پاک بھارت کشیدگی میں اطراف کے مسلمانوں کا لائحۂ عمل

مفتی عبد المنعم فائز: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ پاکستان انڈیا کی جنگ ایک اختتام کو پہنچی اور اس کے نتیجے میں الحمد للہ پاکستان فاتح قرار پایا ہے، دنیا بھر کے جو مبصرین ہیں وہ اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو پاکستانی افواج کو فتحِ مبین، بہت واضح فتح نصیب فرمائی ہے۔ تو اس دوران میں بہت سے سوالات جو اسلامی جہاد کے حوالے سے اٹھائے گئے، انڈین میڈیا نے اس کے اوپر گفتگو کی ہے، اور بہت سے سوالات وہ جو ہمارے کمنٹس میں ہمارے ناظرین نے حضرت استاذ صاحب دامت برکاتہم کی گفتگو کے نتیجے میں ہم سے پوچھیں ہیں، تو آج وہ تمام سوالات اور وہ تمام اشکالات لے کر حضرت استاذ صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان کے جوابات جاننے کی کوشش کریں گے۔ حضرت استاد صاحب دامت برکاتہم کو ہم آج کے پروگرام میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

اسلام کے فلسفۂ جہاد کی شروط و قیود

حضرت! سب سے پہلا سوال یہی ہے کہ جو انڈین میڈیا نے بڑے زور شور سے پروپیگنڈا کیا ہے کہ اسلام یا قرآن مجید کی یہ تعلیم ہے کہ اپنے علاوہ یعنی مسلمانوں کے علاوہ تمام کافروں کو قتل کر دو، اور بار بار اس بات کو انڈین میڈیا نے دہرایا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ اسلام کا جو جہاد کا فلسفہ ہے، جہاد کا تصور ہے، وہ یہی ہے یا اس سے مختلف ہے؟ 

مفتی عبد الرحیم: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ میں نے بھی کچھ کلپ سنے ہیں اس حوالے سے کہ مسلمانوں کا قرآن کہتا ہے کہ کافروں کو قتل کر دو، اور اس پر وہ آگے ساری بات کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ لاعلمی اور جہالت کی بات ہے۔ ہمارے دین میں جہاد ایک مقدس فریضہ ہے، جیسے نماز فرض ہے، زکوٰۃ فرض ہے، روزہ فرض ہے، حج فرض ہے، ایسے ہی جہاد بھی فرض ہے۔ اور جیسے نماز کے لیے شرائط ہیں، ارکان ہیں، فرائض ہیں، واجبات ہیں ،سننِ مؤکدہ و غیر مؤکدہ، مستحبات ہیں، نماز کے مکروہات ہیں، مفسدات ہیں، نواقض ہیں، بالکل اسی طریقے سے جہاد کے بہت بڑے بڑے شرائط ہیں، اس کے فرائض اور واجبات ہیں، اس کی سنتیں ہیں، اس کے مستحبات ہیں، اور اس کی بہت ساری ایسی چیزیں ہیں اس کی مکروہات اور مفسدات میں ان کو شمار کیا جاتا ہے۔ 

یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ کوئی آدمی قرآن مجید سے یہ لے لے ’’لا تقربوا الصلوٰۃ وانتم سکارَیٰ‘‘ تو ’’لا تقربوا الصلوٰۃ‘‘ کو لے کر یہ کہہ دے کہ قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے کہ نماز کے قریب بھی مت جاؤ۔ تو قرآن نے ’’اقیموا الصلوٰۃ‘‘ بھی کہا ہے اور ’’لا تقربوا الصلوٰۃ‘‘ بھی کہا ہے۔ بالکل اسی طریقے سے جہاد کے بہت احکام ہیں اور جب تک ان احکام  کو سامنے نہیں رکھیں گے اس وقت تک کسی ایک بات کو لے لینا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہندوستان کے آئین میں کہیں لکھا ہوا ہے نا کہ ان حالات میں جنگ کرنا ان پہ لازم ہوگا، تو جنگ کرنے کی بات کو لے لیں، باقی پورے آئین کو آپ نظر انداز کر دیں۔ 

قرآن مجید میں 400 آیات ہیں جہاد سے متعلق، ان چار سو آیات میں سے ایک آیت کا ایک جز ہے ’’قاتلوھم‘‘ ، تو ایک جز کو لے کر اس پر یہ اعتراض کرنا۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ صحیح بخاری میں کتنے ابواب ہیں۔ کتاب الجہاد میں 199 ابواب ہیں، کتاب فرض الخمس اور کتاب الجزیہ میں 20، 22 ہیں، اور کتاب المغازی میں 90 ابواب ہیں۔ تو یہ 331 ابواب جہاد سے متعلق ہیں اور ایک باب میں کتنی کتنی حدیثیں ہوتی ہیں۔ امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے کتاب ’’السیر الکبیر‘‘ کتنی بڑی کتاب لکھی، کتنی جلدوں میں ہے وہ۔ تو جہاد کے احکام ایسے نہیں ہیں کہ کسی کو بھی آپ اٹھا کر قتل کر دو۔ 

قرآن مجید میں تو صبر کرنے کا حکم بھی ہے، ’’لا تقاتلوا‘‘ بھی قرآن کا حکم ہے، ’’فان قاتلوکم فاقتلوھم‘‘ اگر وہ تم سے لڑیں تو تم ان سے لڑو۔ صبر کرنے کا حکم بھی ہے ’’وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ‘‘ تم اگر بدلہ لینا چاہو تو اتنا بدلہ لو جتنی تم پر کسی نے زیادتی کی ہے، ’’ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین‘‘ اگر تم صبر کرو تمہارے لیے بہتر ہے۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے دین میں اتنی سی بات نہیں ہے۔ تو انصاف یہ ہوا کہ پورے اس نظامِ جہاد کو آپ پڑھیں، فلسفۂ جہاد کو، تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ جہاد انسانیت کے لیے رحمت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپؐ نے جو جہاد کا سلسلہ شروع کیا اس میں مجموعی طور پر ان دس سالوں میں 243 مسلمان شہید ہوئے اور تقریباً‌ 800، 900 کفار اس میں قتل ہوئے۔ تو گیارہ بارہ سو لوگوں کی جانیں گئیں اور پورا عرب امن کے گہوارہ بن گیا۔ تو بالکل اسی طریقے سے اس جہاد کو اپنے فلسفے کے ساتھ اپنے شرائط کے ساتھ لینا چاہیے۔ اپنی مرضی کے مطابق ان چیزوں کو لے کر اس کی تفصیل بیان کرنا یہ درست نہیں ہے۔

اسلام میں معاہدات کی اہمیت و حساسیت

دوسری بات یہ کہ جہاد میں (یا) ہمارے دین کے جتنے بھی احکام ہیں، اس میں جو بہت نمایاں حکم ہے وہ معاہدوں کا ہے۔ جب قوموں کے معاہدے ہو جاتے ہیں، ریاستوں کے ریاستوں کے ساتھ معاہدے ہو جاتے ہیں، قبائل کے قبائل کے ساتھ معاہدے ہو جاتے ہیں، یا فرد کا کسی فرد کے ساتھ معاہدہ ہو جاتا ہے، تو اس کی پابندی کرنا شرعاً‌ لازم ہے اور اس معاہدے کو توڑنا شرعاً‌ حرام ہے ناجائز ہے۔ تو اس وقت جس طریقے سے دنیا معاہدوں میں بندھی ہوئی ہے تو سب اس کے پابند ہیں۔ اور جس آیت کا حوالہ دیا جاتا ہے سورۃ براءۃ یا سورۃ توبۃ کا، اس کا تو سارا موضوع ہی یہی تھا کہ کفار نے، مشرکینِ مکہ نے معاہدہ توڑ دیا تھا، تو معاہدہ توڑنے کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہوا۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ میں ڈھائی سو معاہدے ہوئے، ان معاہدوں کی پابندی مسلمانوں نے کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے، صحابہ کرامؓ نے۔ اور زیادہ تر جو فتوحات ہوئی ہیں معاہدات توڑنے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ کفار نے معاہدہ توڑا، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتوحات عطا فرمائیں۔ 

تو جو ایک ایگریمنٹ ہے، معاہدہ ہے، اس معاہدے کی جب آپ پابندی کریں گے تو ایسا نہیں ہے کہ کوئی کسی پر کسی وقت بھی چڑھائی شروع کر دے۔ اور معاہدوں کے حوالے سے میں کچھ واقعات بھی بتانا چاہوں گا کہ معاہدوں کی پابندی کتنی ضروری ہے۔ خود قرآن مجید میں 40 سے زیادہ آیات ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ معاہدوں کی پابندی کریں، اگر معاہدے کو توڑیں گے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوگی۔ اور بہت سخت وعید ہے ’’فبما نقضھم میثاقھم لعنٰھم‘‘، اور احادیث تو بہت زیادہ ہیں اس بارے میں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدوں کی کس طریقے سے پاسداری کی؟ 

جب حدیبیہ کی مصالحت ہوئی، صلح حدیبیہ، ابو جندل آگئے تھے وہاں سے، بیڑیوں میں وہ جکڑے ہوئے تھے، تو گھسٹتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ آپؐ نے واپس کیا کہ ہم چونکہ معاہدہ کر چکے ہیں۔

ابو بصیر مکہ سے مدینہ پہنچے کتنے مشکل حالات میں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس کیا کہ چونکہ معاہدہ کر چکے ہیں لہٰذا معاہدہ کی ہم پابندی کریں گے۔

ایسے ہی حضرت رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی ہیں جو کفارِ مکہ، مشرکینِ مکہ کا ایک پیغام لے کر آئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ جب یہ مدینہ میں پہنچے تو ان کو اسلام بہت پسند آیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں تو مسلمان ہو گیا ہوں، میرا دل چاہتا ہے میں یہیں رہوں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا، چونکہ تم ان کے سفیر بن کر آئے تھے لہٰذا تم واپس چلے جاؤ، دوبارہ تمہارا دل چاہے تو وہاں سے تم واپس آنا۔ تو اس قدر ہمارے دین میں معاہدوں کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو قدیم الاسلام ہیں، اور آپ بھی آپ کے والد صاحب بھی مہاجرین میں شمار ہوتے ہیں، بڑے مہاجرین میں، تو آپ بدری کیوں نہیں ہیں، جنگِ بدر میں کیوں نہیں شریک ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ ہم جنگِ بدر میں جانے کے لیے چلے تھے کہ راستے میں ہم مشرکینِ مکہ کہتے چڑھ گئے، انہوں نے ہمیں مارا اور انہوں نے زبردستی ہم سے معاہدہ لیا کہ تم جنگ میں حصہ نہیں لو گے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہم حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ! اس طریقے سے انہوں نے ہم سے معاہدہ کیا ہے، عہد لیا ہے زبردستی، تو ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا، ’’نفی بعھدھم ونتوکل علی اللہ‘‘ (انصرفا، نفی لھم بعھدھم ونستعین اللہ علیہم) ہم اس عہد کو پورا کریں گے، اللہ تعالیٰ پر توکل کریں گے، تم واپس مدینہ جاؤ۔ تو اتنا زبردست ہمارے دین میں اس کا حکم ہے۔

ایسے ہی حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شام کا ایک علاقہ انہوں نے فتح کیا تھا۔ اور یہ جو جزیہ کی بات ہوتی ہے، جزیہ بھی معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ جہاد کے تین مرحلے ہوتے ہیں، اگر اقدامی جہاد ہو رہا ہے: پہلے مرحلے میں ان کو اسلام کی دعوت دیں۔ دوسرے نمبر پہ ان کو معاہدے پہ قائل کریں، اگر وہ معاہدہ کر لیں تو وہ اپنے اسی عقیدے پر، جو بھی ان کا عقیدہ، اس پر وہ باقی رہ سکتے ہیں۔ اور اگر اس پر بھی تیار نہ ہوں تو اس کے بعد پھر آگے ان سے وہ ہوتا ہے۔ تو جہاد کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سے کوئی معاہدہ نہ ہو، اگر پہلے سے کوئی معاہدہ ہے تو اس معاہدے کی پابندی کرنا شرط ہے۔ تو ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں شام میں تھے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان کو پیغام آیا کہ آپ کی یہاں زیادہ ضرورت ہے، آپ وہ علاقہ چھوڑ کر آجائیں۔ تو وہ جو جزیہ ان سے لیا تھا ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے، وہ رومی لوگ تھے، عیسائی تھے، آپ نے ان سب کو جمع کیا، انہوں نے کہا کہ ہم جا رہے ہیں اور آپ کے پیسے واپس کر رہے ہیں۔ تو انہوں نے پوچھا پیسے کیوں واپس کیے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو یہ پیسے اس لیے لیے تھے کہ آپ کی جان، مال، عزت کا ہم تحفظ کریں گے۔ اور اب چونکہ ہم یہاں سے جا رہے ہیں تو لہٰذا ہم اس معاہدے کے یہ پیسے بھی ہم واپس کریں گے۔ 

ایسے ہی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں رومیوں سے جب آپ کا معاہدہ ہوا، جب معاہدے کی مدت ختم ہونے لگی تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طے کیا کہ ہم قریب چلے جاتے ہیں، اس سرحد کے قریب، تو جیسے یہ وقت ختم ہوگا فورً‌ا ہم حملہ کر دیں گے۔ تو وہاں جب قریب پہنچے تو ایک شخص گھوڑے پہ ان کو نظر آیا اور وہ بہت بلند آواز سے اللہ اکبر اللہ اکبر کہہ رہا تھا اور کہہ رہا تھا ’’وفاء لا غدر‘‘ کہ مسلمانو! وفا کرو، خیانت نہ کرو۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بلایا تو معلوم ہوا کہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے کہ اگر تمہارا کسی قوم کے ساتھ معاہدہ ہو جائے، یا تو معاہدہ کو پورا کرو مکمل کرو، اور اگر ختم کرنا چاہو تو برابری پر ختم کرو۔ تو اب مدت ختم ہو رہی ہے تو ہم یہاں پہنچ گئے، تو انہوں نے تو کوئی تیاری نہیں کی دفاع کی۔ ان کو اتنا موقع دیں کہ وہ مورچہ بند ہو جائیں پھر ان پہ آپ ہم آپ حملہ کر سکتے ہیں۔ 

اور قرآن مجید میں بھی ہے ’’اما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیھم علیٰ سواء‘‘ کہ اگر آپ کو کسی قوم سے اندیشہ ہو کہ وہ خیانت کریں گے تو پھر برابری پر آپ اس کو چھوڑیں، ایسے نہیں کہ آپ ان کو دھوکہ دے دیں۔ تو ہمارے دین میں اتنی بڑی اہمیت ہے اس کی۔ 

ایسے ہی مجھے یاد آیا کہ فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر مسلمان کسی شہر کا محاصرہ کر لیں اور رات کے وقت میں ایک شخص فصیل پہ آ کر کہتا ہے کہ یہ شہر تم سے فتح نہیں ہو گا، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس کا راستہ کہاں ہے جہاں سے یہ فتح ہو سکتا ہے، لیکن اس شرط پر کہ آپ مجھے معاف کر دیں گے، مجھے آپ تحفظ دیں گے۔ اس میں ان کا معاہدہ ہو گیا، اس نے بتا دیا اور مسلمانوں کا اس شہر پہ قبضہ ہو گیا۔ لیکن وہ آدمی نہیں مل رہا تو مسلمانوں نے اعلان کیا کہ وہ کون سا شخص تھا جس نے رات ہم سے معاہدہ کیا تھا؟ تو بہت سارے لوگ کھڑے ہو گئے کہ میں نے معاہدہ کیا تھا۔ تو فقہاء نے لکھا ہے کہ سب کو امان دینا پڑے گا، سب کو آپ چھوڑیں گے جب تک آپ کو پتہ نہ چل جائے کہ بالتعین یہ آدمی تھا۔ اگر سو لوگ بھی کھڑے ہو گئے تو سو کے سو کو آپ امن دیں گے۔

ایسے ہی دوسرے فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی علاقے کا محاصرہ ہو اور وہ فتح نہ ہو رہا ہو، اور ایک شخص فصیل پہ آ کر کہتا ہے کہ میں آپ کو بتاتا ہوں یہ شہر کیسے فتح ہو گا، کس دروازے سے فتح ہو گا، اس زمانے میں دروازے ہوتے تھے، اس شرط پر کہ بادشاہ کا محل میرا ہو گا۔ اور مسلمانوں کے کمانڈر نے اس سے معاہدہ کر لیا، تو اب فتح ہونے کے بعد اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس کا محل خود رکھے، اس آدمی کو دینا ہو گا۔

تو ہمارے دین میں اتنی بڑی چیز ہے یہ۔ جتنے بھی ایگریمنٹ ہوتے ہیں بین الاقوامی سطح پہ، قومی سطح پہ، ان کا خیال رکھنا چاہیے، اس کے ہوتے ہوئے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جہاد ہے۔ اور اگر ان کی آپ خلاف ورزی کریں گے تو جیسے کسی فرض کو چھوڑنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، واجب کو چھوڑنے سے نماز مکروہِ تحریمی ہو جاتی ہے، بالکل اسی طریقے سے وہ جہاد نہیں ہو گا۔ 

اور میں اس کا خلاصہ نکالتا ہوں کہ یہ جو جہاد ہے یہ ہماری اسلامی ریاست کی وزارتِ دفاع ہے۔ تو کیا کسی بھی وزارتِ دفاع کا کوئی انکار کر سکتا ہے؟ کیا ہندوستان کی وزارتِ دفاع نہیں ہے، کیا ان کا جنگ کا نظام نہیں ہے؟ تو بالکل اسی طریقے سے یہ اسلامی ریاست کی وزارتِ دفاع ہے، جس کے لیے شرائط ہیں، اس کے طریقہ کار ہیں، اس کے اصول و ضوابط ہیں، اور ایسے اصول و ضوابط ہیں کہ اگر ان پہ عمل کر لے دنیا، تو جنگ میں بھی کم سے کم نقصان ہو۔

ایک اور میں قصہ سنا دوں کہ فتح سمرقند بہت مشہور ہے، تو سمرقند کیسے فتح ہوا؟ قطیبہ بن مسلم باہلی، یہ بہت بڑے کمانڈر تھے، مسلمانوں کے بڑی سطح کے فاتحین میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے سمرقند پہ چڑھائی کی اور سمرقند کو فتح کر لیا۔ جب فتح کر لیا اور قبضہ مکمل ہو گیا تو سمرقند کے لوگوں کو پتہ چلا کہ ان کے ہاں تو پہلے اسلام کی دعوت دی جاتی ہے، پھر معاہدے کی بات ہوتی ہے، جس کو جزیہ بولتے ہیں، اس کے بعد لڑائی ہوتی ہے، تو انہوں نے ہم سے یہ بات کہی نہیں۔ تو انہوں نے اپنے ایک شخص کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھیجا، اس وقت وہی امیر المومنین تھے۔ وہ دمشق، شام گئے اور جا کر انہوں نے شکایت کی کہ ہم نے تو یہ سنا ہے کہ آپ کے ہاں یہ مرحلہ وار بات ہوتی ہے، تو انہوں نے نہ ہمیں دعوت دی، نہ ہم سے انہوں نے معاہدے کی بات کی، اور ایسے ہی چڑھائی کر کے پورے شہر میں قبضہ کر لیا۔ 

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ نے خط لکھا سمرقند کے قاضی کو، ان کے نام تھا حضرت جُمیعؒ، تابعی تھے، ان کو لکھا کہ آپ ان کا فیصلہ کریں اور کمانڈر کو بھی بلائیں اور اہلِ سمرقند کو بھی بلائیں۔ تو انہوں نے باقاعدہ عدالت لگائی اور سارے کمانڈر بھی اکٹھے ہو گئے اور اہل سمرقند بھی۔ اور یہ ثابت ہو گیا کہ انہوں نے بغیر کسی دعوت کے بغیر معاہدے کے اچانک چڑھائی کی تھی۔ اس پر حضرت جُمیع نے یہ اعلان کیا کہ ساری افواج، مجاہدین جتنے بھی ہیں، وہ واپس نکل جائیں، دوبارہ سے بات چیت کریں ان کے ساتھ۔ تو جب سمرقند سے یہ لوگ نکل رہے تھے، اس فیصلے پر، تو سمرقند کے لوگ کلمہ پڑھ رہے تھے ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ تو انہوں نے کلمۂ شہادت پڑھا سارے لوگ مسلمان ہوئے۔ تو مسلمانوں کا اتنا عظیم، ہمارے دین کا یہ اتنا بڑا وہ (طریقہ) ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کیسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس پہ چاہو چڑھائی کر دو جس کو چاہو مار دو؟

پاکستان کے ساتھ جنگ میں ہندوستان کے مسلمانوں کی ذمہ داری

مفتی عبد المنعم فائز: اچھا حضرت! دوسرے نمبر پہ جو ہندوستان کے مسلمان ہیں، ان دنوں میں جب پاکستان بھارت جنگ چھڑی تھی تو اس میں ان کا موقف بہت متذبذب ہوا۔ بہت سے لوگ ایسے تھے جو خاموش تھے، ان کا کوئی موقف نہیں تھا، نہ وہ انڈیا کی افواج کا ساتھ دے رہے تھے، نہ پاکستانی فوج کا۔ کچھ لوگ ایسے تھے جو اپنی انڈین فوج کا ساتھ دے رہے تھے۔ کچھ لوگ ایسے تھے جو پاکستانی فوج کے حق میں لکھ رہے تھے، سوشل میڈیا پہ کمنٹ کر رہے تھے۔ تو ان حالات میں جو انڈیا میں بسنے والے مسلمان ہیں، اتنی بڑی تعداد ہے، ان کا موقف کیا ہونا چاہیے اور اسلام کی کیا تعلیمات ہیں اس حوالے سے؟

مفتی عبد الرحیم: دیکھیے، جو میں نے معاہدوں کی اتنی ساری مثالیں دی ہیں، ہندوستان کے مسلمانوں پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ ہندوستان کا جو آئین ہے وہ بھی ایک ایگریمنٹ ہے، اس ایگریمنٹ کے ساتھ جتنے بھی لوگ وہاں رہتے ہیں، (ہندوستان کی) نیشنلٹی کے ساتھ، تو ان کو اپنے آئین کی پابندی کرنا ضروری ہے تا وقتیکہ ان کے جو فرائض ہیں عبادات ہیں وہ متاثر نہ ہوں۔ تو ہندوستان کے مسلمانوں کو آپس میں بیٹھنا چاہیے اور وہ اپنا فیصلہ خود کریں، بجائے اس کے کہ یہاں پاکستان سے کوئی بیانات داغے جائیں، ان کو پریشان کیا جائے، یا وہ وہاں سے الگ سے کوئی چیز شروع کریں۔ اس کی بجائے جو ایگریمنٹ انہوں نے آئین کی شکل میں کیا ہوا ہے، اس کی پابندی کریں، امن و امان قائم رکھیں۔ اور اگر ان پہ ظلم ہوتا ہے جیسا کہ مودی حکومت اور یہ جو کچھ کرتے ہیں تو اس کے لیے آئین کی روشنی میں آئین کے تحت بہت کچھ ان کے پاس مواقع ہیں، ظلم سے بچنے کے لیے، اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لیے۔

اور ہم ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ آج کے دور میں جہاں اور بہت ساری آسانیاں ہوئی ہیں اس میں ایک بہت بڑی آسانی یہ ہے کہ آج کے دور میں اپنے پیغام کو پہنچانے کے لیے، اپنی بات منوانے کے لیے، لابنگ کرنے کے لیے، میڈیا کا استعمال، احتجاج کا طریقہ کار، وہ اتنے زیادہ ہیں، لیکن بنیادی طور پر یہ شرط ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اکٹھے ہوں، اکٹھے ہو کر اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں، تو وہاں کا جو سیکولر آئین ہے وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بہت تحفظ دیتا ہے، صرف مسلمانوں کو نہیں، جتنے نماز سکھ رہتے ہیں، جتنے وہاں عیسائی رہتے ہیں، دوسری اقلیتیں، سب کے لیے وہاں کا جو سیکولر آئین ہے وہ نعمت ہے بہت بڑی، تو اس کو وہ مضبوطی سے پکڑیں اور اپنے فیصلے خود کریں۔ وہاں کے علماء ہیں، وہاں کے جو بڑے ذمہ دار لوگ ہیں، جو آگے لیڈرشپ ہے، وہ آپس میں بیٹھیں اور اپنے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان لوگوں کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

اور میرا یہ خیال ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کو ہر جگہ راستے ملیں گے، ان کے لیے ضروری نہیں ہے کہ پاکستان کے ساتھ جنگ ہو تو وہاں وہ بھی جنگ شروع کر دیں، بلکہ اس کی اجازت بھی نہیں ہو گی ان کے لیے۔

مقبوضہ کشمیر کی شرعی اور بین الاقوامی حیثیت

مفتی عبد المنعم فائز: جیسے حضرت نے کہا کہ وہاں کے لوگوں کے لیے جو آئینی اور قانونی رستہ ہے، جس آئین اور قانون کو وہ مانتے ہیں، جس ایگریمنٹ کے تحت وہ وہاں کے شہری ہیں، اس کے مطابق وہ کام کریں۔ اب مسئلہ جو ہے وہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا بھی ہے، جیسے حضرت نے پہلے بھی کہا کہ جو پہلگام کا واقعہ ہے وہ ظلم ہے، بربریت ہے، اسلام اس طرح سے قتلِ عام کی کہیں بھی کسی صورت اجازت نہیں دیتا ہے۔ تو مقبوضہ کشمیر کے لوگ کے کمنٹس یہ ہیں کہ یہاں پہ جو مسلمانوں پہ ظلم ہو رہا ہے، تشدد ہو رہا ہے، اس ظلم اور تشدد کو اگر آپ دیکھیں تو آپ کی رائے تبدیل ہو جائے گی۔ تو کیا مقبوضہ کشمیر کی جو موجودہ آئینی صورتحال ہے، پاکستان کا بھی اس کے اوپر دعویٰ ہے، اور پھر ان کے اوپر جو روزانہ ظلم اور تشدد کے پہاڑ بھی توڑے جا رہے ہیں، تو ان کا کیا موقف ہونا چاہیے، وہ کس طرح سے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں؟

مفتی عبد الرحیم: دیکھیے ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر میں فرق ہے۔ ہندوستان کی جو میں نے بات کی وہ تو آئین کا ایک ایگریمنٹ موجود ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے جتنے مسلمان ہیں، جتنے کشمیری ہیں، ان پر تو ہندوستان کا قبضہ ظالمانہ بھی ہے غاصبانہ بھی ہے اور جارحانہ بھی ہے۔ وہ تو ویسے ہی غلط ہے، وہاں کوئی ایگریمنٹ بھی موجود نہیں ہے، تو اس قبضے کو چھڑانے کے لیے کوشش کرنا، یہ بالکل درست ہے، وہ مسلح کوشش بھی کر سکتے ہیں اور وہ جہاد ہی ہو گا۔ اور جو لوگ ان کو سپورٹ کریں گے وہ بھی جہاد ہی شمار ہو گا بشرطیکہ  ان معاہدوں کی شکل میں ہو جو دنیا میں ہم نے کیے ہوئے ہیں۔ لیکن جو مقامی لوگ ہیں، کشمیری لوگ ہیں، ان کے لیے اپنے دفاع میں مسلح تحریک چلانا وہ شرعاً‌ جہاد ہے وہ جائز ہے، اور اگر کوئی ان کے ساتھ مدد کرتا ہے، میڈیا کے لحاظ سے، سفارتی لحاظ سے، بین الاقوامی سطح پہ، قومی سطح پہ، اگر ان کی کوئی امداد کرتا ہے تو وہ ٹھیک ہے، اس میں کوئی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

 البتہ یہ بات اور ہے کہ ان کو کیا کرنا چاہیے؟ تو ہمارے دین میں دو ہی طریقے ہیں، ان کے پاس طاقت ہے یا نہیں ہے؟ اگر طاقت نہیں ہے تو صبر کریں اور طاقت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ہمارے دین میں دو قسم کے فرائض ہیں: ایک وہ فرض ہے جس کی بنیاد طاقت کے اوپر ہے کہ اگر طاقت ہے تو وہ فرض ہے، لیکن اس طاقت کو حاصل کرنا فرض نہیں ہے۔ جیسے زکوٰۃ واجب ہے، اس پر جو مالدار ہو، صاحبِ نصاب ہو، تو اگر کسی کے پاس نصاب نہیں ہے تو اس پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ مال اتنا کمائے کہ صاحبِ نصاب ہو جائے۔ حج فرض ہے اس پر جس کے پاس مالی استطاعت ہو، اگر کسی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں تو اس پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اتنے پیسے کمائے یہاں تک کہ اس پہ حج فرض ہو جائے۔ لیکن جہاد اس سے مختلف ہے۔ جہاد ان فرائض میں سے ہے کہ اگر کسی کے پاس اس کی استطاعت نہیں ہے تو استطاعت حاصل کرنا فرض ہے، کوشش کرنا فرض ہے۔ تو ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر کے جو مسلمان ہیں، اگر ان کے پاس استطاعت ہے تو وہ لڑیں اور وہ جہاد ہو گا۔ 

اور یہ بھی میں بتا دوں کہ بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کے قوانین ہیں، وہ بھی اس کی اجازت دیتے ہیں کہ اپنے دفاع کے لیے اور اپنی خود مختاری کے لیے آپ ہتھیار بھی اٹھا سکتے ہیں۔ تو کشمیریوں کی سفارتی مدد کرنا، ان کی ہر قسم کی کوشش میں ان کو سپورٹ دینا، یہ بالکل شریعت میں بھی ٹھیک ہے اور بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے بھی ٹھیک ہے۔

اس فتح میں پاکستان کے لیے رہنمائی

مفتی عبد المنعم فائز: اگلا سوال یہی ہے کہ جو پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے اتنی زبردست فتح دی ہے، اب اس فتح کے بعد اس کے فوائد کس طرح سے ہم سمیٹ سکتے ہیں؟ اس فتح کو قومی اتحاد و یکجہتی، اپنی بین الاقوامی سفارتکاری کو مضبوط کرنے کے لیے، قومی مسائل کو حل کرنے کے لیے کس طرح ہم استعمال کر سکتے ہیں؟

مفتی عبد الرحیم: یہ جو اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا معجزہ ہمیں دکھایا ہے اور اتنا بڑا تحفہ دیا ہے فتح مبین کا، اس سے ہمیں بہت بڑے بڑے اسباق ملتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ جنگیں فوجیں نہیں قومیں لڑتی ہیں، تو پاکستان کی قوم بحیثیت ایک قوم کے اکٹھی ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے ساری چیزوں کو آسان کر دیا، تو یہ ایک بہت بڑا نکتہ ہمیں اس سے ملتا ہے۔ اور اس جنگ کا جو نام رکھا گیا ’’بنیانٌ مرصوص‘‘ تو بنیانٌ مرصوص ہمارے سارے مسئلوں کا حل ہے۔ جب بھی آپ کے دماغ میں کوئی اشکال ہو، کوئی بحران ہو، کوئی چیلنج ہو، اس کا جواب کیا ہے، بنیانٌ مرصوص۔ اگر کوئی شہری مسائل ہیں، کراچی کے مسائل ہیں، تو اس کا جواب کیا ہے، بنیانٌ مرصوص۔ 

اصل میں ہمارے سامنے چیلنجز چار ہیں: ریاستِ پاکستان، افواجِ پاکستان، نظریۂ پاکستان، اور معیشتِ پاکستان۔ تو یہ جو جنگ ہوئی ہے اس جنگ کو ان چاروں کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

(۱) قومی سوچ اور اتحاد و یکجہتی

پاکستان کی ریاست کو جو جو خطرات لاحق تھے، جو اندرونی جنگیں چل رہی تھیں، قوم پرستوں کے لحاظ سے، مذہب کے نام پر، سیاسی خلفشار، یا ہماری سوسائٹی پوری ایک منفی طرف چلی گئی تھی، تو ریاستِ پاکستان کو اس جنگ سے جو سب سے بڑا فائدہ ہوا ہے وہ ایک اتفاق و اتحاد اور یونٹی، جو کسی بھی قوم کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ 

اور اس کا آرمی چیف نے جو نام رکھا ’’بنیانٌٌ مرصوص‘‘ قرآن مجید سے، یہی علاج ہے ہمارے سارے مسائل کا۔ اگر ہمارے بیرونی مسائل ہیں اس میں بھی ہم اکٹھے ہو جائیں تو ہمارے مسئلے حل ہوں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ حتیٰ کہ جو شہری مسائل ہیں اگر ان میں بھی شہر کے لوگ اکٹھے ہو جائیں، اب شہر میں پچاس تو گروپ بنے ہوتے ہیں تو کیسے کام ہو گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بنیانٌ مرصوص کو پکڑ لینا چاہیے، کوئی بھی ہمارا مسئلہ ہو تو بنیانٌ مرصوص بن جائیں، تو دیکھیں ہمارے کام کتنی جلدی ہوتے ہیں۔ اور بنیانٌ مرصوص پہ ہی اللہ تعالیٰ نے نصرت کا وعدہ فرمایا ہے۔ ’’ید اللہ علی الجماعۃ‘‘ جماعت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ’’الجماعۃ رحمۃ‘‘ جماعت رحمت ہوتی ہے۔ ’’الجماعۃ برکۃ‘‘۔ تو سب سے بڑا سبق ہمیں یہی ملا ہے۔

اور آپ دیکھیں گے کہ اس فتحِ مبین کی برکت سے جتنے بھی اندرونی یہاں جھگڑے ہو رہے تھے یا بہت سارے لوگوں نے بغاوت شروع کی ہوئی تھی، مسلح تاریکیں چل رہی تھیں، ان سب کو اس وقت میں ایک ضرب شدید لگی ہے، جیسے ہندوستان کو اتنی بڑی ضرب لگی ہے، اسی اسی طریقے سے پاکستان میں جو مسلح تحریکیں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے، ان کو بھی بڑی ضرب شدید لگی۔

(۲) نظریۂ پاکستان کی حقانیت

دوسرے نمبر پہ نظریۂ پاکستان۔ پاکستان کا دو قومی نظریہ جنگ کے ان دنوں میں بڑی کھل کر سامنے آیا۔ سب کو پتہ چل گیا کہ واقعتاً‌ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ جس طریقے سے فیصلے ہو رہے تھے، جس طریقے سے اقدامات ہو رہے تھے، اس میں اللہ رسول کا نام لیا جا رہا تھا، جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے، تہجد میں لوگ دعائیں کر رہے ہیں، اور بڑی بڑی ہماری جو فورسز کے لوگ ہیں وہ اجتماعی دعاؤں کا اہتمام کر رہے ہیں، قنوتِ نازلہ کا اہتمام کروایا جا رہا ہے، بچوں سے دعائیں کروائی جا رہی ہیں، اور فرض نماز پڑھ کر اجتماعی دعا ہو رہی ہے، اور الحمدللہ کہہ کر نعرۂ تکبیر پڑھ کر لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر۔ تو جس طریقے سے پندرہ بیس دن ہم نے دیکھا اور خاص طور پر تین چار دن، تو اس سے یہ بات بہت واضح ہو گئی کہ پاکستان واقعتاً‌ دو قومی نظریہ پر بنا تھا۔ اور دو قومی نظریہ ایسی چیز ہے کہ ہمارے ملک کی اجتماعیت کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ جب آپ دو قومی نظریے پر آئیں گے اور سب لا الٰہ الا اللہ پر جمع ہوں گے، ایک نظریے پر جمع ہوں گے، تو پھر کوئی سندھی نہیں رہے گا، کوئی پنجابی نہیں رہے گا، کوئی بلوچی نہیں ہوگا، کوئی پختون نہیں ہوگا۔ اگر کوئی پختون ہے اور بلوچی ہے تو اپنی شناخت کے لیے ہے، جھگڑے کے لیے نہیں ہے، لڑائی کے لیے نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ نظریۂ پاکستان بھی بہت نمایاں ہو کر آیا ہے۔

اور نظریۂ پاکستان جو مطالعۂ پاکستان میں لکھا ہوا تھا، تو یہ پتہ چلا کہ وہ بالکل صحیح تھا، سو فیصد صحیح تھا۔ اور جو بہت سے لوگ اس پر اعتراض کرتے تھے کہ صرف کاغذ کی بات ہے، اس سے ثابت ہوا کہ کاغذ کی بات نہیں بلکہ یہ عقیدے اور نظریے اور ایمان کی بات تھی جو کھل کر سامنے آیا، الحمد للہ۔

(۳) افواجِ پاکستان کے کردار پر اعتماد

تیسرے نمبر پر افواجِ پاکستان۔ افواج پاکستان کے بارے میں جو کچھ چند سالوں سے، چھ سات سالوں سے سلسلہ چل رہا تھا، لیکن آخری تین سالوں میں جتنے بڑے پیمانے پر نفرت بٹھائی گئی، اندر سے، باہر سے، نوجوانوں کے دلوں میں، مذہبی طبقات کے دلوں میں، اور اس سے انہوں نے کسی حد تک لوگوں کے ذہنوں میں یہ بیانیہ ثابت کر دیا تھا کہ ہماری فوج اسلامی فوج نہیں ہے۔ دوسرے نمبر پر کہ یہ کھانے پینے والے لوگ ہیں، کرپٹ لوگ ہیں، اور ہمارے ملک کا سب سے خطرناک اگر کوئی ادارہ ہے تو وہ یہی ہے۔ لیکن اس موقع پر یہ ثابت ہوا کہ جو کچھ فوج نے بجٹ لیا تھا وہ کھایا نہیں لگایا ہے۔ اور فوج کی جتنی بھی تربیت ہوتی ہے، آئی ایس پی آر کے ڈی جی جنرل احمد شریف صاحب نے کہا کہ اسلام ہمارے اصول و ضوابط میں شامل ہے، ہماری ٹریننگ میں شامل ہے، فوج کے نظام میں شامل ہے۔ 

میں یہ سمجھتا ہوں کتنی بڑی بات ہے کہ جو لوگ پاکستان کی فوج کو سیکولر فوج کہہ رہے تھے، ان کے جذبات دیکھیں، ان کی شوقِ شہادت دیکھیں، ان کا جذبۂ جہاد دیکھیں، ان کی قربانیاں دیکھیں، وہ جب محاذوں پر جا رہے ہیں تو کس کس طریقے سے وصیتیں کر کے جا رہے ہیں، اپنی ماؤں سے، اپنے والدین سے کس قسم کی انہوں نے درخواستیں کی ہیں۔ اس میں فضائیہ کے لوگ بھی ہیں، اس میں آرمی کے لوگ بھی ہیں، اس میں نیوی کے لوگ بھی ہیں۔ تو اس سے یہ بات بالکل ثابت ہو گئی کہ پاکستان کی فوج اسلامی فوج ہے اور اس کو سیکولر فوج کہنا بہت بڑی تہمت ہے ہماری فوج پر، اور ان کے اتنے بڑے ایمان کی ناقدری بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک عذاب کی صورت ہے جس سے ہمیں توبہ کرنی چاہیے۔

اسی طریقے سے جس انداز سے ہماری افواج نے جنگ جیتی ہے، جس طریقے سے اس میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا ہے، جس طریقے سے سائبر کا، کمپیوٹرائز چیزوں کا، ڈیجیٹل نظام کا انہوں نے استعمال کیا، سائنسی چیزوں کا استعمال کیا جتنے بڑے پیمانے پر، تو اس کی جتنی بھی جزئیات ہیں، میں سمجھتا ہوں اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان پوری دنیا کی قیادت کر سکتا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی ہماری کمزوری ہے مسلمانوں کی یا پاکستان کی تو ہمارے اندر کوئی کمزوری ہو گی، لیکن ہماری افواج نے یہ بات ثابت کی ہے۔ اور اب جب کہ جتنے بھی اسلامی ممالک ہیں وہ پاکستان کو اپنا رول ماڈل سمجھ رہے ہیں، تعریفیں کر رہے ہیں، اور جو مغرب کا ایک رعب اور دبدبہ تھا اس حوالے سے وہ بھی ختم ہو گیا ہے اور وہ بھی اس بات کو مان رہے ہیں کہ پاکستان کی فوج کی جو تربیت تھی جو تیاری تھی وہ بے مثال تھی، تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا موقع ہے آگے بڑھنے کا، متحد ہونے کا، اپنی افواج کو سپورٹ کرنے کا، اور پاکستان کے جتنے بھی اندرونی و بیرونی چیلنجز ہیں ان سے نمٹنے کا۔ 

(۴) معاشی وسائل اور قومی خودمختاری 

چوتھی چیز ہے پاکستان کی معیشت، جو بہت بڑا ایشو ہے۔ ابن خلدونؒ نے تو لکھا ہے نا کہ ریاست دو ہی ستونوں پر قائم ہوتی ہے: ایک فوجی قوت اور ایک معیشت۔ تو پاکستان کی جو معیشت ہے وہ بھی انہی دنوں میں جو کچھ ہمیں حاصل ہوا کہ ایک ہم اکٹھے رہیں اور جتنے اللہ نے ہمیں فضائی صلاحیتیں دی ہیں، جو زمینی ہیں، جو معدنیات ہیں، ان سب سے استفادہ کر سکتے ہیں اور پاکستان معیشت کی دنیا میں بہت آگے تک جا سکتا ہے، تو اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے۔

جہاد کی شرعی حیثیت اور ذمہ داری

 یہ جو بار بار میں نے بہت زور دیا ہے کہ جہاد ایک ریاستی امور میں سے امر ہے، اس کا ریاست سے تعلق ہے، انفرادی طور پہ چند مواقع ایسے آتے ہیں جہاں انفرادی طور پہ بھی اجازت ہوتی ہے یا اس کا فرض ہوتا ہے، بالعموم اس کا ریاست سے تعلق ہے۔ تو جتنی بڑی جنگ ہوئی ہے اور جتنے بڑے پیمانے پہ پاکستان کو دھمکیاں دی مودی حکومت نے وہاں کی میڈیا نے اس کو سن کر دیکھ لیں تو اتنی بڑی جنگ کیا نجی طور پہ کوئی تنظیم لڑ سکتی ہے اگر پوری دنیا کی نجی تنظیمیں بھی جمع ہو جائیں تو خود اس بات سے سمجھ لیں کہ جہاد یہ ہے جو ابھی ہوا ہے اور اگر ریاست کی اجازت سے ہو کوئی رضاکار ہوں کہ گروپ ہوں تو وہ تو الگ بات ہے لیکن بالعموم یہ ریاست سے تعلق ہے اس کا اور اس جنگ نے یہ بات ثابت کی ہے کہ جہاد اور مجاہد کا جو صحیح مصداق ہے وہ ہماری افواج ہیں اور ہماری فوج کا نظام ہے اور جہاد میں حصہ لینے کا سب سے بہتر طریقہ ہے کہ آپ فوج میں شامل ہو جائیں اور وہاں جا کر اپنے جذبے کو آپ اس پر عمل کریں تو یہ سب سے بہتر طریقہ ہے۔

اور جو لوگ فوج میں نہیں جا سکتے وہ وہ بھی جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں ’’جاہدوا باموالکم وانفسکم‘‘ (قرآن)، ’’والسنتکم‘‘ (حدیث) تو مال سے بھی جہاد کریں، اپنی جان سے بھی جہاد کریں، اپنی زبان سے بھی جہاد کریں۔ اپنی افواج کی حوصلہ افزائی کرنا، ان کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا اور ان کی حمایت کرنا، یہ بھی جہاد بالسان ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ دو جو طبقات ہیں: ایک علماء کرام جن کے پاس منبر و محراب ہے، اور ایک ہمارا میڈیا، یہ دونوں جہاد بالسان کر سکتے ہیں۔ اور الحمدللہ ثم الحمدللہ اس جنگ میں ہم نے دیکھا کہ ہمارے جتنے بھی اینکر تھے، جتنے ہمارے سوشل میڈیا تھا، الیکٹرانک میڈیا تھا، پرنٹ میڈیا تھا، انہوں نے بھرپور جہاد کیا ہے۔ تو بہت بڑا کام یہ بھی ہو سکتا ہے اور ہم باہر رہ کر بھی جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

بہت شکریہ، حضرت استاد صاحب نے وقت دیا۔ اور بہت سے سوالات ایسے ہیں ناظرین کہ جو ابھی بھی رہتے ہیں، ان شاء اللہ اگلی نشستوں میں ناظرین کے ان سوالات کے جواب بھی پوچھیں گے، تو ناظرین! آپ کے ذہن میں بھی کوئی سوال ہو تو کمنٹس بار میں وہ ضرور لکھیے، ان شاء اللہ حضرت کی خدمت میں وہ سوالات پیش کریں گے اور ان کے جوابات لینے کی بھی کوشش کریں گے۔

https://youtu.be/olhppKVVi-U


(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۷

اسلامی نظام اور آج کے دور میں اس کی عملداری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اہلِ کتاب کی بخشش کا مسئلہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

سوشل میڈیائی ’’آدابِ‘‘ اختلاف اور روایتی مراسلت
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

مسئلہ ختم نبوت اور مرزائیت
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
مولانا حافظ خرم شہزاد

بیوہ خواتین اور معاشرتی ذمہ داریاں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان شریعت کونسل اور الشریعہ اکادمی کے اجتماعات
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
مولانا محمد اسامہ قاسم

Britain`s Long-Standing Role in Palestine`s Transformation into Israel
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۱)
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف
حافظ میاں محمد نعمان

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۲)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۵)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۲)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۴)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

ماہانہ بلاگ

مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امیر خان متقی کا اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس ۵۱ سے خطاب
جسارت نیوز
طلوع نیوز

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے چند اہم پہلو
امتنان احمد

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور اس کے رکن ممالک
الجزیرہ

سیاحتی علاقوں میں حفاظتی تدابیر اور ایمرجنسی سروسز کی ضرورت
مولانا عبد الرؤف محمدی

’’سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟‘‘
مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی

پاک بھارت کشیدگی میں اطراف کے مسلمانوں کا لائحۂ عمل
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

پاک بھارت حالیہ کشیدگی: بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ایران کے رہبرِمعظم اور پاکستان میں ایرانی سفیر کے پیغامات
سید علی خامنہ ای
رضا امیری مقدم

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملے: دینی قائدین کے بیانات
میڈیا

سنی شیعہ تقسیم اور اسرائیل ایران تصادم
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال

امریکہ اسرائیل کی سپورٹ کیوں کرتا ہے اور ایران کتنا بڑا خطرہ ہے؟
نوم چومسکی

اسرائیل ایران جنگ: تاریخی حقائق اور آئندہ خدشات کے تناظر میں
حامد میر

اسرائیل کا ایران پر حملہ اور پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ
خورشید محمود قصوری
علی طارق

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کا حملہ اور خطہ پر اس کے ممکنہ عواقب
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ایران کی دفاعی جنگی حکمتِ عملی
سید محمد علی
سید طلعت حسین

اسرائیل کے حملے، ایران کا جواب، امریکہ کی دھمکیاں
پونیا پرسون واجپائی

’’بارہ روزہ جنگ‘‘ میں اسرائیل اور ایران کے نقصانات
ادارہ

اسرائیل ایران کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter