(مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد کے زیر اہتمام ۱۰ مئی ۲۰۲۵ء کو منعقدہ سیمینار سے ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ذیلی عنوانات کے اضافے کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے۔)
(اللهم صل وسلم و بارك علىٰ سيدنا محمد) وعلىٰ آله واصحابہ اجمعين، وعلیٰ کل من قام بدعوتہ واستنسک بسنتہ وجاھد جھادہ الیٰ یوم الدین۔
میں پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب کا خصوصی طور پر شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہاں آکر آپ اصحابِ علم کے ساتھ مجھے گفتگو کا موقع عنایت کیا ہے۔ پہلے بھی جب انہوں نے دعوت دی ہے تو میں نے اسے اپنے لیے سعادت سمجھا اور ڈاکٹر حبیب صاحب تو میرے متعلق بہت حسنِ ظن رکھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شریعہ اکیڈمی میں جو ہم نے اکٹھے وقت گزارا تو اس میں جو کچھ میں کر پایا، وہ میری طرف جس کی نسبت کر رہے ہیں، وہ میں نے تنہا نہیں کیا بلکہ پوری ٹیم کا کام تھا اور اس میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر حبیب صاحب ہی کا تھا۔ پہلے سے، برس ہا برس سے وہ وہاں جس طرح کی خدمات سرانجام دے رہے تھے، علماء کرام کے ساتھ بھی، مفتیان کرام کے ساتھ بھی، پھر ججز، لائرز، پراسیکیوٹرز، تو ان کا بڑا وسیع تجربہ تھا اور اس تجربے سے الحمد للہ ہم نے بہت فائدہ اٹھایا۔ اور پھر ہم نے مل جل کر کچھ نئے کام بھی کیے۔ اور جیسے ہم نے ذکر کیا، اکٹھے سفر بھی کیا پاکستان میں، شمال کا بھی اور جنوب کا بھی اور مختلف شہروں میں، پھر ملک سے باہر بھی، تو ہر جگہ ان کی رفاقت میسر رہی۔ اور ان کی بہت ساری خوبیوں میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کو جو چیز غلط نظر آتی ہے تو اس پر وہ اپنی رائے کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ اور کئی دفعہ ہم نے آپس میں چیزیں، ہم جو پروگرام کرنے جاتے تھے تو اس میں ان سے میں ضرور مشورہ لیتا تھا اور ان کے مشورے کی روشنی میں کئی دفعہ مجھے اپنی رائے تبدیل کرنی پڑی۔ اور اس وقت بھی اور بعد میں بھی مجھے یہ احساس ہوا کہ ان کا مشورہ اگر نہ ہوتا تو شاید معاملہ اتنا اچھا نہ ہوتا۔ تو ایسے ساتھیوں کی رفاقت ہوتی ہے تو کام ظاہر ہے پھر آسان بھی ہو جاتے ہیں اور پھر اس کا فائدہ سب کو ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کی کاوشیں بھی قبول کرے۔ اب یہاں بھی آپ دیکھیں کہ انہوں نے جس موضوع کا انتخاب کیا اور اس کے لیے جن لوگوں کو انہوں نے یہاں گفتگو کے لیے بلایا اور جو ان کے لیے موضوعات کا تعیّن کیا، تو آپ صبح سے اس پروگرام میں بیٹھے ہوئے ہیں آپ کو خود ہی اندازہ ہوگا کہ اس سے آپ میں کتنا فائدہ اٹھایا ہے۔ مجھے جب انہوں نے کہا تو اس وقت تو واقعی صورتحال یہ تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی صورت تھی اور اس کی شدت میں بھی اور حدت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا بہت تیزی سے۔ لیکن اب تو ساری دنیا مان رہی ہے، اگر کل تک کسی کو شبہ تھا تو اب تو ہر ایک کو یقین ہو گیا ہے کہ یہ محض کشیدگی نہیں بلکہ جنگ ہے۔
1648ء کا ویسٹ فالیہ معاہدہ اور مغرب کا ریاستی تصور
جو اصطلاحات ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ آپ کے سامنے اس موضوع پر بات ہوئی ہوگی کہ بین الاقوامی قانون جو جنگ کو منضبط کرتا ہے تو اس میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ’’مسلح تصادم‘‘ (Armed Conflict) کی۔ دو مزید اصطلاحات بھی میں نے یہاں ذکر کی ہوئی ہیں: ایک جارحیت اور ایک جنگ۔ ان اصلاحات کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ ساری جو آگے کی بحث ہے اس میں ان کا ذکر بار بار آئے گا۔
مغرب نے، یورپ نے جو بین الاقوامی قانون بنایا، کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز 1648ء عیسوی میں ہوا۔ ایک معاہدہ سے ہوا یورپی ریاستوں کے درمیان اس کو ویسٹ فالیہ کا معاہدہ (Peace of Westphalia) کہتے ہیں۔ یہ جو ریاستیں تھیں یہ پہلے مقدس رومی سلطنت کے نام سے ایک سلطنت تھی یہ اس کا حصہ تھیں۔ پھر ان میں مذہبی اختلافات بھی تھے، سیاسی اختلافات بھی تھے، تو جنگیں ہوئیں اور ان جنگوں کے نتیجے میں کئی ریاستوں نے اس مقدس رومی سلطنت سے علیحدگی کا، آزادی کا، خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ سلطنت نے ان کو دبانے کی کوشش کی ناکام رہی۔ بالآخر معاہدہ ہوا اور ان ریاستوں کو الگ مستقل اور خود مختار ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ تو وہاں سے کہتے ہیں کہ بین قانونی نظام کا آغاز ہوتا ہے 1648ء عیسوی سے۔
ریاستی حدود سے باہر مفادات کے تحفظ کے لیے اقدام
ریاست کا جو تصور یورپ میں بنا اس کی رو سے ریاست قانون کا سرچشمہ تھی۔ قانون کا ماخذ ریاست کی مرضی ہے۔ قانون ریاست کی مرضی سے بنتا ہے، اس وجہ سے ریاست کسی کام کو جائز یا ناجائز قرار دے سکتی ہے، لیکن ریاست کے کسی فعل کو جائز یا ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔ یعنی یہ مفروضہ ہے ان کا بنیادی۔ اس مفروضے کے کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر یہ تسلیم کیا گیا کہ ریاست جب کوئی فیصلہ کرتی ہے، چاہے وہ جنگ شروع کرنے کا فیصلہ ہو، تو اس کے لیے اسے کسی قانونی جواز کی ضرورت نہیں ہے۔ ریاست کے مفادات ہیں، ان مفادات کے حصول کے لیے کوشش اس کا حق ہے، وہ کوشش اگر وہ پرامن طریقے سے کر رہی ہے تو بھی اس کی مرضی، اور جب وہ مناسب سمجھے تو جنگ کے ذریعے، زبردستی طاقت کے ذریعے چھین کر اپنا حق لے سکتی ہے، قانونی جواز کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ یہ اگلے تقریباً دو سو سال تک، بلکہ تین سو سال کہیں، یہ جو بین الاقوامی قانون رائج رہا، یورپ کی ریاستوں کے ذریعے جو بنایا گیا تھا، تو اس میں جنگ کے جواز کے لیے ریاست کو کسی قانونی جواز کی ضرورت نہیں تھی۔ ریاست کی مرضی پر منحصر تھا کہ جب وہ چاہے تو جنگ شروع کرے۔
لیکن قانونی جواز ایک بات ہے، خود کو بھی تو مطمئن کرنا پڑتا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ صحیح کر رہے ہیں، اپنے لوگوں کو بھی، دنیا کے سامنے بھی اپنا اچھا تصور پیش کرنا ہوتا ہے۔ تو اس لیے اگرچہ کسی قانونی جواز کی ضرورت اس مدت میں ان کو نہیں تھی لیکن عملاً ایسا ہوتا تھا کہ جب ریاست کسی جنگ میں جاتی تو اس کے لیے کوئی نہ کوئی سبب ذکر کرتی کہ مثال کے طور پر ہمارے شہری ہیں وہ اُس ملک میں ہیں جہاں ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے، ہم ان کی حفاظت کے لیے جا رہے ہیں، کیونکہ وہاں کی حکومت ان کی حفاظت نہیں کرنا چاہتی یا نہیں کر سکتی، تو ہم اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے خود جا کر وہاں اقدام کریں گے۔ اور یہ جنگ ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ ہمارے شہری بیرون ملک خطرے کا شکار ہیں یا ہمارے مفادات ہیں اُدھر جنہیں خطرہ لاحق ہے۔ اس کو کہتے تھے ’’پروٹیکشن آف نیشنلز ابراڈ‘‘ یا ’’پروٹیکشن آف انٹرسٹس ابراڈ‘‘ (Protection of Nationals/Interests Abroad) کہ آپ کے مفادات بیرون ملک خطرے میں ہیں، ان کی حفاظت کے لیے آپ اقدام کر رہے ہیں۔
مصر کی طرف سے نہر سوئز کو قومیانے کی مثال
اور دور نہ جائیں صرف ستر اسی سال پیچھے جائیں تو جب مصر کے جمال عبد الناصر نے سوئز کینال کو قومیانے کا اعلان کیا۔ سوئز کینال کے متعلق آپ جانتے ہیں کہ یہ جو نہر تعمیر کی گئی تو اس نے یورپ اور ایشیا کو ملا دیا اور اس کے ذریعے بہت بڑے پیمانے پر تجارت شروع ہوئی۔ 1869ء میں اس کی تعمیر شروع ہوئی بلکہ 1869ء سے یوں کہیں چل پڑی۔ تقریباً 99 سال کا معاہدہ ہوا تھا، فرانس اور برطانیہ نے اس کے بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا تو سوئز کینال پر بنیادی طور پر انہی کا تسلط تھا۔ 1950ء کی دہائی میں مصر نے اَسوان ڈیم بنانے کا ارادہ کیا، اس کے لیے ورلڈ بینک سے ان کو پیسے چاہیے تھے، ورلڈ بینک امریکہ کے کنٹرول میں تھا، اس نے وہ جو قرضہ دینا تھا ڈیم کی تعمیر کے لیے تو اس کو روکا۔ کیونکہ امریکہ کی خواہش تھی کہ جیسے اس نے یورپ میں نیٹو (NATO) کی تنظیم بنائی تو ایسے ہی مشرقِ وسطیٰ میں وہ کچھ ممالک کو ساتھ ملا کر ایک اس طرح کی فوجی تنظیم بنائے۔ تو اس کا خیال یہ تھا، اس کا ارادہ یہ تھا کہ مصر اس کے ساتھ ہو، جمال عبدالناصر نے انکار کیا، روس کی طرف اس کا رجحان تھا، تو امریکہ کے کہنے پر ورلڈ بینک نے اَسوان ڈیم کے لیے جو قرضہ دینا تھا اس کو روک دیا۔ اس کے جواب میں جمال الناصر نے یہ کیا کہ سوئز کینال کو قومیانے کا اعلان کیا کہ اب اس کی ساری آمدنی مصر کو جائے گی، برطانیہ اور فرانس کو نہیں جائے گی۔ برطانیہ اور فرانس نے اس کو اپنے مفادات پر حملہ قرار دیا۔
اس مثال کو اچھی طرح سمجھ لیجیے، سوئز کینال کہاں ہے؟ مصر میں ہے، لیکن برطانیہ اور فرانس نے کہا کہ یہ ہمارے مفاد پر حملہ ہے کیونکہ 99 سال تک اس کی لیز ہمیں دی گئی تھی، اس کی آمدنی ہمیں دینی تھی، وہ نہیں دی جا رہی روک لی گئی، تو یہ ہمارے مفادات پر حملہ ہے، ہمیں دفاع کا حق حاصل ہے، ملک سے باہر ہمارے مفادات پر حملہ ہے۔
اسرائیل بھی ان کے ساتھ ہوا۔ اسرائیل کو کیا خطرہ تھا؟ اسرائیل نے کہا کہ اگر سوئز کنال پر مصر کا کنٹرول ہوا، برطانیہ اور فرانس کا ختم ہوا، تو اسرائیل کی تجارت اور اس کی آمد و رفت اور اس کا دفاع سب کچھ خطرے میں پڑ جائے گا۔ تو فرانس، برطانیہ اور اسرائیل تینوں نے مل کر سوئز کینال پر حملہ کیا اس کو قبضے میں لینے کے لیے اور دو دن کے اندر اسرائیلی افواج نے صحرائے سینا قبضے میں لے لیا۔ بات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تک پہنچی تو وہاں توبرطانیہ بھی بیٹھا ہوا تھا اور فرانس بھی، دونوں کے پاس ویٹو کا اختیار تھا، انہوں نے قرارداد مسترد کر دی۔ حیران کن بات ہے امریکہ اس موقع پر برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے خلاف تھا اور اس نے کہا کہ نہیں یہ جو آپ لوگوں نے حملہ کیا یہ غلط کیا ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آگیا اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کے خلاف، اور دیگر ممالک بھی ان کے ساتھ ہوئے، عالمی دباؤ بڑھ گیا تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کو واپس جانا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جمال عبد الناصر کو بہت بڑا ہیرو سمجھا جانے لگا، عرب قوم پرستی کا جو بت تھا وہ اب بہت بڑا بت بن گیا۔
یہ جو سوئز کینال والا معاملہ ہے مصر، اسرائیل، برطانیہ، فرانس، یہ اقوام متحدہ کے بعد کی بات ہے۔ لیکن اس وقت بھی یہ جو سبب ذکر کیا گیا کہ میرے بیرون ملک مفادات خطرے میں ہیں، میرے بیرون ملک مفادات پر حملہ ہے تو وہ میرے خلاف حملہ ہے، تو مجھے دفاع کا حق حاصل ہے۔ یہ بات کی جاتی تھی، اس کے علاوہ اور بھی کچھ عذر پیش کیے جاتے تھے، اگرچہ جیسے میں نے ذکر کیا کہ اس وقت ان کے قانون کی رو سے کسی جواز کی ضرورت نہیں تھی، لیکن لوگوں کو بتانا پڑتا ہے نا کہ ہم کیوں کر رہے ہیں، اور کیوں وہ لوگ غلط ہیں اور ہم صحیح ہیں۔ رائے عامہ بھی ہموار کرنی پڑتی ہے۔
حقِ دفاع میں اقدام یا پیشگی اقدام کا معاملہ
بعض اوقات اس دور میں، یعنی یہ میں اقوام متحدہ کے وجود میں آنے سے پہلے کی بات کر رہا ہوں، بعض اوقات اس بات پر بھی جنگ شروع ہو جاتی تھی کہ فلاں ملک میرے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کر رہا ہے اور اس جھوٹے پروپیگنڈے سے مجھے بڑا شدید نقصان ہو رہا ہے۔ مجھ پر حملہ اس نے باقاعدہ نہیں کیا، کوئی گولہ باری نہیں، کوئی افواج آگے اس نے نہیں بھیجیں، کچھ نہیں کیا، لیکن وہ اتنا پروپیگنڈا کر رہا ہے میرے خلاف کہ اس کی وجہ سے میرے مفادات کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے، تو اس وجہ سے میں ان پر حملہ کر رہا ہوں۔ یعنی حملے کے لیے یہ ضروری نہیں تھا، حقِ دفاع کے لیے، کہ آپ پر باقاعدہ فوجی حملہ ہو تو اس کے بعد آپ کو دفاع کا حق حاصل ہوگا، بلکہ جہاں بھی آپ کے مفادات خطرے میں پڑ گئے اور آپ یہ سمجھتے تھے کہ ان مفادات کو بچانے کا سوائے جنگ کے اور کوئی راستہ نہیں ہے، تو آپ جنگ میں جاتے تھے اور اس کو آپ حقِ دفاع کہتے تھے۔ یہ بات سمجھ لیجیے کیونکہ یہ آگے کام آئے گی۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1918ء سے لیگ آف نیشنز کا دور
پہلی جنگ عظیم جب ختم ہوئی 1918ء میں تو اس کے بعد ایک عالمی تنظیم بنائی گئی جس کو نام دیا گیا ’’مجلس اقوام‘‘ (League of Nations) اس مجلسِ اقوام کے میثاق میں یہ کہا گیا کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے اگر دو ممالک کے درمیان تنازعہ ہو تو جنگ میں جانے سے پہلے وہ اس معاملے کو مجلسِ اقوام میں پیش کریں، وہاں سے مسئلہ اگر حل نہیں ہو سکا تو اس کے بعد ان کی مرضی پھر وہ جنگ کریں تو الگ بات ہے۔ یوں کہیں کہ مجلسِ اقوام کی یہ جو تنظیم تھی، اس نے جنگ کو ناجائز نہیں کیا، لیکن آپ کو جنگ سے پہلے ایک اور فورم دے دیا کہ آپ جنگ کے بجائے یہاں آ کر بھی اپنا مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ عملاً یہ تنظیم ناکام ثابت ہوئی اور اس کے بعد بھی جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ مجلسِ اقوام کا 1919ء کا میثاق، اس میں جنگ کو ناجائز نہیں کیا گیا لیکن آپ کو کہا گیا کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے پرامن ذرائع سے پرامن طریقوں سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں، مجلسِ اقوام کو بھی ایک موقع دیں۔
1928ء کا معاہدۂ پیرس
1928ء میں ایک معاہدہ ہوا امریکہ اور فرانس کے درمیان، اس کو معاہدۂ پیرس کہتے ہیں کیونکہ فرانس کے شہر پیرس میں وہ معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے میں امریکہ اور فرانس نے یہ طے کیا کہ طاقت کے استعمال کے ذریعے، جنگ کے ذریعے اگر کسی نے کسی علاقے پر قبضہ کیا تو ہم اسے اس کا علاقہ نہیں کہیں گے، ہم اسے جائز نہیں مانیں گے۔ یہ مغربی بین الاقوامی قانون کی تاریخ میں پہلی بار جنگ کو ناجائز کہا گیا۔ 1928ء میں یعنی سو سال بھی نہیں ہوئے، پیرس میں پہلی دفعہ امریکہ اور فرانس نے آپس میں طے کیا کہ اگر جنگ کے ذریعے کوئی ریاست کسی علاقے پر قبضہ کر لے تو ہم اسے جائز نہیں مانیں گے، جنگ کے ذریعے تنازعات کا حل جائز نہیں ہے۔ 1928ء کا معاہدۂ پیرس جدید تاریخ میں جنگ پر پابندی کی پہلی مثال ہے۔ امریکہ اور فرانس نے پہلے آپس میں معاہدہ کیا پھر دیگر ریاستیں بھی ایک ایک کر کے اس میں شامل ہوتی گئیں، یوں کہیں کہ اس نے ایک ملٹی لیٹرل ٹریٹی کی حیثیت اختیار کر لی یعنی بہت سارے فریق اس میں شامل ہو گئے۔ اور ایک عالمی بین الاقوامی اصول کی حیثیت اس کے لیے تسلیم کی گئی کہ جنگ کے ذریعے تنازعات حل نہیں کیے جائیں گے اور جنگ کے ذریعے آپ نے کوئی علاقہ فتح کیا تو آپ اسے اپنے ملک کا حصہ نہیں قرار دے سکتے، قبضہ آپ نے چھوڑنا ہوگا جنگ ختم کرنے کے بعد، جنگ کے ذریعے آپ وہاں کے مالک نہیں بنیں گے۔
اس معاہدے کے بعد بین الاقوامی قانون کی رو سے جنگ تو ناجائز قرار پائی لیکن ریاستیں اس کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف وقتاً فوقتاً طاقت استعمال کرتی رہیں لیکن اس کو جنگ سے کم تر کی طاقت کا نام وہ دیتے تھے۔ جیسے اکثر آپ نے سنا ہو گا کہ لائن آف کنٹرول پر انڈیا نے بلا اشتعال فائرنگ کی، یعنی ہم نے کچھ نہیں کیا تو انہوں نے ویسے ہی فائرنگ شروع کر دی۔ یا وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے کی۔ لائن آف کنٹرول تو چلیں کشمیر کے درمیان کھینچی گئی ہے اور اس کی ایک الگ حیثیت ہے، اس کو بین الاقوامی سرحد کی حیثیت حاصل نہیں ہے، لیکن بعض اوقات بین الاقوامی سرحدات پر بھی ایسا ہو جاتا ہے۔ افغانستان سے دراندازی ہوئی، ہم نے اِدھر سے ان کا پیچھا کیا، وہ واپس افغانستان میں داخل ہو گئے، ہم ان کے پیچھے داخل ہو گئے، کسی کو قتل کیا کسی کو زخمی کیا کسی کو پکڑا، یا وہ غائب ہو گئے، ہم واپس آ گئے۔ لیکن پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے ساتھ جنگ نہیں لڑ رہے، یہ تو اُدھر سے کچھ لوگ آئے تھے ہم نے ان کا پیچھا کیا، اس کو Hot Pursuit کہتے ہیں، ہم نے ان کا تعاقب کیا اور وہ ہمارے ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہو گئے، ہم ان کے پیچھے داخل ہو گئے، لیکن ہم اس ملک کے ساتھ لڑنا نہیں چاہتے۔ تو اس طرح کی صورتحال کو کہتے ہیں Use of Force Short of War کہ ہم نے طاقت تو استعمال کی ہے لیکن ہم جنگ کی سطح تک نہیں پہنچے، طاقت کا استعمال لیکن جنگ سے کم تر۔
بھارت نے جو چھ اور سات مئی کی رات کو کیا بہاولپور، لاہور اور دیگر جگہوں پر، اور اس کے بعد جو اس نے مسلسل ڈرونز بھیجے، وہ یہ کھیل کھیل رہا تھا، وہ دنیا کو یہ تاثر دے رہا تھا کہ ہم جنگ نہیں کر رہے، ہم تو مخصوص ٹھکانوں پر صرف حملہ کر رہے ہیں، جہاں سے ان کے بقول ان پر وہاں حملہ ہوا تھا۔ تو اس کو یوں سمجھیں کہ ان کا موقف یہ تھا کہ یہ ’’یوز آف فورس‘‘ تو ہے لیکن یہ ’’شارٹ آف وار‘‘ ہے یہ جنگ سے کم تر ہے۔ یعنی ہم نے پاکستان میں پاکستان کی اجازت کے بغیر ڈرونز استعمال کیے ہیں لوگوں کو مارا ہے لیکن ہم پاکستان کے ساتھ جنگ نہیں کر رہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد 1945ء سے اقوامِ متحدہ کا دور
یہ بات 1928ء کے معاہدے کے وقت تو سمجھ میں آنے والی تھی کیونکہ اس نے تو جنگ کو ناجائز قرار دیا تھا، جنگ سے کم تر طاقت کے استعمال کو اس نے ناجائز نہیں کیا تھا، لیکن 1945ء میں جب اقوام متحدہ کی تنظیم وجود میں لائی گئی تو اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ دو ذیلی دفعہ چار میں نہ صرف جنگ پر پابندی لگائی گئی بلکہ طاقت کے استعمال پر بھی پابندی لگائی گئی۔ اور نہ صرف طاقت کے استعمال پر بلکہ اس کی دھمکی پر بھی پابندی لگائی گئی۔ اب صرف جنگ ہی ناجائز نہیں ہوئی بلکہ جب آپ دوسری ریاست کے خلاف طاقت استعمال کرتے ہیں، خواہ آپ اسے جنگ نہ کہیں، لیکن جب آپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کے علاقے میں طاقت کا استعمال کیا ہے یا استعمال کی دھمکی دی ہے، تو یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ دو ذیلی دفعہ چار کی خلاف ورزی ہے۔
یہ پابندی کیا عمومی نوعیت کی ہے؟ وہی جو حنفی اور شافعی اصولیین کا اختلاف ہے کہ عام قطعی ہے یا ظنی ہے۔ تو یہ اختلاف اقوام متحدہ کے منشور کی اس دفعہ کے متعلق بھی بین الاقوامی قانون کے ماہرین میں پایا جاتا ہے: ایک فریق کا یہ کہنا ہے کہ یہ پابندی عام ہے، ہر نوعیت کی جنگ اور ہر نوعیت کا جو طاقت کا استعمال ہے یا اس کی دھمکی ہے، وہ ناجائز ہو گئی ہے۔ سوائے اس کے جس کی اجازت صراحت کے ساتھ اقوام متحدہ کے منشور میں دی گئی ہے۔ عام طور پر یہی رائے ہے۔ لیکن ایک اور فریق بھی پایا جاتا ہے جس کا یہ کہنا ہے کہ نہیں، اقوام متحدہ کے منشور کی اس دفعہ دو ذیلی دفعہ چار نے جو پابندی لگائی ہے وہ عمومی نہیں ہے، وہ چند مخصوص حالات میں طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی پر پابندی ہے۔ کیونکہ الفاظ اس کے ایسے ہیں کہ
All Members shall refrain in their international relations from the threat or use of force against the territorial integrity or political independence of any state, or in any other manner inconsistent with the purposes of the United Nations.
کہ طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی سے اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں گریز کریں گی۔ لیکن آگے لکھا ہوا ہے کہ طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی کس چیز کے خلاف؟ دوسری ریاستوں کی علاقائی سالمیت کے خلاف، یا سیاسی خود مختاری کے خلاف، یا اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف۔ تو یہ دوسرا فریق یہ کہتا ہے کہ اگر طاقت کا استعمال آپ ایسے کریں کہ ان تین شروط کی خلاف ورزی نہ ہو تو وہ اس دفعہ دو ذیلی دفعہ چار کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔
1976ء میں اسرائیل اور 2025ء میں بھارت کی مثال
تو کیا طاقت کا استعمال ایسے کیا جا سکتا ہے جس سے کسی دوسری ریاست کی علاقائی سالمیت کو نقصان نہ ہو یا اس کی سیاسی خود مختاری کو نقصان نہ ہو؟ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ 1976ء میں ایک اسرائیلی طیارہ ہائی جیک کیا گیا اور وہ یوگنڈا لے جایا گیا، یہ جو موجودہ وزیراعظم ہے اسرائیل کا (بنجمن) نیتن یاہو، اس کا بھائی تھا کرنل (یونی) نیتن یاہو، اس کی سربراہی میں اسرائیل کے کمانڈوز گئے اسرائیل سے یوگنڈا، نیچے پرواز کی تاکہ ریڈار سے پکڑے نہ جائیں، یوگنڈا میں اینٹے بے ایئرپورٹ پہنچے۔ اس ایئرپورٹ کا پورا نقشہ ان کے پاس تھا کیونکہ جس کمپنی نے وہ ایئرپورٹ بنایا تھا وہ اسرائیلی تھی، یہودی ٹھیکے دار تھے۔ ایدی امین یوگنڈا کے صدر تھے، وہ ایک مخصوص مرسیڈیز گاڑی میں آتے جاتے تھے، اسی طرح کی اسی ماڈل کی مرسیڈیز کار میں یہ کمانڈوز ایئرپورٹ میں داخل ہو گئے، رن وے کی طرف جا رہے ہیں۔ ایک غلطی ہوئی ان سے، اب میں بھول رہا ہوں کہ ایدی امین جو مرسیڈیز استعمال کرتے تھے اس کا رنگ شاید بلیک تھا اور یہ وائٹ میں گئے، یا وائٹ تھا اور یہ بلیک میں گئے۔ اس سے چند دن پہلے تک وہ سیاہ رنگ کی استعمال کرتا تھا، اس نے پھر سفید استعمال کرنا شروع کر دی تھی۔ بس ایک چھوٹی سی غلطی ان سے یہ ہوئی تو ایئرپورٹ کے چند سیکیورٹی گارڈز کو شبہ ہوا، انہوں نے روکنے کی کوشش کی، اِنہوں فائرنگ کی۔ اچانک ہائی جیکرز کو بھی پتہ چلا کہ اوہو یہ تو حملہ ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود کمانڈوز جہاز میں داخل ہوئے، تمام ہائی جیکرز کو قتل کیا، تین یا چار شاید مسافر بھی بیچ میں مارے گئے، نیتن یاہو کا جو بھائی تھا وہ بھی مارا گیا، اور باقی تمام مسافروں کو وہ جہاز سمیت اڑا کر واپس اسرائیل لے گئے۔ اور اس پورے آپریشن میں نوے منٹ لگے، ڈیڑھ گھنٹہ، جس میں ایکچول فائٹ کامبیٹ کا وقت تھا …… (سرجیکل سٹرائیک) اس کو اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ جیسے سرجن سرجری کرتا ہے، تو اگر اپینڈکس کا کرنا ہے تو اس نے ٹھیک یہاں نشتر لگانا ہے، اِدھر اُدھر باقی جگہ کو چھوڑ کر اور Swift کیونکہ جیسے میں نے کہا صرف تیس منٹ۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ جو ہم نے کاروائی کی یہ ہم نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ دو ذیلی دفعہ چار کی خلاف ورزی نہیں کی، کیونکہ ہم نے یوگنڈا پر قبضہ نہیں کیا، علاقائی سالیت کو نقصان نہیں پہنچایا، یعنی یہ نہیں کیا ہم نے کہ یوگنڈا سے کوئی ٹکڑا الگ کر لیا، اس پر قبضہ کر لیا، اور نہ ہی اس کی سیاسی خود مختاری کو نقصان پہنچایا، کیونکہ اس کی حکومت کو آزادی حاصل تھی وہ ہمارے خلاف جو کاروائی کرنا چاہتی کر سکتی تھی، کس نے اس کا ہاتھ روکا۔ یہ ان کی تعبیر ہے اقوام متحدہ کے منشور کی۔
بھارت نے جو کل پرسوں کیا وہ بعینہ یہ والی تعبیر ہے، اسرائیل والی، کہ ہم نے بہاولپور میں حملہ کیا یہ سرجیکل سٹرائیک تھی، ہم نے لاہور میں، مریدکے میں حملہ کیا، یہ سرجیکل سٹرائیک تھی۔ ہم نے علاقے پر قبضہ نہیں کیا اور حکومت کو ہم نے پیرالائز نہیں کیا، اس کی اپنی مرضی۔
یہ اسرائیل، بھارت اور ایسے چند ممالک کے نزدیک یہ ہے، لیکن عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ غلط ہے اور یہ اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی ہے۔ مزید اس میں ایک اور اہم بات ہے کہ جیسے کچھ دیر پہلے میں نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ کے وجود میں آنے سے پہلے تو حق دفاع کے لیے یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا تھا کہ آپ پر باقاعدہ فوجی حملہ ہو تو اس کے بعد آپ حقِ دفاع کا استعمال کریں۔ لیکن اقوام متحدہ کے منشور میں دفعہ 51 میں یہ مذکور ہے کہ عالمی امن قائم کرنے کی ذمہ داری تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ہے، لیکن اگر کسی ملک پر فوجی حملہ ہوا تو اس کے پاس دفاع کا حق ہے۔ اب اس سے کچھ لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے، یہاں بھی دو فریق پائے جاتے ہیں:
- ایک فریق کا یہ کہنا ہے کہ آپ کو دفاع کا حق صرف اس صورت میں حاصل ہوتا ہے جب آپ پر فوجی حملہ ہو، کیونکہ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ عالمی امن قائم کرنے کی ذمہ داری سلامتی کونسل کی ہے لیکن اگر کسی ریاست پر فوجی حملہ ہو تو اس کے پاس دفاع کا حق ہے، تو چونکہ دفعہ دو نے طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی پر پابندی لگائی ہے، اور یہاں کہا گیا ہے کہ آپ پر فوجی حملہ ہو تو آپ کو دفاع کا حق ہے، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کو دفاع کا حق صرف اس صورت میں ہے جب آپ پر فوجی حملہ ہو۔
- دوسرا فریق یہ کہتا ہے کہ نہیں، ایک تو جو سلامتی کونسل کا نظام بنایا گیا وہ ناکام ہو گیا ہے، سلامتی کونسل کہاں عالمی امن قائم کرتی ہے؟ ایک فریق کے خلاف آپ جائیں تو اس کا ساتھی اُدھر بیٹھا ہوتا ہے وہ اس کو ویٹو کر دیتا ہے۔ اسرائیل نے اتنی بڑی تباہی و بربادی کی، اس کے خلاف آپ سلامتی کونسل میں جائیں تو امریکہ ویٹو کر دے گا۔ بھارت کے خلاف جائیں تو امریکہ یا فرانس یا برطانیہ یا روس ویٹو کر دے گا۔ تو سلامتی کونسل کہاں کام کرتی ہے؟ دوسرا یہ کہ ہتھیار اتنے ڈیولپ ہو چکے ہیں کہ اگر آپ اس فریق کو حملہ کرنے دیں تو اس کے بعد آپ کے پاس جوابی کاروائی کا ٹائم ہی نہیں بچتا، جو اس نے کرنا ہوتا ہے وہ تو کر چکتا ہے۔ جیسے اسرائیل نے 1967ء میں عربوں کی طرف سے جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی حملہ کر دیا اور مصر کے جہاز ایئر بیسز پر کھڑے کھڑے برباد کر دیے تباہ کر دیے۔ اس کے بعد مصر کے پاس اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لیے بچا کیا تھا؟ چھ دن کی جنگ تھی سب کچھ ختم ہو گیا۔ تو اگر ہم اس کو کرنے دیں اور اس کے بعد کہیں کہ اب ہم حقِ دفاع کا استعمال کریں گے تو ہمارے پاس کیا ہوگا؟
سب سے اہم بات یہ ہے قانونی نقطۂ نظر سے، کہ اقوام متحدہ کے منشور میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا کہ جو پہلے سے موجود بین الاقوامی قانون تھا، یا اس کے تحت آپ کے حقوق تھے، ان کو ہم نے منسوخ کر دیا ہے۔ یعنی نسخ صریح نہیں ہے، نسخ ضمنی ہے۔ تو نسخِ ضمنی کی طرف تو تب جایا جاتا ہے جب دو نصوص کے درمیان یا دو اصولوں کے درمیان جو تعارض ہو اس کو رفع نہ کیا جا سکے کسی صورت۔ تو جب رفع کرنا ممکن ہے تو نسخ کی طرف کیوں جایا جائے؟ تو ریاستوں نے عموماً یہ بات نہیں مانی ہے اور عام طور پر تقریباً تمام ریاستیں یہ بات مانتی ہیں۔ کس حد تک اس پر عمل کرتی ہیں، کس حد تک نہیں کرتیں، وہ الگ بات ہے، لیکن مانتی ہیں اپنے لیے یہ حق کہ ہم پر اگر حملہ ہونے والا ہو تو ہم اس کے ہونے کا انتظار نہیں کریں گے، ہم اس کے ہونے سے پہلے اسے ختم کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ کہاں ہم اس حق کو استعمال کرتے ہیں، کہاں نہیں کرتے، ہماری مرضی، لیکن حق ہے ہمارے پاس۔
1837ء کے کیرولین انسیڈنٹ کی مثال
اور اس کے لیے استدلال کیا جاتا ہے، میں نے ایک واقعہ ذکر کیا ہے، اس کو کیرولین انسیڈنٹ Caroline Incident کہتے ہیں۔ یہ 1837ء کا واقعہ ہے۔ کیرولین ایک امریکی جہاز تھا، اس کو کینیڈا میں باغی استعمال کرتے تھے برطانیہ کے خلاف۔ ان دنوں براعظم امریکہ پر آپ جانتے ہیں کہ برطانیہ کا قبضہ تھا۔ تو کینیڈا میں جو باغی تھے برطانیہ عظمیٰ کے خلاف اس بحری کو استعمال کرتے تھے۔ برطانوی فوجی اس بحری جہاز کے پیچھے امریکی علاقے میں داخل ہوئے، نیاگرافال کے آس پاس، جو بڑا مشہور آبشار ہے، اور اس جہاز کو ڈبو دیا۔ اور پھر کہا کہ یہ ہم نے اپنا حقِ دفاع استعمال کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ تھا اس کا نام ویبسٹر تھا، ویبسٹر نے برطانیہ کی حکومت کو خط لکھا کہ اگر آپ کا کہنا یہ ہے کہ آپ دفاع کا حق استعمال کر رہے تھے تو آپ کو تین چیزیں ثابت کرنی ہوں گی۔
ان تین چیزوں کو آپ حقِ دفاع کی حدود کہیں، آج تک یہ مانی جاتی ہیں، اور اس کے متعلق چیزیں آپ کے ذہن میں آجائیں گی اسلامی شریعت سے بھی، لیکن میں ویبسٹر کی بات کرنے جا رہا ہوں۔ ویبسٹر نے کہا کہ تین چیزیں ہیں:
- ایک یہ کہ آپ نے ثابت کرنا ہے کہ کیرولین سے آپ کو جو خطرہ تھا وہ فوری نوعیت کا تھا۔ Imminent کا مطلب ہوتا ہے بالکل سر پہ آیا ہوا، سوچنے کا موقع نہیں تھا، ہم سے رابطے کا موقع نہیں تھا کہ ہم اس کو روک لیتے۔ فوری نوعیت کا خطرہ تھا جس پر فوری اقدام ضروری تھا۔
- دوسری بات، آپ نے ثابت کرنا ہے کہ آپ کے پاس اس پر حملے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ آپ اس کو روک نہیں سکتے تھے، آپ اس کو کسی اور طریقے سے نیوٹرلائز نہیں کر سکتے تھے، اس پر حملہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا آپ کے پاس، اس خطرے سے نمٹنے کے لیے واحد راستہ آپ کے پاس یہ تھا کہ آپ اس پر حملہ کریں۔
- اور تیسری بات یہ کہ جب آپ نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے جو فوری طور پر اقدام کیا، وہ اس خطرے کی مناسبت سے کیا۔ تناسب کا آپ نے خیال رکھا کہ جتنا خطرہ تھا، اس کو نیوٹرلائز کرنے کے لیے جتنی طاقت کی ضرورت تھی آپ نے اتنی ہی طاقت استعمال کی ہے۔ اگر جہاز کو تھوڑا نقصان پہنچا کر آپ اس کو روک سکتے تھے تو آپ اس کو نیاگرافال سے نیچے نہ گراتے، اب اس کو بالکل یکسر برباد نہ کر دیتے۔ یعنی آپ نے جو طاقت کا استعمال کیا ہے وہ تناسب اور ضرورت کی حدود کے اندر کیا ہے۔
اور آگے اس کے الفاظ ایسے ہیں جیسے اس نے کہیں اسلامی شریعت کا یہ قاعدہ پڑھا ہو کہ ’’الضرورۃ تقدر بقدرھا‘‘ ۔ اس نے کہا کیونکہ جب آپ ضرورت کا دعویٰ کر رہے ہیں تو ضرورت کو اس کی حدود کے اندر رکھنا لازم ہے۔ یہ اس کے الفاظ ہیں۔ تو آج بھی جب کوئی ریاست حقِ دفاع کی بات کرتی ہے تو وہ یہ تین پیرامیٹرز استعمال کرتی ہے: (۱) فوری نوعیت کا خطرہ تھا (۲) اور کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں تھا، طاقت اس وجہ سے استعمال کی (۳) اور ہم نے خطرے کی مناسبت سے استعمال کی ہے۔ رفال ہم نے گرائے، اور طیارے گرائے، اس لیے گرائے وغیرہ وغیرہ۔
دورانِ جنگ اور مابعد کے قوانین و اخلاقیات
اچھا یہ تو رہا قانون کا وہ پہلو جس کو آپ علت القتال کہتے ہیں۔ آداب القتال کی طرف آئیے، صبح سے آپ کے ساتھ اس پر کافی گفتگو ہوئی ہوگی کہ قانون کا ایک دوسرا شعبہ ہے جس کا اطلاق وہاں سے شروع ہوتا ہے جب جنگ شروع ہوتی ہے۔ جنگ کیسے شروع ہوتی ہے؟ پرانے زمانے میں یہ ہوتا تھا، اب نہیں ہوتا، دوسری جنگِ عظیم کے بعد مجھے کوئی ایسی مثال نہیں نظر آئی کہ جب باقاعدہ اعلانِ جنگ کر کے جنگ شروع کی گئی ہو۔ اعلان جنگ کی روایت ختم ہو گئی ہے لیکن قانون میں اب بھی لکھا ہوا ہے۔
قانونِ جنگ کا اطلاق اور دائرہ کار
جنیوا کنونشنز کا ذکر ہوا ہوگا، اس کی دفعہ دو میں یہ ہے کہ جب جنگ کا اعلان کیا جائے تو اس قانون کا اطلاق ہوگا۔ اعلان کوئی کرے نہ کرے وہ الگ بات ہے، لیکن جنگ کا اعلان اگر کسی نے کیا تو حالتِ جنگ شروع ہو گئی، جنگ کے قانون کا اطلاق شروع ہو گیا، چاہے ایک گولی بھی نہ چلائی جائے، چاہے ایک فوجی نے بھی قدم آگیا نہ بڑھایا ہو، لیکن جب اعلانِ جنگ ہو گیا تو قانونِ جنگ کا اطلاق شروع ہو گیا کیونکہ اب حالتِ جنگ ہے۔
اسی طرح چاروں جو جنیوا کنونشنز ہیں، ان کی جو مشترک دفعہ دو ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ ایک ریاست نے دوسری ریاست کے کچھ حصے کو قبضے میں لے لیا تو جب تک وہ قبضہ برقرار ہے تب تک حالتِ جنگ برقرار ہے، تب تک قانونِ جنگ کا اطلاق جاری رہے گا، چاہے اس جنگ کے خلاف مزاحمت ہو یا نہ ہو۔ اور جیسے میں نے ذکر کیا کہ اب تو اکثر اوقات اعلانِ جنگ نہیں ہوتا، قبضہ بھی نہیں کیا جاتا، لیکن طاقت استعمال کی جاتی ہے آپ کے ملک میں اور آپ کی مرضی کے خلاف۔ ایک تو یہ ہو گیا۔
بعض اوقات ایک ریاست کسی دوسری ریاست سے مدد مانگتی ہے اور پھر وہ ریاست اِدھر آ کر آپ کی مدد کرتی ہے ان لوگوں کے خلاف، وہ تو الگ بات ہے۔ لیکن کسی ریاست نے آپ کی حدود میں آکر آپ کی مرضی کے خلاف طاقت استعمال کی ہے تو یہ جنگ ہے۔ اور اس پر اب جنیوا معاہدات کا اطلاق ہوگا۔ کب تک ہوگا؟ جب تک جنگ برقرار ہے۔ البتہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی اس کا کچھ حصہ جاری رہتا ہے۔ جنگ کے خاتمے پر آپ نے مثال کے طور پر قیدیوں کو واپس کرنا ہے۔ ان کے قیدیوں کو آپ نے لوٹانا ہے، آپ کے قیدی جو ان کے پاس ہیں وہ لوٹائیں گے۔ آپ نے اگر کوئی علاقہ قبضے میں لیا ہے وہ آپ نے ان کو واپس کرنا ہے، جو انہوں نے قبضے میں لیا ہے وہ انہوں نے آپ کو واپس کرنا ہے۔ تو کسی نہ کسی حد تک جنگ کے بعد بھی اس کا اطلاق جاری رہتا ہے۔
جیسے ہم کہتے ہیں کہ انسان کی اہلیت زندگی کے ساتھ شروع ہوتی ہے، موت کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ جنین کی اہلیت ہوتی ہے، اس کے حقوق ہوتے ہیں لیکن وہ صرف ’’اہلیۃ الوجوب‘‘ ہے، پھر بچہ، پھر تھوڑی تھوڑی ’’اہلیۃ الاداء‘‘ شروع ہو جاتی ہے، پھر آخر بالغ ہو جاتا ہے تو اہلیۃ الاداء کامل ہو جاتی ہے۔ بعض عوارض کی وجہ سے ناقص ہو سکتی ہے، یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، جب مر جائے تو اہلیت ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن میت کے کچھ حقوق تو اس کے بعد بھی باقی رہتے ہیں نا، کفن دفن، وصیت وغیرہ۔ تو اسی طرح قانونِ جنگ کا اطلاق جنگ میں ہوتا ہے لیکن جنگ کے کچھ اثرات جنگ کے بعد بھی رہتے ہیں، تو کسی حد تک قانونِ جنگ کا اطلاق وہاں ہوتا ہے۔
جنگ میں جائز اور ناجائز کے حوالے سے تین سوالات کا جائزہ
اچھا، اب آداب القتال کا جو یہ قانون ہے، جنگ شروع ہو چکنے کے بعد، اس کے تحت جب ہم مختلف چیزوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سامنے چند بنیادی سوالات ہوتے ہیں، ان میں صرف تین سوالات کا ذکر کروں گا:
- ایک یہ کہ کون جنگ میں شریک ہو سکتا ہے، کون شریک نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے اس قانون نے کچھ شروط اور قیود رکھی ہیں، مقاتل کی حیثیت کے لیے، مثال کے طور پر باقاعدہ فوج کا حصہ ہو، اس کے پاس یونیفارم ہو وغیرہ وغیرہ، عام شہریوں سے اس کو ممیز کیا جا سکے۔ لیکن بعض اوقات وہ لوگ جن کو جنگ میں شریک ہونے کا قانون نے حق نہیں دیا، وہ بھی جنگ میں شریک ہو جاتے ہیں، کوئی عام شہری ہے اس نے بھی ہتھیار اٹھا لیا ہے، اب اس کا کیا کریں؟ تو جب تک اس نے وہ ہتھیار اٹھایا ہوا ہے تب تک وہ ایک جائز ہدف ہے، لیکن پکڑے جانے پر اس کی وہ غیر مقاتل والی حیثیت واپس لوٹ آتی ہے۔ تو پہلا بنیادی سوال یہ ہوا کہ جنگ میں کون شریک ہو سکتا ہے کون نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے جنیوا معاہدات اور دیگر متعلقہ قوانین کے تحت کچھ شروط اور قیود رکھی گئی ہیں۔
- دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ کس ہدف کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں نشانہ بنایا جا سکتا؟ بنیادی اصول یہ ہے کہ فوجی تنصیبات کو جنگ میں آپ نشانہ بنا سکتے ہیں، عام شہری آبادی کو آپ نے نقصان نہیں پہنچانا، حتی الامکان اس سے گریز کرنا ہے، شہری آبادی کو بھی، ہسپتالوں کو بھی، مساجد کو بھی، خوراک کے گوداموں کو بھی، ثقافتی ورثے کو بھی جنگ میں نقصان نہیں پہنچانا۔ اگر کریں گے تو یہ جنگ کے قانون کی خلاف ورزی ہے جرائم ہیں۔
- تیسرا سوال یہ ہے کہ جنگ کے لیے کون سا ہتھیار یا طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور کون سا نہیں۔ چونکہ بنیادی اصول ہم نے ابھی ڈسکس کیا کہ مقاتلین اور غیر مقاتلین میں فرق کرنا ہے، فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتے ہیں، عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنا سکتے، اس لیے ایسے ہتھیار استعمال نہیں کریں گے کہ جن کے اثرات کو محدود نہ کیا جا سکے۔ اگر آپ نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے بم استعمال کیے تو صرف فوجی ہی اس کی لپیٹ میں نہیں آئیں گے، عام شہری آبادی بھی اس میں تباہ ہو گی۔ تو اس وجہ سے ایسے ہتھیاروں سے گریز کریں، وہ ہتھیار استعمال کریں جن کو صرف فوجی ہدف تک محدود رکھا جا سکے۔ کئی طریقے ایسے ہیں جنگ کے جو ناجائز ہیں، مثال کے طور پر جنگ میں ایمبولنس پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک پہلو سے ہوا، لیکن دوسری جانب سے ایمبولنس کو جنگ کے لیے استعمال بھی نہیں کیا جائے گا کہ ایمبولنس میں جنگجو آ کر لوگوں پر حملہ کریں۔ ہسپتال کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، لیکن ہسپتال سے دوسرے فریق پر حملہ بھی نہ ہو۔ تو یہ دو طرفہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص عام شہری کے روپ میں آ کر دشمن پر حملہ کرتا ہے، اس کو بھی قانون ناجائز کہتا ہے، ایمبولنس میں آ کر دشمن پر حملہ کرتا ہے اس کو بھی، ICRC کا ریڈ کراس کا نشان استعمال کر کے دشمن پر حملہ کرتا ہے یہ بھی۔
ان ساری چیزوں کو قانون کی اصلاح میں Perfidy کہا جاتا ہے اور یہ جنگ میں ناجائز ہوتے ہیں۔
بنیادی اصول آپ کو بتا دیے گئے ہوں گے کہ جنگ میں بہت کچھ ایسا کام جائز ہو جاتا ہے فوجی ضرورت کے نقطۂ نظر سے، جو عام حالات میں ناجائز ہوتا ہے۔ عام حالات میں تو آپ کسی انسان کو قتل نہیں کر سکتے، زخمی نہیں کر سکتے، لیکن جنگ میں ظاہر ہے آپ دشمن کے فوجیوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن انسانیت کے حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے، تو جو آپ کے لیے خطرے کا باعث ہیں جو آپ پر حملہ کر رہے ہیں ان کو تو نشانہ بنائیں، لیکن جو آپ کو نشانہ نہیں بنا رہے جن کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ان کو نشانہ نہیں بنانا۔ طاقت کا استعمال آپ تناسب کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے کریں گے۔ اور حدود اور قیود مانیں گے یعنی یہ نہیں کہیں گے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ نہ جنگ میں اور نہ ہی محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ جنگ کا تو مجھے پتہ ہے، محبت کا سمیع الرحمان کو پتہ ہے کہ اس میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا۔
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کا جائزہ
اب آئیے اس سوال پر کہ یہ جو پاکستان اور بھارت کی موجودہ صورتحال ہے، اس ساری بحث کی روشنی میں ہمارے سامنے کیا سوالات آتے ہیں۔
تنازع کا آغاز کب سے؟
سب سے پہلے ہم پہلگام کے واقعے سے شروع کرتے ہیں۔ لیکن اس پر میرا سوال یہ ہوگا کہ پہلگام سے کیوں شروع کریں؟ بھئی پہلگام تو کشمیر کا حصہ ہے۔ اصل میں ہمارے ساتھ اس طرح کے موضوعات پر جب بحث ہوتی ہے تو جو کھیل کھیلا جاتا ہے وہ یہ کیا جاتا ہے کہ درمیان سے کہانی شروع کر دی جاتی ہے۔ شروع سے کیوں نہ شروع کریں کہ کشمیر پر بھارت کا جو قبضہ ہے وہ ناجائز ہے؟ اسی طرح جیسے غامدی صاحب کے داماد اور خود غامدی صاحب کہانی شروع کرتے ہیں غزہ میں 7 اکتوبر 2023ء سے۔ بھئی یہ 7 اکتوبر 2023ء سے کہانی نہیں شروع ہوئی، بہت پیچھے سے چلتی آرہی ہے۔ 1917ء میں انگریزوں نے ایک اعلان کیا تھا، بالفور نے وعدہ کیا تھا صیہونی تنظیم کے ساتھ کہ ہم یہاں یہودیوں کا قومی وطن بنائیں گے، پھر وہاں قبضہ کر کے ان کو لا کر بسانا شروع کیا۔ پھر آگے جائیں تو یہ بہت لمبی کہانی ہے۔ آپ 7 اکتوبر سے کیوں شروع کریں؟
اسی طرح یہاں پہلگام سے کیوں شروع کریں، اس وقت سے کیوں نہ شروع کریں جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا؟ کیونکہ ابھی ہم نے ڈسکس کر چکے ہیں کہ قبضہ ہو تو حالتِ جنگ برقرار ہے، اور حالتِ جنگ برقرار ہے تو قانونِ جنگ کا اطلاق جاری ہے، اور حالتِ جنگ ہے قبضہ ہے، تو قابض طاقت کے خلاف مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو مسلح مزاحمت کا حق ہے۔ وہ حق وہ استعمال کریں یا نہ کریں وہ الگ بات ہے۔ یہ حق بین الاقوامی قانون مانتا ہے۔
- کشمیر کے مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ جو الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے، ایک تو اس دستاویز کی صداقت ہی مشتبہ ہے، وہ جعلی دستاویز ہے۔ پھر اگر اسے مصدقہ مان بھی لیا جائے تو اس پر جس وقت مہاراجہ نے دستخط کیے اس وقت تو کشمیر پر اس کا کنٹرول ختم ہو چکا تھا، اِدھر مجاہدین تھے اُدھر بھارتی فوج داخل ہو چکی تھی، اور بھارتی فوج نے اس کے سر پر کھڑے ہو کر اس سے دستخط لیے، تو اس الحاق کی دستاویز کی قانونی حیثیت کیا ہوئی، کچھ بھی نہیں۔
- پھر جب معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہنچا تو خود نہرو نے اور بھارت کی حکومت نے مان لیا کہ ہم کشمیر میں رائے شماری کریں گے۔ رائے شماری کا کیا مطلب ہوا؟ کشمیریوں سے پوچھیں گے کہ آپ اِدھر شامل ہو رہے ہیں یا اُدھر شامل ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہوا کہ جو الحاق کی بات تھی وہ ختم ہو گئی، کیونکہ اگر آپ اس پر جمے رہتے تو پھر رائے شماری کی بات آپ نے کیوں مانی سلامتی کونسل میں؟ آپ کو تو کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ ان کا الحاق ہو چکا ہے۔
- 1957ء میں مقبوضہ کشمیر میں جعلی انتخابات کرا کے جعلی اسمبلی منتخب کرا کے وہاں سے قرارداد منظور کی دوبارہ کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی۔ معاملہ پھر سلامتی کونسل پہنچا، اقوام متحدہ نے پھر تین قراردادیں منظور کیں 120، 122، 124 اور کہا کہ یہ جو انتخابات ہیں اور یہ جو قرارداد ہے، یہ اس رائے شماری کا بدل نہیں جو آپ نے کرنے ہیں۔ تو الحاق تو ہوا ہی نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ قبضہ ہے۔ قبضہ ہے تو بھارت کو وہاں قابض طاقت کی حیثیت حاصل ہے۔
- 5 اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کی، جو اس کے آئین کے تحت خصوصی حیثیت تھی، اس کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ گویا کشمیر کو بھارت کے یونین میں زبردستی ضم کرنے کی کوشش ہے جو بین الاقوامی قانون کی رو سے ناجائز ہے۔
معاہدہ پیرس کی مثال ہم نے ذکر کی، اور اقوام متحدہ کے منشور کی، اور جنیوا معاہدات کی، ان سب کی رو سے قابض طاقت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کو اپنے ملک میں شامل کرے۔ اور مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو قابض طاقت کے خلاف مسلح مزاحمت کا حق حاصل ہے، لیکن دہشت گردی کا حق حاصل نہیں ہے۔ دہشت گردی کیا ہوتی ہے؟ آپ اِسے دہشت گردی کہیں گے، وہ اُسے کہیں گے، لیکن اتنی بات پر دنیا میں عمومی طور پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ عام شہریوں پر حملہ ناجائز ہے۔ تو اگر پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوا ہے تو اس حملے کو ہم جائز نہیں کہیں گے۔ بھارتی فوجوں پر اگر مقبوضہ کشمیر میں کہیں حملے ہوتے ہیں، اس کو ہم بھارت پر حملہ نہیں کہیں گے، اور اس کے متعلق ہم کہیں گے کہ مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو قابض طاقت کے خلاف مسلح مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ لیکن عام شہریوں کو، چاہے وہ مقامی ہوں چاہے غیر مقامی ہوں، سیاح ہوں، ان پر حملے کو ہم جائز نہیں کہیں گے۔
پہلگام حملوں اور مابعد کی صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟
لیکن اگلا سوال یہ ہے کہ اس حملے کے لیے ذمہ دار کون ہے؟ ایک تو آپ نے کہا، یہ ہم پر حملہ ہے۔ بھئی یہ آپ پر حملہ نہیں، یہ مقبوضہ علاقے میں حملہ ہوا ہے اور آپ اس کے لیے ذمہ دار ہیں، کیونکہ مقبوضہ علاقے میں امن کا قیام اور وہاں لوگوں کا تحفظ قابض طاقت کی ذمہ داری ہے بین الاقوامی قانون کی رو سے، اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں آپ ناکام رہے ہیں۔ یہ بنیادی بات اچھی طرح نوٹ کیجیے کہ پہلگام واقعہ کے لیے بین الاقوامی قانون کی رو سے کون ذمہ دار ہے۔ قابض طاقت، جس کی ذمہ داری تھی کہ اس کو روکے۔
پھر آپ کہتے ہیں، پاکستان نے کرایا۔ ثبوت کہاں ہیں؟ پاکستان نے تو کہا کہ آئیے غیر جانبدار کمیشن بٹھائیں۔ ثبوت پیش کریں ہم بھی بیٹھتے ہیں آپ بھی بیٹھیں۔ اس سے زیادہ ہم کیا کریں؟ اور بین الاقوامی قانون کی رو سے ریاست کو ذمہ دار قرار دینے کے لیے بھی کچھ اصول ہیں، State Responsibility اس کو کہتے ہیں۔
نکاراگوا اور امریکہ کی مثال
ایک مشہور کیس ہے۔ امریکہ کو ہر طرف پنگے لینے کی تو پرانی عادت ہے۔ نکاراگوا کی حکومت سے امریکہ کو پریشانی تھی، امریکہ نے وہاں کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے وہاں بغاوت کروائی، باغیوں کو اپنے علاقے میں ٹریننگ کروائی، پھر بارڈر پار کرواتے تھے، پھر وہ نکاراگوا میں حملے کرتے تھے، ان باغیوں کو کونٹرا کہتے تھے۔ اتنی بات طے تھی کہ کونٹرا کی تربیت امریکہ میں ہوتی ہے، امریکہ کرتا ہے، ان کو اسلحہ امریکہ مہیا کرتا ہے۔ بارڈر کراس کر کے البتہ آگے پھر امریکہ کا کنٹرول نہیں ہے، وہاں پھر وہ جو کرتے ہیں خود کرتے ہیں۔
تو بین الاقوامی عدالتِ انصاف، جو اقوام متحدہ کی عدالت ہے، اس کا فیصلہ ہے نکاراگوا بنام امریکہ، وہ عدالت اس پورے مقدمے کو انتہا تھا تو نہیں پہنچا سکی لیکن جو ابتدائی فیصلہ اس نے سنایا تھا اس میں یہ اصول طے کیا تھا کہ اگر آپ ان افراد کی کارروائی کے لیے اس ریاست کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں تو آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ یہ افراد اس ریاست کے مؤثر کنٹرول میں تھے۔ Effective Control کے الفاظ وہاں استعمال ہوئے ہیں۔ یہ ٹیسٹ ہے، اگر یہ ثابت کیا جائے کہ یہ افراد جنہوں نے کاروائی کی یہ اس ریاست کے مؤثر کنٹرول میں تھے پھر آپ اس ریاست کو ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں اس کے بغیر نہیں۔ لیکن بھارت نے تو یہ سب کچھ کیے بغیر ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کی معطلی کا اعلان کیا، جیسے وہ تو تاک لگائے بیٹھا ہو کہ کوئی بہانہ ملے تو ہم سندھ طاس معاہدہ کو معطل کر لیں تاکہ ہم پاکستان کا پانی روک سکیں۔
بھارت کی طرف سے ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کی معطلی کا معاملہ
سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں ہوا تھا، پانی کا جھگڑا پہلے سے چل رہا تھا تقسیم کے وقت سے۔ اس میں بھی انگریزوں نے دونمبری کی تھی، وہ جو انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے لیے کمیشن ریڈ کلف کی سربراہی میں بنایا تھا، اس نے اصولوں سے انحراف کر کے دو ضلعے بھارت کو دیے تھے: گرداسپور اور فیروزپور۔ پنجاب اور بنگال کو تقسیم کیا جا رہا تھا، تو اصول یہ طے پایا تھا کہ جس ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت ہو وہ پاکستان میں ہو گا، اور اگر ہندوؤں کی غیرمسلموں کی ہے تو انڈیا میں۔ لیکن فیروزپور اور گرداسپور میں انہوں نے ضلع کے بجائے تحصیلوں کا کام شروع کیا کہ تحصیلوں کو تقسیم کریں گے۔ جس تحصیل میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ اِدھر، جس میں اُن کی اکثریت ہے وہ اُدھر۔ اس طرح انہوں نے یہ جو بڑے دریا تھے ان کے ہیڈ ورکس کیونکہ فیروزپور میں تھے، وہ ان کو دے دیے۔ ایک تو دریاؤں پر کنٹرول دے دیا، پھر ان دو ضلعوں کے ذریعے بھارت کو کشمیر میں فوجیں داخل کرنے کا موقع بھی ملا، ورنہ کشمیر تک براہ راست بھارت کی فوجیں داخل ہونے کا کوئی زمینی راستہ ہی نہیں تھا۔
اس وقت سے یہ جھگڑا چل رہا تھا۔ 1960ء میں معاہدہ ہوا، کیا کچھ اس میں ہمارے فائدے کا تھا کیا نقصان کا تھا وہ الگ بات، لیکن ایک سلسلہ چل پڑا۔ اس معاہدے کی بہت ساری خلاف ورزیاں بعد میں بھی ہوتی رہی ہیں، کئی کئی ڈیم انہوں نے تعمیر کیے جس کی اجازت اس معاہدے میں نہیں تھی۔ اب وہ چونکہ ہمارا مزید بیڑا غرق کرنا چاہتا ہے تو اس نے معاہدے کے معطلی کا اعلان کیا۔ قانوناً اس معاہدے کو معطل نہیں کیا جا سکتا تھا- معاہدات کے متعلق معاہدہ، اس کو کہتے ہیں Vienna Convention on the Law of Treaties، قانونِ معاہدات کے متعلق میثاقِ ویانا، اس میں یہ اصول طے پایا ہے کہ ہر معاہدے میں پہلے اس کے اندر دیکھا جائے گا کہ کیا کچھ وہاں طے پایا ہے۔ اگر اس میں معاہدے کی معطلی کا ذکر ہے تو ٹھیک، نہیں ہے تو نہیں۔ اگر اس میں معاہدے کے خاتمے کا کوئی مخصوص طریقہ بتایا گیا ہے تو ٹھیک ورنہ نہیں۔
سندھ طاس معاہدہ میں یہ قرار دیا گیا ہے، دونوں فریقوں نے طے کیا ہے کہ ایک پاکستان کا انڈس واٹر کمشنر ہوگا، ایک بھارت کا انڈس واٹر کمشنر ہوگا، اگر کوئی تنازعہ ہوگا یہ دونوں کمشنر بیٹھ کر اس تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر ان سے نہیں ہوا تو پھر اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ پھر Court of Arbitration بنائی جائے گی، ثالثی عدالت بنائی جائے گی، ثالث پھر فیصلہ کریں گے۔ اس سے آگے کے متعلق معاہدہ خاموش ہے۔ لیکن میثاقِ ویانا کا یہ کہنا ہے اور دیگر اصولوں کی بنیاد پر کہ اگر پھر بھی تنازعہ حل نہ ہو تو آپ مثال کے طور پر بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں جا سکتے ہیں، آپ کا اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی، یا سکیورٹی کونسل، یا دیگر فورمز کو استعمال کر سکتے ہیں، جنگ تو بہت دور کی بات ہے۔
پھر یہ کہ اگر اس معاہدہ میں کوئی مسئلہ ہوا ہو تب کمشنر بیٹھیں گے، ثالثی عدالت ہوگی، کوئی اور طریقہ ہوگا۔ لیکن یہ جو مسئلہ ہے کہ پہلگام میں یہ ہوا۔ بھئی اس کا اس معاہدے کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یعنی یہ معاہدہ تو پانی کی تقسیم کے متعلق ہے نا، تو اگر پانی کی تقسیم کا کوئی مسئلہ ہوتا تو پھر ہم سوچتے کہ کیا کریں۔ ایک واقعہ ہوا، کس نے کیا ابھی وہ بھی متعین نہیں ہوا، لیکن جس نے بھی کیا، اُس کا اِس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ جس کی بنا پر آپ اس معاہدے کو معطل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے ’’شملہ معاہدہ‘‘ کی معطلی کا امکان
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت ہے، یعنی فوجی حملہ تو جارحیت کی ایک قسم ہے، یہ 25 کروڑ انسانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس لیے یہ جارحیت ہے۔ اور اس لیے اس کے خلاف ہمیں حقِ دفاع حاصل ہے۔ دو ہفتے یا دس دن پہلے میں کہہ چکا ہوں، لکھ چکا ہوں، الیکٹرانک میڈیا پر بھی، پرنٹ میڈیا پر بھی، سوشل میڈیا پر بھی، کہ پاکستان کے پاس حقِ دفاع ہے۔ بھارت حملہ کرے یا نہ کرے، پاکستان اب بھارت کے خلاف اقدام کرنے کا حق رکھتا ہے۔ لیکن پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور یہ کہا کہ ہم ’’شملہ معاہدہ‘‘ کو معطل کر دیں گے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ شملہ معاہدے کی معطلی سے کیا ہو گا؟ بھئی شملہ معاہدے نے تین کام کیے ہیں، زیادہ کچھ نہیں:
- ایک یہ کہ جو کشمیر میں لائن کھینچی گئی ہے، پہلے اس کا نام تھا ’’سیزفائر لائن‘‘ جس کو ہمارے کشمیری بھائی ’’لکیرِ متارکہ‘‘ کہتے تھے، جنگ بندی کی لکیر۔ شملہ معاہدے میں بھارت کے اصرار پر اس کا نام تبدیل کر کے ’’لائن آف کنٹرول‘‘ کر دیا ہے، تسلط کی لکیر۔ بیوقوفی کی بات ہے لیکن بھارت نے کر دیا۔ لائن آف کنٹرول میرے نزدیک انتہائی نامعقول ترکیب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اِدھر کے کشمیریوں کو کنٹرول کر رہے ہیں اور وہ اُدھر کے کشمیریوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ تو اگر شملہ معاہدہ ختم ہو جائے تو یہ واپس سیزفائر لائن کہلائے گی، جنگ بندی کی لائن۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جنگ پوری طرح تو ختم نہیں ہوئی، صرف ہم نے یہاں جنگ روک لی ہے۔ اور قانونی پوزیشن یہی درست ہے کیونکہ یہ تو مقبوضہ علاقہ ہے، جب تک کشمیری خود اس کا فیصلہ نہ کریں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق۔
- دوسرا کام اس معاہدے نے یہ کیا کہ کچھ علاقے جو 1971ء سے پہلے ہمارے پاس تھے وہ اب بھارت کے پاس چلے گئے، چند ہی ہیں بہت زیادہ نہیں ہیں، لیکن ایک فرق یہ بھی ہوا ہے۔
- اور تیسرا فرق یہ ہوا ہے، اگرچہ ہم اس کو نہیں مانتے، بھارت کا کہنا یہ ہے کہ اس معاہدے میں چونکہ ہم نے یہ طے کیا ہے، کشمیر کا نام تو نہیں لیا، لیکن تمام تنازعات ہم دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے، تو اب اقوام متحدہ کی قراردادیں غیر متعلق ہو گئی ہیں۔ وہ غیر متعلق نہیں ہیں، وہ اب بھی فیلڈ میں ہیں، کیونکہ اسی معاہدے میں ہم نے کہا ہے کہ دونوں فریق اقوام متحدہ کے منشور اور اس کے اصولوں کے پابند ہیں، اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ جو لائن آف کنٹرول ہے اس میں کوئی تبدیلی یکطرفہ طور پر کوئی فریق نہیں لائے گا، اور یہ بھی کہا ہے کہ اس لکیر اور اس تنازعہ کے متعلق جس فریق کی جو بھی قانونی پوزیشن ہے وہ اس سے متاثر نہیں ہوگی۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو لوگ برا بھلا کہتے ہیں، کچھ اچھا بھی کہتے ہیں، لیکن اس معاملے میں تو میں ان کو بہت ہی اچھا کہتا ہوں کہ ہم بہت ہی کمزور پوزیشن پر تھے، اس کے باوجود یہ معاہدہ کرتے ہوئے انہوں نے بڑی حد تک پاکستان کے مفادات کا تحفظ کیا ہے، کشمیر پر پوزیشن کو محفوظ رکھا ہے۔
بہرحال اب آپ کے پاس موقع ہے، اگر انہوں نے انڈس واٹر ٹریٹی معطل کی، آپ شملہ معاہدے سے نکلنے کا اعلان کریں۔ میں 5 اگست 2019ء کے بعد لکھ چکا ہوں، بول چکا ہوں کہ شملہ معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر لیں، اس کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، بھارت اس پر تلملائے گا، اور جنگ میں بہت سارے کام ایسے کیے جاتے ہیں جو ’’نکایۃ للعدو‘‘ کیے جاتے ہیں، دشمن کو تڑپانے کے لیے کیے جاتے ہیں، تو کرنا چاہیے۔
حالیہ تصادم میں بھارت کی جانب سے خلاف ورزیاں
آخری بحث تک ہم پہنچ گئے ہیں۔ بھارت کے حملے میں علت القتال کے قانون کی بھی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اور آداب القتال کی خلاف ورزیاں بھی ہوئی ہیں۔ ہم پر بغیر کسی سبب کے اس نے حملہ کیا، یہ علت القتال کی خلاف ورزی ہوئی۔ حملے میں اس نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا، معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا، یہ آداب القتال کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کیا کر سکتا ہے؟ وہ سب کچھ جو جنگ میں کیا جاتا ہے، کیا جانا چاہیے، یعنی جنگ کے قانون کے تحت۔ پاکستان نے اب تک اس تحمل کا مظاہرہ کیا ہے کہ جو کچھ بھی کیا ہے وہ جنگ کے قانون اور قاعدے اور ضابطے کے مطابق کیا ہے، اس میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ
- کب حملہ کرنا ہے؟ ایسے وقت میں جب عام شہریوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال کم سے کم ہو۔
- کس ہدف کو نشانہ بنانا ہے؟ اس ہدف کو جس میں عام شہریوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال کم سے کم ہو۔
- کیسے کرنا ہے؟ ایسے کرنا ہے کہ وہ بھی حیران رہ جائیں۔ اور ایسے کرنا ہے کہ عام شہریوں کو نقصان کم سے کم ہو۔
اور آج تو پاکستان کے شاہینوں نے جس طرح کا کام کیا ہے، اس پہ تو اب آگے کئی عشرے بلکہ شاید کئی سو سال تک لوگ تبصرے کرتے رہیں، وللہ الحمد۔
ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان ان کے ڈیموں پر حملہ کر سکتا ہے؟ اصولاً نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ڈیم جب آپ تباہ کرتے ہیں تو اس کی تباہی بہت بڑے پیمانے پر پھیل جاتی ہے، اس کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے، اس میں صرف فوجی تنصیبات ہی نہیں، اس میں عام شہری بھی نقصان اٹھاتے ہیں اور بہت بڑا نقصان اٹھاتے ہیں، اور اس کا نقصان صرف بھارت تک ہی محدود نہیں رہے گا اِدھر بھی بہت زیادہ ہوگا۔ اس وجہ سے جنگ کے قانون کی رو سے اصولاً ڈیموں کو نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن جس طرح کے انتہائی کینہ پرور اور انتہائی کمینے دشمن سے پاکستان کو واسطہ پڑا ہے اس کو باز رکھنے کے لیے شاید، اللہ نہ کرے، اس حد تک ہمیں جانا پڑے، کیونکہ اس کے بغیر بعض اوقات اس کی سمجھ میں چیز آتی نہیں ہے۔ جیسے کل تک ان کی زبان کچھ اور تھی، بلکہ رات تک اس کی زبان کچھ اور تھی، صبح کے حملوں کے بعد اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مزید اس اشتعال کو بڑھاوا دینا نہیں چاہتے۔ نہیں چاہتے تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر وہ آخری حد تک جائیں گے، تو جہاں ہمارا وجود خطرے میں پڑے تو وہاں بین الاقوامی قانون کی رو سے ہم وہ تمام اقدامات اٹھا سکتے ہیں جو اپنے تحفظ اور بقا کے لیے ہمارے اوپر لازم ہیں۔
ویبسٹر کا جو خط تھا اس میں تین شرطیں ذکر کی گئی تھیں: (۱) فوری خطرہ ہو (۲) سوائے حملے کے ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہ ہو (۳) اور حملہ کرتے ہوئے ہم نے تناسب اور ضرورت کی حدود پامال نہیں کی ہیں۔ اگر بالکل آخری فرضی صورتحال لے آئیں ذہن میں، بالکل آخری حد آ جائے کہ نیوکلیئر ہتھیار استعمال کیے بغیر ہم خود کو نہ بچا سکیں، تو ظاہر ہے وہ ہتھیار ہم نے میوزیم میں رکھنے کے لیے تو نہیں بنائے، ہم کبھی بھی اسے استعمال نہیں کرنا چاہیں گے، نہ کسی اور کے متعلق ہم کہیں گے کہ ان کو استعمال کرے، لیکن اگر کوئی کرنے پر آئے تو آخری حد کے طور پر، بالکل آخری قدم کے طور پر، قانون اس کے استعمال سے ہمیں نہیں روکتا۔ ھذا ما عندی والعلم عند اللہ۔