اسرائیل کا ایران پر حملہ اور پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ

(یوٹیوب چینل Capital TV پر ۱۴ جون ۲۰۲۵ء کو نشر ہونے والے انٹرویو کی تسہیل)

علی طارق: السلام علیکم ناظرین، میں ہوں آپ کا میزبان علی طارق اور آپ دیکھ رہے ہیں کیپیٹل ٹی وی۔ ہمارے ساتھ اس وقت سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری صاحب موجود ہیں ۔ قصوری صاحب، سب سے پہلے تو قیمتی وقت دینے کے لیے آپ کا شکریہ ۔ سر، ایران اور اسرائیل کی جنگ ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے اوپر بڑی چڑھائی کی ہے اور اس کے بعد ایران نے بھی جواب دیا ہے۔  آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ایران اور اسرائیل کی یہ جنگ کہاں جا رہی ہے، کیا تیسری جنگ عظیم کے حوالے سے جو باتیں چل رہی تھیں، اس جنگ سے اس طرح کا کوئی خدشہ تو نہیں کہ عالمی جنگ شروع ہو جائے؟ 

خورشید محمود قصوری: دنیا میں اب تک جو عالمی جنگیں ہوئی ہیں، پہلی جنگِ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم، ان کے  حالات مختلف تھے، جب ایک فوج جیتتی تھی اور دوسری فوج ہارتی تھی  جسے ہتھیار ڈالنے پڑتے تھے، وہ زمانہ چلا گیا ہے۔ اب ایٹمی طاقتیں آ گئی ہیں، اب مکمل فتح ہو ہی نہیں سکتی، جیسے  آپ نے انڈیا پاکستان کی لڑائی میں دیکھا۔ لیکن  جنگیں نقصان پہنچا سکتی ہیں، دنیا کی آبادی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، معیشت کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، خاص طور پر جو ترقی پذیر ممالک ہیں افریقہ کے، ایشیا کے، پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا وغیرہ، ان کو بہت نقصان پہنچائیں گی۔ جنگ کا معیشت کو بہت نقصان ہوتا ہے، تیل کی قیمت میں ایک ڈالر بڑھنے سے یہاں غریبوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی مثال لی جائے تو ہماری بڑی آمدن ترسیلاتِ زر کی صورت میں آتی ہے جو ہماری برآمدات سے بھی زیادہ ہے۔ بہرحال جنگ کے بارے میں فیصلہ ایران نے کرنا ہے یا امریکہ اور اسرائیل نے کرنا ہے۔ 

مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ اسرائیل نے یہ سوچا کہ موقع اچھا ہے کیونکہ اس نے ایران کے اتحادیوں کو کمزور کر دیا ہے، فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ اور اسی طرح عراق اور شام میں، البتہ یمن میں حوثی ابھی تک متحرک ہیں۔ اسرائیل شروع سے کہہ رہا تھا کہ ہم ایران کو ایٹم بم نہیں بنانے دیں گے کیونکہ وہ دنیا کو تباہ کر دے گا۔ حالانکہ اسرائیل خود جو دنیا کو تباہ کرنے کے درپے ہے وہ الگ بات ہے۔ 

علی طارق:آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے کہ ایران کے پاس اس وقت واقعی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت موجود ہے؟ کیا آنے والے دنوں میں وہ اس کا تجربہ کر سکتے ہیں؟ 

خورشید محمود قصوری: ایران کا کہنا یہ تھا کہ ہم مذہبی طور پر اسے درست نہیں سمجھتے کیونکہ ہمارا مذہب اجازت نہیں دیتا کہ جنگ ہو تو سب مارے جائیں، قصوروار بھی اور بے قصور بھی۔ ان کا کہنا تو یہی تھا لیکن جس طرح ان پر پریشر ڈالا جا رہا تھا امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے، تو ظاہر ہے ایران میں ایسے لوگ بھی موجود ہوں گے، ایک فطری سی بات ہے، جن کا خیال ہو گا کہ ان سے جان چھڑانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم ایٹمی قوت بن جائیں۔

ویسے ہمیں ان کے الفاظ پر یقین کرنے  کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA)  جس کا ہیڈکوارٹر ویانا (آسٹریا) میں ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں جہاں بھی اس قسم کی تنصیبات ہوں وہ ان کا معائنہ کرے۔ ابھی تک وہ ایران کے حق میں رپورٹس دے رہے تھے کہ ان کے پاس ایسی صلاحیت نہیں ہے،  وہ یورینیم کی اس حد تک افزودگی نہیں کر رہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جو آخری رپورٹ آئی ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایران اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا۔ مجھے اس کی تفصیل کا نہیں پتہ لیکن اسرائیل تو فیصلہ کیے بیٹھا تھا کہ اسے موقع ملے، اور اسے دو تین موقعے مل گئے۔ 

پہلے اس نے ایران کے اتحادیوں کو نقصان پہنچایا۔ غزہ کی جنگ آپ کے سامنے ہے۔ پھر لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جو کچھ ہوا۔ شام میں بھی حکومت تبدیل ہوئی۔ اس سب کا نقصان ایران کو ہوا ہے۔ اس کے بعد اسرائیل یہ چاہ رہا تھا کہ اس سے اچھا موقع نہیں ملے گا کہ ایران کو بھی حملہ کر کے فارغ کر دیا جائے اور ان کی ایٹمی صلاحیت کو اگر ختم نہیں تو اس قدر مفلوج کر دیا جائے کہ وہ پندرہ بیس سال پیچھے چلے جائیں۔ 

یہ وہ وقت تھا جب امریکہ عمان میں ایران کے ساتھ مذاکرات کر رہا تھا تاکہ ایک پر اَمن ایٹمی معاہدہ ہو جائے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کو یہ بات بالکل پسند نہیں آ رہی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر ان کا سمجھوتہ ہو گیا تو وہ یہی ہو گا کہ یورینیم کی افزودگی کم کریں، لیکن ایران اسے چھوڑے گا تو نہیں۔ تو جب ٹرمپ نے بات شروع کی تو اسرائیل کو اور بھی خطرہ ہوا۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ ملی بھگت ہے، مجھے نہیں پتہ کہ ایسا ہے یا نہیں،  لیکن یہ چیز چھپی نہیں رہے گی۔

علی طارق: آنے والے دنوں میں سامنے آجائے گی۔ 

خورشید محمود قصوری:  ملی بھگت ہے یا نہیں ہے، اس کا نتیجہ ایک ہی ہے کہ ایران کے پاس ہار ماننے کا آپشن نہیں ہے، کیونکہ اسرائیل تو ایرانی حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے تو ایرانی لوگوں سے اپیل کی ہے کہ ’’ہم آپ کے مخالف نہیں آپ کے دشمن نہیں، ہم تو اس حکومت کے خلاف ہیں اور آپ کو آزادی چلانا چاہتے ہیں‘‘۔  یہ کیا خاک آزادی دلائیں گے لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ ایک چیز انہوں نے صاف کر دی ہے کہ وہ حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں۔  تو کیا ایران کی حکومت، جو اسلامی انقلاب کے بعد بنی ہے، وہ یہ بات مانے گی اور ہتھیار ڈال دے گی؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 

اگر ان کے پاس ایسے ہتھیار نہیں بھی ہوں گے جو امریکہ کا مقابلہ کر سکے، پھر بھی وہ ایسے حربے استعمال کرے گا جس میں امریکہ اور اس کے حلیفوں کو نقصان ہو۔ وہ امریکی اڈوں پر حملہ کرے گا، امریکی اتحادیوں پر حملہ کرے گا، اگر بات نہ بنی تو ہرموز کی گزرگاہ بند کر دے گا جہاں سے دنیا کے اکیس فیصد تیل کی سپلائی گزرتی ہے۔ اس سے خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں میں بڑی تباہی آئے گی، پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا وغیرہ۔ کیونکہ ہمارے لیے ترسیلاتِ زر کا مسئلہ بھی بنے گا اور تیل کا بھی۔ تیل کی قیمت میں ایک ڈالر بھی بڑھ جائے تو یہاں مصیبت پڑ جاتی ہے …… ایران نہیں مانے گا،اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ عرب ملکوں میں بھی ایک تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ سمجھتے تھے کہ ایران ان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور اس کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں۔ 

علی طارق: سر، میں یہی سوال کرنے والا تھا کہ سعودی عرب کا اس بار جو ردعمل ہے وہ کیوں تبدیل ہوا ہے؟ 

خورشید محمود قصوری:  اب تبدیل ہوا ہے، جب میں وزیر خارجہ تھا تو میرا ان کے ساتھ رابطہ تھا، وہ کہتے تھے کہ پاکستان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، انہیں سمجھاؤ کہ ہمارے معاملات میں دخل نہ دیں۔ میں پوچھتا تھا کہ تمہارے کون سے معاملات ہیں؟ (عرب چاہتے تھے) کہ فلسطین، شام، عراق وغیرہ میں ایران دخل نہ دے کہ یہ عرب ممالک ہیں۔ لیکن خیر، ایران کی اپنی سوچ تھی، انقلاب کے بعد وہ چاہتا تھا کہ خطے میں تبدیلی آئے، اس لیے وہ ان لوگوں کو سپورٹ کر رہا تھا ۔

اب اسرائیل کا جو بدمست ہاتھی ہے، اسے مغربی دنیا سے جتنی سپورٹ ملی ہے، جتنی اس کے پاس ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے، اگر امریکہ کی ٹیکنالوجی اسرائیل کے پیچھے ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے اس حوالے سے بالادستی حاصل ہے۔  ایران نے بھی کچھ کامیابی حاصل کی ہے، اس نے اسرائیل کے میزائل ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم کو کسی حد تک ناکام بھی کیا ہے۔ یہ واضح طور پر بعد میں پتہ چلے گا کیونکہ جنگ کی دھند میں سچ اور جھوٹ کا پتہ نہیں چلتا۔ لیکن بہرحال ایران نے نقصان پہنچایا ہے اور ان کے میزائل اسرائیل میں گرے ہیں۔  میرا کہنا یہ ہے کہ ایران ہر وہ کام کرے گا جس میں اس کی شکست نہ ہو، یہ ایک فطری بات ہے، اور وہ چاہے گا کہ جنگ اس طریقے سے پھیلے کہ اس خطے میں اسرائیل اور اس کے جتنے بھی اتحادی ہیں امریکہ وغیرہ ، ان کو نقصان پہنچے۔ 

علی طارق: قصوری صاحب! اسرائیل نے جب حملہ کیا، نیویارک ٹائمز میں بھی آگیا تھا، اور ایران نے جنگ چھیڑی ہوئی تھی، تو کیا یہ ایران کی ناکامی نہیں کہ ان کی اعلیٰ  قیادت کو انہوں نے مار دیا، اور یہ لوگ بیٹھے رہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی ایجنسیز کی ناکامی ہے۔ 

خورشید محمود قصوری: بڑے افسوس کی بات ہے، ایران ہمارا برادر ملک ہے، ہر ایک کو سمجھ آ رہی تھی کہ اسرائیل حملہ کرے گا، نیویارک ٹائمز میں سٹوری شائع ہو چکی تھی، امریکی صدر نے کہا تھا کہ سفارتکاروں کے غیر ضروری اہل خانہ نکل جائیں۔ جب ساری دنیا کو یہ بات نظر آ رہی تھی تو آپ کو کیوں نظر نہیں آیا۔ آپ کو گھروں میں نہیں بلکہ بنکروں میں ہونا چاہیے تھا۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ اسرائیل حملہ کرے گا۔ ماضی میں اس نے کئی سائنسدان چن چن کر مارے ہیں، اس نے ان کے جرنیل مارے ہیں، جب جنگ ہو رہی ہے تو وہ کیوں نہیں مارے گا۔  اس پر مجھے افسوس کا اظہار کرنا پڑتا ہے، یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا۔  لگ یہ رہا ہے کہ …

علی طارق: کیا کوئی غداری کا معاملہ تھا، سر، آپ کو لگتا ہے کہ ایران کے اپنے لوگوں میں کچھ ایسے تھے جو …؟

خورشید محمود قصوری:  یہ تو بالکل ہے، ایران سے ان کو انٹیلی جنس تو مل رہی ہے، اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے۔ سوال ایران کی حکومت کا ہے، ایران کی فوج کا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں کیوں تھے، ان کو جب جنگ صاف نظر آ رہی تھی تو انہیں اپنے گھروں میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسرائیل کا ٹریک ریکارڈ سب کے سامنے ہے،  وہ جرنیلوں کو بھی مارتا ہے، سائنسدانوں کو بھی مارتا ہے۔ یہ میری سمجھ سے بالا ہے، یہ آہستہ آہستہ کہانی سامنے آئے گی۔  مجھے جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی اس غلط فہمی میں تھے اسرائیل حملہ نہیں کرے گا کیونکہ صدر ٹرمپ سے بات چیت ہو رہی تھی اور عمان میں مذاکرات چل رہے تھے۔

علی طارق: آپ کا یہ کہنا ہے کہ وہ دھوکے میں مارے گئے ہیں؟

خورشید محمود قصوری: دھوکہ ہے یا غلط فہمی ہے۔ دھوکہ اس طرح کہ اگر ٹرمپ اور نیتن یاہو کی ملی بھگت تھی تو دھوکہ ہے۔ اور غلط فہمی یہ کہ ٹرمپ اور وہ پہلے اکٹھے نہیں تھے لیکن ٹرمپ بعد میں شامل ہو گیا کیونکہ اس کو نظر آ رہا تھا کہ امریکہ میں اسرائیلی لابی ایران پر حملے کے بعد بہت خوش ہے، تو ٹرمپ بھی ان کو خوش کرنا چاہ رہا ہے۔ لیکن بہرحال اس کے نتائج ہوں گے۔ 

علی طارق: سر، ایسا ہو سکتا ہے کہ امریکہ کی بات اسرائیل نہ مانے،  ڈونلڈ ٹرمپ کی بات نیتن یاہو نہ مانے، آپ کو لگتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے؟ 

خورشید محمود قصوری: ہو سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بھی ان کی بات نہیں مانتے تھے جب ہم امریکہ کے اتحادی تھے۔ حالانکہ لوگ کہتے تھے کہ امریکہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ عراق کی جنگ کے دوران پاکستان سکیورٹی کونسل کا ممبر تھا، میں نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی، امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ آپ عراق پر حملے کے معاملے میں ہماری حمایت کریں گے۔ ہم نے انہیں سپورٹ نہیں کیا، جس کے نتیجے میں وہ سکیورٹی کونسل کی قرارداد منظور کروانے میں ناکام ہو گئے۔  کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان کا بنیادی مقصد ہی تباہ ہو جائے گا۔ ہم افغانستان میں پہلے ہی مصیبت میں پھنسے ہوئے ہیں، اوپر سے عراق میں بھی شامل ہو جائیں۔  اس لیے یہ ممکن ہے کہ نیتن یاہو امریکہ کی بات نہ مانے، کیونکہ اس کے لیے یہ زندگی موت کا معاملہ ہے، وہ یا جیل جائے گا یا وزیر اعظم رہے گا، اس پر کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں، تو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ جنگ پھیلتی جائے اور کام لمبا ہوتا جائے۔ 

علی طارق: یہ بتائیے کہ ابھی سوشل میڈیا پر یہ بات چل رہی ہے اور بہت سے تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کا جو ایران پر حملہ ہے، اس کے بعد یہ معاملہ پاکستان تک بھی آ سکتا ہے؟ اس کے اوپر آپ کا کیا تجزیہ ہے، کیا اسرائیل پاکستان پر حملے کی غلطی کرے گا، یا وہ انڈیا کے ذریعے سے آئے گا؟

خورشید محمود قصوری: میں یہ بتا دوں کہ مجھے تب سے اس کا تجربہ ہے جب میں وزیر خارجہ نہیں بھی تھا۔ اسرائیل اور ہندوستان کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف گٹھ جوڑ پرانی بات ہے۔ اب تو دس دس بندے جا رہے ہیں، میں اکیلا پانچ ملکوں میں گیا تھا: روس،  جرمنی، فرانس، اٹلی اور یورپی یونین۔  1998ء میں جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو میں پیرس میں تھا۔ میری میٹنگ طے تھی فرانس کے سیکرٹری جنرل آف فارن افیئرز کے ساتھ، وہ مجھ سے ملنے میرے ہوٹل میں آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ ہماری رپورٹس دیکھ لیں، اسرائیل اور ہندوستان کہوٹہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔  میں نے بتایا کہ ہمارے ایف 16 باری باری ہر وقت فضا میں موجود رہتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ P5 (سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبران) کو بتا دیں، اگر انہوں نے حملہ کیا تو ہمارے جہاز اسی وقت ممبئی کے قریب ٹرامبے  میں ہندوستان کے ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ کر کے اسے اڑا دیں گے۔ 

اس لیے یہ اسرائیل اور ہندوستان کا گٹھ جوڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ لیکن یہ ہمارے مفاد میں تو نہیں ہے نا کہ اسرائیل بڑھتا ہی چلا جائے۔ ابھی پاکستان اور ہندوستان کی حالیہ جنگ میں بھی اسرائیل نے ان کی پوری مدد کی، لیکن پاکستان اس اسٹیج پر پہنچا ہوا ہے، ایک تو ہم ایٹمی طاقت ہیں الحمد للہ، اور دوسرا روایتی ہتھیاروں میں بھی ہم نے بالادستی دکھائی ہے۔ 1965ء میں تو پاکستان ایئرفورس کو چھ دن لگے تھے جس میں انہوں نے فضائی برتری حاصل کی تھی، اس دفعہ تو پینتیس منٹ میں ہمیں برتری مل گئی تھی، انہوں نے حملہ کیا اور پینتیس منٹ میں ان کے جہاز فارغ ہو گئے، ان کا ریڈار جام کر دیا گیا۔ 

اب تو ہندوستان کے دفاعی تجزیہ کار خود کہہ رہے ہیں کہ مودی نے کیا سوچ کر یہ کیا۔ اس سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ جنگ چھیڑنا آسان ہے،  لیکن جنگ ختم کرنا الگ تو بات ہے  جنگ کا نتیجہ نہیں بتایا جا سکتا۔ مودی کا خیال تھا کہ الیکشن ہو رہے ہیں، میں حملہ کروں گا اور کہوں گا کہ کہ میں نے دہشت گردوں کے اڈے تباہ کر دیے ہیں ۔ یہ بکواس تھی کیونکہ انہوں نے عمارتیں اڑائی تھیں،ہم انڈیا کی کوئی بھی عمارت اڑا سکتے ہیں اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ بلکہ عمارتوں کو تباہ کرنے سے تو گریز کیا جاتا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتیں نہ ہوں۔ لیکن اس نے  ووٹ لینے کی خاطر ایسا کیا ۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان تنہا ہوا، اور بری طرح سے مار بھی کھائی۔  اس لیے اسرائیل نے یہ کیا سوچ کر کیا ہے، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا، اگر وہ مودی سے مشورہ لے تو اسے سمجھانا چاہیے کہ میں نے غلطی کی تھی پاکستان پر حملہ کر کے۔ 

علی طارق: تو آپ نے بھی غلطی کی ہے ایران پر حملہ کر کے؟

خورشید محمود قصوری: آپ نے بھی غلطی کی ہے، اس کو سمیٹ لیں۔ 

علی طارق: اچھا سر،  آپ وزیر خارجہ رہے ہیں تو آپ کو نیتن یاہو کی نفسیات کیسی لگتی ہے، خبریں آ رہی ہیں کہ وہ ملک سے فرار ہو گیا ہے اور کہیں بنکر میں چھپ گیا ہے، کیا سائیکی ہے اسرائیل کے وزیر اعظم کی؟

خورشید محمود قصوری: اس کی فکر جیل سے بچنے کی ہے، اسی لیے اس نے اپنی جوڈیشری پر  حملہ کیا، اسی لیے اسرائیل میں اس کے خلاف اتنے بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے تھے۔ اور اس کو یہ پتہ ہے کہ اسرائیل اس لیے بنا تھا مبینہ طور پر کہ دنیا کے یہودی یہاں آ کر آباد ہوں گے۔ جبکہ یہودی تو ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، خاص طور پر نوجوان، اور امریکہ سے جو اسرائیل آ رہے تھے وہ بھی  نہیں آ رہے۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ نوجوان یہودیوں نے امریکی یونیورسٹیوں میں اس کے خلاف مظاہرے کیے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اس نے ہماری زندگی حرام کر دی ہے، اس کی وجہ سے یہودیوں کے خلاف ساری دنیا میں نفرت پیدا ہو گئی ہے۔ 

اس لیے اسرائیلی وزیر اعظم کو تو ہر طرف سے خطرہ  ہی خطرہ ہے۔  اس کو اپنی فوج سے بھی خطرہ ہے،اس کے کئی فوجی استعفے دے کر چلے گئے ہیں،  ایئرفورس آفیسرز نے استعفے دیے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ ہم غزہ میں حملہ نہیں کریں گے کیونکہ جو کچھ تم کر رہے ہو یہ جنگی جرائم ہیں۔  ان کے ایک سابق وزیر اعظم ایہود آلمرٹ نے کہا ہے کہ وہ جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ تو اسرائیل میں یہ اختلاف ہے۔ نیتن یاہو جیل سے بچنے کے لیے ہر کام کر ےگا۔ 

علی طارق: سر، امریکہ کو آپ کہاں ریٹ کرتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا جو ٹویٹ آیا کہ ہم نے ایران کو چانس دیا۔ اس کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ان کے سیکرٹریز کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، دوسری طرف ٹرمپ صاحب کا یہ ٹویٹ آیا ہے۔ 

خورشید محمود قصوری: دنیا میں اس نوعیت کے مسائل عموماً‌ بڑے پیچیدہ ہوتے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ ایران کے ساتھ جنگ نہ ہو اور وہ معاہدہ کر لے،لیکن یہ معاہدہ ہم اپنی شرائط پر کریں۔ اور ایران بھی چاہتا تھا کہ امریکہ سے یہ معاہدہ ہو جائے کیونکہ ایران پر بڑی اقتصادی پابندیاں لگی ہوئی ہیں اور وہاں کے عوام مصیبت میں ہیں۔ خبریں آ رہی تھیں کہ مذاکرات ٹھیک چل رہے ہیں۔ اب اس صورتحال میں نیتن یاہو کو موت نظر آ رہی تھی کہ اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو مارے جائیں گے۔ 

ایک تو بات چیت کے آنے والے راؤنڈ سے پہلے پریشر ڈالنے کے لیے جو کچھ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران مان نہیں رہا، اور اس طرح کی باتیں۔ تو نیتن یاہو نے دو چیزوں سے فائدہ اٹھایا۔ ایک تو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ سے، اور دوسرا صدر ٹرمپ نے جو کہا کہ ایران نہیں مان رہا۔ تو اگر نیتن یاہو نے یہ ٹرمپ کی مرضی کے بغیر کیا ہے تو ایک چیز نوٹ کر لیں کہ امریکہ کی جو ریپبلکن پارٹی ہے، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی ہے، یہ الیکشن کیسے جیتی تھی؟ یہ ووٹروں کو کہہ رہی تھی کہ پچھلی حکومتیں جنگوں میں جھونکتی رہی ہیں، ہمارا پیسہ خرچ کرتی رہی ہیں، یہاں کی ٹیکنالوجی اور صنعت باہر جا رہی ہے، دنیا امیر ہو رہی ہے، ہم غریب ہو رہے ہیں۔ یہ اس کا نعرہ تھا اور اسی پر اس کو ووٹ پڑے تھے۔ اس لیے یہ بات قابل فہم ہے کہ صدر ٹرمپ کی خواہش تھی کہ ایران سے اپنی شرائط پر معاہدہ ہو جائے۔ معاہدے کے لیے دونوں طرف سے کوشش تھی۔  اسرائیل نے موقع کا فائدہ اٹھایا ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ اگر یہ جنگ پھیلی تو ٹرمپ کی پارٹی کو بھی امریکہ میں نقصان ہو گا اور یہ بات آپ کو آنے والے الیکشن میں نظر آجائے گی۔ 

علی طارق: آنے والے دنوں میں آپ کو  جنگ رکتی دکھائی دے رہی ہے یا آپ کو لگتا ہے کہ یہ مزید پھیلے گی؟  کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ دونوں طرف کے حمایتی درمیان میں کود پڑیں گے اور معاملہ لمبا ہو جائے گا؟ 

خورشید محمود قصوری: ولیم شیکسپیئر جو بہت بڑے مفکر ہیں، انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا 

Mischief thou art afoot, take thou what course thou wilt!

یعنی یہ تم نے جب شروع کر ہی دیا ہے تو یہ جو فتنہ ہے یہ اپنا  راستہ خود ڈھونڈے گا، یہ تمہارے کہنے پہ نہیں چلے گا۔ یہ فتنہ جو چل پڑا ہے وہ کبھی اِدھر جائے گا کبھی اُدھر جائے گا اور کسی کو پتہ نہیں کہ کدھر جائے گا۔ اس  نے یہ بڑا سوچ سمجھ کر کہا تھا کہ جنگ شروع کرنی تو آسان ہوتی ہے۔ جیسے مودی نے شروع کی تھی لیکن ولیم شیکسپیئر کی اصطلاح میں اس کا نتیجہ مودی کو نہیں پتہ تھا، پھر اس نے اپنی راہ بنائی اور اس کا بیڑا غرق بھی کر دیا  کہ بین الاقوامی سطح پر تنہا ہوا اور ان کی فوج کو بھی بڑی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ 

علی طارق: پاکستان نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت تو کی ہے لیکن اسلامی ممالک پر جو بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے کہ ایک ایران ہی بس یہودیوں کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے، پھر سعودیہ میں جو اس حوالے سے تبدیلی آئی ہے، اور پاکستان کا اس وقت جو موقف ہے، یہ سب آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟ 

خورشید احمد قصوری: اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ اسلامی دنیا میں چھ ممالک ایسے ہیں جو امریکہ پر کچھ اثر انداز ہو سکتے ہیں:

تین  عرب ممالک ہیں جو گلف کے ہیں، جن کی پاس بے تنہا دولت ہے اور جو امریکہ سے ٹیکنالوجی بھی خرید رہے ہیں اور ہتھیار بھی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر۔ اور تین ممالک ایسے ہیں جو تاریخی طور پر امریکہ کے اتحادی رہے ہیں۔ ایک پاکستان ہے جو بغداد پیکٹ، سینٹو ، سیٹو اور ہر قسم کے معاہدوں میں رہا ہے۔ ابھی بھی فیلڈ مارشل مارشل عاصم منیر کو بلایا گیا ہے امریکہ کی دو سو پچاسویں سالگرہ کے موقع پر۔ دوسرا ترکی ہے جو ابھی بھی نیٹو کا ممبر ہے۔ اور تیسرا انڈونیشیا ہے جو اسلامی دنیا کا سب سے بڑا  ملک ہے، اس کے بھی مغرب سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ سب کو مجموعی طور پر کوشش کرنی چاہیے کہ صدر ٹرمپ کو، مغربی دنیا کو اور یورپ کو سمجھائیں کہ یہ معاملہ جتنا طول پکڑے گا  تو اس علاقہ میں امریکہ کے مفادات کا بھی نقصان ہو گا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا بھی نقصان ہو گا۔  عوام کا جذبہ ایران کے ساتھ ہے، اس معاملے کو لمبا نہ ہونے دیں۔ ہمیں  سفارتی کوششیں کرنی چاہئیں، میں اگر وزیرخارجہ ہوتا تو یہی کرتا جو میں ابھی آپ کو کہہ رہا ہوں۔ 

علی طارق: آخر میں ایک بات ذرا واضح کر دیں کہ آپ کے دور میں یہ معاملہ ہوا تھا کہ اسرائیل اور ہندوستان مل کر کہوٹہ پر حملہ کرنا چاہ رہے تھے۔ کیا اب ایران کے بعد اسرائیل پاکستان پر حملہ کرنے کا  سوچ سکتا ہے، آنے والے دنوں میں یا مستقبل میں وہ ایسی غلطی کرے گا؟ 

خورشید محمود قصوری: دنیا کا ایک ملک ایسا ہے جس سے اسرائیل گھبراتا ہے۔ یہ مجھے اس لیے پتہ ہے کہ جب میں وزیر خارجہ تھا کہ تو ترکی کے صدر اردگان نے میری اور اسرائیل کے نائب وزیر اعظم کی استنبول میں میٹنگ کرائی تھی۔ لب لباب اس لمبی کہانی کا یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ایٹمی پروگرام صرف ہندوستان کے حوالے سے ہے، اس کا ہندوستان کے سوا کسی کو خطرہ نہیں ہے۔ اور ہم دنیا کو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے میزائلوں کی رینج Andaman جزیروں تک ہے، جو ہندوستان کا حصہ ہیں لیکن ایسی جگہ پر ہیں جہاں سے چین کی تجارت بھی ہوتی ہے۔ ان جزیروں کا فاصلہ اسرائیل سے زیادہ ہے، اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کو یہ بات پتہ ہے وہ ہماری رینج کی زد میں ہے۔  تو جب میری ملاقات اسرائیل کے نائب وزیر اعظم سے ہوئی تو اسرائیلی اخباروں نے کہا تھا 

Foreign Minister of Islamic Super Power Pakistan Meets Israeli Deputy Prime Minister
’’اسلامی سپر  پاور پاکستان کے وزیرخارجہ کی اسرائیلی نائب وزیراعظم سے ملاقات‘‘

تو ان کو پتہ ہے کہ یہاں پنگا نہ لیں تو اچھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1973ء میں جب بھٹو صاحب وزیر اعظم تھے تو شام میں پاکستان ایئرفورس کے پائلٹس بھیجے گئے تھے۔ شام اور مصر نے جب 1967ء کی جنگ کا بدلہ لینے کے لیے 1973ء میں اسرائیل پر حملہ کیا تو اس میں وہ کامیاب ہو رہے تھے۔ لیکن امریکیوں نے اسرائیل کی ایسی سپورٹ کی کہ  ، پھر کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ ہو گیا ۔ اس جنگ میں شام نے بھٹو صاحب سے مدد مانگی تو انہوں نے ایئر فورس کے پائلٹس بھیجے۔  ہماری ایئر فورس نے اسرائیل  کے جہازوں سے ڈاگ فائٹ کر کے دمشق میں بھی ان کے جہاز گرائے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کو اس وقت سے پتہ ہے کہ پاکستان پر حملہ نہ کریں تو اچھا ہے۔  لیکن اسی لیے وہ ہمیں نقصان بھی پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ 

علی طارق: لیکن جیسے آپ نے کہا کہ ہم لوگ تیار ہیں۔ 

خورشید محمود قصوری: اللہ کرے اس کی ضرورت نہ پڑے، میرا خیال ہے کہ ہندوستان کو بھی کچھ سمجھ آ گئی ہو گی کہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ 

علی طارق: بہت شکریہ جی۔  آپ گفتگو سن رہے تھے خورشید محمود قصوری صاحب کی جنہوں نے ماضی کی بھی اور موجودہ صورتحال بھی مختصر وقت میں ہمیں سمجھائی ہے، ان کا انٹرویو بہت اہم ہے اس ساری صورتحال کو سمجھنے کے لیے۔ آج کے پروگرام کے ساتھ مجھے اجازت دیں، اللہ حافظ۔

https://youtu.be/adhIt_ENcPA


(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۷

اسلامی نظام اور آج کے دور میں اس کی عملداری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اہلِ کتاب کی بخشش کا مسئلہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

سوشل میڈیائی ’’آدابِ‘‘ اختلاف اور روایتی مراسلت
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

مسئلہ ختم نبوت اور مرزائیت
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
مولانا حافظ خرم شہزاد

بیوہ خواتین اور معاشرتی ذمہ داریاں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان شریعت کونسل اور الشریعہ اکادمی کے اجتماعات
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
مولانا محمد اسامہ قاسم

Britain`s Long-Standing Role in Palestine`s Transformation into Israel
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۱)
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف
حافظ میاں محمد نعمان

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۲)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۵)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۲)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۴)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

ماہانہ بلاگ

مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امیر خان متقی کا اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس ۵۱ سے خطاب
جسارت نیوز
طلوع نیوز

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے چند اہم پہلو
امتنان احمد

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور اس کے رکن ممالک
الجزیرہ

سیاحتی علاقوں میں حفاظتی تدابیر اور ایمرجنسی سروسز کی ضرورت
مولانا عبد الرؤف محمدی

’’سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟‘‘
مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی

پاک بھارت کشیدگی میں اطراف کے مسلمانوں کا لائحۂ عمل
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

پاک بھارت حالیہ کشیدگی: بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ایران کے رہبرِمعظم اور پاکستان میں ایرانی سفیر کے پیغامات
سید علی خامنہ ای
رضا امیری مقدم

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملے: دینی قائدین کے بیانات
میڈیا

سنی شیعہ تقسیم اور اسرائیل ایران تصادم
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال

امریکہ اسرائیل کی سپورٹ کیوں کرتا ہے اور ایران کتنا بڑا خطرہ ہے؟
نوم چومسکی

اسرائیل ایران جنگ: تاریخی حقائق اور آئندہ خدشات کے تناظر میں
حامد میر

اسرائیل کا ایران پر حملہ اور پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ
خورشید محمود قصوری
علی طارق

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کا حملہ اور خطہ پر اس کے ممکنہ عواقب
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ایران کی دفاعی جنگی حکمتِ عملی
سید محمد علی
سید طلعت حسین

اسرائیل کے حملے، ایران کا جواب، امریکہ کی دھمکیاں
پونیا پرسون واجپائی

’’بارہ روزہ جنگ‘‘ میں اسرائیل اور ایران کے نقصانات
ادارہ

اسرائیل ایران کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter