(امریکی دانشور نوم چومسکی کے یوٹیوب پر موجود دو ویڈیو کلپس کی گفتگو)
امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟
امریکہ اسرائیل کی حمایت کیوں کرتا ہے؟ اس کی ایک طویل اور نہایت دلچسپ تاریخ ہے۔ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔
ایک بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ عیسائی صہیونیت ایک بہت طاقتور قوت ہے جو یہودی صہیونیت سے کہیں زیادہ پرانی ہے۔ خاص طور پر انگلینڈ میں، عیسائی صہیونیت برطانوی اشرافیہ میں ایک زبردست طاقت تھی۔ یہ بالفور اعلامیہ اور برطانیہ کی یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کی حمایت کی ایک بڑی وجہ تھی۔ آپ کی یاددہانی کے لیے، بائبل میں لکھا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ اور یہ برطانوی اشرافیہ کی ثقافت کا ایک بہت بڑا حصہ تھا۔ امریکہ میں بھی یہی صورتحال تھی۔
وڈرو ولسن ایک بڑے پکے عیسائی تھے جو روزانہ بائبل پڑھتے تھے۔ یہی حال ہیری ٹرومین کا بھی تھا۔ روزویلٹ انتظامیہ میں ایک سرکردہ عہدیدار ہیرالڈ آئیکس نے ایک بار یہودیوں کی فلسطین واپسی کو تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا تھا، یعنی بائبل کی تعلیمات کا عملی مظاہرہ۔ یہ گہرے مذہبی ممالک ہیں جہاں بائبل کی تعلیمات کو، جیسا کہ کہا جاتا ہے، بڑی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نوآبادیات کا حصہ بھی ہے۔ یہ یورپی نوآبادیات کا آخری مرحلہ ہے۔
اور غور کریں کہ وہ ممالک جو اسرائیل کی سب سے زیادہ مضبوطی سے حمایت کرتے ہیں، وہ صرف امریکہ نہیں ہیں، یہ امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا ہیں۔ انگلینڈ کی یہ شاخیں جنہیں بعض اوقات اینگلوسفیئر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سامراجیت کی غیر معمولی شکلیں ہیں۔ یہ آبادکار نوآبادیاتی معاشرے ہیں۔ ایسے نوآبادیاتی معاشرے جہاں آبادکار آئے اور مقامی آبادی کو بنیادی طور پر ختم کر دیا، یہ ہندوستان کی طرح نہیں تھا کہ جہاں انگریز حکمران تھے۔ جیسے جنوبی افریقہ (کچھ حد تک) یا فرانسیسی حکمرانی میں الجزائر، یہ ایسے معاشرے تھے جہاں آبادکار داخل ہوئے اور مقامی آبادی کو تقریباً نیست و نابود کر دیا۔ ان کے پیچھے بھی مذہبی اصول کارفرما تھے۔ یہ عیسائی صہیونیت سے متاثر انتہائی مذہبی گروہ تھے۔ یہ اہم ثقافتی عوامل ہیں۔
کچھ اہم جیو اسٹریٹجک (جغرافیائی) عوامل بھی ہیں۔ اگر آپ 1948ء پر نظر ڈالیں تو امریکہ میں محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کے درمیان نئی ریاست اسرائیل کے حوالے سے ردعمل کا اختلاف تھا۔ محکمہ خارجہ اسرائیلی فتوحات اور ریاست کے قیام کے اتنا حق میں نہیں تھا، اور اسے پناہ گزینوں کی فکر تھی؛ وہ پناہ گزینوں کے مسئلے کا حل چاہتا تھا۔ دوسری طرف پینٹاگون اسرائیل کی فوجی صلاحیت سے بہت متاثر تھا، اسرائیل کی فوجی کامیابیوں سے۔ اگر آپ اندرونی ریکارڈ کو دیکھیں، جو اب خفیہ نہیں رہا، تو جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے اسرائیل کو ترکی کے بعد خطے کی دوسری سب سے بڑی فوجی طاقت اور خطے میں امریکی طاقت کے لیے ایک ممکنہ اڈہ قرار دیا تھا۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں پورا ریکارڈ تو نہیں بتا سکتا، لیکن 1958ء میں جب خطے میں ایک سنگین بحران آیا تو اسرائیل واحد ریاست تھی جس نے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ مضبوطی سے تعاون کیا۔ اور اس وجہ سے اسے حکومتوں اور فوج سے بہت زیادہ حمایت ملی۔
1967ء میں اسرائیل کے ساتھ اس نوعیت کے تعلقات تقریباً قائم ہو چکے تھے جو اس وقت موجود ہیں۔ اسرائیل نے امریکہ کے لیے ایک بڑی خدمت یہ انجام دی کہ اس نے سیکولر عرب قوم پرستی کو تباہ کر دیا، جو امریکہ کے ایک بڑے دشمن عنصر کی حیثیت رکھتا تھا، اور بنیاد پرست اسلام کو سپورٹ کیا، جس کی امریکہ نے حمایت کی تھی اور یہ آج تک جاری ہے۔
ابھی ہم نے اس کی ایک مثال غزہ پر حالیہ حملے کے دوران دیکھی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک موقع پر حملہ کے دوران اسرائیل کے گولہ بارود ختم ہونے لگے، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ پوری طرح سے مسلح ہے۔ امریکہ نے پینٹاگون کے ذریعے اسرائیل کو مزید گولہ بارود فراہم کیا، اور غور کریں کہ وہ کہاں سے لیا گیا تھا؟ یہ امریکی گولہ بارود تھا جو اسرائیل میں پہلے سے ہی موجود تھا، امریکی افواج کے ممکنہ استعمال کے لیے۔ یہ ان کئی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ کس طرح اسرائیل کو بنیادی طور پر امریکہ کا ایک فوجی محاذ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے آپس میں بہت قریبی انٹیلیجنس تعلقات ہیں جو بہت پرانے ہیں، اور بہت سے دیگر رابطے ہیں۔
اور میڈیا کا رجحان یہ ہے کہ وہ حکومت کی پالیسی کو بہت معمولی سوالات کے ساتھ قبول کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر عراق پر امریکی حملے کا مسئلہ لے لیں۔ آپ کو امریکی میڈیا میں ’’عراق پر امریکی حملہ‘‘ کی اصطلاح نہیں ملے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک حملہ تھا، جارحیت کا ایک واضح عمل، جس کو نورمبرگ ٹرائلز (جنگِ عظیم دوم کے فاتح ممالک کی پنچایتوں) میں بڑا بین الاقوامی جرم قرار دیا گیا تھا۔ اس کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔
- صدر اوباما کو اس حملے کے مخالف کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ انہوں نے کیا کہا؟ انہوں نے کہا کہ یہ ایک غلطی ہے، ایک اسٹریٹجک غلطی ہے، ہم اس سے بچ نہیں پائیں گے۔ اب یہ اسی طرح کی مخالفت ہے جو آپ نے ہٹلر کے روس پر حملے کے دوران جرمن جنرل اسٹاف سے سنی تھی۔ ’’یہ ایک غلطی ہے۔ نہیں کرنا چاہیے تھا، ہمیں پہلے انگلینڈ کو ختم کرنا چاہیے تھا، اصل مخالف تو وہ ہے‘‘۔
- ویتنام میں بھی یہی صورتحال تھی؛ اب وہاں امریکی قربانیوں کی ایک بڑی یادگار منائی جا رہی ہے۔ 1961ء سے اب تک کہیں بھی ’’جنوبی ویتنام پر امریکی حملہ‘‘ کی اصطلاح تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ یہ موجود ہی نہیں ہے۔ شاید ’’ڈیموکریسی ناؤ‘‘ پر ہو، یا جو کچھ میں لکھتا ہوں اس میں ہو، لیکن وہ بھی کہیں ضمنی طور پر۔
- اور یہ صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں ہے، مثال کے طور پر برطانیہ کو لے لیں۔ ابھی برطانوی ادبی جرائد جیسے ’’ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ‘‘ میں دلچسپ بحثیں ہو رہی ہیں کہ کیا برطانیہ کو آخر کار برطانوی نوآبادیات کے نسل کشانہ کردار کو تسلیم کرنا شروع کر دینا چاہیے، جو سینکڑوں سال پہلے ہوا تھا۔ کیا برطانیہ کو اس کا سامنا کرنا شروع کر دینا چاہیے؟ آپ یہ سوال کئی جگہوں پر پوچھ سکتے ہیں۔ دانشور طبقے کا رجحان، ریاست کی طاقت اور نجی طاقت کی حمایت میں ریوڑ کی طرح چلنا، تعجب خیز ہے۔ دانشور خود کو اختلاف رائے رکھنے والے، تنقیدی، بہادر اور طاقت کے خلاف کھڑے ہونے والے سمجھتے ہیں۔ بالکل درست نہیں ہے۔ آپ تاریخی ریکارڈ دیکھیں تو یہ ایک چھوٹی سی اقلیت ہو گی جنہیں عموماً سزا ملی ہے۔ مرکزی دھارے کا رجحان وہ ہوتا ہے جسے کبھی ’’آزاد ذہنوں کا ریوڑ‘‘ کہا جاتا تھا، جو ریاستی طاقت کی حمایت میں مارچ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ نیا نہیں ہے، یہ افسوسناک ہے، لیکن آپ کو اس کے خلاف لڑنا ہوگا، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
https://youtu.be/lUQ_0MubbcM
ایران کتنا بڑا خطرہ ہے؟
سوال: سب سے پہلے آپ کی تشریف آوری کا تہہ دل سے شکریہ۔ آپ نے جو کچھ ہم سے شیئر کیا، اسے سن کر میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میرا سوال خاص طور پر ایران اور جوہری ہتھیاروں کے بارے میں ہے، اور اس بحث کے حوالے سے جو آپ عالمی برادری میں ایران کے بارے میں کر رہے تھے۔ میں یہ بات بخوبی سمجھتی ہوں کہ کوئی ملک اپنی حفاظت کی خاطر، یا عالمی سطح پر سپر پاورز یا ان کے ہم پلہ ممالک کی طرح حیثیت حاصل کرنے کے لیے جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے یا تیار کرتا ہے، جن کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ لیکن جب کوئی ملک کھلے عام اسے تیار کرنے یا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہو، اور ساتھ ہی کھلے عام کسی دوسرے ملک کو نیست و نابود کرنے کی دھمکی دے رہا ہو اور یہ دعویٰ کر رہا ہو کہ فلاں ملک کا وجود ہی نہیں ہونا چاہیے، تو آپ کیا کریں گے؟ میرا مطلب ہے کہ یہ دو بہت بڑے مسائل ہیں جن سے ہم نبرد آزما ہیں، اور مجھے لگا کہ آپ نے اس پر بات نہیں کی تھی، تو میں جاننا چاہتی تھی کہ آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔
چومسکی: یہ سچ ہے۔ ان ممالک کا کیا کریں گے جنہوں نے عدمِ پھیلاؤ معاہدے کے دائرہ کار سے باہر پہلے ہی جوہری ہتھیار تیار کر لیے ہیں؟ اور جو روزانہ سلامتی کونسل اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں؟ یہ کہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔
سوال: یہ ایک مختلف صورتحال ہے کیونکہ وہ ممالک کھلے عام کسی دوسرے ملک کو مٹانے کی دھمکی نہیں دے رہے۔
چومسکی: ایران بھی ایسا نہیں کر رہا۔ بس بیانات پر ایک نظر ڈالیں۔ ان کے بیانات یہ ہیں کہ — یہ تو اصل میں خمینی کے زمانے کی بات ہے، جب اسرائیل-ایران کا اتحاد تھا اور اسرائیل کو تب اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ آپ جانتے ہیں، یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ اسرائیل کا وجود باقی نہیں رہنا چاہیے۔ دراصل میں بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ حقیقت میں اسرائیل میں بھی بہت سے لوگ ہیں جو ایک واحد جمہوری ریاست کے حق میں ہیں۔ یہ کسی کو مٹانے کا مطالبہ نہیں ہے۔ ایران نے تو دو ریاستی حل پر عالمی اتفاق رائے کی حمایت کی ہے۔
دراصل صرف دو ایسے ممالک ہیں جو نہ کسی قوم کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے تباہ کر بھی رہے ہیں، یعنی امریکہ اور اسرائیل۔ فلسطینیوں کے بارے میں ان کا یہی موقف ہے، اور وہ صرف یہ کہہ نہیں رہے ہیں۔ میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ وہ صرف یہ کہہ نہیں رہے بلکہ روزانہ کی بنیاد پر یہ کر رہے ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے میں جو پالیسیاں ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی ہیں، جن کی ہم حمایت اور مالی امداد کر رہے ہیں، ان کا یہی مطلب ہے۔
تو یقیناً آپ کو کسی دوسری قوم کی تباہی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ دراصل اسرائیل کا جو سرکاری موقف ہے جس کی امریکہ کی حمایت حاصل ہے، اب انہوں نے اسے تھوڑا سا تبدیل کیا ہے، لیکن تقریباً 20 سال پہلے ان کا سرکاری موقف یہ تھا کہ
’’اردن اور اسرائیل کے درمیان کوئی اضافی فلسطینی ریاست نہیں ہو سکتی‘‘۔
یہ میرے اپنے الفاظ نہیں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے اعلان کیا اور امریکہ نے اس کی حمایت کی کہ پہلے ہی ایک فلسطینی ریاست موجود ہے، یعنی اردن۔ اور آپ جانتے ہیں کہ فلسطینیوں کا اعتراض ہے کہ نہیں، نہیں، وہ ہماری ریاست نہیں ہے۔ لیکن فلسطینیوں کی پرواہ کسے ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ وہی (اردن) آپ کی ریاست ہے اور کوئی اضافی نہیں ہو سکتی۔ اور یہ تو کسی دوسرے ملک کو تباہ کرنے کے مطالبے سے کہیں آگے کی بات ہے۔ یعنی یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی آ کر کہے، فرض کریں احمدی نژاد کہتا ہے کہ یہودیوں کو اسرائیل کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے پاس پہلے ہی نیویارک ہے۔ ہم تو اسے نازی ازم کی بحالی کہیں گے، مگر یہ امریکہ-اسرائیل کا سرکاری موقف رہا ہے۔ تو بہت کچھ ہے (کہنے کو)۔
اور بھی عقلمند شخص نہیں چاہتا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہوں، یا کسی اور کے پاس بھی، اور یہ بلاشبہ ایک خوفناک حکومت ہے، اگرچہ اس خطے میں اس سے برے بھی ہیں جو ہمارے اتحادی ہیں، مگر میں اسرائیل کا حوالہ نہیں دے رہا ہوں، میں دیگر عرب ریاستوں کا حوالہ دے رہا ہوں، سعودی عرب کے مقابلے میں ایران تو شہری حقوق کی جنت لگتا ہے، لیکن یہ برا ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ اور اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہے جیسے، مثال کے طور پر، جوہری ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کی طرف بڑھنا۔
لیکن اسٹریٹجک تجزیہ کاروں میں بشمول اسرائیلیوں کے، اس طرح کا کوئی حقیقی سوال نہیں ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے، جو کہ جوہری ہتھیار رکھنے کے مترادف نہیں ہے، وہ اس مقام پر جانا چاہتا ہے جہاں وہ اسے حاصل کر سکے، جیسا کہ زیادہ تر ترقی یافتہ صنعتی دنیا اس پوزیشن میں ہے: جاپان، اٹلی اور اس طرح کے ممالک۔
اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ دراصل اسے اسرائیل کے ایک سرکردہ فوجی تجزیہ کار مارٹن وین کریویلڈ، جو بہت ہی جنگجو مزاج کے حامل ہیں، نے چند سال پہلے بیان کیا تھا۔ عراق پر حملے کے بعد، انہوں نے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ ایران جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے یا نہیں، اور انہیں امید ہے کہ نہیں کر رہا ہے۔ لیکن انہوں نے لکھا کہ اگر وہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہے ہیں تو وہ پاگل ہیں۔ یہ ان کے اپنے الفاظ تھے کہ اگر وہ تیار نہیں کر رہے تو وہ پاگل ہیں۔
امریکہ نے ابھی اعلان کیا ہے کہ ’’ہم کسی پر بھی حملہ کریں گے جس پر ہمارا دل چاہے گا اور اگر ہم بغیر کسی رکاوٹ کے کر سکے تو آپ پر حملہ کریں گے‘‘۔ تو آپ کے پاس ایک دفاعی رکاوٹ ہونی چاہیے۔ اس لیے شاید وہ ایک دفاعی رکاوٹ تیار کر رہے ہیں۔
کوئی بھی سنجیدہ تجزیہ کار یہ نہیں سوچتا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال کریں گے۔ اگر ایران کے پاس جوہری ہتھیار اور میزائل ہوتے، جو کہ کوئی بھی عقلمند شخص نہیں چاہتا کہ ان کے پاس ہوں، میرا مطلب ہے کہ اگر وہ میزائل کو لوڈ کرنے کی حد تک بھی پہنچ جاتے ہیں تو ان کا ملک فوراً تباہ ہو جائے گا، چاہے اس کا کوئی ہلکا سا شک بھی ہو۔ مولوی لوگ شاید بڑے ہی گھناؤنے لوگ ہوں لیکن انہوں نے ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ہے کہ وہ اپنی ہر قیمتی چیز کو تباہ کرنے اور خودکشی کرنے کے درپے ہیں۔ یہی بات چوری چھپے اوروں تک جوہری ہتھیار پہنچانے والوں کے بارے میں بھی درست ہے۔ اگر اس بات کا کوئی شک بھی ہوتا کہ وہ ایسا کر رہے ہیں تو آپ ایران کو گڈ بائی کہہ سکتے ہیں۔ ان کے استعمال کے امکانات شاید زمین سے کسی سیارچے کے ٹکرانے کے برابر ہیں یا اس طرح کی کوئی چیز۔
یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ درحقیقت اگر آپ اسرائیلی لٹریچر دیکھیں تو وہ اس کے بارے میں کافی سیدھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایرانی جوہری ہتھیار کا اصل خطرہ اسرائیل کے خلاف نہیں ہے، بلکہ صیہونیت کے خلاف ہے۔ وہ جس چیز سے ڈرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر خطہ بہت خطرناک ہو جاتا ہے تو اسرائیل کے لوگ نکل جائیں گے۔ وہ لوگ جن کے پاس استطاعت ہے، زیادہ پڑھے لکھے، امیر وغیرہ، کیونکہ وہ اس خطرے کے ساتھ کسی خطے میں نہیں رہنا چاہیں گے۔ اور درحقیقت پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ طبقوں کی ہجرت ایک کافی سنجیدہ مسئلہ ہے، لہٰذا وہ اس خطرے کا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی سنجیدہ اسٹریٹجک تجزیہ کار، کم از کم میں نے کبھی ایسا کوئی نہیں دیکھا، جو یہ سمجھتا ہو کہ ایران جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ مکمل خودکشی ہے۔