سنی شیعہ تقسیم اور اسرائیل ایران تصادم

(یوٹیوب چینل Professor Dr Javed Iqbal پر ۱۶ جون ۲۰۲۵ء کو نشر ہونے والی ایک گفتگو کی تسہیل)


السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آج چھوٹا منہ اور بڑی بات، جو بات میں کرنے لگا ہوں اسے کرنے سے پہلے میں نے اللہ سے دعا کی اور اس سلسلے میں بیٹھ کر میں نے بہت مراقبہ کیا، بہت زیادہ سوچا۔ مجھے اس بات کا بھی اندیشہ تھا کہ ہمارے علماء پتہ نہیں اس بات کو کیسے لیتے ہیں، اور دوسری بات یہ کہ ہماری سیاسی حکومتیں اس بات کو کتنی اہمیت دیتی ہیں، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے یہ جو بات آپ سے کرنی ہے، یہ اس کے کرنے کا وقت ہے اور اس کو کرنا بہت ضروری ہے۔ دوبارہ میں کہوں گا کہ یہ چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے۔

دیکھیے، اللہ تعالیٰ نے ہر مصیبت اور چیلنج میں کوئی نہ کوئی خیر رکھی ہوتی ہے۔ ابھی دنیا میں یہ جتنا فساد مچا ہوا ہے اور ایران اور اسرائیل کی جو جنگ ہو رہی ہے، اس سے پہلے مسلمان ملکوں کے جیسے ٹکڑے کیے گئے ہیں، ان کے بلاک بنائے گئے ہیں، آپ نے دیکھا کہ عراق کے ساتھ کیا ہوا، آپ نے دیکھا لیبیا کے ساتھ کیا ہوا، آپ نے دیکھا کویت پر کیسے حملہ ہوا، پھر سوڈان میں دیکھیں کیا ہو رہا ہے، اور افریقہ کے مسلمان ممالک میں کیا ہو رہا ہے، پھر افغانستان کے اندر کیا ہوا ہے۔

اب یہ ایران اور اسرائیل کی جنگ ہو رہی ہے، تھوڑی دیر پہلے میں نے دیکھا ہے کہ امریکہ نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ براہ راست ایران پر حملہ کرے گا، میرا نہیں خیال کہ امریکہ، جس کا صدر ایک بہت بڑا تاجر ہے، ایک سوداگر ہے، بزنس مین ہے، وہ جذباتی لحاظ سے فیصلہ کرے گا کہ ’’اوئے، تم نے ہمارے دوست پہ حملہ کیا، ہم تم پر حملہ کریں گے‘‘۔ وہ میرا نہیں خیال کہ اس طرح کی بات ہو گی، اگر وہ حملہ کرے گا تو وہ روس اور چائنہ کو اعتماد میں لے کر کرے گا۔ اور اس میں ان کا باہمی اتفاق کیا ہو گا، اس کا بھی ہمیں اندازہ ہے۔ 

بہرحال ایسی صورت میں جو کچھ بھی ہونے جا رہا ہے، ہم اس میں سے اچھائی کیا نکالیں؟ ہمارے لیے اچھائی یہ نکلتی ہے کہ خدا کے لیے یہ جو صدیوں سے شیعہ سنی کی تقسیم ہوئی ہے، ہم کسی طریقے سے اس کو بھول کر ایک مسلمان بن سکیں۔ اگر آپ غور کریں:

  • میں نے پچھلے دنوں ایک کتاب پڑھی جس کا نام تھا After the Prophet جو کہ لیزلی ہیزلٹن (Lesley Hazleton) کی لکھی ہوئی کتاب ہے جو ایک خاتون یہودی تاریخ دان ہے اور امریکہ کی کسی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے۔ آپ یقین کریں کہ شیعہ سنی کا جتنا تصور لیزلی ہیزلٹن کا واضح تھا اور جس طریقے سے اس کا اثر و نفوذ اس نے بیان کیا ہے، وہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ 
  • اسی طرح میں نے ایک تفصیلی انٹرویو ہیلری کلنٹن کا سنا تو اس کو پتہ تھا کہ شیعہ کہاں سے وجود میں آئے، سنی کیسے بنے، اور یہ کہ شیعوں میں فاطمی کون تھے اور اسماعیلی کیا ہوتے ہیں، اور اس طریقے سے سنیوں میں سلفی کیا ہوتے ہیں، اہل حدیث کیا ہوتے ہیں، پھر ہندوستان کے اندر دو مدرسے کیسے جدا ہوئے۔ پھر ان کے بقول، ہمارے نزدیک تو ایسا نہیں ہے، کہ مسلمانوں کا ایک فرقہ مرزائیت کیسے بنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ ماننے کی وجہ سے ہم تو ظاہر ہے ان کو مسلمان نہیں سمجھتے۔

میرے پیارے دوستو! یہ دنیا کے سارے لوگ اپنی طاقت اپنی تجارت اپنی حکومت اپنے تسلط کے لیے لوگوں کی کمزوریاں ڈھونڈتے ہیں اور ان کی بنیاد انہیں تقسیم کرتے ہیں۔ آپ میسولینی کی کتابیں پڑھ لیں، یا اس طرح اور لوگوں کی پڑھ لیں، حتٰی کہ آپ ابن خلدون کی ساری تاریخ پڑھ لیں، جتنی بھی دنیا کے اندر بڑی حکومتیں آئیں، انہوں نے ہمیشہ لوگوں کو تقسیم کیا اور ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کو بکھیر دیا، انہیں عروج حاصل نہیں کرنے دیا۔ اب مسلمانوں کی جتنی قوتیں ہیں وہ ساری اس طرح سے منقسم کر دی گئی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی نفی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو غیر مؤثر کرتے جا رہے ہیں۔ 

یہ وہ وقت آگیا ہے کہ خدا کے لیے ہماری نئی نسل ٹک ٹاک جیسی فضولیات اور اس طرح کی سطحی قسم کی معلومات کو علم سمجھتے ہوئے اس پر اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے کتابوں کی طرف آئے۔ اور خدا کے لیے قرآن پاک کو عربی زبان میں اصل مفہوم کے ساتھ پڑھیں، سیرت النبیؐ اور اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں۔ اس کے علاوہ تقابلی فلاسفہ اور عصری فلاسفہ جو دنیا میں چل رہے ہیں، اور پازیٹوزم (مشاہداتی سائنس) کیا تھا، پوسٹ پوزیٹو ازم کیا تھا (مشاہداتی سائنس تنقیدی نقطۂ نظر سے)، اس کے بعد یہ کلونیئلزم (جغرافیائی نوآبادیات) کیا تھا، نیو کلونیئلزم (سیاسی و اقتصادی اثر و رسوخ کے ذریعے کنٹرول) کیا ہے۔ یہ سب چیزیں وہ ہیں جن کی تاریخ دنیا میں ایک ترتیب سے چلی ہے، اس ہسٹری کو خدا کے لیے ہمارے نوجوان پڑھیں۔ اور آج کل تو بہت آسان ہو گیا ہے، آڈیو کتابیں اور اس طرح کی اور چیزیں دستیاب ہیں۔ 

اور خدا کے لیے اپنے آپ کو اس تعصب سے بچائیں جو ہم سب کے اندر بنا بنایا ڈال دیا جاتا ہے۔ شیعہ کے بچے کو نہیں پتہ کہ سنی کیوں غلط ہیں، اور سنیوں کے بچوں کو یہ نہیں پتہ کہ شیعہ کیوں غلط ہیں اور کس جگہ پر غلط ہے۔ اور دوسرا میں ہاتھ جوڑ کر اپنے علماء کرام سے گزارش کرتا ہوں کہ خدا کے لیے اب مدرسوں میں، سکولوں میں، گھروں میں، ہم توڑنے والی گفتگو کو ختم کریں۔ ہر وہ شخص جو خدا کو وحدہٗ لاشریک مانتا ہے اور اپنا مالک خالق رازق مانتا ہے، ہر وہ شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہے، اور آپؐ کے لائے ہوئے اسوہ کو زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ سمجھتا ہے، اور ہر وہ شخص جو موت کے بعد کی زندگی میں اللہ کے سامنے پیش ہونے کو مانتا ہے، اس کے بعد باقی سب (فروعی) باتیں ہیں کہ کوئی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے، کوئی ہاتھ کھول کر نماز پڑھتا ہے، التحیات میں انگلی کیسے اٹھاتا ہے، وغیرہ۔ 

اچھا، اس کے علاوہ ایک بات اور میں بلا جھجھک کروں گا کہ آج سے بارہ تیرہ سو سال پہلے جو ہمارے بزرگوں میں اختلافات پیدا ہوئے تھے اور پھر خونریز جنگیں بھی ہوئیں اور اس کے بعد بہت ہی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہوئی، میں بہت ہی عاجزی کے ساتھ ایک بار پھر چھوٹا منہ بڑی بات کہتے ہوئے عرض کروں گا کہ کیا ضروری ہے کہ اس کے بارہ سو سال کے بعد آنے والے لوگوں سے اس بات پر لڑائی کی جائے، اس معاملے کو اللہ تعالیٰ اپنے انصاف اور حکمت کے تحت خود دیکھ لیں گے، ہم مہربانی کر کے جس چیز کو جیسا سمجھتے ہیں اپنے دل میں سمجھتے رہیں، مگر اس کے بارہ سو سال بعد پیروکاروں کے درمیان لڑائیوں کی کیا تُک بنتی ہے جس کی وجہ سے ہم تقسیم ہوئے ہیں اور پھر دنیا کے بلاک بن گئے ہیں۔ 

یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ وہ لوگ جو ہم سے لڑتے ہیں، ان سب کو پتہ ہے کہ کربلا کی جنگ کو دوبارہ سے زندہ کر کے ہم نے ان مسلمانوں کو آپس میں لڑانا ہے اور ان کے ٹکڑے کرنے ہیں۔ کربلا کی جنگ تو ہر مسلمان کے اندر موجود ہے، حق اور باطل کی جنگ ہمیشہ سے ہے، ہمارے اندر حسینؓ ہے اور ہمارے اندر یزید ہے۔ حسین اور یزید تو حق اور باطل کے استعارے ہیں۔ ہم اپنے حسین کی مدد کریں، اپنے حسین کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اور باقی اُن کے جو بزرگ تھے، صحابہ کرامؓ تھے، ان کے درمیان اگر کوئی اختلاف تھا تو اب ہم مسلمان اس کی بنیاد پر آپس میں نہ لڑیں۔

میں ایک بار پھر آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر یہ کہہ رہا ہوں، مجھے اپنی حیثیت کا پتہ ہے، نہ میں کوئی مذہبی عالم ہوں نہ کچھ اور، لیکن میں ایک طالب علم ہوں اور کتابیں پڑھتا رہتا ہوں، بزرگوں کی محفل میں ان کی خدمت میں بیٹھتا ہوں، ان کی جوتیاں سیدھی کرتا ہوں، انہیں وضو کراتا ہوں، میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہ وقت آگیا ہے کہ جب ہمیں دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے سیکھنا ہے، ہمیں اپنے گھروں کے اندر اپنے بچوں کو بتانا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اپنی شناخت اس طرح سے کرانا کہ میں سنی ہوں، میں شیعہ ہوں، میں بریلوی ہوں، میں دیوبندی ہوں، میں اہل حدیث ہوں، ایسی شناخت ہی توڑنے والی ہے، یہ فقرہ ہی توڑ کا فقرہ ہے۔ 

ہم وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو لانے والے مسلمان تھے۔ ہم ویسے مسلمان کیوں نہیں ہیں جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، جیسے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، ہم ویسے مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ کیا وہ شیعہ تھے، سنی تھے، بریلوی تھے، دیوبندی تھے، سلفی تھے، کیا تھے؟ امام ابو حنیفہؒ اور  امام شافعیؒ یہ سب ہمارے بزرگ ہیں، ان کی کتابیں ریفرنس کے طور پر ہمارے پاس موجود ہیں۔ جتنے لوگ دیکھ رہے ہیں، ایمانداری سے بتائیں کہ کتنے لوگوں نے صحیح بخاری کو کبھی ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا ہے؟ کس کس نے مسلم کی احادیث کو دیکھا ہے؟ ہم نے نہ وہ کتابیں دیکھی ہیں نہ پڑھی ہیں، بس لوگوں کی باتیں سن سن کر اپنا ذہن بنا لیتے ہیں۔ اور ہمارے گھروں سے نکلنے والا جو توڑ ہے، جو نفرتیں ہیں، وہ آگے جا کر پھر گروہوں کی شکل اختیار کر جاتی ہیں، اس کی بنیاد پر پورے کے پورے معاشرے بنے، حکومتیں بنیں، سلطنتیں بنیں، اس کی بنیاد پر یہ سب لڑائیاں ہوئی ہیں۔ اور پھر مفاد پرست اس سے اپنا اپنا مفاد اٹھاتے ہیں اور ان چیزوں کو پھر لوگوں نے کیش کیا ہے۔ 

اب 2025ء کا وقت آگیا ہے۔ میں تیسری دفعہ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات، اگر ہم نے ایک شناخت کے طور پر بچنا ہے تو اپنے دل سے اس تفریق کو ختم کرنا ہو گا۔ اس سلسلہ میں علماء کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، حکومتوں کی ذمہ داری ہے، معاشرے کی ذمہ داری ہے، تعلیمی نظام کی ذمہ داری ہے، دانشوروں کی ذمہ داری ہے، اور سب سے بڑھ کر میری اور آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہم بجائے اس کے کہ کسی کا انتظار کریں، جیسے چڑیا کے چھوٹے بچے منہ کھول کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ چڑیا منہ میں دانہ ڈالے گی، یعنی کوئی ہمارے فیصلے کرے گا اور ہم بھیڑوں کی طرح پیچھے پیچھے لگ جائیں گے، اس سے پہلے ہی سوچ سمجھ کر اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کریں۔ اور میں نے یہ بات پہلے بھی عرض کی تھی احمد جاوید صاحب کے حوالے سے کہ اچھا مسلمان وہ ہے جو کسی بھی غیر مسلم کی تعریف کے مطابق اچھا انسان ہے۔ یعنی ایک اچھے مسلمان کے اندر ایک اچھا انسان بھی ہو۔ 

اچھا انسان کیا ہے؟ سچ بولتا ہے، ایماندار ہے، کسی کو تکلیف نہیں دیتا، نہ ہاتھ سے نہ زبان سے، اس کی نیت ٹھیک ہوتی ہے، وہ فرض شناس ہوتا ہے، وہ سب کی مدد کرتا ہے، اور بھی بہت ساری صفات ہوں گی، وہ یہ سب کچھ اس لیے کرتا ہے کہ اس نے یہ وحی کی تعلیمات سے سیکھا ہے اور اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے۔ اور اس نقطۂ نظر سے نہیں کہ ’’ایمانداری سب سے اچھی پالیسی ہے، سچائی سب سے اچھی پالیسی ہے‘‘، یہ تو اس کا لامحالہ فرض ہے کہ یہ تو اس نے کرنا ہی کرنا ہے۔ یعنی اس نے پالیسی کے طور پر اچھا انسان نہیں بننا، اس نے اس لیے اچھا انسان بننا ہے کہ اللہ اور رسول نے اس کو بتایا ہے کہ اچھا انسان بننے کے علاوہ اور کوئی چوائس ہی نہیں ہے ہمارے پاس۔ یہ فرق ہے انسانیت کے لحاظ سے اچھا ہونے میں اور وحی کی تعلیمات کے مطابق اچھا ہونے میں۔ 

بس میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، مجھے کچھ وائرل انفیکشن ہوئی ہے جس کی وجہ سے میں کام نہیں کر پا رہا، اور آج کل میرے دن کا بیشتر حصہ کتابوں میں گزرتا ہے، یا دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں، اس لیے پھر شام کو میرے دماغ کے اندر جو کچھ کھچڑی پک رہی ہوتی ہے وہ میں آپ دوستوں سے شیئر کر رہا ہوتا ہوں۔ جب یہ ویڈیو بند ہو تو تھوڑی دیر کے لیے مہربانی کر کے آپ اپنے دل میں جھانک کر ضرور دیکھیے گا کہ آپ بریلوی ہیں، دیوبندی ہیں، سلفی ہیں، اہل حدیث ہیں، شیعہ ہیں؟

میں اپنی گفتگو میں ہمیشہ سب کو شامل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرے دوست ہندو بھی ہیں، سکھ بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، اور یہودیوں کا مجھے پتہ نہیں، کیونکہ میرا نہیں خیال اردو بولنے والے یہودی زیادہ ہیں، مجھے ایک ملے تھے لاہور میں جو کہ اردو بولتے تھے۔ میں نے یہ جو آج گفتگو کی ہے اس کے مخاطب بنیادی طور پر تو میرے مسلمان بہن بھائی ہیں، لیکن وہ بھی ہیں جو مسلمان نہیں ہیں تاکہ میں ان کو بھی بتا سکوں کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ پورے اسلام سے جو باتیں نکالی جاتی ہیں وہ یہ ہیں کہ مسلمان لوگوں کو مارتے ہیں، یہ دہشت گرد ہیں وغیرہ۔ الحمدللہ میں نے قرآن کو مفہوم کے ساتھ پڑھا ہے۔ آپ اور بھی تو کتابیں پڑھتے ہوں گے، مہربانی کر کے ایک دفعہ قرآن پاک کو مفہوم کے ساتھ پڑھیے، آپ کو اندازہ ہوگا کہ کیا خوبصورت وحی کا پیغام ہے جو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اپنے نبی پر۔ اب لوگوں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اللہ کے نبی نے نو شادیاں کیوں کی ہیں، بحث ہوتی ہے تو بس یہ والی بحث ہوتی ہے، اور اس کے بہت منطقی جواب علماء پہلے ہی دے چکے ہیں، لیکن ان دو تین باتوں کے علاوہ جو Crux of the matter ہے، جو اصل چیزیں ہیں، میں تمام ادیان کا احترام کرتے ہوئے، تمام مقدس کتابوں کا احترام کرتے ہوئے، تمام انسانوں کو قابل عزت سمجھتے ہوئے، اس موقع پر یہ دعوت دیتا ہوں کہ وہ تمام میرے بہن بھائی جو مسلمان نہیں ہیں اور جن کے ذہن کے اندر شاید مسلمانوں کا دہشت گردی والا تصور ہے، حالانکہ یہ کچھ لوگوں کا طرزعمل ہے، آپ جہاد کے تصور کو مہربانی کر کے قرآن سے خود دیکھیں تو آپ کو پتہ لگے گا کہ یہ کیا تصور ہے۔ بس میں یہ کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا تھا۔ 

دل چیر کے نہیں دکھایا جا سکتا، بعض اوقات آپ کے دل کے اندر وہ بات ہوتی ہے لیکن لفظ گونگے ہوتے ہیں، لفظوں کے اندر وہ گنجائش نہیں ہوتی، وہ اہتمام نہیں ہوتا، زبان اور لفظ محدود ہوتے ہیں، اگر ایسا ممکن ہوتا تو میں دل چیر کر آپ کو وہ چیزیں دکھاتا جن کے لیے میں الفاظ منہ سے نہیں نکال سکا۔ ہمارے کہنے سننے میں نیت کا کوئی مسئلہ ہوا ہو تو اللہ اس کو معاف کرے، اور اللہ کرے ہم ان باتوں کو سمجھ کر اس پہ عمل کر سکیں، اور ہماری زندگی میں ہی یہ دنیا جنت کے گہوارہ کی شکل اختیار کر سکے، جس کی یہ صلاحیت رکھتی ہے۔ 

https://youtu.be/siyBA7jR5_c


(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۷

اسلامی نظام اور آج کے دور میں اس کی عملداری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اہلِ کتاب کی بخشش کا مسئلہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

سوشل میڈیائی ’’آدابِ‘‘ اختلاف اور روایتی مراسلت
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

مسئلہ ختم نبوت اور مرزائیت
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ
مولانا حافظ خرم شہزاد

بیوہ خواتین اور معاشرتی ذمہ داریاں
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

پاکستان شریعت کونسل اور الشریعہ اکادمی کے اجتماعات
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
مولانا محمد اسامہ قاسم

Britain`s Long-Standing Role in Palestine`s Transformation into Israel
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۲۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘ (۱)
مولانا ڈاکٹر محمد سعید عاطف
حافظ میاں محمد نعمان

حدیث میں بیان کی گئی علاماتِ قیامت کی تاریخی واقعات سے ہم آہنگی، بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۲)
ڈاکٹر محمد سعد سلیم

’’اسلام اور ارتقا: الغزالی اور جدید ارتقائی نظریات کا جائزہ‘‘ (۵)
ڈاکٹر شعیب احمد ملک
ڈاکٹر ثمینہ کوثر

شاہ ولی اللہؒ اور ان کے صاحبزادگان (۲)
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت علامہ ظہیر احسن شوق نیموی (۴)
مولانا طلحہ نعمت ندوی

ماہانہ بلاگ

مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امیر خان متقی کا اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس ۵۱ سے خطاب
جسارت نیوز
طلوع نیوز

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کے چند اہم پہلو
امتنان احمد

بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور اس کے رکن ممالک
الجزیرہ

سیاحتی علاقوں میں حفاظتی تدابیر اور ایمرجنسی سروسز کی ضرورت
مولانا عبد الرؤف محمدی

’’سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟‘‘
مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی

پاک بھارت کشیدگی میں اطراف کے مسلمانوں کا لائحۂ عمل
مولانا مفتی عبد الرحیم
مفتی عبد المنعم فائز

پاک بھارت حالیہ کشیدگی: بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ایران کے رہبرِمعظم اور پاکستان میں ایرانی سفیر کے پیغامات
سید علی خامنہ ای
رضا امیری مقدم

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملے: دینی قائدین کے بیانات
میڈیا

سنی شیعہ تقسیم اور اسرائیل ایران تصادم
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال

امریکہ اسرائیل کی سپورٹ کیوں کرتا ہے اور ایران کتنا بڑا خطرہ ہے؟
نوم چومسکی

اسرائیل ایران جنگ: تاریخی حقائق اور آئندہ خدشات کے تناظر میں
حامد میر

اسرائیل کا ایران پر حملہ اور پاکستان کے لیے ممکنہ خطرہ
خورشید محمود قصوری
علی طارق

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کا حملہ اور خطہ پر اس کے ممکنہ عواقب
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ایران کی دفاعی جنگی حکمتِ عملی
سید محمد علی
سید طلعت حسین

اسرائیل کے حملے، ایران کا جواب، امریکہ کی دھمکیاں
پونیا پرسون واجپائی

’’بارہ روزہ جنگ‘‘ میں اسرائیل اور ایران کے نقصانات
ادارہ

اسرائیل ایران کشیدگی کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

مطبوعات

شماریات

Flag Counter