اعترافِ فضل و کمال اور معاصرین
حضرت نیموی کے فضل وکمال کا اعتراف ان کے معاصرین نے دل کھول کرکیا ہے، جس میں ادباء وعلماء اور محدثین دونوں طبقےشامل ہیں ۔ان کے باکمال استادحضرت مولانا سعید حسرت عظیم آبادی نے جن بلند الفاظ میں ان کے کمال کو سراہا تھا، عظیم آباد ولکھنؤ کے باکمالوں نے جس طرح ان کو خراج تحسین پیش کیا وہ ان کی سوانح زندگی کا روشن باب ہے، اور صفحات گذشتہ میں گذر چکا ہے۔
مشہور عالم ومحدث علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی بڑے بلند الفاظ میں ان کا اعتراف کیا ہے، مولانا منظور نعمانی اپنے استاد کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
’’جب علامہ نیموی کا ذکر آگیا ہے تو اس واقعہ کا اظہار بھی میرے لئے ضروری ہے کہ حضرت استاد رحمۃ اللہ علیہ فن حدیث میں علامہ ممدوح کا مقام بہت بلند مانتے تھے، اور معرفت علل واسانید میں ہندوستان کے کسی دوسرے عالم کو ان کا عدیل ومثیل نہیں قرار دیتے تھے، اس عاجز کو خوب یاد ہے کہ یہاں تک فرماتے تھے کہ مولانا ظہیر احسن صاحب حضرت مولانا عبدالحي صاحب رحمۃ اللہ علیہ (لکھنوی فرنگی محلی)کے شاگرد ہیں لیکن صناعت حدیث میں ان سے فائق ہیں‘‘۔72
مولانا عبدالحق لکھنوی مہاجر مکی شیخ الدلائل نے جب ان کو ان کی طلب پر اجازت حدیث ارسال فرمائی تو ان کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو الامام الہمام کے الفاظ سے ذکر کیا، اور لکھا:
’’فقد التمس منی الشیخ الفاضل السابق فی حلیۃ الفضائل الباذل فی تحصیل العلوم الشرعیۃ، والمجھد المشمر فی اقتناصھا عن ساعد الجد مولانا العلامۃ الفھامۃ المحقق المدقق المولوی محمد ظہیر احسن‘‘۔73
ایک ایرانی فاضل عبداللہ خاکی ساکن شہررشت (دارالمرزرشت ایران)نے ان کی تحقیقات لغوی کے متعلق پورا قصیدہ کہا، جوان کی کتاب ازاحۃ الاغلاط کے اخیر میں ہے، اورجس کے چند اشعار یہ ہیں:
صدف فخرش بود از گوہرش در لجہ دریا
خورد از آب نیساں قطرہ وگوہر شود پیدا
درے را در نظر دارم کہ باشد گوہر مکنوں
جواہر خیز وگوہر ریزو گوہر بیز وگوہر زا
کہ بود او جوہر ے در ذات استقلال خود قائم
ہیولایش شد وکردند بہرش صورت یکتا
چہ صورت صورت انسانی وہم شکل روحانی
ازیں صورت مرکب ازہیولیٰ گشت وشد پیدا
تعالی اللہ از علم لدنی بود او ماہر
نمود ادراک علم کائنات وسر مافیھا
ان کے علاوہ علمائے دیوبند میں مولانا رشید احمد گنگوہی، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی اور علامہ انورشاہ کشمیری سب ان کے فضل وکمال کے معترف رہے ۔پٹنہ میں براہ راست ان کے تلامذہ یا معاصرین کی کوئی تحریر ان کے اعتراف کمال میں ہمارے پیش نظر نہیں، عظیم آباد میں اس وقت علماء کی ایک بڑی تعداد تھی لیکن کسی سے ان کے بہت زیادہ تعلق کا پتہ نہیں چلتا، علامہ شمس الحق عظیم آبادی تو ان کے عزیز ہی تھے لیکن ان سے بھی براہ راست وسیع ربط وتعلق کا پتہ نہیں چلتا ۔اسانید وروایات کے مشہور مصنف شیخ احمد ابوالخیر مکی جو ان کے استاد مولانا سعید حسرت عظیم آبادی کے شاگرد تھے ان سے بھی ان کے اچھے مراسم تھے، چنانچہ اپنے مجموعہ اسانید میں انہوں نے ان شیخ مکی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
ھو صاحب اسانید کثیرۃ من اھل الشان استوعبھا فی معجمہ الکبیر الذی لم یتفق طبعہ الی الآن، وھو من اکابر احبابی، قد صحبتہ ازمنۃ کثیرۃ واستفدت منہ فوائد غزیرۃ، ابقاہ اللہ وسلمہ وحماہ۔74
جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے معاصرین کا دائرہ بہت وسیع تھا، لیکن شیخ ابوالخیر مکی نے اپنے مجموعہ ا سانید (النفح المسکی جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے)میں جس کا ذکر ان حضرت نیموی کی تحریر میں گذرا، اپنے اس معاصر ذکر نہیں کیا ہے، اغلب یہ ہے کہ وہ ان سے بہت چھوٹے ہوں گے، البتہ ان کے استاد مولانا سعید حسرت عظیم آبادی کا بہت تفصیلی ذکر ہے، اور لکھا ہے کہ وہ کے پاس ایک مدت تک رہے۔
علوم اسلامیہ کے علاوہ ان کے معاصرین میں ان کے ادبی کمال کا اعتراف خوب ملتا ہے، جو اوپر گذرچکا ہے۔
حضرت نیموی کے فرزند گرامی نے ان کے حالات پر جو رسالہ لکھا ہے، اس میں بھی بہت سے اہل کمال کے اعترافات ذکر کئے ہیں، یہاں اس کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے ان اعترافات کو نقل پیش کیا جارہا ہے اور اخیر میں خود مولانا فوقانی نے جو کچھ اپنے حالات لکھے وہ بھی درج کئے جاتے ہیں ۔آغاز میں گذرچکا ہے کہ ان کے بقول اس رسالہ کا نام تذکار الشوق ہے، اس کے آغاز میں وہ لکھتے ہیں:
’’فوقانی ابن شوق نیموی عرض کرتا ہے کہ بعض احباب ندوی نے فرمائش کی کہ علامہ شوق نیموی کی حیات بعد الممات (یعنی وہ سوانح عمری کہ جس کاذکر یادگار وطن میں نہیں ہے )مرتب کردی جائے، کہ آئندہ لوگوں کو سوانح کے انتخاب کرنے میں دشواری نہ ہو، صاحب البیت ادریٰ بما فیہ ۔اس لئے رسالۂ موسومہ بتذکار الشوق معرض تحریر میں لاتا ہوں، امید وار ہوں کہ مرقوم علیہ اور راقم کو دعائے خیر میں یاد فرمائیں‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے عنوان قائم کیا ہے ’’حدیث دانی علامہ شوق نیموی‘‘، اس کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’آپ فن حدیث میں متقدمین کے ہم پایہ بلکہ بعض امور میں بالا [تھے]، لیکن الفضل للمتقدم، یعنی بزرگی متاخرین پر متقدمین ہی کی تسلیم کی گئی ہے‘‘۔
آگے لکھتے ہیں:
’’علامہ نیموی نے اکثر احادیث میں علل غامضہ کا اظہار جو کہ اغمض انواع علم حدیث ہے محدثانہ ومحققانہ طور پر، جن سے کتب متقدمین بھی خالی ہیں‘‘۔
اس کے بعد ان کتابوں کی فہرست ہے جن کی حضرت نیموی کی تحقیقات نقل کی گئی ہیں، یہ فہرست تو بہت طویل ہے اور عام طور پر معروف بھی اس لئےاس کے نقل کرنے کی ضرور ت نہیں، ویسے بھی یہ معروف ہے کہ فقہ حنفی کی روایات پر اس کتاب کے بعد جو بھی کتاب لکھی گئی وہ شاید ہی سے اس کےذکر سے خالی ہے، البتہ اس فہرست میں ایک اہم نام نہیں آسکا ہے، وہ علامہ عمیم الاحسان مجددی کی فقہ السنن والآثار، جس میں جا بجا علامہ نیموی کی تحقیقات کے حوالے دئے گئے ہیں۔اس کے بعد حضرت فوقانی لکھتے ہیں:
’’ماہ دسمبر ۱۹۲۵ء کو اخبار الجمعیہ دہلی میں یہ مضمون چھپا … حضرت علامہ شوق نیموی کی اس گرامی سے اہل علم کا طبقہ بخوبی واقف ہے، اس آخری دور میں اس بزرگ نے مذہب حنفی کی جس فاضلانہ طریقہ سے خدمت انجام دی ہے اس کی نظیر متقدمین بھی مشکل سے ملےگی، افسوس، مولانا کی عمر نے وفا نہ کی، ورنہ فقہ حنفی کی تائید میں ایسی بیش بہا تصنیف ہوتی کہ پھر کسی دوسری کتاب کی احتیاج ہی باقی نہ رہتی‘‘۔75
اخبار العدل گوجراں والا ۱۳و ۱۶ جون ۱۹۳۴ کا حسب ذیل اقتباس بھی مولانا فوقانی نے نقل کیا ہے:
’’آثارالسنن حضرت مولانا ظہیر احسن صاحب شوق نیموی کی مشہور معرکہ لآراء عربی تالیف ہے، جس نے دنیائے اسلام پر حنفیت کا سکہ بٹھادیا ہے، اس مفید تالیف میں ہر حدیث کے متعلق علامہ ممدوح نے مناسب مقام پر رجال اور متن پر ضروری بحث کی ہے، احناف کے لئے بہترین کتاب ہے‘‘۔76
ایک اور فاضل کا اعتراف ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
’’اور مولانا مفتی جناب فقیر اللہ رائے پوری جالندھری پنجابی نے بندہ محمد عبدالرشید کو ایک خط مورخہ ۱۳۴۵ھ میں تحریر فرمایا کہ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری تمامی کتب رجال پر آثار السنن کو ترجیح دیتے ہیں، اگر مولانا نیموی کا ابھی انتقال نہ ہوتا اور ابواب معاملات اپنی زندگی میں تحریر فرماتے تو پھر دوسری کتاب کی چنداں ضرورت ہی باقی نہ رہتی، پھر ایک خط میں یہ تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرات دیوبند77 سے یہ سنا ہے کہ فن حدیث میں مولانا شوق نیموی اپنے استاد حضرت مولانا عبدالحي صاحب لکھنوی سے بڑھ کر تھے، اور مولانا محمد سہول بھاگلپوری پرنسپل مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ نے بالمشافہہ بندہ میں عبدالرشید ابن شوق نیموی سے فرمایا کہ ہم لوگ دیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کسی نے کہا کہ بالفعل مولانا اشرف علی تھانوی آثارالسنن کے طرز پر ایک کتاب تالیف کررہے ہیں، یہ سن کر شیخ الہند نے فرمایا کہ مولانا اشرف علی میرے شاگرد بھی ہیں لیکن وہ آثار السنن کے طرز پر نہیں لکھ سکتے‘‘۔78
آگے لکھتے ہیں:
’’مولانا شوق اور مولانا رشید احمد گنگوہی سے بھی خط وکتابت ہوا کرتی تھی، بعض خطوط مولانا گنگوہی کے میرے پاس موجود تھے جو ۱۹۴۶ء کے ہنگامہ ٔ فساد بہارمیں ضائع ہوگئے ۔اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی سے بھی دوستانہ تعلقات تھے ۔چنانچہ رسالہ سرّ من یریٰ فی بحث الجمعۃ فی القریٰ مطبوعہ ۱۳۲۷ہجری میں مؤلفہ مولانا عبدالرحمن بقا غازی پوری مرحوم لکھتے ہیں، اس کا جواب آپ (یعنی مولانا محمود حسن) ۱۲۷۷ھ میں احسن القریٰ میں فرماتے ہیں، مولانا ظہیر احسن سے صلاۃ العید فی القریٰ یکرہ تحریماً کی دلیل پوچھی جاتی ہے، جس سے ارشاد السوال نصف العلم کی تصدیق ہوتی ہے‘‘۔
اس کے بعد حضرت شوق کی فارسی و اردو دانی پر تبصرے ہیں جو ان کی کتابوں کی روشنی میں مرتب کئے گئے ہیں۔79
اسنادِ حدیث
حضرت شوق نیموی بڑے محدث تھے، اس لئے ان کی سند بھی عالی ہونی چاہئے ۔لیکن انہوں نے کتب حدیث صرف حضرت مولانا عبدالحي فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی تھی، پھر انہوں نے اپنے شیخ حضرت گنج مرادآبادی سے مسلسل بالاولیہ اور دیگر کتب حدیث کی اجازت لی تھی جس کاذکر گذرچکا ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اپنی آثار السنن کی پہلی جلد مکہ مکرمہ بھیج کر شیخ الدلائل مولانا عبدالحق الہ آبادی ثم مکی سے بھی اجازت حدیث حاصل کی تھی، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس فن میں کمال کے ساتھ سند کو بھی اہمیت دیتے تھے ۔پھر انہوں نے اپنے اسانید کا مجموعہ بھی عمدۃ العناقید من حدائق بعض الاسانید کے عنوان سے مرتب کیا ۔پھر اس کی اجازت اپنے اہل عصر اور اس کے ساتھ اپنے چھوٹے فرزند مولانا عبدالرشید فوقانی کو بھی دی، مولانا فوقانی نے اپنے دور کے معروف عالم مولانا پروفیسر حبیب الحق ندوی کو دی تھی،80 انہوں نے کسی کو دی یا نہیں اس کا علم اب تک نہیں ہوسکا، کاش اس کا سراغ مل جائے تاکہ ان کی سند کا تسلسل باقی رہے، ورنہ ایسے بڑے محدث کی سند منقطع ہوجائے گی، ایک مدت تک راقم کو مولانا عبدالرشید کی اجازت دینے کا بھی علم نہیں تھا کہ اچانک مولانا حبیب الحق ندوی کی تحریر سے اس کا علم ہوا ۔
اسفار
علامہ شوق نے کن طالب علمی کی تکمیل کے بعد کن مقامات کا سفر کیا، اس کی تفصیل نہیں ملتی، اگر وہ اسی طرح اور بھی اسفار کی روداد قلمبند کرنے کا التزام کرتے تو ادب کے سرمایہ میں بھی اضافہ ہوتا اور ان کی سوانح کے ساتھ تاریخ کا ایک اہم حصہ بھی محفوظ ہوتا، لیکن اس کا پتہ نہیں چلتاکہ انہوں نےاور کن مقامات کا سفر کیا، لیکن انہوں نے اپنی خود نوشت میں لکھا تھا کہ آثار السنن نام حدیث کی ایک کتاب کی تصنیف پیش نظر ہے، جس کے لئے بلاد اسلامیہ کے سفر کا ارادہ ہے، لیکن بیرون ہند کا سفر تو وہ نہیں کرسکے ورنہ ان کی زندگی میں کہیں نہ کہیں اس کاذکر ضرور ہوتا، یا ان کے معاصرین ذکر کرتے، البتہ ہندوستان میں انہوں نے کہا ں کہاں کا سفر کیا اس کا علم نہیں ہوتا لیکن ان کی بعض تحریروں کے اشارات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے چند جگہوں کا سفر کیا ہوگا، ان کے قیام عظیم آباد کے بعد کے سترہ اٹھارہ سال جو پٹنہ میں گذرے شاید اسی دوران یہ اسفار ہوئے ہوں گے، گرچہ کہیں صراحۃ انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن کتابوں کے ضمن میں کتب خانوں کا جہاں ذکر کیا ہے، مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’پنجاب کے شہر بھاول پور میں جناب مولوی شمس الدین مرحوم کا نامی کتب خانہ ہے انہیں کے کتب خانہ میں معجم کبیر بخط ولایت موجود ہے‘‘۔
ایک موقع سے لکھتے ہیں:
’’ہندوستان میں ایک نہیں مسند حمیدی کے تین نسخے ہیں، ایک نسخہ مکرمی جناب مولانا مولوی محمد سعید صاحب مفتی عدالت عالیہ حیدرآباد کے کتب خانہ میں، دوسرا نسخہ میرے مکرم دوست جناب مولوی شیخ احمد مکی جن کا اکثر قیام بھوپال میں رہتا ہے، ان کے پاس ہے، مگر یہ نسخہ پورا نہیں، ناقص ہے، تیسرا نسخہ شقیقی مولوی عبدالحق صاحب ساکن کرنول ضلع مدراس کے پاس ہے، میں نے وہ حدیث اسی کرنول کے نسخے سے نقل کی ہے، اس میں بعینہ وہ روایت موجود ہے‘‘۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’مسند ابن راہویہ کا پتہ اگر آپ کو نہیں ملتا تو مجھ سے سنیے کہ قاہرہ کے کتب خانہ میں یہ کتاب موجود ہے‘‘۔81
کیا یہ ساری کتابیں ان تک یونہی پہنچی تھیں یا انہوں نے اسفار بھی کئے تھے اس کا صحیح علم نہیں، کاش کہ ان کے کسی شاگرد نے ان کی سوانح حیات لکھی ہوتی تو ان باتوں کا علم ہوتا ۔
بہ ظاہرمعاصرین سے اتنے وسیع تعلقات اور ان کتب خانوں سے واقفیت اسفار کے بغیر صرف مراسلت سے ناممکن ہے۔
آثارُ السنن
اخیر میں حضرت نیموی کے اس علمی کارنامے پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے جس نے ان کو شہرت عام کے خلعت دوام سے سرفراز کیا ہے۔
عالم اسلام کے مشہور حنفی عالم ومحقق علامہ زاہد الکوثری لکھتے ہیں:
وها هو العلامة مولانا ظهير حسن النيموي رحمه الله قد ألف كتابه (آثار السنن) في جزأين لطيفين ()، وجمع فيهما الأحاديث المتعلقة بالطهارة والصلاة على اختلاف مذاهب الفقهاء، وتكلم على كل حديث منها جرحًا وتعديلاً على طريقة المحدثين، وأجاد فيما عمل كل الإجادة، وكان يريد أن يجري على طريقته هذه إلى آخر أبواب الفقه لكن المنيّة حالت دون أمنيته رحمه الله. وهذا الكتاب مطبوع بالهند طبعًا حجريًا إلا أن أهل العلم تخاطفوه بعد طبعه، فمن الصعب الظفر بنسخة منه إلا إذا أعيد طبعه
مشہورمحقق ومحدث علامہ ابومحفوظ الکریم معصومی کے بقول:
’’علامہ نیموی کی مشہور تصنیف آثار السنن اپنے خصائص ومزایا کے لحاظ سے شاہکار سمجھی جاتی ہے، علامہ نیموی کے پاس قلمی نوادر کا گراں بہا ذخیرہ تھا، جو ۱۹۴۶ء کے طوفان حوادث میں بالکل برباد ہوگیا، اور اب صرف اس کی یاد باقی ہے، انہوں نے مخطوطات کے تجسس میں کہاں کہاں کی خاک چھانی، اس کا اندازہ ان نسخ عتیقہ کے حوالجات سے معلوم ہوسکتا ہے جو آثار السنن کی تعلیق اور ان کے بہتیرے فروعی رسائل میں بکثرت نظر آتے ہیں، حدیث میں نیموی کا درجہ اتنا بلند تھا کہ حسب بیان مولانا سعید احمد صاحب اکبر آبادی عمید مدرسۂ عالیہ کلکتہ محدث نبیل علامہ جلیل حضرت شاہ انورکشمیری رحمۃ اللہ علیہ نیموی کو شوکانی پر ترجیح دیتے تھے‘‘۔
اس کے علاوہ اس سلسلہ میں ماہرین کے اعترافات ان کے فضل وکمال کے اعتراف میں گذرچکے ہیں۔
آثار السنن کے لئے انہوں نے پوری تیاری کی، قلمی نسخے منگوائے، اور لوگوں سے مراسلت کی، اور کئی سال کی محنت کے بعد یہ اس کی پہلی جلد تیار کی، مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمٰن نے علامہ شوق نیموی حیات و خدمات میں آثار السنن اور اس کی خصوصیات پر پورا باب قائم کیا ہے، اور بتایا ہے کہ حضرت مصنف نے اس کے لئے کیا محنتیں کیں اور اس کی کیا کیا خصوصیات ہیں۔
آثار السنن کی طباعت کے متعلق مولانا مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے تفصیل سے اطلاع فراہم کی ہے، اور تلاش وتحقیق کے بعد تمام طباعتوں اور ایڈیشنوں کا جائزہ لیا ہے ۔چنانچہ ان کے مطابق آثار السنن کی پہلی جلد کی اشاعت ۱۳۲۱ھ میں احسن المطابع پٹنہ ہی سے ہوئی، مولوی عبدالقادر مالک مطبع نے مصنف کی نگرانی میں عابد حسین سے کتابت کرواکر شائع کیا۔
آثار السنن سے متعلق اوربہت سے مباحث ہیں، اس کی شرح وتوضیح اور طباعتوں کی تفصیل مستقل ایک مفصل مضمون کی متقاضی ہے، ان شاء اللہ اس پر کبھی مستقل مضمون میں روشنی ڈالی جائے گی۔
حوالہ جات
- حیات نعمانی از مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، لکھنؤ، تذکرہ علامہ انور شاہ کشمیری۔
- عمدۃ العناقید مشمولہ القول الحسن ص ۱۵۴
- عمدۃ العناقید مشمولہ القول الحسن ص ۱۵۵
- ورق الف ۵
- حوالہ سابق
- القول الحسن میں اس کو حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی طرف منسوب کیا گیا ہے، ویسے عام طور پر یہ رائے علامہ انور شاہ کشمیری کی طرف منسوب ہے، اور مختلف تحریروں میں ان کے کئی شاگردوں نےان کے حوالہ سے نقل کیا ہے، جس میں مولانا منظور نعمانی قابل ذکر ہیں، اور مولانا سعیداکبر آبادی کے حوالہ سے شوکانی پر ان کو ترجیح دینے کا ذکر آگے آرہا ہے۔
- حوالہ سابق
- ورق ۷
- فکر وفن پروفیسر حبیب الحق ندوی ص۱۵۳
- یہ تحریریں ان کے رسائل میں جابجا موجود ہیں، یہاں اصل بحث ان کے اسفار سے ہے اس لئے ان کے حوالے نہیں دئے گئے۔