قبل از اسلام بیوہ عورت محرومی کا شکار تھی اسے کوئی عزت حاصل نہ تھی وہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد بقیہ زندگی نہایت تکلیف و مصیبت میں بسر کرتی۔ یہودیوں کے یہاں بیوہ عورت اپنے شوہر کے بھائی کی ملکیت ہو جاتی تھی، وہ جس طرح چاہتا اسے رکھتا اور جو چاہتا اس کے ساتھ سلوک کرتا۔ کوئی اس کی داد رسی نہیں کر سکتا تھا۔
عیسائی مذہب نے بھی بیوہ عورت کے لیے کوئی مثبت ہدایت نہیں دیں۔ ہندو مذہب میں تو شوہر کی وفات کے بعد بیوہ کو جینے کا حق ہی نہیں تھا اور وہ شوہر کی چتا میں زندہ جل کر ستی کی رسم پورا کرنا اپنا مذہبی فرض سمجھتی تھی وہ اگر زندہ بھی رہتی تو پوری زندگی اپنے شوہر کے سوگ میں گزارتی۔ اسے زیب و زینت یا دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کا کوئی حق نہ تھا۔ عربوں میں بھی بیوہ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ شوہر کی وفات کے بعد بیوہ شوہر کے وارثوں کی ملکیت میں آجاتی اور وہ جیسا سلوک چاہتے اس کے ساتھ کرتے۔ اس سے مہر معاف کراتے۔ طرح طرح سے ستاتے۔ اسے اپنی مرضی سے دوسری شادی نہیں کرنے دیتے۔
نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو بیوہ کے برے دن اچھے دنوں میں بدل گئے۔ آپ علیہ السلام نے نہ صرف بیوہ عورت کو معاشرے میں باعزت مقام دلایا۔ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی بلکہ اپنے عمل سے بیوہ کو وہ شان و عظمت عطا کی جس کا تصور بھی عربوں میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں بیوہ سے نکاح کیا۔ خوبصورت سے خوبصورت عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام نکاح کو قبول کر سکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سالہ ادھیڑ عمر کی بیوہ سے شادی کر کے جاہلانہ رسموں کے خلاف عملی قدم اٹھایا حالانکہ اس عمر میں ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کم سن عورت سے شادی کرے۔
اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس سال تک اِس طرح ان کے ساتھ شریکِ حیات رہے کہ اِس دوران آپ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دس عورتوں: حضرت عائشہ بنت ابی بکر، حضرت سودہ بنت زمعہ، حضرت حفصہ بنت عمر، حضرت زینب بنت خزیمہ، حضرت ام سلمہ بنت ابی امیہ، حضرت زینب بنت جحش، حضرت جویریہ بنت الحارث، حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان، حضرت صفیہ بنت حیی، اور حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہم سے نکاح کیا وہ بھی سوائے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساری بیوہ ہی تھیں۔ اسی طرح متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے زمانے کی مختلف بیوہ عورتوں کی فریاد رسی کی اور ان کے شریک حیات بن کر خود ان کو سہارا دیا۔ چناں چہ حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے شوہر حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ جب غزو موتہ میں شہید ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کی۔ اسی طرح حضرت عاتکہ رضی اللہ عنہ کے شوہر حضرت عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جب شہید ہوئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کی۔
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی زیر کفالت تمام بیوہ عورتوں کے نان نفقہ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور سوسائٹی و معاشرے میں دوبارہ ان کو عزت و آبرو کے ساتھ داخلے کا موقع دیا اور ان کو سماج و معاشرہ میں اس مہر و عنایت سے مشرف فرمایا جس کے سائے سے وہ محروم ہو گئی تھیں۔
کسی عورت کے لیے اس سے زیادہ آزمائش اور مصیبت کوئی نہیں ہو سکتی کہ اس کا شوہر اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے۔ شوہر کی وفات سے بیوی کو صرف جذباتی صدمہ ہی نہیں پہنچتا بلکہ اس کے سامنے مسائل کا ایک ہجوم منڈلانے لگتا ہے۔ کل تک جو شخص اس کی اور اس کے بچوں کی تمام ضروریات پوری کرتا تھا، اس کے دکھ درد میں شریک ہوتا تھا، ہر آڑے وقت میں اس کا سہارا بنتا تھا، اس کی عزت و عفت کی حفاظت کرتا تھا، جس کے دیکھتے ہی اس کا دل خوشیوں سے بھر جاتا تھا، جو گھر کی رونق تھا، جو تمام اخراجات اور حادثات کے وقت اس کا تنہا سہارا تھا، اس کے انتقال سے عورت پر جو گزرتی ہے اس کا اندازہ صرف بیوہ ہی لگا سکتی ہے۔
اس مظلوم اور مصیبت زدہ عورت کے ساتھ ہمیشہ حسنِ سلوک کیجئے۔ ایک یتیم بچہ جس طرح اپنے باپ کی وفات سے بے سہارا ہو جاتا ہے، اسی طرح بیوہ اپنے شوہر کی وفات سے بے سہارا ہو جاتی ہے۔ دونوں کی مصیبتوں اور پریشانیوں میں یکسانیت ہے۔ چنانچہ اسلام نے یتیم کی کفالت کرنے پر جس طرح جنت کی خوشخبری سنائی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کی کفالت کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ میں اور وہ ان دونوں انگلیوں کی طرح جنت میں ہوں گے۔ اسی طرح بیوہ عورت کے مسائل حل کرنے والے کے سلسلے میں بھی ارشاد فرمایا کہ وہ اور میں جنت میں دو انگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا: بیوہ اور غریب کی خاطر دوڑ دھوپ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو راہِ خدا میں جہاد کرتا ہے اور اس شخص کی طرح ہے جو دن کو روزہ رکھتا اور رات کو نماز پڑھتا ہے۔ (بخاری، مسلم، موطاء امام مالک)
بیوہ کے حقوق
بیوہ کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے شوہر کے ترکہ میں سے اسے مقررہ حق دلایا جائے۔ اگر شوہر نے اولاد چھوڑی ہو تو بیوہ کو ترکہ کا آٹھواں حصہ دلایا جائے اور اگر اولاد نہ چھوڑی ہو تو کل ترکہ کا چوتھائی حصہ دلایا جائے۔ ترکہ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تقسیم کیا جائے ورنہ تمام مال حرام ہو جاتا ہے۔ لڑکی، بیوی، ماں، بہن سب کے حصے پورے پورے دیے جائیں۔ اگر شوہر نے مرنے سے پہلے مہر ادا نہیں کیا ہے تو سب سے پہلے ترکہ میں سے بیوہ کو اس کا مہر دلایا جائے۔ اسی طرح اگر شوہر اپنی بیوی کے لیے کوئی وصیت کر گیا ہے تو ترکہ کے ایک تہائی مال تک اس کی وصیت کو پورا کیا جائے۔
بیوہ کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی کفالت کا فورا نظم کیا جائے۔ اگر اسلامی حکومت ہے تو اس کے اخراجات اور کفالت کی ذمہ دار ہے۔ اگر اسلامی حکومت موجود نہ ہو تو مسلم معاشرہ اس کے ساتھ حد درجہ ہمدردی کرے۔ اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔ جب تک وہ دوسرا نکاح نہیں کر لیتی۔ اس وقت تک مسلم معاشرہ بہتر انداز سے اس کی کفالت کرے۔
حضرت زید بن اسلم ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب ؓکے ساتھ بازار کی طرف گیا۔ وہاں ایک عورت ملی اور حضرت عمرؓ سے مخاطب ہو کربولی: اے امیرالمومنین میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے، وہ چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گیا ہے۔ خدا کی قسم ان کے پاس بکری کا ایک پایہ بھی نہیں ہے، جسے وہ پکا سکیں۔ نہ ان کے پاس کھیتی ہے نہ دودھ دینے والا جانور۔ میں ڈرتی ہوں کہ کہیں قحط انہیں ہلاک نہ کر دے۔ میں خفاف بن ایما کی بیٹی ہوں۔ میرا باپ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ حضرت عمرؓ ان کے پاس ٹھہر گئے اور آگے نہ بڑھے اور فرمایا: تیرا نسب تو میرے نسب سے ملتا جلتا ہے۔ پھر آپ ایک طاقتور اونٹ کی طرف آئے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اس پر دو بوریاں رکھیں اور انہیں اناج سے بھر دیا۔ ان کے درمیان نقدی اور کپڑے رکھ دیے پھر اس کی رسی عورت کے ہاتھ میں دے دی اور فرمایا: اسے لے جاؤ! یہ ختم ہونے سے پہلے اللہ تمہیں اس سے بہتر عطا کر دے گا۔ ایک آدمی نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ اے امیر المومنین! آپ نے اس عورت کو بہت دے دیا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیری ماں تجھے کھوئے خدا کی قسم! میں نے اس کے باپ اور بھائی کو دیکھا کہ انہوں نے ایک مدت تک ایک قلعہ کا محاصرہ کیے رکھا یہاں تک کہ اسے فتح کر لیا۔ (بخاری)
بیوہ کا تیسرا حق یہ ہے کہ عدت پوری ہو جانے کے بعد اسے سوگ اور ماتم سے نجات دلائی جائے۔ اس کے رنج و غم کو بھلانے کے لیے بہتر سے بہتر طور طریقے اختیار کئے جائیں۔ جائز حدود میں اسے زیب و زینت اور آرائش و سنگھار کرنے کا حق دیا جائے۔
بیوہ کا چوتھا حق یہ ہے کہ عدت پوری ہو جانے کے بعد اس کے نکاحِ ثانی کا انتظام کیا جائے۔ آج کل ہمارے معاشرہ میں بیوہ سے نکاح کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ بھی ایک اہم سنت ہے جس کی طرف مسلمانوں کو فوری توجہ کرنی چاہیے۔ دورِ اول میں اسلامی معاشرہ میں بیواؤں سے شادی کرنے کو بڑے اجر کا کام سمجھا جاتا تھا اور اس سے مسلم معاشرہ بہت سے مسائل سے دوچار ہونے سے بچ جاتا تھا۔ کسی بیوہ سے نکاح کر کے اس کی اور اس کے بچوں کی کفالت کرنا عظیم نیکی ہے جس کے حصول پر ہر مسلمان کو سعادت محسوس کرنا چاہیے۔ خود کسی بیوہ سے نکاح کر کے اس نیکی و سعادت کو حاصل کیجئے، یا اس کا نکاح کسی مناسب شخص سے کرا کر حکمِ خداوندی کی تعمیل کیجئے، یا اس سلسلے میں جو بھی خدمت انجام دے سکتے ہوں اسے ضرور انجام دیجئے۔ قرآن پاک میں حکم دیا گیا ہے: وانکِحوا الایامٰی مِنکم (النور: 23) اپنی بیوہ عورتوں اور رنڈوے مردوں کے نکاح کر دو۔
بیوہ کا پانچواں حق یہ ہے کہ وہ اپنا نکاح کرنے کا پورا اختیار رکھتی ہے۔ اس کے میکے یا سسرال کے لوگ اسے نکاح کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہاں اسے مشورہ ضرور دے سکتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں پوری طرح آزاد ہے کہ کس سے نکاح کرے اور کس سے نکاح نہ کرے۔ جن علماء کے نزدیک کنواری لڑکی کے لیے ولی کی اجازت ضروری ہے ان کے نزدیک بھی بیوہ کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں۔ بیوہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے نکاح کے سلسلے میں مکمل خود مختار ہے۔
اگر بیوہ عورت ننھے منے بچے رکھتی ہے اور وہ ان کی پرورش کی خاطر کوئی دوسرا نکاح نہیں کرتی اور یہ سمجھتی ہے کہ دوسرا نکاح کرنے سے ان بچوں کی پرورش متاثر ہوگی اور وہ ان بچوں کی پرورش کے لیے محنت کرتی ہے تو یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بیوہ کی عظمت ایک واقعہ کی صورت میں یوں بیان فرمائی: قیامت کے دن میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھولوں گا تو دیکھوں گا کہ ایک عورت مجھ سے پہلے جنت میں جانا چاہتی ہے۔ میں پوچھوں گا تو کون ہے؟ تو وہ کہے گی کہ میں ایک بیوہ عورت ہوں جس کے چند ننھے یتیم بچے تھے۔ (مسند ابویعلی بحوالہ سیرت النبی، سید سلیمان ندوی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: میں اور وہ عورت جو اپنے بچوں کے لیے محنت و مشقت کی وجہ سے کالی پڑ جائے، جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے، وہ حسن و جمال اور عزت و جاہ والی عورت جو شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ ہو جائے لیکن اپنے ننھے منے یتیم بچوں کی خاطر اپنے کو روکے رکھے یہاں تک کہ وہ اس سے الگ ہو جائیں یا وفات پا جائیں۔ (ابوداود شریف)
قارئین کرام! ہمیں چاہیے کہ ہم ان حقوق کی پاسداری کریں، بیوہ اور یتیم بچوں کی داد رسی کو اپنا فریضہ سمجھیں، اللہ پاک امت مسلمہ کو قرآن و سنت کے احکامات پہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔