اسرائیل ایران جنگ: تاریخی حقائق اور آئندہ خدشات کے تناظر میں

(یوٹیوب چینل Hamid Mir پر ۱۵ جون ۲۰۲۵ء کو نشر ہونے والی انگریزی گفتگو کا ترجمہ ذیلی عنوانات کے اضافہ کے ساتھ۔)


اسرائیلی حملوں پر ایران کے لیے پاکستان کی حمایت

السلام علیکم، میں حامد میر ہوں، مغرب میں بہت سے لوگ مجھے یہ سوال کرتے ہیں کہ پاکستانیوں کی اکثریت اسرائیل کے خلاف ایران کی حمایت کیوں کر رہی ہے جبکہ ایران نے گزشتہ سال پاکستان پر حملہ کیا تھا؟ تو آج میں اس سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔

اسرائیل-ایران جنگ ان تمام لوگوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ علاقائی جنگ بالآخر ہمیں تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ اسرائیل نے یہ جنگ ایران کی جوہری صلاحیت کو تباہ کرنے کے نام پر شروع کی۔ لیکن اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایک اسرائیلی وزیر نے گزشتہ سال غزہ پر جوہری بم گرانے کی دھمکی دی تھی؟ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے وزیر کو معطل کرنے کا اعلان کیا لیکن چند گھنٹوں بعد نیتن یاہو نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ عالمی جوہری توانائی ایجنسی، یا اقوام متحدہ، یا کسی بھی دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے اس اسرائیلی وزیر کی جوہری دھمکی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ اس منافقت نے اسرائیل کے 13 جون 2025ء کو ایران پر حملہ کی حوصلہ افزائی کی۔ اور ایران کی جوابی میزائل حملوں کے بعد پورا خطہ ایک بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، درحقیقت یہ تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔

مئی 2025ء میں جب ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا تو ایرانی حکومت نے پاکستان کی حمایت میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ایران اور پاکستان کے درمیان مسائل کی ایک تاریخ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایران نے 2024ء میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مبینہ طور پر کچھ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ پاکستان نے ایرانی حملے کا فوری جواب دیا اور دعویٰ کیا کہ پاکستان نے ایران میں بھی دہشت گردی کی تربیت گاہوں کو نشانہ بنایا ہے۔ لیکن ان حملوں کے فوراً بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے رابطہ کیا اور کچھ عرصے بعد صورتحال معمول پر آ گئی۔ تو یہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ مسئلے کی مختصر تاریخ ہے۔

اب آتے ہیں مئی 2025ء کی طرف جب ہندوستان کے پاکستان پر حملے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی کوشش کی، اور انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا اور پھر انہوں نے ہندوستانی حکام سے بھی رابطہ کیا، لیکن انہیں ہندوستانی میڈیا میں کچھ ایسے لوگوں نے واضح طور پر بدنام کیا جو ہندوستانی حکومت کے بہت قریب ہیں۔ جون 2025ء میں جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو پاکستان نے ایران کی حمایت میں ایک بہت واضح موقف اختیار کیا۔ 

تقریباً‌ تمام مسلم ممالک ایران کے ساتھ کھڑے ہیں

اب صرف پاکستان ہی نہیں ہے، آپ سعودی عرب سے ترکی تک اور الجزائر سے ملائیشیا تک دیکھ سکتے ہیں، تقریباً تمام مسلم ممالک ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ مشرق وسطیٰ کے کئی مسلم ممالک کو بھی ایران کے جوہری پروگرام پر تحفظات ہیں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ ایران پر اسرائیلی حملے کا جوہری پروگرام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسرائیل تمام فلسطینی علاقوں، لبنان، شام، عراق اور اردن سمیت مصر کے کچھ حصوں پر قبضہ کر کے اپنی سرحدوں کو پھیلانے کے عزائم رکھتا ہے۔ اس منصوبے کا نقشہ بھی دستیاب ہے، اور اس منصوبے کا نام ’’گریٹر اسرائیل پلان‘‘ ہے۔ یہ منصوبہ اسرائیل کو ترکی اور سعودی عرب کی سرحدوں تک رسائی فراہم کر سکتا ہے۔ اور یہ نہ صرف پاکستانی حکومت بلکہ بہت سے پاکستانی شہریوں کے لیے بھی انتہائی تشویش کا باعث ہے جن کے ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ بہت گہرے روابط ہیں۔ یہ ’’اکھنڈ بھارت پلان‘‘ سے مختلف نہیں ہے جسے ’’گریٹر انڈیا پلان‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس ہندوستانی منصوبے کا نقشہ بھی دستیاب ہے، اور یہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں لٹکا ہوا ہے۔

ایران کے جوابی میزائیلی حملوں میں اسرائیل کے ’’آئرن ڈوم‘‘ کی ناکامی

حالیہ ایران-اسرائیل جنگ نے اسرائیل کی فوجی طاقت کے پول کھل دیے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ اسرائیل ایک بہت مضبوط ملک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے چند گھنٹوں میں ایران کی اعلیٰ فوجی قیادت کو کامیابی سے ہلاک کر دیا کیونکہ ان کا انٹیلی جنس سسٹم بہت مضبوط ہے۔ لیکن ایران کے جوابی میزائل حملے نے اسرائیل کے ’’آئرن ڈوم‘‘ کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پوری دنیا نے اسرائیلی شہروں کو نشانہ بنانے والے ایرانی میزائلوں کی بارش دیکھی، اور اسی طرح آئرن ڈوم کا ہوا ختم ہو گیا، بکھر گیا۔

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تباہی کے لیے ہندوستان اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ

پاکستان اس صورتحال میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا کیونکہ مئی 2025ء میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ میں اسرائیل ہندوستان کا واحد کھلا اتحادی تھا۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی بار نیتن یاہو کو اپنا بہترین دوست قرار دیا۔ اور میرا ماننا ہے کہ اگر ایران کے خلاف یہ جنگ اسرائیل جیت لیتا ہے تو اس کا اگلا ہدف پاکستان ہو گا۔ ایسے شواہد دستیاب ہیں کہ اسرائیل نے ہندوستان کی مدد سے ایک سے زیادہ بار پاکستان کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ میرے پاس اس کے ثبوت ہیں، اور بھی کئی لوگوں کے پاس ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم بیگن نے 1979ء میں برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کو ایک خط لکھا تھا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام لیبیا کے کرنل قذافی نے فنڈ کیا تھا، اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام اسرائیل کے لیے ایک خطرہ ہے۔ بیگن پاکستان کے خلاف برطانیہ کو استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ناکام رہے کیونکہ برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے اسرائیل کو بہت حوصلہ شکن جواب دیا۔ اور میرے پاس اس جواب کی کاپی ہے، آپ اسے اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔

اس کے بعد اسرائیل نے ہندوستان سے رابطہ کیا اور پاکستان کے خلاف خدمات کی پیشکش کی، اور ہندوستانی اسرائیل سے یہ پیشکش ملنے پر بہت خوش تھے۔ ہندوستانی میگزین ’’دی ویک‘‘ نے اسرائیل-ہندوستان کے مشترکہ تعاون، یا پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیل-ہندوستان کے منصوبوں کی پوری تاریخ شائع کی۔ یہ چند سال پہلے 2021ء میں شائع ہوا تھا۔

  1. اسرائیل نے 1982ء میں اسلام آباد کے قریب کہوٹہ جوہری تنصیب پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں اودھم پور کے ہندوستانی فضائی اڈے کا استعمال کیا جانا تھا جو کہ پاکستانی سرحد کے بہت قریب ہے۔ یہ پہلا منصوبہ تھا۔
  2. دوسرا منصوبہ 1984ء میں بنایا گیا تھا لیکن دونوں بار معلومات پاکستان کو مل گئیں اور منصوبہ پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
  3. تیسری بار پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ 1998ء میں بنایا گیا تھا، پاکستان کے جوہری تجربات سے چند دن پہلے۔ اس وقت نیتن یاہو اسرائیل کے وزیر اعظم تھے اور وہ پاکستان کو جوہری تجربات سے روکنا چاہتے تھے۔ اس بار بھی پاکستان نے ہندوستان اور اسرائیل کو انتہائی سنگین نتائج کی دھمکی دی۔

یہی وجہ تھی کہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اسرائیلی حملے کا جواب دینے کے لیے ایک لمبے فاصلے والے میزائل کا منصوبہ شروع کیا، صرف اسرائیلی حملے کا جواب دینے کے لیے۔ اور اس میزائل پروگرام کا نام ’’غوری3‘‘ تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس لمبی رینج والے میزائل کا منصوبہ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی، اور اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے انہیں کہا کہ ’’آپ اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کا جوہری پروگرام صرف ہندوستان کے لیے مخصوص ہے‘‘۔ 

ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جب وہ زندہ تھے، انہوں نے خود مجھے اپنی اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان اس گفتگو کی تفصیلات بتائیں۔ اور انہوں نے اپنے کچھ انٹرویوز میں بھی اس گفتگو کی تفصیلات بتائیں جو کچھ غیر ملکی میگزینوں اور کچھ پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے درحقیقت اسرائیل سے بات چیت کا راستہ اختیار کیا اور انہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن اسرائیل نے پاکستان کے خلاف سازشیں کبھی نہیں روکیں۔ میں آپ کو ان سازشوں کے بارے میں بہت سی تفصیلات بتا سکتا ہوں۔

بانیانِ پاکستان کے ساتھ مفتئ اعظم فلسطین امین الحسینی کے روابط

یہ ایک بہت اہم سوال ہے کہ ایران نے پاکستان پر حملہ کیا لیکن اسرائیل نے پاکستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، جبکہ میں آپ کو پاکستان پر حملہ کرنے کے اسرائیلی منصوبوں کے بارے میں تفصیلات بتا رہا ہوں۔ ایران اور ترکی نے 1948ء میں اس کے قیام کے فوراً بعد اسرائیل کو تسلیم کر لیا، لیکن پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک تھا جس نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔

فلسطینی مزاحمتی تحریک کے رہنما فلسطین کے مفتی اعظم مفتی امین الحسینی کے پاکستان کے بانیوں، خاص طور پر ڈاکٹر محمد اقبال جو پاکستان کے قومی شاعر ہیں، اور قائد اعظم محمد علی جناح جو پاکستان کے بانی ہیں، کے ساتھ گہرے روابط تھے۔ مفتی امین الحسینی کو دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی طاقتوں نے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد قرار دیا تھا، لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے کھلے عام ان کی حمایت کی اور برطانیہ اور امریکہ کو اہمیت نہ دی۔

یہاں میں آپ کو ایک کتاب دکھانا چاہوں گا جس کا نام ’’بردرن ان فیتھ‘‘ ہے۔ اور آپ کتاب کے سرورق پر بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو مفتی امین الحسینی کے ساتھ بیٹھے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک بہت اہم تصویر ہے۔ یہ آپ کو فلسطین اور پاکستانی رہنماؤں کے درمیان قریبی روابط کی تاریخ دے سکتی ہے۔ اور اس کتاب میں تفصیل موجود ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ، جس نے درحقیقت تحریکِ پاکستان شروع کی تھی، نے ہمیشہ تحریکِ فلسطین کی حمایت کیسے کی۔ اور یہاں تک کہ جب 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں ایک قرارداد (پاکستان) منظور کی گئی تو آل انڈیا مسلم لیگ نے فلسطینی جدوجہد کی حمایت کی۔ تو یہی ایک وجہ تھی کہ پاکستان نے 1948ء میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

عرب اسرائیل جنگوں میں پاکستان کا کردار

پاکستان نے 1967ء اور 1973ء کی جنگ میں اسرائیل کے خلاف عربوں کی حمایت کی۔ یہ بہت اہم ہے۔ مغرب میں بہت کم لوگ اور بین الاقوامی میڈیا میں بہت کم لوگ اس تاریخ سے واقف ہیں۔ پاکستان ایئر فورس کے پائلٹوں نے 1967ء اور 1973ء کی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگوں میں اسرائیلی جنگی طیاروں کو تباہ کیا۔

ایک بار پھر پاکستان نے 1974ء میں لاہور میں او آئی سی سربراہانِ مملکت کانفرنس میں فلسطینی جدوجہد کی کھلے عام حمایت کی۔ یہ ایک بہت مشہور کانفرنس ہے، اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات، جو پی ایل او کے سربراہ تھے، کو پہلی بار سربراہ مملکت کا درجہ دیا گیا۔ اس واقعہ نے نہ صرف اسرائیل بلکہ مغرب میں بھی بہت سے لوگوں کو پریشان کیا کیونکہ وہ یاسر عرفات کو کبھی پسند نہیں کرتے تھے۔

اسرائیل کے ساتھ ایران کی کشیدگی کا آغاز

پھر آتے ہیں 1979ء کی طرف جب ایران کا اسلامی انقلاب اسرائیل کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا کیونکہ اس انقلاب سے پہلے ایران اسرائیل کے بہت قریب تھا۔ ایران نے تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ بند کر دیا، اور ایک بار پھر پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات انقلاب کے بعد 1979ء میں ایران کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما تھے۔

پھر آتے ہیں 1982 کی طرف جب یہاں اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست تصادم شروع ہوتا ہے۔ اسرائیل نے 1982ء میں لبنان پر حملہ کیا اور یہ ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست تنازعہ کا آغاز تھا، کیونکہ ایران لبنان کے شیعہ کی حمایت کر رہا تھا، اور اسی طرح حزب اللہ کو بنایا گیا، اور ایران نے کھلے عام حزب اللہ کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کی ہے، اور اب یہ نہ صرف پاکستان اور ایران کے درمیان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مشترکہ موقف ہے۔ یہ اب مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔ اور غزہ میں جنگ اور فلسطینیوں کی حالت ایک انسانی مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

پاکستان میں اسرائیل اور ہندوستان کی جاسوسی سرگرمیاں

اسرائیل بہت عرصے سے پاکستان کے خلاف ہندوستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں شائع ہونے والی کئی رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے پاکستانی عسکریت پسندوں کو بھرتی کرنے کے لیے سی آئی اے کے روپ میں کام کیا۔ موساد اور ہندوستانی خفیہ ایجنسی را نے مشترکہ طور پر پاکستان کے اندر دہشت گرد حملوں کا اہتمام کیا۔ شواہد دستیاب ہیں۔ یہ بھی حیرانگی کی بات ہے کہ اسرائیل پاکستان میں کچھ انسانی اسمگلروں کا استعمال کرتا ہے اور اسرائیل میں بے روزگار پاکستانی شہریوں کو نوکریاں فراہم کرتا ہے۔ انہیں نوکریاں دینے کے بعد، اسرائیلی انٹیلی جنس انہیں اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے، اور ان میں سے کچھ کو حال ہی میں گرفتار کیا گیا، ان میں سے کچھ کو گزشتہ سال گرفتار کیا گیا۔

پسند کریں یا نہ کریں، اسرائیل ہندوستان کی مدد سے پاکستان میں یقینی طور پر ایک جاسوسی نیٹ ورک چلا رہا ہے، اور ان کا حتمی ہدف پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور اس کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنا ہے، جس کی انہوں نے ماضی میں کئی بار منصوبہ بندی کی تھی لیکن وہ ناکام رہے۔ ایران کے خلاف اسرائیلی حملہ نہ صرف پاکستان بلکہ ان تمام عرب ممالک کے لیے بھی ایک خطرے کی گھنٹی ہے جو کہ اسرائیل کا ہدف ہیں۔ گریٹر اسرائیل پلان بین الاقوامی امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔

اسرائیلی جرائم سے عالمی قوتوں کی چشم پوشی

سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے 13 جون کو اسرائیلی حملے سے چند گھنٹے قبل ایران کے جوہری پروگرام پر اعتراضات اٹھائے۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے اسرائیل کے جوہری پروگرام پر اس قسم کے اعتراضات کبھی کیوں نہیں کیے؟ یہ ایک بہت ہی درست سوال ہے۔ ایران نے ہمیشہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی اور اسرائیل کے درمیان اس پراسرار تعلق پر اعتراض کیا ہے۔ یہ منافقت بھی بین الاقوامی امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اگر ایک اسرائیلی وزیر فلسطینیوں کے خلاف جوہری بم استعمال کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے، تو اسرائیل ایران کے خلاف جوہری بم استعمال کرنے کا بھی سوچ سکتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ نیتن یاہو بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ وہ منافقت کی پیداوار ہیں۔

اور یہاں میں آپ کو ایک اور کتاب دکھاؤں گا۔ یہ کتاب جو امریکیوں نے لکھی اور شائع کی ہے، اس کا عنوان ’’دی اسرائیل لابی‘‘ ہے۔ اور یہ کتاب کہتی ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت درحقیقت اسرائیلی لابی کی یرغمال کی طرح برتاؤ کر رہی ہے۔ لہٰذا یہ کتاب بہت اہم ہے جو یہ ثابت کر سکتی ہے کہ امریکی انتظامیہ اور بین الاقوامی اداروں کی منافقت نے اسرائیل کو پوری دنیا میں اپنی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی جاری رکھنے کی اجازت دی۔

اس کے علاوہ ایک اور ثبوت ہے۔ ایک اسرائیلی مصنف اور صحافی رونان برگمین، انہوں نے ایک کتاب لکھی ’’رائز اینڈ کِل: دی سیکرٹ ہسٹری آف اسرائیلز ٹارگٹ اسیسینیشنز‘‘۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پوری دنیا میں قتل کے منصوبے بنائے۔ یہ کتاب اسرائیل کی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ لیکن اقوام متحدہ، یا بین الاقوامی انسانی حقوق کی ایجنسیوں، یا بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کتاب پر کبھی کوئی موقف اختیار نہیں کیا۔ یہ ایک ثبوت ہے۔

یہ منافقت ہندوستان کو دوبارہ پاکستان پر حملہ کرنے کا حوصلہ بھی دے سکتی ہے۔ لیکن اس صورت میں پاکستانی ردعمل مودی اور نیتن یاہو کے تصور سے باہر ہوگا، لہٰذا انہیں پاکستان پر حملہ کرنے کی یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے۔

اور اب مجھے امید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ پاکستانیوں کی اکثریت اسرائیل کے خلاف ایران کی حمایت کیوں کر رہی ہے۔ بہت شکریہ۔

https://youtu.be/Z3a448l06BU


(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۷

اسلامی نظام اور آج کے دور میں اس کی عملداری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اہلِ کتاب کی بخشش کا مسئلہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

سوشل میڈیائی ’’آدابِ‘‘ اختلاف اور روایتی مراسلت
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

مسئلہ ختم نبوت اور مرزائیت
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
مولانا حافظ خرم شہزاد

بیوہ خواتین اور معاشرتی ذمہ داریاں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان شریعت کونسل اور الشریعہ اکادمی کے اجتماعات
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
مولانا محمد اسامہ قاسم

Britain`s Long-Standing Role in Palestine`s Transformation into Israel
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۱)
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف
حافظ میاں محمد نعمان

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۲)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۵)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۲)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۴)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

ماہانہ بلاگ

مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امیر خان متقی کا اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس ۵۱ سے خطاب
جسارت نیوز
طلوع نیوز

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے چند اہم پہلو
امتنان احمد

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور اس کے رکن ممالک
الجزیرہ

سیاحتی علاقوں میں حفاظتی تدابیر اور ایمرجنسی سروسز کی ضرورت
مولانا عبد الرؤف محمدی

’’سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟‘‘
مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی

پاک بھارت کشیدگی میں اطراف کے مسلمانوں کا لائحۂ عمل
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

پاک بھارت حالیہ کشیدگی: بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ایران کے رہبرِمعظم اور پاکستان میں ایرانی سفیر کے پیغامات
سید علی خامنہ ای
رضا امیری مقدم

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملے: دینی قائدین کے بیانات
میڈیا

سنی شیعہ تقسیم اور اسرائیل ایران تصادم
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال

امریکہ اسرائیل کی سپورٹ کیوں کرتا ہے اور ایران کتنا بڑا خطرہ ہے؟
نوم چومسکی

اسرائیل ایران جنگ: تاریخی حقائق اور آئندہ خدشات کے تناظر میں
حامد میر

اسرائیل کا ایران پر حملہ اور پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ
خورشید محمود قصوری
علی طارق

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کا حملہ اور خطہ پر اس کے ممکنہ عواقب
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ایران کی دفاعی جنگی حکمتِ عملی
سید محمد علی
سید طلعت حسین

اسرائیل کے حملے، ایران کا جواب، امریکہ کی دھمکیاں
پونیا پرسون واجپائی

’’بارہ روزہ جنگ‘‘ میں اسرائیل اور ایران کے نقصانات
ادارہ

اسرائیل ایران کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter