دوستو، نمسکار! امریکی صدر نے ایران کے سپریم لیڈر سے کہا ’’سرنڈر کر دو!‘‘۔ ایران کے سپریم لیڈر نے امریکی صدر کو جواب دیا "سرنڈر بالکل نہیں، اور اگر اس جنگ میں امریکہ کودا تو پھر اس کے ایسے نتائج ہوں گے جس کی بھرپائی کبھی نہیں ہو پائے گی‘‘۔
اور انہی حالات کے بیچ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو جس طاقت کے ساتھ لگاتار تہران پر میزائل داغتے چلے گئے، اس کے بعد وہ بھی سمجھ گئے کہ دراصل ان کے ہتھیاروں کی صلاحیت اتنی وسیع، اتنی بڑی یا اتنی تیز نہیں ہے کہ ایران کو ہرا سکے، اس کے لیے امریکہ کی ضرورت پڑے گی ہی، کیونکہ جن میزائلوں کے ذریعے پہاڑوں کو چیرا جا سکتا ہو جہاں پر ایٹمی پلانٹ پہاڑوں کے نیچے زمین کے اندر موجود ہیں، وہاں تک پہنچ پانا اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور اس کے ہتھیاروں کے سہارے ممکن نہیں ہے۔
تو کیا واقعی جنگ کی شروعات کے وقت کوئی طے نہیں کر پاتا ہے کہ جنگ ختم کیسے ہوگی؟ اور اس وقت کم از کم اسرائیل اور ایران کی یہ جنگ اس موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں ہر وہ ملک ایک بحران/مشکل کا شکار ہے جو اس جنگ میں شامل ہے، یا جو جنگ میں شامل ہونے کے راستے بنانا چاہ رہا ہے۔ اور سب سے بڑا بحران تو امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے ہی ہے:
- ایک طرف ان کی ہر بات کا جواب آج ایران کے سپریم لیڈر نے دے دیا،
- دوسری طرف امریکہ کے اندر یہ سوال بڑا ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جو انتخابی مہم کے وقت ٹرمپ خود کہتے ہوئے آئے کہ مشرق وسطیٰ کے اندر جس طریقے سے جنگ ہوتی ہے، اس بے عقل جنگ میں وہ کبھی نہیں گھسیں گے اور جنگ میں اب امریکی فوج کو نہیں جھونکیں گے۔
لیکن ایک دم جس طریقے سے جی سیون کی میٹنگ درمیان میں چھوڑ کر (وہ چلے گئے اور) واشنگٹن اور وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر جو غور و فکر ہوا، ان حالات میں ریپبلکن پارٹی کے اندر سے ہی باقاعدہ طور پر یہ سوال اٹھنے لگ گئے ہیں کہ آپ یونہی امریکہ کو جنگ میں نہیں جھونک سکتے۔ یہاں تک کہ کانگریس کے اندر ایک قرارداد لائی گئی ہے، ایک بل تک ریپبلکن سینیٹر نے پیش کر دیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ دراصل اس راستے پر امریکہ کو نہیں جانا چاہیے۔ اور آپ کو اگر جانا ہے تو پہلے کانگریس کی ووٹنگ ہوگی، اس میں اگر طے ہوتا ہے تبھی آپ اس سمت میں جا سکتے ہیں۔ تو سوال ڈیموکریٹس کا تو نہیں، سوال تو ریپبلکنز کا ہے جس کے لیڈر ٹرمپ ہیں، جو امریکہ کے صدر ہیں۔
اور ان حالات میں جب ایران کھلے طور پر اب امریکہ کو خبردار کر رہا ہے تو اسرائیل اس بات کو سمجھ رہا ہے کہ اگر امریکہ جنگ میں نہیں آیا تو یہ جنگ نہ صرف لمبی چلے گی بلکہ اس کی اپنی حالت نازک ہوتی چلی جائے گی۔ ہمارے خیال میں پہلے آپ یہ بات دیکھیں کہ جنگ میں شامل ہونے کے حوالے سے ریپبلکنز کے اندر کس طرح سے ہچکچاہٹ کی صورتحال موجود ہے۔ اس کی تمام رپورٹس، چاہے وہ ٹیلی گراف میں بڑے بڑے ممبران پارلیمنٹ کے تبصروں کی صورت میں ہو، چاہے وہ بی بی سی کی رپورٹ ہو، چاہے وہ اکانومسٹ کی رپورٹ ہو، چاہے وہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ ہو، ہر جگہ پر یہ سوال نمایاں ہو گیا ہے کہ ٹرمپ من مانی کر کے اسرائیل اور ایران کی جنگ میں بالکل بھی نہیں کود سکتے، جب تک کہ آئین کے مطابق اس پر کانگریس کی مہر نہ لگ جائے اور امریکہ کے اندر اتفاقِ رائے نہ بن جائے۔ اور اس معاملے کو لے کر امریکہ میں پوسٹر تک نکال دیے گئے ہیں کہ اب ہم اور کسی جنگ میں نہیں جائیں گے۔
دراصل ان رپورٹس نے اسرائیل کے بھی ہوش اڑا دیے ہیں۔ اگر واقعی ٹرمپ کو ریپبلکن پارٹی کے اندر ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور اب کانگریس کے اندر اٹھتے ہوئے سوالوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی جنگ سے روکنے کا عمل تیز ہو گیا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ ایک بل لایا جا چکا ہے، تو اب ہوگا کیا؟ دراصل ان رپورٹس میں بہت صاف ہے کہ جنگ میں کودنے سے پہلے کانگریس کی رضامندی ضروری ہو جائے گی۔ انتخابات میں ٹرمپ نے ہی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں نہ کودنے کا اعلان کیا تھا۔ اور باقاعدہ ریپبلکنز پارٹی کے لیڈر ممبر تھامس میسی نے پارلیمنٹ میں کہا ہے: ’’یہ ہماری جنگ نہیں ہے، لیکن اگر ہماری ہوتی بھی، اگر ایسا دکھائی دے رہا ہے تو بھی آئین کے مطابق آغاز کرنا ہوگا۔‘‘ اور ایک آزاد خیال نظریے کے طور پر یا کہیں کنزرویٹو لیڈر کے طور پر میسی کی پہچان ضرور ہے، لیکن انہوں نے ایک آج ہی ایک بیان جاری کیا ہے کہ ’’میں جنگ میں شامل ہونے پر پابندی لگانے کی قرارداد پیش کر رہا ہوں، دو ملکوں کی جنگ میں امریکہ کیوں شامل ہو؟‘‘
اس میں دوسری سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور ڈیموکریٹس کے ممبر پارلیمنٹ بھی، لیکن سنیٹر ٹم کین نے کہا ہے کہ دراصل ایوان بالا میں جو جنگی اختیارات کا اپنا بل وہ پیش کر رہے ہیں، اس میں کانگریس میں بحث ہونی چاہیے، ووٹنگ ہونی چاہیے، تاکہ ایرانی حملوں سے بچاؤ کے علاوہ اسرائیل-ایران تنازعہ میں امریکہ اگر داخل ہوتا بھی ہے تو اس میں آئینی منظوری ہونی چاہیے، بغیر اس کے ممکن نہیں۔ اور انہوں نے بھی ایک قرارداد جاری کی اور ایک بیان میں کہا کہ ’’یہ قرارداد اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اگر ہم اپنے ملک کی باوردی فوج کے مرد اور خواتین کو خطرے میں ڈالنے کا فیصلہ لیتے ہیں تو اس پر کانگریس میں بحث ہونی چاہیے، اور اس بحث کے بعد جو فیصلہ ہو اس میں ووٹنگ بھی ہونی چاہیے، کیونکہ ہم افغانستان میں دیکھ چکے ہیں، عراق میں دیکھ چکے ہیں، اس طرز پر امریکہ کو جنگ میں نہیں جھونکا جا سکتا ہے‘‘۔
ریپبلکن پارٹی کے میسی نے تو صاف طور پر کہا کہ ٹرمپ نے ایرانی شہریوں کو تہران فوراً خالی کرنے کی تنبیہ دے ڈالی ہے، جی سیون کی میٹنگ چھوڑ کر فوراً وہ واپس امریکہ پہنچ گئے، وائٹ ہاؤس میں میٹنگ کی۔ اور وہاں سے بھی جو دو رد عمل آئے اس میں:
- ایک طرف وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ کہتی ہیں کہ ’’مشرق وسطیٰ میں جو چل رہا ہے اس کی وجہ سے امریکی صدر کو جی سیون بیچ میں چھوڑ کر آنا پڑا‘‘،
- لیکن وائٹ ہاؤس کے ترجمان ایلکس ویفر کہتے ہیں کہ ’’امریکہ نے ایران پر حملہ نہیں کیا ہے، امریکی فوج اپنی دفاعی حالت برقرار رکھے ہوئے ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے‘‘۔
یعنی پیغام ابھی بھی کشمکش والا ہے، الجھن والا ہے۔ اس کشمکش کے اندر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اب اسرائیل کے حوالے سے کیا ہوگا؟ کیونکہ انتخابی مہم کے پرانے پمفلٹ نکل چکے ہیں جن میں اس کا بھی اعلان ہے کہ بے وقوفانہ اور نہ ختم ہونے والی جنگوں کے خلاف امریکہ مشرق وسطیٰ کی جنگ میں نہیں جائے گا، اور اس کا بھی ذکر ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہو سکتے۔ اور اب امریکہ کو جنگ میں دھکیلنے کے معاملے میں قدامت پسند اور ایگریسو پارٹی کے لیڈر بھی بٹے ہوئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، باقاعدہ اس بات کا کھلے طور پر ریپبلکنز ذکر کرنے لگے ہیں کہ ’’ہم مشرق وسطیٰ میں استحکام کو جلد از جلد بحال کر دیں گے اور ہم دنیا کو امن کی طرف واپس لے آئیں گے، اس کے لیے جنگ کرنا اور جنگ میں کودنا کہاں تک صحیح ہے؟‘‘
سوال یہیں نہیں رک رہے، سوال اس سے آگے ہے کہ جی سیون سے آپ جس طرز پر واپس لوٹے اور وائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں جب آپ نے اپنے سیکیورٹی ایڈوائزرز کے ساتھ میٹنگ کی تو اس میں بھی یہ سوال اٹھے کہ اسلامی جمہوریہ (ایران) کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے میں مدد کرنے پر جو غور و فکر ہوگا، اس میں ایک طرف تو یہ مان لیا گیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس نہیں ہو سکتا ہے، دوسری طرف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) اس کی لگاتار مخالفت کرتی رہی ہے کہ کسی بھی ملک میں جوہری پلانٹس پر حملہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسرائیل نے یہ حملہ کیا جس کی آئی اے ای اے نے مخالفت کی۔
امریکہ اس حوالے سے کیا کرے گا؟ اس بارے میں کنزرویٹو ریپبلکنز کی طرف سے جو بل سامنے آیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ کانگریس کی منظوری کے بغیر ایران کے خلاف جنگ میں ٹرمپ نہیں اتر سکتے ہیں کیونکہ ’’یہ ہماری جنگ نہیں اور اگر یہ ہوتی تو بھی کانگریس کو ہمارے اپنے آئین کے مطابق ایسے معاملات پر فیصلہ لینا ہی ہوگا، کیونکہ امریکہ جنگ سے دور ہو چکا ہے‘‘۔ اور ماضی کی تمام باتیں جس ’’امریکہ فرسٹ ٹرسٹ‘‘ کے نعرے کے تحت ٹرمپ نے پورا الیکشن جیتا وہ ایک جھٹکے میں دھندلا جائے گا۔ اس میں غیر قانونی تارکین وطن کا معاملہ ہے، اور اس میں یہ بھی معاملہ ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن میں جو غیر ملکی حملہ آور ہیں، جو کچھ لاس اینجلس میں ہوا، اس کی وجہ سے ساری چیزیں پٹڑی سے اتر جائیں گی۔ ٹرمپ کے جو باقاعدہ سیاسی حکمتِ عملی ساز تھے اسٹیو بینن، انہوں نے لکھا کہ ’’دراصل ڈیپ اسٹیٹ کو، امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ میں دھکیلنے کی اجازت دینے سے ٹرمپ حامیوں کا اتحاد ختم ہو جائے گا، اور اگر ہم اس جنگ میں پھنس جاتے ہیں تو لازمی طور پر جنگ کے حالات کے حساب سے ہمیں چلنا پڑے گا اور باقی سارے مسائل ثانوی حیثیت اختیار کر جائیں گے‘‘۔
ٹرمپ کے سامنے یہ چیلنج ہے۔ ایسے میں نائب صدر جے ڈی وینس سامنے آئے، انہوں نے کہا کہ ’’دراصل ایران کے اندر جو یورینیم کی افزودگی ہے اس کو ختم تو کرنا ہی چاہیے اور اس کے خلاف کارروائی تو ہونی ہی چاہیے کیونکہ گزشتہ 25 سال سے جو خارجہ پالیسی امریکہ کی رہی‘‘، جے ڈی وینس نے اس کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے کہ ’’وہ بے وقوفانہ خارجہ پالیسی چل رہی تھی، اور جو لوگ اس وقت ٹرمپ کے ساتھ نہیں کھڑے نظر آ رہے ہیں وہ دراصل وہ گزشتہ 25 برس کی خارجہ پالیسی سے متاثر ہیں‘‘۔ اسی لیے جے ڈی وینس نے آگے اپنے بلاگ میں بھی لکھا کہ ’’حالیہ دنوں میں ایسے اشارے ملتے ہیں کہ ٹرمپ کے ووٹرز ایران پر حملہ کرنے اور اسرائیل کی مدد کرنے میں امریکہ کی بڑے پیمانے پر حمایت کریں گے‘‘۔ یعنی انہوں نے اس راستے کو اپنایا جو ٹرمپ جس راستے پر چل رہے ہیں۔
سوال اس ساری صورتحال میں یہی ہے کہ ایسے میں اب امریکہ جس راستے پر نکل پڑا ہے اس میں اس کے سامنے متبادل کیا ہو گا؟ یہ سوال اس لیے بڑا ہے کیونکہ جنگ میں اگر امریکہ نہیں کودتا ہے تو پھر اسرائیل کے لیے حالات کیسے آسان کیے جا سکتے ہیں؟ تو اس کے چار پانچ وہاں کے سیکیورٹی ایڈوائزر اور امریکہ کے اندر کے ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے (مشرق وسطیٰ میں) جو فوجی ٹھکانے ہیں وہ اسرائیل کے لیے کھولنے چاہئیں، فضا میں جہازوں کو تیل سپلائی کی سہولت دینی چاہیے، بی ٹو بمبر سسٹم اس علاقے میں ہونا چاہیے، سکستھ اسٹیلتھ بمبرز جو کہ ڈیاگو گارشیا سے مئی کے مہینے میں لوٹ آئے تھے ان کی دوبارہ تنصیب وہاں ہونی چاہیے، یعنی ٹینکر ہے، فائٹر ہے، سیکنڈ کورئیر ہے، سب کی تنصیب آپ کریں۔
اگلا سوال یہیں سے کھڑا ہوتا ہے کہ ایسے میں ایران کا ردعمل کیا ہو گا۔ اور آج ہی باقاعدہ قومی میڈیا کے ذریعے وہاں پر سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا قوم کے نام پیغام پڑھا گیا۔ اس میں جو پیغام تھا اس میں انہوں نے صاف کہا امریکہ سے ’’امریکہ سن لے، ہم سرنڈر نہیں کریں گے‘‘۔ اور خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا نام لیا اور کہا کہ ’’اگر اسرائیل کے خلاف جنگ میں امریکی فوج نے مداخلت کی تو انجام برا ہوگا‘‘۔
دراصل اس صورتحال کے دوران اسرائیلی حملے کے بارے میں ایران کے اپنے مشن کے اہلکار بھی گھوم رہے ہیں جو بتا رہے ہیں کہ دراصل ایران پر حملہ اسرائیل نے بے وقت اور بغیر کسی وجہ سے کر دیا ہے، اور جو جوہری یا یورینیم کی افزودگی کا سوال ہے اس پر تو امریکہ سے بات ہو ہی رہی تھی۔ وہ بھارت میں بھی پہنچے ہیں اور بھارت میں جو (ایران کے) ڈپٹی چیف آف مشن آف انڈیا ہیں محمد جاوید حسینی صاحب، ان سے یہ سوال کیا گیا کہ دراصل اس دور میں سوال ایک ہی ہے کہ ’’کیا آپ ایٹمی بم بنا لیں گے؟‘‘ تو اس پر کیا جواب آیا؟
’’ہم مذاکرات کی میز پر تھے، یہ امریکہ ہی ہے جس نے اسرائیلیوں کو ایران کے خلاف ان فوجی حملوں کی ہری جھنڈی دی، جھوٹے الزام کی بنیاد پر، بہت سارے الزامات لگائے لیکن کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لیکن اگر کسی قسم کے الزامات ہیں تو اسے کسی ایسے طریقہ کار سے گزرنا چاہیے جس پر اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے نے غور کیا ہو۔ لیکن انہوں نے ہر چیز بائی پاس کی اور امریکیوں کی مدد سے ان مذاکرات کو تباہ کر دیا۔‘‘
یہ واقعی بڑا اہم ہے کہ اپنے مشن کے ذریعے دنیا کے الگ الگ ممالک میں ایران اس بات کا ذکر کر رہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تو جوہری ہتھیاروں کے بارے میں بات چیت چل ہی رہی تھی، اس سب کے دوران یہ حملہ کیوں ہوا؟ اور دوسری طرف باقاعدہ ایران کے نیشنل ٹی وی پر جو پریزنٹر نے خامنہ ای کا پیغام ایران کی عوام کے نام اور دنیا کے لیے پڑھا اس میں صاف طور پر کہا گیا ’’جو لوگ ایران کی تاریخ جانتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ ایران کسی بھی دھمکیوں سے نہیں جھکتا۔ اسرائیل نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اسے اس کی سزا ملے گی۔ ایران تھوپی گئی امن یا جنگ کو نہیں مانے گا‘‘۔
اب جبکہ یہ جنگ کی صورتحال ہے تو اس کے بعد ایران کی طرف سے باقاعدہ اسرائیل پر 25 میزائل داغے بھی گئے، جبکہ اس سے پہلے ہر کوئی جانتا ہے کہ ٹرمپ نے سرنڈر کرنے کی بات کہی تھی وہ بھی غیر مشروط سرنڈر۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ ’’ایران کے آسمان پر ہمارا قبضہ ہے، ہم جانتے ہیں سپریم لیڈر کہاں چھپا ہے لیکن ہم اسے ماریں گے نہیں‘‘۔
یہاں پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہونی چاہیے کہ ایران کے سپریم لیڈر دراصل کن حالات سے نکل کر سپریم لیڈر بنے اور ان کا ماضی کس طریقے سے امریکہ کے ساتھ مخاصمت سے عبارت ہے۔ کیونکہ خامنہ ای نے شروعات جو کی تھی وہ عالم بننے کے ساتھ کی تھی۔ 1939ء میں مشہد جو کہ ایک مقدس شہر ہے وہاں ان کا جنم ہوا تھا۔ اور 1950ء میں شیعہ کے اہم تعلیمی مرکز قم میں جا کر انہوں نے مذہبی تعلیم حاصل کی اور عالم بن گئے۔ اگر اس دور کو آپ پرکھیں اور اس پر دھیان دیں تو اس وقت باقاعدہ سی آئی اے یعنی امریکی خفیہ ایجنسی اور برطانیہ دونوں نے مل کر وہاں پر تختہ پلٹ کیا تھا، یہ 1953ء کی بات ہے اور اس کے بعد ایران میں شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت آ گئی اور ان کے ذریعے ہی ’’اٹامک فار پیس‘‘ کا ذکر امریکہ نے کیا اور اس وقت امریکی صدر آئزن ہاور نے باقاعدہ ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی کی مدد کی۔ ان کو بے دخل کرنے کے لیے آیت اللہ خمینی کھڑے ہوئے، آیت اللہ خمینی کے ساتھ خامنہ ای جڑ گئے۔
خمینی 1979ء میں جو اسلامی انقلاب لاتے ہیں اور جو تبدیلی ہوتی ہے اور وہاں پر علماء کا راج ہوتا ہے، اس عرصہ میں خامنہ ای تب خمینی کے قریب آتے ہیں جب اسلامی حکومت قائم کرنے کے بعد تہران میں امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوتا ہے۔ اور جب حملہ ہوتا ہے تو اس میں قیادت کسی اور کی نہیں، بلکہ اس قبضے کے پیچھے اس وقت خامنہ ای تھے۔ اور خمینی جب پیرس سے لوٹے اور اقتدار سنبھالا تو خمینی کے بے حد قریب خامنہ ای پہنچ گئے۔ اور جب امریکہ سے بات چیت کرنے کی ذمہ داری سونپنے کا معاملہ آیا تو خمینی نے طے کیا کہ خامنہ ای کو یہ ذمہ داری سونپی جائے۔ اور خامنہ ای اس عرصہ میں نائب دفاعی وزیر بھی بنے۔ اس کے بعد وہ وہاں پر صدر بھی بنے۔ اور اس دور میں ہی عراق-ایران جنگ ہوتی ہے جو 8 سال تک چلی، خمینی کی موت کے بعد اور صدر خامنہ ای کے بننے کے بعد۔ یعنی جس بات کا ذکر صدام کے حوالے سے کیا جا رہا تھا، اس کا ذکر بھی خامنہ ای نے اپنے پیغام میں یہ کہہ کر کیا ’’ماضی میں ہم تمام حالات کو جھیل چکے ہیں اور ایران جھکتا نہیں ہے‘‘۔
یہ پیغام دراصل بہت صاف طور پر بتلاتا ہے کہ خامنہ ای اور امریکہ کے درمیان تعلق کسی بھی حال میں پرانے امریکی حکمران یا پرانے ایرانی حکمران کی طرز پر آ ہی نہیں سکتا ہے۔ کیونکہ ان کے اپنے ملک ایران میں جب سپریم لیڈر بننے کا معاملہ سامنے آیا تو سوال پیدا ہوا کہ مذہبی طور پر وہ سپریم لیڈر بن پائیں گے یا نہیں، تو باقاعدہ آئین میں تبدیلی کی گئی، ان کی مقبولیت تھی، خمینی کے قریبی تھے، اس لیے وہ سپریم لیڈر بن گئے۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ سپریم لیڈر بننے کے بعد آج تک انہوں نے کوئی غیر ملکی سفر نہیں کیا، 1989ء کے بعد سے کوئی غیر ملکی سفر نہیں کیا۔ داخلی طور پر ان کے بارے میں بے حد ضدی اور بے حد محتاط کا تاثر پایا جاتا ہے، اور یہ بھی مانا گیا ہے کہ وہاں پر جمہوریت نہیں رہی، صحافیوں کو ستایا گیا، ادیبوں کی تخلیقات پر سنسر شپ لگائی گئی، انسانی حقوق کے کئی واقعات ہوئے، کٹر پن کو بڑھاوا دیا گیا۔
اور اس مہم کے دوران جب ایران کے جنرل نشانے پر تھے اس وقت ایران کے اندر لوگ خوش بھی تھے، لیکن جب رہائشی علاقوں پر حملے شروع ہوئے اور شہریوں کی موت ہونے لگی، اس موت کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے، اور جو منظر وہاں کا ہے، وہ تہران کا منظر ہو یا پھر اس کا جواب دیتے ہوئے تل ابیب کی جو تصویریں ہیں، اگر ان تصویروں کو دیکھیں تو اس کے بعد اگلا سوال یہ ہے کہ جس بات کا ذکر نیتن یاہو یہ کہہ کر کر رہے تھے کہ دراصل اقتدار یا تختہ پلٹ ہو جانا چاہیے، تو اب جبکہ ایران کے اندر شہریوں پر حملے ہوئے ہیں اور ان علاقوں کی تصویریں بہت خوفناک ہیں، اور اپنے ملک کے اندر ہی اپنی ہی زمین کو کھونے کا ڈر، گھروں کو گنوانے کی سوچ، اور امریکی صدر نے جب کہا کہ تہران خالی کر دیں تو وہاں پر ایک کروڑ لوگ رہتے ہیں، ذرا (بمباریوں کا) ایک منظر دیکھیے۔
جنگ کی اس تباہی کے درمیان ہمیں لگتا ہے اس بات پر بھی دھیان دینا ہوگا کہ خمینی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف تھے۔ خامنہ ای نے 2003ء میں باقاعدہ ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا کہ ایٹمی ہتھیار اسلام کے خلاف ہیں اور ان کا بنانا و استعمال حرام ہے۔ لیکن اس پورے عرصہ کے دوران وہ اپنے دفاعی نظام کو کیسے مضبوط کرتے چلے گئے، اور ان کے پورے دفاعی نظام میں روس اور چین نے بہت مدد کی۔ روس نے سب سے زیادہ مدد کی ہے۔ اس دور میں باقاعدہ بیلسٹک میزائل اور ڈرون کا استعمال، سپرسونک میزائل کیسے بنے، اس سمت میں ایران نے بہت کام کیا۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل جس نقطہ نظر سے حملہ کرتا ہے اور جوہری ہتھیاروں کا وہ ذکر کرتا ہے، اس میں ایران کے اندر نطنز کا علاقہ جہاں پر زمین کے اوپر جو نیوکلیئر پلانٹ تھا اس پر اسرائیل کا حملہ ہوتا ہے، لیکن اصفہان اور فردو کے علاقے، خاص طور سے فردو کا یہاں ذکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ فردو نیوکلیئر کمپلیکس پہاڑ کے اندر ہے، اور مانا جاتا ہے کہ ہتھیار گریڈ یورینیم کا بڑا حصہ وہیں پر موجود ہے۔ اسرائیل کے پاس بنکر توڑنے والا بم نہیں ہے، امریکہ کے پاس یہ موجود ہے اور میسو آرڈیننس پینیٹریٹر (MOP) اس کو کہتے ہیں، یہ وزن میں تقریباً 13,000 کلوگرام کا ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ جنگ میں نہیں کودے گا اور ایران کا پورے کا پورا نیوکلیئر کمپلیکس ویسے ہی موجود رہے گا، تو پھر اسرائیل کی تو یہ بڑی ہار ہوگی اور نیتن یاہو کی یہ بڑی ہار ہوگی، کیونکہ اس پوری جنگ کا ہدف ایٹمی پلانٹس شروع سے ہی تھے، جنرلز شروع سے تھے، اس کے بعد تیل پلانٹس پر حملہ ہوا، پھر اقتصادی مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔ یعنی فوجی اڈوں اور میزائل لانچ پیڈز کے بعد اکنامک کنڈیشن اور لوگوں کے اوپر یہ حملے ہونے شروع ہو گئے۔ اسی لیے یہ سوال بڑا ہوتا چلا گیا کہ اب اس جنگ میں اگر امریکہ کی انٹری نہیں ہوتی ہے تو یہ جنگ بہت لمبی چلے گی۔ اور اس کو آنے والے وقت میں کس نقطہ نظر سے دنیا دیکھے گی، شاید یہ بات یوکرین اور روس کی جنگ کے ذریعے بھی سمجھی جا سکتی ہے۔
لیکن اگلا سوال یہ بھی ہے کیا واقعی اسرائیل یا نیتن یاہو اس پورے عمل کے اندر پھنس گئے ہیں؟ کیونکہ خامنہ ای کے قتل کے خلاف امریکہ کھڑا ہے، ایران کے جوہری اثاثے جہاں موجود ہیں وہاں تک پہنچنے کے لیے اسرائیل کے پاس میزائل نہیں ہیں، اور ایران اپنے طور پر یہ بار بار کہہ رہا ہے کہ دراصل وہ یہ سب اقتدار کی تبدیلی اور ایران کو ایک سماجی جنگ کے اندر دھکیلنے کے لیے کر رہے ہیں، جیسا انہوں نے لیبیا میں کیا، جیسا عراق میں کیا، جیسا شام میں کیا۔ کیا یہ نقطہ نظر اس طرح سے ایران کو متحد کر دے گا؟ لیکن اس سب کے دوران جو چار پانچ بڑے سوال ایران کے ساتھ جڑے ہیں کہ
- کیا ایران کی اثر و رسوخ کمزور ہو جائے، اب اسرائیل اس کی کوشش کر رہا ہے؟
- حکومتی نظام اور فوجی ادارے درہم برہم ہو جائیں، اس کی کوشش میں ہے؟
- ایران کے اندر کا جو طاقت کا توازن ہے، جو پاور گیم ہے اس میں وہ حاوی ہو جائے؟
- اور اسلامی جمہوریہ پوری طریقے سے ختم ہو جائے؟ کیا اس سمت میں اب وہ چل پڑا ہے؟
لیکن پھر اگلا سوال اس بات کو لے کر آتا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر یہ دھمکی اب اسرائیل سے زیادہ امریکہ کو دے رہے ہیں، کیونکہ امریکہ کے اندر وہ سیاسی صورتحال ٹرمپ کے ساتھ کھڑی نہیں ہے، ٹرمپ طاقت کے ساتھ اقتدار میں آئے ضرور ہیں، لیکن ٹرمپ کو اگر اب اقتدار میں آنے سے پہلے والے نعرے یاد دلائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ دیکھیے آپ اس نقطہ نظر سے چلے تھے اور اب آپ امریکہ کو پٹڑی سے مت اتاریے، کیونکہ اس دور میں امریکہ کی ساکھ دنیا بھر میں کمزور ہوئی ہے۔ اور امریکی صدر ٹرمپ کے یوم پیدائش کے دن جس طریقے سے فوج نے پریڈ کی اور اس فوج کے پریڈ کے دوران ڈیموکریٹس وہاں سڑکوں پر نکل آئے، یہ پہلا نظارہ امریکہ کے اندر تھا جہاں پر یہ لگنے لگا کہ موجودہ اقتدار کے ساتھ کھڑی سیاسی پارٹی کے لیڈر ہی ٹرمپ کے ساتھ نہیں ہیں، وہ پہلا پیغام تھا۔
تو کیا واقعی جس راستے پر ٹرمپ نکل پڑے ہیں اس میں اسرائیل سے زیادہ بحران ان کو اب یہ سوچ کر دکھائی دینے لگا ہے کہ امریکہ کی پرانی طاقت اور امریکہ کی نئی بارگیننگ صورتحال کے بیچ خود ٹرمپ ہی کھڑے ہیں۔ اور بین الاقوامی طور پر جی سیون کی میٹنگ تک انہیں جس طرز پر چھوڑنی پڑی، اور آج ہی کے دن جب یہ پیغام کھلے طور پر سامنے آیا کہ بھارت کے وزیراعظم نے ٹیلی فون پر کہا ’’ابھی ہمارے پاس وقت نہیں، ابھی نہیں آئیں گے‘‘۔ اور جو سیزفائر، ثالثی، یا پھر پاکستان کے حوالے سے سوال تھے وہ غلط تھے۔ اور آج ہی رات کے 10:30 بجے یعنی جس وقت امریکہ میں دوپہر کے 1:00 بجیں گے اس وقت پاکستان کے آرمی چیف (عاصم) منیر کے ساتھ امریکی صدر لنچ کر رہے ہوں گے وائٹ ہاؤس میں۔
بین الاقوامی صورتحال میں جس راستے پر ٹرمپ چلے، کیا اس راستے پر اب اسرائیل بھی پھنس گیا ہے؟ اور ایران کے سپریم لیڈر جو آج پیغام دے رہے ہیں کہ ’’سرنڈر نہیں کریں گے اور امریکہ سوچ لے سمجھ لے کہ اگر جنگ میں کودا تو نتائج ایسے ہوں گے کہ زندگی بھر بھرپائی نہ ہو پائے گی‘‘۔
- یہ صورتحال جنگ کی سمت میں جا رہی ہے؟
- یا ایک نفسیاتی جنگ کے راستوں کو کھول رہی ہے؟
- یا پھر پہلی بار دنیا کے سامنے بہت صاف نظر آ رہا ہے کہ اس وقت کوئی ورلڈ لیڈر ہے ہی نہیں، دنیا میں سب سے طاقتور ملک کے طور پر بھی کوئی ملک ہے ہی نہیں؟
- اور جو امریکہ کی ساکھ بین الاقوامی طور پر تھی وہ ڈانواڈول ہو چکی ہے۔
بہت بہت شکریہ۔
(۱۸ جون ۲۰۲۵ء)