اہلِ کتاب کی بخشش کا مسئلہ

سوال:

سورہ آل عمران میں اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان میں مومن بھی ہیں اور وہ جو بھی نیک عمل کریں گے، اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔ اس کی روشنی میں تو لگتا ہے کہ اہل کتاب میں مومن ہوسکتے ہیں اور ان کے اعمال کا بھی اجر ان کو دیا جائے گا، جبکہ ہم تو اس کے برخلاف پڑھتے سنتے رہے ہیں۔

جواب:

اس مقام سے متعلق زیادہ تر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہاں ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے۔ مراد یہ ہوئی کہ اہل کتاب میں زیادہ تر اگرچہ کافر ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے ایمان قبول کیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی رائے اس سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں جس گروہ کی طرف اشارہ ہے، اس نے اس وقت تک ایمان کا اظہار تو نہیں کیا تھا، لیکن دل میں ایمان لا چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ایمانی رویے کی تحسین فرمائی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس حالت میں بھی وہ جو اچھے عمل کر رہے ہیں، اللہ ان کو ضائع نہیں کرے گا۔ اس کی تائید میں مولانا سورہ کی آخری آیت کا حوالہ دیتے ہیں جہاں ان اہل کتاب کے، سابقہ کتابوں اور قرآن دونوں پر ایمان رکھنے کا ذکر ہوا ہے۔

آیت کے اسلوب میں متعدد قرائن مولانا کی رائے کی تائید کرتے ہیں۔ مثلاً‌ اس گروہ کے لیے ’’من اھل الکتب’’ کا عنوان اختیار کیا گیا ہے جو بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہو جانے والوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ پھر ’’وما یفعلوا من خیر فلن یکفروہ’’ کی تسلی بھی اسی گروہ کے لیے موزوں دکھائی دیتی ہے کہ اس حالت میں بھی ان کے کیے ہوئے اعمال کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔ آخر میں ’’واللہ علیم بالمتقین’’ کا جملہ بھی اسی طرف مشیر ہے کہ اس گروہ کی باطنی اور مخفی حالت کا ذکر ہو رہا ہے جو اگرچہ لوگوں پر ظاہر نہیں، لیکن اللہ اس کو بہرحال جانتا ہے۔

یہاں بنیادی مقصد اس گروہ کا اہل کتاب کے اس گروہ کے ساتھ تقابل کرنا ہے جو جانتے بوجھتے حق کا انکار کرتا تھا اور دنیوی مفادات کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب پر تلا ہوا تھا۔ ان کے مومن ہونے کی تحسین اس پہلو سے ہے کہ وہ اکثر اہل کتاب کے برخلاف، ما انزل اللہ میں فرق نہیں کرتے اور سابقہ کتابوں کے ساتھ قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ چنانچہ ان کے اس ایمانی رویے کی تعریف کرتے ہوئے انھیں بشارت دی گئی ہے کہ وہ اگرچہ ظاہراً ابھی اسلام میں داخل نہیں ہوئے، لیکن ان کی حق پرستی کی بدولت ان کے اعمال کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔

ایسے لوگوں کو جو دل میں ایمان لا چکے ہوں، لیکن اس کا اظہار نہ کر سکتے ہوں، ’’مومن’’ کہنا قرآن مجید کے اسلوب کے مطابق ہے اور اس کے واضح نظائر موجود ہیں۔ مثلاً‌ مکہ میں جو مسلمان مرد اور عورتیں خفیہ ایمان لا چکے تھے، ان کو سورۃ الفتح میں رجال مومنون ونساء مومنات لم تعلموھم  کہا گیا ہے، یعنی اگرچہ وہ ظاہراً‌ مسلمانوں میں شامل نہیں لیکن اللہ کے علم کے مطابق وہ مومن ہیں۔ اسی طرح فرعون کے دربار میں خفیہ ایمان رکھتے ہوئے اپنی قوم کو موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کی طرف متوجہ کرنے والے کے لیے بھی  رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ  کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔

مزید برآں شریعت کا ایک مستقل اصول بھی ہے کہ جو لوگ، مثال کے طور پر شاہ حبشہ نجاشی کی طرح، اپنے ایمان کا اظہار نہ کر سکیں اور ظاہراً‌ اپنے دین کے پیروکار رہتے ہوئے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہوں تو ان کا شمار بھی اللہ کے نزدیک اہل ایمان میں ہی ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنیاد پر نجاشی کی وفات پر ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا فرمائی تھی۔ علمائے کلام کے ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ غیر مسلموں میں سے جو لوگ دل میں ایمان لے آئیں، لیکن اپنے حالات یا مجبوریوں کی وجہ سے ظاہراً‌ اقرار نہ کریں، وہ دنیوی احکام کے لحاظ سے تو اہل کفر میں گنے جائیں گے، لیکن اخروی احکام میں اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن ہی شمار ہوں گے۔ شافعی فقیہ علامہ خیر الدین الرملیؒ نے اپنے فتاویٰ میں اس سوال پر مختصر کلام کیا ہے اور امام الحرمین الجوینی اور امام غزالیؒ کے حوالے سے اس رائے کی تائید کی ہے۔

مذاہب عالم

(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۷

اسلامی نظام اور آج کے دور میں اس کی عملداری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اہلِ کتاب کی بخشش کا مسئلہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

سوشل میڈیائی ’’آدابِ‘‘ اختلاف اور روایتی مراسلت
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

مسئلہ ختم نبوت اور مرزائیت
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
مولانا حافظ خرم شہزاد

بیوہ خواتین اور معاشرتی ذمہ داریاں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان شریعت کونسل اور الشریعہ اکادمی کے اجتماعات
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
مولانا محمد اسامہ قاسم

Britain`s Long-Standing Role in Palestine`s Transformation into Israel
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۱)
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف
حافظ میاں محمد نعمان

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۲)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۵)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۲)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۴)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

ماہانہ بلاگ

مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امیر خان متقی کا اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس ۵۱ سے خطاب
جسارت نیوز
طلوع نیوز

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے چند اہم پہلو
امتنان احمد

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور اس کے رکن ممالک
الجزیرہ

سیاحتی علاقوں میں حفاظتی تدابیر اور ایمرجنسی سروسز کی ضرورت
مولانا عبد الرؤف محمدی

’’سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟‘‘
مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی

پاک بھارت کشیدگی میں اطراف کے مسلمانوں کا لائحۂ عمل
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

پاک بھارت حالیہ کشیدگی: بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ایران کے رہبرِمعظم اور پاکستان میں ایرانی سفیر کے پیغامات
سید علی خامنہ ای
رضا امیری مقدم

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملے: دینی قائدین کے بیانات
میڈیا

سنی شیعہ تقسیم اور اسرائیل ایران تصادم
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال

امریکہ اسرائیل کی سپورٹ کیوں کرتا ہے اور ایران کتنا بڑا خطرہ ہے؟
نوم چومسکی

اسرائیل ایران جنگ: تاریخی حقائق اور آئندہ خدشات کے تناظر میں
حامد میر

اسرائیل کا ایران پر حملہ اور پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ
خورشید محمود قصوری
علی طارق

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کا حملہ اور خطہ پر اس کے ممکنہ عواقب
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ایران کی دفاعی جنگی حکمتِ عملی
سید محمد علی
سید طلعت حسین

اسرائیل کے حملے، ایران کا جواب، امریکہ کی دھمکیاں
پونیا پرسون واجپائی

’’بارہ روزہ جنگ‘‘ میں اسرائیل اور ایران کے نقصانات
ادارہ

اسرائیل ایران کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter