، ہند اور بنگلادیش کے وہ علماء جو ملوکیت کے خادم اداروں کے ممبر بنے ہوئے ہیں وہ ان سے استعفاء دیں گے۔ کیونکہ قلبِ اسلام میں سرکاری سرپرستی میں جن فواحش کو رواج دیا رہا ہے ان کی موجودگی میں ایسی ممبرشپ کو قبول کیے رہنے کا کوئی جواز ہماری نظر میں نہیں ہے۔
افسوس کہ یہ تمام مسلم حکمران ایران اور یمن کے مجاہد حوثیوں کو چھوڑ کر اسرائیل کو ایک حقیقتِ واقعہ سمجھ کر قبول کر چکے ہیں۔ اس حقیقت کو بھی مزاحمتی قوتوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب ممالک کا کردار حکیمانہ ہے کیونکہ وہ پوزیشن میں بالکل نہیں ہیں کہ مغرب سے کوئی تصادم مول سکیں۔ اور اسرائیل سے جنگ کرنے کا مطلب اصل میں امریکہ سے جنگ کرنا ہے۔ یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے کہ اسرائیل دراصل مغرب کی استعماری چوکی ہے اور اس کے سلسلہ میں مغرب کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ تاہم عرب اور اسلامی ممالک کا موقف حکیمانہ بالکل نہیں رہا بلکہ بزدلانہ اور مجرمانہ رہا۔ اس کو حکیمانہ اس وقت کہا جا سکتا تھا جب وہ غزہ میں معصوم جانوں کو بچانے کے لیے عملاً کچھ کرتے۔ اسرائیل کی جارحیت رکواتے، وہاں انسانی امداد داخل ہونے دیتے اور غزہ کی ظالمانہ ناکہ بندی ختم کرواتے۔ جن لوگوں کو رات دن ذبح کیا جا رہا ہو اور بموں سے زندہ جلایا جا رہا ہو ان کے لواحقین کو آپ مفت میں حج و عمرہ کرا کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے! گرچہ حکومتی سطح پر سعودی عرب کا حالیہ موقف بہتر ہے کہ اُس نے علی الاعلان کہا ہے کہ ہم اسرائیل کو تبھی تسلیم کریں گے جب وہ دو ریاستی حل کو مان کر فلسطین کے قیام کے لیے راضی ہو جس کا دارالحکومت قدس ہوگا۔ اس کے علاوہ ریاستی سطح پر سعودی عرب کا نمائندہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں بھی پیش ہوا۔
مسلم خصوصاً عرب حکمرانوں کا فدویانہ طرز عمل
مسلم حکمرانوں اور امراء کی سوچ اور خاص کر عرب حاکموں کی اپنے عوام سے کس قدر دور ہے؟ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو ماہ قبل چودہ مئی کو امریکی صدر ٹرمپ سعودی عرب اور قطر اور امارات کے دورے پر تھے۔ اس دورے میں عرب حکمرانوں نے جس طرح ان کا شاہانہ استقبال کیا، جس طرح ملینوں ڈالر کا طیارہ قطر نے ان کو تحفہ میں دیا۔ جس طرح تینوں ملکوں نے اربوں کے ہتھیار امریکہ سے خریدنے کے معاہدے سائن کیے۔ وہ اپنے آپ میں شرمناک ہے۔ ساتھ ہی یہ لوگ اپنے فدویانہ جذبہ سے مغلوب ٹرمپ سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت رکوانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کہہ سکے۔ الٹے ٹرمپ نے ان کو غزہ کا نام لے کر وہاں سے ہو رہی اسرائیل کے خلاف مزاحمت/نام نہاد دہشت گردی کو لے کر ان کو لیکچر دیا۔ ٹرمپ نے طوطے کی طرح اسرائیلی بیانیہ دہرا دیا اور ان سننے والے جلالۃ الملوک میں سے کسی نے بھی اتنا حوصلہ نہیں دکھایا کہ تصویر کا دوسرا رخ یعنی عرب سائیڈ آف اسٹوری ہی ٹرمپ کے سامنے رکھی جاتی۔
مزاحمتی قوتوں کو یہ تلخ حقیقت اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ ان کا بیانیہ نہ صرف غیروں بلکہ اپنوں میں بھی نہیں چل پا رہا ہے۔ ٹرمپ نے ریاض میں جی سی سی ممالک کے حکمرانوں اور ان کے مندوبین کے سامنے حکمرانوں پر تعریفوں کے ڈونگرے تو برسائے۔ محمد بن سلمان کو کہا کہ ’’تم اتنا کام کرتے ہو، سوتے ہو یا نہیں؟ تم لوگوں نے تو مشرق وسطیٰ میں بالکل انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اتنی بڑی بڑی بلڈنگیں، یہ اسکائی اسکریپر! واہ واہ کیا بات ہے! جانی کھڑے ہو جاؤ‘‘۔ اور اس حکم پر نہ صرف بن سلمان بلکہ اس کی حکومت کے تمام کارندے اور سارے خلیج کے مندوبین کمال نیازمندی سے کھڑے ہوگئے!
ٹرمپ کے اس دورے نے ایک بار پھر ہمارے سامنے اس حقیقت کو ننگا کر دیا کہ یہ حکمران مالدار اور کھرب پتی سہی لیکن اپنی کمزوری میں یہ صحیح معنی میں مضبوط حکمران نہیں بلکہ صرف اور صرف ملوک الطوائف ہیں اور اندلس کے ملوک الطوائف کی طرح ہی بے غیرت اور بے حس بھی ہیں اور بے حوصلہ بھی۔ ٹرمپ کے حالیہ دورۂ مشرق وسطیٰ میں یو اے ای نے دوشیزاؤں کے hair splitting dance کے ذریعہ امریکی ڈکٹیٹر کے استقبال سے مسلم ثقافت کو شرمسار کیا۔ تینوں ممالک نے اپنی اپنی کرسی کی حفاظت کے بدلے 1.4 ٹریلین ڈالر کے سودے کیے۔ قطر نے تو تملق کی حد کر دی کہ 400 ملین ڈالر کا جیٹ طیارہ ٹرمپ کو گفٹ کیا۔ یہ قومی خزانے قوم سے پوچھ کر خرچ نہیں کیے گئے، ان کا کوئی حساب لینے والا بھی نہیں۔ یہی فرق ہوتا ہے شخصی حکومتوں اور جمہوریت میں۔ یہ قومی خزانے اس پورے خطے کی قسمت بدل سکتے تھے اگر ان کو قوم کی فلاح و بہبود کے لیے، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے اور عالمِ عرب کی عام اٹھان کے لیے ایمانداری سے خرچ کیا جاتا۔
اس موقع پر منعقدہ ہوئے جی سی سی ممالک کے ہائر رینک اجلاس میں گرچہ کئی حکمرانوں نے دبے لفظوں میں غزہ کی بات کی، جبکہ ٹرمپ نے اس عرب سخاوت و مہمان نوازی کا بھی کوئی لحاظ نہ کر کے دوحہ میں صاف کہہ دیا کہ غزہ میں آئی مصیبت کی ذمہ دار حماس ہے اس کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے اور تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ جس وقت ٹرمپ اس ٹور پر تھے اسرائیل تابڑ توڑ زمین سے، فضا سے اور سمندر سے حملے کر کے دو سو فلسطینیوں کا قتلِ عام کر رہا تھا، جس پر کسی بھی مغربی ملک سے کوئی مذمت کا بیان جاری ہوا نہ عرب حکمرانوں کی طرف سے۔
ٹرمپ کے دورۂ شرقِ اوسط سے قبل ہی حماس نے امریکہ سے مذاکرات کے نتیجہ میں یکطرفہ اور خیرسگالی کے اشارہ کے طور پر دوہری شہریت کے حامل نوجوان امریکی فوجی یرغمالی عیدان الیگزینڈر کو رہا کر دیا۔ اور جیسا کہ طے پایا تھا امید تھی کہ اس کے بدلے میں غزہ میں انسانی امداد کو آنے دیا جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ٹرمپ بھلے ہی اسرائیل نہ آیا ہو مگر اس کی انتظامیہ پورے طور پر بنجمن نتن یاہو کے ساتھ ہی کھڑی ہے۔ اور اس میں ٹرمپ میں اختلافات کی کہانی محض ایک افواہ ہے۔
امریکی مندوب اسٹیو وٹکوف بھی اسرائیل کی بولی ہی بولتا رہا کہ حماس کو غزہ میں رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وٹکوف کو معلوم ہوگیا ہے کہ بنجمن نتن یاہو (یاد رہے کہ بائبل میں بن یامین کو پھاڑ کھانے والا بھیڑیا کہا گیا ہے، جینیسس باب 27: 49) کسی پریشر میں آنے والا نہیں ہے اور ٹرمپ اس پر براہ راست کوئی پریشر ڈالنے کا خطرہ مول بھی نہیں لے گا۔
اگر عرب زعماء اپنے خزانوں کو اتنی سخاوت سے ٹرمپ پر نثار کرنے کے بدلے کچھ جرأت کا مظاہرہ بھی کر پاتے تو شاید ٹرمپ اس بارے میں کچھ سوچ سکتا مگر وہ غریب تو شاہ سے زیادہ کون شاہ کا بڑا وفادار ہے، اور کون بڑا خوشامدی ہے، یہ ثابت کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے! اس دورے سے امریکی انتظامیہ کو اس بات کا پورا اندازہ ہو چکا ہے کہ غزہ غریب تو کہیں مالدار عرب ریاستوں کے ایجنڈے میں آتا ہی نہیں۔ وہ اپنے بیانوں اور تقریروں میں اس کے بارے میں جو ایک آدھ لفظ بول دیتے ہیں تو وہ صرف اپنے عوام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے!
ٹرمپ کے حالیہ دورے سے تھوڑا سا فائدہ یہ ضرور ہوا کہ سعودی عرب کی سفارتی محنت سے امریکہ نے شام کی نئی سُنی حکومت کو تسلیم کر لیا اور اس پر سے اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ان پابندیوں نے شام کی اقتصادیات کو بالکل توڑ دیا تھا۔ ٹرمپ کے دورہ کے ختم ہوتے ہی عرب لیگ کا چونتیسواں اجلاس عراق میں ہوا، بڑی گرم گرم اور جوشیلی تقریریں ہوئیں، بیانات دیے گئے مگر گراؤنڈ پر کچھ بھی بدلنے میں بالکل ناکام۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ عرب لیڈروں اور حکمرانوں نے جو ادارے اور تنظیمیں بنائی ہیں ان میں بھی کوئی مؤثر ادارہ نہیں، او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی، عرب لیگ سب غیر مؤثر ہیں۔ سب پر سعودی عرب اس لیے اثر انداز ہے کہ سب کی فنڈنگ وہی کرتا ہے۔
مسلمانوں میں انتشار اور عدمِ اتحاد
اسی کی ایک کڑی مسلمانوں میں انتشار اور عدمِ اتحاد کی کیفیت ہے۔ شیعہ سنی اختلاف تو اپنی جگہ، خود سنی باہم متحارب ہیں۔ عرب ممالک عراق، سیریا، لیبیا، سوڈان وغیرہ میں قبائلی گروہ باہم برسرِ پیکار ہیں اور اس داخلی خانہ جنگی سے نہ صرف عوام تباہ ہو رہے ہیں، قومی املاک برباد ہو رہی ہیں، بلکہ غیر ملکی قوتوں کو برابر مداخلت کا سنہرا موقع مل رہا ہے۔ مسلمان سیاسی قیادت اور خاص کر عرب قیادت کسی پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو جاتی ہے تو وہیں ان کے باہمی گلے شکوے شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، اور یہ منظر عرب لیگ کے ہر اجلاس میں نظر آجاتا ہے۔ حال ہی میں 18 مئی 2025ء کو جو اجلاس ہوا اس میں بھی نظر آگیا کہ بن سلمان اور بن زاید تو وہاں گئے ہی نہیں، امیر تمیم بھی اجلاس میں بغیر شریک ہوئے واپس آگئے۔
مسلم دنیا کے تین بلاک
مسلم ممالک کے عملاً تین بلاک بن گئے ہیں: ایران، سعودی عرب اور ترکی۔ تینوں کے مفادات متصادم ہیں۔
- سعودی عرب اور اس کے ساتھ دوسرے خلیجی ممالک یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، یہ حماس کو بھی own نہیں کرتے (اس کو اپنا نہیں سمجھتے)۔
- ترکی صرف زبانی جمع خرچ کرتا ہے عملاً کچھ نہیں کرتا۔
- ایران اور یمن کے حوثی مقابلہ کر رہے ہیں مگر کمزور ہیں۔
کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ طاقت کا توازن مسلمانوں کے حق میں بالکل بھی نہیں ہے۔ آج تعلیم، سائنس اور اقتصادیات تینوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو فرق ہے وہ سو دو سو سال کا نہیں صدیوں کا ہے۔ پہلے اس کو دور کرنا ہوگا۔ ہم عرب حکمرانوں کی مذمت اکثر کرتے ہیں مگر سچی بات تو یہ ہے کہ خلیج کے عرب ہوں یا عجم کے مسلم حکمران، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ ترکی، پاکستان، ملائیشیا، انڈونیشیا، آذربائیجان اور مصر وغیرہ، شِکوہ تو سب سے ہے، عرب چونکہ قریبی ہیں اور مالی وسائل بھی دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ رکھتے ہیں اس لیے ان کا ذکر زیادہ آ جاتا ہے۔
حماس کی مذمت اور حمایت سے دستبرداری
بعض لوگوں کا خیال ہے، جس کو عرب میڈیا میں خلیج کے حکمرانوں کے گماشتے بڑے پیمانے پر پھیلا رہے ہیں، کہ فی الحال حماس کے پاس اور کوئی آپشن نہیں بچا ہے سوائے اس کے کہ وہ غزہ کو اس وقت چھوڑ دے اور دوبارہ اپنی صفوں کو دوسرے نام سے متحد کرے، آخر کو حضرت سیف اللہ خالد بن الولیدؓ جنگِ موتہ میں اپنے تین ہزار مجاہدین کو ایک لاکھ کے ٹڈی دل رومی لشکر کے نرغہ سے نکال لے گئے تھے، اور مدینہ میں بعض لوگوں نے جب ان کو ’’فرارون‘‘ کے طعنے دیے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی اور کہا ’’بل الکرارون‘‘ یعنی یہ بھاگے نہیں بلکہ دوبارہ تازہ دم ہو کر حملہ کریں گے۔
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مزاحمت و مقاومہ آج ختم ہو جائے اور حماس سرنڈر کر دے تو کل سے ہی اسرائیل فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی شروع کر دے گا۔ امریکہ اس جرم میں اس کے ساتھ شریک ہو جائے گا۔ عرب ممالک تھوڑا بہت شور مچا کر خاموش ہو جائیں گے، بقیہ مسلم و غیر مسلم ممالک نام نہاد عالمی برادری اور عالمی اداروں کی دہائی دیں گے۔ جبکہ غزہ کے المیہ نے مسلسل یہ ثابت کر دیا ہے کہ نہ تو عالمی برادری ہی کہیں موجود ہے اور نہ کوئی عالمی ادارہ حقیقت میں باقی بچا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اسرائیلی لیڈروں کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے والی عالمی عدالت کے چاروں ججوں پر امریکہ بہادر پابندی عائد کر چکا ہے۔ یو این او کے ان ذمہ داران کو بھی امریکہ سزا دے رہا ہے جو اپنے ضمیر کا سودا نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ مذمتی بیانات پر اکتفا کرے گی اور مسئلہ فلسطین ہمیشہ کے لیے مٹی میں دفن ہو جائے گا۔ اس خطرناک مجرمانہ پلان کے راستہ میں صرف مزاحمت ہی حائل ہے۔ اس لیے ہر ممکن جانی و مالی قربانیوں کے ساتھ مزاحمت جاری رہنی چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی آپشن مزاحمتی تنظیموں اور اہلِ غزہ اور اہلِ فلسطین کے پاس نہیں ہے۔
علم و تحقیق میں انحطاط اور اندھی تقلید
مسلم دنیا میں کوئی نئی تحقیق نہیں ہوتی، بزرگوں کی اندھی تقلید ہے، اجتہاد فی الفکر نہیں، عمومی رویہ جمود و تقلید کا ہے۔ جبکہ حقیقت کی دنیا میں ایسا ممکن نہیں ہوتا کہ آپ دینی معاملات میں اندھے مقلد ہوں اور دنیاوی علوم میں ترقی کر کے دکھا دیں، اجتہاد کریں اور نئی نئی ایجادات کریں۔ اس لیے علماء کا یہ عذر، عذرِ لَنگ ہے کہ دین کو ہمارے اوپر چھوڑیں اور دنیاوی معاملات میں اجتہاد کریں کس نے روکا ہے؟ یہ صحیح ہے کہ زیادہ ذمہ داری حکومتوں کی ہے مگر علماء و دانشور بھی بری الذمہ نہیں کہے جا سکتے۔ انسان کی زندگی خانوں میں نہیں بٹی کہ ایک خانہ میں آپ بالکل اندھی تقلید کریں اور دوسرے خانہ میں آپ کا ذہن جدت سے کام لے اور اجتہاد کر سکے، ایسا نہیں ہوتا۔ دونوں ہی خانوں میں آپ کو نئی فضا بنانی ہو گی۔ علمی تحقیق کا راستہ کھولنا ہوگا، آزادئ رائے کا احترام کرنا ہوگا، اختلاف کو برداشت کرنا ہوگا، سب کو مواقع دینے ہوں گے تب جا کر آپ کا ذہن فعال ہوگا اور مثبت کام کرے گا۔ ذہین لوگ مسلم ممالک سے نکل نکل کر کیوں مغرب جا رہے ہیں؟ brain drain کیوں ہو رہا ہے اس پر سوچنا ہو گا۔
سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانا
ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ چالیس پچاس سال میں جتنے نوبل پرائز دیے گئے ہیں وہ یہودی اسکالروں اور سائنس دانوں نے حاصل کیے ہیں۔ مسلمانوں نے جو انعامات حاصل بھی کیے ہیں ان کا تعلق بھی چند کو چھوڑ کر ادب، حقوقِ انسانی سے ہے یا امن ایکٹوزم سے، سائنس و ٹیکنالوجی سے نہیں۔ تاہم نوبل انعام کے بارے میں بہت سے مسلمانوں کو شک و شبہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں تعصب برتا جاتا ہے۔ مان لیا، لیکن سوال تو یہ ہے کہ فیصل ایوارڈ میں بھی مسلمان عموماً خدمتِ اسلام، عربی ادب اور حدیث یا فقہ وغیرہ میں خدمات پر یہ انعام حاصل کرتے ہیں۔ طب، سائنس و ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت وغیرہ میں حاصل نہیں کر پاتے!
علماء کرام کہتے ہیں کہ ہم نے تو کبھی قوم کو سائنس و ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے سے منع نہیں کیا۔ یہ بات درست ہے مگر یہ آدھا سچ ہے۔ آپ نے کبھی منع نہیں کیا تو کبھی قوم کو اس کی جانب شدت سے راغب بھی نہیں کیا۔ آپ کے ہاں سیکولر اور دنیاوی علوم کو ہمیشہ ثانوی درجہ دیا گیا۔ اس کے بجائے مسلمان اہلِ علم و اہلِ دانش اسلامائزیشن آف نالج جیسے غیر مفید مشغلوں میں لگ گئے۔ بلکہ آپ کے ہاں ایسی کتابیں لکھی جاتی رہی ہیں: فوز مبین در رد حرکتِ زمین، اور ایسے علماء کی فالوونگ عام مسلمانوں میں بہت زیادہ ہے۔ برصغیر کی بات کریں تو آپ نے اپنے مدارس میں آج تک معمولی سی لیپا پوتی کرنے کے علاوہ کوئی انقلابی تبدیلی نصابوں میں نہیں کرنے دی۔ ماضی قریب میں ترکی کے شیخ الاسلام نے عثمانی مملکت کو نئی ٹیکنیک اختیار کرنے سے روکا تھا، اس کا کیا جواز تھا؟ اس کی اور بھی تلخ مثالیں موجود ہیں۔
یہودیوں اور اسرائیل سے یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے ترقی یافتہ ملکوں میں بہتر مواقع اور بہترین زندگی اور عیش و آرام کو چھوڑ کر سو سال پہلے فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں بنجر زمینوں کو آباد کیا، بڑی محنت کی اور اپنی زرعی و تجارتی کالونیاں بنائیں، تعلیم گاہیں قائم کیں، اپنی ملیشیائیں بنائیں، اور اپنی اسرائیلی قومیت کے لیے رات دن کام کیا۔ اپنی مردہ ہو چکی عبرانی زبان کو ایک زندہ زبان میں بدل دیا۔ جب فلسطین کا ایک خطہ یونائیٹڈ نیشنز اور یونائیٹڈ کنگڈم کی ملی بھگت سے ان کو مل گیا تو اس کو ہر اعتبار سے ترقی یافتہ اور کامیاب ملک بنا دیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور عسکری قوت میں اتنا آگے اسے لے گئے کہ آج اس خطہ میں یہ چھوٹا سا ملک ناقابلِ تسخیر مانا جاتا ہے اور تمام عرب ملکوں پر فوقیت رکھتا ہے۔
یہودیوں کی اس اجتماعی کوشش کا مقابلہ مسلمانوں کی تحریکات سے کریں تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں میں کسی مقصد کے لیے مسلسل ایکٹو (متحرک) رہنے کی روایت نہیں ہے، وہ جوش و خروش کے ساتھ وقتی طور پر اٹھتے ہیں اور پانی کے بلبلے کی طرح جلد ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ چھٹ پٹ گوریلا کارروائیوں سے، جن میں عام انسان بھی مارے جاتے ہیں، اب الٹے نتائج نکل رہے ہیں، جیسے کہ حماس کا سات اکتوبر کا حملہ طوفان الاقصیٰ کاؤنٹر پروڈکٹِو ثابت ہوا۔ ایسے ہی دنیا میں اور مقامات پر ہونے والے واقعات۔ اس طرح کے واقعات کو ہمیشہ ہی مخالف قوتیں دوسرا رنگ دے کر دہشت گردی (terrorism) قرار دے دیتی ہیں جس کے خلاف اب ایک عالمی اجماع بن چکا ہے۔ دنیا کے اس اجتماعی فیصلہ کے خلاف جانے کے نتائج بڑے سنگین ہوتے ہیں خصوصاً اس صورت میں جبکہ آپ کے ساتھ کوئی طاقت نہ کھڑی ہو۔ افغانستان کا جہاد روس کے خلاف اس لیے کامیاب ہوا کہ اس میں امریکہ پوری طرح مجاہدین کی پشت پر کھڑا تھا اور ریاست پاکستان بڑا رول ادا کر رہی تھی۔ اور جس جگہ کسی قوت کا ساتھ نہ ہو تو پھر نتیجہ وہی ہوتا ہے جو غزہ کی تباہی کی صورت میں ساری دنیا کے سامنے ہے۔
بغیر تیاری کے میدان میں کود پڑنا
گزشتہ دو سو سال کی تاریخ امتِ مسلمہ کی پسپائی اور شکست و ہزیمت کی تاریخ ہے جو سید احمد شہیدؒ کی تحریک سے شروع ہوتی ہے اور آج تک چلی آتی ہے۔ امیر عبدالقادر الجزائریؒ، امام شاملؒ، عمر مختار سنوسیؒ اور اب فلسطین کا جہادِ آزادی سب کی کہانی ایک جیسی ہے۔ یہاں ایک بار پھر اقبال رہبری کرتے ہیں ؎
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے پھُونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے زندگی کی قُوّتِ پنہاں کو کر دے آشکار تا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے سُوئے گردُوں نالۂ شب گیر کا بھیجے سفیر رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!
صہیونیت اور ہندوتوا کا اثر و رسوخ
عالمی سطح پر دو بڑی لابیاں ہیں: صہیونی، ہندوتوا۔ صہیونی تو دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ہندوتوا کے لوگ بھی اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ RSS ہندوستان میں حکمراں ہے اور مغرب میں بھی سرگرم ہے۔ ٹرمپ حکومت میں اس وقت اوشا وینس، اور تلسی گبارڈ بڑے عہدوں پر ہیں۔ آخر الذکر اسلامو فوبیا سے متاثر ہے اور ہندوتوا لابی سے بہت قریب۔
ان دونوں لابیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس صرف جذبات ہیں اور کوئی عملی لائحہ عمل نہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کی بات کریں تو وہاں جنوب ایشیا کے مسلمانوں کی کوئی لابی نہیں۔ یہ لوگ وہاں صرف اپنے آبائی ملکوں کی سیاست میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ پاکستانی ڈائسپورا (نژاد) کے لوگ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کے درمیان جھولتے رہتے ہیں۔ البتہ فلسطینی ڈائسپورا، استاد، اسٹوڈنٹ وغیرہ سرگرم رہے ہیں اور ان کی وجہ سے ہی اب رائے عامہ میں فلسطین کے لیے آواز بلند ہوئی اور لوگ سڑکوں پر نکل کر آتے رہے۔
شرک و بدعت کی اندرونی صورتحال
اندرونی طور پر مسلمان امت شرک و بدعات میں بری طرح گرفتار ہے۔ جس کا شکوہ حالی نے مسدس میں بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے ؎
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جھکے آگ پر بہرِ سجدہ تو کافر
جو ٹھیرائے بیٹا خدا کا تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں
پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے
نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں
وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں
یہ شرک و بدعات اور توہمات مسلمانوں میں غیر اسلامی تصوف کی بدولت آئے ہیں۔ کچھ کمزور اور موضوع روایات کی جہت سے آئے ہیں مگر بڑا سورس تصوف ہی ہے۔ تصوف کے کچھ ضمنی فائدے ہوتے ہیں تزکیۂ نفس، تربیتِ ذات اور عبادتِ الہیٰ کی مشق وغیرہ۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ چیزوں کی حقیقت سے بحث کرتا اور گہرے مسائل پر غور کرنا سکھاتا ہے۔ مگر مجموعی طور پر تصوف سے مسلمانوں کو دو بڑے نقصان ہوئے ہیں: ایک تو بزرگوں کی اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی، تصورِ شیخ، وحدت الوجود جیسے مشرکانہ خیالات نے توحید کی مٹی پلید کر دی۔ دوسرے علم سے مسلمانوں کو روکا کیونکہ تصوف کی روایت میں ایک عام تصور کتاب دشمنی کا رہا ہے۔ یہاں ارشادِ شیخ ہی اصل ہے اور مسترشدین کو یہ سکھایا جاتا تھا کہ: صد کتاب و صد ورق در نار کن (کتاب و اوراقِ کتاب وغیرہ کو آگ میں پھینک دو) یہ تصوف کا عام مزاج ہے۔ اس میں استثناء بھی ملتا ہے اور بہت سے صوفیاء نے علم کی آبیاری کی ہے۔ مثال کے طور پر شاہ کلیم اللہ جہان آبادی کے خانوادہ میں ریاضیات کا چرچا رہا۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کا خانوادہ اسلامی علوم میں سرخیل رہا وغیرہ۔
بظاہر ہماری یہ بات بے محل سی معلوم ہوتی ہے مگر گزشتہ دو سو سال کی ملی تاریخ پر غور و فکر سے ہمارے ناقص خیال میں یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ من حیث المجموع توحید کو چھوڑنے کے نتیجہ میں ایک عمومی عتاب و عذاب کا شکار ہے جسے حدیث میں قہر الرجال و غلبۃ الدین سے سلامتی کی دعا میں اشارہ کر دیا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ دنیا کی سیاسی قیادت اور عالمی معیشت کی سیادت ان کے ہاتھ سے چھین لی گئی ہے۔ اور یہ چیز دوبارہ حاصل نہیں ہو سکتی، مگر توحید کے پرچم کو پھر سے مضبوطی سے تھامنے سے۔
اصلاحِ حال
اصلاحِ حال کے سلسلہ میں بھی تفصیل سے لکھنے کی ضرورت ہے، تاہم یہ مضمون پہلے ہی طویل ہوگیا ہے اس لیے تفصیل کو کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور اشارات پر اکتفاء کرتے ہوئے مختصراً کہیں گے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اس امت کی خصوصی ترکیب یعنی بقول اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی‘‘ کو سامنے رکھ کر یہ حکیمانہ جملہ کہا تھا: ’’لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا‘‘ کہ اس امت کی اصلاح اسی طریقہ سے ہوگی جس سے پہلے ہوئی تھی۔
رجوع الی القرآن
مسلمان امت کے لیے اصل لائحہ عمل صرف یہی ہے کہ وہ بحیثیت مجموعی اپنی لگام قرآن کے ہاتھوں میں دے دے۔ قرآن ہی اس کے ہر درد کا درماں اور ہر بیماری کا علاج ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں میں آج بھی ایسے پیر فقیر اور مولوی ملا موجود ہیں جو مسلمانوں کو قرآن سے رجوع کرنے کو برا جانتے ہیں۔ یہ لوگوں کو ترجمۂ قرآن پڑھنے سے منع کرتے اور مسجدوں میں درسِ قرآن سے روکتے ہیں، اس عذرِ لَنگ کے ساتھ کہ براہ راست قرآن کے معنی پڑھیں گے تو گمراہ ہو جائیں گے۔ وہ اسلاف کو بھول گئے ہیں جن کے بارے میں اقبال نے کہا کہ ؎
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
اقبالؒ کی تعلیم یہی ہے کہ قرآن کے بغیر مسلمانوں کی زندگی نہیں ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن
مسلم ممالک کا دفاعی اتحاد
دوسرے اب تک کے تجربات نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ او آئی سی اور عرب لیگ جیسے کاغذی شیر اور صرف بیان داغنے والے ادارے کسی حقیقی مقصد کو پورا نہیں کرتے۔ حقیقت کی دنیا میں مسلم دنیا کو آکر ناٹو کی طرز پر ایک ایسا دفاعی بلاک تشکیل دینا چاہیے جس میں کسی بھی رکن ملک پر جارحیت کو پورے بلاک پر جارحیت تسلیم کیا جائے۔ تمام مسلم ممالک کو ایران کی تقلید کرتے ہوئے مغرب کی دفاعی چھتری کے سراب سے باہر آکر خود اپنا دفاع کرنے کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے، جب تک وہ ایسا نہیں کریں گے عالمی سطح پر ان کی بے حیثیتی دور نہیں ہو سکتی۔
طویل المدت تعلمی منصوبہ بندی
تیسری چیز یہ ہے کہ اصلاحِ حال کا کوئی شارٹ کٹ نہیں، طویل المدت منصوبہ بندی، تعلیم اور صرف تعلیم کا منصوبہ اختیار کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا سائنس و ٹیکنالوجی اور اب مصنوعی ذہانت کے میدان میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھے۔ سیاسی طور پر مسلمانوں کو جمہوری طرزِ حکومت کو عموماً اپنا لینا چاہیے جس میں موقع و محل کے اعتبار سے مناسب تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ مگر ملوکیت، فوجی ڈکٹیٹرشپ اور آمریت کو مسلم معاشروں میں اب مزید برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک عام تحریک اٹھے جو مسلم امت میں سے ان لعنتوں کا خاتمہ کرے۔ علماء اور دانشور مزید متحرک ہوں وہ ملوکیت کے بندے، مفادات کے اسیر نہ بنیں۔ بدعات خرافات اور توہمات کے خلاف مہم چلائی جائے۔ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کیا جائے، حکمرانوں اور امراء پر پریشر بنایا جائے۔ ایسے سیاسی اور اقتصادی پریشر گروپ تیار کیے جائیں جو دنیا پر اثر انداز ہو سکیں۔
امت کے نفع و نقصان کا شعور
چوتھے شعور کی بیداری عام مسلمانوں میں بہت ضروری ہے۔ مسلمانوں اور ان کے ساتھ ہی گلوبل ساؤتھ (ترقی پذیر دنیا) کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان کو اب بھی اسی ظالمانہ اور مستکبرانہ مغربی سرمایہ دارانہ ورلڈ آرڈر کے تحت رہنا ہے یا متبادل طریقے ڈھونڈنے چاہییں؟ افسوس کہ عالمِ عرب میں کوئی ایک بڑی آواز ہمیں ایسی سنائی نہیں دیتی جو اس پر اپنے لوگوں کو غور کی دعوت دیتی ہو۔ وہاں تو اب بھی شیعہ سنی فرقہ وارانہ کھیل ہی جاری ہے۔ جبکہ غیر مسلم ممالک جیسے برازیل، کیوبا، نارتھ کوریا سے ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور برِکس کے ممبران چین کے ساتھ مل کر ڈالر کو چیلنج دینے کا عندیہ ظاہر کر چکے ہیں۔
مسئلہ فلسطین
فلسطین کے لیے ایک عالمی عوامی تحریک برپا کی جائے جو پرامن ہو اور تمام جدید وسائل کے ساتھ دنیا کے لوگوں تک اپنا جائز موقف رکھے۔ یہ تحریک اپنے آپ دنیا بھر کے طلبہ نے چھیڑ دی ہے بس اس کو صحیح رخ دیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ مزاحمتی تحریکوں کو اپنی اسٹریٹجی بدلنی ہوگی۔ ذہن میں یہ بھی آتا ہے کہ اگر یہ یہی مسلح مزاحمت خود اسرائیل کے اندر شروع ہوئی ہوتی تو شاید اس کا انجام یہ نہ ہوتا یعنی اسرائیل غزہ کو اس طرح تہس نہس نہ کر پاتا۔ اسی طرح خود فلسطینیوں کو بھی اپنی صفوں کو یکجا کرنا ضروری ہے۔ مقام افسوس ہے کہ انہوں نے من حیث القوم اپنی خون آلود تاریخ سے کماحقہ سبق نہیں سیکھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب انگریز مینڈیٹ وہاں سے اپنا بوریا بستر سمیٹ رہا تھا اور اُس نے صہیونی دہشت گردوں کو فوجی طور پر کیل کانٹے سے لیس کر دیا تھا۔ ان کی دہشت گرد تنظیموں کی افرادی قوت ساٹھ ہزار تک تھی جس کے پاس ہر طرح کے ہتھیار اور فوجی تربیت تھی۔ وہ فلسطینیوں کے گاؤں اور بستیوں پر منظم حملے کرتے تھے مگر فلسطینی ہر گاؤں کی حفاظت منتشر طور پر کر رہے تھے۔ کسی بستی میں دس لوگ پرانی بندوقوں سے مسلح ہو کر تحفظ کر رہے تھے، کسی میں پندرہ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب صہیونی فوج نے منظم حملے اور غارت گری شروع کی تو فلسطینی کوئی دفاع نہیں کر سکے اور ملینوں کی تعداد میں ان کو اپنے گاؤں، بستیاں اور آبادیاں چھوڑنی پڑیں۔ ان رفیوجیوں کی آج تیسری نسل ہے جو دنیا بھر میں، غزہ میں اور کچھ پاس پڑوس کے ملکوں میں پناہ گزیں ہے۔ اور افسوس یہ ہے کہ حماس اور الفتح یا فلسطینی مقتدرہ ابھی تک دونوں دھڑے اپنی الگ ہی چال چلنے پر مصر ہیں! اس کے علاوہ نتن یاہو کی پالتو یاسر ابو الشباب کی مسلح ملیشیا کہاں سے آئی ہے؟
عالم اسلام کی سیاسی تحریکیں
اب موجودہ صورت حال میں بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا میں سیاسی اسلام یا تحریکی اسلام پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہے، جس کی ابتدا مصر میں حافظ مرسی شہید کی حکومت کو خلیجی ممالک کی سازشوں کے ذریعہ گرا دینے سے ہو گئی تھی۔ اس کے وجود کو بچانا وقت کی ضرورت ہے کہ مغرب کے لیے اصل چیلنج اسلام کا یہی حرکی تصور ہے جس کو اب اپنے سروائیول (بقا) کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ البتہ بنگلادیش کے طلبائی انقلاب نے اس کو وہاں کچھ راحت ضرور دے دی ہے۔ صوفی اسلام استعمار پسند قوتوں کو سوٹ کرتا ہے اور اسی طرح سلفی اسلام ملوکیت کا خادم بنا ہوا ہے، ابن تیمیہؒ کی فکر کو اس نے عملاً چھوڑ دیا ہے۔ تو جو خلا مسلم معاشرہ میں پیدا ہو رہا ہے بظاہر اس کو پُر کرنے والی کوئی قوت سامنے نہیں ہے۔ روایتی علماء جن کا مسلم معاشرہ پر اب بھی بہت زیادہ ہولڈ ہے، ان میں جدید دنیا سے کو جاننے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں نئے رجالِ کار درکار ہیں جو تیار، فعال اور متحرک ہوں اور معاشرہ میں قیادت کا رول ادا کرنے کی علمی و فکری اہلیت بھی رکھتے ہوں۔
آج سے چار دہائیوں قبل امریکی مفکر فوکویاما نے The End of History (تاریخ کا خاتمہ) لکھ کر گویا اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ اب دنیا میں امریکی مغربی لبرل تہذیب غالب ہو چکی ہے، اس کی بالادستی کو کوئی نظام چیلنج نہیں کر سکتا۔ اس کے بعض نتائج کو تاریخ نے غلط ثابت کر دیا ہے۔ لیکن اُس اعلان کی تہہ میں اسلامی تہذیب کی سیاسی سیادت کی موت کا جو اعلامیہ چھپا ہوا تھا اس کا سفر ابھی جاری ہے اور کوئی چیلنج اُس کو نہیں کیا جا رہا ہے۔ جو عالمِ اسلام کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔
(14 جولائی 2025ء بروز منگل، علی گڑھ)