وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور جس کی طرف باخبر حلقے اشارہ کر رہے تھے، بلکہ خبر تو یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے بھی باقاعدہ ایران کو آگاہ کر دیا تھا۔ اور ہم نے گزشتہ مہینے کے اشراق عربی کے اپنے اداریے میں بتایا تھا کہ اسرائیل ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملہ کرنے کے لیے پرتول رہا ہے۔ اور اگر وہ حملہ کرتا ہے تو دنیا میں اُس کو روکنے والا کوئی نہ ہو گا۔ چنانچہ تیرہ جون کی رات میں اسرائیل نے ۳۰۰ سے زیادہ ائراسٹرائیک تہران پر کیں تو امریکہ نے اس کو روکا نہیں بلکہ مدد پہنچائی اور مزید مدد جدید ترین اسلحہ کی شکل میں مسلسل پہنچ رہی ہے جس میں دوسرا بڑا مجرم برطانیہ ہے جو مسلسل اسرائیل کو فوجی مدد دے رہا ہے۔ اس کے بعد اب امریکہ خود بھی جنگ میں کود پڑا اور اُس نے ایران کی ایٹمی سائٹس پر چودہ بی ٹو بم گرا دیے۔ دوسری عالمی قوتیں، یو این او وغیرہ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے رہے۔ اس وقت یو این او کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو امریکہ اپنے طور پر استعمال کرتا ہے اور اپنے بدنام زمانہ ویٹو کے ذریعہ یو این او کو اُس نے گویا گروی رکھا ہوا ہے۔ حال یہ ہو گیا ہے کہ دنیا میں اقوام متحدہ کو اب کوئی سیریس لینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ سب کو پتا ہے کہ وہ بڑی طاقتوں کے خلاف کچھ نہیں کرتا۔ اُس کے سارے رولز اور قاعدے کمزور ممالک پر لاگو ہوتے ہیں!
تیرہ جون کو اچانک ہوئے شدید حملوں میں صہیونی ریاست نے ممتاز ایٹمی سائنس داں عباس فریدون سمیت ایران کے چھ ایٹمی سائنس داں اور کئی فوجی کمانڈر مار دیے۔ نتانز ایٹمی ریفائنری کو نشانہ بنایا، گیس سپلائی وغیرہ کے مراکز کو تباہ کیا۔ شاک بہت گہرا اور صدمہ بہت ہی اذیت ناک تھا۔ یہ حملہ اسی طرز کا تھا جس طرح کے حملہ میں اسرائیل نے ایران کے اندر گھس کر شیخ اسماعیل ہنیہ کو قتل کر دیا تھا۔
ایران یا تو غافل تھا یا اُس کے پاس وہ جدید ترین راڈار سسٹم نہیں ہے جو اسرائیل کی ہوائی غارت گری کو روک سکتا! ایران کو اپنے ان انسانی سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ان کو بنکروں میں رکھنا چاہیے تھا۔ پاسدارانِ انقلاب کے کور کمانڈر حسین سلامی اور دیگر اعلیٰ افسران شہید ہو گئے۔ کوئی بھی اعلیٰ کمانڈر ایک دن میں نہیں بنتا، اسی طرح ایٹمی سائنس داں بڑی محنت اور سرمایہ سے تیار ہوتا ہے۔ یہ ملک کا بیش قیمت اثاثہ تھا جس کو بدقسمتی سے ایران نہیں بچا سکا۔ اِس سے قبل بھی اسرائیل عرب ملکوں اور خود ایران میں بھی ٹاپ کے سائنس دانوں کو قتل کرتا رہا ہے۔ چونکہ اسرائیل کو کبھی کسی نے روکا نہیں اس لیے وہ اب اپنے آپ کو بالکل بے لگام سمجھتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایران کی فوج کے اعلیٰ افسران کا قتل ابھی بھی جاری ہے۔ چنانچہ اس جنگ کے پانچویں دن فوج کے نئے سربراہ علی شادمانی کو شہید کر دیا گیا۔ اس فرنٹ پر ایران بہت کمزور ثابت ہوتا رہا ہے اور اس کی فوج کی تمام قیادت اسرائیل کے نشانہ پر رہی ہے۔
اسرائیل کے اس حملہ سے دوسری عرب اسرائیل جنگ (1967ء) یاد آئی جس میں عربوں کے ’’قومی ہیرو‘‘ جمال عبد الناصر، جن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اپنے آقاؤوں کے اشارہ پر اخوان المسلمین کی پوری قیادت کو شہید کر ڈالا تھا، پوری عرب دنیا کی قیادت فرما رہے تھے۔ جس دن اسرائیل پر متحدہ عرب فوجیں حملہ کرنے والی تھیں اُس سے ایک دن پہلے ہی اسرائیل نے ان پر سرپرائز اٹیک کیا اور اتنا زوردار کیا کہ پوری عرب فضائیہ اپنے رن وے پر ہی تباہ ہو کر رہ گئی اور چند گھنٹوں کے اندر ہی عربوں کو سرنڈر کر دینا پڑا۔ موجودہ عرب دنیا کسی بھی طور پر کسی جنگ کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ وہ کئی جنگیں کر کے اس کے مہلک نتائج دیکھ چکے ہیں۔
بظاہر ایران نے Posture یہ بنایا کہ وہ اسرائیلی جارحیت کا زبردست انتقام لے گا، اور ایک دن کے بعد اس نے اسرائیل کو سزا دینے کے لیے جوابی کارروائی شروع بھی کی۔ مشکل یہ ہے کہ ایران کے بالسٹک میزائیلوں کو کئی پرتوں والی دفاعی پٹی سے گذر کر اپنے اہداف تک پہنچنا ہوتا تھا۔ اردن میں ان کو گرایا جاتا تھا، عراق میں بیٹھی امریکی فوج اپنے ڈسٹرائر سے ان کو روک رہی تھی۔ یواے ای میں ان کو مارا جاتا تھا۔ اس کے بعد آئرن ڈوم اور تھاڈ سسٹم ان کا راستہ روکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سو بیلیسٹک میزائلوں میں سے چند ایک ہی اپنے ہدف پر پہنچ پاتے تھے لیکن یہ چند بھی اسرائیل کو ہراساں کرنے کے لیے کافی ثابت ہوئے۔
مغربی دنیا اور اس کے پیروکار ایرانی معاشرہ کو نہیں سمجھتے۔ یہ وہ قوم ہے جو قربانیاں دینا جانتی ہے، جس کی تربیت ہی شہادت کے تصور پر ہوتی ہے، جس نے انقلاب کے فوراً بعد صدام حسین کی مسلط کردہ جنگ آٹھ سال تک لڑی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب امریکی سی آئی اے کی مدد سے دشمنوں نے ایران کی پارلیمنٹ تک کو نشانہ بنایا تھا اور پارلیمان کے اسپیکر تک قتل کر دیے گئے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے جنگ لڑی اور آخر میں جیتی تو لیکن دونوں ملکوں کی معیشت ڈوبنے کے بعد۔
لیکن یہ دنیا طاقت وروں کی دنیا ہے بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ ٹھگوں کی دنیا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ یوروپین ممالک نے جی سیون کے اجلاس میں اسرائیل کی مذمت نہیں کی، الٹے ایران کی مذمت کی! جرمنی کے چانسلر نے کہا کہ ’’اسرائیل ہمارا ڈرٹی کھیل کھیل رہا ہے اس کا ساتھ دینا ہوگا‘‘۔ ایران کے ساتھ کھل کر کوئی بھی کھڑا نہیں ہوا، البتہ امید ہے کہ روس اور چین نے یقیناً خفیہ طور پر مدد کی ہو گی، کیونکہ وہ ان کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ ان دونوں ممالک نے کھل کر اسرائیلی حملہ کی مذمت کی ہے۔اور جمعہ کو (یعنی بیس جون) کو جنیوا میں اہم وزراء خارجہ کا اجلاس بھی ہوا جس میں ایرانی وزیرخارجہ بھی شریک ہوئے اور انہوں نے ایک بار پھر مضبوطی سے اپنا موقف دہرایا کہ ان کے ملک پر جارحیت ہوئی ہے اور ایران اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے، وہ اپنے پُرامن ایٹمی پروگرام سے دستبردار نہیں ہوگا۔
پاکستان نے واضح طور پر ننگی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کا عندیہ دیا۔ خلیج کے اکیس ممالک بشمول سعودی عرب، ترکیے، اردن اور مصر نے دکھاوے کے لیے ایک مذمتی بیان داغ دیا، لیکن اردن بظاہر اسرائیل کا ساتھ دے رہا تھا کہ اپنی ائراسپیس اسرائیل کے لیے بند نہیں کی مگر ایران کے لیے بند کر دی۔ اسرائیل کی سرحد ایران سے نہیں ملتی، اس کی ائرفورس نے عراق کی ائراسپیس کا استعمال کیا۔ مشکل یہ ہے کہ عراق اپنی اسپیس امریکہ کو معاہدہ کے ذریعہ دے چکا ہے۔ مصر نے غزہ کو جانے والے اور اسرائیل کے ظالمانہ حصار کو توڑنے کے لیے جا رہے قافلۃ الصمودکو رفح میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی، لیکن اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ ایران میں اگر اسرائیل کامیاب ہو جاتا ہے تو چھوڑے گا وہ مصر کو بھی نہیں۔ کیونکہ مصر کے پاس بھی بڑی فوج ہے اور اسلحہ بھی ہے اور اسرائیل جس جنگل کے قانون کو فالو کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’ہم جس کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھیں گے اس کو ختم کر دیں گے۔‘‘
چنانچہ اب تک امریکہ اور اسرائیل شرقِ اوسط میں اسی ڈاکٹرائن پر عمل کرتے آئے ہیں۔ کاش حضرت حافظ عبد الفتاح سیسی مدظلہ بھی عراق، لیبیا، شام اور اب ایران کے انجام سے کوئی سبق سیکھ سکیں! اس کے علاوہ اگر ایران ڈھ گیا تو اسرائیل ساحل کے تماشائی ترکیے پر بھی نظر جمائے ہوئے ہے اور اس کے ایک عہدے دار نے کہا بھی کہ ’’اب اسرائیل کو کسی سے چیلنج کا سامنا نہیں ہو گا صرف ترکیے سے ہو سکتا ہے‘‘۔ یعنی اس کا نمبر بھی آئے گا۔
صہیونیت کی غلام مغربی میڈیا ادارے سی این این، بی بی سی، فوکس نیوز، سی بی سی نیوز، این بی سی نیوز، ایم ایس این بی سی، اسکائی نیوز آسٹریلیا وغیرہ ننگے ہو کر رپورٹنگ کرتے رہے۔ جس کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ ’’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے، ایران اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایران ایٹمی پروگرام جاری ہی کیوں رکھے ہوئے ہے؟ اسے اس کی کیا ضرورت ہے؟ اسرائیل نے بہت دنوں تک انتظار کیا، ایران نہیں مانا تو لہٰذا اسرائیل نے ممکنہ خطرہ سے نمٹنے کے لیے اپنے دفاع میں Preemptive حفظِ ماتقدم کے طور پر اسٹرائک کی ہیں‘‘۔ مغربی میڈیاکی بہت سی رپورٹنگ ہم نے دیکھی۔ وہ اتنی جانبدار، اتنی بے ایمانی، حقائق سے کھلواڑ اور بے ضمیری پر مبنی ہے کہ اُس کو سنتے، دیکھتے اور پڑھتے ہوئے شرم آتی ہے اور یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ مغربی انسان جو مہذب، سائنسٹیفک، عقلیت پسند باور کیا اور کرایا جاتا ہے وہ اتنا گر سکتا ہے، اتنا متعصب اور دوغلا ہو سکتا ہے!
حقیقت میں اس میڈیا رپورٹنگ نے ہمیں تو یہ باور کرا دیا ہے کہ ہمارے روایتی علماء خاص کر مولانا مودودیؒ نے مغرب کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح لکھا ہے اور ان سے اختلاف کرنے والے یعنی مولانا وحید الدین خاں (اور ان سے پہلے سر سید احمد خان) اور ان کے پیروکار مغرب کے بارے میں نہایت سطحیت کا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے مغرب کے صرف ظاہر کو دیکھا ہے اور اس سے مرعوب و متاثر ہو گئے۔
ہندوستان کا قومی میڈیا جو شرمناک حد تک ہندوتوا کے ہاتھ میں کھیل رہا ہے اس کی ساری ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ رہیں جبکہ بہت بڑی مقدار میں انڈیا ایران سے تیل خریدتا ہے۔ مگر اس کے سارے دفاعی تجزیہ کار، فوجی جرنیل اور میڈیا کے بڑے بڑے بدتمیز گرو اپنی اسلام اور پاکستانی دشمنی میں اسرائیل پر ہمدردی کے ڈونگرے برساتے رہے اور ساری غلطی ایران کی قرار دیتے رہے کہ ایران اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ کیوں بن رہا ہے، اس لیے اسرائیل کو اپنے وجود کو بچانے کے لیے کچھ بھی کرنے کا حق ہے۔
چند آزاد اور چھوٹے یوٹیوب چینلوں اور یوٹیوبرز البتہ انصاف کی بات کہہ رہے تھے اور اسرائیل کو قصوروار بتا رہے تھے۔ میڈیا کے یہ بدطینت لوگ جانتے ہیں کہ ایک کروڑ انڈین ایران سمیت خلیج کے خطہ میں کام کرتے ہیں، دس ہزار تو صرف ایران میں ہی ہیں، جو سالانہ ٹریلینوں ڈالر کی مقدار میں زرمبادلہ انڈیا کو بہم پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پندرہ سو انڈین طلبہ وہاں پڑھتے ہیں، جبکہ ایران کو انڈیا سے کچھ خاص امپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے! اس کے باوجود ’’بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کی مانند ہندوتوا کے اسیر ان مسکین لوگوں کو کہیں سے بھی کچھ مسلمانوں کو بُرا بھلا کہنے کا اور اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل جاتا ہے تو میجر گوروآریہ کی طرح سب ٹرّانے لگتے ہیں اور سب کے سب بے شرمی سے ایک دھن بجانی شروع کر دیتے ہیں! ان بے چاروں کا بڑا مسئلہ شدید تعصب ہے، یہ اسلاموفوبیا کے مارے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ جہالت ہے، یہ بالکل نہیں جانتے کہ اسرائیل کس طرح سے وجود میں آیا اور کس طرح اس کے وجود کی بنیاد ہی دھوکہ، دھونس اور دہشت گردی اور غدر پر رکھی گئی، اور کس طرح وہ اپنے وجود سے لے کر اب تک پورے خطہ کے لیے ایک destabilizing factor رہا ہے اور اپنے ہم سایوں کو ’’پاگل کتے‘‘ کی طرح کاٹ کھانے کے لیے دوڑتا ہے۔
ایران ایک خودمختار ملک ہے، اس کی سالمیت گویا کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اس کے سائنس داں اور کمانڈروں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں! اے کاش ایران اب تک ایٹمی طاقت بن چکا ہوتا تو اسرائیل اُس کو یوں تر نوالہ سمجھ کر اس پر نہ چڑھ دوڑتا! (اسی سے پاکستان کے نیوکلیر بم کی قدر معلوم ہوتی ہے) جبکہ یو این چارٹر کی دفعہ 2 جو فنڈامینٹل اصولوں پر مشتمل ہے اور جس میں تمام رکن ممالک کو یکساں حیثیت اور حقوق دیے گئے ہیں، صاف طور پر یہ کہتی ہے کہ کسی بھی آزاد اور ساورن رکن ملک پر دوسرے کسی ممبر ملک کو کسی بھی عذر سے اپنے آپ حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایٹمی پروگرام تو ایران کا جاری ہے مگر صدر براک اوباما نے ایران سے معاہدہ کیا تھا جس سے ٹرمپ ہی خود دستبردار ہوئے ۔ پھر ایران ہمیشہ انکار کرتا آیا ہے کہ وہ ایٹمی بم بنانے کی نیت رکھتا ہے کیونکہ یہ اس کے ہاں فقہی و عقائدی مسئلہ ہے۔ خود ایٹامک انرجمی کمیشن (AIEA) نے مانا ہے کہ ایران نے گرچہ بعض قانونوں کی خلاف ورزی کی مگر وہ ایٹم بنانے کے قریب نہیں ہے۔ اور تو اور خود امریکی انٹیلی جنس نے بھی یہی رپورٹ اپنے ایوان میں دی جسے نرگسیت زدہ ٹرمپ نے آسانی سے غلط کہہ کر خارج کر دیا۔
اس کے بالکل برعکس صہیونی دہشت گرد وزیراعظم نتن یاہو آج سے نہیں بیس سال سے یہی کہتا آرہا ہے کہ ایران بم بنانے سے بس ایک ماہ دو رہے۔ اگر وہ ایک ماہ دور تھا تو اُس نے اب تک بنا کیوں نہیں لیا؟ اسرائیل خود ایٹمی قوت ہے اور یہ بات ساری دنیا جانتی ہے مگر اُس پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھاتا!
اس کے علاوہ ایٹامک انرجمی کمیشن نے خود یہ قاعدہ بنا دیا ہے کہ کسی بھی ایٹمی پلانٹ پر حملہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی، کیونکہ ایسے کسی حملہ کے نتیجہ میں اگر تابکاری اور ریڈی ایشن شروع ہو گئی تو اس کے Repercussions اور عواقب بہت بھیانک ہوتے ہیں، نہ صرف اس خطہ کے لیے بلکہ آس پاس کے ہزاروں کلومیٹر تک کے علاقہ کے انسانوں، حیوانوں اور نباتات سب کے لیے۔ صحت شدید متاثر ہوتی ہے، نفسیاتی امراض نسلوں تک لاحق ہوتے ہیں، کینسر اور دیگر متعدی امراض کا پھیلاؤ ہوتا ہے، اور توالد و تناسل میں خطرناک اثرات پڑتے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیایہ سوال بالکل نہیں اٹھا رہا کیونکہ مشرق کے لوگ اور خاص کر ’’عرب بدو اور ایران کے ملاپرست‘‘ لوگ ان کے نزدیک انسان ہی کہاں ہیں! اگر مغرب ان کو انسان سمجھتا تو غزہ میں جو ۵۵ ہزار معصوم مارے گئے ہیں کچھ تو ان میں انسانیت جاگتی اور مغربی ممالک اپنے پالتو کٹ کھنے اسرائیل کا ہاتھ پکڑتے!
تاہم یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ ایران نے اس موقع پر شدید غفلت کا ثبوت دیا، اُس کے دفاعی نظام کی کمزوری تھی یا گھر کے بھیدیوں اور غداروں سے وہ اس طور پر دھوکہ کھا گیا۔ وہ بھی اتنے بڑے پیمانے پر کہ ایران کے اندر موساد کے ایجنٹوں نے اسلحہ کی فیکٹری بنائی ہوئی تھی اور دفاعی اداروں کو بھنک تک نہیں لگی۔ ان ایجنٹوں نے دو سو ڈرون تو خود اندر سے مارے اور پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ امریکہ مشرقِ وسطیٰ سے اپنے سفارت کاروں اور شہریوں کو کئی دن پہلے سے نکال رہا تھا اور دنیا بھر میں یہ عام احساس پایا جا رہا تھا کہ ایران کے خلاف کچھ بڑا ہونے والا ہے جس میں امریکہ کی پوری طرح ملی بھگت ہوگی۔
مگر ایران شاید نیوکلیر ڈیل کے مذاکرات کے چکمے میں آگیا اور جتنا الرٹ اندرون سے اسے رہنا چاہیے تھا اُس میں اس سے بڑی چوک ہوئی۔ اس کا سارا زور بیرونی حملہ سے دفاعی تیاریوں میں لگا مگر اس میں لگتا ہے کہ بڑی چوک رہ گئی تھی، کیونکہ ابتداء میں اس کا راڈار سسٹم ایکٹو نہیں ہو پایا، کہ دشمن نے سب سے پہلا نشانہ اسی کو بنایا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دہشت گرد اور غنڈہ ریاست اسرائیل اپنی جارحیت کے پہلے راؤنڈ میں مکمل کامیاب رہا۔ اس نے چھہ نیوکلیر سائنس دانوں اور ٹاپ کے تین کمانڈروں اور بعض بڑی شخصیات کو آسانی سے شہیدکر دیا اور ایران کی نیو کلیر فیسیلیٹیز کو زبردست نقصان پہنچا دیا۔ ظاہر ہے کہ موساد اور اسرائیلی آرمی اس حملہ کی تیاری آٹھ مہینے سے کر رہے تھے! اسرائیل کے دو سو طیارے ایران کے اندر گھسے اور بمباری کی جس نے پورے ملک کو گہرا شاک لگا دیا۔
تاہم ایرانی رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای اور وزیراعظم مسعود پزشکیان کے حوصلہ کو داد دینی ہوگی کہ ابتدائی اور گہرے صدمے سے وہ جلد ہی نکل آئے اور پوری بیدار مغزی سے انہوں نے آنافاناً میں فوج کے اندر خالی ہوئی جگہیں پُر کیں اور نیا دفاعی نظام ترتیب دے کر جلد ہی جارح قوت کے خلاف کامیاب دفاعی کاروائیاں شروع کر دیں۔ تب سے اب تک شروعاتی دور کے شدید فوجی اور تیکنیکی نقصان کے باجوود ایران نے اپنے آپ کو ثابت کر دکھایا۔ اس کے تابڑ توڑ حملوں نے تل ابیب اور حیفا سمیت دوسرے شہروں میں خاص فوجی ٹھکانوں اور اقتصادی مراکز پر وہ تباہی مچائی کہ اسرائیلی رونے لگ گئے۔ پورا ملک دنیا سے کٹ گیا، ہوائی پروازیں بند، تمام شہری بنکروں میں گھسے ہوئے رہے اور دہشت گرد بنجمن نتن یاہو امریکہ سے گہار لگانے لگا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ شامل ہوں اور ایران میں رجیم چینج کرانے کے لیے اپنی فوج بھیجیں۔ ایرانی بالسٹک میزائیلوں نے اسرائیل کے دفاعی نظام ٹاڈ، آئرن ڈوم وغیرہ کو توڑ کر اسرائیلی شہروں میں تباہی مچا دی۔ نفسیاتی جنگ کے طور پر اسرائیل مغربی میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈا کرتا رہا کہ ایران کے پورے ائراسپیس پر اس کا کنٹرول ہے اور اس کے طیارے ایران میں کہیں بھی تباہی مچا سکتے ہیں۔ بالکل شروع میں ایسا ہی لگ رہا تھا اور صورت حال بالکل ویسی ہی تھی جس کو پروفیسر مقتدر خان نے یوں تشبیہ دی تھی کہ دو مدمقابل ہیں، ایک کے پاس صرف تلوار ہے، دوسرے کے پاس تلوار بھی ڈھال بھی اور زرہ بکتر بھی۔ ایران کے پاس صرف تلوار یعنی اس کے بیلسٹک میزائل ہیں جبکہ اسرائیل کے پاس ائرفورس، بے انتہا امریکی اقتصادی مدد اور موساد جیسی انٹیلی جنس پاور ہے۔ مگر جلد ہی صورت حال بدل گئی اور ایران اپنا دفاعی اعتماد بحال کر چکا تھا۔اگرچہ اس کو موساد کا مقابلہ کرنے کے لیے ابھی بہت پاپڑ بیلنے ہیں اور ائرڈفینس سسٹم کی کمزوری کو ختم کرنا ہوگا۔
یہ بات درست ہے کہ اسرائیل پورے شرقِ اوسط میں سب سے بڑی فضائیہ رکھتا ہے مگر ایران کے سپرسونک میزائیل اور ڈرون، جو یوکرین جنگ میں روس کے کام آئے ہیں، کی صلاحیت بے مثال ہے۔ اور اگر امریکہ بذاتِ خود فل فورس کے ساتھ اس جنگ میں نہیں کودتا تو ایران نے چند دنوں میں اسرائیل کو چھٹی کا دودھ یاد دلا ہی دیا تھا۔ شروع میں تو اسرائیل کی سرکشی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ یہی کہہ رہا تھا کہ جب تک ایران کی ایٹمی صلاحیت تباہ نہیں ہو جاتی اور ایران میں رجیم چینج نہیں ہو جاتا تب تک وہ اپنے حملے جاری رکھے گا۔ پوری اسرائیلی سوسائٹی بھی نتن یاہو کے پیچھے کھڑی رہی۔ اصل میں برسوں سے اسرائیلی حکومت اور مغربی میڈیا اپنے لوگوں کا برین واشنگ کرتے رہے ہیں اور ایران کو ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھتے آرہے ہیں، اس لیے جنگ باز نتن یاہو کے پیچھے سارا اسرائیل اور سارا مغرب کھڑا ہو گیا ہے اور اس کو الٹا ’’مظلوم‘‘ ثابت کیا جانے لگا جو ایک چھوٹی سی ریاست ہے اور جس کو اپنے پہلے ہی دن سے تمام ہمسایوں سے وجود کے خطرات لاحق ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے کہ کسی بستی میں ایک چور و بدمعاش بیچ میں آکر بیٹھ جائے، کسی کی بہن بیٹی پر ہاتھ ڈالے، کسی تاجر کو مار دے، کسی کی دکان لوٹ لے، اور سب کو خوف زدہ کر کے رکھے۔ جب ہم سایے اس کے خلاف آواز اٹھائیں تو وہ شور مچائے کہ سب میرے خلاف کیوں بولتے ہیں! اسرائیل نے غزہ میں پچپن ہزار بے قصور بے دردی سے مار دیے جن میں پندرہ ہزار بچے تھے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، جب ایران کی جوابی کارروائی میں چوبیس اسرائیلی مر گئے تو ان کا ماتم سارے مغربی میڈیا پر ہونے لگا۔ وہ شقی اسرائیلی صدر جو بے شرمی سے غزہ میں اپنی حکومت کی جارحیت کو جواز دیتا آیا ہے اب ایکس (سابق ٹویٹر) پر پوسٹ لکھنے لگا کہ ایران اسرائیلی شہریوں کو نشانہ کیوں بنا رہا ہے! آپ کریں تو جائز دوسرے کریں تو جرم!
مغربی اور انڈین میڈیا کی مسلمان دشمنی ان کے بول بول سے چھلکی پڑتی تھی ان کے اینکر اور فوجی جرنیل اور تجزیہ کار اور رپورٹر سب کے سب ننگے ہو کر جارحانہ زبان بول رہے تھے۔ وہ ایرانی قیادت کو حقارت سے ملاؤں، آیت اللاؤوں اور مذہبی انتہا پسندوں کی حکومت کہتے ہیں، خود ہندتوا حکومت کی بے شرمی سے جگالی کر رہے ہیں۔ سب اس وقت رجیم چینج رجیم چینج کی آوازیں لگا رہے تھے اور اپنے بے خبر عوام کی برین واشنگ کر رہے تھے۔ ایرانی سفارت خانہ کو کم سے کم ہند میں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ ایران کے ایک تجزیہ کار پروفیسر سید محمد مراندی جو مغربی میڈیا پر اکثر آتے ہیں نے اسکائی نیوز کی ایک خاتون رپورٹر کی بروقت بہترین کلاس لی جس پر وہ شرم سے پانی پانی ہو گئی۔ اسی طرح انہوں نے مشہور برطانوی براڈکاسٹر پیرمورگن کو بھی لتاڑا۔ مورگن بھی مغربی میڈیا کے تعصب اور عقل دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مسلم امہ اور عرب ممالک کی سیاسی بے توقیری اتنی جگ ظاہر ہے کہ عین اُس دن جب استنبول میں او آئی سی کا اجلاس ہو رہا تھا اور قاہرہ میں عرب لیگ کا اور دونوں نے کھل کر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی مگر امریکہ کسی کو خاطر میں نہیں لایا اور اُسی دن اُس نے رات میں ایران کے فردو وغیرہ نیوکلیر سائٹس پر اپنے بی ٹو جہازوں سے بنکر بسٹر بم گرا دیے۔
مسلم ممالک کی بے حیثیتی کے مقابلہ میں صہیونی دہشت گرد نتن یاہو کی جرأت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اُس نے ایران پر حملہ کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ ہم ایران کے ایٹمی خطرہ سے اسرائیل کو بلکہ عرب ممالک کو بچانے اور مغربی تہذیب کو بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں! اور تو اور امریکن اور اسرائیلی قیادتیں میڈیا کے ذریعہ دونوں ایرانی عوام کو ابھاررتی رہیں کہ وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
امریکہ کا موجودہ صدر اتنا بڑا شاطر، گھاگ اور مکار سیاست داں ہے کہ اسرائیلی حملہ کے بعد خوشی سے اس کی باچھیں کھل اٹھیں اور اس نے ایران کو مزید دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ
’’اس حملہ میں امریکہ شامل نہیں ہوا لیکن ہمارے دوست ملک نے بہت کامیابی حاصل کی ہے اور ہم نے ایران کو پہلے ہی خبردار کیا تھا۔ اب بھی وقت ہے ایران اپنا نیوکلیر پروگرام ختم کرنے کے لیے ہمارے ساتھ مذاکرات کرے ورنہ اور زیادہ خوفناک حملوں کے لیے تیار ہو جائے جس کے بعد ایران نام کی کوئی ایمپائر باقی نہیں بچے گی‘‘۔
لیکن جب ایران نے اپنے دانت دکھا دیے اور اپنی جوابی کاررائیوں سے اسرائیل کو دہلا دیا، نفسیاتی مریض اسرائیلی شہری، جن کو صرف فلسطینیوں کو مارنے میں مزہ ملتا ہے جب انہیں بنکروں میں راتیں گذارنی پڑیں تو اب یہی ٹرمپ صاحب پھر سے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کرنے اور جنگ بندی کرانے کے لیے اشارے دینے لگے۔ جس پر ایران ابھی رضامند نہیں تھا کہ پہلے اسرائیل اپنی جارحیت ختم کرے تو وہ بھی اسرائیل پر حملے بند کر دے گا۔
مغربی میڈیا میں ایک بات تواتر سے کہی جا رہی تھی کہ ایران نے اسرائیل کو شدید جواب سہی دیا ہو مگر وہ یہ جنگ sustain کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، وہ ایک مہینہ میں پچاس سے زیادہ بیلسٹک میزائل نہیں بنا سکتا۔ اس کا ائراسپیس اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔ اس کی معاشی حالت پتلی ہے اور اس کو زبانی دعووں و بیانوں کے علاوہ مادی مدد شاید ہی کہیں سے ملے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک میں حکومت کے خلاف جو ایک ناراضگی ہے اس کی ایک وجہ چار دہائیوں سے ایران پر لگی معاشی پابندیاں ہیں جن کی وجہ سے معیشت بہت مشکل حالات میں ہے۔ ایک انڈین روپے کے اس وقت ہزار سے زیادہ تومان (ایرانی روپیہ) ملتے ہیں جبکہ آج سے بیس سال پہلے ایسا نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ معاشی پابندیوں کے لیے موجود نظام ذمہ دار نہیں بلکہ ظالمانہ عالمی سیاسی اور معاشی ورلڈ آرڈر ذمہ دار ہے جس کی قیادت اس وقت ٹرمپ کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ مگر عملاً دنیا نے دیکھا کہ ایران سارے ناسازگار حالات سے حوصلہ سے نبرد آزما ہوا۔
کناڈا میں ہوئے جی سیون کے اجلاس (منعقدہ پندرہ سولہ جون 2025) میں صحافیوں کے سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے پھر یہ تبصرہ کیا کہ ’’ایران یہ جنگ نہیں جیت رہا ہے اور اسے مذاکرات کی میز پر آجانا چاہیے‘‘۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ امریکی کانگریس میں ٹرمپ پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ عملاً مداخلت کریں اور اسرائیل کے ساتھ جنگ میں پورے طور پر شامل ہو جائیں اگر ایسا ہو گیا ہوتا تو پھر مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کا صہیونی و امریکی خواب پورا ہو جائے گا۔ یہی ایران اور عرب دنیا کا امتحان ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے یہی وقت اسرائیل پر حملہ کے لیے کیوں منتخب کیا؟ تجزیہ نگار اتل انیجہ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ
’’اسرائیل کی بہت پہلے سے کوشش تھی کہ مزاحمت کا جو محو رہے اس کو ختم کر دیا جائے، سات اکتوبر کے بعد اس کو موقع مل گیا اور اس نے ایک ایک کر کے حزب اللہ، حماس کو ختم کر دیا، شام سے اسد کا خاتمہ ہو گیا، حوثیوں کو بہت حد تک نیوٹرلائز کر دیا گیا۔ اب اس کو لگا کہ ایران بہت کمزور ہو گیا ہے اور اب مزاحمت کے محور کی جڑ یعنی ایران کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے بھی ہری جھنڈی دکھا دی اس لیے اُس نے تیاری تو کئی مہینے سے کر رکھی تھی اس وقت کو مناسب موقع جان کر ایران پر حملہ کر دیا جبکہ اس کو یقین ہے کہ آڑے وقت میں امریکہ اس کے بچانے کے لیے آجائے گا‘‘۔
چنانچہ وہ آیا اور جلد ہی آگیا جب اُسے اندازہ ہو گیا کہ اب ایران بھاری پڑنے لگا ہے۔ مغربی اور انڈین میڈیا پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ ایران میں 60 فیصد عوام اپنی حکومت سے ناخوش ہیں اور اسی لیے اتنی بڑی تعداد میں اندرونی غدار موجود ہیں اور اگر وہاں رجیم چینج کیا جائے تو یہ جائز ہو گا، لوگوں کو ایک کرپٹ اور ظالم نظام سے چھٹکارا ملے گا۔
بے شک ایران میں مذہبی جمہوریت ہے، حکومت آہنی ہاتھوں سے انتظام چلا رہی ہے جس سے اکثر عوام کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں، مگر اظہارِ رائے کی آزادی میں ایران کا رکارڈ خلیج کی دوسری ریاستوں سے یقیناً بہتر ہے۔ وہاں خواتین پر زیادہ پابندیاں ہیں، حجاب اور لباس کو لے کر مذہبی حکومت زیادہ حساس ہے۔ مگر ایران سے بھاگ کر باہر گئے ہوئے ملحدین یا ایکس مسلمز مغرب میں بیٹھ کر مغربی پیسہ سے پلتے اور ایران کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ کیمونسٹ دہشت گرد تنظیم مجاہدین خلق بہت پہلے سے سرگرم ہے اور موساد کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ شاہ پرست بھی ہیں جو قدیم شاہی نظام واپس لانا چاہتے ہیں۔ وہاں اقلیتی گروپوں (سنی، مسیحی اور یہودی) کو موجودہ نظام سے شکایتیں ہیں، اور کس حکومت سے شکایتیں نہیں ہوتیں، ہمیں بھی ہیں۔
راقمِ سطور نے 2010 میں ایران کا سفر کیا تھا جو نو دنوں پر مشتمل تھا اور چار شہروں میں جانا ہوا۔ اس دوران سنیوں کا وجود کہیں محسوس نہیں ہوا، تہران میں جہاں ان کی خاصی آبادی ہے ان کی کوئی مسجد تک نہیں؟ واپسی میں راقم نے سفرنامہ لکھا جو انڈیا کے اخبارات و جرائد میں چھپا۔ اس میں جہاں موجودہ حکومت کی خوبیاں بتائی تھیں وہیں کچھ مقاماتِ آہ و فغاں بھی تھے۔ ماہنامہ افکارِ ملّی میں جب یہ سفرنامہ چھپا تو اس کے جواب میں شیعانِ ہندکے مؤقر عالم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر مولانا سید کلبِ ِصادق صاحبؒ کا جواب بھی آیا، جو اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ بعض باتوں کی انہوں نے توضیح کر دی اور بعض باتوں سے راقم کو اتفاق نہیں ہوا۔ بہرحال یہ تو تمام ملکوں میں عام رویہ ہے۔ کیا آج ملینوں امریکن ٹرمپ کے خلاف مظاہرے نہیں کر رہے؟ کیا اسرائیل میں سات اکتوبر 2023 سے بہت بڑے پیمانے پر نتن یاہو کے خلاف مظاہرے نہیں ہو رہے تھے؟ کیا انڈیا میں مودی کے خلاف لوگ سڑکوں پر نہیں نکلتے؟ کیا اِس کو بہانہ بنا کر وہاں رجیم چینج کا نعرہ لگایا جاسکتا ہے؟ مغربی یا انڈین میڈیا اس کی تائید کرے گا؟
البتہ ایک چیز اور ہے جس سے عام پبلک میں غم و غصہ ہے، وہ یہ ہے کہ مذہبی کلاس وہاں کی Privileged کلاس ہے۔ علماء کرام کے ایک خاص طبقہ کے پاس اتنی معاشی دولت اور جاگیریں ہیں کہ ایک ایک عالم یونیورسٹیاں کالج اور بڑی بڑی لائبریریاں چلاتا ہے۔ برعکس اس کے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے، اس کی زندگی مشکل سے کٹتی ہے، اس لیے وہ پہلی فرصت میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہے۔ یہ وہ خلا ہیں جن کو بھرنے کے لیے حکومت کو زبردست جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہ مشکلات تو ہیں لیکن ایسی نہیں کہ وہاں رجیم چینج کے نعرے لگائے جائیں۔
ابھی ایران کے پاس آبنائے ہرمز کا کارڈ بھی ہے جس کو ہمارا خیال ہے کہ وہ آخر میں کھیلے گا، اگرچہ پارلیمنٹ نے اس آبنائے کو بند کرنے کا بل منظور کر لیا ہے مگر عملاً اس کا معاشی اثر چین اور گلوبل ساؤتھ کی تجارت پر پڑے گا، خود ایران بھی متاثر ہو گا۔ اسی طرح اس کے پاس ایک کارڈ این پی ٹی Treaty on the Non-proliferation of Nuclear Weapons سے نکل جانے کا بھی ہے کیونکہ آج تک اس کو اس متعصب ادارے کا ممبر بنے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اس پر دستخط ہی نہیں کیے اور اسی طرح امریکہ بہادر بھی اس سے باہر ہے۔ لہٰذا جس ادارہ سے کوئی فائدہ نہ ہو اس کا ممبر بنے رہنے کا کیا جواز ہے؟ یاد رہے کہ اس ادارے کے سربراہ نے اسرائیلی جارحیت کو کنڈم تک نہیں کیا اور یہی حال یو این کا ہے، جس نے اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایران سفارتی محاذ پر بھی مضبوط واقع نہیں ہوا۔
یہاں ہمیں اس طرف بھی اشارہ کرنا ہے کہ بعض سلفی مشائخ ایسے بحرانی وقتوں میں اپنی فرقہ وارانہ سوچ اور فساد انگیز ذہنیت سے باز نہیں آرہے ہیں چنانچہ یوٹیوب پر ایسی ویڈو ڈالی جا رہی ہیں کہ یہ جنگ بنی صہیون اور بنی صفیون کی جنگ ہے، مسلمانوں کو اس میں نیوٹرل رہنا چاہیے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ایران نے اپنے خمینی انقلاب کے بعد اہلِ سنت کو بہت تنگ کیا ہے۔ شام میں مدتوں تک اُس نے ایک انتہائی ظالم و جابر نظام کی مدد کی اور اس کو سہارا دیے رکھا۔ سعودی عرب، بحرین اور کویت وغیرہ میں اپنا انقلاب ایکسپورٹ کرنے کی کوشش کی۔ اور خمینی کے ابتدائی نعروں: ’’لا سنیہ لا شیعیہ اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کی لاج نہیں رکھی۔ تاہم اِن عقل کے ماروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جنگ صرف ایران کی نہیں ہے۔ ایران اسرائیل اور مغرب کے سامراجی منصوبوں کے سامنے ایک واحد آخری چٹان بچی ہے۔ اگر یہ ختم ہو گئی تو کل کو مصر کا نمبر آئے گا اور اس کے بعد اسرائیل ایک کے بعد ایک مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک کو گریٹر اسرائیل بنانے کے لیے ہڑپ کر جائے گا۔ ان کو سوچنا چاہیے کہ خطہ میں عراق تو سیکولر تھا، لیبیا تو سیکولر تھا بلکہ کفار سے کہیں زیادہ اسلام پسندوں کے لیے ان دونوں نے زمین تنگ کی ہوئی تھی، تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ کرنل معمر قذافی نے کس طرح وہاں شاہ ادریس کا تختہ پلٹ کر مشہور زمانہ صوفی سنوسی سلسلہ کا منصوبہ بند خاتمہ کر دیا تھا۔ مگر پھر بھی ان دونوں ملکوں کو پورے مغرب نے مل کر برباد کر دیا کیوں کہ ان کی فوجی قوت کسی مرحلہ میں اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتی تھی۔ اس لیے خلیج کے عرب ممالک کو اس وقت بڑے تدبر سے کام لے کر ایران کا ساتھ دینا ہے اور اسرائیلی جارحیت کے آگے پل باندھنا ہے۔ یہ ان کے لیے مہلت کی آخری گھڑی ہے۔
جنگ کے چھٹے دن ایران نے مزید تیز حملے اسرائیل پر کیے اور بڑی تباہی مچائی۔ یہی وہ فیصلہ کن لمحہ تھا جب امریکی صدر نے بالآخر جنگ میں اسرائیل کے ساتھ باضابطہ اترنے کا فیصلہ کر لیا۔ امریکی ماہر سیاسیات پروفیسر جیفری ساکش کہتے ہیں:
’’امریکہ کی خارجہ پالیسی صہیونی لابی طے کرتی ہے، اس لابی کے پریشر میں ٹرمپ آچکے ہیں اور وہ اب دنیا میں مزید جنگیں نہ چھیڑنے کے جس وعدہ کو لے کر اقتدار میں آئے تھے اس کو پس پشت ڈال دیا ہے کیونکہ ووٹروں کے پاس کوئی پریشر طاقت نہیں ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’امریکہ کا جنگ میں کودنا نہ صرف خطہ کے لیے بلکہ پورے شرقِ اوسط اور پوری دنیا کے لیے انتہائی سخت اور تباہ کن مضمرات کا حامل ہو گا‘‘۔
اگرچہ اوول آفس کے سچویشن روم میں تمام ارکان دو بڑے دھڑوں میں تقسیم تھے اور سینیٹر برنی سینڈر وغیرہ نے بہت کھل کر امریکہ کے جنگ میں جانے کی مخالفت کی۔ مگر ٹرمپ نے صیہونی لابی کو خوش کرنے کے لیے بالآخر اپنی کانگریس اور اپنے انٹیلی جنس ادارہ تک کو بائی پاس کر کے جنگ میں کودنے کا فیصلہ کر ڈالا۔ ایسے میں ایران کے پاس دو ہی آپشن بچے تھے:
- ایران میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ٹرمپ سے مذاکرات کے لیے فوری طور پر تیار ہو جائیں۔ بظاہر ٹرمپ نے بھی یہ آپشن کھلا رکھا اور ایران نے بھی آمادگی ظاہر کی تھی لیکن مذاکرات کے لیے ایران کی شرط تھی کہ اسرائیل فوراً اپنے حملے بند کرے۔
- اگر مذاکرات کا آپشن کام نہیں کرتا تو ایرانیوں کو طالبان کی طرح جنگ کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے طویل جنگ کے لیے اپنے لیے تیار ہونا تھا کہ بہتر اسٹریٹیجی بنائیں، روس اور چین سے فوری طور پر مدد مانگیں اور پاکستان و سعودی عرب وغیرہ دوسرے اسلامی ملکوں سے رابطے اور تیز کر دیں اور بڑی قربانیوں کے لیے ابھی سے تیار ہو جائیں، مڈل ایسٹ کا نقشہ اپنے نوکِ خون سے لکھنے کی بنانے کی کوشش کریں۔ ایران نے یہی آپشن اپنایا کیونکہ ٹرمپ مذاکرات کے لیے بھی باعزت راستہ نہیں دے رہا تھا بلکہ ایران کو ذلیل کر رہا تھا۔
- ایک پہلو اور ہے، وہ یہ کہ جنگ میں عام لوگ تو مارے جاتے ہیں مگر جو بزنس کرنے والے ہیں ان کی چاندی ہوتی ہے۔ اور ٹرمپ تو پکا بزنس مین ہے، وہ اس موقع کو کیوں گنواتا جو اُس کو اس کے پالتو اسرائیل نے فراہم کیا تھا۔ اگرچہ سفارت کاری کے ذریعہ مسئلہ حل کر لیے جانے کی توقع ٹرمپ نے دلائی اور پندرہ دن کا وقت دیا لیکن اپنے اِس بیان کے دوسرے دن ہی دھوکہ سے رات میں ایران کے نتانز، فردو اور اصفہان کے مراکز پر بی ٹو سے چودہ بنکر بسٹر بم گرا دیے اور ایران کے نیوکلیر پروگرام کو پوری طرح برباد کر دینے کا دعویٰ کیا۔ اگرچہ ایران اس کی تردید کر رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس نے حملہ سے پہلے ہی اپنی یورینیم انرِچڈ اثاثوں کو دوسرے خفیہ مقامات پر منتقل کر لیا تھا اور اس کی ایٹمی صلاحیت محفوظ ہے، لیکن آزاد ذرایع اور ماہرین اس دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ افزودہ شدہ یورینیم اثاثوں کو دوسری جگہ منتقل کر لینا اتنا آسان نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اس نے اس سائٹ پر کام کرنے والے سائنسی عملہ کو یقیناً بچا لیا ہو گا۔
اُس کے چند دن بعد ایران نے خلیج عرب میں امریکہ کے سب سے بڑی فوجی اڈے، قطر کے العدید پر نمائشی اور فیس سیونگ حملہ کیا جس کی خبر امریکہ اور قطر دونوں کو پیشگی دے دی گئی تھی جس کی وجہ سے وہاں کوئی نقصان نہیں ہوا۔ البتہ دنیا بھر میں توقع یہ تھی کہ اب امریکہ فل فورس کے ساتھ ایران پر حملہ آور ہو گا اور اپنی آرمی کو وہاں اتارے گا اور تختہ پلٹ کرنے کی کوشش کرے گا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ چوبیس جون کو ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل دونوں جنگ بندی کے لیے راضی ہو گئے ہیں۔ اس طرح بارہ دن چلنے والی یہ تباہ کن جنگ فی الحال رک گئی ہے۔ لیکن اِس میں تینوں پارٹیوں کو نقصانات پہنچے ہیں۔ امریکہ کی ساکھ ساری دنیا میں متاثر ہوئی ہے اور خاص کر اب کوئی بھی ملک ٹرمپ پر بھروسہ نہیں کرے گا کیونکہ اس نے اس جنگ کے دوران صاف صاف جھوٹ بولے، دھمکیاں دیں اور ایک آزاد ملک کی سالمیت پر حملہ کیا جس کو امریکہ کے بعض مغربی حلیفوں نے بھی قبول نہیں کیا۔
اس جنگ میں بظاہر بڑا نقصان ایران کا ہوا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے دعووں کے مطابق اس کا ایٹمی پروگرام بالکل تباہ ہو گیا ہے۔ اگر اس دعوے کو خارج بھی کر دیا جائے تو اتنا تو ضرور ہوا ہے کہ ایران اپنے اس پروگرام میں کم از کم ایک دہائی پیچھے ضرور چلا گیا ہے۔ اس کے بہت سے سائنس داں اور فوجی قائدین مارے گئے ہیں۔ اس کی اندرونی کمزوریاں، ائرڈفینس کی قابلِ رحم حالت دنیا کے سامنے آئی ہے۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اس نے حوصلہ نہیں کھویا، امریکہ اور اسرائیلی جارحیت کا کھل کر اور بہادری سے سامنا کیا اور دنیا میں اپنی ایک ساکھ قائم کی اور صہیونی دشمن کو شدید نقصانات پہنچائے، جو اُس نے خواب و خیال میں بھی نہیں سوچے ہوں گے۔
اسرائیل کو بظاہر یہ فائدہ ہوا کہ ایران کا نیوکلیر پروگرام اس نے امریکہ کے ذریعہ ختم کروا دیا مگر زمین پر ایران نے اس کو قرار واقعی سزا دے دی ہے۔ اور اگر یہ جنگ چند دن اور جاری رہتی تو مزید نقصانات اس کو اٹھانے پڑتے۔ اُس کو بیک فٹ پر جاتے دیکھ کر ہی غالباً جلدی سے ٹرمپ نے یہ فیصلہ لیا اور سیزفائر کروا دی۔
ہمارے خیال میں ایران کو ایٹمی پروگرام کے لیے پاکستان سے سبق لینا چاہیے تھے۔ پاکستان نے بھی شدید دباؤ کا سامنا کیا تھا مگر اُس نے دنیا میں شور نہیں مچایا اور استقامت، مہارت سے اپنا پروگرام جاری رکھا اور اسمارٹ ثابت ہوا، جبکہ ایران کا ایٹمی پروگرام آج کا نہیں شاہ کے زمانہ کا ہے، مگر انقلاب کے بعد بڑپولے پن نے اُس کو مغرب کا نشانہ بنا دیا اور اتنی تاخیر ہوتی چلی گئی، اور اب تو اس کا کامیاب ہو جانا بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے۔ تاہم اِس شیر سے یہ خیر برآمد ہوا ہے کہ اسرائیل کو زبردست مار پڑی ہے جس کی اُسے شدید ضرورت تھی اور امید کی جا سکتی ہے کہ اِس کے نتیجہ کے طور پر شیطانِ کوچک بنجمن نتن یاہو کو زوال ہوگا۔
معروف مصری مفکر اور مصنف فہمی ہویدی نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا:
’’بظاہر شرقِ اوسط کو بدلنے کا ایک باب اسرائیل نے کامیابی سے لکھ لیا ہے لیکن ابھی پوری کتاب باقی ہے اور آخری تجزیہ میں اسرائیل کو فتح نہیں ہو سکتی ہے‘‘۔