طلعت حسین: ہم ذرا آپ سے دو تین چیزیں جاننا چاہیں گے۔ ایک تو میں دکھاؤں کہ جو نیا میزائل لانچ کیا گیا ہے ایران کی طرف سے، اس کی پروموشن انہوں نے بہت کی اور بتایا کہ یہ ٹھوس ایندھن کے اوپر چلتا ہے اور اس کی درستگی زیادہ ہے اور ساری اس کی خصوصیات انہوں نے بتائیں۔ میں چاہوں گا کہ آپ اس میزائل سسٹم کی وضاحت کریں، لیکن جلدی سے اگر آپ یہ بتا پائیں کہ یہ جو میزائل داغ رہے ہیں، یہ کس (فوجی) حکمتِ عملی کے اندر آتے ہیں؟
سید محمد علی: بہ اہم سوال کیا آپ نے۔ دیکھیں، میں پانچ پہلوؤں کی جلدی سے آپ کے لیے وضاحت کرتا ہوں۔ یہ جو پہلا راؤنڈ ہے اسرائیل اور ایران کے درمیان میزائلوں کے تبادلے کا، اس میں سب سے اہم بات یہ جاننا ضروری ہے کہ ایران اپنے مؤثر اور مہلک ترین ہتھیار پہلے راؤنڈ میں استعمال نہیں کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک لمبی جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ اور ابھی اس وقت اس کی حکمت عملی کا پہلا حصہ یہ ہے کہ وہ اپنے کم ٹیکنالوجی، کم قیمت، اور زیادہ ذخائر والے (ہتھیار) اس لیے استعمال کرے کہ میزائلوں کے خلاف اسرائیل کا جو بہت مہنگا دفاعی نظام ہے اس کو تھکا دیا جائے، کمزور کیا جائے اور ان کے دفاعی میزائلوں کے ذخائر کم کر دیے جائیں۔
طلعت حسین: تاکہ استطاعت جب کم ہو تو اس کے بعد آپ اپنا ہائی ٹیک مال استعمال کریں۔
سید محمد علی: آسان الفاظ میں کہوں کہ ان کے ترکش کا جو سب سے سستا اور سب سے کم مہلک تیر ہے، اس کی زیادہ تعداد وہ استعمال کر رہے ہیں، ایک سو میزائل وہ روزانہ مار لیتے ہیں۔ اگرچہ دوسری جانب، آپ جانتے ہیں کہ، اسرائیل یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ایک تہائی ایران کے میزائل لانچ پیڈز انہوں نے تباہ کر دیے ہیں۔ اور ایک کمزوری ایران کی یہ ہے کہ ان کے پاس فضائی برتری نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے تمام ٹھوس یا مائع ایندھن والے میزائل خطرے میں ہیں۔ اگرچہ مائع ایندھن والے وہ پہلے استعمال کر رہے ہیں، کیونکہ وہ کم ٹیکنالوجی اور کم قیمت ہوتا ہے، اس کی تیاری کا وقت زیادہ ہوتا ہے، تو اس کے زیادہ امکانات ہیں کہ اسرائیل پیشگی حملے کر کے ان کو تباہ کر دے۔
طلعت حسین: اس میزائل کی طرف آتے ہیں، جو کہ ٹھوس ایندھن والا ہے، اس کی خصوصیت کیا ہے؟
سید محمد علی: دیکھیں اس کا جو شعلے کا رنگ ہے، اسی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کا ایندھن ٹھوس ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ فائر کرنے کے لیے تیار ہے، اس کی تیاری کا وقت بہت کم ہوتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ خلا میں جو مصنوعی سیارے موجود ہیں، یا جو ریڈارز ہیں، ان کے پاس بہت کم وقت ہو گا اس کے خلاف پیشگی حملہ کرنے کا، تو اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اس کے دوسری جانب اگر آپ چاہیں تو میں مختصر بتاؤں کہ، جیسا کہ اس دن آپ نے پروگرام میں کہا تھا، بلوچستان سے غزہ تک فضا اور خلا میں مجموعی طور پر آٹھ حصار ہیں جن سے میزائلوں کو کامیابی کے ساتھ گزارنے کی ایران کوشش کر رہا ہے:
- بیرونی حصار اس طرح ہے کہ جنگی طیاروں والے بحری جہازوں کے ساتھ منسلک جو دفاعی نظام ہے، اس پر طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل سسٹم ہے، یہ پہلا حصار ہے۔ ان میں سے ایک بحری جہاز Carl Vinson بحیرۂ عرب میں بھی موجود ہے، Nimitz بھی پہنچ رہا ہے، Ford بھی پہنچنے والا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی لانچ کیا جائے، سب سے پہلے تو اسے بوسٹ فیز (لانچ کے فورًا بعد) ہی روک لیا جائے۔ جیسا کہ آپ سکرین پر دیکھ رہے ہیں کہ اس مرحلے میں میزائل کی پوری جسامت برقرار ہوتی ہے، یہ سست ہوتا ہے، یہ ریڈار کو زیادہ واضح نظر آ رہا ہوتا ہے، تو اس کو گرانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
- جب یہ خلا میں چلا جاتا ہے اور زمین کے مدار میں دوبارہ داخل ہو کر ہدف کی طرف بڑھتا ہے تو پھر آپ دیکھتے ہیں کہ جو Arrow 1 اور Arrow 2 اور Arrow 3 کے جو دو ہزار کلو میٹر رینج کے طویل فاصلے کا اسرائیل نے جو دفاعی نظام بنایا ہے، اس کو استعمال کیا جاتا ہے،۔
- پھر میزائل اگر ان سے بچ نکلے تو اس کے بعد Patriot اور Thad اور David's Sling اور Iron Dome کے ذریعے اس کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
- اور اب جو USS Ford پہنچنے والا ہے اور Nimitz پہنچنے والے ہیں مشرقی بحیرۂ روم میں، وہ بالکل آخری مرحلے میں بھی ان کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
طلعت حسین: جونہی (ایران نے میزائل) لانچ کیا، یہ سب برابر میں ہی اس کو روکنے والے لگے ہوئے ہیں۔
سید محمد علی: آپ یہ اندازہ لگائیں کہ اگر دس سے پندرہ فیصد یہ میزائل ان آٹھ تہوں کو شکست دے کر پہنچتے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
طلعت حسین: اچھا اس کامیابی کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟ یہ ٹیکنالوجی ایسی ہے، تعداد ان کے پاس زیادہ ہے، یا جن تہوں کا آپ نے ذکر کیا ان میں سقم ہے؟
سید محمد علی: میں سمجھتا ہوں کہ اس حکمت عملی میں تین چیزوں کا ایک مناسب توازن ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چونکہ ایران کی فضائی قوت کوئی بہت زیادہ قابل ذکر نہیں ہے، تو انہوں نے زیادہ تر انحصار میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی پر کیا ہے۔ لیکن جو سنجیدہ حلقے ہیں مغرب میں، وہ سمجھتے ہیں کہ دو سے تین ہزار کے درمیان ان کے پاس میزائلوں کا ذخیرہ ہے۔ اور انہوں نے پچاس سے سو کے قریب رومیہ میزائل داغے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس جو ذخیرہ ہے وہ تقریباً ایک مہینے کی جنگ کے لیے کافی ہے۔
ایک اور بات بتانا ضروری ہے کہ بلسٹک میزائل کی درستگی بہت زیادہ نہیں ہوتی۔ پانچ سو پاؤنڈ سے لے کر دو ٹن تک (دھماکہ خیز مواد) یہ میزائل لے جا سکتے ہیں۔ دو ٹن کا وار ہیڈ کہیں بھی گرے، اس کی تباہی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ عمارتوں پر گر رہے ہیں، موساد کی عمارت نشانہ بنی ہے، تباہی ہوئی ہے، اسرائیل میں بھی لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ لیکن وہ اتنا درست نہیں ہوتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نفسیاتی اور سفارتی اور سیاسی ہتھیار تو ہے لیکن وہ اسرائیلی دفاعی اور فوجی صلاحیت کو نقصان نہیں پہنچا رہا۔
طلعت حسین: اس کے لیے ظاہر ہے آپ کو فضائی برتری چاہیے، فضا میں موجودگی چاہیے، پورا نیویگیشنل سسٹم (نقل و حرکت کی نگرانی کا نظام) چاہیے، وہ سب آپ کے پاس موجود ہو تو پھر آپ کے میزائل پن پوائنٹ درستگی کے ساتھ لگ سکتے ہیں؟
سید محمد علی: یہ بہت اہم سوال ہے، میں جلدی سے اس کا جواب دینا چاہوں گا کہ بلسٹک میزائل، جیسا کہ V1 اور V2، اگر آپ نے لندن کا ایمپیریئل وار میوزیم دیکھا ہو تو یہ اس زمانے سے استعمال ہو رہے ہیں، تو کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ لیکن یہ بنیادی طور ڈبلیو ایم ڈی وار ہیڈز کو لے جانے کے لیے بنایا گیا ہے، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے لیے، ایٹمی، کیمیاوی، یا حیاتیاتی ہتھیار کے لیے۔ کیونکہ ان کی جائے ہدف کا جو دائرہ ہے، مثلاً دو ہزار کلو میٹر کے فاصلے کا میزائل تقریباً دو کلو میٹر کے اندر کہیں بھی گر سکتا ہے۔ یہ عمومی میزائلوں کی بات ہے، بہت درستگی والے میزائلوں کی بات نہیں کر رہا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کو درستگی چاہیے تو پھر
- یا تو آپ کو جنگی جہازوں کی ضرورت ہے، جیسے اسرائیل استعمال کرتا ہے،
- یا پھر آپ کو ہائپرسونک کروز میزائل چاہئیں، جس کا ذخیرہ ایران کے پاس ہے، وہ ان کا ترپ کا پتہ ہے۔
طلعت حسین: جو انہوں نے ابھی استعمال نہیں کیا۔
سید محمد علی: کچھ علامتی طور پر اپنی صلاحیت متعارف کرانے کے لیے انہوں اس کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے پچھلے راؤنڈ میں بھی کیا تھا۔ آپ کو یاد ہے جب انہوں نے (اسرائیل کی) ایئر بیس پر مارا تھا۔ وہ بہت درست ہوتا ہے کیونکہ وہ ہائپرسونک (انتہائی تیزرفتار) ہے تو وہ ان سارے دفاعی حصاروں کو ناکام بنا دیتا ہے۔ لیکن وہ مہنگا ہے اور میرے خیال میں ان کے پاس اس کا بہت بڑا ذخیرہ نہیں ہے، اس لیے انہوں نے اگلے جو دو تین مرحلے ہیں کشیدگی بڑھنے کے، اس کے لیے ان کو بچا کر رکھا ہے کہ اگر اس حد تک ان کو جانا پڑتا ہے کہ جیسے وہ Dimona (ایٹمی مرکز والے شہر) کو ہدف بنائیں، یا ان کے ڈیفنس کے ہیڈکوارٹر کو ہدف بنائیں، تو اس وقت کے لیے اس کو بچا کر رکھیں گے۔ البتہ اس صلاحیت کا مظاہرہ انہوں نے کیا ہے۔