یہ عدالت جو 2002ء میں روم اسٹیٹیوٹ (قواعدی تاسیسی دستاویز) کے تحت سنگین ترین جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے قائم کی گئی تھی، اپریل 2025ء تک 125 ممالک اس کے رکن ہیں جنہوں نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اس ہفتے کے اوائل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکہ گئے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، ہنگری سے امریکہ کی پرواز کے دوران نیتن یاہو نے کچھ یورپی ممالک کے اوپر سے پرواز کرنے سے گریز کیا، جو ہنگامی لینڈنگ کی صورت میں ان کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے گرفتاری کے وارنٹ پر عملدرآمد کر سکتے تھے۔ اس دورے سے ان کے سفر میں تقریباً 400 کلومیٹر (250 میل) کا اضافہ ہوا۔
گزشتہ (سال) نومبر میں آئی سی سی نے نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع کے خلاف غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔
’’ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے مہینوں کی غور و خوض کے بعد آج اعلان کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے وزیر اعظم اور سابق وزیر دفاع کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے الزام میں بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رہی ہے۔‘‘ (21 نومبر 2004ء)
آئی سی سی کیا ہے؟
آئی سی سی ایک آزاد عدالت ہے جس کا مرکز دی ہیگ، نیدرلینڈز میں ہے۔ یہ عدالت نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم، اور جارحیت جیسے سنگین بین الاقوامی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ چلاتی ہے۔ یہ پہلی عدالت ہے جس کے پاس ریاستوں یا تنظیموں کے بجائے افراد کو ان جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کا اختیار ہے، اور رکن ممالک آئی سی سی کے وارنٹ کے تحت افراد کو گرفتار کرنے کے پابند ہیں۔ آئی سی سی 1998ء میں Rome Statute کو منظور کرنے کے بعد 2002ء میں قائم کی گئی۔
روم اسٹیٹیوٹ کیا ہے؟
روم اسٹیٹیوٹ وہ معاہدہ ہے جو آئی سی سی کے کام کرنے کے قواعد کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ یہ 1998ء میں روم، اٹلی میں ایک سفارتی کانفرنس کے دوران منظور کیا گیا، جہاں دنیا بھر کے ممالک انسانیت کے خلاف سنگین ترین جرائم سے نمٹنے کے لیے ایک نظامِ انصاف بنانے کے لیے اکٹھے ہوئے۔
آئی سی سی کے رکن ممالک کون سے ہیں؟
اپریل 2025ء تک 137 ممالک نے روم اسٹیٹیوٹ پر دستخط کیے تھے، جو اُن کے شامل ہونے کے ارادے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جبکہ ان میں سے 125 نے باضابطہ طور پر اس کی توثیق کی تھی، جو آئی سی سی کے مکمل رکن ممالک بن گئے تھے۔ وہ ممالک جنہوں نے روم اسٹیٹیوٹ پر دستخط یا توثیق کی ہے، نیچے نقشے پر دکھائے گئے ہیں (زرد رنگ میں صرف دستخط کرنے والے، نارنجی رنگ میں دستخط اور توثیق کرنے والے):
درج ذیل فہرست 1999ء سے 2024ء تک ان ممالک کی ہے جنہوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے روم اسٹیٹیوٹ کی توثیق کی ہے:
1999ء
فجی (Fiji)
گھانا (Ghana)
اٹلی (Italy)
سان مارینو (San Marino)
سینیگال (Senegal)
ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو (Trinidad and Tobago)
2000ء
آسٹریا (Austria)
بیلجیم (Belgium)
بوٹسوانا (Botswana)
کینیڈا (Canada)
فرانس (France)
گیبون (Gabon)
جرمنی (Germany)
آئس لینڈ (Iceland)
لیسوتھو (Lesotho)
لکسمبرگ (Luxembourg)
مالی (Mali)
مارشل جزائر (Marshall Islands)
نیوزی لینڈ (New Zealand)
ناروے (Norway)
سیرالیون (Sierra Leone)
جنوبی افریقہ (South Africa)
سپین (Spain)
تاجکستان (Tajikistan)
وینزویلا (Venezuela)
2001ء
انڈورا (Andorra)
اینٹیگوا اور باربوڈا (Antigua and Barbuda)
ارجنٹائن (Argentina)
وسطی افریقی جمہوریہ (Central African Republic)
کوسٹا ریکا (Costa Rica)
کروشیا (Croatia)
ڈنمارک (Denmark)
ڈومینیکا (Dominica)
ہنگری (Hungary)
لیختینستائن (Liechtenstein)
نیدرلینڈز (Netherlands)
نائیجیریا (Nigeria)
پیراگوئے (Paraguay)
پیرو (Peru)
پولینڈ (Poland)
سربیا (Serbia)
سلووینیا (Slovenia)
سویڈن (Sweden)
سوئٹزرلینڈ (Switzerland)
برطانیہ (United Kingdom)
2002ء
بارباڈوس (Barbados)
بینن (Benin)
بولیویا (Bolivia)
بوسنیا اور ہرزیگوینا (Bosnia and Herzegovina)
برازیل (Brazil)
بلغاریہ (Bulgaria)
کمبوڈیا (Cambodia)
کولمبیا (Colombia)
جمہوری جمہوریہ کانگو (Democratic Republic of the Congo)
جبوتی (Djibouti)
ایکواڈور (Ecuador)
ایسٹونیا (Estonia)
گیمبیا (Gambia)
یونان (Greece)
ہونڈوراس (Honduras)
آئرلینڈ (Ireland)
اردن (Jordan)
لیٹویا (Latvia)
ملاوی (Malawi)
مالٹا (Malta)
ماریشس (Mauritius)
منگولیا (Mongolia)
نمیبیا (Namibia)
نائجر (Niger)
شمالی مقدونیہ (North Macedonia)
پاناما (Panama)
پرتگال (Portugal)
جمہوریہ کوریا (Republic of Korea)
رومانیہ (Romania)
سینٹ ونسنٹ اور گریناڈائنز (Saint Vincent and the Grenadines)
ساموا (Samoa)
سلوواکیہ (Slovakia)
سلووینیا (Slovenia)
تنزانیہ (Tanzania)
مشرقی تیمور (Timor-Leste)
یوگنڈا (Uganda)
یوراگوئے (Uruguay)
زیمبیا (Zambia)
2003ء
افغانستان (Afghanistan)
البانیہ (Albania)
جارجیا (Georgia)
گنی (Guinea)
لتھوانیا (Lithuania)
2004ء
برکینا فاسو (Burkina Faso)
گیانا (Guyana)
لائبیریا (Liberia)
جمہوریہ کانگو (Republic of the Congo)
2005ء
ڈومینیکن ریپبلک (Dominican Republic)
کینیا (Kenya)
میکسیکو (Mexico)
2006ء
کوموروس (Comoros)
مونٹی نیگرو (Montenegro)
سینٹ کٹس اور نیوس (Saint Kitts and Nevis)
2007ء
چاڈ (Chad)
جاپان (Japan)
2008ء
کک جزائر (Cook Islands)
مڈغاسکر (Madagascar)
سورینام (Suriname)
2009ء
چلی (Chile)
چیک جمہوریہ (Czech Republic)
2010ء
بنگلہ دیش (Bangladesh)
مالدووا (Moldova)
سینٹ لوسیا (Saint Lucia)
سیشلز (Seychelles)
2011ء
کیپ وردے (Cape Verde)
گریناڈا (Grenada)
مالدیپ (Maldives)
تیونس (Tunisia)
2012ء
گواتیمالا (Guatemala)
وانواتو (Vanuatu)
2013ء
آئیوری کوسٹ (Ivory Coast)
2015ء
فلسطین (Palestine)
2016ء
ایل سلواڈور (El Salvador)
2019ء
کیریباتی (Kiribati)
2023ء
آرمینیا (Armenia)
2024ء
یوکرین (Ukraine)
اب تک برونڈی (2017ء) اور فلپائن (2019ء) اس عدالت سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ ہنگری، جس نے گزشتہ ہفتے نیتن یاہو کی میزبانی کی تھی، اس نے ان کی آمد کے موقع پر آئی سی سی سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔
کسی ریاست کو عدالت سے دستبردار ہونے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دفتر کو باضابطہ طور پر دستبرداری کا نوٹس بھیجنا ہوتا ہے، جو کہ عام طور پر ایک خط کی شکل میں ہوتا ہے اور جمع ہونے کے ایک سال بعد نافذ العمل ہوتا ہے۔
کیا رکن ممالک اپنی سرزمین پر نیتن یاہو کو گرفتار کرنے کے پابند ہیں؟
بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے رکن ممالک کے لیے لازمی ہے کہ وہ عدالت کی تحقیقات اور مقدمات میں مکمل تعاون کریں۔ اس میں ملزمان کی گرفتاری، ثبوت اور گواہوں کے بیانات فراہم کرنا، اور متاثرین اور گواہوں کو تحفظ فراہم کرنا شامل ہے۔ انہیں عدالت کے فیصلوں پر بھی عملدرآمد کرنا ہوتا ہے، جس میں گرفتاریوں کے وارنٹ اور سزاؤں پر عملدرآمد شامل ہے۔
ریاستوں کو یہ بھی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ آئی سی سی کے ذریعہ بیان کردہ جرائم، جیسے کہ نسل کشی اور جنگی جرائم، کو اپنے قومی قوانین میں شامل کریں، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے قانونی نظام ان جرائم سے نمٹنے کے قابل ہیں۔
عملی طور پر اس سب کا مطلب یہ ہے کہ آئی سی سی کا حصہ بننے والے ملک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان افراد کو حراست میں لے جنہیں عدالت کی طرف سے گرفتاری کے وارنٹ کا سامنا ہے، جبکہ وہ اس کی سرزمین پر موجود ہوں ، جیسے ہنگری میں نیتن یاہو کی موجودگی۔
البتہ آئی سی سی کے رکن ممالک کی طرف سے اس پر باقاعدگی سے عمل نہیں کیا گیا۔ جنوبی افریقہ نے، جو کہ عدالت کا رکن ہے ، 2017ء میں سوڈان کے اس وقت کے رہنما عمر البشیر کو گرفتار نہیں کیا، جو جنوبی افریقہ کے دورے پر تھے، حالانکہ ان کے خلاف آئی سی سی کا وارنٹ موجود تھا۔
بینجمن نیتن یاہو کے خلاف آئی سی سی نے گرفتاری کا وارنٹ کیوں جاری کیا؟
21 نومبر 2024ء کو آئی سی سی نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور حماس کے کمانڈر محمد ضیف کے خلاف مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔
آئی سی سی نے کہا کہ ’’معقول وجوہات‘‘ موجود ہیں کہ گیلنٹ اور نیتن یاہو نے ’’جان بوجھ کر اور دانستہ طور پر غزہ کی عام آبادی کو ان کی بقا کے لیے ناگزیر اشیاء، بشمول خوراک، پانی، اور ادویات اور طبی سامان، نیز ایندھن اور بجلی سے محروم کیا۔‘‘
اسرائیل نے ان الزامات کو جھوٹا اور سیاسی طور پر محرک قرار دے کر مسترد کر دیا۔
بائیڈن انتظامیہ نے گرفتاری کے وارنٹ کو ’’ غیر معمولی/تجاوز ‘‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے بعد میں آئی سی سی کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کر دیں۔
آئی سی سی کے ساتھ امریکہ کا تعلق کیا ہے؟
امریکہ آئی سی سی کا رکن نہیں ہے۔ 2000ء میں کلنٹن صدارت کے دوران امریکہ نے روم اسٹیٹیوٹ پر دستخط کیے لیکن سینیٹ نے کبھی اس کی توثیق نہیں کی۔ 2002ء میں صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کے تحت امریکہ نے اپنے دستخط واپس لے لیے۔
6 فروری 2025ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئی سی سی پر پابندیاں عائد کیں اور عدالت پر اسرائیل اور امریکہ دونوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر میں دعویٰ کیا گیا کہ آئی سی سی نے نیتن یاہو اور گیلنٹ کے لیے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرکے ’’اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا‘‘۔ انہوں نے زور دیا کہ عدالت نے امریکہ اور اس کے ’’قریبی اتحادی‘‘ اسرائیل کے خلاف ’’ناجائز‘‘ اقدامات کیے ہیں۔
ہنگری آئی سی سی سے کیوں دستبردار ہو رہا ہے؟
جمعرات کو، ہنگری نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے استقبال سے کچھ ہی پہلے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے دستبردار ہونے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔
نیدرلینڈ کے وزیر خارجہ کیسپر ویلڈکمپ، جو آئی سی سی کی میزبانی کرتے ہیں، نے جمعرات کو کہا کہ جب تک ہنگری کی آئی سی سی سے دستبرداری مکمل نہیں ہو جاتی، جس میں تقریباً ایک سال لگتا ہے، ملک کو اب بھی اپنے فرائض پورے کرنے ہوں گے۔
یورپی یونین کے ممالک کا آئی سی سی وارنٹ پر اختلاف ہے۔ کچھ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ وہ آئی سی سی کے وعدوں کو پورا کریں گے، جبکہ اٹلی نے کہا ہے کہ اس میں قانونی شکوک و شبہات ہیں، اور فرانس نے کہا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کو آئی سی سی کے اقدامات سے استثنیٰ حاصل ہے۔ جرمنی کے اگلے چانسلر فریڈرک میرز نے فروری میں کہا کہ وہ نیتن یاہو کے بغیر گرفتار ہوئے دورہ کرنے کا راستہ تلاش کریں گے۔
آئی سی سی کے جاری مقدمات کیا ہیں؟
آئی سی سی کے پاس 12 تحقیقات جاری ہیں جن میں افغانستان، بنگلہ دیش/میانمار، برونڈی، جمہوری عوامی کانگو (DRC)، آئیوری کوسٹ، لیبیا، مالی، فلسطین، فلپائن، سوڈان، وینزویلا اور یوکرین شامل ہیں۔
عدالت میں 32 مقدمات پیش ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ میں ایک سے زیادہ ملزم ہیں۔ آئی سی سی کے ججوں نے کم از کم 60 گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔
عدالت نے کتنے افراد کو سزا سنائی ہے؟
آئی سی سی کے ججوں نے 11 سزائیں اور 4 بریتیں جاری کی ہیں۔ دی ہیگ میں آئی سی سی حراستی مرکز میں 21 افراد کو رکھا گیا ہے اور وہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں، اور 31 افراد ابھی تک مفرور ہیں۔ 7 افراد کی موت کی وجہ سے ان کے خلاف الزامات واپس لے لیے گئے ہیں۔ 11 سزاؤں میں سے صرف 6 عدالت کے بنیادی جرائم، جنگی جرائم، اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے ہیں۔ دیگر جرائم گواہوں کو مجروح کرنے جیسے جرائم سے متعلق تھے۔ 6 سزا یافتہ افراد ڈی آر سی، مالی اور یوگنڈا کے افریقی جنگجو گروپوں کے رہنما تھے۔ سزاؤں کی مدت 6 سے 30 سال تک تھی۔ زیادہ سے زیادہ ممکنہ سزا عمر قید ہے۔
ICJ اور ICC میں کیا فرق ہے؟
بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) نیدرلینڈ کے شہر دی ہیگ میں تقریباً 3 کلومیٹر (1.9 میل) کے فاصلے پر ہیں۔ دونوں عدالتیں فی الحال اسرائیل اور فلسطین سے متعلق مقدمات پر غور کر رہی ہیں۔ ان عدالتوں کے ملتے جلتے ناموں کے باوجود دونوں میں کچھ اہم فروق ہیں۔ سب سے قابل توجہ یہ ہے کہ ICJ کی ذمہ داریوں میں ریاستوں کے درمیان قانونی تنازعات کو طے کرنا شامل ہے، جبکہ ICC جنگی جرائم میں ملوث افراد پر مقدمہ چلاتی ہے۔