مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر

(۲۵ جون ۲۰۲۵ء کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں خطاب)


بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی گفتگو عنوان ہے: مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال اور  ہمیں کیا کرنا چاہیے، بہت لمبی بات ہے لیکن مختصراً‌ دو تین باتیں عرض کروں گا۔

کشمکش کا پسِ منظر

ایک تو یہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں، سعودی عرب، ایران، اسرائیل اور دیگر عرب ممالک میں پچھلے ڈیڑھ دو سال سے جو ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کا تھوڑا سا پس منظر عرض کرنا چاہوں گا۔ اب سے ایک صدی پہلے اس وقت کی عالمی قوتوں خصوصاً‌ برطانیہ اور فرانس نے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کر دیا تھا،   مشرقِ وسطیٰ کے وسیع خطے پر قبضہ کر  کے اسے کئی  ممالک میں تقسیم کر دیا تھا۔ یہ نئی تقسیم ایک سو سال سے چلی آ رہی ہے۔  اب ایک صدی گزرنے کے بعد آج کی عالمی قوتیں بالخصوص مغربی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کی نئی جغرافیائی تقسیم چاہتی ہیں، یہ منصوبہ صدر بش کے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی اور برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی اس بارے میں باتیں کرتے رہے ہیں کہ شیعہ سنی کی بنیاد پر تقسیم ہو یا نسلی و قومی بنیاد پر تقسیم ہو، پرانی سرحدیں ختم کی جائیں اور نئی سرحدیں قائم کی جائیں، لیکن اس میں ظاہر ہے کچھ رکاوٹیں ہیں۔ 

ارضِ مقدس کے دعویدار

دوسری بات یہ کہ فلسطین اور بالخصوص بیت المقدس کے حوالے سے عملاً‌ کن کے درمیان تنازع ہے اور کون کون فریق ہیں:

  1. یہودی ہیکل سلیمانی اور دیوارِ گریہ کے حوالے سے دعویدار ہیں، وہاں ان کا پرانا قبلہ ہے۔
  2. عیسائی بیت اللحم کے حوالے سے دعویدار ہیں جو اُن کا قبلہ ہے۔ قرآن نے کہا ہے ’’اذ انتبذت من اھلھا مکاناً‌ شرقیاً‌‘‘ (مریم ۱۶) وہ مکاناً‌ شرقیا (مشرق کی جانب والا حصہ) جہاں حضرت مریمؑ تشریف لے گئی تھیں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام پیدا ہوئے تھے، وہ بیت اللحم ہے جو کہ عیسائیوں کا قبلہ ہے۔
  3. مسلمان مسجد اقصیٰ کے حوالے سے دعویدار ہیں۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ معراج ہے، حضرت عمرؓ کے زمانے میں بیت المقدس کی فتح ہے، پھر صلاح الدین ایوبیؒ کے زمانے میں فتح ہے، اس کے بعد ایک ہزار سال سے مسلمانوں کی وہاں حکومت چلی آ رہی تھی جو آج سے ایک صدی پہلے تک رہی۔
  4. بہائیوں اور بابیوں کا بھی دعویٰ ہے جن کا وہاں ’’عکہ‘‘ کے نام سے مرکز ہے، ان کے بہاء اللہ شیرازی نبوت کے دعویدار تھے جو وہیں مدفون ہیں۔

اس تناظر میں بین الاقوامی طور پر اور اقوام متحدہ کی دستاویزات اور فیصلوں کی رو سے یروشلم (بیت المقدس) ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ جیسے کشمیر اقوام متحدہ کی قرارداد کے حوالے سے متنازعہ علاقہ ہے جس میں مقبوضۂ کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے شامل ہیں جو کسی وقت میں جموں اور کشمیر کی ایک مکمل ریاست تھی۔ جبکہ پاکستان بننے کے زمانے میں اقوام متحدہ کے فیصلوں کے ذریعے جب فلسطینی علاقہ کی تقسیم کر کے اسرائیل قائم کیا گیا تھا، تب بھی ان تین فریقوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے بیت المقدس کو کسی کی تحویل میں نہیں دیا گیا بلکہ اس کی حیثیت بین الاقوامی رکھی گئی اور اس کا انتظام اردن کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ اسی طرح جیسے آزاد کشمیر کی حیثیت تو متنازعہ ہے لیکن اس کا انتظام ہمارے پاس ہے۔ 

گریٹر اسرائیل اور دولتِ فاطمیہ کے ایجنڈے

۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ کی جس تقسیم کے مطابق اسرائیل قائم ہوا تھا، اس سے قطع نظر کہ وہ تقسیم درست تھی یا غلط، لیکن اسرائیل نے ان حدود کی کوئی پرواہ نہیں کی  اور اس سے بہت زیادہ علاقہ قبضہ میں لے لیا اور  لاکھوں فلسطینیوں کو دربدر کر دیا۔ پھر ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اس نے بیت المقدس کے علاقہ پر بھی قبضہ کر لیا، جسے اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے ابھی تک تسلیم نہیں کیا، اور ہم مسلمانوں نے نہ پہلے تسلیم کیا ہے اور نہ آئندہ تسلیم کریں گے۔ یعنی  اسرائیل نے عملاً‌ وہ سرحدیں بھی تسلیم نہیں کیں جو ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ نے قائم کی تھیں اور ان کی بنیاد پر فلسطین اور اسرائیل کی دو الگ ریاستیں وجود میں آنا تھیں۔ 

اسرائیل تو اس سے آگے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی بات کرتا ہے۔ گریٹر اسرائیل کیا ہے؟ حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت، جس کا نقشہ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس میں عراق، مصر،  شام، اردن، بحرین، لبنان کے علاقے ہیں، اس میں آدھا سعودی عرب بھی ہے، مدینہ منورہ اس میں ہے لیکن مکہ مکرمہ نہیں ہے۔  اسرائیل اس ریاست کا دعویدار ہے اور اس کے حصول کے لیے کوشش کر رہا ہے اور اس میں اسے کسی جائز ناجائز اور ضابطہ و قانون کی پرواہ نہیں ہے۔ 

فلسطین کی حالیہ جنگ جو دو سال سے چل رہی ہے، یہ بھی اسرائیل کی مسلط کردہ ہے کیونکہ غزہ کا علاقہ خالی کرانا اس کے منصوبے میں شامل ہے، لیکن فلسطین ڈٹ گئے ہیں کہ ہم خالی نہیں کریں گے، انہوں نے پچاس ساٹھ ہزار شہادتیں دے دی ہیں لیکن ابھی تک وہ قبضہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادیں بھی آ چکی ہیں اور دنیا بھر سے مخالفت جاری ہے لیکن وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے غزہ میں فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا سمجھوتہ ہوا تھا اور اس کی شرائط کی بنیاد پر قیدیوں کا تبادلہ بھی شروع ہو گیا تھا، اس جنگ بندی کو ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد اسرائیل نے توڑا ہے اور تب سے اس جنگ کی کمان بھی ٹرمپ نے سنبھالی ہوئی ہے۔  اب صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل نہ اقوام متحدہ کی سرحدیں تسلیم کر رہا ہے اور  نہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے  قبول کر رہا ہے، وہ کسی جائز اور ناجائز کی پرواہ کیے بغیر گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے کی طرف بڑھ رہا ہے اور اسے اپنے ہر اقدام میں امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ 

قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں ایک پیشگوئی کی تھی ’’ضربت علیھم الذلۃ این ما ثقفوا الا بحبل من اللہ وحبل من الناس‘‘  (اٰل عمران ۱۱۲) یہ ہمیشہ ذلت میں رہیں گے، یا تو اللہ کا دین قبول کریں گے یا پھر لوگوں کی رسی پکڑ کر ذلت سے نکلیں گے۔ یہ اس وقت ’’بحبل من الناس‘‘ کی کیفیت میں ہیں کہ اسرائیل بذاتِ خود کوئی قوت نہیں ہے، اگر آج امریکہ اس کے پیچھے سے ہٹ جائے تو اسرائیل کو سنبھالنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس وقت یہودی قوم ’’الا بحبل من الناس‘‘ کے دائرے میں امریکہ کی سپورٹ حاصل کر کے جو چاہتا ہے کر رہا ہے۔ 

  1. مشرقِ وسطیٰ میں جو کشمکش جاری ہے اس میں ایک فریق تو اسرائیل ہے جس کا ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا ایجنڈا ہے اور جسے یہ نسلی گھمنڈ ہے کہ ’’نحن ابناء اللہ واحباءہ‘‘ (المائدۃ ۱۸) ہم خدا کی اولاد ہیں، ہم رائل فیملی ہیں، ہم خود تو زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں، اور ہماری مرضی کہ اور کسی کو یہ حق دیں یا نہ دیں۔ 
  2. دوسرا فریق ایران ہے، اس کا ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ کا ایجنڈا بھی واضح ہے،  اسے پہلے سمجھ لیں کہ یہ کیا ہے۔ خلافتِ عباسیہ کے خاتمہ کے بعد اور خلافتِ عثمانیہ کے قیام سے پہلے، تقریباً‌ دو سو سال تک بنو فاطمہ نے، اسماعیلی اہلِ تشیع نے ایک خطے پر حکومت کی تھی۔ بغداد پر بھی، قاہرہ پر بھی، حرمین پر بھی کچھ عرصہ تک، ترکستان پر بھی۔ قاہرہ انہوں نے ہی آباد کیا تھا اور جامعہ ازہر بھی انہوں نے ہی قائم کیا تھا۔ دولتِ فاطمیہ کی تاریخ میں نے کسی زمانے میں لکھی تھی جو میری ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ ایران کا ایجنڈا دولتِ فاطمیہ کی بحالی ہے اور عراق، شام، بحرین، یمن وغیرہ علاقوں میں ایران کا اثر و رسوخ موجود ہے جسے وہ مزید بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ اس لیے ایران کی اس خطہ میں اپنی لڑائی ہے۔ 
  3. تیسرا فریق عرب ممالک ہیں، جن کا اپنی حکومتیں اور بادشاہتیں بچانے کے سوا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ جو کوئی بھی ان کی حکومتوں کو تحفظ دے گا وہ اس کے ساتھ ہیں۔ ان کو یہ تحفظ اس وقت امریکہ دے رہا ہے  تو   وہ امریکہ کے ساتھ ہیں۔ کس حد تک ساتھ ہیں، یہ آپ کو ٹرمپ کے دورے سے معلوم ہو گیا ہو گا۔ وہ اس کے سامنے رقص بھی کرواتے ہیں، اسے پیسے بھی دیتے ہیں، اس کی منتیں بھی کرتے ہیں۔ 
  4. یہ تین فریق تو عملاً‌ موجود ہیں جبکہ ترکی ایک سائیڈ پر کھڑا ہے، ان کے ہاں یہ وژن تو ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کا ماحول واپس آئے لیکن اس حوالے سے کوئی ایجنڈا موجود نہیں ہے۔  میں ترکی کو اسٹینڈ بائی فریق کہا کرتا ہوں۔ ان چار فریقوں کے درمیان مشرقِ وسطیٰ پھنسا ہوا ہے، لیکن بات اس کی چلتی ہے جس کے پاس طاقت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے عربوں کو دولت بہت دی ہے لیکن ان کے پاس طاقت نہیں ہے، اور سمجھ بھی کوئی نہیں ہے۔ 

ان میں سے بعض ممالک کی کوشش یہ تھی کہ کسی طریقے سے اسرائیل کو تسلیم کر کے یہ جھگڑا ختم کر دیا جائے تاکہ ہم آرام سے رہ سکیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب غزہ پر حملہ ہوا تھا تو اس زمانے میں ہمارے ہاں بھی یہ بات چلی تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں، اور ہمارے اس وقت کے نگران وزیر اعظم صاحب نے فرما دیا تھا کہ قائد اعظم  کا اعلان کوئی وحی الٰہی تھوڑی ہے۔ لیکن الحمد للہ علماء کرام کی قیادت کی یہ آواز اٹھائی کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنے دیں گے اس نے رکاوٹ ڈالی تھی۔ اسلام آباد کی کانفرنس جس میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا فضل الرحمٰن، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن دامت برکاتہم، اس وقت پروفیسر ساجد میر رحمۃ اللہ علیہ بھی حیات تھے، دینی قیادتوں نے اکٹھے ہو کر اس پر اس ایجنڈے کے خلاف آواز بلند کی تھی کہ کسی طریقے سے فلسطینی سرنڈر ہو جائیں اور  اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ تسلیم کر لیا جائے۔ 

مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور مسلم عوام کی ذمہ داری

اس سارے معاملے میں مسلم حکومتیں ایک طرف ہیں اور مسلم عوام ایک طرف ہیں جو اس ایجنڈے کو  تسلیم نہیں کر رہے، حتیٰ کہ دنیا بھر کے غیر مسلم عوام بھی اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔  اس دوران جو درندگی ہوئی ہے، جو مظالم ہوئے ہیں، جو قتلِ عام ہوئے ہیں، اس حوالے سے ہر جگہ مظاہرے ہوئے ہیں کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ ظلم ہے اور نا انصافی ہے، کوئی بھی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 

 اس دوران میں اسرائیل اور ایران کی جنگ ہو گئی ہے۔ میں یہ بات پھر دہراؤں گا کہ اسرائیل اپنے ایجنڈے کے لیے لڑ رہا ہے اور ایران اپنے ایجنڈے کے لیے لڑ رہا ہے، لیکن چونکہ ایران فلسطین کے عوام کی حمایت کرتا ہے اس لیے دنیا بھر کے عام مسلمانوں نے اسرائیل کے مقابلے میں ایران کو سپورٹ کیا ہے۔ اب اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی ہو گئی ہے۔ غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ بندی ہوئی تھی وہ تو نہیں چل سکی تھی۔ یہ جنگ بندی چلتی ہے یا نہیں، یہ مستقبل ہی بتائے گا۔ 

بہرحال اس صورتحال میں ہمارے کرنے کا کام کیا ہے؟ ہم سے مراد یہ ہے کہ دینی حلقوں کی ذمہ داری کیا ہے، جنہیں اس صورتحال کا احساس ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو زیادتی ہو رہی ہے وہ ہمارے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہو رہی ہے، بیت المقدس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ البتہ  جن کا کوئی وژن نہیں ہے اور جن کی کوئی سوچ نہیں ہے انہیں اس کی کوئی پروا بھی نہیں ہے، پنجابی کا محاورہ ہے ’’عقل ہے تو سوچیں ہی سوچیں، عقل نہیں تو موجیں ہی موجیں‘‘۔  مسجد اقصیٰ تو عالم اسلام کا اجتماعی معاملہ ہے ہی، لیکن اس میں ایک بات ہمیں بالکل واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ یہ لڑائی بھی اب اسرائیل اور عربوں کی نہیں رہی بلکہ صدر ٹرمپ کی اور عالمِ اسلام کی لڑائی بن گئی ہے۔ 

ہمیں اس میں تحریکِ آزادی اور جنگِ آزادی کی طرز پر کام کرنا ہو گا۔ جب ہمارے بعض ممالک پر برطانیہ نے، فرانس نے، اٹلی نے، ہالینڈ نے قبضے کر لیے تھے تو پوری دنیائے اسلام میں آزادی کی تحریکیں چلی تھیں، آزادی کی سوچ پیدا ہوئی تھی، اور یہ جدوجہد صدیوں تک چلتی رہی  ہے۔ میں اس مرحلے کو وہی مرحلہ سمجھ رہا ہوں کہ ایک دفعہ پھر استعمار قابض ہو گیا ہے۔

پاکستان کی سطح پر موقف زندہ رکھیں

پہلی بات تو یہ کہ ہم نے اپنا موقف زندہ رکھنا ہے، اس سے دستبردار نہیں ہونا، اور اس موقف کا اعلان بھی کرتے رہنا ہے۔  پاکستان کے دینی حلقے الحمد للہ اس پوزیشن میں ہیں، جسے دنیا بھی جانتی ہیں اور حکومت بھی جانتی ہے کہ پاکستان کے دینی حلقے کسی موقف پر متفق ہو جائیں تو انہیں اس سے دستبردار کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ہمیں یہ حقیقت قائم رکھنی چاہیے جس کے لیے تمام مکاتبِ فکر کے ساتھ مل بیٹھنا چاہیے اور الحمد للہ ہم ہمیشہ بیٹھتے ہیں۔ 

مسلم حکومتوں کو احساس دلاتے رہیں

دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کی ہے۔ مسلم دنیا کے یہ عالمی ادارے موجود ہیں، ان کو شرم دلانی چاہیے کہ کم از کم مل بیٹھ کر اس کا احساس تو کرو کہ ہم نے کیا کھویا ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں، خدا کا خوف کرو اور اپنا موقف تو واضح کرو۔ 

عالمی سطح پر آواز منظم کرنے میں کردار ادا کریں

تیسری بات کہ دنیا بھر کی جو دینی قوتیں آواز اٹھا رہی ہیں، اس آواز میں قوت پیدا کرنی چاہیے اور اپنی بات کہتے رہنا چاہیے، اس سے جس دن ہم نے دستبرداری اختیار کی ہر چیز ختم ہو جائے گی۔ شکست مار کھانے کا نام نہیں ہے، شکست ہار ماننے کا نام ہے۔ ہم نے جب برطانیہ کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا تھا تو اس کے خلاف کتنے سال جنگ لڑی تھی؟ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فتویٰ دیا تھا۔ اس کے بعد ڈیڑھ سو سال کی جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ ہمیں اپنے موقف پر قائم رہنا چاہیے اور پاکستان میں جو دینی قوت ہے اسے فلسطینیوں اور بیت المقدس کے حق میں، ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے لیے، اور اپنی حکومتوں اور اداروں کو ہوش دلانے اور خبردار کرنے کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہنا چاہیے۔ 

معاشی بائیکاٹ کو مؤثر بنائیں

اس سلسلہ میں جو معاشی بائیکاٹ کی تحریک تھی اس میں مزید نظم اور قوت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ احساس دلانا چاہیے کہ اس سے کسی کا نقصان ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، ہماری غیرت کا اظہار تو کم از کم ہوتا ہے نا کہ ہم یہودیوں کا مال نہ خریدیں۔   امر بالمعروف کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے تین درجے بیان فرمائے ہیں۔ یہ اضعف الایمان ہے، اس پر تو کھڑے ہوں نا۔ ’’ذالک  اضعف الایمان‘‘ نفرت کا اظہار تو کریں، دل سے نفرت کا اظہار تو کریں، اپنے آپ کو کھڑا تو رکھیں۔ 

ہم نے او آئی سی اور عرب لیگ کو توجہ دلانی ہے کہ مل بیٹھ کر اپنا موقف واضح کریں، اور عالم اسلام کی جماعتوں اور تنظیموں کو توجہ دلانی ہے، میڈیا کے ذریعے بھی اور دیگر ذرائع سے بھی، جبکہ معاشی بائیکاٹ کی مہم کو بھی منظم رکھنا ہے۔ میں یہ کہہ کر اپنی بات ختم کروں گا کہ شکست مار کھانے کا نام نہیں، شکست سرنڈر اور دستبردار ہونے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ فلسطینیوں کو عظمتیں اور جزائے خیر عطا فرمائیں جو ساٹھ ہزار جانیں قربان کر کے بھی کھڑے ہیں کہ ہم غزہ کا قبضہ نہیں چھوڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائیں کہ ہم اپنے وسائل اور استطاعت کے دائرے میں فلسطینی بھائیوں کا اور  غزہ کی اس تحریک کا ساتھ دیتے رہیں اور ان کی حمایت میں آواز بلند کرتے رہیں۔ اللہ پاک ضرور کوئی صورت پیدا کریں گے  کہ ہمارے فلسطینی بھائی بھی آزاد ہوں گے اور بیت المقدس بھی آزاد ہو گا ان شاء اللہ العزیز۔ 

(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۷

اسلامی نظام اور آج کے دور میں اس کی عملداری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اہلِ کتاب کی بخشش کا مسئلہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

سوشل میڈیائی ’’آدابِ‘‘ اختلاف اور روایتی مراسلت
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

مسئلہ ختم نبوت اور مرزائیت
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
مولانا حافظ خرم شہزاد

بیوہ خواتین اور معاشرتی ذمہ داریاں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان شریعت کونسل اور الشریعہ اکادمی کے اجتماعات
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
مولانا محمد اسامہ قاسم

Britain`s Long-Standing Role in Palestine`s Transformation into Israel
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۱)
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف
حافظ میاں محمد نعمان

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۲)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۵)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۲)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۴)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

ماہانہ بلاگ

مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امیر خان متقی کا اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس ۵۱ سے خطاب
جسارت نیوز
طلوع نیوز

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے چند اہم پہلو
امتنان احمد

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور اس کے رکن ممالک
الجزیرہ

سیاحتی علاقوں میں حفاظتی تدابیر اور ایمرجنسی سروسز کی ضرورت
مولانا عبد الرؤف محمدی

’’سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟‘‘
مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی

پاک بھارت کشیدگی میں اطراف کے مسلمانوں کا لائحۂ عمل
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

پاک بھارت حالیہ کشیدگی: بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ایران کے رہبرِمعظم اور پاکستان میں ایرانی سفیر کے پیغامات
سید علی خامنہ ای
رضا امیری مقدم

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملے: دینی قائدین کے بیانات
میڈیا

سنی شیعہ تقسیم اور اسرائیل ایران تصادم
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال

امریکہ اسرائیل کی سپورٹ کیوں کرتا ہے اور ایران کتنا بڑا خطرہ ہے؟
نوم چومسکی

اسرائیل ایران جنگ: تاریخی حقائق اور آئندہ خدشات کے تناظر میں
حامد میر

اسرائیل کا ایران پر حملہ اور پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ
خورشید محمود قصوری
علی طارق

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کا حملہ اور خطہ پر اس کے ممکنہ عواقب
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ایران کی دفاعی جنگی حکمتِ عملی
سید محمد علی
سید طلعت حسین

اسرائیل کے حملے، ایران کا جواب، امریکہ کی دھمکیاں
پونیا پرسون واجپائی

’’بارہ روزہ جنگ‘‘ میں اسرائیل اور ایران کے نقصانات
ادارہ

اسرائیل ایران کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter