(یوٹیوب چینل Sajjad Nomani پر ۴ مئی ۲۰۲۵ء کو نشر ہونے والی گفتگو کچھ مرتب انداز میں نذرِ قارئین کی جا رہی ہے)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ سب کو میرا محبت بھرا سلام، دل سے دعا کہ آپ سب، آپ کی فیملیز آپ کے پریوار، آپ کے چاہنے والے سکھی رہیں، امن و شانتی کے ساتھ رہیں۔ آج تین مئی ہے، بائیس اپریل کو پہلگام میں جو دردناک واقعہ پیش آیا، میں ابھی تک اس کے بعد کچھ کہہ نہیں سکا، سینکڑوں لوگ مجھے میسجز بھیجتے رہے کہ آپ کے تبصرے کا انتظار ہے، میں سخت بیماری کے دور سے گزر رہا ہوں، اب طبیعت پہلے سے کچھ بہتر ہوئی ہے تو میں اپنا فرض سمجھ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔
واقعہ پہلگام اور حکومت کا رجحان
سب سے پہلے تو میں اس بزدلانہ، ظالمانہ، حیوانی حرکت کی سخت ترین لفظوں میں مذمت کرتا ہوں۔ وہ لوگ جو چھٹیاں گزارنے، روز مرہ کی زندگی سے چند دن نکال کر اپنی فیملیز کے ساتھ کشمیر کی خوبصورت وادیوں میں سکون کے چند سانس لینے کے لیے گئے تھے، اور اس بھروسے پر گئے تھے کہ کشمیر میں امن ہے، ان لوگوں پر جس طرح کا حملہ کیا گیا، جتنے سخت الفاظ میں اس کی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ نہتے سیاحوں پر سیلانیوں اور ٹورسٹ نوجوانوں، بچوں، فیملیز، مردوں اور عورتوں پر حملہ کر کے ان کو گولیوں سے بھون دینا، سچی بات یہ ہے کہ دلی تمنا ہے کہ جن لوگوں نے یہ حرکت کی ہے وہ قانون کی گرفت میں آئیں اور سخت سے سخت سزا پائیں۔ اور اگر ان حرکت کرنے والوں کے پیچھے کوئی اور ہے جس نے اس کو پلان کیا ہے تو اس کو بھی سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔
کاش کہ ہماری سرکار اس بات کے ثبوت پیش کر دیتی کہ اس پورے حملے کے پیچھے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے، پاکستانی حکومت کا ہاتھ ہے، تو ہم سخت ترین لفظوں میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی اور پاکستانی حکومت کے خلاف بھی تبصرے کرتے، اور ان ثبوتوں پر یقین ہو جانے کے بعد اپنی حکومت سے درخواست کرتے کہ اب دیر نہیں کی جانی چاہیے۔ اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، پوری انٹرنیشنل کمیونٹی کی ڈیمانڈ کے باوجود۔ ظاہر ہے کہ یہ بات انصاف کے ساتھ سوچنے والوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا کرتی ہے۔
اہلِ کشمیر کے طرزِ عمل کو سلام
میں تمام کشمیری بھائیوں اور بہنوں کو، کشمیری نوجوانوں کو، پورے کشمیر کو، اہلِ کشمیر کو سلام پیش کرتا ہوں۔ دنیا کا ہر اچھا انصاف پسند انسان کشمیر کے لوگوں کے ری ایکشن کی تاریخ میں رطب اللسان ہے۔ پورے کشمیر نے ایک آواز میں اس کی سخت مذمت کی، اور جس طرح کشمیر کے لوگوں نے ان تمام سیاحوں اور ٹورسٹوں کے ساتھ جو سلوک کیا، جو مہمان نمازی کی، جس طرح اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بلکہ جان دے کر ان کو بچایا، جس طرح معصوم بچوں کو بچایا، اس نے ایک تاریخ بنا دی ہے۔ شاباش ہے کشمیر کے لوگو! امیر کبیر ہمدانیؒ ہوں یا ان جیسے دوسرے اولیاء اللہ، اللہ کے نیک بندے جن کی روحانیت آج بھی کشمیر میں محسوس ہوتی ہے، اے کشمیر کے لوگو! تم نے ان کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اور یہ میری دلی تمنا ہے کہ بھارت کے ایک ایک انسان تک کشمیر والوں کے ذریعے سے سچائی کی روشنی پہنچے۔ میں بار بار کشمیر گیا ہوں اور میں نے ہر بار یہ محسوس کیا ہے کہ اس زمین میں جو صلاحیت ہے، کاش کہ وہ منظرِ عام پر آجائے تو پھر بہت دور دور تک محبت اور امن و آشتی عام ہو جائے۔ میں پورے ملک کی طرف سے، تمام مسلمانوں کی طرف سے، تمام دیش واسیوں کی طرف سے، اور پوری انسانیت کی طرف سے اہلِ کشمیر! آپ کو مبارکباد دیتا ہوں، آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
مقتول کی بیوہ کا لازوال تبصرہ
میں اس موقع پر کیسے بھول جاؤں نیوی آفیسر وِنے نروال کی جو نوجوان بیوی ہے، ہیمانشی نروال، اس نے جو میڈیا سے کہا ہے، واللہ میری آمیں آنسو آگئے۔ شاباش شاباش ہیمانشی نروال۔
’’ہرگز یہ مسئلہ ہندو مسلم کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے، جس شخص نے مارا تھا وہ ایک تھا، اور جن سینکڑوں لوگوں نے ہماری مدد کی، ہماری مہمان نوازی کی، ہم کو ڈھارس بندھائی، وہ بھی تو سب مسلمان تھے۔‘‘
نفرت کی آگ بھڑکانے کی مذموم مہم
ایک اور پہلو ہے جو اس واقعے سے ابھر کر سامنے آیا ہے، میں چاہتا ہوں ہر بھارت کا باشندہ اس کے اوپر بہت سنجیدگی سے غور کرے۔ آپ دیکھیے کہ یہ ڈرامہ جو رچایا گیا، اس کے پیچھے اصل مقصد بھارت کے لوگوں کو ہندو مسلم خانوں میں بانٹنا، نفرت کی آگ کو بھڑکانا، یہی مقصد تھا۔ لیکن ایک طرف کشمیری مسلمانوں کا رویہ دیکھیے، اور ایک طرف میرے ان ہندو بھائیوں اور بہنوں کا اور میرے بیٹوں اور بیٹیوں کا رویہ دیکھیے جنہوں نے نفرت کے اس پیغام کو قبول کرنے اور غصے میں آکر اس مسئلے کو ہندو مسلم رخ دینے سے صاف انکار کر دیا۔
میں اس موقع پر یاد کرنا چاہتا ہوں اپنی نیوی کے آفیسر لیفٹیننٹ وِنے نروال کو، جن کی چند دنوں پہلے شادی ہوئی تھی اور وہ اپنی ہنی مون منانے اس منی سویٹزرلینڈ میں گئے تھے، ظالموں نے اس نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وہ تصویر ساری دنیا کے انسانوں کے دل کو دہلا رہی ہے جس میں اس شخص کی لاش کے پاس اس کی غمزدہ بیوی نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی ہے۔ میں اگر بیمار نہ ہوتا تو میں آپ سے سچ کہتا ہوں، میرا جو مزاج رہا ہے اور معمول بھی رہا ہے، تو میں یہ باتیں ویڈیو میں نہ کہتا، میں کشمیر خود جاتا، اور کشمیر جانے کے علاوہ ان لوگوں کے گھر جاتا، اس بیٹی کے پاس جاتا جس نے اتنے سخت صدمے کے باوجود کہ اس کے نوجوان شوہر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اس نے پھر بھی جو کچھ کہا، اس نے کہا کہ کشمیر کے ان لوگوں نے ہمارا دل جی جیت لیا، جس طرح ہماری مدد کی، جس طرح ہم کو پہنچایا، اپنے گھر لے گئے، کھانے کھلائے۔ اور کتنے ہی لوگوں نے اس طرح کے بیان دیے۔
یہ بھارت کے مستقبل کے بارے میں، بھارت کی جو اصلی صورتحال ہے اس کے بارے میں مجھے کچھ کہنے کی اجازت دیجیے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو ہمیشہ یہ کہتا رہا ہوں کہ آج بھی بھارت کے لوگوں کی جو اکثریت ہے اس نے نفرت کے چورن قبول نہیں کیا ہے، لیکن جو مشکل ہے وہ یہ کہ، یہ جو اکثریت ہے، یہ خاموش ہے، یہ منظم نہیں ہو پا رہی، اس کو آواز نہیں مل پا رہی ہے، اور یہ سڑک پر نکل کر نفرت کے سوداگروں کو جواب نہیں دے پا رہی ہے۔
انتخابی سیاست کے تخریبی پہلو
یہ نفرت کے سوداگر ہمیشہ الیکشن سے پہلے کوئی ایسا تماشا کرتے ہیں۔ ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ لوگ جب ووٹ ڈالنے جائیں تو ان کو نہ مہنگائی یاد رہے، نہ ان کو بے روزگاری یاد رہے، نہ ان کو جھوٹ یاد رہے جو دن رات بولا جاتا ہے، نہ ان کو یہ یاد رہے کہ کسی نے وعدہ کیا تھا ان سے کہ 15 لاکھ روپے ہر ایک کے اکاؤنٹ میں آئیں گے، نہ ان کو یہ یاد رہے کہ کسی نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اب کوئی آتنک واد کشمیر میں نہیں ہو گا اس لیے کہ ہم نے (آرٹیکل) 370 کو ختم کر دیا ہے۔ انہیں کچھ نہ یاد رہے، نہ کسانوں کو یاد رہے، نہ مزدوروں کو اپنے حقوق سے یاد رہیں، نہ دَلتیوں پر جو ہزاروں سال سے ظلم ہو رہے ہیں، ان کو وہ یاد رہے۔ انہیں بس ایک بات یاد رہے کہ میں ہندو ہوں اور یہ سرکار جو ہے یہ ہندوتوا والی سرکار ہے، ہمیں بس اس کو ووٹ دینا ہے۔
موجودہ سرکار کی افسوسناک سیاست
مجھے بہت دکھ ہوتا ہے، میں سچ کہتا ہوں مجھے دکھ ہوتا ہے، ہمارے دیش کو یہ سَنگھ پریوار والے اور یہ موجودہ سرکار کہاں پہنچا رہے ہیں؟ کتنی پستی میں لے کر جانا چاہتے ہیں یہ ہمارے ملک کو؟ کیا پوری دنیا میں کشمیر کے اس واقعے پر تبصرہ کرنے والوں کی زبان پر یہ بات نہیں آئی کہ اس حملے کو، جو ہونے دیا گیا، یا، اللہ نہ کرے کروایا گیا، اس کے پیچھے بہار کا الیکشن ہے۔ اور اسی لیے تو صاحب غیر ملکی دورے سے جو واپس آئے تو بہانہ تو یہ واقعہ تھا، لیکن وہ آنے کے بعد آزاد کشمیر نہیں گئے، وہ سیدھے بہار گئے اور وہاں جا کر انہوں نے ایک چناوی سبھا کو خطاب کیا اور للکارا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس موقع پر ان کو سب سے پہلے کشمیر جانا چاہیے تھا۔
پھر یہ خبر تو بالکل حیرت انگیز ہے کہ جب ہمارے ملک کے ایک اور سب سے بڑے ذمہ دار، وزیراعظم کے بعد، وہ کشمیر کے دورے پر گئے تھے اور وہاں سیکیورٹی کے سلسلے کی میٹنگ کی تھی انہوں نے اس واقعے سے پہلے، تو اس میں چیف منسٹر عمر عبداللہ موجود نہیں تھے۔ ناقابلِ یقین ہے یہ بات۔ اور جب ہمارے عمر عبداللہ کا نام آیا ہے تو میں عمر عبداللہ کو بھی سلام پیش کرنا چاہتا ہوں۔ عمر عبداللہ! تم نے جو تقریر کی ہے جموں کشمیر اسمبلی میں اور جس میں اس نے کہا ہے کہ میرے پاس معافی مانگنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ تم نے واقعی اپنے دادا کی یاد تازہ کی، صاف لگ رہا تھا اس تقریر کو دیکھتے وقت کہ تم یہ کوئی بناوٹی سیاسی تقریر نہیں کر رہے ہو، یہ تمہارے دل کی آواز ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ تم ہمت نہیں ہارو گے، تم اندر کے سارے رازوں کو جان گئے ہو، ڈٹے رہو اور کشمیر کو امن و سلامتی کا ایک گہوارہ بنا دو۔ بھارت کے عوام کی اکثریت، وہ ہندو ہوں یا مسلمان، وہ سکھ ہوں یا کرسچین، بدھ ہوں یا دَلت، سب کے سب تمہارے ساتھ ہیں، کشمیریوں کے ساتھ ہیں، اور تمام انسانیت اور انصاف پسندوں کے ساتھ ہیں۔
ووٹ کی خاطر انسانی جانوں سے کھیلنا
کاش کہ ہماری کچھ پولیٹیکل پارٹیز کے پاس الیکشن جیتنے کے لیے کچھ اور بھی ترکیب ہوتی۔ جو سلسلہ گودھرا سے شروع ہوا ہے، گجرات سے شروع ہوا، ہر چناؤ کے موقع پر اسی نسخے پر عمل کیا جاتا ہے اور وہی چورن بھارت کے ووٹ دینے والوں کو کھلایا جاتا ہے۔ میں بھارت کے تمام شہریوں سے، اس ملک کے خیر خواہ کی حیثیت سے، آپ کے بھائی اور بہن کی حیثیت سے، اپنے نوجوان بچوں اور بچیوں کے ایک انکل کی حیثیت سے، آپ سے کہتا ہوں خدا کے لیے اب سازش کو سمجھ لیجیے۔ یاد آتے ہیں مجھے راحت اندوری، جنہوں نے اسی قسم کے حالات کو دیکھ کر کہا تھا ؎
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟
کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟
اب انسانی جانوں سے کھیلنا، اس لیے کہ ہمیں کچھ ووٹ مل جائیں، آپ ان لوگوں کی زبانوں کو بند نہیں کر پائیں گے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ اس وقت آپ کے دل و دماغ پر بہار کا چناؤ سوار ہے۔ اور آپ کیسے لوگوں کی زبانیں بند کر سکتے ہیں؟
نسلی مردم شماری کا بے وقت اعلان
پورا ملک اس انتظار میں تھا کہ اب کوئی بہت بڑا اعلان آپ کی طرف سے ہونے والا ہے۔ کسی بہت بڑی جنگ کا اعلان ہونے والا ہے بلکہ اس کی شروعات ہونے والی ہے۔ کئی دن تک ماحول یہ بنایا گیا اور لوگ بالکل کان لگائے بیٹھے رہے کہ اب اعلان ہوا اور اب اعلان ہوا، تب اعلان ہوا۔ اعلان کیا ہوتا ہے؟ اعلان ہوتا ہے Caste Census (مردم شماری میں ذات کا اندراج) کا۔ کاش کہ کاسٹ سینسس کا اعلان اس ماحول میں نہ ہوا ہوتا، تو پورا ملک اس کا جشن منا رہا ہوتا، پورا ملک اس کے اوپر آپ کا شکریہ ادا کر رہا ہوتا۔ میں تو کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں، لیکن کتنے ہی پولیٹیکل مبصرین، تبصرہ کرنے والے، آبزرورز، ایڈیٹرز، وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب یہ نظر آنے لگا کہ پہلگام کا حملہ بہار کے چناؤ میں کام نہیں آئے گا، تو بہار ہی کے چناؤ کو سامنے رکھ کر کاسٹ سینسس کا اعلان کر دیا گیا۔
کاسٹ سینسس کا مطالبہ ملک میں بہت سے وہ لوگ کر رہے تھے جو چاہتے ہیں کہ دیش کی آبادی کی جو اصل تصویر ہے وہ سامنے آئے۔ ایگزیکٹو ہو، جوڈیشری ہو، میڈیا ہو، ڈیفنس، کچھ بھی ہو، سب کے اوپر اونچی ذات کے چند لوگ قابض ہیں اور وہی پورے ملک کو جب چاہتے ہیں جہنم کے نمونہ بنا دیتے ہیں۔ کاسٹ سینسس ہو گا ایمانداری کے ساتھ تو پوری صورتحال سامنے آئے گی اور پھر پتہ چلے گا کہ اس ملک کی انتظامیہ میں کس کی کتنی حصہ داری ہونی چاہیے، اور کس کی کتنی حصہ داری اس وقت ہے۔
صوبہ بہار کے معاملہ فہم لوگوں سے مطالبہ
میں بہار کے لوگوں سے بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ بہار کا صوبہ اپنی سیاسی سمجھداری کے لحاظ سے بہت اونچے مقام پر ہے۔ اور بھارت کی تاریخ میں بہت بڑے فیصلے بہار کے تھنکرز، بہار کے پولیٹیکل لیڈرز، ان کی رہنمائی کی روشنی میں ہوئے ہیں۔ اس لیے میں بہار کے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے، نوجوانوں سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ابھی سے متحرک ہو جائیے، کیونکہ میری نظر سے ایسے بڑے صحافیوں کے تبصرے بھی گزرے ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ مسلم ووٹ کو ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنا، اس موقع پر کاسٹ کنسس کے اعلان کے پیچھے اصل مقصد ہے۔ ورنہ یہی گورنمنٹ کاسٹ سینسس کا لفظ سننا برداشت نہیں کرتی تھی، کہتے تھے کہ جو کاسٹ سینسس کی بات کرتے ہیں وہ دیش کو توڑ رہے ہیں۔ کہا تھا ہمارے پرائم منسٹر نے کہ صرف چار ذاتیں ہیں اس دیش میں۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں کسی ذات کو نہیں جانتا، اور بہت سخت تبصرے ہوتے تھے ان لیڈروں کے خلاف جو کاسٹ سینسس کی مانگ کرتے تھے۔
راہول گاندھی کو پورا کریڈٹ جانا چاہیے اس سلسلے میں کہ انہوں نے اس کو اپنے ہاتھ میں لے کر کاسٹ سینسس کے مسئلے کو سب سے بڑا مسئلہ بنایا۔ بھارت جوڑو یاترا میں انہوں نے بھارت کی اصلی تصویر کو دیکھا اور اس کے بعد سے انہوں نے کاسٹ سینسس کے مسئلے کو اپنی اور کانگریس پارٹی کی بڑی ڈیمانڈ بنا لی۔ اب ہو سکتا ہے کہ اچانک کاسٹ سینسس کا اعلان کرنے کے پیچھے، کانگریس اور دوسری اپوزیشن پارٹیاں، ان کے ہاتھ سے یہ ایشو چھین لینے کی سازش کی گئی ہو۔ مگر میں بہار کے لوگوں کو اتنا بے وقوف نہیں مانتا، کاسٹ کی بنیاد پر جو تبدیلی بہار میں آئی تھی، جس کے پیچھے شرد یادِو اور لالو پرساد یادِو تھے، اور جس کے پیچھے ملائم سنگھ یادِو بھی تھے، انہیں اس وقت بہت چوکنا ہو جانا چاہیے اور کاسٹ سینسس کے مسئلے کو الٹا استعمال کرنے کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔
مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہونے کا خطرہ!
ایک پہلو اور بھی ہے جس پر میں بہار کے لوگوں کو آگاہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ مسلمانوں کے ووٹ کو تقسیم کرنا کاسٹ سینس کی بنیاد پر، یہ بھی ایک مقصد نظر آتا ہے اس مرتبہ، کیونکہ مسلمانوں کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ تم اس حیثیت سے ووٹ مت ڈالو کہ تم مسلمان ہو، سمیدھان (آئین) کے وفادار ہو، سمیدھان کو بچانے کے لیے ووٹ مت ڈالنا، بلکہ اپنی ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ ڈالنا۔ ہو سکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بی جے پی خود مسلمانوں میں سے امیدوار کھڑے کرے اور کاسٹ کی بنیاد پر ووٹ تقسیم کرے، اور بہار میں ایک بار پھر بالکل بے ایمانی کی چالیں چل کر وہ الیکشن جیت جائے۔
اور میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ اب الیکشن جیتنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ واقعی آپ کو ووٹ پڑیں۔ ووٹ کسی بھی پارٹی کو پڑیں، اتنا اچھا مینجمنٹ اب ہو چکا ہے کہ جیتنا تو اسی پارٹی کو ہوتا ہے جس کے بارے میں فیصلہ ہوتا ہے۔ اور جب Against all odds (تمام تر رکاوٹوں کے برخلاف) رزلٹ یہ آئے کہ بہار میں بی جے پی جیت گئی، تو یہ کہا جائے کہ یہ دراصل کاسٹ سینسس کی وجہ سے بہار کے لوگوں نے اس کو جھولی بھر بھر کر ووٹ دیے۔ الیکشن کے ان رزلٹس کو جسٹیفائی کرنے کے لیے، جو سراسر غلط ہوں گے، جیسا کہ اس سے پہلے کچھ صوبوں میں تجربہ ہو چکا ہے۔
میں بہار کے علماء، بہار کے تھنکرز، بہار کے مدبرین و مفکرین، بہار کے باشعور لوگ، بہار کے تمام لوگوں سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ اس وقت ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ سوچیے، میں کیا کہہ رہا ہوں، ملک کا مستقبل اس وقت اہلِ بہار کے ہاتھ میں قدرت نے رکھ دیا ہے۔ آپ بہت سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کیجیے، سر جوڑ کر بیٹھیے، کبھی ہو سکا تو میں اس کی کوئی تفصیلات بھی آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اعلان صرف بہار کے الیکشن کو اور اگلے سال یو پی کے الیکشن کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ تاجسوی یادِو کی بھی ذمہ داری ہے اور اکھلیش یادِو کی بھی، کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور مسلم لیڈرز سے اچھے رابطے قائم کریں، اور صرف مسلم سے نہیں، OBCs (پسماندہ طبقات) کے لوگوں سے، (اونچی ذات کے قبائل) سے، آدی واسیوں سے، سب لوگوں کے ساتھ رابطے قائم کریں، اور اس سازش کو ناکام کرنے کے لیے جو کر سکیں، کریں۔
میں شکر گزار ہوں آپ سب کا کہ آپ نے میری بات کو غور سے سنا، میری آواز کمزور ہے، میں معافی چاہتا ہوں اس بات پر، میں مجبور ہوں، میری صحت ٹھیک نہیں چل رہی ہے، لیکن میں نے اپنا فرض سمجھا کہ جو باتیں اس وقت آپ کے سامنے رکھنا ضروری ہے، ملک کی خیر خواہی کے جذبے سے، اس میں مزید دیر نہ ہو، آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔